قبر میں بھی کام آئیں گے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز کسوف سے) فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی ایسی چیز نہیں جسے میں نے اپنی اس جگہ پر دیکھ نہ لیا ہو یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہارا امتحان ہو گا۔ دجال کے فتنے جیسی آزمائش یا اُس کے قریب تر کوئی شے۔ (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اس سے کہا جائے گا کہ اس شخص (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق تو کیا جانتا ہے ؟ جو ایمان والا یا یقین والا ہو گا وہ کہے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کے ساتھ تشریف لائے۔ ہم نے ان کی بات مانی، اِن پر ایمان لائے اور اِن کی پیروی کی۔ اسے کہا جائے گا : آرام سے سو جا، ہمیں معلوم تھا کہ تو ایمان والا ہے۔ اگر وہ منافق یا شک کرنے والا ہو گا (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تو کہے گا : مجھے نہیں معلوم میں لوگوں کو جو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی کہہ دیتا تھا ۔ ( بخاری شریف، کتاب الوضوء،1 / 79، الرقم : 182)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر کا امتحان میرے ہی بارے میں ہو گا اور (قبر میں) تم سے میرے ہی متعلق پوچھا جائے گا۔ پس اگر کوئی نیک آدمی ہو گا تو اسے بغیر کسی ڈر اور خوف کے اس کی قبر میں بٹھایا جائے گا، پھر اسے کہا جائے گا تو کس ملّت سے تھا؟ تو وہ کہے گا دین اسلام پر، پھر اس سے کہا جائے گا : یہ کون شخص ہیں جو تم میں موجود تھے؟ پس وہ کہے گا یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس واضح نشانیاں لے کر مبعوث ہوئے۔ پس ہم نے ان کی تصدیق کی پس اس سے کہا جائے گا کیا تو نے اﷲ کو دیکھ رکھا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ کوئی شخص اﷲ کو نہیں دیکھ سکتا پس جہنم کی طرف سے اس کی قبر میں سوراخ کر دیا جائے گا پس وہ اس کی طرف دیکھے گا کہ اس کا بعض اس کے بعض کو تباہ کر رہا ہے پھر اسے کہا جائے گا اس کی طرف دیکھ جس سے اللہ عزوجل نے تمہیں بچا لیا پھر جنت کی طرف سے اس کی قبر میں ایک سوراخ کر دیا جائے گا تو وہ اس کی رونق و جمال کی طرف دیکھے گا پس اُسے کہا جائے گا یہ ہے تیرا جنت میں ٹھکانہ، اور پھر اسے کہا جائے گا کہ تو یقین پر زندہ رہا اِسی پر مرا اور اِسی پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تجھے زندہ کیا جائے گا ۔ (ابن ماجہ شریف،کتاب الزهد،2 / 1426، الرقم : 4268،چشتی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس (معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) بدلہ میں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھے گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا ؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں ۔ (بخاری شریف،کتاب الجنائز، 1 / 462، الرقم : 1308)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو (مرنے کے بعد) قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں (دنیا میں) کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور (سچے) رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (سکون و اطمینان سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جا کر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں (نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ۔ جسے گھر والوں میں سے جو اسے محبوب ترین ہوتا ہے وہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے (اسی حال میں) اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (ان سوالات کے جواب میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر مِل جا بس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی (یعنی اسے دبائے گی) یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اسی حالتِ (عذاب) میں اس جگہ سے اٹھائے گا ۔ (ترمذی شریف،کتاب الجنائز،3 / 383، الرقم : 1071،چشتی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو پوچھتا ہے تو کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پس اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس عظیم ہستی (سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پس اس کے سوا اس سے کسی اور شے کے متعلق نہیں پوچھا جاتا اور اسی روایت میں ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے گھر والوں کو بشارت دوں، اسے کہا جاتا ہے کہ یہیں (عیش و عشرت سے) رہو ۔ (ابوداؤد شریف،کتاب السنة،4 / 238، الرقم : 4751 )
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں شامل ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! اس امت (کے لوگوں) کی قبر میں آزمائش ہوگی۔ پس جب انسان دفن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (اس کے پاس سے) منتشر ہو جاتے ہیں تو اس کے پاس فرشتہ جس کے ہاتھ میں گرز ہوتا ہے، اسے وہ بٹھاتا ہے اور کہتا ہے : اس ہستی (محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ پس اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور (افضل ترین) رسول ہیں۔ پس وہ (فرشتہ) اسے کہتا ہے : تو نے سچ کہا پھر اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور (فرشتہ) کہتا ہے : تیرا یہ ٹھکانہ ہوتا اگر تو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتا لیکن تو ایمان لایا پس تیرا یہ (جنت) ٹھکانہ ہے۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف دروازہ کھولا جاتا ہے۔ وہ شخص (فرحت و خوشی کے مارے بے اختیار ہو کر) اس دروازے کی طرف بڑھتا ہے تو فرشتہ اس سے کہتا ہے:ٹھہر جاؤ اور اس کے لئے اس کی قبر میں ہی وسعت پیدا کر دی جاتی ہے۔(مسند حنبل ، 3 / 3، الرقم : 11013، 14864)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment