خدا چاہتا ہے رضائے محمد صلى الله تعالى عليه وآله وسلم
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِۚ فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰىہَا۪ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمْ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمْ شَطْرَہٗ ، وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوۡنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمْ ، وَمَا اللہُ بِغٰفِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوۡنَ ۔ ترجمہ : ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے تو ابھی اپناچہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو اور بیشک وہ لوگ جنہیں کتاب عطا کی گئی ہے وہ ضرور جانتے کہ یہ تبدیلی ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ۔ (البقرہ: 144)
مختصر تفسیر : جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں ۔ البتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کی خواہش یہ تھی کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنا دیاجائے ، اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیت المقدس کو قبلہ بنایا جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناپسند تھا بلکہ اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اور ان کے علاوہ کثیر انبیاء کرام علیھم الصلٰوۃ والسلام کا قبلہ تھا اور ایک وجہ یہ تھی بیت المقدس کی طرف منہ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے یہودی فخر و غرور میں مبتلاء ہو گئے اور یوں کہنے لگے تھے کہ مسلمان ہمارے دین کی مخالفت کرتے ہیں لیکن نماز ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں ۔
چنانچہ ایک دن نماز کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امید میں بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے، اس پر نماز کے دوران یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کے حسین انداز کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اور خوشی کے مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ہی میں خانہ کعبہ کی طرف پھر گئے، مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا اور ظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف ہوئیں اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئیں ۔
امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ مستند ترین تفسیر، تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے قبلہ تبدیل فرمایا اور اس آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں میری رضا ہے بلکہ یوں ارشاد فرمایا : تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے ۔ تو گویا کہ ارشاد فرمایا : ’’اے حبیب ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہر کوئی میری رضا کا طلبگار ہے اور میں دونوں جہاں میں تیری رضا چاہتا ہوں ۔ (تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲/۸۲،چشتی)
خدا کی رضا چاہتے ھیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد (صلى الله تعالى عليه وآله وسلم)
حدیثِ روز محشر میں ہے ، رب عَزَّوَجَلَّ اولین وآخرین کو جمع کرکے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے فرمائے گا : یہ سب میری رضاچاہتے ہیں اور اے محبوب ! میں تمہاری رضا چاہتا ہوں ۔ ( فتاوی رضویہ،۱۴/۲۷۵-۲۷۶، ملخصاً) خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد ۔ (صراطِ الجنان فی تفسیر القرآن، ج۱، ص۲۳۵،چشتی)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ : يہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ۔ (سورۃ البقرہ353)
عقیدہ : سب سے افضل ہمارے پیارے صلى الله تعالى عليه وآله وسلم ہيں ، پھرآپ کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم علیه السلام كا ہے ، پھر حضرت موسی عليه السلام ، پھر حضرت عیسی عليه السلام اور پھر حضرت نوح عليه السلام کا درجہ ہے ان پانچوں حضرات کو مرسلین اولوالعزم کہتے ہیں اور یہ پانچوں باقی تمام انبیاء ومرسلین علیہم السّلام سے افضل ہیں ۔ (حاشیہ الصاوی ج5،ص1947)
حضرت ربیعہ رضى الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو رسول الله عليه السلام كی خدمت میں رہا کرتاتھا اور آپ عليه السلام کےاستنجااور وضو کیلئےپانی لاتاایک مرتبہ آپ نے فرمایا مانگ ربیعہ کیا مانگتا ہے میں نے عرض کی میں آپ عليه السلام سے جنت کی رفاقت مانگتا ہوں آپ نے فرمایا اسکے علاوہ اور کچھ میں نے کہا مجھے یہی کافی ہےآپ نے فرمایا تو پھر کثرت سجود سے میری مدد کر ۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ ج1 ص193)
حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه نے کہا کہ میں نے عرض کی یارسول الله صلىالله عليه وسلم ميںآپ سے بہت حدیثیں سنتا ہوں پھرانہیں بھول جاتا ہوں آپ عليه السلام نے فرمایا اپنی چادرپھیلاؤ میں نے اپنی چادر پھیلادی آپ نے دونوں ہاتھوں سے چلو بناکر چادر میں کچھ ڈال دیا اور فرمایا اسے اپنے اوپر لپیٹ لو میں نے چادر کو لپیٹ لیا اسکےبعد میں کوئی حدیث نہیں بھولا ۔ (بخاری کتاب المناقب ج1 ص514 قدیمی کتب خانہ کراچی) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment