Monday, 16 July 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصالحین علیہم الرّحمہ کا وسیلہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصالحین علیہم الرّحمہ کا وسیلہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی ۔ (بخاری شریف، کتاب الاستسقاء، 1 / 342، الرقم : 964، کتاب فضائل الصحابة، 3 / 1360، الرقم : 3507، ابن خزيمة ، 2 / 337، الرقم : 1421، ابن حبان ، 7 / 110، الرقم : 2861، طبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، بيهقي سنن الکبریٰ، 3 / 352، الرقم : 6220)

حضرت عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا : وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے ۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، 1 / 342، الرقم : 963، ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 405، الرقم : 1272،مسند أحمد بن حنبل ،2 / 93، الرقم : 5673، 26، بيهقي سنن الکبریٰ، 3 / 352، الرقم : 6218 - 6219،تاريخ بغداد، خطيب البغدادی، 14 / 386، الرقم : 7700، تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم : 1009،امام عسقلانی البداية والنهاية، 4 / 2، 471، علامہ ابن کثیر،چشتی)

حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما ۔ (ترمذی شریف، کتاب الدعوات 5 / 569، الرقم : 3578، ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 441، الرقم : 1385،نسائی شریف، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495)

حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ان لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور ان کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو بے شک تمہیں اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔ (بخاری شریف، کتاب الجهاد،3 / 1061، الرقم : 2739، ابو داودشریف، کتاب الجهاد، 3 / 32، الرقم : 2594، نسائی شریف، کتاب الجهاد، 6 / 45، الرقم : 3179، ترمذی شریف، کتاب الجهاد 4 / 206، الرقم : 1702،مسند، 5 / 198، الرقم : 21779، امام حمد بن حنبلسنن الکبري، 3 / 30، الرقم : 4388،چشتی)

حضرت عتبہ بن عزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے اور وہ کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہے : اے اﷲ کے بندو! میری مدد کرو، اے اﷲ کے بندو! میری مدد کرو، یقینًا اﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) اور یہ تجربہ شدہ بات ہے۔حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے اﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے اﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے ۔ (معجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518،طبرانی)

حضرت ابو جوزاء اوس بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی ’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا ۔ (سنن دارمی، 1 / 56، الرقم : 92، مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم : 5950،الوفاء بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 801،ابن جوزیشفاء السقام، 1 / 128، تقی الدين السبکیلمواهب اللدنية، 4 / 276، امام قسطلانی،چشتی)

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے اﷲ! یہ تیرے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے ۔ (مستدرک، 3 / 377، الرقم : 5438، مواهب اللدنية، 4 / 277، قسطلانی الاستيعاب، 3 / 98،جامع الصغير، 1 / 305، الرقم : 559، اما سيوطیفتح الباری، 2 / 497،قسطلا نی)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ محمد مصطفیٰ کون ہیں؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (جامع الأحاديث، 11 / 94،امام سیوطیمعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992،طبرانی مجمع الزوائد، 8 / 253، هيثمی) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...