استعانت، استمداد ،استغاثہ اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ دوم
جب اس بات کااثبات ہوگیا کہ مسلمان جب اللہ تعالی کے علاوہ کسی بندے کی طرف کسی کام کی نسبت کرے تو وہ کلام مجازی ہوتاہے۔ حقیقت نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک مسلمان کا یہی عقیدہ ہوتاہے کہ حقیقی تاثیر اللہ ہی پیدا فرماتا ہے ۔ یہ بندہ تو فقط سبب (وسیلہ) بن رہا ہے ۔ اور اس طرح کلام کرنا جائز ہے ۔ اور قرآن کریم سے ثابت ہے ۔
لیکن ذہن میں ابھرتا ایک سوال کہ ،،کیا قرآن مجید میں اور احادیث طیبہ میں وسیلہ اور استغاثہ پر صراحت کے ساتھ کوئی دلیل موجو دہے ؟
تو آئیے رب تعالی کے فرمان مبارک کو پڑھیں اور شیطانی وَسوسُوں اُور شبہات کو زائل کیجئے :
تو سل کی دلیل نمبر1 : پروردگار عزوجل ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلہ وَجٰہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو اللّٰہ سے ڈرو اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔ (سورہ المائدہ آیت نمبر35)
قرآن عظیم کی اس آیت مبارکہ میں رب تعالی نے ’’مطلق وسیلہ تلاش کرنے ‘‘ کا حکم ارشاد فرمایا ہے کسی قید کے ساتھ نہ فرمایا کہ صرف اعمال کا وسیلہ تلاش کرو ۔۔۔ بندوں کا نہ کرو ۔۔۔یا۔۔۔زندہ کا وسیلہ تلاش کرو مردہ کا نہ کرو۔۔۔بلکہ مطلق حکم دیا کہ جو اعمال اللہ کے ہاں مقبول ہو ں یا جو بندے اللہ کے ہاں مقبول ہوں ۔۔۔کسی کا بھی و سیلہ اختیار کرلو رب تم کو اس وسیلے کے ذریعے فلاح پانے والوں میں داخل فرمادےگا ۔ اس آیت کریمہ میں وسیلہ کی تمام اقسام کی طرف اشارہ ہے اور اس آیت قرآنی کا یہ اعجاز ہے کہ یہ وسیلہ کی تمام اقسام کو خُود میں سَموئے ہُوئےہے ۔
توسل کی ابتداء دو اقسام ہیں :
(1) توسل لقرب اللہ تعالی ۔ (2) توسل فی الدعاء
(1) توسل لقرب اللہ تعالی : اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلہ کو اختیار کرنا ۔
(2) توسل فی الدعاء: حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا ۔تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی بدولت مُراد پوری فرمائے ۔
(1) توسل لقرب اللہ تعالی ۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلہ کو اختیار کرنا ۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں (1) توسل بالعبادۃ ۔ (2) توسل بالذات ۔
(1) توسل بالعبادۃ : یعنی عبادات ونیک اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا اور اللہ کے نیک بندں میں شامل ہونا ۔
توسل کی دلیل نمبر 2 : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے ۔
(سورہ البقرۃ آیت 153)
اس آیت کریمہ میں رب تعالی نے توسل لقرب اللہ تعالی ا ور توسل فی الدعا د ونوں کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرو اور پنی دفع حاجات کے واسطے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا مانگو رب تمہاری دعاوں کو کو جلد قبول فرمائے گا ۔
(2) توسل بالذات : یعنی اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کرنا ۔۔۔تاکہ وہ اس کو شریعت کے احکام ظاہریہ (نماز ۔روزہ وغیرہ)واحکام باطنیہ(عبادات میں خشوع و خضوع لانے کے طریقے اورآداب) سیکھائیں۔ اور یو ں اس بندے کی صحبت اختیار کرنے سے دین کا علم اور دین پر عمل نصیب ہواور اس طرح یہ مرشد و رَہنما اس کو اللہ کے قریب کرے ۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی صحبت اختیا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا چنانچہ حکم ربانی عزوجل ہے ۔
توسل کی دلیل نمبر 3 : وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیۡنَاکَ عَنْہُمْ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنۡ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ۔ ترجمہ : اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔۔۔ اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا ۔ (سورہ الکہف آیت نمبر 28)
اسی بنا پر اچھی صحبت اختیار کرنے کا حکم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دیا فرمایا ۔
توسل کی دلیل نمبر 4 : مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کمثل صاحب المسک وکیر الحداد لایعد مک من صاحب المسک اما ان تشتریہ اوتجد ریحہ وکیر الحداد یحرق بیتک او ثوبک اوتجد منہ ریحاخبیثۃ وفی حدیث ان لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ، رواہ البخاری ۔ یعنی : اچھے مصاحب اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تو تو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا۔ اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دھواں تو ضرور پہنچے گا ۔
(بخاری شریف ، حدیث: 5214دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت،چشتی)
(2) توسل فی الدعاء
یعنی کسی حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی برکت سے مراد پوری فرمائے ۔
پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں :
(1) مقبول اعمال کووسیلہ بنانا ۔
(2) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا ۔
(1) مقبول اعمال کووسیلہ بنانا ۔
توسل کی دلیل نمبر 5 : اس کی دلیل وہ مشہور و معروف قصہ ہے ۔ جو صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ : جب تین آدمی غار میں پھنس گئے- باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا- غار کے منہ پر پتھر رکھا ہوا تھا- اس وقت انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے اپنے نیک عمل کے واسطے اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے ۔ (1) ان میں سے ایک کہنے لگا کہ میرے والدین نے مجھ سے دودھ مانگا- رات کا وقت تھا جب میں دودھ لے کر ان کے پاس پہنچا تو وہ سوچکے تھے- میں نے انہیں بے آرام نہ کیا اور ساری رات ان کے سرہانے رہا کہ جب وہ بیدار ہوں تو میں انہیں دودھ پیش کروں- اے اللہ میری اس نیکی بدلے غار کے منہ سے پتھر ہٹادے- چنانچہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ (2) دوسرے نے اپنے پاکیزہ کردار کی بات کی- اس کی ایک عزیزہ کسی ضرورت کے تحت پریشان ہوکر اس کے پاس آئی- قریب تھا کہ وہ اپنی نفسانی ضرورت پوری کر لیتا لیکن محض اللہ کے خوف سے وہ برائی کے ارتکاب سے باز رہا- اس شخص نے اپنا یہ نیکی کا کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیا- چنانچہ پتھر مزید ہٹ گیا ۔ (3) تیسرے شخص نے اپنی امانت و دیانت کا ایک واقعہ پیش کیا اور اس کے وسیلے سے رحمت خداوندی کا امیدوار ہوا ۔۔۔ لہذا پتھر پوری طرح غار کے دھانے سے ہٹ گیا"- اس طرح ان لوگوں کو اپنے نیک اعمال بارگاہ رب العالمین میں بطور وسیلہ پیش کرنے کے بعد مصیبت سے نجات ملی ۔ (بخاری شریف، کتاب احادیث انبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465 دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت،چشتی)
اس مسئلہ پر کثیر احادیث طیبہ شاہد ہیں مگر چونکہ کسی کو اس مسئلہ میں اختلاف نہیں اس لئے اختصار کے پیش نظر فقط ایک جامع روایت ذکر کردی ۔
(2) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا : مقبول بندہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو اس کو وسیلہ بنانا درست ہے ۔
ظاہری حیات میں وسیلہ بنانے کی دلیل
توسل کی دلیل نمبر 6 : حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاستسقاء، حدیث نمبر : 963، دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت)(سنن ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر: 1272، دار الفكر - بيروت)
جس ہستی کے رخ زیبا کےوسیلے کا یہ کمال کہ ،، جیسے ہی اس رخ انور کے توسل سے دعا مانگتے رب خالی جھولیوں کو اسی وقت مرادوں سےبھرنا شروع فرمادیتا ۔
توسل کی دلیل نمبر 7 : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی ۔ (بخاری شریف، کتاب الاستسقاء،حدیث نمبر964 دار ابن كثير اليمامة بيروت،چشتی)
جس کی رب کائنات جل جلالہ نے یہ عظمت و شان رکھی ہو کہ جس کسی کو فقط اس سے نسبت ہو جائے اس کے بھی وسیلے سے کوئی دعا کی جاتی تو رب اپنی رحمتوں کی بارش ان پر چھما چھم برسانا شروع فرمادیتا تو وہ ہستی کسی کے لئے رب کی بارگا ہ میں دعا کے واسطے اپنے دست مبارک کو بلند فرمائیں تو رب کی کیسی رحمتیں اس شخص پر برستی ہونگی ۔
اے گناہگارو ! اے شفاعت کے طلب گارو ! اے غم کے مارو ! اٹھو ابھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی حاجات و پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے عرض کرو خدا کی قسم گر یہ دست پاک تمہارے واسطے اٹھ گئے ۔۔۔ تو تمہارا بیڑہ پار ہے اور کیوں نہ اٹھے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب تعالی نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نرم دل بنا کر بھیجا ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الۡاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیۡنَ ۔
ترجمہ : تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہاری گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللّٰہ کو پیارے ہیں ۔ (العمرآن آیت 159)
شفاعت کرنا یہ بھی از قسم وسیلہ اور دعا ہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق تبارک وتعالی کے حضور اپنے گناہگار امتی کے گناہوں کی معافی کی دعا کریں گے اور رب تعالی اپنے بندوں کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل (وسیلہ سے) معاف فرمائے گا ۔ معاف رب عز و جل نے ہی فرمانا ہے مگر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بھی دِکھانا ہے ۔
توسل کی دلیل نمبر 8 : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ ۔
یعنی : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔: (غیر مقلدین کے مشہور و مستند عالم اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں
قال الشيخ الألباني : صحيح ۔ )(ترمذی شریف، کتاب الدعوات حدیث نمبر: 3578، دار إحياء التراث العربي - بيروت)(ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر : 1385، دار الفكر - بيروت،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے وسیلے سے دعا کرنے کا طریقہ بیان فرما رہے ہیں اور چاہتے تو صحابی کواس نماز کا حکم نہ دیتے بلکہ فورا ان کے واسطے دعا فرماتے مگر چونکہ اپنے گناہگار امتیوں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کرنا مقصود تھا ۔۔۔کہ،، اے میرے امتیوں میرے وسیلے سے دعا کرنا چاہتے ہو تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی پابندی کرنا ۔۔۔کسی حال میں بھی نماز قضا نہ کرنا۔۔۔ کہیں ایسا نہ کرنا کہ میرے نام کے وسیلے سے دعا مانگتے رہو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز سے غفلت برتو۔۔۔ بلکہ اس عمل کو غو ر سے دیکھ لو کہ میرا صحابی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک (بینائی) کے لئے آیا تو میں نے اس کواپنی آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا حکم دیا اور پھر اپنے وسیلے سے دعا کرنے کو کہا ۔
تو آج وہ حضرات اپنے اعمال پر غو ر کریں کہ جو نبی علیہ السلام کے سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں مگر اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کوحاضر نہیں ہوتے شریعت پر عمل نہیں کرتےاور حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے کس قدر محبت فرمایا کرتے تھے روایتوں میں آتا ہےکہ آپ علیہ السلام جب کبھی کسی اہم کام کی طرف متوجہ ہوتے تو سب سے پہلے اپنے رب عزوجل کے حضورنماز کے لئے حاضر ہوتے تو نبی علیہ السلام کے و سیلہ سے دعا مانگنے کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو بھی اپناؤ یہی حقیقی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔(جاری ہے)(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment