حاضر و ناظر کے متعلق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے حاضر و ناظر ہونے کے متعلق اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے ۔
جس کی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے ۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نگاہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں ، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں ، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جا سکتے ہیں ۔
ہم محفل میلاد کے موقع پر کرسی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے نہیں بلکہ علماء و مشائخ کے بیٹھنے کے لئے رکھتے ہیں ۔ صلوٰۃ و سلام کے وقت اس لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ باادب بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں سلام پیش کیا جائے اور ذکر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی تعظیم اور ادب کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ پر نہیں بلکہ حی علی الصلوٰۃ ، حی علی الفلاح پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی آمد کے لئے کھڑے نہیں ہوتے ۔
بعد از وصال تصرف فرمانا
حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں ۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں ۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو خواب میں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے ۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں ۔ (ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں ۔ اس بات کی طرف دلالت کرتا ہے کہ بعد از وصال ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے حیات کی ضرورت ہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بعد از وصال بھی حیات ہیں ۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم وصال کے بعد بھی اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی طاقت سے جب چاہیں، جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہی ں۔
حاضر وناظر کے متعلق اکابر شارحین اور علمائے اسلام کا عقیدہ
شارح بخاری علامہ امام قسطلانی علیہ الرحمہ اور شارح موطا علامہ امام زرقانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ظاہری زندگی اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ اپنی امت کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور آپ کو ان احوال ونیات وعزائم و خواطر وخیالات کی بھی معرفت و پہچان ہے اور اﷲ کے اطلاع فرمانے سے یہ سب کچھ آپ پر ایسا ظاہر ہے جس میں کوئی خفا و پردہ نہیں ۔ (شرح مواہب لدنیہ جلد 8 ص 305،چشتی)
شارح مشکوٰۃ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔ علماء امت میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بحقیقت حیات دائم و باقی اور اعمال امت پر حاضر وناظر ہیں اور متوجہان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو فیض پہنچاتے اور ان کی تربیت فرماتے ہیں ۔ (حاشیہ اخبار الاخیار صفحہ نمبر155،چشتی)
اﷲ تعالیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق : اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں ، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں ۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں ۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناً شرک بھی لازم نہیں آئے گا ۔
اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے کوئی اسم گرامی حاضر وناظر ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کو مجازی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ حاضر کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو ، جب اﷲ تعالیٰ حواس اور نگاہوں سے پاک ہے تو یقیناً اسے حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر نہیں کہا جا سکتا ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ’’لاتدرکہ الابصار‘‘ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔ اسی طرح ناظر کا بھی اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ناظر مشتق ہے ۔ نظر سے اور نظر کا حقیقی معنی یہ ہے : النظر تقلیب البصر والبصیرۃ لادراک الشئی وروئیۃ ۔ کسی چیز کو دیکھنے اور ادراک کرنے کے لئے آنکھ اور بصیرت کو پھیرنا ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے ناظر اسے کہتے ہیں جو آنکھ سے دیکھے ۔ اﷲ تعالیٰ جب اعضاء سے پاک ہے تو حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کو ناظر کہنا ممکن ہی نہیں ، اسی وجہ سے لاینظر الیہم یوم القیمۃ کی تفسیر علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یوں کی ہے : لایعطف علیہم ولایرحم ۔ کہ اﷲ تعالیٰ کفار پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا ۔
جب اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہنا ہی ممکن نہیں تو واویلا کس بات کا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو حاضر و ناظر ماننے سے شرک لازم آئے گا۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بلند وبالا ہے۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور مخلوق اور رب کریم کا محتاج سمجھ کر جتنی بھی آپ کی تعریف کریں، اﷲ تعالیٰ سے برابری لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ معبود ، خالق اور غنی ہے ۔
ہاں ان کو فکر ہوسکتی ہے جن کے نزدیک خدا کا علم محدود ہے وہ معاذ اﷲ مخلوق اور محتاج ہے ۔ یقیناً ان کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی زیادہ شان ماننے سے اﷲ تعالیٰ کی برابری لازم آئے گی۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارا اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’برتر از خیال اوقیاس و گمان وہم‘‘ اﷲ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو خیال و قیاس و گمان و وہم سے بالاتر ہے ۔
اب فرق واضح ہوا کہ اﷲ تعالیٰ مکان ، جسم، ظاہر طور پر نظر آنے ، حواس سے مدرک ہونے کے بغیر ہر جگہ موجود ہے جو اس کی شان کے لائق ہے ۔ اس معنی کے لحاظ سے وہ حاضر ہے اور اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی کرنے کے لحاظ سے وہ ناظر ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنے مزار شریف میں اپنی جسمانیت کے ساتھ موجود ہیں ۔آپ کی امت اور اس کے اعمال و احوال آپ کے سامنے ہیں ۔ آپ اپنے حواس سے امت کے اعمال و احوال کا ادراک فرما رہے ہیں ۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی شان ناپسند ہو تو اس کا علاج تو کچھ نہیں ورنہ روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ جسم، مکان، حدوث و امکان حواس میں آنے اور حواس کے ذریعے ادراک کرنے سے پاک ذات اور جسم ، مکان ، حدوث ، امکان حواس میں آنے اور حواس سے ادراک کرنے کی محتاج ذات میں کوئی محتاج برابری کا ذرہ بھر بھی تماثل نہیں ۔
حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجود ہونا یعنی غائب نہ ہونا۔ المصباح المنیر میں ہے۔ حاضر حضرۃ مجلس القاضی وحضر الغالب حضور اقدم من غیبتہ۔ منتی الارب میں ہے حاضر حاضر شومذہ ۔ ناظر کے چند معنے ہیں۔ دیکھنے والا، آنکھ کا تل، نظر، ناک کی رگ، آنکھ کا پانی ۔
المصباح المنیر میں ہے۔ والناظر السواد الا صغر من العین الذی یبصربہ الانسان شخصہ ۔
قاموس الغات میں ہے۔ والناظر السواد فی العین اوالبصر بنفسہ و عرق فی الانف وفیہ ماء البصر ۔
مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں۔ الناظر فی المقلتہ السواد لا صغر الذی فیہ الماء العین ۔
جہاں تک ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جس جگہ تک ہماری دسترس ہو کہ تصرف کر لیں وہاں تک حاضر ہیں۔ آسمان تک نظر کام کرتی ہے وہاں تک ہم ناظر، یعنی دیکھنے والے ہیں مگر وہاں ہم حاضر نہیں۔ کیونکہ وہاں دسترس نہیں۔ اور جس حجرے یا گھر میں ہم موجود ہیں وہاں حاضر ہیں کہ اس جگہ ہماری پہنچ ہے۔ عالم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور صدہا کوس پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔ یہ رفتار خواہ صرف روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو تو قبر میں مدفون یا کسی جگہ موجود ہے ان سب معنی کا ثبوت بزرگان دین کے لئے قرآن و حدیث و اقوال علماء سے ہے ۔
حاضر و ناظر کی تین صورتیں ہیں ایک جگہ رہ کر سارے عالم کو دیکھنا۔ آن کی آن میں سارے عالم کی سیر کر لینا۔ ایک وقت میں چند جگہ ہونا۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ آپ بایں جسم پاک وہاں موجود نہ تھے ان میں یہ کہاں ہے کہ آپ ان واقعات کو ملاحظہ بھی نہیں فرما رہے تھے اس جسد عصری سے وہاں نہ ہونا اور ہے اور ان واقعات کو مشاہدہ فرمانا کچھ اور بلکہ جناب کی پیشکردہ آیات کا مطلب ہی یہ ہے کہ اے محبوب علیہ السلام آپ وہاں بہ ایں جسم موجود نہ تھے لیکن پھر بھی آپ کو ان واقعات کا علم اور مشاہدہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ آپ سچے نبی ہیں یہ آیات تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا حاضر و ناظر ہونا ثبوت کر رہی ہیں ۔
اور اگر اب بھی کوئی باضد ہے تو پھر ان آیات کا جواب دیں ۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۔(سورۃ الفجر آیت 6)۔
کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے ربّ نے عاد کے ساتھ کیسا کیا۔
وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُواْ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ۔ (سورۃ الفجر آیت 9)۔
اور ثمود جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں۔
وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلأَوْتَادِ۔(سورۃ الفجر آیت 10)۔
اور فرعون جو میخا کرتا۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ ٱلْفِيلِ(سورۃ الفیل آیت 1)۔
کیا تم نے نہیں دیکھا تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کا کیا حال کیا۔
اور یہ بھی مت بھولیئے کہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ "کیا تم نے نہیں پڑھا" یا "کیا تمہیں نہیں بتایا گیا"۔ بلکہ اللہ عزوجل یہی فرماتا ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا ۔
اسی لئے تفسیرِ صاوی میں سورۃ القصص کی آیت کے ماتحت ہے کہ : وھذا بالنظر الی العالم الجسمانی لا قامۃ الحجۃ علی الخصم واما بالنظر الی العالم الروحانی فھو حاضر رسالۃ کل رسول وما وقع من لدن ادم الی ان ظھر، بجسمہ الشریف ۔
یعنی یہ فرمانا کہ موسٰی علیہ السلام کے اس واقعہ کی جگہ نہ تھے جسمانی لحاظ سے ہے عالم روحانی کی حیثیت سے حضور علیہ السلام پر رسول کی رسالت اور آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے جسمانی ظہور تک کے تمام واقعات پر حاضر ہیں ۔
نیز ہجرت کے دن غار ثور میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو لئے ہوئے جلوہ گر ہیں کہ کفّار مکہ دروازہ غار پر آ پہنچے حضرت صدیق پریشان ہوئے تو حضور نے فرمایا : لا تحزن ان اللہ معنا۔ (سورۃ التوبہ آیت 40)۔غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ تو ہے مگر کفّار کے ساتھ نہیں لٰہذا نعوذ بااللہ خدا ہر جگہ نہیں ، کیونکہ کفّار بھی تو عالم ہی میں تھے۔ تو جس طرح اس کلام میں توجیہہ ہوگی کہ اس کلام سے مراد ہے کہ اللہ رحم و کرم سے ہمارے ساتھ ہے اور جبر و قہر سے کفار کے ساتھ اسی طرح ان آیات میں بھی کہا جائے گا کہ بطریق ظاہریہ جسدِ عنصری آپ اس وقت ان کے پاس نہ تھے۔
اب آئیے قرآنِ کریم سے اس کے اثبات میں کچھ آیت ملاحظہ کریں
يٰأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِيراً۔ (سورۃ الاحزاب آیت 46)۔
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔
یہاں ترجمہ میں حاضر و ناظر پر اعتراض کیا جاتا ہے تو لفظ شاہد شہود سے مشتق ہے اور شہود حضور ہے۔ شاہد مشاہدہ سے ہے اور مشاہدہ رویت سے۔ تو بیشک شاہد ہیں، بیشک حاضر ہیں، بیشک ناظر ہیں۔ دعائے میت میں جو لفظ "شاھدنا" آتا ہے وہ اسی شہود سے مشتق ہے جس کے معنی حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر "غائبنا" کہا جاتا ہے۔ یا یہ شہادت سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گواہی دینا اس مادہ سے شاہد کے معنی گواہی دینے والا ہوا۔ بہرحال مراد شاہد، حاضر و ناظر اور گواہ تین معنوں کے درمیان ہی ہوئی اور ہر معنی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ شاہد کا معنی گواہ لینے کی صورت میں بھی ہمارا مقصود حاصل ہے، کیونکہ شریعت مطہرہ میں دیکھی ہوئی چیزوں ہی کی گواہی مقبول ہے، ان دیکھی کی مردود۔
وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً (سورۃ البقرۃ آیت 143)۔
اور یہ رسول تمھارے نگہبان و گواہ۔
تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت ہے : ومعنی شھادۃ الرسول علیھم الملاعۃ علی رتبۃ کل متدین بدینۃ وحقیقۃ التی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الذی ھو بہ محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف ذنوبھم وحقیقۃ ایمالھم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیر ذلک بنورالحق۔
یعنی مسلمانوں پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے یہ معنی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہر دین دار کے دین کے مرتبوں پر اور اپنے دین میں سے جس حقیقت پر وہ ہے اس پر اور وہ حجاب جس کے سبب دین کے کمال سے محجوب ہو گیا ہے سب پر مطلع اور خبردار ہیں تو وہ امت کے گناہوں، ان کے ایمان کی حقیقتوں، ان کے اعمال، ان کی نیکیوں، برائیوں اور ان کے اخلاص و نفاق سب کو نور حق کے ذریعہ جانتے پہچانتے ہیں۔
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلاۤءِ شَهِيداً۔(سورۃ النسا آیت 41)۔
تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تم کو ان سب پر گواہ و نگہبان بناکر لائیں۔
وَمَآ أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۔(سورۃ الانبیا آیت 107)۔
اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے۔
اس آیت میں اللہ عزوجل نے تمام منکرین کا ردّ فرما دیا کہ منکرین بھی اللہ عزوجل کو رب العالمین تو مانتے ہیں۔ اور اس آیت میں رب العالمین اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو رحمۃ للعلمین قرار دے رہا ہے۔ یعنی جہاں جہاں ربّ کی ربّوبیت ہے وہاں وہاں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی رحمت بھی ہے۔ تمام عالمین کے لئے رحمت ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے گذرے ہوئے اور آنے والے تمام زمانوں میں کل عالمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی رحمت موجود رہی اور رہے گی ۔
وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ۔(سورۃ الانعام آیت 61)۔
اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔
تفسیر روح البیان میں آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : قال مجاهد قد جعلت الارض لملك الموت كالطشت يتناول من حيث يشاء ۔
یعنی ملک الموت کے لئے ساری زمین طشت کی طرح کر دی گئی ہے کہ جہاں سے چاہیں لے لیں ۔
لیس علی ملک الموت صعوبۃ قبض الارواح وان کثرت وکانت فی امکنۃ متعددۃ
ملک الموت پر روحیں قبض کرنے میں کوئی دشواری نہیں اگرچہ روحیں زیادہ ہوں اور مختلف جگہ میں ہوں ۔ یہ تو سبھی کو تسلیم ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی آن میں کئی اموات ہوتی ہیں اور ہر اس روح کو قبض کرنے ملک الموت موجود ہوتے ہیں ۔ تو جب ملک الموت کے لئے ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر حاضر ہونا قبول ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کہ جن کا علم تمام مخلوقات سے برتر، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے یہ کمال ماننے میں کیا چیز مانع ہے ؟
ٱلنَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۔(سورۃ الاحزاب آیت 6)۔
یہ نبی مسلمانوں کا انکی جان سے زیادہ مالک ہے۔
اس آیت کے متعلق بانیٗ دارالعلوم دیوبند علامہ محمد قاسم نانوتوی لکھتے ہیں : النبی اولی بالؤمنین من انفسھم کو بعد لحاظ صلہ من انفسھم دیکھئے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ وہ قرب حاصل ہے کہ ان کی جانوں کو بھی ان کے ساتھ حاصل نہیں کیوں کہ اولٰی بمعنی اقرب ہے اور اگر بمعنی ادب یا اولٰی بالتصرف ہو تب بھی یہی بات لازم آئے گی کیونکہ اجنیت و اولویت بالتصوف کے لئے اقربیت تو وجہ ہو سکتی ہے پر بالعکس نہیں ہو سکتا ۔ (تحذیرالناس، ص 14،چشتی)
مشکوٰۃ باب المعجزات میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے : نعی النبی علیہ السلام زیدا جعفر وابن رواحۃ للناس قبل ان یاتیھم خبرھم فقال اخذا الرایۃ زید فاصیب الی حتٰی اخذا الرایۃ سیوف اللہ یعنی خالد ابن الولید حتٰی فتح اللہ علیھم ۔
حضور علیہ السلام نے زید اور جعفر اور ابن رواحہ کو ان کی خبر موت آنے سے پہلے لوگوں کو خبر موت دے دی۔ فرمایا کہ اب جھنڈا زید نے لے لیا اور وہ شہید ہو گئے۔ یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی تلوار خالد ابن ولید نے لیا تا آنکہ اللہ نے ان کو فتح دے دی ۔
مشکوٰۃ جلد دوم باب الکرامات کے بعد باب وفاۃ النبی علیہ السلام میں ہے : وان موعدکم الحوض وانی لا نظر الیہ وانا فی مقامی ۔ تمہاری ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے۔ میں اس کو اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔
مشکوٰۃ باب تسویۃً الصف میں ہے : اقیموا صفوفکم فانی ارکم من ورانی ۔
اپنی صفیں سیدھی رکھو کیونکہ ہم تم کو اپنے پیچھے بھی دیکھتے ہیں ۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ مواہب الدنیہ میں زیارۃ قبرہ الشریف میں فرماتے ہیں : وقد قال علماء نالا فرق بین موتہ وحیوتہ علیہ السلام فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالھم ونیاتھم وعزائمھم و خواطرھم وذالک جلی عندہ لا خفاء بہ ۔
ہمارے علماء نے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں یہ آپ کو بالکل ظاہر ہے۔ اس میں پوشیدگی نہیں ۔
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وقال الغزالی سلم علیہ اذا دخلت فے المسجد فانہ علیہ السلام یحضر فی المسجد ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب تم مسجد میں جاؤ تم حضور علیہ السلام کو سلام عرض کرو کیونکہ آپ مسجدوں میں موجود ہیں ۔
احیاء العلوم جلد اول باب چہارم فصل سوم نماز کی باطنی شرطوں میں امام غزالی فرماتے ہیں : واحضرنی قلبک النبی علیہ السلام وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ اور اپنے دل میں نبی علیہ السلام کو اور آپ کی ذات پاک کو حاضر جانو اور کہو السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
مصباح الہدایت ترجمہ عوارف المعارف مصنفہ شیخ شہاب الدین سہروردی میں ہے۔
بس باید کہ بندہ ہمچناں کہ حق سبحانہ را پیوستہ بر جمیع احوال خود ظاہراً و باطناً واقف و مطلع بیند رسول اللہ علیہ السلام رانیز ظاہر و باطن حاضر داند۔ تا مطالعہ صورت تعظیم دوقات اور ہموارہ بہ محافظت آداب حضرتش دلیل بوداز مخالفت دے سر ادا علاناً شرم داردو ہیچ دقیقہ از وقائق آداب صحبے اوفر نہ گزارو۔
پس چاہئیے کہ بندہ جس طرح حق تعالٰی کو ہر حال میں ظاہر و باطن طور پر واقف جانتا ہے۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کو بھی ظاہر و باطن جانے تاکہ آپ کی صورت کا دیکھنا آپ کی ہمیشہ تعظیم وقار کرنے اور اس بارگاہ کے ادب کی دلیل ہو جاوے اور آپ کی ظاہر و باطن میں مخالفت سے شرف کرے اور حضور علیہ السلام کی صحبت پاک کے ادب کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑے۔
ہزدم مسمٰی بہ سلوک اقرب السبل بالتوجہ سیدالرسل میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں ۔ باچندیں اختلاف و کثرت مذاہب کہ در علماء امت ہست یک کس رادریں مسئلہ خلافی نیست کہ آنحضرت علیہ السلام بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز تو ہم تاویل دائم و باقی است و بر اعمال امت حاضر و ناظر است و مرطالبان حقیقت راومتو جہان آنحضرت رامفیض و مربی (ادخال الساں)۔
اس اختلاف و مذاہب کے باوجود جو علمائے امت میں ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم حقیقی زندگی سے بغیر تاویل و مجاز کے احتمال کے باقی اور دائم ہیں اور امت کے اعمال پر حاضر و ناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگار اور حاضرینِ بارگاہ کو فیض رساں اور مربّی ۔
یہی شیخ عبدالحق دہلوی علیہ الرحمۃ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں : ذکر کن اور ادرود بفرست بردے علیہ السلام وباش درحال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالت حیات دمی بینی توادر امتادب باجلال و تعظیم و ہیبت و حیا و ہدانکہ دے علیہ السلام می بیند وحی شنود کلام ترازیرا کہ دے علیہ السلام متصف است بصفات الہیہ دیکے از صفات الہی آں است کہ انا جلیس من ذکرنی ۔
حضور علیہ السلام کو یاد کرو اور درود بھیجو اور حالت ذکر میں ایسے رہو کہ حضور حالتِ حیات میں تمہارے سامنے ہوں اور تم ان کو دیکھتے ہو ادب اور جلال اور تعظیم اور ہیبت و حیاء سے رہو اور جانو کہ حضور علیہ السلام دیکھتے اور سنتے ہیں تمہارے کلام کو کیونکہ حضور علیہ السلام صفات الٰہی سے موصوف ہیں اور اللہ کی ایک صفت یہ ہے کہ میں اپنے ذاکر کا ہم نشین ہوں۔
اسی مدارج النبوۃ میں ہے کہ : اگر بعد ازاں گوید کہ حق تعالٰی را حالتے وقدرتے بخشیدہ است کہ در ہر مکانے کۃ خواہد تشریف بخسند خواہ بعینیہ بمثال خواہ بر آسمان و خواہ بر زمین خواہ درقبر یا غیر دے صورتے دارد باوجود ثبوت نسبت خاص بقبر درہمہ حال ۔ اس کے بعد اگر کہیں کہ رب تعالٰی نے حضور کے جسم پاک کو ایسی حالت و قدرت بخشی ہے کہ جس ماکن میں چاہیں تشریف لے جائیں خواہ بعینہ اس جسم سے خواہ جسم مثالی سے خواہ آسمان پر خواہ قبر میں تو درست ہے۔ قبر سے ہر حال میں خاص نسبت رہتی ہے ۔
مثنوی شریف میں حارث ابن نعمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک قصے کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اس انداز میں نقل کرتے ہیں :
ہشت جنت ہفت دوزخ پیش من
ہست پیدا ہم چوں بت ایں پیش ہن
یک بیک دامی شناسم خلق را
ہمچو گندم من زجو در آسپا
کہ بہشتی کہ وزیگانہ کی است
پیش من پیدا چو مورد ماہی است
من بگویم یا فرد بندم نفس
لب گزیدش مصطفٰی یعنی کہ بس
میرے سامنے 8 بہشت اور 7 دوزخ ایسے ظاہر ہیں
جیسے ہندو کے سامنے بت ہیں
ہر ایک مخلوق کو ایسا پہچانتا ہوں
جیسے چکی میں جو اور گیہوں
کہ جنتی کون ہے اور دوزخی کون
میرے سامنے یہ سب مچھلی اور چیونٹی کی طرح ہیں
چپ رہوں یا کچھ اور کہوں
حضور نے ان کا منہ پکڑ لیا کہ بس
جب اس آفتاب کے زرّوں کی نظر کا یہ حال کہ جنت و دوزخ، عرش و فرش، جنتی و دوزخی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو اس آفتابِ عالی مقام صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نظر کا کیا پوچھنا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment