شرک کی اقسام اور قرآن و حدیث
شرک کی تین اقسام ہیں
(1) شرک فی العبادۃ
(2) شرک فی الذات
(3) شرک فی الصفّات
(1) شرک فی العبادۃ سے مُراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے ۔
(2) شرک فی الذات سے مُراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا، جیسا کہ مجوسی دوخداؤں کو مانتے تھے ۔
(3) شرک فی الصفّات سے مراد کسی ذات وشخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا شرک فی الصفّات کہلاتا ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ...یا ...کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ...یا... فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں ...یا... دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گاجو ناقابلِ معافی جرم اورظلمِ عظیم ہے ۔ بعض لوگ شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتے ہیں اور اُمّت میں وسوسے پیدا کرتے ہیں لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں :
(1) اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے : اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤ ف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ ،آیت143پارہ 2 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ذکرہے کہ : لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ ۔
ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں ۔ (سورۂ توبہ، آیت128پارہ 11،چشتی)
پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اوررحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اوررحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔
(2) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،کہ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ (سورۂ نمل ،آیت 65پارہ 20)
جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ : غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا۔(سورۂ جن ،آیت 26/27پارہ 29)
علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟ اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا ۔
(3) مدد گار صرف اللہ تعالیٰ ہے : جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتاہے،کہ
القرآن : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔: یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔(سورۂ محمد ،آیت 11پارہ 26)
جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکرہے،کہ : فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْ مِنِیْنَ : بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اورنیک مومنین مددگارہیں۔(سورۂ تحریم ،آیت4پارہ2 )
پہلی آیت پر غور کریں تویہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اوراولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا،تو کیا یہ شرک ہوگیا؟....
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام وراولیاء کرام ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں ۔
جو ذات باری تعالیٰ عطا فرمارہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جارہاہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اورجب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟
خوب یاد رکھیں کہ جہاں باذنِ اللہ اورعطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اورناممکن ہوجاتا ہے ۔ اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم شرک پر متفق نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ : حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اورتم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اوربیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔ (بخاری شریف جلد اول، الحدیث 1258ص545)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment