Tuesday, 10 July 2018

اختیاراتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کی روشنی میں

اختیاراتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ آپ جس چیز کو چاہیں حلال کر دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ : ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ۔ (یہ نبی) ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا ۔ (سورہ اعراف،آیت: ۱۵۷)
اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شان کو نہ ماننے والوں سے مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ۔قاتلوا الَّذِیْنَ لایؤمنونَ باللّٰہِ ولا بالیوم الاٰخر ولایُحرِّمونَ ماحرَّ م اللّٰہُ ورسولہ ۔ لڑوان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور حرام نہیں مانتے ان چیزوں کو جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ۔ (سورہ توبہ،آیت:۲۹)
مزید مسلمانوں کو حکم فر مایا کہ : وما اٰتکٰم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا ۔ واتقوااللہ ان اللہ شدید العقاب ۔ اور رسول جو تمہیں دیں لے لو اور جس چیز سے منع فر مائیںرک جائو،اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے ۔ (سورہ حشر،آیت:۷)
ان تمام آیات کریمہ سے صاف اور واضح طر یقے سے معلوم ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو کسی چیزکو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیا ر تھا ۔
انبیاء علیہم السلام کی بالذات اطاعت فرض ہوتی ہے کیونکہ نبی کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ۔ (سورہ النساء، 04 : 59)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کےلیے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا.(النسا، 04 : 80)
ترجمہ : جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ.(آل عِمْرَان ، 3 : 32)
ترجمہ : آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا.(النِّسَآء ، 4 : 61)
ترجمہ : اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ.(النِّسَآء، 4 : 64)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے،
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا.(النِّسَآء، 4 : 69)
ترجمہ : اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں
وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.
(المائده، 05 : 92)
ترجمہ : اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے رُوگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف (احکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ.(النور، 24 : 54)
ترجمہ : فرما دیجئے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ.(محمد، 47 : 33)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اﷲ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا.(الفتح، 48 : 10)
ترجمہ : (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ ﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) ﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے ﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔
جب تک آپ نبی کی ذات کی اطاعت نہیں کریں گے اس وقت تک آپ نبی کی تعلیمات پر عمل نہیں کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر بخاری شریف میں ہے :صلوا کما رايتمونی اصلی. ترجمہ : جیسے تم مجھے (نماز) پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔ (بخاری، الصحيح، 01 : 226، رقم : 605 دار ابن کثير اليمامه، بيروت،چشتی)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو حیثیتیں واضح ہوتی ہیں ایک بطور شارع اور دوسری اطاعت بالذات یعنی نماز کا طریقہ وہی بن گیا جس طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی۔ قرآن پاک میں ہے:
يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.(الاعراف، 7 : 157)
ترجمہ : جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.(الحشر، 59 : 07)
ترجمہ : اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو ۔
معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل اختیار تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی تشریح بھی فرمائی اور کچھ ایسے احکام ہیں جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ہی ملتے ہیں مثلا قرآن مجید میں تو دم مسفوح ، مردار اور خنزیر کو حرام قرار دیا گیا لیکن کتا، گدھا، بندر وغیرہ جو جانور ہیں ان کو بھی ہم حرام حرام کہتے ہیں اور ان کو کھاتے بھی نہیں قرآن میں ان سے منع بھی نہیں کیا گیا یہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں حرام ہیں یہی اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ ہمارے لیے حرام و حلال صرف وہ نہیں جو قرآن اللہ تعالی نے بیان فرمایا بلکہ وہ بھی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔
حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : قریب ہے کہ ایک شخص اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے سامنے میری حدیثوں میں سے کوئی حدیث بتائی جائے گی تو وہ یہ کہے گا :ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالی کی کتاب کافی ہے ۔ ہم جو اس میں حلال پائیں گے اسے حلال مانیں گے اور جو حرام پائیں گے اسے حرام مانیں گے ، (حضو ر صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا) سنو ! بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم)نے حرام قرار دی ہیں وہ ایسے ہی حرام ہیں جیسے وہ چیزیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔[ترمذی،کتاب العلم،باب مانھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حدیث : ۲۶۶۴ ۔ ابن ماجہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتغلیظ علی من عارضہ، حدیث:۱۲،چشتی)
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے لو گوں کو خطبہ دیا تو ارشاد فر مایا:بے شک اللہ عز وجل نے تم پر حج کرنا فرض قرار دیا ہے۔حضرت اقرع بن حابس تیمی رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم!کیا ہر سال؟تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خاموش رہے،تین بار سوال ہونے کے بعد،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو واجب ہو جا تا ۔(ترمذی ،کتاب الحج عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،باب ماجاء کم فر ض الحج، حدیث :۸۱۴، ابن ماجہ،حدیث:۲۸۸۴)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا : اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا ۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ ،باب السواک ،حدیث: ۲۵۲،ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ وسننھا ، باب السواک ، حدیث : ۲۸۹)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ۔تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم ۔ (ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق،حدیث :۶۲۰،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فر مادی۔ جبکہ یہ کسی کے لئے جائز نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا۔(بخاری،کتاب الاضاحی،باب الذبح بعد الصلاۃ، حدیث :۵۵۶۰۔مسلم،حدیث:۱۹۶۱)
حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اکیلی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دی۔(سنن ابوداود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم بہ ،حدیث:۳۶۰۷)
حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے لئے جوانی میں بھی حرمت رضاعت ثابت فر مادی ۔ (مسلم،کتاب الر ضاع ،باب رضاعۃ الکبیر، حدیث : ۱۴۵۳،نسائی،حدیث:۳۳۱۹) اس کے علاوہ اور بھی مثالیں احادیث میں مذکور ہیں۔ان سب احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے اختیارات کا بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مدینہ طیبہ کو حرم قرار دیا۔یعنی مدینہ طیبہ کے اندر خاص حد میں شکار کرنے ،درخت کاٹنے اور گھاس وغیرہ کو اکھاڑنے کو حرام قرار دیا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ :ائے اللہ! بیشک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں سنگستان یعنی کوہِ عیر سے جبل ثور کے درمیان جو کچھ ہے اسے حرم بناتا ہوں(یعنی اس کے خار دار درختوں اور گھاسوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیتا ہوں )۔(مسلم،کتاب الحج ،باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیھا بالبر کۃ وبیان تحر یمھا وتحریم صیدھا وشجر ھا وبیان حدود حر مھا،حدیث :۱۳۶۱،۱۳۶۲،بخاری ، حدیث:۱۸۶۷،۱۸۶۹،سنن ابوداود،حدیث :۲۰۳۴،۲۰۳۵ ،۲۰۳۶،چشتی)
عن ابن عباس قال انّ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قام فقال:’’ انَّ اللہ َ کتب علیکم الحجَّ فقال: الاقرعُ بنُ حابس التمیمی: اَفی کل عام یارسول اللہ؟فسکت فقال: لو قلتُ نعم لوجبت۔(سنن نسائی، رقم الحدیث:۲۶۲۰،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۲۸۸۴،ترمذی،رقم الحدیث :۸۱۴،ابوداود،رقم:۱۷۲۱)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمانے کہا کہ : رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :بے شک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے ۔ حضرت اقرع ابن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ !کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خاموش رہے ،پھرفرمایا:اگر میں ہاں کر دیتاتو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّماحکام شرعیہ پر اختیار کلی رکھتے تھے،اگر چاہتے تو ہر سال حج کرنا فرض فرمادیتے ۔
عن المقدام بن معدیکرب الکندی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:یوشک الرجل متکئا علیٰ اریکتہ یحدث بحدیث من حدیثی فیقول:بیننا وبینکم کتاب اللہ عزوجل فما وجدنا فیہ من حلال استحللناوما وجدنا فیہ من حرام حرّمناہ،الآ وانّ ما حرّم رسول اللہ مثل ماحرّم اللہ۔[ابن ماجہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والتغلیظ علی من عارض،حدیث:۱۲،چشتی]
ترجمہ : حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا کہ:قریب ہے کہ ایک شخص اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے سامنے میری حدیثوں میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی۔تو وہ کہے گا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ عزوجل کی کتاب ہے تو جس چیز کو ہم اُس میں حلال پائیں گے اُسے حلال مانیں گے اور جسے اُس میں حرام پائیں گے اُسے حرام مانیں گے۔[حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ] سن لو،بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا وہ بھی ایسے ہی حرام ہیں جیسے وہ چیزیں حرام ہیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔
عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعال عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لولاان اشقَّ علیٰ امتی لامرتھم بالسواک عند کلِّ صلوٰۃ ،وفی روایۃ ابی امامۃ رضی اللہ عنہ،لولا انی اخاف ان اشق علی امتی لفر ضتہ لھم۔(الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۲۵۲،ابن ماجہ،باب السواک،حدیث:۲۸۹)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا : اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا ۔
عن علی قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : قد عفوتُ عن صدقۃ الخیل والرقیق فھاتوا صدقۃ الرقۃ من کل اربعین درھما درھما ۔(ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق، حدیث:۶۲۰)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ،تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔
عن البراء قال : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات یوم فقال: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا ،فلایذبح حتی ینصرف ،فقام ابو بردۃ بن نیار فقال: یا رسول اللہ !فعلتُ،فقال: ھو شیء عجَّلتہ ،قال: عندی جذعۃ ھی خیر من مسنتین ،اذبحھا؟ قال:نعم،ثم لا تجزی عن احد بعدک ۔(بخاری،کتاب الاضاحی،باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد،حدیث:۵۵۶۳،مسلم،حدیث:۱۹۶۱)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ عید الاضحی کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فر مایا:جو ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اوہمارے ر قبلے کی طرف رخ کرتا ہے وہ نماز عید سے پہلے قر بانی نہ کرے ،حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یارسول اللہ !میں تو قربانی کر چکا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:تم نے جلد بازی کیا،انہوں نے عرض کیا :میرے پاس بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے مگر وہ دو بکریوں سے بھی اچھا ہے،کیا میں اس کو ذبح کردوں ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا:ہاں،اس کی جگہ کردو اور ہر گز(اتنی عمر کی بکری) تیرے بعدکسی کی قر بانی میں کافی نہ ہوگی۔
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماقال قال سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انَّ ابراھیم علیہ الصلوٰۃوالسلام حرم مکۃ وانی حرمتُ المدینۃ مابین لابتیھا لا یقطع عضاھھا و لا یصاد صیدھا۔(الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۱۳۶۲،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۸۶۷،سنن ابی داود، رقم الحدیث:۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶، ۲۰۳۷،۲۰۳۸،۲۰۳۹،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کو حرم بنایااور میں نے مدینہ طیبہ کو حرم کیا کہ اس کے خاردار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے وحشی جانور شکار نہ کئے جائیں ۔
عمارۃ بن خزیمہ ان عمہ حدثہ وھو من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابتاع فرسا من اعرابی فا ستتبعہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیقضیہ ثمن فر سہ فا سرع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المشیی و أبطاء الاعرابی فطفق رجال یعتر ضون الاعرابی فیساومونہ و لایشعرون ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابتاعہ فنادی الاعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال :ان کنت مبتاعا ھذاالفرس و الا بعتۃ ،فقام النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حین سمع نداء الاعرابی فقال:أو لیس قد ابتعتہ منک؟فقال الاعرابی:لا واللہ ما بعتکہ ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:بلیٰ قد ابتعتہ منک،فطفق الاعرابی یقول : ھلم شھیدا،فقال خزیمۃ بن ثابت :انا اشھد انک قد بایعتہ ،فاقبل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی خزیمۃ فقال: بم تشھد؟فقال:بتصد یقک یا رسول اللہ ،فجعل رسول اللہ شھادۃ خزیمۃ بشھادۃ رجلین۔(سنن ابی داود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم حدیث نمبر ۳۶۰۷،چشتی)
ترجمہ : حضرت عمارہ بن خزیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :میرے چچا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ،پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو اپنے ساتھ لے چلے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا فر مائیں،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تیزی سے چل رہے تھے مگر اعرابی آہستہ آ ہستہ قدم رکھتا تھا ،راستے میں کچھ لوگوں نے اس اعرابی سے اس گھوڑے کا مول تول کیا ،کیونکہ ان لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو خرید چکے ہیں ،اعرابی نے وہیں سے آواز لگائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھوڑا لینا چاہیں تو خریدئیے ورنہ میں گھوڑا بیچ دوں گا ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فر مایا:کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟ اعرابی بولا:نہیں ،خدا کی قسم میں نے آ پ کے ہاتھوں نہیں بیچا ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:کیوں نہیں ،بلاشبہ تو نے مجھ سے سودا کر لیا ہے،اعرابی کہنے لگا کوئی گواہ پیش کیجئے۔اس وقت حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس سے گھوڑا خرید لیا ہے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم کیسے گواہی دیتے ہو(جبکہ خریدتے وقت تم موجود نہ تھے)انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہا ہوں ،تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خزیمہ کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔
عن ربیعۃ بن کعب الاسلمی رضی اللہ تعال عنہ قال:کنتُ ابیتُ مع رسول اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ وحاجتہٖ فقال لی:سل۔ فقلتُ: اسئلک مرافقتک فی الجنۃ قال: اوغیر ذٰلک،قلتُ :ہو ذاک قال: فاعنّی علیٰ نفسک بکثرۃ السجود ۔ (الصحیح المسلم رقم الحدیث :۴۸۹،سنن ابی داود رقم الحدیث:۱۳۲۰،چشتی)
ترجمہ: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رات گزارا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو وغیرہ کےلیے پانی لے کر حاضر ہوا ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا مانگ ۔ تو میں نے عرض کی کہ : میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کے ساتھ رہوں ۔فرمایا:اور کچھ؟میں نے عرض کی: میری مراد توبس یہی ہے ۔فرمایا:تواپنے اوپر کثرت سجود سے میری اعانت کر ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کےلیے ڈوبا سورج پلٹایا یہ حدیث صحیح ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کےلیئے ڈوبا سورج پلٹایا اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختیار آسمانوں اور چاند پر بھی ہے آور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے کل کائینات کا مالک و مختار بنا کر بھیجا ہے سبحان اللہ ۔
اس حدیث پاک کے رجال صحیح ہیں اور یہ صحیح حدیث ہے : رواه الطبرانی بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوی في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388. 389) وللحديث طرق أخري عن أسمائ، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدريث . وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اللہ بن عبد اللہ الحسکا المتوفی سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي : فی الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبرانی بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإِسنادين صحيحين ۔
وقال الإمام النووي فی شرحه علی صحيح مسلم (12 / 52) : ذکر القاضيص : أن نبينا صلی الله عليه وآله وسلم حبست له الشمس مرّتين … ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات۔
حضرت اسماء سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے جس کا ترجمہ آپ نیچے پڑھ سکیں گے، یہ حدیث مختلف کتابوں میں مختلف طرق سے بیان ہوئی ہے سب سے پہلے عربی میں احادیث پیش خدمت ہیں ، ان کی صحت پر اقوالِ سلف بعد میں پیش کیا جائے گا۔پہلے عربی احادیث ملاحظہ فرمائیں : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ , فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” صَلَّيْتَ يَا عَلِيُّ؟ ” قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اللهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ “، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ , ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ ۔(شرح مشكل الآثار (3/ 92،چشتی)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ , وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اللهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّكَ فَرُدَّ عَلَيْهِ شَرْقَهَا ” قَالَتْ أَسْمَاءُ فَطَلَعَتِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ , ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ , ثُمَّ غَابَتْ وَذَلِكَ فِي الصَّهْبَاءِ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ [ص:95] قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَذْكُورُ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَإِذَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَدَنِيُّ الْمَعْرُوفُ بِالْفِطْرِيِّ وَهُوَ مَحْمُودٌ فِي رِوَايَتِهِ وَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ عَوْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَذْكُورُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ عَوْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ أُمُّهُ الَّتِي رَوَى عَنْهَا هَذَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هِيَ أُمُّ جَعْفَرٍ ابْنَةُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. فَقَالَ قَائِلٌ: كَيْفَ تَقْبَلُونَ هَذَا وَأَنْتُمْ تَرْوُونَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَدْفَعُهُ فَذَكَرَ مَا ۔(شرح مشكل الآثار (3/ 94)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْخَفَّافُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْفِطْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ، فَرَجَعَ وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ، فَلَمْ يُحَرِّكُهُ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ» قَالَتْ: فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى رُفِعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ غَابَتْ وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ ۔(المعجم الكبير للطبراني 24/ 144)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح [ص:148] وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ [ص:149] مُوسَى، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ [ص:150]، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:151] يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ» قَالَتْ أَسْمَاءُ: «فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ» وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُثْمَانَ ۔(المعجم الكبير للطبراني (24/ 147) ۔ الكتب » الثالث من فوائد أبي عثمان البحيري ۔ (حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبٍ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ثنا فَضْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَّيْتَ الْعَصْرَ ” . قَالَ : لا . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ نَبِيِّكَ , فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ ” . قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ ۔
الكتب » تاريخ دمشق لابن عساكررقم الحديث: 44459) ۔ (حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُظَفَّرِ بْنُ الْقُشَيْرِيِّ ، وَأَبو الْقَاسِمِ الْمُسْتَمْلِي ، قَالا : أنا أَبُو عُثْمَانَ الْبَحِيرِيُّ ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الدندانقاني بِهَا ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبٍ ـ وَفِي حَدِيثِ ابْنِ الْقُشَيْرِيِّ : نا أَبُو الْعَبَّاسِ الْمَحْبُوبِيُّ ـ نا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ . ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ الْمَاهَانِيُّ ، أنا شُجَاعُ بْنُ عَلِيٍّ ، أنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَنْدَهْ ، أنا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْبُسْتِيُّ ، نا أَبُو أُمَيَّةَ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، نا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ ـ زَادَ أَبُو أُمَيَّةَ : ابْنُ الْحَسَنِ ـ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرُبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَّيْتُ الْعَصْرَ ؟ ” وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : ” صَلَّيْتُ يَا عَلِيُّ ؟ ” قَالَ : لا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ـ وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : فَقَالَ : النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ـ ” اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ ، وَطَاعَةِ نَبِيِّكَ ـ وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : رَسُولُكَ ـ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ ” ، قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَرَأَيْتَهَا غَرُبَتْ ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرُبَتْ ، تَابَعَهُ عَمَّارُ بْنُ مَطَرٍ الرَّهَاوِيُّ ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ۔ الكتب » طرح التثريب للعراقي » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ الْغَنِيمَةِ وَالنَّفَلِ رقم الحديث: 1284) ۔ (حديث مرفوع) وَرَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ ، بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ ، وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ ، فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُمَّ إنَّ عَبْدَك عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ . قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَفَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الأَرْضِ ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ ، وَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ غَابَتْ ، وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ ” . وَفِي لَفْظٍ آخَرَ : ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ يَكَادُ يُغْشَى عَلَيْهِ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمًا ، وَهُوَ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صَلَّيْت الْعَصْرَ ؟ فَقَالَ : لا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَدَعَا اللَّهَ ، فَرَدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ . قَالَتْ : فَرَأَيْت الشَّمْسَ طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَابَتْ حِينَ رَدَّتْ ، حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ ۔
تفصیلات ، مفہوم و ترجمہ:اس حدیث کو حدیث رد شمس (سورج کا لوٹنا) بھی کہا جاتا ہے اور یہ معجزاتِ نبویہ مین شمار ہوتا ہے۔امام علامہ محمد بن یوسف بن اسمٰعیل النبھانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الاراء تصنیف حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین میں تحریر فرماتے ہیں کہ؛“سورج کا معجزانہ طور پر پلٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے ثابت ہے، اسے ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں تحریر فرماتے ہیں؛جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےلیئے سورج کے لوٹنے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں حضرت اسماء بنت عمیس کی روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی تھی اس وقت آپ کا سراقدس حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی گود میں تھا۔ انہوں نے اس وقت تک عصر کی نماز نہ پڑھی تھی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا؛۔ علی! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے عرض کیا نہیں یارسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی! اے اللہ ! علی (رض) تیری اور تیرے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طاعت وخدمت میں تھا، لہٰذا اس کے لیئے سورج کو واپس لوٹا (تاکہ وہ نمازِ عصر ادا کرسکے)۔ اسماء بیان فرماتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج، پھر طلوع کرآیا اور اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ یہ واقعہ خیبر کے مقام صہباء پر پیش آیا۔ اس روایت کو امام طحطاوی نے نقل فرمایا؛۔ امام طحطاوی فرماتے ہیں کہ احمد بن صالح کہا کرتے تھے، کہ جس شخص کو علم دین سے تعلق ہے وہ حدیثِ اسماء کو یاد کرنے سے پیچھے نہ رہے، کیونکہ یہ نبوت کی علامت اور دلیل ہے۔
اس حدیث کو امام طحطاوی اور قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ابن مندہ اور ابن شاھین نے حدیثِ اسماء سے اسکی تخریج کی اور ابن مردویہ نے اسے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا۔ طبرانی نے اسے سند حسن کے ساتھ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے نقل کیا۔ طبرانی کے الفاظ یہ ہیں:”حضرت اسماء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے مقام صہباء میں ظہر کی نماز پڑھی، بعد ازاں نمازِ عصر کے بعد حضرت علی (رض) کو بلا بھیجا (انہوں نے ابھی عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی) جب وہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ان کی گود میں اپنا سرمبارک رکھا، حضرت علی (رض) نے آپ کو جنبش دینا مناسب نہیں سمجھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ حضرت علی (رض) کی نمازِ عصر کا وقت جاتا رہا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی” اے اللہ! تیرا بندہ علی تیرے نبی کی خدمت میں تھا (اور اسکی نماز قضا ہوگئی ہے) تو سورج کو مشرق کی طرف لوٹا دے”۔ اسماء بیان کرتی ہیں کہ سورج لوٹ کر اتنا اٹھ آیاکہ اسکی دھوپ پہاڑوں پر اور زمین پر پڑنے لگی۔ اسکے بعد حضرت علی اٹھے اور وضو فرما کر عصر کی نماز ادا فرمائی، پھر سورج غروب ہوگیا۔ یہ واقعہ مقام صہباء کا ہے ۔ امام طبرانی اوسط میں سند حسن کے ساتھ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے سورج کو حکم دیا تو وہ کچھ دیر کے لیئے ٹھہر گیا ۔(حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین (اردو) ، تصنیف امام یوسف بن اسماعیل نبھانی (رحمة اللہ علیہ) نوریہ رضویہ پبلیکیشنز لاھور پاکستان، صفحہ ۶۵۵ و ۶۵۶،چشتی)
جمہور نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے سوائے چند علماء کے انہوں نے بھی اسکی جزءیات پر بحث کی ہے نا کہ اسکی اصل کو غلط قرار دیا ہے، علم الحدیث کا عام قائدہ ہے کہ جو حدیث ضعیف بھی ہو وہ فضائل میں مقبول ہوتی ہے، اور دو اصول مزید بھی ہیں کہ ایک تو یہ کہ جب جمہور یعنی اکثریت اس کو مان لیتی ہے تو پھر کسی بحث کی گنجائش نہیں رہتی، دوسرے یہ کہ اس حدیث کو دیگر طرق سے اسنادِ حسن سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اور قائدہ مشہورہ ہے ہے کہ جب ایک حدیث ایک طرق سے ضعیف ہو لیکن اسکی حمایت میں صحیح طرق سے بیان کی گئی ہو یا اس پر اقوال موجود ہوں تو اس کو بھی قبولیت حاصل ہوجاتی ہے ۔
مخالفین اس روایت پر اسکی سند میں اعتراض کرتے ہیں؛ لیکن حافظ العراقی نے اس کو سند حسن کہا ہےاور امام ھیثمی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا رجال الصحیح یعنی اسکے رجال صحیح ہیں، یعنی ان دونوں کے نزدیک سند کے تمام راوی ثقہ صدوق اور حسن الاسانید ہیں،امام ہیثمی کا یہ بیان ہے ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (6/ 140) رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ مَرْزُوقِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ وَهُوَ ثِقَةٌ ۔اور جو حافظ عراقی سے اوپر روایت عربی میں بیان کی گئی ہے اسکی سند کے متعلق حافظ کا یہ کہنا ہے؛۔ الكتب » طرح التثريب للعراقي » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ الْغَنِيمَةِ وَالنَّفَلِ
رقم الحديث: 1284)(حديث مرفوع) وَرَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ ، بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا۔بعض محدثین نے کہا ہے کہ جس شخص کو علم سے کچھ لگاؤ اور واقفیت ہے وہ ہرگز اس حدیث سے بے خبر نہیں ہوسکتا اسلیئے کہ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ (حدیثِ متصل) ہے ۔ کتاب امتناع نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث حضرت اسماء سے پانچ سندوں کے ساتھ روایت ہے۔امام صفحه ۵۲۸ جلد ۱ نصف الآخر میں لکھتے ہیں : اب اس بات سے ابن کثیر کا وہ قول رد ہوجاتا ہے جو پیچھے بیان ہوا (نوٹ ضرب حق: جو ہم آگے تحریر کریں گے)۔ جو پیچھے بیان ہوا کہ اس حدیث کو صرف ایک عورت نے بیان کیا ہے جو کہ بالکل غیرمعروف ہے اور جس کا حال کچھ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے ابن جوزی کے اس قول کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث بلاشبہ موضوع یعنی من گھڑت ہے۔
کتاب امتناع میں اس حدیث کو پانچوں سندوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر پانچویں سند میں یہ لفظ ہیں کہ خیبر کے دن حضرت علی ، حضور کے ساتھ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے کہ اسی میں سورج غروب ہوگیا تھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے علی! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی؟۔ انہوں نے کہا نہیں۔ حضور نے یہ سن کر فوراً وضو فرمائی اور مسجد میں بیٹھ کر دو یا تین کلمے فرمائے جو ایسا لگتا تھا جیسے حبشی زبان کے کلمے ہوں۔ اسی وقت سورج پہلے کی طرح عصر کے وقت لوٹ آیا۔ حضرت علی اٹھے اور انہوں نے وضو کرکے عصر کی نماز پڑھی ۔ اب آنحضرت نے پھر اسی طرح کلمے فرمائے جیسے پہلے فرمائے تھے جس سے سورج پھر واپس مغرب میں جاکر چھپ گیا جس سے ایسی آواز سنائی دی جیسے آرہ چلنے کی آواز ہوئی ہے۔
مگر یہ روایت تمام سندوں کے خلاف ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سند میں کچھ خبریں رہ گئی ہیں۔ اصل میں پہلے حضرت علی رض، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم میں مصروف تھے اس کے بعد آپ ان کی گود میں سررکھ کر سوگئے اور پھر آپ کی آنکھ اسوقت کھلی جب کہ سورج غروب ہوچکا تھا۔ اس طرح ان روایتوں میں کوئی اختلاف نہیں رہتا ۔
سیرت حلبیہ جلد اول کے صفحہ 516 پر لکھا ہے کہ : اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے سورج یعنی دن کو روکا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ گھروں سے نکل کر اس قافلے کا انتظار کرنے لگے ۔ آخر دن ڈھلنے لگا مگر وہ قافلہ نہیں پہنچا یہاں تک کہ سورج چھپنے کے قریب ہوگیا۔ اس وقت حضور نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ سورج کو غروب ہونے سے اس وقت تک کے لیئے روک دے جب تک وہ قافلہ نہ آجائے (تاکہ اس طرح کفار آپ کو جھوٹا نہ سمجھیں) چنانچہ حق تعالیٰ نے سورج کو اس کی جگہ روک دیا یہاں تک کہ وہ قافلہ دن چھپنے سے پہلے پہنچ گیا جس میں وہ ساری علامتیں موجود تھیں جو حضور نے بتلائی تھیں۔
اقول؛ مولف کہتے ہیں: ممکن ہے یہ بات کسی دوسرے قافلے کے بارے میں آپ نے دن متعین کرکے فرمائی ہو جس کے پاس آپ کا گزر ہوا تھا۔ لہٰذا اس گزشتہ روایت میں کوئی شبہ نہیں پیدا ہوتا جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ اب ثنیہ کے مقام پر پہنچنے والا ہے ۔
سورج کے روکے جانے کے متعلق ہمزیہ کے شاعر نے بھی اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے ۔
وشمس الضحیٰ طاعتک وقت مفیبھا
فما غربت بل والفنک بوقفتہ
ترجمہ : اور چمکتے ہوئے سورج نے اپنے غروب ہونے کے وقت آپ کے حکم کی تعمیل کی چنانچہ وہ غروب نہیں ہوا بلکہ آپ کی خواہش کے مطابق کچھ دیر تک اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا ۔
اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں : ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ کے سورج کو طلوع ہونے سے روکا گیا تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک مشرک نے جب آپ سے یہ کہا کہ ہمیں ہمارے قافلے کے متعلق بتاؤ تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے قافلے کے پاس سے تنعیم کے مقام پر گزرا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اس قافلے میں کتنے اونٹ تھے کیا سامان تھا اور قافلے میں کون کون لوگ تھے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اس پر غور نہیں کرسکا تھا۔ مگر اس کے بعد پھر آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے قافلے میں اونٹوں کی تعداد سامان کی تفصیل اور قافلے والوں کے متعلق خبر دی اور فرمایا؛ (یہ قافلہ آفتاب طلوع ہونے کے وقت تمہارے پاس پہنچ جائے گا)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر) اس وقت تک سورج کو طلوع ہونے سے روکے رکھا جب تک کہ وہ قافلہ مکے نہیں پہنچ گیا۔ یہ لوگ جب قافلے کو دیکھنے کے لیئے نکلے تو اچانک کسی نے کہا لو یہ سورج تو نکل آیا۔اسی وقت کسی دوسرے نے پکار کر کہا۔اور لو یہ قافلہ بھی آگیا۔ اس میں وہی فلاں فلاں آدمی ہیں”۔ قافلے میں وہ لوگ نکلے جن کے متعلق آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ اب اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کے متعلق بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے جو پیچھے بیان ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔
صفحہ ۵۱۷ پر مزید لکھتے ہیں کہ : جہاں تک سورج کے رکنے کا تعلق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی حرکت (یعنی زمین کی گردش) بالکل رک گئی تھی ۔ ایک قول یہ ہے کہ حرکت ہلکی ہوگئی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ وقت کے لحاظ سے اپنی جگہ سے پیچھے ہوجانا۔
علماء نے لکھا ہے اس موقعہ کے علاوہ اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے سورج کو نہیں روکا گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ غزوہ خندق کے دن بھی حضور علیہ السلام کے لیئے سورج کو غروب ہونے سے روکا گیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور اسکے بعد سورج غروب ہوا۔ مگر اس روایت کی تردید اس قول سے ہوجاتی ہے جس میں ہے کہ اس دن حضور علیہ السلام نے عصر کی نماز سورج غروب ہوجانے کے بعد پڑھی تھی اور فرمایا تھا کہ ان مشرکوں نے ہمیں نماز، وسطی درمیانی نماز یعنی عصر کی نماز سے روک دیا۔ اسکی تفصیل آگے آئے گی۔
مگر بعض حضرات نے اس بارے میں دوسری بات لکھی ہے کہ غزوہ خندق کئی تک تک رہا تھا۔ ان میں سے ایک دن سورج کو شفق یا اس کےبعد کی زردی کی شکل میں روکا گیا تھا اور آپ نے اسی وقت میں نماز پڑھی اور بعض دنوں میں روکا نہیں گیا بلکہ آپ نے غروب کے بعد نماز پڑھی۔ ان ہی بعض حضرات نے کہا ہے کہ شفق کی سرخی یا زردی میں تاخیر کی روایت کرنے والا دوسرا ہے اور غروب میں تاخیر کی روایت کرنے والا دوسرا شخص ہے اور اس طرح یہ دونوں باتیں الگ الگ روایتوں میں کہی گئی ہیں۔
امام حلبی نے مزید لکھا ہے کہ : دوسرے انبیاء جن کے لیئے سورج روکا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ضعیف روایت ہے کہ داؤد علیہ السلام کے لیئے بھی ایک بار سورج کو غروب سے روکا گیا تھا۔ علامہ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ اسی طرح ایک مرتبہ سورج کو سلیمان علیہ السلام کےلئے بھی روکا گیا ہے چنانچہ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو حکم دیا جو سورج پر متعین ہیں کہ وہ اسکو پیچھے پھیر دیں تاکہ سلیمان علیہ السلام عصر کی نماز وقت کے اندر پڑھ لیں۔
سلیمان علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے لیئے سورج کو پیچھے پھیرا گیا تھا روکا نہیں گیا تھا بلکہ یہاں اس کو روکے جانے کے سلسلہ میں ہی بحث چل رہی ہے ادھر بعض حضرات نے کہا کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے گھوڑوں کی کوچیں کاٹ ڈالی تھیں اور انکی گردن ماردی تھی کیونکہ ان کی وجہ سے وہ وقتِ عصر کی نماز ادا نہیں کرسکے تھے یعنی حق تعالیٰ کا حکم اس وقت میں پورا نہیں کرسکے تھے انہوں نے صدقہ نہیں کیا۔ تو یہ بھی انہوں نے حق تعالیٰ کے حکم کی تعظیم میں کیا تھا کیونکہ صدقہ کرنے میں بھی وقت کا صرف ہونا ضروری تھا۔
ص ۵۱۸ پر یہ بھی لکھتے ہیں کہ یوشع علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا تھا۔۔۔۔۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھانجے حضرت یوشع علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا ہے یہی ابن نون ابن یوسف صدیق علیہ السلام ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہی ان کے جانشین ہوئے اورانہوں نے تبلیغِ دین کا کام کیا۔
ص ۵۲۴ پر لکھتے ہیں : اسکے بعد اسی کتاب میں لکھا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا۔
اے پرودگار مجھے بیت المقدس کی سرزمین سے اک تیر کی مار کے برابر قریب کردے۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تم کو ان کی قبر دکھلاتا جو ریت کے سرخ ٹیلے کے پاس راستے پر ہے۔
علامہ ابن کثیر کہتے ہیں؛۔ حضور علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ سوائے یوشع علیہ السلام کے سورج کو کسی انسان کے لیئے نہیں روکا گیا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ حضرت یوشع کی خصوصیات میں سے تھا۔ لہٰذا اس کی روشنی میں وہ روایت کمزور ہوجاتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقعہ پر سورج کو غروب ہونے کے بعد لوٹایا گیا تھا یہاں تک کہ حضرت علی نے عصر کی نماز پڑھی جو اسلیئے رہ گئی تھی کہ حضور اپنی سواری پر سوگئے تھے۔ یہ واقعہ آگے بیان ہوگا۔ (پھر علامہ ابن کثیر خیبر والی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ) یہ حدیث منکر ہے۔ اس میں صحیح یا حسن ہونے کا کوئی جز نہیں ہے پھر یہ اگر حدیث صحیح ہوتی تو مختلف وجہوں سے اس کی روایت ضروری تھی اور بہت سے معتبر راوی اسکو بیان کرتے مگر اس کو اہلبیت میں سے صرف ایک عورت نے روایت کی ہے اور وہ ایسی کہ اسکےمتعلق کوئی تفصیل نہیں (کہ عام زندگی میں وہ کیسی تھی اور اسکی باتیں قابلِ اعتبار ہوتی تھیں یا نہیں) “یہاں تک علامہ ابن کثیر کا کلام ہے۔
مگر اس روایت پر جو شبہ ہوتا ہے وہ آگے بیان ہوگا (نوٹ؛ضرب حق؛ جو پہلے ہی اوپر جواب کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے)۔ کیونکہ ایک حدیث یہ ہے کہ سورج کو سوائے حضور کے کسی کے لیے نہیں روکا گیا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ مراد سورج کو روکنے سے ہے اس کو غروب ہوجانے کے بعد پھیرنے یعنی واپس لوٹانے سے نہیں ہے۔ جب کہ ان دونوں باتوں میں فرق ہے کیونکہ سورج کو روکنے کا مطلب ہے اسکو اپنی جگہ پر ٹھہرا دینا اور پھیرنے کا مطلب ہے اسکے غروب ہونے کے بعد اس کو پھر واپس لانا بہرحال یہ اختلاف قابلِ غور ہے۔
مزید لکھتے ہیں : علامہ سبط ابن جوزی نے لکھا ہے کہ یہاں یہ کہاجاسکتا ہے کہ سورج کو روکنا یا اس کو دوبارہ پھیردینا مشکل ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتا کیونکہ اسکے رکنے کی وجہ سے یا لوٹائے جانے کی وجہ سے دن اور رات میں فرق پیدا ہوگا اور اسکے نتیجے میں آسمانوں کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ معجزات میں سے ہے اور معجزات کے سلسلے میں کوئی عقلی قیاس بھی کام نہیں کرسکتا (بلکہ وہ حق تعالیٰ) کی طرف سے ظاہر ہونے والی ایک خلافِ عادت بات ہوتی ہے جو جزو اور کل کا مالک ہے۔
امام حلبی نے مزید صفحہ ۵۲۵ میں بغداد کے ایک شیخ کا واقعہ بھی لکھا ہے کہ؛۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قسم کا واقعہ بغداد میں ایک بزرگ کے لیئے بھی پیش آیا ہے۔ یہ بزرگ عصر کی نماز کے بعد وعظ کہنے کے لیئے بیٹھے اور اس میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت یعنی خاندان والوں کے فضائل ومناقب بیان کرنے شروع کئے۔ اسی دوران میں ایک بادل سورج کے سامنے آگیا جس سے روشنی کم ہوگئ۔ اس پر ان بزرگ اور دوسرے تمام حاضرین نے یہ سمجھا کہ سورج چھپ گیا ہے اس لیئے انہوں نے مغرب کی نماز کے لیے اٹھنے کا ارادہ کیا یہ دیکھ کہ ان بزرگ نے لوگوں کوہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ ابھی نہ جائیں اس کے بعد انہوں نے مغرب کی جانب اپنا رخ کرکے کہا ۔
لا تغربی یاشمس حتی ینتھی
مدجی لال المصطفی رلنجلہ
ان کان للمولی وقوفک فلیکن
ھذا الوقوف لولدہ ولنسلہ
ترجمہ : اے سورج! اس وقت تک غروب مت ہو جب تک کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعریفیں و مدح ختم نہ کرلوں۔اگر تو اب سے پہلے آقائے نامدار کے لیئے ٹھہرا تھا تو اس وقت تیرا ٹھہرنا آقائے نامدار کی اولاد اور نسل کے لیئے ہوگا ۔
ان کی اس دعا پر سورج ایک دم پھر سامنے آکر چمکنے لگا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر ان بزرگ پر لوگوں نے ہدیوں اور پوشاکوں کی بارش کردی۔ یہاں تک علامہ سبط ابن جوزی کا کلام ہے۔مختلف حوالہ جات : الشفا بتعريف حقوق المصطفے، القاضي ابي الفضل عياض مالکي، ص ۳۸۴ دارالکتب العلميه بيروت، طباعت اردو، مکتبه اعلي حضرت ، س ۲۶۰ و ۲۶۱ مجلد ۱،چشتی)
امام یوسف نبھانی نے علامہ ابن السبکی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی قول تحریر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کو قاضی عیاض مالکی نے الشفاء شریف ، میں ، امام الطحاوی نے ، طبرانی کی معجم الکبیر سے ، امام ابن مندہ ، ابن شاھین نے ابن مردویہ سے جنہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کیا ہے ، جبکہ فرماتے ہیں : وروی الطبرانی فی معجمہ الاوسط باسناد ِ حسن۔ جس کو طبرانی نے اپنی معجم الاوسط میں اسنادِ حسن سے روایت کیا ہے۔ مزید لکھا ہے کہ ۔ قاضی عیاض کے علاوہ امام نووی، حافظ ابن حجر اور حافظ مغلطائ نے بھی روایت کیا ہے ۔ الانوار المحمديه من المواهب اللدنيۀ، القاضي شيخ يوسف بن اسماعيل النبهاني، ص۱۷۶، حديث رد الشمس، دارالکتب العلميه بيروت ۔ حافظ عراقی نے طرح التثریب فی شرح القریب میں ص ۲۴۷ و ۲۴۸ پر ۔ حجتہ اللہ علی العالمین، فی معجزات سید المرسلین، للنبھانی ص ۲۵۵ لاهور پاکستان
مجمع الزاوئد ومنبع الفوائد، الحافظ نورالدين علي بن ابي بکر بن سليمان الهيثمي المصري الشافعي، جز سادس ۷.کتاب المغازي والسير ص ۶۴۸ ۔ مناهل الصفا في تخريج احاديث الشفا، ابي الفضل جلال الدين عبدالرحمن السيوطي، ص ۱۱۹ موسسته الکتب الثقافيه، دار الجنان، طبراني کي شرط پر صحيح قرار ديا.
المقاصد الحسنه امام الحافظ المورخ شمس الدين ابي الخير محمد بن عبدالرحمن السخاوي، ص ۲۲۶ دارالکتب العلميه بيروت ۔ المعجم الکبير للحافظ ابي القاسم سليمان بن احمد الطبراني، ۲۶۰ تا ۳۶۰ هجري جز ۱۴ ص ۱۴۴ و صفحات ۱۴۵ و ۱۴۷ و ص ۱۵۲ از.مکتبه ابن تيميه قاهره مصر ۔ نسيم الرياض في شرح شفا القاضي عياض، شهاب الدين احمد بن محمد بن عمر الخفاجي المصري متوفي ۱۰۶۹ هجري جز ۳ القسم الاول ص ۴۸۵ ، دارالکتب العلميه بيروت ۔ شرح الشفا، للامام ملا علي القاري الهروي المکي الحنفي متوفي ۱۰۱۴ هجري، جز ۱، ص ۵۸۸ و صفحات ۵۹۴ و ۵۹۶ و ۵۹۳ از.فصل في انشقاق القمر وحبس الشمس، دارالکتب العلميه بيروت ۔ المواهب اللدنيه ، از علامه زرقاني صفحات ۲۰۹ تا ۲۱۰ دارالکتب العلميه بيروت ۔ شرح مشکل الآثار، امام المحدث الفقيه المفسر ابي جعفر احمد بن محمد بن سلامه الطحاوي موسسته الرسالۀ بيروت صفحات ۹۲ تا ۹۴، باب ۱۶۵ بيان مشکل ماروي ۔ تاريخ مدينۀ دمشق ، للامام ابن عساکر، باب علي بن ابي طالب، صفحات ۳۱۳ و ۳۱۴ ج ۴۲ ، دارالفکر بيروت)
ہم اہلسنت و جماعت اسلاف علیہم الرّحمہ کے قول پر پوری طرح پابند ہیں اس لیے ہم اکا دکا علماء کے اقوال کی جگہ جمہور کے اقوال کو اہمیت دیتے ہیں ، اسی لیے ہمارے نزدیک یہ حدیث بھی بالکل درست ہے اور اس کی تائید میں دیگر احادیث اس کو قوی بنا دیتی ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل میں بیان کیا گیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

2 comments:

  1. ماشاء اللہ جزاک اللہ خیرا کثیرا

    ReplyDelete
  2. ہماری مَسجِد کا اِمام چور ہے!

    افریقہ کے ایک ملک میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔
    اسی سبب ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا
    عالِم جی نے دعوت قبول کی،
    اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،
    اور وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے،
    مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد,
    مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی،
    تو اسے یاد آیا کہ،
    اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی،
    لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی،
    اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،
    کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟
    شوہر نے جواب دیا: نہیں،
    اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتادی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا
    اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا،
    اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ چوری نہیں کرسکتا،
    بالآخر دونوں اس نتیجہ پر پہنچے کہ:
    رقم مہمان نے چوری کی ہے
    اور یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی،
    کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا،
    اور انہوں نے یہ غلط کام کیا،
    اس شخص کو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا،
    نہ کہ چور ڈکیٹ،
    غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے حیا کے مارے اس بات کو چهپا لیا،
    لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا
    تا کہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے،
    اسی طرح سال گذر گیا
    اور پھر رمضان المبارک آگیا،
    اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں افطار کے لیے بلانے لگے
    اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ:
    ہمیں کیا کرنا چاہیئے
    *مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟
    زوجہ نے کہا:
    بلانا چاہیئے،
    کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،
    ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،
    اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا،
    اور جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے مہمان سے کہا:
    جناب آپ متوجہ ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ میرا رویہ بدل گیا ہے؟
    عالم نے جواب دیا:
    ہاں,
    لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں,
    تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا،
    میزبان نے کہا
    قبلہ! میرا ایک سوال ہے
    اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے،
    پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی،
    اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی،
    اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی،
    کیا رقم آپ نے لی تهی؟
    عالم دین نے کہا:
    ہاں میں نے لی تهی،
    میزبان حیران پریشان ہو گیا،
    اور عالِمِ جی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
    جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو،
    میں نے دیکها کہ،
    کاونٹر پر پیسے رکھے ہوئے ہیں،
    چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی،
    اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے،
    لہذا میں نے وہ نوٹ جمع کئے،
    اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ،
    ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو،
    اور پریشان ہو جاو،
    اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا،
    اور اُونچی آواز میں رونا شروع کر دیا،
    اور پھر میزبان کو مخاطب کرکے کہا:
    میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،
    تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا،
    اگرچہ یہ بہت دردناک ہے
    لیکن!
    میں اس لئے گِریہ کر رہا ہوں کہ،
    365 دن گذر گئے،
    اور تم میں سے کسی نے قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،
    اور اگر تم قرآن کو ایک بار کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن میں رکھی مل جاتی،
    یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید اٹها کر لایا،
    اور جلدی سے کھولا،
    اور اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی نظر آرہی تهی،

    یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ،
    سال بھر میں بھی قرآن نہیں کهولتے، اور اپنے آپ کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...