کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہمارے جیسے بشر ہیں ؟
نورانیت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا موضوع الگ ہے اس مضمون میں صرف بشریت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق گفتگو ہوگی ۔ سب سے اول بات تو یہ ہے کہ انبیائے کرام بشر ہیں اور یہ قرآن سے ثابت ہے اور اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے، اہل سنت کا مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا بہار شریعت جلد اول حصہ اول عقائد متعلقہ نبوت میں پہلا عقیدہ ہی یہ لکھا ہے کہ نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ عزوجل نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔ اور اسی عبارت کے نیچے دوسرا عقیدہ یہ لکھا ہے کہ انبیا علیہم السلام سب بشر تھے اور مرد ، نہ کوئی جن نبی ہوا اور نہ عورت ۔ انبیا کرام بشر ہیں اس سے کون انکار کرتا ہے جب کہ یہ تو قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضور کو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں یا خود کو حضور جیسا بشر، اگر تو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں تو جو خصوصیات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوئیں وہ کسی دوسرے نبی کو نہ حاصل ہو سکیں تو ان کو کیسے حاصل ہو جائیں گی اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں تو سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا کیونکہ رب تعالیٰ تو ہر لمحہ ہر آن اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کو بلندی عطا فرماتا ہے جس کا ثبوت قرآن پاک کی بیشتر آیات میں ہے جیسے و رفعنا لک ذکرک اے محبوب ہم نے آپ کے ذکر کو آپ کے لئے بلند فرما دیا۔ اہلسنت کا نظریہ کہ انبیا کرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن ہم جیسے نہیں وہ بے مثل ہیں، مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے ہم پلہ نہیں۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 32 کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں . یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اے نبی کی بیبیوں تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ وہ عورتیں جن کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت زوجیت حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرما دیا کہ تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ،جب رب تعالیٰ نے ان عورتوں کو نسبت رسول کی وجہ سے دیگر عورتوں سے ممتاز فرما دیا تو اور کسی کی کیا جرات کہ وہ خود کو حضور کی مثل کہے یا حضور کو اپنی مثل کہے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ مزید اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں انی لست کاحدکم انی ابیت عند ربی فیطعمنی و یسقینی بے شک میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں پس وہی مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح جلد 4 صفحہ 118،123،134 میں ان الفاط کے ساتھ روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صوم وصال رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان نے عرض کی بلاشبہ آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی تم میں سے کون ہے میری مثل میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔ حوالہ کے لئے دیکھیں مسند الامام احمد جلد 2 صفحہ 21، 102، 231 اور الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 115 الموطا للامام مالک جلد 1 صفحہ 130 اور سنن الدارمی جلد 1 صفحہ 304 اور جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 163 اور سنن ابی داود جلد 2 صفحہ 279 اور صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 134 اور ایک روایت صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں پائی جاتی ہے ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقین تم میں میرا مثل کون ہے میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (بخاری شریف کے علاوہ مسلم شریف کے صفحہ 351 اور ابوداؤد صفحہ 335 پر بھی موجود ہے،چشتی)
بخاری شریف کی ایک روایت یوں ہے: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیتے تو ایسے اعمال و افعال بتاتے جو وہ بآسانی کر سکتے تھے یہاں پر صحابہ کرام عرض کرتے : انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ آقا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہم آپ کی مثل تو نہیں ہیں یہ بات انتہائی باعث عار اور گستاخی و بے ادبی کی علت ہے کہ ایک امتی اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے بے مثال نبی کی مثل ہونے کا دعویٰ کرے۔ ان ارشادات عالیہ سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بشریت کے متعلق تمام اشکالات ختم فرما دئے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایکم مثلی کے مخاطب صحابہ کرام ہیں جب اتنی برگزیدہ ہستیاں آپ کی مثل نہیں تو کسی اور کو اس دعوی کی کیا مجال ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی حق بات کو سمجھنے اور اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان شاء اللہ سطور ذیل میں فی الوقت نورانیت مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے مسئلہ کو الگ رکھتے ہوئے صرف حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے متعلق بالخصوص اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی بالعموم بے مثل بشریت پر قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل دیئے جائیں گے۔ سب سے اول اہلسنت کا عقیدہ بیان کرنا مناسب ہو گا جو یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح نہیں ، حق تعالیٰ نے ان کو بے مثل شان ، درجات رفیعہ، کمالات لازوال ، وجاہت ، عزت ، شوکت، رفعت، علو مرتبت اور عقول کو محو حیرت کر دینے والے معجزات سے ممتاز کیا ۔ اور یہ ساری شانیں ذات و صفات دونوں میں ودیعت فرمائیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صفات اپنا کوئی علحدہ وجود نہیں رکھتیں بلکہ ذات ہی میں ودیعت ہوتی ہیں ، کیسی نامعقول بات ہے کہ کوئی شخص انبیا ئے کرام علیہم السلام کی صفات کو بے مثل مانتا ہے لیکن ان کی ذات کو بے مثل ماننے میں اس کو تأمل ہے۔ مزید یہ کہ قرآن مجید کی کئی آیات اس بات پر ناطق ہیں اور ہر دور میں یہ تمام ائمہ کا متفق نظریہ رہا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کو اپنے جیسا بشر کہنا یا صرف بشر کہنا یہ شیطان اور منافقین و کفا ر کا طریقہ رہا ہے اور فرق اتنا ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کےادوار میں اور عہد رسالت میں بھی کفار و منافقین انبیاء کو بشر کہہ کر ان کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے رہے اور دور حاضر کے منافقین انبیا ء علیہم السلام اور بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہہ کر انبیا ئے کرام کے فضائل و کمالات ، رب تعالیٰ کے حضور ان کی قدر ومنزلت و وجاہت کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد اور انبیائے کرام سے بغض و عناد کے ان منافقین کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور بلاشبہ یہ دونوں جہان میں ذلت و رسوائی کا موجب ہے۔اور انبیاء کی بشریت پرنظر وہی لوگ کرتے ہیں جو بارگاہ لم یزل کے نافرمان ہوتے ہیں۔ مختصر تمہید کے بعد میں اب دلائل پیش کرتا ہوں: سب سے پہلے انبیاء کو بشر شیطان نے کہا چنانچہ پارہ ۱۴ الحجر آیت نمبر ۳۲ قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ترجمہ بولا مجھے زیبا نہیں کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بشریت ابلیس کے لئے حجاب بن گئی اور وہ رب تعالیٰ کے حکم کو نہ دیکھ سکا اور بارگاہ خداوندی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مردود قرار پایا ، چنانچہ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہوا قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۙ ترجمہ فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو مردود ہے اسی طرح اگلی امتوں کے لوگ انبیائے کرام علیہم السلام کو بشر کہہ کر کافر ہوئے ، چنانچہ پارہ ۲۸ التغابن آیت نمبر ۵ اور ۶ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْۤا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُؕ ترجمہ: کیا تمہیں ان کی خبر نہ آئی جنہوں نے تم سے پہلے کفر کیا اور اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے تو بولے کیا آدمی ہمیں راہ بتائیں گے تو کافر ہوئے اور پھر گئے اور اللہ نے بے نیازی کو کام فرمایا آیت مبارکہ نہایت واضح و صریح ہے کہ ان لوگوں کے کفر کی علت ان کا یہ قول اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ یعنی انہوں نے کہا کہ کیا بشر ہمیں راہ بتائیں گے تو رب تعالیٰ نے فرمایا فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا یعنی وہ کافر ہوگئے اور پھر گئے۔ صرف اسی قدر پر اکتفا کرتے ہوئے میں اب بات کرنا چاہوں گا کہ جب کفار نے انبیاء کو بشر کہا تو انبیائے کرام علیہم السلام نے ان کو کیا جواب دیا، چنانچ پارہ ۱۳ ابراہیم آیت نمبر ۱۱ میں ہے۔ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم ہیں تو تمہاری طرح انسان مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انبیائے کرام نے ان کو فرما دیا کہ تم ہمارے ظاہر کو دیکھ کر ہم کو اپنے جیسا سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو ، ہمارا ظاہر تو تمھاری طرح ہے لیکن وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِه اللہ جس بندے کو چاہتا ہے اپنے احسان سے ممتاز کردیتا ہے۔ اب اس کے بعد میں اس آیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی آڑ میں زمانہ حاضر کے منافقین اپنے مذموم نظریات کا واویلا کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ قرآن مجید میں دو مقامات پر ہے سورہ کہف آیت نمبر ۱۱۰ اور سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر ۶ ہے ، آئیے اب ان آیات کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ پارہ ۱۶ الکہف آیت نمبر ۱۱۰ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۱۱۰ تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔ پارہ ۲۴ حم السجدہ آیت نمبر ۶ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو ان دونوں آیات کا مکمل متن و ترجمہ پڑھنے کے بعد آپ کو اس ارشاد کی حکمت ، سبب نزول اور مخاطب کا بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے، چنانچہ پہلی بات کہ رب تعالیٰ نے یایھا البشر نہیں کہا بلکہ فرمایا قل یعنی آپ فرما دیجئے دوسری بات یہ کہ پہلے حصہ میں بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ فرمایا اور ساتھ ہی یہ امتیاز بھی بیان کردیا یُوْحٰۤى اِلَیَّ یعنی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ یعنی میرا ظاہر دیکھ کر مجھے اپنا مثل سمجھنے والو میری بشریت بھی تمھارے جیسی نہیں کیونکہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے، یہاں ضمنی طور پر ایک اور آیت پیش کرتا ہوں چنانچہ پارہ ۲۸ الحشر آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے۔ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔ قارئین کرام غور کریں وہ قرآن جو کہ پہاڑوں پر نازل ہوتا تو پاش پاش ہو جاتے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیا تو اندازہ کریں جس قلب پر رب کا قرآن نازل ہوا وہ کیسے ہماری مثل ہو سکتا ہے، فاعتبروا یا اولی الابصار پس یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل بشریت کا اعجاز ہے اور آپ کی اعلیٰ و ارفع بے مثل بشریت پر شاہد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔ تیسری بات ان دونوں آیت کریمہ میں توحید کے حوالے سے بیان ہوا اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ یعنی تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے اور پھر ان آیات کریمہ کے آخری حصہ پر غور کریں تو ان کے نزول کی حکمت واضح ہو جاتی ہے چنانچہ پہلی آیت کے آخر میں یوں ارشاد ہوا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا اور ثانی الذکر آیت کریمہ میں یہ الفاظ ہیں فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ یعنی ان آیات کی حکمت یہ تھی کہ میں الہ نہیں بلکہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے ، تم اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اوراس کے حضور توبہ کرو اور ہلاکت مشرکین کے لئے ہے۔ لہٰذا یہ آیات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع بشریت پر حجت تامہ ہیں اور منافقین کے لئے اس میں تاویلات فاسدہ کی کوئی راہ نہیں۔ اختصار کے پیش نظر فی الوقت اتنا ہی ورنہ ابھی دیگر آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع و بے مثل بشریت پر ناطق ہیں۔ الحمد للہ علی احسانہ مجھے اس عنوان پر یہ تیسرا کالم پیش کرنے کی توفیق رب تعالٰی کی بارگاہ لم یزل سے عطا ہوئی اس کالم میں پہلے دو مضامین سے ہٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند امتیازات کا ذکر کیا جائے گا جو کہ شریعت کے احکامات میں اللہ تعالٰی نے آپ کو عنایت فرمائے۔ اول فرق تمام امت مسلمہ کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا کلمہ لا الہ الا اللہ انی رسول اللہ ہے مزید یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے اسم مبارک کی برکت یہ ہے کہ کفار و مشرکین جن کو قرآن عظیم نے نجس بتایا جب وہ یہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیتا ہے تو اس کی تمام نجاست دور ہو جاتی ہے اور وہ رب تعالٰی کے انعامات کا دنیا و آخرت میں مستحق ہو جاتا ہے بشرط یہ کہ اس کا خاتمہ بھی اسی کلمہ پر ہو حالانکہ توحید کے ماننے والے اور بھی لوگ موجود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان نہیں اور ان انعامات کے مستحق نہیں کیونکہ انہوں نے زبان رسالت مآب سے تعلیم کردہ توحید کا اقرار نہیں کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ہمارے لئے ارکان اسلام پانچ ہیں کلمہ توحید و رسالت نماز روزہ زکوۃ اور حج جبکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زکوۃ فرض نہیں ۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی شافعی الخصائص الکبری جلد ۲ صفحہ نمبر ۵۱۶ پر فرماتے ہیں کہ زکوۃ ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ زکوۃ ادا کر کے طہارت مال حاصل کر کے ان لوگوں میں سے ہو جائیں جنہوں نے طہارت و پاکیزگی حاصل کر لی ہے اور انبیائے کرام اپنی عصمت کی وجہ سے ناپاکی سے پاک اور منزہ ہیں۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ امتیوں پر پانچ نمازیں فرض تھیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک نماز زائد تہجد یعنی کل چھ نمازیں فرض تھیں۔ امام جلال الدین سیوطی اپنی تصنیف الخصائص الکبری کی دوسری جلد اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوۃ کی پہلی جلد میں حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے لئے سنت ہیں ایک وتر دوم مسواک سوم نماز تہجد چوتھا فرق نماز کی امامت میں قیام کے متعلق ہے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی حالانکہ فرض نماز میں قیام کرنا فرض ہے چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کے علاوہ دارقطنی سنن بیہقی اور خصائص کبری میں یہ حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:میرے بعد کوئی بیٹھ کر امامت نہ کرے۔ پانچواں فرق یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے لیکن امت کو اس سے منع فرمایا اور خود ان دو رکعتوں کو سفر و حضر میں کبھی ترک نہ فرمایا اور ان پر مداومت اختیار فرمائی۔ حوالہ کے لئے مدارج النبوۃ جلد اول صفحہ ۷۱۲ ششم فرق یہ ہے کہ ہمارا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وضو سونے سے نہیں ٹوٹتا چنانچہ امام بخاری و مسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے رات کو وضو فرمایا اور نماز پڑھ کو سو گئے یہاں تک کہ میں نے خرخراہٹ کی آواز سنی اس کے بعد مؤذن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر نماز کے لئے تشریف لے گئے اور وضو نہیں فرمایا۔ ہفتم فرق یہ کہ امتیوں کو بیک وقت چار عورتوں سے نکاح جائز جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس سے زائد بھی مباح تھا اور اس پر تمام امت کا اجماع ہےاور تفسیر خزائن العرفان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ازواج کا نصاب بیک وقت نو تحریر فرمایا گیا ہے۔ ہشتم فرق امتی کی بیوہ عورت کا نکاح ثانی ہو سکتا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج پر نکاح ثانی حرام ہے اور مزید یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج پر عدت بھی نہیں ، اس حرمت کی ایک علت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج امہات المؤمنین ہیں اور ماں کے ساتھ اولاد کا نکاح جائز نہیں نہم فرق یہ ہے کہ امتی کی وراثت تقسیم ہوتی ہےجبکہ انبیائے کرام کی نہیں ہوتی چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیا وہ ہیں جو نہ کسی کی میراث لیتے ہیں اور نہ ہماری میراث کوئی لیتا ہےجو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ حوالہ کے لئے مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۷۵۶ دہم فرق یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول و براز یعنی پیشاب و پاخانہ اور خون پاک اور طاہر ہے چنانچہ فتاوی شامی باب الانجاس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات شریف امتی کے حق میں پاک بلکہ باعث برکت ہیں کیونکہ آپ کے جسم اقدس سے جو کچھ خارج ہوتا تھا وہ پاک تھا۔ امام بیہقی و دارقطنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نے آپ کو بیت الخلاء جاتے دیکھا پھر آپ کے بعد میں گئی تو میں نے خارج ہونے والی چیز کا کوئی نشان نہ دیکھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا اے عائشہ تم نہیں جانتی اللہ عزوجل نے زمین کو حکم دیا ہے کہ انبیائے کرام سے جو فضلہ خارج ہو وہ اسے کھا جائے مدارج النبوۃ میں ہے کہ ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پیالہ میں پیشاب فرمایا اور حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ اس کو زمین کے سپرد کردیں تو حضرت ام ایمن نے اس کو پی لیا جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تبسم فرمایا اور نہ ان کو منہ دھونے کا حکم دیا نہ ہی دوبارہ ایسا کرنے سے منع فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اب تمہیں کبھی پیٹ کا درد لاحق نہ ہو گا۔ سبحان اللہ الخصائص الکبری میں ہے کہ جنگ احد میں صحابی رسول حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کا خون چوس کر نگل گئے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے خون میں میرا خون شامل ہوجائے اسے آتش دوزخ نہیں چھو سکتی اور جو خواہش رکھتا ہے کہ کسی جنتی شخص کو دیکھے تو وہ انہیں مالک بن سنان کو دیکھ لے۔ بطور نمونہ چند خصائص پیش کیے ہیں اور وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے خصائص تو لا متناہی ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment