Saturday, 7 July 2018

لفظ نبی کا معنیٰ

لفظ نبی کا معنیٰ

لفظ ’’نبی‘‘ منقول عرفی ہے یعنی اسے لغت سے عرف شرع میں نقل کیا گیا ہے۔ پہلے ہم لفظ نبی کے لغوی معنی بیان کرتے ہیں جس کے ضمن میں اس کے ماخذ (نبوّۃ) کے معنی پر بھی روشنی پڑ جائے گی۔ کیوں کہ مشتق میں اس کے ماخذ کے معنی کا پایا جانا ضروری ہے۔

لفظ ’’نبی‘‘ کے معنی : نبی کے معنی (۱) مُخْبِر یعنی خبر دینے والا (۲) مُخْبَر یعنی خبر دیا ہوا (۳) طریق واضح (۴) ایک جگہ سے دوسری جگہ نکلنے والا (۵) ایک جگہ سے دوسری جگہ نکالا ہوا (۶) پوشیدہ اور ہلکی آواز سننے والا (۷)ظاہر (۸) رفعت اور بلندی والا۔
لفظ نبی کے منقولہ بالا آٹھ معنی لغوی ہیں اور عرف شرع میں نبی اس مقدس انسان کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ایسا مصطفیٰ، مخلص اور برگزیدہ ہو جسے اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں نے تجھے فلاں قوم یا تمام لوگوں کی طرف اپنا مبلغ، پیغامبر اور نبی بنایا ہے، یا میری طرف سے میرے بندوں کو میرے احکام پہنچا دے یا اس قسم کے اور الفاظ جو ان معنی کا فائدہ دیتے ہیں۔ جیسے بعثتک ونبئھم اللہ تعالیٰ اسے فرمائے اور ’’نبوۃ‘‘ عرف شرع میں ’’اخبار عن اللّٰہ‘‘ کو کہتے ہیں۔ بعض علماء نے ’’اطلاع علی الغیب‘‘ سے بھی نبوت کی تفسیر کی ہے۔ جیسا کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں اور علامہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں ارقام فرمایا ہے۔

لفظ نبی کے یہ آٹھ لغوی معنی جو بیان کئے گئے ہیں وہ سب عرفی نبی میں پائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے خبر دار کیا جاتا ہے اس لئے مُخْبَر ہے اور ارشاداتِ خداوندی کی خبر اپنی امت کو دیتا ہے لہٰذا مُخْبِر ہے اور اس کی ذات نجات اخروی کا روشن راستہ اور معرفت خداوندی کا وسیلہ ہے اس لئے وہ طریق واضح ہے۔ اللہ کا نبی دشمنوں کی انتہائی ایذا رسانی کے بعد بحکم ایزدی ایک جگہ سے نکل کر دوسری جگہ جاتا ہے، یا کفار کی طرف سے شدید عداوت کی بناء پر بظاہر اس کا اخراج عمل میں آتا ہے اس لئے وہ خارج اور مُخْرَج بھی ہے۔ نبی وحی الٰہی کی صوت خفی اور ہلکی آواز سنتا ہے لہٰذا اس میں صوت خفی سننے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ نبی علامات نبوت معجزات و آیات کا حامل ہونے کی وجہ سے کمال ظہور کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے، اس لئے وہ ظاہر بھی ہے۔ جسمانی اور روحانی اعتبار سے اللہ کے نبی کا مقام سب سے بلند ہوتا ہے اس لئے اس میں رفعت اور بلندی کے معنی بھی موجود ہے۔ نبوت اور نبی کے معنی کی یہ تفصیلات ہم نے حسب ذیل کتب سے اخذ کی ہیں۔ مسامرہ، نبراس، شرح مواقف، مفردات امام راغب اصفہانی، اقرب الموارد، شفاء قاضی عیاض اور مواہب لدنیہ۔ عبارات مع تراجم ہدیہ ناظرین ہیں
۱: مسامرہ میں ہے۔
واما اصلہ لغۃ فلفظہ بالہمز وبہٖ قرأ نافع من النباء وہو الخبر فعیل بمعنی اسم الفاعل ای منبِّئٌ عن اللّٰہ او بمعنی اسم المفعول ای مُنَبَّأً لان الملک ینبئہم عن اللّٰہ بالوحی وبلا ہمزوبہ قرأ الجمہور وہو اما مخفف المہموز بقلب الہمزۃ واواً ثم ادغم الیأفیہا واما من الـنبـوۃ او النبـــاوۃ بفتح النون فیہا ای الارتفاع فہو ایضأفعیل بمعنی اسم الفاعل او بمعنی اسم المفعول لان النبی ا مرتفع الرتبۃ علی غیرہٖ او مرفوعہا (انتہیٰ مسامرہ جلد دوم طبع مصر ص ۸۳)
ازروئے لغت لفظ نبی کی اصل ہمزہ سے ہے۔ یہی نافع کی قرأت ہے کہ انہوں نے اسے نباء سے مشتق مانا ہے جس کے معنی ’’خبر‘‘ ہیں۔ (اس تقدیر پر) لفظ نبی فعیل کے وزن پر اسم فاعل ہے، جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے والا یا اسم مفعول ہے جس کے معنی ہیں منجانب اللہ خبر دیا ہوا۔ اس لئے کہ فرشتہ نبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ساتھ خبر دیتا ہے اور بلا ہمزہ کے بھی اس کی اصل ہو سکتی ہے۔ جمہور کی قرأت یہی ہے اور اس قول پر لفظ نبی کو مہموز کا مخفف مانا جائے گا بایں طور کہ اس کا ہمزہ واؤ سے بدلا گیا ہے پھر اس میں یأ کو مدغم کر دیا گیا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ ’’نبوۃ‘‘ یا ’’نبـأۃ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ان دونوں میں نون مفتوح ہے۔ ان دونوں لفظوں کے معنی ہیں ’’ارتفاع‘‘ اس تقدیر پر بھی لفظ نبی فعیل کے وزن پر اسم فاعل یا اسم مفعول ہے۔ کیوں کہ نبی اپنے غیر پر بلند مرتبہ رکھنے والا ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ رتبہ کے اعتبار سے بلند کیا ہوا ہوتا ہے۔
۲: نبراس میں ہے۔
فالنبی مشتق من النبأۃ بفتح الباء وہو بمعنی الاخبار او الظہور او من النبأۃ بسکون الباء وہو الصوت الخفی وکل من المعانی الثلا ثۃ صحیح فی النبی لانہ مخبر وظاہر الحقیقۃ وسامع الوحی (نبراسی ص ۸)
پس لفظ نبی ’’نباء بفتح الباء‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’اخبار یا ظہور‘‘ یا ’’نبأۃ بسکون الباء‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’پوشیدہ آواز‘‘ اور یہ تینوں معنی نبی میں پائے جاتے ہیں کیوں کہ وہ خبر دینے والا بھی ہے اور علاماتِ نبوت کے ساتھ بحیثیت نبی ہونے کے ظاہر الحقیقت ہے اور وحی الٰہی وصوت خفی کو سننے والا ہے۔
۳: شرح مواقف میں ہے
المقصد الاول فی معنی النبی، وہو لفظ منقول فی العرف عن مسماہ اللغوی الی معنی عرفی اما المعنی اللغوی (فقیل ہو المنبیٔ) واشتقاقہ (من النباء) فہو حینئذٍ مہموز لکنّہ یخفف ویدغم وہذا المعنی حاصل لمن اشتہر بہذا الاسم (لانبائہ عن اللہ تعالیٰ وقیل) النبی مشتق (من النبوۃ وہو الارتفاع) یقال تنبأ فلان اذا ارتفع وعلا والرسول عن اللّٰہ تعالیٰ موصوف بذالک (لعلو شانہ) وسطوع برہانہ (وقیل من النبی وہو الطریق لانہ وسیلۃ الی اللّٰہ تعالیٰ (شرح مواقف جلد ۸ صفحہ ۲۱۷ـ۔۲۱۸ طبع مصر،چشتی)
پہلا مقصدنبی کے معنی میں لفظ نبی اپنے لغوی مسمیٰ سے عرف شرع میں معنی عرفی کی طرف منقول ہے اس کے لغوی معنی کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ نبی کے معنی ہیں خبر دینے والا اور اس کا اشتقاق النبأ سے ہے۔ ایسی صورت میں وہ مہموز ہے لیکن اسے مخفف یا مدغم کر دیا جاتا ہے اور یہ معنی یعنی ’’خبر دینے والا‘‘ ہر اس مقدس شخص میں پائے جاتے ہیں جو نبی کے نام سے مشہور ہے کیوں کہ وہ منجانب اللہ خبر دیتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ نبوۃ سے مشتق ہے جن کے معنی ہیں ’’ارتفاع‘‘ عرب کے محاورہ میں تنبأفلان اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص رفیع المرتبت اور بلند رتبہ ہو جائے اور اللہ کا نبی اپنی شان کی بلندی اور برہانِ نبوت کی روشنی کی وجہ سے اس کمال کے ساتھ موصوف ہوتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ اس لفظ نبی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’’الطریق‘‘ یعنی راستہ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہوتا ہے۔
۴: مفردات میں ہے
والنبأ الصوت الخفی مفردات ص ۵۰۰
نباء (بسکون الباء) صوت خفی کو کہتے ہیں۔
اسی مفردات امام راغب میں ہے
النبی بغیر ہمز…… وَقَالَ بَعْضُ الْعُلمَائِ ھُوَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اَیِ الرِّفْعَۃِ وَسُمِّیَ نَبِیًّا لِرِفْعَۃِ مَحَلِّہٖ عَنْ سَائِرِ النَّاسِ اَلْمَدْلُوْلِ عَلَیْہِ ’’وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘ …… والنبوۃ والنباوۃ الارتفاع …… (مفردات ص ۵۰۰ طبع مصر)
بعض علماء نے کہا ہے کہ ’’نبی‘‘ ’’نبوۃ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں رفعت و بلندی اور نبی کا نام نبی اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا مقام تمام لوگوں سے اونچا ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا قول ’’وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘ دلالت کرتا ہے اور (لغت میں) ’’نبوۃ‘‘ اور ’’نباوۃ‘‘ کے معنی ارتفاع ہیں۔
۵: اقرب الموارد میں ہے
(النبوۃ) اسم من النبیٔ وہی الاخبار عن اللّٰہ تعالیٰ ویقال النبوۃ بالقلب والادغام(اقرب الموارد جلد ۲ ص ۱۲۵۹ طبع مصر)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
’’النبوۃ‘‘ اسم ہے ’’النبیٔ‘‘ سے اور وہ نبوۃ اخبـار عن اللّٰہ تعالیٰ کے معنی میں ہے اور اس لفظ النبوۃ کو قلب و ادغام کے ساتھ النبوۃ بھی کہا جاتا ہے۔
اسی اقرب الموارد میں ہے
النبی ایضاً الخارج من مکان الیٰ مکان فعیل بمعنی فاعل وقیل المخرج فیکون فعیلا بمعنی مفعول (اقرب الموارد جلد ۲ ص ۱۰۹ طبع مصر،چشتی)
ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکلنے والے کو بھی ’’نبی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ فعیل کے وزن پر اسم فاعل ہے اور ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکالے ہوئے‘‘ کو بھی ’’نبی‘‘ کہا گیا ہے۔ اس تقدیر پر فعیل بمعنی مفعول ہو گا۔

لفظ ’’نبی‘‘ کے عرفی معنی

۶: شرح مواقف میں ہے
(واما) مسماہ (فی العرف فہو عند اہل الحق) من الاشاعرۃ و غیرہم الملیین (من قال لہ اللّٰہ) تعالیٰ ممن اصطفاہ من عبادہ ارسلنٰک الی قوم کذا اوٰلی الناس جمیع او بلغہم عنی ونحوہ من الالفاظ المفیدۃ لہذا المعنی کبعثتک ونبئہم (شرح مواقف جلد ۸ ص ۲۱۸ طبع مصر)
حق پرست علماء اشاعرہ وغیرہم اہل ملت کے نزدیک عرف شرع میں لفظ نبی کا مسمیٰ وہ مقدس شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایسا برگزیدہ ہو جسے اللہ تعالیٰ فرمائے کہ میں نے تجھے اپنا پیغامبر بنا کر فلاں قوم یا تمام لوگوں کی طرف بھیجا یا میری طرف سے تو انہیں میرے احکام پہنچا دے اور اس طرح کے الفاظ جن کا مفاد یہی معنی ہوں جیسے بعثتک (میں نے تجھے مبعوث کیا) نبئہم (میری طرف سے میرے بندوں کو خبر پہنچا دے)
۷: شفاء قاضی عیاض میں نبوۃ شرعیہ کی تفسیر ان الفاظ میں فرمائی
’’النبوۃ التی ہی الاطلاع علی الغیب‘‘ شفاء شریف ص ۷۳
یعنی وہ نبوت جو اطلاع علی الغیب ہے۔
۸: بعینہٖ یہی عبارت مواہب لدنیہ میں علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارقام فرمائی ہے۔ دیکھئے مواہب لدنیہ جلد ۱ ص ۲۸۱
عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے۔ عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے۔
والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من اﷲ الاخبار عن اﷲ وما یتعلق به تعالی
المنجد، 784
’’نبوت کا مطلب ہے اﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا۔ نبی کا مطلب اﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا۔ ‘‘

النبی المخبر عن اﷲ لانه انباء عن اﷲ عزوجل فعیل بمعنی فاعل.
لسان العرب لابن منظور، افریقی، 14 : 9
’’نبی کا معنی اﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے اﷲ کی خبر دی۔ فعیل فاعل کے معنی میں۔ ‘‘

النباء (محرکه الخبر) وهما مترادفان وفرق بینهما بعض وقال الراغب النباء خبر ذو فائده عظیمة یحصل به علم او غلبة الظن ولا یقال للخبر فی الاصل نباحتی یتضمن هذه الاشیاء الثلاثة ویکون صادقا و حقه ان یعتری عن الکذب کالمتواتر و خبر اﷲ وخبر الرسول صلی الله علیه وآله وسلم و نتضمنه معنی الخبر یقال انباته بکذا او لتضمنه معنی العلم یقال انباته کذا والنبی المخبر عن اﷲ فان اﷲ تعالی اخبره عن توحیده واطلعه علی غیبه واعلمه انه نبیه.
تاج العروس شرح القاموس للزبیدی، 1 : 121
’’نبا (حرکت کے ساتھ) اور خبر مترادف ہیں۔ بعض نے ان میں فرق کیا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں نبا بڑے فائدے والی خبر ہے۔ جس سے علم قطعی یا ظن غالب ہے جس سے علم قطعی یا ظن غالب حاصل ہو جب تک ا ن تین شرائط کو متضمن نہ ہو خبر کو نبا نہیں کہا جاتا اور یہ خبر سچی ہوتی ہے۔ اس کا حق ہے کہ جھوٹ سے پاک ہو جیسے متواتر اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر چونکہ نبا خبرچونکہ نبا خبر کے معنی کو مضمن ہوتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے میں نے اسے خبر بتائی اور چونکہ معنی علم کو متضمن ہوتی ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ میں نے اسے یوں خبر بتائی۔ نبی اﷲ کی طرف سے خبر دینے والا، بے شک اﷲ نے آپ کو اپنی توحید کی خبر دی اور آپ کو اپنے غیب پر اطلاع دی اور آپ کو آپ کا نبی ہونا بتایا۔ ’‘

کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ نماز، زکوٰۃ، حج، حج کے مہنے دن جگہ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو اﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم اﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت، سب اﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...