استغاثہ اور استعانت
لفظِ استغاثہ کی لُغوی تحقیق : لفظِ استغاثہ کا مادۂ اِشتقاق ’’غ، و، ث‘‘ (غوث) ہے، جس کا معنی ’’مدد‘‘ کے ہیں۔ اِسی سے اِستغاثہ بنا ہے، جس کا مطلب ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اِستغاثہ کا لُغوی معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں : الغَوثُ : يقال فی النُّصرةِ، و الغَيثُ : فی المطرِ، واستغثته : طلبت الغوث أو الغيث. ترجمہ : غَوث کے معنی ’’مدد‘‘ اور غَیث کے معنی ’’بارش‘‘ کے ہیں اور استغاثہ کے معنی کسی کو مدد کے لئے پکارنے یا اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے ہیں ۔ (المفردات : 617)
لفظِ استغاثہ کا اِستعمال قرآنِ مجید میں بھی متعدّد مقامات پر ہوا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابۂ کرام کی اﷲ ربّ العزت کے حضور فریاد کا ذکر سورۂ انفال میں یوں وارِد ہوا ہے : اذْ تَسْتَغِيْثُونَ رَبَّکُمْ . ترجمہ : جب تم اپنے ربّ سے (مدد کے لئے) فریاد کررہے تھے ۔ (الانفال، 8 : 9)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم کے ایک فرد کا مدد مانگنا اور آپ کا اُس کی مدد کرنا، اِس واقعے کو بھی قرآنِ مجید نے لفظِ استغاثہ ہی کے ساتھ ذِکر کیا ہے۔ سورۂ قصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه .
ترجمہ : تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ (القصص، 28 : 15)
اَہلِ لُغت کے نزدیک استغاثہ اور استعانت دونوں اَلفاظ مدد طلب کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ استعانت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : وَ الْاسْتِعَانَةُ : طَلَبُ الْعَوْن . ترجمہ : استعانت کا معنی مدد طلب کرنا ہے ۔ (المفردات : 598،چشتی)
لفظِ استعانت بھی قرآنِ مجید میں طلبِ عون کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں بندوں کو آدابِ دُعا سکھاتے ہوئے قرآنِ مجید فرماتا ہے : ايَّاکَ نَسْتَعِيْنُ ۔
ترجمہ : اور ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (سورہ فاتحه ، 1 : 4)
اِستغاثہ کی اَقسام : عرب اَہلِ لُغت اور مفسرینِ قرآن کی تصریحات کے مطابق اِستغاثہ کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔ جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں : (1) استغاثہ بالقول ۔ (2) استغاثہ بالعمل ۔
مُشکل حالات میں گِھرا ہوا کوئی شخص اگر اپنی زبان سے اَلفاظ و کلمات اَدا کرتے ہوئے کسی سے مدد طلب کرے تو اِسے اِستغاثہ بالقول کہتے ہیں اور مدد مانگنے والا اپنی حالت و عمل اور زبانِ حال سے مدد چاہے تو اِسے اِستغاثہ بالعمل کہیں گے ۔
اِستغاثہ بالقول : قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے اِستغاثہ بالقول کی مثال یوں مذکور ہے : وَ أَوْحَيْنَآ الٰی موسیٰ اذِ اسْتَسْقٰهُ قَوْمُه أَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ .
ترجمہ : اور ہم نے موسیٰ کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو ۔ (سورۃ الاعراف، 7 : 160،چشتی)
اِسلام دینِ فطرت ہے اور سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء کا دِین ہے۔ عقیدۂ توحید تمام انبیاء کی شرائع میں بنیادی اور یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ شریعتِ مصطفوی سمیت کسی بھی شریعت کی تعلیمات کے مطابق اَللہ ربّ العزّت کے سِوا مددگارِ حقیقی کوئی نہیں، جبکہ اِس آیتِ مبارکہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا اِستغاثہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ عمل شِرک ہوتا تو اِس مطالبۂ شِرک پر مبنی معجزہ نہ دکھایا جاتا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی اَنبیائے کرام علیہم السلام سے خلافِ توحید کوئی مطالبہ کیا گیا تو اُنہوں نے شِرک کی تمام تر راہیں مسدُود کرنے کے لئے اُس سے منع فرمایا۔ دُوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورۃُ الصّدر آیتِ کریمہ میں اَللہ تعالیٰ قومِ موسیٰ کے اِستغاثہ پر خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اِظہارِ معجزہ کی تاکید فرما رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی کارساز تو بلا ریب میں ہی ہوں مگر اے موسیٰ علیک السلام! میں اِظہارِ معجزہ کے لئے اپنے اِختیارات تمہیں تفویض کرتا ہوں ۔
اِستغاثہ بالعمل : مصیبت کے وقت زبان سے کسی قسم کے اَلفاظ ادا کئے بغیر کسی خاص عمل اور زبانِ حال سے مدد طلب کرنا استغاثہ بالعمل کہلاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِستغاثہ بالعمل کے جواز میں بھی اﷲ تعالیٰ کے محبوب و مکرم انبیاء علیہم السلام کا واقعہ مذکور ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اُن کے والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی کثرتِ گریہ کی وجہ سے جاتی رہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حقیقتِ حال سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے اپنی قمیض بھائیوں کے ہاتھ والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی طرف بغرضِ اِستغاثہ بھیجی اور فرمایا کہ اِس قمیض کو والد گرامی کی آنکھوں سے مَس کرنا، بینائی لوٹ آئے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اِس واقعہ کا ذکر اَﷲ ربّ العزّت نے کلامِ مجید میں کچھ اِن الفاظ میں کیا ہے : اذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِيْ يَأْتِ بَصِيْراً .
ترجمہ : میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہو جائیں گے ۔ (سورہ يوسف، 12 : 93)
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب وہ قمیض لے جا کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے مَس کی تو وہ فی الحقیقت مشیّتِ اَیزدی سے بینا ہو گئے۔ قرآنِ مجید میں ہے : فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ أَلْقَاهُ عَلٰی وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً.
ترجمہ : پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی ۔ (سورہ يوسف، 12 : 96)
اَﷲ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا عملِ مبارک جس سے اُن کی بینائی لوٹ آئی ، عملی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے اِستغاثہ ہے۔ یہ اِستغاثہ بالعمل کی بہترین قرآنی مثال ہے، جس میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیض اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حصولِ بینائی کا وسیلہ و ذرِیعہ بنی ۔ منکرین استغاثہ کیا فتویٰ لگائیں گے یہاں ؟ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment