Wednesday 4 July 2018

شرک کی تعریف و اقسام

0 comments
 شرک کی تعریف و اقسام

شرک کی تعریف : علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب شرح عقائدِ نسفی میں شرک کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں : کسی کو شریک ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ مجوسیوں کی طرح کسی کو الہٰ (خُدا) اور واجب الوجود سمجھا جائے یا بُت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے ۔

شرک کی تعریف سے معلوم ہوا کہ دو خداؤں کے ماننے والے جیسے مجوسی (آگ پرست) مشرک ہیں اسی طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا مشرک ہو گا جیسے بُت پرست جو بتوں کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہیں ۔

شرک کی اقسام شرک کی تین اقسام ہیں

(1) شرک فی العبادۃ

(2) شرک فی الذات

(3) شرک فی الصفّات

(1) شرک فی العبادۃ سے مُراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے ۔

(2) شرک فی الذات سے مُراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا، جیسا کہ مجوسی دوخداؤں کو مانتے تھے۔

(3) شرک فی الصفّات سے مراد کسی ذات و شخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا شرک فی الصفّات کہلاتا ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ... یا ... کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ... یا ... فوت شدہ میں ،
کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں ... یا ... دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گا جو ناقابلِ معافی جرم اور ظلمِ عظیم ہے ۔ شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتا ہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتا ہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں ۔

(1) اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے : اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ 2، آیت 143)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ذکرہے کہ : لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ ۔ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں ۔ (سورۂ توبہ، آیت 128 پارہ 11،چشتی)

پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟
اس میں تطبیق یوں قائم ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اور رحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اور رحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہو جائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔

(2) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ ترجمہ : تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔ (سورۂ نمل، آیت 65 پارہ 20)

جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ۔ ترجمہ : غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا ۔ (سورۂ جن، آیت 26/27 پارہ 29)

علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہو گیا ۔
اس میں تطبیق یوں قائم ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہو جائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا ۔

(3) مدد گار صرف اللہ تعالیٰ ہے : جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتاہے کہ : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔ ترجمہ : یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔
(سورۂ محمد ، آیت 11 پارہ 26)

جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکرہے کہ : فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْ مِنِیْنَ
ترجمہ : بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اور نیک مومنین مددگار ہیں۔
(سورۂ تحریم ، آیت 4 پارہ 28)

پہلی آیت پر غور کریں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اوراولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہو گیا ؟
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام وراولیاء کرام ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں ۔

جو ذات باری تعالیٰ عطا فرما رہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جا رہا ہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اور جب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟

خوب یاد رکھیں : کہ جہاں باذنِ اللہ اورعطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اور ناممکن ہو جاتا ہے ۔

اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم شرک پر متفق نہیں ہو گی ۔ جیساکہ بخاری شریف میں ہے کہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اورتم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اوربیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔ (بخاری شریف جلد اول، کتاب الجنائز، رقم الحدیث 1258 ص 545 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔