Sunday 15 July 2018

استعانت، استمداد ،استغاثہ اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ سوم

0 comments
استعانت، استمداد ،استغاثہ اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ سوم

ہم نے جب اس بات کو قرآن و احادیث مبارکہ سے جان لیا ۔ کہ : حضرات انبیاء کرام علیہم السّلام و اولیائے کاملین علیہم الرّحمہ کے وسیلہ کا انکار قرآن و حدیث میں نہیں ملتا ۔۔۔ بلکہ قرآن حدیث سے وسیلے کے جائز ہو نے کا اثبات ہے ۔ توا ب اگر دِل میں یہ وہم پیدا ہو ۔ کہ ۔۔ ان آیا ت واحادیث سے ظاہری زندگی میں وسیلہ بنانے کا بیان ہے ۔۔۔۔ اگرچہ بعد از وفات وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔ مگر کیا دنیا میں تشریف آوری سے قبل اور دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی وسیلہ بنانے پر کوئی واضح دلیل ہے ؟
تو آئیے اس وہم کا ازالہ فرمایئے :

بعثت سے قبل اور بعد از وفات ظاہری وسیلہ بنانے کی دلیل

بعثت سے قبل

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل پچھلی امتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے تو رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے انکی خالی جھولیوں کو مراد سے بھر دیتا ۔

توسل کی دلیل نمبر 9 : وَلَمَّا جَآءَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ۙ وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۔
اور جب ان کے پاس اللّٰہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللّٰہ کی لعنت منکروں پر ۔ (سورہ البقرۃ آیت 89)

توسل کی دلیل نمبر 10 : سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے ۔ مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے : (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ،چشتی)
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد-
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا-
(مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690)(معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243)(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457)(كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37)(تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)(شرح المواهب للزرقاني,ج,1,ص,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل،چشتی)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعثت (دنیا میں تشریف آوری) سے قبل آپ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز تھا تو آپ علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد ممانعت کیونکر بغیر کسی دلیل کے مانی جائے ۔ ذرا غور فرمائیے کہ انسان کوجب زمین پر بھیجا گیا تو رب تعالی نے انسان کی سب سے پہلی دعا جو قبول فرمائی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تھی اور وہ دعا بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے وسیلہ سے قبول فرمائی گئی ۔ اور کل بروز قیامت میدان حشر میں بھی سب سے پہلی دعا جو قبول کی جائے گی وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے وسیلے سے کی جائے گی تمام لوگ انبیاء کرام علیھم السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے مگر لوگوں کی مراد پوری ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فر مائیں گے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم رب تعالی سے جلد حساب شروع فرمانے کی دعا فرمائیں گے اور رب تعالی دعا قبول فرمائے گا اور یہ نعمت بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے وسیلہ سے عطا فرمائے گا ۔
درحقیقت بات یہ ہے کہ رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو وجہ تخلیق کائنات بتلایا اور جب انسان کو زمین پر اتارا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی شان دیکھائی جب انسان کوقبر میں اتارا جاتا ہے تو وہاں بھی اپنے نبی کی شان دیکھاتا ہے اور جب حشر کا میدان ہوگا وہاں بھی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی دعا سےحسا ب شروع فرماکر ان کی شان دیکھائے گا کوثر عطا و مقام محمود عطا فرماکر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی شان دیکھائے گا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو رب نے ایسے اوصاف عطا فرمائے ہیں کہ ایسی شان کسی اور نبی علیہ السلام کو رب کائنات جل جلالہ نے عطا نہ فرمائی ۔

بعد از وفات ظاہری توسل

توسل کی دلیل نمبر 11 : امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311)(شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371، دار الکتب العلمیۃ)(احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی میں اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے ، حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے ، بلکہ علامہ ابن تیمیہ نے کہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کو فتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح لکھا ہے،چشتی)

اس سے معلو م ہوا کہ صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے توسل کو فقط آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہ کیا بلکہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اس توسل کے طریقہ کو نبی علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی جاری رکھا تو جب صحابی رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کا خود کا عمل یہ واضح کررہا ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا وسیلہ بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی و فات ظاہری کے بعد بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیاتی میں جائز امر تھا اگر بعد وفات ناجائز ہوتا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے صحابی ہرگز اس طرح کےعمل کی تعلیم کسی دوسرے کو نہ دیتے اور و ہ صاحب قرون ثلاثہ بھی اس عمل کو نہ اپناتے بلکہ ناجائز ہی بتلاتے لہذا صحابہ کا بعد وفات ظاہری بھی اس عمل کو جاری رکھنا اس کے جائز ہونے پرواضح دلیل ہے۔
نیز اگر بعد از وفات یہ ناجائز ہوتا تونبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلّم بھی جب اپنے صحابہ کو اپنے وسیلہ سے دعا کی تعلیم ارشاد فرمارہے تھے ضرور اس بات پر بھی متنبہ فرماتے کہ اے میر ے صحابی میرے وسیلہ سے دعا تم میری حیاتی تک کرنا اس کے بعد نہ کرنا کیونکہ یہ ایک لازمی امر ہے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اپنے وسیلہ سے دعا کی مطلق تعلیم دی تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے وسیلہ سے دعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی حیاتی میں اور ظاہری وفات کے بعد بھی جائز ہے اسی لئے حضرت عثمان بن حنیف نے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے پردہ فرماجانے کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھا کیونکہ کوئی ایسا قرینہ تھا ہی نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ یہ حکم فقط نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی حیات مبارکہ تک ہے ۔

توسل کی دلیل نمبر 12 : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتا ب مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ.
ترجمہ : مالک بن دینار جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے پھر وہ حضرت عمر کے پاس گئے اور ان کو خبر دی حضر ت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا کہ اے اللہ میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف بن ابی شیبہ حدیث نمبر 32665) ، اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے بھی روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت صحيح ہے البدایہ والنہایہ ج۷صفحہ۹۱ دار الفکر بیروت) ، اسی طرح اما م المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو صحیح فرمایا ہے اور فرمایا کہ وہ خواب دیکھنے والے صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ (فتح الباری جلد ۲ صفحہ۴۹۵نشر الکتب اسلامیہ)(سنن بیہقی، وفاء الوفاء ، انجاح الحاجہ ، ابن عبدالبر،چشتی)

صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ دیکھیئے معلوم تھا کہ جس بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں وہ حیات میں وہ میری فریاد کو سنیں گے بھی اور اپنی امت کی مدد بھی فرمائیں گے اور رب کے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلّم رحمت کی بارش کی دعا کریں گے پھر رب تعالی اپنے بندوں پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے صدقے میں رحمت بھری بارش نازل فرمائے گا ۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اپنے غلام صادق پر کرم فرمایا اور خواب میں تشریف لا کر یہ بتلا دیا کہ اے میرے غلاموں مایوس نہ ہو میں اپنے غلاموں کی رب تعالی کے عطا سے فریاد سنتا ہوں اور پھر رب ہی کے اذن و عطا سے ان کی مدد بھی کرتا ہوں ۔

اگر اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے بارش وغیرہ کے لئے مدد مانگنا شرک یا حرام ہوتا تو صحابہ کرم رضی اللہ عنہم یہ عمل ہرگز نہ اپناتے اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سارا واقعہ بیان کیا اگر یہ ناجائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آنے والے صحابی رضی اللہ عنہ کو اس عمل کے ناجائز ہو نے کا جواب ارشاد فرماتے بلکہ آپ کا اس کی تصدیق فرمانا اس کے جائز ہونے پر دلیل ہے ۔ نیز یہ بھی غور طلب امر ہے کہ بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر جزم فرمایا اگر یہ ناجائز یا شرک ہوتا معاذا للہ تو اس قدر بلند پایہ کے علماء و فقہاء و محدثین علیہم الرّحمہ اس حدیث کے صحیح ہونے کا حکم لگانا توکجا وہ اس کے موضوع ہونے کا حکم بیان فرماتے اور وسیلے کے ناجائز وشرک ہونے کو ضرور بیان فرماتے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔