Wednesday 31 May 2023

چھ کلمے قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دوم

0 comments

چھ کلمے قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دوم

ہمارے ہاں عموماً بچوں کو چھ کلمے یاد کروائے جاتے ہیں ، بلکہ چھوٹوں بڑوں ، سب کو یہ کلمے یاد کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ، بعض لوگ اس بارے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر اعتراض کرتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ کلمے کہاں سے ثابت ہیں ؟ کہاں لکھے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ پہلے چار کلموں کے الفاظ تو بعینھا احادیثِ طیّبہ میں موجود ہیں البتہ بقیہ دو کلموں کے الفاظ مختلف احادیث و روایات میں متفرق طور پر موجود ہیں ، لہٰذا اس اعتبار سے ان چھ کلموں کی اصل احادیثِ طیّبہ سے ملتی ہے ۔ اور ان کلموں کو جمع کرنے اور یاد کروانے نیز اسے رواج دینے کی حکمتوں میں سے دو نمایاں حکمتیں ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں : (1) ان کے ذریعے عوام کو بنیادی عقائد و احکام یاد کروائے جا سکیں ۔ (2) ان میں موجود کلمات کے جو مخصوص فضائل مختلف احادیث مبارکہ بیان کیے گئے ہیں ، انہیں حاصل کیا جا سکے ۔ کچھ ہم حصّہ اوّل میں لکھ چکے ہیں ۔ مزید درج ذیل ہیں : ⬇

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں آیات نازل کیں جن میں ایک سرکش قوم کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ﴿یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں تو یہ سرکشی کرنے لگتے﴾ ۔ اللہ تعالی نے مزید فرمایا: ﴿جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ہٹ دھرمی پیدا کرلی تو اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنوں پر سکون نازل کیا اور انہیں تقوی کے کلمہ کا پابند کیا جو اس کے سب سے زیادہ حقدار اور لائق تھے﴾ اور یہ کلمہ ”لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ“ ہے جس سے مشرکین نے حدیبیہ کے دن سرکشی کی جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدت کے سلسلے میں ان سے معاہدہ کیا ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ج 1 ص 263 رقم 195۔ مکتبة السوادی جدة الطبعة الأولی ، وإسناده صحيح وأخرجه ايضا الطبري في تفسره (٢٢/ ٢٥٢) من طريق يحيى بن سعيد ، وأخرجه ايضا الحنائي في فوائده (1/ 154،چشتی) و ابن منده في الإيمان (١/ ٣٥٩) كلاهما من طريق شعيب بن أبي حمزه كلهم (أسحاق بن يحيي و يحيي بن سعيد و شعيب بن أبي حمزه) عن الزهري به) ۔ امام أبو القاسم الحسين بن محمد الحنائي (المتوفی 459) نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا : هذا حديث صحيح ” یہ حدیث صحیح ہے ۔ (فوائد الحنائي 1/ 154)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ". فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا، فَقَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ۔ (الصافات: 35) ، وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۔ (الفتح: 26) ، وَهِيَ ‌لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ ‌اسْتَكْبَرَ ‌عَنْهَا ‌الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَكَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ ”لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ“ کہیں، جس نے ”لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ“ کہہ لیا تو اس نے مجھ سے پانے مال اور اپنی جان کو محفوظ کرلیا، سوائے شرعی حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا اور ایک قوم کا ذکر کیا جس نے تکبر کیا اور فرمایا: ان کی حالت یہ تھی کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے تھے“[سورۃ الصافات:35] اور فرمایا: جب کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی، پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی تسکین اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی، اور ان کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا، اور وہ اس کے لائق اور قابل تھے۔[سورۃ الفتح:26] اور وہ پرہیزگاری کا کلمہ ”لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ“ تھا صلح حدیبیہ کے دن مشرکوں نے اس سے تکبر کا اظہار جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صلح کا معاہدہ لکھایا تھا ۔ [الإيمان-ابن منده:199+200، الأسماء والصفات للبيهقي:195، الجامع الكامل في الحديث الصحيح:11/107]
تفسير الطبري:22/252، تفسير ابن أبي حاتم:18173، تفسير القرطبي:15/76، الدر المنثور:7/87)

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا} [الكهف: 82] قَالَ : " كَانَ ‌لَوْحٌ ‌مِنْ ‌ذَهَبٍ مَكْتُوبٍ فِيهِ ‌لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللهِ عَجَبًا لِمَنْ يَذْكُرُ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ كَيْفَ يَفْرَحُ، وَعَجَبًا لِمَنْ يَذْكُرُ أَنَّ النَّارَ حَقٌّ كَيْفَ يَضْحَكُ، وَعَجَبًا لِمَنْ يَذْكُرُ أَنَّ الْقَدَرَ حَقٌّ كَيْفَ يَحْزَنُ، وَعَجَبًا لِمَنْ يَرَى الدُّنْيَا وَتَصَرُّفَهَا بِأَهْلِهَا حَالًا بَعْدَ حَالٍ كَيْفَ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهَا "۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (آیت:) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا ۔ [سورۃ الکھف:82] کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : وہ خزانہ سونے کی ایک تختی تھی جس میں لکھا ہوا تھا : لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ ۔ تعجب ہے مجھے ایسے شخص پر جو موت کو حق سمجھتا ہے اور پھر بھی خوش ہوتا ہے ، تعجب ہے مجھے ایسے شخص پر جو دوزخ کو حق سمجھتا ہے اور پھر ہنستا ہے ، مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو تقدیر کو حق سمجھتا ہے اور پھر بھی رنج و غم میں مبتلا ہوتا ہے ، اور تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو دیکھتا ہے اور اسی کی اپنے اہل کے ساتھ حشر آرائیاں دیکھتا ہے پھر بھی اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔ (شعب الإيمان للبيهقي:209، الزهد الكبير للبيهقي:545،چشتی) ۔ اسی طرح ایک روایت حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ (مسند البزار:4065، تفسير ابن أبي حاتم:12880) ۔ اسی طرح ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ (الدعاء للطبراني:1629، الزهد الكبير للبيهقي:544، تلخيص المتشابه في الرسم : 2 / 838) ۔ اسی طرح ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ (تفسير الماوردي:3/336، تفسير السمرقندي:2/358)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم : {لما عرج بِي إِلَى السَّمَاء} ‌دَخَلتُ ‌الْجَنَّةَ ‌فَرَأَيْتُ في عَارِضَتَى الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا ثَلَاثَةَ أَسْطرٍ بِالذَّهَبِ، السَّطرُ الأَوَّلُ: ‌لَا ‌إِلَه ‌إِلَّا ‌اللَّه، ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّه، وَالسَّطْرُ الثَّانِى: مَا قَدَّمْنَا وَجَدْنَا، وَمَا أَكَلْنَا رَبِحْنَا وَمَا خَلَّفْنَاهُ خَسِرْنَا، وَالسَّطْرُ الثَّالِثُ: أُمَّةٌ مُذنِبةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب (معراج میں) چڑھایا گیا مجھے آسمان کی طرف} میں جنت میں داخل ہوا اور جنت کے دونوں جانب پر تین سطریں سونے سے لکھی ہوئی دیکھیں، پہلی سطر میں لکھا تھا ”(لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ) اور دوسری سطر میں لکھا تھا کہ (جو ہم نے آگے بھیجا پالیا جو کھایا اس کا فائدہ اٹھالیا، اور جو پیچھے چھوڑا ، نقصان اٹھایا) اور تیسری سطر میں لکھا تھا کہ (امت تو گناہ کرنے والی ہے اور رب بہت بخشنے والا ہے) ۔ (مسند الفردوس للديلمي:5316)(الجامع الصغير : ‌‌6707،چشتی)(كنزالعمال:10395)

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ  : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ الَّذِي أَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى الْعَرْشِ، فَقَالَ: ‌أَسْأَلُكَ ‌بِحَقِّ ‌مُحَمَّدٍ ‌إِلَّا ‌غَفَرْتَ لِي ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٍ ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٍ ؟ فَقَالَ : تَبَارَكَ اسْمُكَ ، لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى عَرْشِكَ، فَإِذَا فِيهِ مَكْتُوبٌ : ‌لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمُ عِنْدَكَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِكَ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: يَا آدَمَ إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ، وَإِنَّ أَمَتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ، وَلَوْلَا هُوَ يَا آدَمُ مَا خَلَقْتُكَ ۔
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب آدمؑ نے جرم کا اعتراف کیا تو عرض کیا اے اللہ آپ سے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں مجھے معاف فرمادے ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ آپ نے محمد کو کی سے پہچان لیا حالانکہ میں نے ان کو ابھی تک پیدا نہیں کیا تو عرض کیا یا اللہ آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اس میں روح پھونکا میں نے سراٹھا کر دیکھا توعرش کے ستون پر لکھا ہوا تھا : ”لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌مُحَمَّدٌ ‌رَسُولُ ‌اللَّهِ“ تو مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے سب سے محبوب بندہ کے نام کو ہی ملایا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے سچ کہا اے آدم وہ میرے نزدیک تمام مخلوق میں محبوب ہیں جب ان کے وسیلہ سے سوال کیا تو میں نے معاف کردیا اگر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا ۔ (المعجم الأوسط للطبراني : 6502،چشتی)(المعجم الصغير للطبراني:992)(الشريعة للآجري:956)(تاريخ دمشق لابن عساكر:7/437)(السيرة النبوية لابن كثير : 1/320)(الدر المنثور في التفسير بالمأثور:1/142 سورة البقرة:37)

أَخْبَرَنَا أَبُو خَلِيفَةَ ، نَا أَبِي ، نَا عَرْعَرَةُ بْنُ الْبِرِنْدِ ، عَنْ عَزْرَةَ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ ثُمَامَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَن ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ : " كَانَ فَصُّ خَاتَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَبَشِيًّا ، وَكَانَ مَكْتُوبًا عَلَيْهِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سَطْرٌ ، وَمُحَمَّدٌ سَطْرٌ ، وَرَسُولُ اللَّهِ سَطْرٌ " ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مہر کا نگینہ حبشی تھا ، اور اس پر لکھا تھا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، (پہلی) سطر پر لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، اور (دوسری) سطر پر مُحَمَّدٌ ، اور  (تیسری) سطر پر رَسُولُ اللَّهِ ۔ (أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني » صِفْةُ لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ... » ذِكْرُ خَاتَمِهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ... » رقم الحديث: 338) ۔ سنده جید یعنی اس کی سند عمدہ ہے ۔ (عمدة القاري: 22/58)

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ الصَّفَّارُ الْبَغْدَادِيُّ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ جَمِيلٍ الرَّقِّيُّ ، ثنا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ أَوْ مَا فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ شَكَّ عَلِيُّ بْنُ جَمِيلٍ مَا عَلَيْهَا وَرَقَةٌ إِلا مَكْتُوبٌ عَلَيْهَا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ أَبُو بَكْرِ الصِّدِّيقُ عُمَرُ الْفاروقُ عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ " ۔ (المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ ... » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ ... رقم الحديث: 10937)

عَنْ علي بن أبي طالب ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رَأَيْتُ عَلَى الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ الْفَارُوقُ ، وَعُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ يُقْتَلُ مَظْلُومًا ۔ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » باب العين » حرف الياء » ذكر من اسمه عبد الرحمن، رقم الحديث: 3411)(ابن جوزی فی الواھیات بطوبقہ ابی الحمراء ذیل اللالی : 64)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے معراج کی رات عرش پر لکھا ہوا دیکھا : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، ابوبکر سچا ، عمر (حق وباطل میں) فرق کرنے والا، اور عثمان دو نور والا قتل ہوگا مظلوماََ ۔

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الأَنْبَارِيِّ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عِقَالٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَبِيبٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَكْتُوبٌ عَلَى الْعَرْشِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ الْفَارُوقُ ، عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ يُقْتَلُ مَظْلُومًا ۔
ترجمہ : حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عرش پر لکھا ہے کہ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، اور ابوبکر سچا ہے، عمر (حق و باطل میں) فرق کرنے والا، اور عثمان دو نور والا ظلماََ قتل ہوگا ۔ (فضائل أبي بكر الصديق ، امام القاسم علي بن بلبان المقدسي (سنة الوفاة:684) » رقم الحديث: 50)

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ : " تَدْرُونَ مَا عَلَى الْعَرْشِ مَكْتُوبٌ ؟ مَكْتُوبٌ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ الْفَارُوقُ ، عُثْمَانُ الشَّهِيدُ ، عَلِيٌّ الرِّضَا ۔ (تاريخ دمشق لابن عساكر (سنة الوفاة:571) » حَرْفُ الْخَاءِ » ذكر من اسمه عُثْمَان » عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ أُمَيَّةَ ...رقم الحديث: 40407)
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے فرمایا : تم جانتے ہو کہ عرش پر کیا ہے ؟ عرش پر لکھا ہے : لالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان شھید ، علی المرتضیٰ ۔

أنبأ ، أنبأ علي بْن عبيد اللَّه الرازي ، إجازة عن كتاب أبي حامد عَبْد الرحمن بْن مُحَمَّد بْن محمود الطبري ، و أحمد بْن إبراهيم بْن هجير ، و أبي معشر حبيب بْن نصر الصوفي ، قالوا :أَنْبَأَ أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الطَّبَرِيُّ الْمُفَسِّرُ فِي كِتَابِ التَّفْرِيدِ فِي فَضَائِلِ التَّوْحِيدِ مِنْ جَمْعِهِ ، ثنا الْقَاضِي أَبُو الْحَسَنِ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَاكٍ بِقَزْوِينَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الصَّلْتِ ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْهَاشِمِيُّ ، ثنا أَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ جَنَّةَ عَدْنٍ ، وَهِيَ أَوَّلُ مَا خَلَقَهَا اللَّهُ تَعَالَى ، قَالَ لَهَا : يَا جَنَّةَ عَدْنٍ تَكَلَّمِي ، فَتَكَلَّمَتْ ، فَقَالَتْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ۔ (سورة المؤمنون آية 1) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ دَخَلَ فِيَّ وَشَقِيَ مَنْ دَخَلَ النَّارَ ۔ (التدوين في أخبار قزوين للرافعي  » القول فيمن بعد الصحابة والتابعين  » حرف الباء في الآباء  » حرف العين في الآباء » رقم الحديث: 309،چشتی)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ نے جنتِ عدن کو پیدا فرمایا، جو اللہ کی تخلیقات میں پہلی چیز ہے تو اللہ نے اس کو فرمایا کلام کر ، وہ گویا ہوئی، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، یقیناً مومن لوگ فلاح پاگئے (سورۃ المومنون:1) بیشک جو شخص میرے اندر داخل ہوا کامیاب ہو گیا ، اور جو جہنم میں گیا نامراد ہوگیا ۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ الْمُخَرِّمِيُّ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلانِيُّ ، نَا عَبَّاسُ بْنُ طَالِبٍ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي مَجَازٍ ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " كَانَتْ رَايَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْدَاءَ وَلِوَاءُهُ أَبْيَضَ ، مَكْتُوبٌ فِيهِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَنْجُوَيهِ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ ، نَا ابْنُ وَهْبٍ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَهُ ۔ (المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الْأَلِفِ  » مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ ، رقم الحديث: 227)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ : تھا بڑا جھنڈا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کالا جبکہ چھوٹے جھنڈے کا رنگ سفید تھا ،  لکھا تھا اس میں :  لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سَهْلٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالُوا : ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، ثنا زَكَرِيَّا ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ ، ثنا أَشْعَثُ ابْنُ عَمِّ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، وَكَانَ يَفْضُلُ عَلَى الْحَسَنِ ، ثنا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَكْتُوبٌ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ , مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ يُخْلَقَ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ بِأَلْفَيْ عَامٍ ۔ (حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ » رقم الحديث: 10720)
ترجمہ : حضرت جابر رضی الله عنہ سے ، انہوں نے فرمایا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لکھا گیا جنت کے دروازے پر : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ،  آسمانوں اور زمیں کے دو ہزار سال پہلے ۔

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي ، أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِيٍّ حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَوْرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَزَّالُ ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حَمَّادٍ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ سِكَكِ الْمَدِينَةِ ، فَمَرَرْنَا بِخِبَاءِ أَعْرَابِيٍّ فَإِذَا ظَبْيَةٌ مَشْدُودَةٌ إِلَى الْخِبَاءِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ هَذَا الأَعْرَابِيَّ اصْطَادَنِي وَلِي خِشْفَانِ فِي الْبَرِيَّةِ ، وَقَدْ تَعَقَّدَ اللَّبَنُ فِي أَخْلافِي ، فَلا هُوَ يَذْبَحَنِي فَأَسْتَرِيحُ ، وَلا يَدَعَنِي فَأَرْجِعُ إِلَى خِشْفَيَّ فِي الْبَرِيَّةِ ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ تَرَكْتُكِ تَرْجِعِينَ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَإِلا عَذَّبَنِي اللَّهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ ، فَأَطْلَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ تَلْبَثْ أَنْ جَاءَتْ تَلَمَّظُ ، فَشَدَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْخِبَاءِ ، وَأَقْبَلَ الأَعْرَابِيُّ وَمَعَهُ قِرْبَةٌ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَتَبِيعُنِيهَا ؟ " قَالَ : هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَأَطْلَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ : فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُهَا تَسِيحُ فِي الْبَرِيَّةِ ، وَتَقُولُ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۔ (دلائل النبوة للبيهقي » الْمَدْخَلُ إِلَى دَلائِلِ النُّبُوَّةِ وَمَعْرِفَةِ ... » جُمَّاعُ أَبْوَابِ غَزْوَةِ تَبُوكَ » بَابُ : مَا جَاءَ فِي كَلامِ الظَّبْيَةِ الَّتِي فَجَعَتْ ...رقم الحديث: 2291،چشتی)

قَالَ : وَنَا قَالَ : وَنَا إِسْحَاقُ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ السَّقَطِيُّ ، نَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبُ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الضَّحَّاكِ ، نَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ ، نَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، نَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَخْرُجُ مُعَاوِيَةُ مِنْ قَبْرِهِ وَعَلَيْهِ رِدَاءٌ مِنَ السُّنْدُسِ وَالإِسْتَبْرَقِ ، مُرَصَّعٌ بِالدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ ، عَلَيْهِ مَكْتُوبٌ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ۔ (تاريخ دمشق لابن عساكر (سنة الوفاة:571) » حرف الميم » ذكر من اسمه مُعَاوِيَة » مُعَاوِيَةُ بْنُ صَخْرٍ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبِ ...رقم الحديث: 63698)
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نکلیں گے معاویہ اپنی قبر سے ، اور ان پر ہوگا لباس باریک دیبا اور اطلس کا ، جڑاؤ ہوگا موتی اور یاقوت کا، اس پر لکھا ہوگا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ۔

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ ۔
ترجمہ : ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبردی (انہوں نے کہا کہ) : ہمیں ابوالعباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں یحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا) : مجھے سعید بن المسیب رضی اللہ عنہم نے حدیث بیان کی ، بے شک انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا : ''اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کیا : یقیناً جب انہیں لا الہ الا اللہ کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کےلیے کلمة التقوی کو لازم قراردیا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور وہ (کلمة التقوی) '' لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ '' ہے ۔ حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی: جلد: نمبر 1، صفحہ نمبر263، حدیث نمبر195۔ ناشر: مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی،چشتی)

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مکتوب علی العرش لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لا اعذب من قالھا ۔
ترجمہ : عرش پرلکھا ہے کہ جو ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کہے ، میں اسے عذاب نہیں دوں گا ۔ (کنزالعمال،ج1، ص57، الرقم182، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من توضا فاحسن الوضوء ثم قال ثلاث مرات اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ فتح لہ ثمانیۃ ابواب الجنۃ ۔
ترجمہ : جس نے وضو کیا اور اچھے انداز سے وضو کیا پھر اس نے تین مرتبہ یہ دعا کی ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ “ تو اس کےلیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے ۔ (سنن ابن ماجہ، ج1، ص159، الرقم469، دار احیاء الکتب العربیۃ ، بیروت)

ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں قرآن یاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، مجھے ایسی چیز بتا دیجیے کہ جو ( میرے لیے) قرآن پاک یاد کرنے کا بدل ہو سکے ، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قل :سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و لاقوۃ الا باللہ ۔
ترجمہ : تم یہ کلمات پڑھا کرو ” سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و لاقوۃ الا باللہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج6، ص54، الرقم29419،مکتبۃ الرشد، الریاض،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من قال دبر کل صلاۃ ۔قبل ان یتکلم لا الہ الا اللہ و حدہ لاشریک لہ لہ الملک و لہ الحمد یحیی و یمیت بیدہ الخیر و ھو علی کل شیئ قدیر عشر مرات کتب اللہ بکل واحدۃ عشر حسنات و حط عنہ عشر سیئات و رفع لہ عشر درجات ۔
ترجمہ : جو ہر نماز کے بعد کچھ بھی کلام کرنے سے پہلے یہ کلمات دس مرتبہ پڑھ لے ، اس کےلیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، دس گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور دس درجات بلند کیے جائیں گے اور وہ کلمات یہ ہیں : لا الہ الا اللہ و حدہ لاشریک لہ لہ الملک و لہ الحمد یحیی و یمیت بیدہ الخیر و ھو علی کل شیئ قدیر ۔ (مصنف عبد الرزاق، ج2،ص234،الرقم 3192 المجلس العلمی، الھند)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سید الاستغفار أن تقول : أللّٰہم أنت ربی لا إلٰہ إلا أنت خلقتنی وأنا عبدک وأنا علی عہدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت أبوء لک بنعمتک علی وأبوء لک بذنبی فاغفرلی، فإنہ لایغفر الذنوب إلا أنت ۔
ترجمہ : سید الاستغفار یہ ہے کہ تم یہ کلمات پڑھو : أللھم أنت ربی لا إلٰہ إلا أنت خلقتنی وأنا عبدک وأنا علی عہدک و وعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت أبوء لک بنعمتک علی وأبوء لک بذنبی فاغفرلی فإنہ لایغفر الذنوب إلا أنت ۔ (صحیح بخاری، ج8، ص67، الرقم6306، دار طوق النجاۃ ، بیروت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اذا کنز الناس الذھب والفضۃ فاکنزوا ھذہ الکلمات: اللھم انی اسالک شکر نعمتک واسالک حسن عبادتک واسالک قلبا سلیما واسالک لسانا صادقا واسالک من خیر ما تعلم واعوذ بک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم نک انت علام الغیوب ۔
ترجمہ : جب لوگ سونا چاندی کا خزانہ جمع کریں ، تو تم ان کلمات کو خزانہ کرنا ” اللھم انی اسالک شکر نعمتک واسالک حسن عبادتک واسالک قلبا سلیما واسالک لسانا صادقا واسالک من خیر ما تعلم واعوذ بک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم نک انت علام الغیوب ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج6، ص46، الرقم29358، مکتبۃ الرشد، الریاض) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

چھ کلمے قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل

0 comments
چھ کلمے قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : آج بدمذہبی عروج پر ہے اوراس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بدمذہبوں نے ہر چیز کو بدعت قرار دینے کی مہم کو تیز کردیا ہے اور اس بدعت کی آڑ میں ان لوگوں نے اسلام کوبہت نقصان پہنچایا ہے اور عوام وخواص کے ذہنوں کو منتشر کیا ہے یہ ایک بیرونی یہود و نصارا کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کے اجماعی کاموں کو بدعت تو بنایا ہی تھا لیکن ان لوگوں نے اسلام کے بنیادی رکن کلمہ طیبہ کو بھی بدعت قرار دے دیا ، غیر مقلدین تو صرف باقی پانچ کلموں کو بدعت کہتے تھے انھی ہی کی ایک قسم نے پہلا کلمہ طیب کو بھی بدعت قرار دیا ہے جیسا کہ مفتی اعظم سعودی عرب ابن باز ’’فتاوٰی ابن باز جلد دوئم‘‘ میں ایک سوال کہ ایک آدمی کلمہ طیبہ کا ذکر کرتا ہے تو یہ کیسا ہے اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ بدعت ہے کیونکہ پورا کلمہ ’’  لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ قرآن و سنت میں ثابت نہیں اور’’  لا الہ الا اللہ‘‘ اتنا ثابت ہے لہٰذا تناہی ذکر کرنا چاہیے ۔ یہ حال ہے مفتی اعظم سعودی عرب کا ، جب ایسے لوگ دین کے ٹھیکیدار بن جائیں تو دین کا بیڑا غرق ہی ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت کم ہی ہوگی اور یہ دین کی خدمت نہیں بلکہ دین کی بربادی ہے اور یہی کام غیر مقلدین جن کے تقریبًا 21 گروہ ہیں کر رہے ہیں اور سعودی مفتیان تو یہ کام بڑے اعلیٰ پیمانے پر سر انجام دے رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد و مسائل پر قائم رہنے کی تو فیق عطاء فرمائے آمین ۔

چھ کلمے بدعت نہیں ہیں ، یہ کلمے سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے احادیث میں ثابت اور موجود ہیں ۔ بچوں کو یاد کرانے کےلیے سہولت کی وجہ سے پہلا دوسرا تیسرا کلمہ نام رکھ دیا گیا ہے ، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی تقسیم نہیں کی ، بعد میں لوگوں نے پڑھنے اور حفظ کرنے کی سہولت سے پہلا پارہ ، دوسرا پارہ ، تیسرا پارہ ، حتی کہ تیس پاروں میں تقسیم کر دیا ۔ اسے بدعت نہیں کہیں گے ۔ چھ کلمے جو معروف ہیں اور یہ الله کا ذکر ہیں ان کو یاد کرنے کےلیے علماء کرام رحمہم اللہ علیہم نے ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔ قرآن پاک میں کلمہ طیبہ کے دونوں حصے الگ الگ آئے ہیں بعد میں پھر علمائے کرام نے ان بکھرے موتیوں کو جمع کر کے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ آیات درج ذیل ہیں : ⬇

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ (سورہ الصافات، 37 : 35)
اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں ۔

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ (سورہ محمد ، 47 : 19)
 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۔ (سورہ الفتح ، 48 : 29)
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ۔

کلمہ طیب

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ
ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ۔

یہ ألفاظ کسی صحیح سند روایت سے نہیں آئے لیکن حدیث میں ہے لوگوں سے قتال کرو حتی کہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ کا اقرار کریں اور میں جو لایا ہوں اس پر ایمان لائیں ۔

لہذا امت میں ان الفاظ کو کلمہ کہا جاتا ہے یعنی وہ جو ایمان ہے ۔

صحیح بخاری ميں ہے : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُسْنَدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَوْحٍ الْحَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللَّهِ ۔
ترجمہ : عبد اللہ بن محمد مسندی، ابوروح حرمی بن عمارہ ، شعبہ ، واقد بن محمد ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوۃ دیں ، پس جب یہ کام کرنے لگیں تو مجھ سے ان کے جان ومال محفوظ ہوجائیں گے ، علاوہ اس سزا کے جو اسلام نے کسی جرم میں ان پر مقرر کردی ہے ، اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے : حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِیُّ مَالِکُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللَّهِ ۔
ترجمہ : ابوغسان مسمعی ، مالک بن عبدالواحد، عبدالملک بن الصباح ، شعبہ ، واقد بن محمد بن زید بن عبد اللہ ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں اگر وہ ایسا کریں گے تو مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچالیں گے ہاں حق پر جان ومال سے تعرض کیا جائے گا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے ۔

بیہقی میں ہے : أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ ۔
ترجمہ : ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبردی (کہا) : ہمیں ابوالعباس محمدبن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں یحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا): مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی،بے شک انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کیا : یقیناجب انہیں لاالہ الااللہ کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تواللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کےلیے کلمة التقوی کو لازم قرار دیا اوراس کے زیادہ مستحق اوراہل تھے اور وہ (کلمة التقوی) ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ ہے ۔ حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدت (مقرر کر نے) و الے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 263 حدیث نمبر 195۔ ناشر:مکتبة السوادی جدة الطبعة الأولی)

سنداً یہ روایت حسن ہے کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی ہے جو کہتا تھا کہ قرآن کی آیات بکری کھا گئی ۔ اس پر جرح بھی ہے اور ثقہ بھی کہا گیا ہے ۔

دوسرا کلمہ شہادت کہا جاتا ہے جو ایمان کا لفظی اقرار ہے

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ
ترجمہ : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ یہ احادیث سے ثابت ہے ۔

تیسرا کلمہ الله کی تعریف ہے

سُبْحَانَ ﷲِ وَالْحَمْد ﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ وَﷲُ اَکْبَرُ ط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ ۔
ترجمہ : اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کےلیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کی توفیق نہیں مگر اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جو بہت بلند عظمت والا ہے ۔

یہ الفاظ مختلف احادیث سے ثابت ہیں ۔ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، یہ الفاظ الگ الگ دو مختلف احادیث میں آئے ہیں : مسند احمد کی حدیث ہے : حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إسرائيل، عن أبي سِنَان، عن أبي صالح الحنفي، عن أبي سعيد الخدري، وأبي هريرة، أن رسول الله -صلي الله عليه وسلم – قال: “إن الله اصطفى من الكلام أربعاً: “سبحان الله” و “الحمد لله” و”لا إله إلا الله” و”الله أكبر”، فمن قال: “سبحان الله” كتب الله له عشرين حسنة أو حط عنه عشرين سيئة، ومن قال: “الله أكبر” فمثل ذلك، ومن قال: “لا إله إلا الله” فمثل ذلك، ومن قال: “الحمد لله رب العالمين” من قِبَل نفسه كُتبت له ثلاثون حسنة وحُط عنه ثلاثون سيئة ۔

چوتھا کلمہ جس کو توحید کہا جاتا ہے وہ الله کا ذکر ہے

لَآ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ط ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط بِيَدِهِ الْخَيْرُ ط وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْر ۔
ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کےلیے بادشاہی ہے اور اسی کےلیے تعریف ہے ، وہی زندہ کرتا اور مارتاہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے ، اسے کبھی موت نہیں آئے گی ، بڑے جلال اور بزرگی والا ہے ۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
یہ قرآن کے الفاظ سے الله کے تعریفی کلمات ہیں پڑھنے میں اور یاد رکھنے کوئی حرج نہیں ۔

پانچواں کلمہ اِستغفار

اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ ۔
ترجمہ : میں اپنے پروردگار اللہ سے معافی مانگتا ہوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ہوکر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ہوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا ۔ (اے اللہ!) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا ، عیبوں کا چھپانے والا اور گناہوں کا بخشنے والا ہے ۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگرا للہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ہے ۔

یہ توبہ کے الفاظ ہیں اس میں الله کی تعریف ہے ، البتہ الستار ، الله کا نام قرآن و حدیث میں نہیں لہٰذا عبد الستار نام مناسب نہیں الستار یعنی چھپانے والا ۔

چھٹا کلمہ ردِّ کفر

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ ۔
ترجمہ : اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی شے کو جان بوجھ کر تیرا شریک بناؤں اور بخشش مانگتا ہوں تجھ سے اس (شرک) کی جسے میں نہیں جانتا اور میں نے اس سے (یعنی ہر طرح کے کفر و شرک سے) توبہ کی اور بیزار ہوا کفر ، شرک ، جھوٹ ، غیبت ، بدعت اور چغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور بہتان باندھنے سے اور تمام گناہوں سے۔ اور میں اسلام لایا ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ۔

پہلے دو کلموں (یعنی کلمہ طیب و شہادت) کو تو حصولِ ایمان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ، جبکہ دیگر چاروں حصول فضیلت اور تقویت ایمان کےلیے ہیں ۔ واضح رہے کہ چھ کلموں میں سے شروع کے چار کلموں کے الفاظ تو بعینہ احادیث سے ثابت ہیں اور  پانچویں اور چھٹے کلمے کے الفاظ مختلف احادیث میں متفرق موجود ہیں اور ان کے الفاظ کو ان مختلف ادعیہ سے لیا گیا ہے جو کہ احادیث میں موجود ہیں ۔ جب عقائد کی تدوین ہوئی تو اس زمانہ میں ان کے نام اور مروجہ ترتیب شروع ہوئی ، تاکہ عوام کے عقائد درست ہوں اور اُن کو یاد کرکے ان مواقع میں پڑھنا آسان ہو جائے جن مواقع پر پڑھنے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعلیم دی اور اس پر جو فضائل بیان کیے ہیں وہ بھی حاصل ہو جائیں ۔
پہلا  کلمہ ’’کنز العمال‘‘ اور ’’مستدرک حاکم‘‘ میں ، دوسرا کلمہ ’’ابن ماجہ‘‘ اور ’’بخاری‘‘ میں ، تیسرا کلمہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ اور ’’ابن ماجہ‘‘ میں ، چوتھا کلمہ ’’مصنف عبد الرزاق الصنعانی‘‘، ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘اور ’’ سنن ترمذی‘‘ میں موجود ہے اور بقیہ دو کلموں کے الفاظ متفرق مذکور ہیں ،۔

پہلا کلمہ کنز العمال میں ہے : لما خلق اللّٰه جنة عدن وهي أول ما خلق اللّٰه قال لهما: تکلمي، قالت: لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه، قد أفلح المؤمنون، قد أفلح من دخل فيها، و شقی من دخل النار ۔ (کنز العمال،ج:۱،ص:۵۵، باب في فضل الشهادتین، ط:مؤسسة الرسالة، بیروت،چشتی)
وفیه أیضاً : مکتوب علی العرش “لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه” لا أعذب من قالهما‘‘. (کنز العمال، ج:۱،ص:۵۷، باب في فضل الشهادتین، ط:مؤسسة الرسالة، بیروت)

المستدرک علی الصحیحین للحاکم میں ہے : حدثنا علی بن حمشاذ العدل إملاءً ثنا هارون بن العباس الهاشمی، ثنا جندل بن والق، ثنا عمروبن أوس الأنصاري، ثنا سعید بن أبي عروبة عن قتادة، عن سعید بن المسیب عن ابن عباس رضی اللّٰه عنه قال:’’ أوحی اللّٰه إلٰی عیسی علیه السلام یا عیسی! آمن بمحمد وأمر من أدرکه من أمتك أن یؤمنوا به، فلولا محمد ما خلقت آدم، ولولا محمد ما خلقت الجنة ولا النار، ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبت علیه لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه فسکن‘‘. هذا حدیث صحیح الإسناد‘‘. (المستدرك علی الصحیحین للحاکم، ج:۲، ص:۶۷۱، حدیث:۴۲۲۷، دار الکتب العلمیة، بیروت)

دوسرا کلمہ سنن ابن ماجہ میں ہے : حدثنا موسٰی بن عبد الرحمٰن قال : حدثنا الحسین بن علی ویزید بن الحباب ’’ح‘‘ وحدثنا محمد بن یحیٰی قال: حدثنا أبو نعیم قالوا: حدثنا عمرو بن عبد اللّٰه بن وهب أبو سلیمان النخعي، قال حدثنی زید العمي عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من توضأ فأحسن الوضوء، ثم قال ثلاث مرات: أشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، فتح له ثمانیة أبواب الجنة، من أیها شاء دخل ۔ (سنن ابن ماجه ، ج:۱،ص: ۱۵۹، حدیث:۴۶۹، دار إحیاء الکتب العربیة،چشتی)

بخاری شریف میں ہے : حدثنا مسدد قال : حدثنا یحی عن الأعمش، حدثني شقیق عن عبد اللّٰه، قال: کنا إذا کنا مع النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم في الصلاة، قلنا: السلام على اللّٰه من عباده، السلام على فلان وفلان، فقال النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : لاتقولوا السلام علی اللّٰه؛ فإن اللّٰه هوالسلام، ولکن قولوا: التحیات للّٰه والصلوات والطیبات، السلام علیك أیها النبي ورحمة اللّٰه وبرکاته، السلام علینا وعلى عباد اللّٰه الصالحین، فإنکم إذا قلتم أصاب کل عبد في السماء أو بین السماء والأرض، أشهد أن لا إله إلا اللّٰه وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، ثم یتخیر من الدعاء أعجبه إلیه فیدعو ۔ (صحیح البخاري، ج:۱، ص:۱۶۷، حدیث:۸۳۵، باب ما یتخیر الدعاء بعد التشهد، دار طوق النجاة)

تیسرا کلمہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : حدثنا أبو أسامة عن مسعر عن إبراهيم السکسي عن عبد اللّٰه بن أبي أوفى قال: أتى رجلٌ النبي صلى الله عليه وسلم فذکر أن هلایستطیع أن یأخذ من القرآن وسأله شیئاً یجزئ من القرآن فقال له: ’’قل سبحان اللّٰه والحمد للّٰه ولا إلٰه إلا اللّٰه واللّٰه أکبر ولاحول ولاقوة إلا باللّٰه ۔ (مصنف ابن أبي شیبة، ج:۶،ص:۵۴،حدیث:۲۹۴۱۹، مکتبة الرشد، ریاض،چشتی)

سنن ابن ماجہ میں ہے : حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي قال: حدثنا الولید بن مسلم قال: حدثنا الأوزاعي قال: حدثني عمیر بن هانئ قال: حدثني جنادة بن أبي أمية عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: ’’من تعار من اللیل فقال حین یتقیظ: لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له له الملك وله الحمد وهو على کل شيءٍ قدیر، سبحان اللّٰه والحمد للّٰه ولا إلٰه إلا اللّٰه واللّٰه أکبر، ولاحول ولاقوة إلا باللّٰه العلي العظیم، ثم دعا رب اغفرلي! غفر له. قال الولید: أو قال: دعا استجیب له، فإن قام فتوضأ ثم صلی قبلت صلا ته ۔ (سنن ابن ماجه، ج:۲، ص:۱۲۷۶، حدیث:۳۸۷۸، دار إحیاء الکتب العربیة)

چوتھا کلمہ مصنف عبد الرزاق الصنعانی میں ہے : عن إسماعیل بن عیاش قال: أخبرني عبد اللّٰه بن عبد الرحمٰن بن أبي حسین ولیث عن شهر بن حوشب عن عبد الرحمٰن بن غنم عن رسول اللّٰه صلى الله عليه و سلم أنه قال: ’’من قال دبر کل صلاة‘‘ -قال ابن أبي حسین في حدیثه: وهو ثاني رجله- قبل أن یتکلم-: ’’ لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له، له الملك وله الحمد، یحیي ویمیت بیده الخیر وهو على کل شيءٍ قدیر‘‘ عشر مرات، کتب اللّه له بکل واحدة عشر حسنات، وحط عنه عشر سیئات، ورفع له عشر درجات‘‘. (مصنف عبد الرزاق ،ج:۲،ص:۲۳۴،حدیث: ۳۱۹۲، المکتب الإسلامي، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : أبوبکر قال : حدثنا وکیع، عن البصیر بن عدي، عن ابن أبي حسین قال: قال رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ’’أکبر دعائي ودعاء الأنبیاء قبلي بعرفة لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له، له الملك وله الحمد بیده الخیر یحيي ویمیت، وهو على کل شيءٍ قدیر ۔ (مصنف ابن أبي شیبة، ج:۳، ص:۳۸۲، حدیث:۱۵۱۳۶، مکتبة الرشد، ریاض)

پانچویں کلمہ کے الفاظ یک جا تو موجود نہیں ، البتہ متفرق جگہوں پر مذکور ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے، ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے : حدثنا أبو معمر حدثنا عبد الوارث حدثنا الحسین، حدثنا عبد اللّٰه بن بریدة قال: حدثني بشیر بن کعب العدوي قال: حدثني شداد بن أوس رضي اللّٰه عنه عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ’’سید الاستغفار‘‘ أن تقول: أللّٰهم أنت ربي لا إلٰه إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا علی عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت أبوء لك بنعمتك علی وأبوء لك بذنبي فاغفرلي، فإنه لایغفر الذنوب إلا أنت”. ( صحیح البخاري،ج:۸،ص:۶۷، حدیث: ۶۳۰۶،باب أفضل الاستغفار، دار طوق النجاة،چشتی)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : حدثنا عیسٰی بن یونس، عن الأوزاعی، عن حسان بن عطیة عن شداد بن أوس، أنه قال: احفظوا عني ما أقول: سمعت رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم یقول:’’ إذا کنز الناس الذهب والفضة فاکنزوا هذه الکلمات، أللّٰهم إني أسألك شکر نعمتك وأسألك حسن عبادتك، وأسألك قلبًا سلیمًا وأسألك لسانًا صادقًا، وأسألك من خیر ما تعلم، وأعوذ بك من شر ما تعلم، وأستغفرك لما تعلم، إنك أنت علام الغیوب ۔ (مصنف ابن أبي شیبة ج : ۶ ، ص:۴۶،حدیث:۲۹۳۵۸، مکتبة الرشد، ریاض) ۔ هكذا في الترمذي والنسائي: عن عمران بن حسین … قل: أللّٰهم اغفرلي ما أسررت وما أعلنت وما أخطأت وماتعمدت وما جهلت وما علمت ۔ (۲/۱۲۵۶،حدیث:۳۸۲۴، دار إحیاء الکتب العربیة)

سنن ابن ماجہ میں ہے : حدثنا محمد بن الصباح قال: أنبأنا جریر عن عاصم الأحول، عن أبي عثمان عن أبي موسٰی قال: سمعني النبي صلى الله عليه و سلم وأنا أقول: لاحول ولاقوة إلا باللّٰه، قال: یا عبداللّٰه بن قیس! ألا أدلك علی کلمة من کنوز الجنة؟ قلت: بلى یا رسول اللّٰه! قال: قل: ’’لاحول ولاقوة إلا باللّٰه‘‘.  (سنن ابن ماجه، ج:۲،ص:۱۲۵۶،حدیث:۳۸۲۴، دارإحیاء الکتب العربیة)

چھٹے  کلمے کے الفاظ  بھی متفرق طور پر احادیث میں موجود ہیں ، تفصیل درج ذیل ہے الادب المفرد میں ہے : قال: سمعت معقل بن یسار یقول: انطلقت مع أبي بکر الصدیق إلی النبي صلى الله عليه و سلم فقال: یا أبابکر! الشرك فیکم أخفی من دبیب النمل! فقال أبوبکر: وهل الشرك إلا من جعل مع اللّٰه إلٰهًا آخر! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بیده الشرك أخفٰی من دبیب النمل! ألا أدلك علی شيءٍ إذا قلته ذهب عنك قلیله وکثیره! قال: قل:’’اللّٰهم إني أعوذ بك أن أشرك بك وأنا أعلم وأستغفرك لما لا أعلم ۔ (الأدب المفرد، ج:۱،ص:۲۵۰، باب فضل الدعاء، دارالبشائر الإسلامیة،چشتی)

کنز العمال میں ہے : الصدیق رضي اللّٰه عنه عن معقل بن یسار … قل:’’ أللّٰهم إني أعوذ بك أن أشرك بك وأنا أعلم وأستغفرك لمالا أعلم ۔ (کنز العمال، ج:۳، ص:۸۱۶، الباب الثاني في الاختلاف المذموم، ط:مکتبة المدینة)

الادب المفرد میں ہے : قال حدثني عبد الرحمٰن بن أبي بکرة أنه قال لابنه: یا أبت إني أسمعك تدعو کل غداة ’’ اللّٰهم عافني في بدني، اللّٰهم عافني في سمعي … وتقول: ’’اللّٰهم إني أعوذ بك من الکفر والفقر…الخ ۔ (الأدب المفرد، ج:۱، ص:۲۴۴، باب الدعاء عند الکرب، دار البشائر الإسلامیة، بیروت)

المعجم الاوسط میں ہے : عن عروة عن عائشة رضي الله عنها أن رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم کان یدعو في الصلاة:’’ أللّٰهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم‘‘، فقالوا: ما أکثر ما تستعیذ من المغرم؟ فقال: إن الرجل إذ غرم حدث فکذب ووعد فأخلف ۔ (المعجم الأوسط،ج:۵، ص:۳۹، باب من اسمه عبد الله، دار الحرمین قاهره)

الدعاء للطبرانی میں ہے : عن علقمة عن عبد اللّٰه قال: کان رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجهه کالقمر، فیقول:’’ أللّٰهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والکسل والذل والصغار والفواحش ما ظهر منها وبطن…الخ ۔ (الدعاء للطبراني، ج:۱،ص:۲۱۰، باب القول عند الأذان، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

المستدرک للحاکم‘‘ میں ہے : عن ابن عباس رضي الله عنه أنه بینما هو جالس عند رسول اللّٰه صلى الله عليه و سلم إذ جاءه علي بن أبي طالب … ثم قل آخر ذلك:’’ أللّٰهم ارحمني أن تکلف مالایعینني وارزقني حسن النظر فیما یرضیك عني ۔ (المستدرك للحاکم، ج:۱،ص:۳۱۵، بیرت) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 25 May 2023

کسی کا نام بگاڑنا یا برے القابات سے پکارنا حصّہ دوم

0 comments

کسی کا نام بگاڑنا یا برے القابات سے پکارنا حصّہ دوم

افسوس ! آج کل یہ بَلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے ، آدمی کا اَصْل نام بہت اچھا ہوتا ہے ، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو بُرے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔ جس کا جو نام ہو ، اس کو اُسی نام سے پُکارنا چاہیے ، اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا نام مثلاً لمبو ، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے ، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دِل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے ، اس کے باوُجُود پُکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کےلیے اسی الٹے نام سے پُکارتا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : کسی مسلمان بلکہ کافِر ذِمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پُکارنا جس سے اس کی دِل شکنی ہو ، اُسے ایذا پہنچے ، شرعاً ناجائِز و حرام ہے ، اگرچہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 204)


مثلاً کسی کا رنگ واقعی کالا ہے ، اس کے باوُجُود اسے کالو کہہ کر پُکارنے سے اس کی دِل آزاری ہوتی ہے تو اسے یُوں پُکارنا ناجائِز و حرام ہی رہے گا ۔


حضرت عُمیر بن سعد رَضِیَ اللہُ عنہ  بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی کو اس کے نام کے عِلاوہ نام (یعنی بُرے لقب سے) بُلایا ، اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں ۔ (جامع صغیر صفحہ 525 حدیث نمبر 8666)  


حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدتَرین جھوٹ ہے ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، صفحہ:994، حدیث:2563،چشتی)


(1) : جس کے بارے میں بدگمانی کی، اگر اس کے سامنے اس کا اظہار بھی کر دیا تو اس کی دِل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دِل آزاری حرام ہے ۔ (2) : اگر مسلمان کے سامنے اس کے متعلق بدگمانی کا اظہار نہ کیا ، بلکہ اس کی پیٹھ پیچھے کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا بھی حرام ہے ۔ (3) : بدگمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ سامنے والے کےعیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا بھی گُنَاہ ہے ۔ (4) : بدگمانی کی ہلاکت میں سے یہ بھی ہے کہ بدگمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک باطنی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ (5) : بدگمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دُشمنی پیدا ہو جاتی ہے ، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتی ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے ، بدگمانی کی وجہ سے بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور بالآخر بعض دفعہ طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے ۔ بدگمانی کی وجہ سے بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اُجڑ کر رہ جاتا ہے ۔ (6) : دوسروں  کےلیے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں  کےلیے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ 86 فیصد بڑھ جاتا ہے ۔


ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعاً ناجائز ہے ۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں ۔ ان میں ایک مذاق اڑانا ہے ۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے ۔ اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکلتے ہیں ۔ چنانچہ باہمی کدورتیں ، رنجشیں ، لڑائی جھگڑا ، انتقامی سوچ ، بد گمانی ، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم ہو کر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ہے ۔ اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہو جاتا ہے ۔


اسلام نے مسلمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے ، عیب جوئی کرنے ، طعنہ دینے اور برے القاب سے پکارنے سے منع کیا ہے ۔ یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خصوصی احکامات سورة الحجرات میں واضح طور پر بیان فرمائے ہیں ۔ اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر11)


مذاق اڑانے کا مفہوم


امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تمسخر کرنے یا مذاق اڑانے کے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے ۔ (احیاءالعلوم جلد 3 صفحہ 207)


مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جا رہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو ۔ اگر مذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے ۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہو رہی ہو تو بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا ۔


مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاءرسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 173)


تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے ۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی ۔ (صحیح بخاری / 440)


مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کار فرما ہے اور تکبر کے متعلق قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم ، 266)


مذاق اڑانے کا نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری اور ایذا رسانی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس ایذا رسانی کی مذمت ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان تکلیف نہ اٹھائیں ۔ (صحیح بخاری : 10)


امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابی داﺅد، کتاب الادب، حدیث :4875،چشتی)


حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلئے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، نقل اتارنا ، طعنہ مارنا ، عار دلانا ، اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عرفی شرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں ۔ محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسخر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ، کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزا وار بنیں گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 175 ، 176)


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کر چکا ہو اور حق کی طرف رجوع کر چکا ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا ۔ (تفسیر جامع البیان،ج26 ،ص 172)


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد علیہ الرحمہ نے کہا : اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے ۔ (سنن ترمذی : 2505)


قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے : اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو ، بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم (کسی کے متعلق) تجسس کرو، اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، سو تم اس کو ناپسند کرو گے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے ، بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 12)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کےلیے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی سے بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔ ایک روایت میں ہے : اور کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے ۔ (صحیح بخاری : 6065)


بعض علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر حدیث میں گمان کی ممانعت سے مراد بدگمانی سے منع کرنا ہے اور کسی پر تہمت لگانے سے منع کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بغیر کسی قوی دلیل کے اور بغیر کسی سبب موجب کے یہ گمان کرے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتا ہے۔ یعنی ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آ جائے کہ فلاں شخص فلاں برا کام کرتا ہے تو یہ بدگمانی ہے۔


نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور تجسس نہ کرو یعنی کسی مسلمان کے عیوب اور اس کی کوتاہیوں کو تلاش نہ کرو ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کے ظاہر حال پر عمل کرو اور اس کے عیوب کو تلاش نہ کرو اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے جس مسلمان کے عیوب پر پردہ رکھا ہوا ہے اس کے پردہ کو چاک نہ کرو۔ حدیث میں ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کروگے تو تم ان کو خراب کردو گے ۔ (سنن ابو داؤد : 4888)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری : 2442،چشتی)(صحیح مسلم : 695)


عام لوگوں کےلیے لوگوں کے احوال کو تلاش کرنا ممنوع ہے لیکن حکومت داخلی اور خارجی معاملات کی حفاظت کےلیے جاسوسی کا محکمہ قائم کرے تو یہ جائز ہے ۔


ملک کے داخلی معاملات کی اصلاح کےلیے جاسوس مقررکرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ، حضرت زبیر کو اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور فرمایا تم روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک باغ) میں جاؤ ، وہاں ایک مسافرہ ہو گی ، اس کے پاس ایک خط ہو گا وہ اس سے لے کر قبضہ میں کر لو ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے گئے ، ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو ، پہلے اس نے انکار کیا مگر ہمارے ڈرانے پر اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکالا ، ہم اس خط کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے ۔ (صحیح بخاری: 3007،صحیح مسلم:2494)


علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس پر تعزیر لگائی جائے گی ، اگر اس کا عذر صحیح ہو تو اس کو معاف کر دیا جائے گا ، اگر کافر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔ (عمدة القاری جلد 14 صفحہ 356)


دشمن ملک کی طرف جاسوس روانہ کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وسلم نے 10 جاسوس روانہ کیے اور حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کوان کا امیر بنایا ۔ (صحیح بخاری، حدیث 3989،چشتی)(صحیح مسلم،حدیث 1776)


حدثنا عبد الله بن إسحاق الجوهري البصري، حدثنا ابو زيد صاحب الهروي، عن شعبة، عن داود بن ابي هند، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن ابي جبيرة بن الضحاك، قال: كان الرجل منا يكون له الاسمين والثلاثة فيدعى ببعضها، فعسى ان يكره، قال: فنزلت هذه الآية: ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ابو جبيرة هو اخو ثابت بن الضحاك بن خليفة انصاري، وابو زيد سعيد بن الربيع صاحب الهروي بصري ثقة ۔

ترجمہ : ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے ، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا ، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا ، اس پر یہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو ۔ (الحجرات: ۱۱) ، نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ابوجبیرہ ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیں ۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 3268 كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ الْحُجُرَات)(سنن ابی داود/ الأدب 71 حدیث 4962)


جامع الترمذي 3268 أبو جبيرة بن الضحاك يدعى ببعضها فعسى أن يكره نزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔


سنن أبي داود 4962 أبو جبيرة بن الضحاك يا فلان فيقولون مه يا رسول الله إنه يغضب من هذا الاسم أنزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔


سنن ابن ماجه 3741 أبو جبيرة بن الضحاك دعاهم ببعض تلك الأسماء فيقال يا رسول الله إنه يغضب من هذا نزلت ولا تنابزوا بالألقاب ۔


ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو ، تین تین نام تھے ، بسا اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے ، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے ، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : «ولا تنابزوا بالألقاب» ” کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ۔ (سنن ابن ماجه/كتاب الأدب حدیث : 3741،چشتی)


کسی کو ایسے نام یا لقب سے نہیں پکارنا چاہیے جو اسے نا گوار ہو ۔ مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بلا وجہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں ۔ معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے ۔ برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔ برے لقب سے موسوم کرنے کےلیے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے : لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو ۔ کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہو جائے تو یہ گناہ سرزد ہو جائے گا ۔


پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر و تذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو ۔ مثال کے طور پر بکر نے زید کو اس کی پست قامتی کا احساس دلانے کےلیے اور اسے اذیت پہنچانے کےلیے جملہ کہا ” اور بونے صاحب ! کہاں چل دیے ۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لیے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔


دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے ۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا ۔ مثلا زید نے بکر سے کہا او ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے ؟ الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے ۔


تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو ۔ مثال کے طور پر زید نے بکر سے بے تکلفی میں کہا ” او کمینے ! بات تو مکمل کرنے دے ، پھر اپنی کہنا ۔ یہ سن کر بکر ہنسنے لگا ۔ یہاں زید نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور بکر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے ۔


ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کر دیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا ، چھوٹو ، موٹو ، کانا ، چندا ، کلو ، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو ، گڈو ، منا ، چنا ، بے بی ، گڈی ، گڑیا ، چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے ؟

اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا ۔ خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں ۔ دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے ، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کےلیے دیے جاتے ہیں ۔ جیسے فاروق ، صدیق ، غنی ، قائد اعظم ، علامہ وغیر ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ۔


عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں : ⬇


1 ۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو ، موٹو ، ٹھنگو ، لمبو ، کلو ، چٹا ، منا ، کبڑا ، لنگڑا ، ٹنٹا ، اندھا ، کانا وغیر کہنا ۔


2 ۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق ، فاسق ، کافر ، بنیاد پرست ، یہودی ، نصرانی ، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں ۔


3 ۔ قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر ، مکڑ ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا ، بھاٶ غیرہ مشہور ہیں ۔


4 ۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ ، بدذات ، طوائف ، کال گرل ، لونڈا ، ہیجڑا ، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں ۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا ۔ مثال کے طور پر بھڑوا در حقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے ۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا ۔


5 ۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی ، زانی ، قاتل ، لٹیرا ، دہشت گرد ، چور وغیرہ ۔

6 ۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا ، گدھا ، سور ، الو ، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا ۔


7 ۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل ، بھوت ، جن ، بدروح وغیرہ کہنا ۔


8 ۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور ، بدخصلت ، لالچی ، بخیل ، ذلیل ، چمچہ ، کنجوس ، خود غرض ، فضول خرچ ، عیاش وغیرہ کہنا ۔


9 ۔ عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی ، چچا ، ماموں ، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا ۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں ۔


10 ۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتاً فوقتاً اس چڑ سے اسے تنگ کرنا ۔


11 ۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازنا جیسے کسی کو موچی ، بھنگی ، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا ۔


​کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں ۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کےلیے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے ۔ برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے ۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے ۔ سنن ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9،چشتی)


ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے ۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو ! ذرا ادھر تو آ ۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے ۔ رفعت نے منورہ کی چالاکی کو بیان کرنے کےلیے اسے لومڑی کہا ۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔ کسی خاتون نے اپنی کزن کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو ۔ وہ سمجھی کہ اس نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی ۔ جبکہ اس کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو اس کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ اس کی کزن کا برا ماننا ناحق ہے اور غلط فہمی کی وجہ سے ہے ۔ کسی نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر” کہہ دیا ۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے ۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو ” پروفیسر” کے لقب سے موسوم کر دیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی ۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔


مذکورہ بالا حصّہ اوّل اور دوم میں قرآن و احادیث کے دلائل اور آئمہ علیہم الرحمہ کی تصریحات سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان کا مذاق اڑانا ، عیب جوئی کرنا ، طعنہ زنی کرنا اور برے القاب یا ناموں سے پکارنا شرعاً حرام ہے ۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماء کو چاہیے کہ وہ زبان و بیان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں ۔ یہ لوگ عوام الناس کےلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے : لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔ اس لیے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماٸے ملت کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کسی کا نام بگاڑنا یا برے القابات سے پکارنا حصّہ اوّل

0 comments

کسی کا نام بگاڑنا یا برے القابات سے پکارنا حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے ۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابلِ مذمت ہوتا ہے ۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث میں سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔ برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ۔ کسی کا نام بگاڑنا یعنی ایسے نام سے پکارنا جو اسےبُرا لگتا  ہو مثلاً لمبُو ، کالُو ، موٹُو وغیرہ کہنا گناہ ہے ۔ کسی مسلمان کو بُرے لقب سے پکارنا قرآن مجید کی آیت کی رو سے حرام اور سخت گناہ ہے ۔ بلا وجہ شرعی کسی بھی شخص کو بُرا بھلا کہنا جو اس کے دل شکنی کا باعث بنے حرام ہے ۔ اللہ عزوجل نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے قرآنِ کریم میں ہے : وَ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ ۔ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 11)

اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے ۔ لہٰذا دوسروں کا نام بگاڑنے سے بچئے! اور جو بگاڑتا ہے اسے نرمی سے منع کیجیے ۔ نقلیں اتارنا : کسی کے چلنے ، بات کرنےیا پھر ہاتھ وغیرہ ہلانے کا طریقہ دیکھ کر بعض بچےاس  کے سامنے اس کی نقل اتارتے ہیں جس سے سامنے والے کا دل دُکھتا اور اسے اذِیّت ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مسلمان کو تکلیف دی گویا اس نے مجھے تکلیف دی او رجس نے مجھے تکلیف دی گویا اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کوتکلیف دی ۔ (معجمِ اوسط،ج2،ص386 ،حدیث: 3607)

لہٰذا دوسروں کی نقلیں اتارنے سے بچیے ۔ دوسروں سے مانگ کر چیز کھانا : بعض بچوں میں ایک بری عادت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے مانگ کر چیزیں کھاتے ہیں جو کہ اچھی عادت نہیں ہے اس سے ان  کا  وقار (Image) بھی خراب ہوتا ہے اور اس بری عادت کی وجہ سے دوسرے بچے  ان  کے ساتھ بیٹھ کر کھانا  پینا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے بچوں کو چاہیے کہ کھانے کی چیزیں اپنے گھر سے لے کر جائیں اور دوسروں سے مانگ کرمت کھائیں ۔

برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے : مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو ۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121،چشتی)

تفسیر الطبرى میں ہے کہ " و الذی هو أولى الأقوال فی تأويل ذلك عندی بالصواب أن يقال : إن الله تعالى ذكره نهى المؤمنين أن يتنابزوا بالألقاب و التنابز بالألقاب : هو دعاء المرء صاحبه بما يكرهه من اسم أو صفة ، و عمّ الله بنهية ذلك ، و لم يخصص به بعض الألقاب دون بعض ، فغير جائز لأحد من المسلمين أن ينبز أخاه باسم يكرهه ، أو صفة يكرهها و إذا كان ذلك كذلك صحت الأقوال التی قالها أهل التأويل فی ذلك التی ذكرناها كلها ، و لم يكن بعض ذلك أولى بالصواب من بعض ، لأن كلّ ذلك مما نهى الله المسلمين أن ينبز بعضهم بعضًا " اھ ۔ (تفسیر طبری ج 22 ص 302 )

فتاوی رضویہ میں ہے کہ : کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اسے ایذاء پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بار فی نفسہ سچی ہو " فان كل حق صدق و ليس كل صدق حقا " اھ یعنی ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں ۔ ابن السنی عمیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من دعا رجلا بغير اسمه لعنته الملائكة فی التيسير أی بلقب يكرها لا بنحو يا عبد الله " اھ یعنی جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے " اھ ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ 416 : مکتبہ امام شافعی ریاض،چشتی)

طبرانی معجم اوسط میں بسند حسن انس رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من أذا مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذای الله " اھ یعنی جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی " اھ ۔ (المعجم الاوسط جلد 4 صفحہ 373 رقم حدیث نمبر 3632 مکتبہ المعارف ریاض)

بحر الرائق و در مختار میں ہے کہ : فى القنية : قال ليهودى او مجوسى يا كافر ياثم ان شق عليه و مقتضاه ان يعزر لارتكابه الاثم " اھ  ، یعنی جس نے کسی ذمی یہودی یا مجوسی سے کہا اے کافر اور یہ بات اسے گراں گزری تو کہنے والا گہنگار ہوگا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تعزیر کی جائے گی " اھ ۔ (در مختار جلد 1 صفحہ 329 کتاب الحدود باب التعزیر مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 204 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)

برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977)

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)

برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں ہے : جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977)

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ عَنْہُ اونچا سنتے تھے ، جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس شریف میں  حاضر ہوتے تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ انہیں  آگے بٹھاتے اور اُن کےلیے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں  ۔ایک روز انہیں حاضری میں  دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں  جگہ نہ پاتا تو جہاں  ہوتا وہیں کھڑا رہتا ۔ لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ آئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب بیٹھنے کےلیے لوگوں  کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ ’’جگہ دو جگہ‘‘ یہاں  تک کہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان میں  صرف ایک شخص رہ گیا ، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا : تمہیں  جگہ مل گئی ہے اس لیے بیٹھ جاٶ ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ غصّہ میں  آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن ہوا تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کا جسم دبا کر کہا : کون ؟ اس نے کہا : میں  فلاں  شخص ہوں ۔ حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں  کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا ۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں  ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا ، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔

حضر ت ضحاک رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت بنی تمیم کے ان افراد کے بارے میں  نازل ہوئی جو حضرت عمار ، حضرت خباب ، حضرت بلال ، حضرت صہیب ، حضرت سلمان اور حضرت سالم وغیرہ غریب صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کی غُربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں  سے نہ ہنسیں ، یعنی مال دار غریبوں  کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں  جس کی آنکھ میں  عیب ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں  سے صدق اور اخلاص میں  بہتر ہوں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹،چشتی)

آیت کے دوسرے شانِ نزول سے معلوم ہو اکہ اگر کسی شخص میں  فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں  تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے ، ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں  دینداری کے لحاظ سے کہیں  بہتر ہو ۔

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی لوگ ایسے ہیں  جن کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، ان کے پاس دو پُرانی چادریں  ہوتی ہیں اور انہیں کوئی پناہ نہیں دیتا (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ان کا رتبہ ومقام یہ ہوتا ہے کہ) اگروہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں (کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ (وہ کام کر کے) ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ، ۵ / ۴۵۹، الحدیث: ۳۸۸۰)

حضر ت حارث بن وہب خزاعی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں  تمہیں  جنتی لوگوں  کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ یہ ہر وہ شخص ہے جو کمزور اور (لوگوں  کی نگاہوں میں) گرا ہوا ہے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی قسم سچی کر دے گا ۔ (جامع ترمذی کتاب صفۃ جہنّم ، ۱۳-باب، ۴ / ۲۷۲، الحدیث: ۲۶۱۴،چشتی)

وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ : اور نہ عورتیں  دوسری عورتوں  پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں  سے بہتر ہوں ۔

شانِ نزول : آیت ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو رِوایات درج ذیل ہیں  : ⬇

حضر ت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ عَنْہُنَّ کے متعلق نازل ہوئی ہے ، انہوں  نے حضرت ِاُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا  کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا ۔

حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَی رَضِیَ اللہ عَنْہَا کے حق میں  اس وقت نازل ہوا جب انہیں  حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک زوجۂ مُطَہَّرہ نے یہودی کی بیٹی کہا ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹)

اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : اُمُّ المومنین حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے انہیں  یہودی کی لڑکی کہا ہے ، (اس پر انہیں  رنج ہوا اور) آپ رونے لگیں  ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں  روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا ’’ تم کیوں  رو رہی ہو ؟ عرض کی : حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے ۔ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ تم نبی زادی ہو ، تیرے چچا نبی ہیں  اور نبی کی بیوی ہو ، تو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں  اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے فرمایا ’’ اے حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النّبی، ۵ / ۴۷۴، الحدیث: ۳۹۲۰)

آیتِ مبارکہ میں  عورتوں  کا جداگانہ ذکر اس لیے کیا گیا کہ عورتوں میں  ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اور اپنے آپ کو بڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ عورتیں  کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں  کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم ، نہ بڑوں کی بے ادبی ، نہ چھوٹوں سے بد لحاظی ، نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع ، نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں  سے جائز ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۱۹۴)

مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں  لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۳،چشتی)

کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاٶ ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو ۔ (جامع ترمذی کتاب البرّ والصّلۃ باب ما جاء فی المرائ ، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۲)

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : میں  کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں  کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۵)

حضرت امام حسن رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگوں  کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا : آؤ یہاں  آؤ ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکار پڑے گی تو وہ نا امیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا ۔ (اس طرح وہ جنت میں  داخل ہو نے سے محروم رہے گا) ۔ (موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر... الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷،چشتی)

حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلیے اور اس کی تحقیر کرنے کےلیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں  کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں  حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں  سے توبہ لازم ہے ، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں  گے۔ اسی طرح سیٹھوں  اور مالداروں  کی عادت ہے کہ وہ غریبوں  کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں  کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے ، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں  کے سامنے دَم نہیں مار سکتے ۔ ان مالداروں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں  سے توبہ کر کے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں  گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں  کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں  کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں  گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۵-۱۷۶)

یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے ، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں  کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۶ صفحہ ۴۹۳-۴۹۴،چشتی)

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو ، کسی کے دل کو اَذِیَّت نہ پہنچاؤ ، حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں  لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے ۔ (احیاء علوم الدین کتاب آفات اللّسان الآفۃ العاشرۃ المزاح جلد ۳ صفحہ ۱۵۹)

مزید فرماتے ہیں : وہ مزاح ممنوع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اسی میں  مصروف رہا جائے اور جہاں  تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں  خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ، کھیل اگرچہ (بعض صورتوں  میں) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں  لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے ، لہٰذا جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں  ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں (خوش طبعی میں) سچی بات ہی کہتا ہوں ۔ (معجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد جلد ۱ صفحہ ۲۸۳ الحدیث : ۹۹۵)

لیکن یہ بات تو آپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا لیکن جہاں تک دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مزاح اسی لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ہنسائیں خواہ جس طرح بھی ہو ، اور (اس کی وعید بیان کرتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں  کو ہنساتا ہے ، اس کی وجہ سے ثُرَیّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں  گرتا ہے ۔ (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، ۳ / ۳۶۶ ، الحدیث : ۹۲۳۱،چشتی)(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوش طبعی

حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ عَنْہَا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ کون ، وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے ؟ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ان کی آنکھ میں  سفیدی نہیں  ہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ کیوں  نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں  سفیدی ہے ۔ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ایسا نہیں  ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں  سفیدی نہ ہو (آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے) ۔ (سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ... الخ، ۷ / ۱۱۴)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں گھلے ملے رہتے ، حتّٰی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے ’’ ابو عمیر ! چڑیا کا کیا ہوا ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الانبساط الی الناس، ۴ / ۱۳۴، الحدیث: ۶۱۲۹)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سواری مانگی تو ارشاد فرمایا ’’ ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں  گے ۔ اس نے عرض کی : میں  اونٹنی کے بچے کا کیا کروں  گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنم دیتی ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المزاح، ۳ / ۳۹۹، الحدیث: ۱۹۹۹،چشتی)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا : جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی ۔ انہوں  نے (پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا ؟ (حالانکہ) وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے قرآن میں  یہ نہیں  پڑھا کہ : اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا ۔ (سورہ واقعہ:۳۵،۳۶)
ترجمہ : بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا ۔ تو ہم نے انہیں  کنواریاں  بنایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)

وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ : اورآپس میں  کسی کوطعنہ نہ دو ۔ یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاٶ کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا ۔ (تفسیر روح المعانی، الحجرات الآیۃ : ۱۱ ، ۱۳ / ۴۲۴)

طعنہ دینے کی مذمت

حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ ہوں  گے نہ شفیع ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب النّہی عن لعن الدّواب وغیرہا، ص۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی اللّعنۃ، ۳ / ۳۹۳، الحدیث: ۱۹۸۴)

وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ : اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔ برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ، ان میں  سے تین قول درج ذیل ہیں : ⬇

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے ۔ یہاں  آیت میں  اس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں  مرے گاجب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کر لے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ...الخ، ۵۳-باب، ۴ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۵۱۳،چشتی)

بعض علماء نے فرمایا ’’ برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا ،یا گدھا، یا سور کہنا ہے ۔

بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں  ممنوع نہیں ، جیسے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ابوتُراب اور حضرت خالد رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں  وہ القاب بھی ممنوع نہیں ، جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)

بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے ۔ ارشاد فرمایا : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے تو اے مسلمانو ، کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں  تو وہی ظالم ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۷۰)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ ‘‘ اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے

(1) ۔ مسلمانوں  کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت والا ہے ۔

(2) ۔ عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیں  تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے ۔

(3) ۔ مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے آج کل یہ بیماری مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی ہے۔ نسبی طعنہ کی بیماری عورتوں میں زیادہ ہے ، انہیں اس آیت سے سبق لینا چاہیے نہ معلوم بارگاہِ الٰہی میں کون کس سے بہتر ہو ۔

بہت سے لوگ زیادہ تر اپنے دوستوں کو برے ناموں سے پکارتے ہے ، اور یقیناً ایسا کرنے سے ہر کسی کا دل دکھتا ہے اپ خود اپنے ساتھ سوچو اگر کوئی آپ کو آپ کے نام کے علاوہ کسی اور نام سے پکارتے ہے تو اپ خود کیسے react کرتے ہیں ، ہر کسی کو برا لگتا ہے ۔ تو ہمیں چاہیے کہ ایسا نہ کرے اور اگر اب تک کرتے آرہے ہیں تو ان دوستوں سے معافی مانگے کیونکہ یہ ایک گنا ہے اور آئندہ سے لوگو کو اچھے اچھے القابات اور ناموں سے پکارے ۔
اللہ ہم کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 16 May 2023

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم

0 comments
حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا ۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی ، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال پر ملال ٦٣ برس کی عمر میں بروز دوشنبہ (پیر) ٢٩ صفر المظفر ١٠٣٤ھ/١٦٢٤ء میں ہوا ۔ اپنے وصال کی خبر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی ، جوکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت ہے ۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔

شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نذرانہ عقیدت : ⬇

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیئ احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

عقائد و اعمال سے متعلق ارشادات : ⬇

اہلسنّت ہی جنت میں جائیں گے : نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع میں اہلسنّت و جماعت (اکثر ہم اللہ تعالیٰ ) کا اتباع کیا جائے اور صرف یہی فرقہ جنتی ہے اہلسنّت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دے گا۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٦٩ جلد اوّل مطبع نو لکشور لکھنؤ صفحہ ٨٦)

حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصود کائنات

حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی : اَللّٰھُمَّ اَنْتَ وَمَا اَنَا وَمَا سواک تَرَکْتُ لاَجَلِکَ ، یعنی اے اللہ توہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے لیے چھوڑ دیا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا : یَا مُحَمَّد اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِوَاکَ خَلَقْتُ لاجَلِکَ ، یعنی اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لیے پیدا کیا ۔ (مکتوبات مکتوب ٨ جلد دوم صفحہ ١٨)

معرفت ربّ العالمین کا سبب حقیقی

اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ارشاد فرمایا : لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ الافْلاک ، یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا ۔ لَوْ لاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوْ بِیَّۃَ ، یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ١١٢جلد سوم صفحہ ٢٣٢)

حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا مرکز و محور

مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس لیے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رب ہے ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٢٢١جلد سوم صفحہ ٢٢٤)

نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے نور سے ہیں

حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خلقت کسی بشر کی خلقت کی طرح نہیں بلکہ عالم ممکنات میں کوئی چیز بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧،چشتی)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاسایہ نہیں تھا

عالمِ امکان کو (جو تحت الثریٰ سے عرش تک کی جملہ موجودات و کائنا ت کا محیط ہے) جس قدر دقت نظر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود پاک اسکے اندر نظر نہیں آتا ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بزم امکان سے بالا تر ہیں۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سایہ نہ تھا ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)

عقیدہ علم غیب

جو علم غیب اللہ عزوجل کے ساتھ مخصوص ہے اس پر وہ اپنے خاص رسولوں علیہم السلام کو مطلع فرما دیتا ہے ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٣١٠ جلد اول ٤٤٦)

شیخ مجدد کا مسلک پرتصلّب و تشدد

جو شخص تمام ضروریات دین پرایمان رکھنے کا دعویٰ کرے لیکن کفرو کفار کے ساتھ نفرت و بیزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرتد ہے ۔ اس کا حکم منافق کا حکم ہے ۔ جب تک خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھی جائے اس وقت تک خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ محبت نہیں ہو سکتی ۔ یہیں پر یہ کہنا ٹھیک ہے ۔ تولّٰی بے تبرّ یٰ نیست ممکن ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٥)

اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کرام کیساتھ محبت کا فرض ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے ۔ قُل لاَّ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی ۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے محبت

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نیکی کیساتھ یاد کرنا چاہیے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی وجہ سے انکے ساتھ محبت رکھنی چاہیے ۔ ان کے ساتھ محبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیساتھ محبت ہے ، ان کے ساتھ عداوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ساتھ عداوت ہے ۔ (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحابِِ رسول رضی اللہ عنہم کے درجات

تمام صحابہ کرام میں سب سے افضل و اعلیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان دونوں باتوں پر اجماع امت ہے اور چاروں آئمہ مجتہدین امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر علماء اہلسنّت کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا عثمان غنی ہیں ، پھر ان کے بعد تمام امت میں سب سے افضل سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٣٠)

مولیٰ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں

حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ ، کے ساتھ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و سیدنا طلحہٰ و سیدنا زبیر و سیدنا معاویہ و سیدنا عمر و بن العاص رضی اللہ عنہم کی لڑائیاں ہوئیں ۔ ان سب میں مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ حق پر تھے ۔ اور یہ حضرات خطا پر ۔ لیکن وہ خطا عنادی نہ تھی بلکہ خطائے اجتہادی تھی ۔ مجتہد کو اس کی خطائے اجتہادی پر بھی ایک ثواب ملتا ہے ۔ ہم کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت رکھنے ، ان سب کی تعظیم کرنے کا حکم ہے جو کسی صحابی کے ساتھ بغض و عداوت رکھے وہ بد مذہب ہے ۔ (خلاصہ مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ٣٢٦ تا ٣٣٠،چشتی)

روافض سے اجتناب

جو لوگ کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اللہ عزوجل نے قرآن میں ان کو کافر کہا ہے ۔ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّار مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھُلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے ۔ (مکتوب ٥٤ جلد اول صفحہ٧١،چشتی)

اولیائے کرام کی فضیلت

انبیا و اولیاء کی پاک روحوں کو عرش سے فرش تک ہر جگہ برابر کی نسبت ہوتی ہے کوئی چیز ان سے نزدیک و دور نہیں ۔ (مکتوب ٢٨٩ جلد ۱ صفحہ ٣٧١)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کے اولیائے کرام کا طواف کرنے کےلیے کعبہ معظمہ حاضر ہوتا اور ان سے برکتیں حاصل کرتا ہے ۔ (مکتوب ٢٠٩ جلد اول صفحہ ٢١١)

اکمل اولیا اللہ کو اللہ عزوجل یہ قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ (مکتوب ٥٨ جلد دوم صفحہ ١١٥)

عارف ایسے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ عرض ہو یا جوہر ، آفاق ہو یا انفس تمام مخلوقات اور موجودات کے ذروں میں سے ہر ایک ذرہ اس کےلیے غیب الغیب کا دروازہ ہوجاتا ہے اور ہر ایک ذرہ بارگاہ الٰہی کی طرف اس کےلیے ایک سڑک بن جاتا ہے ۔ (مکتوب ١١٠ جلد سوم صفحہ٢١٠)

غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ تقدیر بدل سکتے ہیں

حضرت غوث اعظم محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ جو قضا لوح محفوط میں بشکل مبرم لکھی ہوئی ہو اور اس کی تعلیق صرف علم خداوندی میں ہو ۔ ایسی قضا میں باذن اللہ تصرف فرما سکتے ہیں ۔ (مکتوب ٢١٧ جلد اول صفحہ ٢٢٤)

حضرت غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء ، ابدال ، اقطاب ، اوتاد، نقبا ، نجبا ، غوث یا مجدد ہونگے ، سب فیضان ولایت و برکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے محتاج ہونگے بغیر ان کے واسطے اور وسیلے کے قیامت تک کوئی شخص ولی نہیں ہو سکتا ۔ احمد سرہندی بھی حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا نائب ہے جس طرح سورج کا پرتو پڑنے سے چاند منور ہوتا ہے اسی طرح احمد سرہندی پر بھی تمام فیوض و برکات حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے فائز ہورہے ہیں ۔ (مکتوب ١٢٣ جلد سوم صفحہ ٢٤٨،چشتی)

تقلید واجب ہے

مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظیم و حدیث شریف سے احکام شرعّیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے۔ مقلدین کےلیے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کررہے ہیں اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کر کے اسی پر عمل کریں ۔ (مکتوب ٢٨٦ جلد اول صفحہ ٣٧٥)

بد مذہبوں سے بچو

اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خلق عظیم کے ساتھ موصوف ہیں ، کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا حکم دیا۔ اسلام کی عزت ،کفر کی ذلت پر اور مسلمانوں کی عزت ، کافروں کی ذلت پر موقوف ہے ۔ جس نے کافروں کی عزت کی اس نے مسلمانوں کی ذلیل کیا ۔ کافروں اور منافقوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہیے ۔ خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ میل جول بہت بڑا گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنی و عداوت تک پہنچا دیتی ہے ۔ (مکتوب ١٦٣ جلد اول صفحہ ١٦٥)

 

گائے کی قربانی

گائے ذبح کرنا ہندوستان میں اسلام کا بہت بڑا شعار ہے ۔ (مکتوب ٨١ جلد اول صفحہ ١٠٦)

ہندوؤں کے دیوتا مثل رام و کرشن وغیرہا کافر و بے دین تھے کہ لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ خدا ان کے اندر حلول کیے ہوئے ہے ۔ ہندو جس رام اور کرشن کو پوجتے ہیں وہ تو ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے ، رام وسرتھ کا بیٹا تھا ، لچھمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند تھا لہٰذا یہ کہنا کہ رام اور رحمان ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں ۔ (مکتوب ١٦٧ جلد اول صفحہ ١٧١)

میلاد و اعراس کی محافل جائز ہیں

مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام و اولیائے اعلام رضی اللہ عنہم اجمعین کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ ناجائز بات تو یہ ہے کہ قرآن عظیم کے حروف میں تغیر و تحریف کر دی جائے ۔ اور قصیدے پڑھنے میں راگنی اور موسیقی کے قواعد کی رعایت و پابندی کی جائے اور تالیاں بجائی جائیں ۔ جس مجلس میلاد مبارک میں یہ ناجائز باتیں نہ ہوں اس کے ناجائز ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ ہاں جب تک راگنی اور تال سُر کے ساتھ گانے اور تالیاں بجانے کا دروازہ بالکل بند نہ کیا جائے گا ابو الہوس لوگ باز نہ آئیں گے ۔ اگر ان نامشروع باتوں کی ذرا سی بھی اجازت دے دی جائے گی تو اس کا نتیجہ بہت ہی خراب نکلے گا ۔ (مکتوب ٧٢ جلد سوئم صفحہ ١١٦)

بے ادبوں گستاخوں سے صلح جائز نہیں

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں ۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں ۔ محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی جائز نہیں ۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے ۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے ۔ وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا ۔ دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔ کفار کے ساتھ جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہیے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہیے اور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہیے اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہیے اور ان سے اُنس و محبت نہیں کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہیے اور جہاں تک ہوسکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہ کرنا چاہیے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے تو جس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلا جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہیے ۔ (خلاصہ مکتوب ١٦٥ جلد اول صفحہ ١٦٦ تا ١٦٩)

بادشاہ حکمراں کی حیثیت

رعایا کے ساتھ بادشاہ کا تعلق ایسا ہے جیسا دل کا جسم سے ہوتا ہے ، اگر دل ٹھیک ہو تو بدن بھی ٹھیک رہے گا ، اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جائے گا ، بالکل اسی طرح ملک کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے ، اگر بادشاہ بگڑ جائے گا تو ملک کا بگڑ جانا بھی لازمی ہے ۔

شہزادہ خرّم (شاہجہاں) کو بشارت دی

ایک دن حضرت مجدد تنہا بیٹھے تھے کہ شہزادہ خرم آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یہ عجیب بات ہے کہ میں نے ہمیشہ آپ کی طرف دار و حمایت کی مگر آپ نے میرے حق میں دعا کے بجائے بادشاہ کے حق میں دعا فرمادی آپ نے جواباً فرمایا مت گھبرا ، مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ تو عنقریب تخت پر بیٹھے گا اور تیرا لقب شاہ جہاں ہوگا ۔ شہزادہ خرم نے استدعا کی کہ مجھے بطور تبرک اپنی دستار عطا فرمائیں تو امام ربانی نے اپنی دستار شہزادہ کو دی جو عرصہ تک مغل بادشاہوں کے پاس تبرکاً محفوظ رہی ۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ 1033ھ میں سرہند شریف آ کر خلوت نشین (یعنی سب سے الگ تھلگ) ہو گئے ۔ اپنے خالق و مالک عزوجل سے ملاقات کی لگن نے مخلوق سے بے نیاز کردیا ۔ اس خلوتِ خاص (یعنی خصوصی تنہائی) میں صرف چند افراد کو حجرے (یعنی کمرے) میں آنے کی اجازت تھی جن میں صاحبزادگان خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ خلفائے کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت خواجہ محمد ہاشم کِشمی ، حضرت خواجہ بدر الدین  رحمۃ اللہ علیہما اور دو ایک خادم۔ حضرت خواجہ محمد ہاشم رحمۃ اللہ علیہ وصال(یعنی انتقال) سے قبل ہی دکن تشریف لے گئے تھے ۔ حضرت خواجہ بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ آخر وقت تک حاضر رہے ۔ جب حضرت خواجہ محمد ہاشم رحمۃ اللہ علیہ رخصت ہونے لگے تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : دُعا کرتا ہوں کہ آخرت میں ہم ایک جگہ جمع ہوں ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۸۲ تا ۲۸۵) 

وصال مبارک : 28 صفرُ المُظَفَّر 1034؁ھ /1624 ء کو جانِ عزیز اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کردی ۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۲۰۸)        

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی ۔ اس کے بعد شہزادۂ مرحو م حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ۔ یہ وہی مقام تھا جہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں ایک نور دیکھا تھا اور وصیت فرمائی تھی : میری قبرمیرے بیٹے کی قبر کے سامنے بنانا کہ میں وہاں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری دیکھ رہا ہوں ۔ اس قبے (یعنی گنبد) میں پہلے شہزادۂ مرحوم حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ 1025ھ کی تدفین ہوئی او ر اس کے بعد حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کوان کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ اب اس روضہ شریف کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۹۴ ۔۲۹۶ ، ۳۰۵)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سات شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں جن کی تفصیل یہ ہے : شہزادگان : {۱} حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ {۲} حضرت خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ {۳} حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ {۴} حضرت خواجہ محمد فرخ رحمۃ اللہ علیہ {۵} حضرت خواجہ محمد عیسی رحمۃ اللہ علیہ {۶} حضرت خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ {۷} حضرت خواجہ محمد یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ ۔ شہزادیاں : {۱} بی بی رقیہ بانو  رحمۃ اللہ علیہا {۲} بی بی خدیجہ بانو رحمۃ اللہ علیہا {۳} بی بی ام کلثوم  رحمۃ اللہ علیہا (زُبْدَۃُ الْمَقامات)

خُلَفائے کِرام

حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے چند خلفائے کرام کے نام یہ ہیں :(۱) صاحبزادہ خواجہ محمد صادق (۲) صاحبزادہ خواجہ محمد سعید (۳) صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم (۴) حضرت میر محمد نعمان برہان پوری (۵) شیخ محمد طاہر لاہوری (۶) شیخ کریم الدین باباحسن ابدالی (۷) خواجہ سید آدم بَنّوری  (۸) شیخ نور محمد پٹنی (۹) شیخ بدیع الدین (۱۰) شیخ طاہر بَدَخشی (۱۱) شیخ یار محمد قدیم طالَقانی (۱۲) حضرت عبدالہادی بدایونی (۱۳) خواجہ محمد ہاشم کِشمی (۱۴) شیخ بدالدین سرہندی رحمہم اللہ علیہم اجمعین ۔ (حَضَراتُ القُدْس) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)