Tuesday, 24 July 2018

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بحیثیت سیاستدان

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بحیثیت سیاستدان

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کائنات کی سب سے بڑی صاحب کمالات شخصیت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کمال کی ہر صفت عروج کے اعلیٰ ترین درجہ پر عطا ہوئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے بڑے رسول و نبی ہیں، سب سے بڑے قانون دان ہیں ، سب سے بڑے جرنیل ہیں، سب سے اعلیٰ حکمران ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے سیاست دان بھی ہیں۔ آنحضرتؐ کی سیاسی زندگی کے مختلف اور متنوع پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک پر مستقل کام کی ضرورت ہے اور ہمارے ہاں سیرت نبویؐ کے ان پہلوؤں پر سب سے کم کام ہو رہا ہے۔ ہم نے قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرمؐ کی سنت و سیرت کو بھی صرف برکت و رحمت اور اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اکرمؐ کا تذکرہ برکات و فیوض، رحمتوں اور اجر و ثواب کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن اس کا اصل مقصد راہ نمائی حاصل کرنا ہے اور اپنے مسائل و مشکلات کا حل اس میں سے تلاش کرنا ہے جس کی طرف ہماری توجہ بہت ہی کم ہے ۔ نبی کریم کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے ہر فرد کے لیے بے مثل آئیڈیل ہیں ، جب کائنات کے بادشاہ اللہ کریم نے دین حق کی تکمیل کا فیصلہ فرمایا اورجہالت کی اندھیر نگری میں ٹھوکریں کھاتے انسانوں پر رحم فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے سب سے اطہر ,اکمل,اعلیٰ,پیارے اور لاڈلے محبوب حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمادیا ۔ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ایک عالمگیر انقلاب کا سنگ بنیاد تھا ۔
امام الانبیاء تاجدار حق سچ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارک کا ایک ایک لمحہ بلا شبہ قرآن عظیم الشان کی مقدس تعلیمات کا پورا پورا ترجمان ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی دینی اہمیت۔ علمی اہمیت۔ تاریخی اہمیت۔ معاشی اہمیت ۔
عصری و بین الاقوامی اہمیت۔ آئینی ودستوری اہمیت۔ ریاستی اہمیت۔ انتظامی اہمیت۔ سائنسی اہمیت۔ تہذیبی و ثقافتی اہمیت۔ نظریاتی و انقلابی اہمیت قیامت تک کے لیے لاذوال ہے ۔
سیدالمرسلین حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت داعی اعظم۔ بحیثیت لیڈر۔ بحیثیت سیاستدان۔ بحیثیت مدبر و منتظم۔ بحیثیت سپہ سالار۔ بحیثیت ماہر نفسیات۔ بحیثیت رحمت اللعالمین۔ بحیثیت مشفق انسانیت۔ بحیثیت داعی عدل و انصاف۔ بحیثیت ذی وقار شہری۔ بحیثیت صادق امین تاجر۔ بحیثیت کامیاب ترین داعی انقلاب۔ بحیثیت اعلیٰ ترین معلم انسانیت۔ بحیثیت بے مثال مربی و مذکی۔ بحیثیت عدیم النظیر منصف و قاضی۔ بحیثیت عظیم الشان معاشرتی اسوہ کی مالک ہستی۔ بحیثیت صاحب خلق عظیم۔ بحیثیت قابل تقلید سربراہ خاندان۔ بحیثیت عظیم و خلیق شوہر۔ بحیثیت مصلح اعظم۔ بحیثیت نبی کل کائنات اللہ رب العزت کی خلافت کے بے مثل علمبردار اور اللہ رب العزت کی قدرت کا بے مثل شاہکار ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاندانی وجاہت ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلسی و عوامی زندگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عفودرگزر۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فن حرب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچوں سے پیار۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداذ تربیت۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنگی قیدیوں سے حسن سلوک۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعتدال پسندی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل انسانیت۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیوانات پر شفقت ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شگفتہ مزاجی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منافقین کے ساتھ رویہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں تاریخ انسانیت کا سب سے خوبصورت ۔ سب سے انمول ۔ سب سے پاکیزہ ۔ سب سے اعلیٰ۔ سب سے جامع ۔ سب سے سچا ۔ سب سے منفرد اور مستند ریکارڈ ہے ۔ الغرض :

جہاں کہیں بھی اجالا دکھائی دیتا ہے
تمہارا نقش کف پا دکھائی دیتا ہے
یہ سارا عالم امکان تمہارے سامنے ہے
تمہیں کہو کوئی تم سا دکھائی دیتا ہے

سیاسیات کے حوالہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کا ایک حصہ وہ ہے جن میں اسلام کے سیاسی نظام کا تعارف کرایا گیا ہے، اسلامی ریاست کی بنیادوں کا تعین کیا گیا ہے اور ایک مسلم حکومت کے فرائض اور ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ آنحضرتؐ کی سینکڑوں احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جبکہ دوسرا حصہ یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے ایک سیاستدان اور حاکم وقت کے طور پر سینکڑوں فیصلے کیے ہیں جن میں سے ہر فیصلہ ہمارے لیے سرمۂ بصیرت اور راہ نمائی کا سرچشمہ ہے، بشرطیکہ ہم ان فیصلوں اور واقعات کو سیاسی حکمت و تدبر کے تناظر میں دیکھیں اور ان میں اپنے دور کی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنے کا ذوق ہم میں بیدار ہو جائے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کے سیاسی نظام کا تعارف بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس طرح کرایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاست و حکومت کے فرائض حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سر انجام دیتے تھے، ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا یعنی سیاست و حکومت کی بنیاد وحی الٰہی پر ہوتی تھی، لیکن میرے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور کوئی نیا نبی اب نہیں آئے گا۔ اس لیے میرے بعد سیاست و حکومت کا نظام خلفاء کے سپرد ہوگا۔ چنانچہ رسول اکرمؐ کے بعد خلافت کا یہ نظام قائم ہوا اور مسلمانوں کی ریاست و حکومت کی بنیاد بنا۔ اسلامی خلافت کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ملک کا نظام چلایا جائے اور امت مسلمہ کے اجتماعی امور سر انجام دیے جائیں، جیسا کہ خلفاء راشدینؓ اور ان کے بعد خلفاء کرام کرتے رہے ہیں ۔ چشتی ۔

خلافت کے بارے میں ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ خلافت کیسے قائم ہوگی اور خلیفہ کا تقرر کون کرے گا ؟ اس کے لیے میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اسلامی ریاست و حکومت کے سربراہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے ۔ انہوں نے یہ منصب نہ تو طاقت کے زور پر حاصل کیا تھا اور نہ ہی بادشاہی نظام کی طرح خاندانی استحقاق کی بنیاد پر انہیں حکومت ملی تھی۔ بلکہ امت کی اجتماعی صوابدید اور عمومی مشاورت ان کے منصب خلافت کی اساس تھی ۔ اس لیے خلافت کا قیام امت کی اجتماعی صوابدید کی بنیاد پر ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت مبارکہ میں ہمیں نمائندگی کا اصول بھی ملتا ہے کہ ایک موقع پر بنو ہوازن کے قیدی واپس کرنے کے لیے جب ہزاروں افراد سے براہ راست رائے لینا مشکل نظر آیا تو آپؐ نے عرفاء کو درمیان میں ڈالا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کی رائے معلوم کر کے بتائیں تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے۔ یعنی جناب رسول اکرمؐ نے عوام کی اجتماعی رائے ان کے نمائندوں کے ذریعے معلوم کی۔ عرفاء اور نقباء کی یہ اصطلاح قدیم سے چلی آرہی ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اس لیے عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے نمائندگی کا یہ طریقہ بھی اسلامی ریاست کی ایک اہم بنیاد بن جاتا ہے ۔

لیکن میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ اسلامی ریاست کے اس پہلو کی طرف دلانا چاہوں گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک فلاحی اور رفاہی ریاست کا نظام دیا جسے آج کی دنیا میں ویلفیئر سوسائٹی کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ معاشرہ میں جو لوگ بوجھ تلے دبے ہیں یا بے سہارا ہیں وہ میری ذمہ داری ہیں ، یعنی ان کی کفالت بیت المال کرے گا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری دور مبارک میں اور پھر خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں بیت المال کا یہ نظام کفالت اس قدر مستحکم ہوگیا تھا کہ پورے ملک کے بے روزگاروں ، معذوروں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت بیت المال کے ذمہ سمجھی جاتی تھی اور یہ ضروریات بطریق احسن پوری کی جاتی تھیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ریاست کی بنیاد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کے مطابق تین اصولوں پر ہے : ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی اطاعت ریاست و حکومت کی سب سے بڑی اساس ہے ۔ دوسرا یہ کہ حکومت کا قیام امت مسلمہ کی صوابدید پر عوامی مشاورت کے ذریعہ ہوگا ۔ اور تیسرا یہ کہ اسلامی حکومت نظم مملکت کو چلانے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی اجتماعی کفالت اور تمام شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی ذمہ دار ہے ۔ اگر ہم ان اصولوں کو سامنے رکھ کر پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی طرف پیش رفت کریں تو قیام پاکستان کے اس مقصد کی تکمیل ہو سکتی ہے جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں کے بعد یہ وطن عزیز وجود میں آیا تھا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے ، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے ۔ اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی، اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کردیا ۔ اس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے ۔ ،چشتی،

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو اُن کو اُن کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَو اَنفَقتَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مَّآ اَلَّفتَ بَینَ قُلُوبِھِم (الانفال 8:62) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسبابِ نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کرکے دور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ابھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔
اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد
اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی، لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہر فتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔
آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، اعلائے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین امت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: (ترجمہ) ’’تم دنیا کی بہترین امت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘۔(آلِ عمران 3:110)
ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ جن اصولوں کے داعی بن کر اٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا، لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کی دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کرسکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کردیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے، لیکن حضورؐ نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضورؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔
صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے، لیکن اصولوں کی ہر حال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی، لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمتِ عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاں بات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔
اصولی سیاست
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔
آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اِس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اُس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اُس کی زندگی میں بھی اُس کے اس طرح کے کارناموں پر اُس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بنا پر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحبِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں، جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔
آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوؤں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دنیا کے مدبرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبر کہیے یا حکمتِ نبوت۔
خوں ریزی سے پاک انقلاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کردیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید اُن نفوس کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔
پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اِس تہذیب و تمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجائے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔
دنیوی کرّوفر کے بجائے فقر و درویشی
اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ انہیں پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَرّی و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔
اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحبِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحبِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اُس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اُس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے فرماتے۔
یہ خیال نہ فرمایئے کہ اُس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہوا ہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجائے خلافتِ الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا، لیکن اس سادگی اور اس فقر و درویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔
اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کرکے تیار کردی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروئے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ اس تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرۂ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں، لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرۂ عرب سے اٹھ کر اُن کو اُن کی جڑوں سے اس طرح اکھاڑ پھینکا گویا زمین میں اُن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور اُن کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔
دنیا کے تمام مدبرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو جو اس کے فکر و فلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
نبیِ خاتم اور پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپ نبیِ خاتم اور پیغمبرِعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔ سیاست اور تدبر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے ۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں ۔
نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے ۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے ۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیا علیہم السلام ہیں ۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلین علیہم السلام ہیں ۔ صرف اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبر اور کون ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...