Sunday 7 May 2023

فضائل و مناقب حضرت سیّدُنا امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ حصّہ دوم

0 comments

فضائل و مناقب حضرت سیّدُنا امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ حصّہ دوم

اللہ تعالی نے امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت گرامی کے سبب حضرات اہل بیت کرام وحضرات صحابۂ عظام رضی اللہ تعالی عنہم کو امتیازی شان اور خصوصی فضیلت عطا فرمائی ،ان کے سروں پر عظمت و رفعت کا تاج سجایااور انہیں شرافت و بزرگی کی نعمت لازوال سے مالامال فرمایا ۔ اللہ تعالی نے حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو ہر طرح کی گندگی خواہ وہ فکری ہو یا اعتقادی ، علمی ہو یا عملی ، ظاہری ہو یا باطنی ہر طرح کی نجاست و گندگی سے پاک وصاف رکھا اور ان کی پاکی وطہارت کے بیان میں آیت کریمہ نازل فرمائی : إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالی تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھرانے والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 33)


اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے متعلق اپنی رضاوخوشنودی کا اس طرح اظہار فرمایا : رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ۔
ترجمہ : اللہ تعالی ان تمام (صحابۂ کرام) سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہو گئے ، اور اللہ تعالی نے ان کےلیے (بہشت کے) ایسے باغ تیار کیے ہیں ؛ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ (سورۃ التوبۃ آیت نمبر 100)

اسی طرح سورۂ نساء میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَکُلًّا وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنٰی ۔
ترجمہ : اور اللہ تعالی نے تمام صحابۂ کرام سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 95)

ہمارے لیے سعادت اور نجات کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم اپنے دلوں کو حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت سے آباد کریں اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی محبت سے اپنے قلوب کو روشن و منور کریں ، کیونکہ یہی وہ مقدس حضرات ہیں جو ہماری نجات کا ذریعہ بھی ہیں اور ہمارے لیے ہدایت کا معیار بھی ہیں ۔ ان ذواتِ قدسیہ میں بعض وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہیں خالق کائنات نے اہل بیت نبوت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قرابت کے شرف سے بھی نوازا ہے اور صحابیت کے درجۂ باکمال سے بھی بہرہ مند فرمایا ہے ، انہی مقدس باکمال وبے مثال عبقری شخصیات میں ایک صاحبِ عظمت و رفعت ہستی ‘ سید الشہداء ، شیر خدا سیدنا ابو عمارہ امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات گرامی نمایاں حیثیت کی حامل ہے ۔

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت قرابت بھی حاصل ہے اور رشتۂ رضاعت بھی ، آپ نسبی رشتہ کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جان ہیں اور چونکہ حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا ہے ، اس لحاظ سے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی بھی ہیں ، جیسا کہ سیرت کی معروف کتاب "الروض الانف "میں مذکور ہے : وَذَکَرَ إسْلَامَ حَمْزَۃَ وَأُمّہُ ہَالَۃُ بِنْتُ أُہَیْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ زُہْرَۃَ وَأُہَیْبُ عَمّ آمِنَۃَ بِنْتِ وَہْبٍ تَزَوّجَہَا عَبْدُ الْمُطّلِبِ ، وَتَزَوّجَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّہِ آمِنَۃَ فِی سَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ فَوَلَدَتْ ہَالَۃُ لِعَبْدِ الْمُطّلِبِ حَمْزَۃَ . وَوَلَدَتْ آمِنَۃُ لِعَبْدِ اللّہِ رَسُولَ اللّہِ ۔ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ ۔ ثُمّ أَرْضَعَتْہُمَا ثُوَیْبَۃُ ۔
ترجمہ : سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : آپ کی والدہ حضرت ہالہ بنت اُہَیْب بن عبد مناف بن زُہْرَہ ہیں ، اور حضرت اہیب سیدہ آمنہ بنت وہب رضی اللہ تعالی عنہا کے چچا جان ہیں ، حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے حضرت ہالہ سے نکاح کیا اور اس زمانہ میں آپ کے شہزادے سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے عقد فرمایا ، تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو حضرت ہالہ کے بطن سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ تولد ہوئے اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تولد ہوئے،پھر حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا نے ان دونوں حضرات کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی ۔ (الروض الأنف إسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ)

سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور شان رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چالیس سال کی عمر مبارک میں نبوت کا اعلان فرمایا اور مسلسل دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت فرماتے رہے ، جس کے نتیجہ میں اسلام ترقی کرتا ہوا امن و امان کی چادر پھیلاتا جا رہا تھا ، دن بہ دن لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے ، اب ایسے لوگوں کی باری تھی جو جاہ و جلال ، عزت و عظمت رکھتے ہوں اور اہل مکہ میں ان کا رعب و دبدبہ ہو اوران کی بات ٹالی نہ جاتی ہو ۔ چنانچہ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال ایسی مقدس ہستیاں قلعۂ اسلام میں داخل ہوئیں ؛ جن سے اسلام کا پرچم مزید بلند ہوا اور مسلمان علانیہ طور پر معبود حقیقی کی عبادت کرنے لگے ۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے حد محبت کرتے تھے اور سردارانِ قریش میں آپ بڑی بہادری و دلیری رکھتے تھے ‘ صبح شکار کےلیے جاتے تو شام گھر واپس لوٹتے ‘ پھرخانۂ کعبہ کے طواف کےلیے آتے ، اس کے بعد قریش کے سرداروں کی محفل میں بیٹھتے تھے ۔  ایک دن معمول کے مطابق جب شکار سے واپس لوٹے تو آپ کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج ابو جہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ کیسا گستاخانہ برتاؤ کیا ؟ یہ سن کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی تیر کمان لے کر ابوجہل کے پاس پہنچ گئے اور کمان سے بڑی قوت کے ساتھ اس کے سر پر ایسا مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور فرمایا: کیا تو نہیں جانتا کہ میں بھی انہیں کے دین پر ہوں ! یہ دیکھ کر قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ ابوجہل کی مدد کیلئے آئے تو اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنی ہاشم سے بنی مخزوم کی جنگ نہ چھڑجائے، کہنے لگا: جانے دو! میں نے آج ان کے بھتیجے کو بہت سخت سست کہا ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب جلد 1 صفحہ 477)(سبل الھدی والرشاد جلد 2 صفحہ 332)(الروض الانف اسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ جلد 2 صفحہ 43)

اولاد امجاد

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی اولاد امجاد سے متعلق کتب سیر و تاریخ میں یہ تفصیل ملتی ہے کہ آپ کو دو (2) شہزادے اور تین (3) شہزادیاں ہیں ، جیسا کہ سبل الہدی والرشاد میں مذکور ہے : واثنان لحمزۃ عمارۃ ، و یعلی ، ۔۔۔ و واحدۃ لحمزۃ وہی أمامۃ، ویقال أمۃ اللہ۔۔۔ولحمزۃ أیضا ابنۃ تسمی أم الفضل وابنۃ تسمی فاطمۃ ۔
ترجمہ : حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دو شہزادے (1) حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ اور (2) حضرت یعلی رضی اللہ عنہ ہیں ، اور آپ کو تین شہزادیاں ہیں ، ایک شہزادی کا نام : (1) حضرت امامہ رضی اللہ عنہا جنہیں "امۃ اللہ" بھی کہا جاتا ہے ، (2) اور دوسری شہزادی کا نام : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا (3)اور تیسری شہزادی کا نام :حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے ۔ (سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جماع أبواب أعمامہ وعماتہ و أولادہم وأخوالہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جلد 11 صفحہ 82)

دعاء حبیب کی برکت سے مشرف بہ اسلام

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ جو مشرف بہ اسلام ہوئے در اصل یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعاء مقبول کا نتیجہ تھا ، خود سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : أَنّہُ قَالَ لَمّا احْتَمَلَنِی الْغَضَبُ وَقُلْت : أَنَا عَلَی  آبَائِی وَقَوْمِی ، وَبِتّ مِنْ الشّکّ فِی أَمْرٍ عَظِیمٍ لَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمِ ثُمّ أَتَیْت الْکَعْبَۃَ ، وَتَضَرّعْت إلَی اللّہِ سُبْحَانَہُ أَنْ یَشْرَحَ صَدْرِی لِلْحَقّ وَیُذْہِبَ عَنّی الرّیْبَ فَمَا اسْتَتْمَمْتُ دُعَائِی حَتّی زَاحَ عَنّی الْبَاطِلُ وَامْتَلَأَ قَلْبِی یَقِینًا أَوْ کَمَا قَالَ۔فَغَدَوْت إلَی رَسُولِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فَأَخْبَرْتہ بِمَا کَانَ مِنْ أَمْرِی ، فَدَعَا لِی بِأَنْ یُثَبّتَنِی اللّہُ وَقَالَ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ حِینَ أَسْلَمَ ۔
ترجمہ : واقعہ یہ ہے کہ جب مجھ پر غصہ غالب ہو گیا تو میں نے کہا کہ میں اپنی قوم وقبیلہ کے دین پر ہوں ،اور میں نے بڑی کشمکش میں اس اہم معاملہ میں اس طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر بھی نہ سویا ، پھر میں کعبۃ اللہ شریف کے پاس آیا اور اللہ سبحانہ و تعالی کے دربار میں تضرع وزاری کی کہ اللہ تعالی میرے سینہ کو حق کےلیے کھول دے اور مجھ سے شک وشبہ کو دفع کردے،تو میں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دور ہو گیا اور میرا قلب یقین کی دولت سے مالا مال ہوگیا ۔ پھر صبح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالی مجھے اس نعمت اسلام پرہمیشہ ثابت قدم رکھے۔جس وقت آپ نے اسلام قبول کیا یہ اشعار کہے : ⬇

حَمِدْت اللّہَ حِینَ ہَدَی فُؤَادِی
إلَی الْإِسْلَامِ وَالدّینِ الْحَنِیفِ
ترجمہ : میں اللہ تعالی کی تعریف بجا لاتا ہوں اور اس کا شکر اداکرتا ہوں کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کےلیے کھول دیا ۔

الدّینُ جَاءَ مِنْ رَبّ عَزِیزٍ
خَبِیرٍ بِالْعِبَادِ بِہِمْ لَطِیفِ
ترجمہ : یہ وہ مبارک دین ہے جو ایسے پروردگار کی جانب سے آیا ہے جو غلبہ والا ، بندوں کی خبر رکھنے والا ہے اور اُن پر مہربان ہے ۔

إذَا تُلِیَتْ رَسَائِلُہُ عَلَیْنَا
تَحَدّرَ دَمْعُ ذِی اللّبّ الْحَصِیفِ
ترجمہ : جب اس خدائے واحد کی آیتیں ہمارے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کامل عقل رکھنے والے شخص کے آنسو بے اختیار بہہ جاتے ہیں ۔

رَسَائِلُ جَاءَ أَحْمَدُ مِنْ ہُدَاہَا
بِآیَاتِ مُبَیّنَۃِ الْحُرُوفِ
ترجمہ : یہ وہ باعظمت احکام ہیں کہ اُن کی ہدایت دینے کےلیے حضرت احمد مجتبی محمدعربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسی روشن آیات لائے ہیں جن کے ہرحرف میں ہدایت ہے ۔

وَأَحْمَدُ مُصْطَفًی فِینَا مُطَاعٌ
فَلَا تَغْشَوْہُ بِالْقَوْلِ الْعَنِیفِ
ترجمہ : اور حضرت احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالی کی جانب سے ہم میں منتخب اور برگزیدہ ہیں اور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ، تو اے لوگو ! ان کی تعلیمات کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ ۔ (الروض الأنف إسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ جلد 2 صفحہ 43،چشتی)

انسان کی خوش بختی اور سعادت مندی یہ ہے کہ وہ دامنِ اسلام سے وابستہ رہے ، ایمان کے انوار سے اپنے دل و جان کو روشن و منور کرے ، اسی لیے بندۂ مؤمن کی عین آرزو وتمنا یہی ہوتی ہے کہ جب تک وہ زندہ رہے اسلام پر ثابت قدم رہے اور موت بھی آئے تو ایمان کی حالت میں آئے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو ۔ یہ تو عمومی طورپر تمام اہل ایمان کی کیفیت ہے لیکن سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات قدسی صفات وہ ہے ، جن کے سینہ کو اللہ تعالی نے اسلا م کےلیے کھول دیا تھا اور اُسے نورایمان سے معمور فرمادیاتھا ۔ سورۂ زمر میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقٰسِیَۃِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ۔
ترجمہ : بھلا جس شخص کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کےلیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوگا) تو ان کےلیے خرابی ہے جن کے دل اللہ تعالی کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں اور یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔ (سورۃ الزمر آیت نمبر 22)

اس آیتِ کریمہ میں عمومی طور پر ان حضرات کا تذکرہ کیا گیا جن کے سینوں کو اللہ تعالی نے اسلام کےلیے کھول دیا ہے اور انہیں روشن و منور بھی فرما دیا ہے ، نیز ان کی عظمت و رفعت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حضرات ہرگز اس شخص کی طرح نہیں ہو سکتے جس کا دل یادِ الہی سے غافل ہے ، تاہم علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے "تفسیر روح البیان"میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا امیر حمزہ اور سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہما کی شان میں نازل ہوئی ، جیسا کہ تفسیر روح البیان میں ہے : واعلم ان الآیۃ عامۃ فیمن شرح صدرہ للاسلام بخلق الایمان فیہ وقیل نزلت فی حمزۃ بن عبد المطلب وعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما وابی لہب وولدہ . فحمزۃ وعلی ممن شرح اللہ صدرہ للاسلام . وابو لہب وولدہ من الذین قست قلوبہم فالرحمۃ للمشروح صدرہ والغضب للقاسی قلبہ ۔
ترجمہ : اس بات کو ذہن نشین کرلو کہ یہ آیت کریمہ ان حضرات کے حق میں وارد ہوئی ہے جن کے سینوں میں ایمان کی شمع روشن کرکے انہیں اسلام کےلیے کھول دیا گیا ہو۔نیز یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں اور ابو لہب اور اس کے لڑکے کی مذمت میں نازل ہوئی ، کیونکہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ یہ وہ برگزیدہ حضرات ہیں جن کے سینہ کو اللہ تعالی نے اسلام کےلیے کھول دیا ہے ، اور ابولہب اور اس کا لڑکا ان لوگوں میں سے ہے جن کے دل سخت ہو گئے ہیں ۔ تو اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اس خوش نصیب کےلیے ہے جس کا شرح صدر ہو گیا ہو ، اور اللہ تعالی کا غضب وقہر اس کےلیے ہے جس کا دل سخت ہو گیا ہے ۔ (تفسیر روح البیان،سورۃ الزمر۔22)

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو جن مبارک القاب سے یاد کیا جاتا ہے ان میں سے چند یہ ہیں : (1)سید الشہداء ، (2) اسد اللہ ، (3) اسدِ الرسول ، (4) افضل الشہداء ، (5) فاعل الخیرات ، (نیکیاں کرنے والے)(6) کاشف الکربات (مصائب کو دور کرنے والے) ۔

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ وہ باعظمت صحابی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف آپ کی ذات ہی سے محبت نہیں کرتے بلکہ آپ کا نام بھی بے حد پسند فرماتے تھے،جیساکہ اس روایت سے ظاہر ہے : عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما ، قال : ولد لرجل منا غلام فقالوا : ما نسمیہ ؟ فقال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : سموہ بأحب الأسماء إلی حمزۃ بن عبد المطلب ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا : ہمارے قبیلہ کے ایک صاحب کو لڑکا تولد ہوا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھے سب سے زیادہ محبوب جونام ہے وہی اس لڑکے کا نام رکھاجائے (مجھے سب  سے پسندیدہ نام) "حمزہ بن عبد المطلب" رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث نمبر 4876،چشتی)

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے بحالت ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر صحابیت کا عظیم مرتبہ حاصل کیا اور اسی نبی برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں ایک معروضہ کیا کہ وہ وحی الٰہی کے امین ، سدرۃُ المنتہی کے مکین حضرت جبریل امین علیہ السلام کو ان کی حقیقی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما یا ۔ جب روح الامین بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے توسیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اوپر دیکھو ! سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے جب نگاہ اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے حضرت جبریل علیہ السلام ہیں ، چنانچہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے "دلائل النبوۃ" میں روایت نقل کی ہے : عن عمار بن أبی عمار ، أن حمزۃ بن عبد المطلب قال : یا رسول اللہ أرنی جبریل علیہ السلام فی صورتہ . فقال : إنک لا تستطیع أن تراہ  قال : بلی فأرنیہ . قال : فاقعد ، فقعد، فنزل جبریل علیہ السلام علی خشبۃ کانت فی الکعبۃ یلقی المشرکون علیہا ثیابہم إذا طافوا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ارفع طرفک فانظر ، فرفع طرفہ، فرأی قدمیہ مثل الزبرجد کالزرع الأخضر فخر مغشیا علیہ ۔
ترجمہ : حضرت عمار بن ابو عمار رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے جبریل امین علیہ السلام کا ان کی حقیقی صورت میں دیدار کروائیے ! تو آپ نے ارشاد فرمایا : آپ انہیں حقیقی صورت میں نہیں دیکھ سکتے ! انہوں نے عرض کیا : یقیناً میں نہیں دیکھ سکتا ، لیکن آپ مجھے دکھائیے ! آپ نے ارشاد فرمایا : بیٹھ جاؤ ! جب وہ بیٹھ گئے ، تو حضرت جبریل علیہ السلام خانۂ کعبہ کی اس لکڑی پر اتر آئے جس پر مشرکین طواف کے وقت اپنے کپڑے ڈالا کرتے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی نگاہ اٹھاؤ اور دیکھو ! انہوں نے اپنی نگاہ اٹھائی اور حضرت جبریل علیہ السلام کے دونوں قدموں کو دیکھا جو زمرد کی مانند سبز کھیتی کی طرح دکھائی دے رہے تھے ۔ تو (کثرت انوار کی وجہ سے) آپ پر بے خودی طاری ہو گئی ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جماع أبواب کیفیۃ نزول الوحی علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث نمبر 3010)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں درود وسلام پیش کرنا یہ وہ حکم الہی ہے کہ اللہ تعالی نے نہ صرف بندوں کو اس کا حکم فرمایا بلکہ وہ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے ، اسی لیے سیدنا امیر حمزہ  رضی اللہ عنہ نے امت کو پیام دیا کثرت سے درود شریف کا اہتمام کریں ‘ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں درود پیش کرنا میزان میں سب سے زیادہ وزنی عمل ہے ، سفر معراج کے موقع پر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنت میں ملاحظہ فرمایا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استقبال فرما رہے ہیں اور ان سے ارشاد فرمایا کہ تمہاری نظرمیں محبوب ترین عمل کونساہے ؟ تو انہوں نے یہی عرض کیا کہ ہدیۂ درود ہی بہتر عمل اور نامۂ اعمال میں سب سے اہم چیز اور قیمتی ذخیرہ ہے ۔جیسا کہ " نزہۃ المجالس" میں روایت ہے : عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم دخلت الجنۃ لیلۃ أسری بی فاستقبلنی حمزۃ بن عبد المطلب فسألتہ أی الأعمال أفضل وأحب إلی اللہ أثقل فی المیزان فقال الصلاۃ علیک والترحم علی أبی بکر وعمر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ شب معراج جب میں جنت میں داخل ہوا تو حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے میرا استقبال کیا ، میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کو سب سے زیادہ فضیلت والا ، اللہ تعالی کے دربار میں محبوب ترین اور میزان میں سب سے زیادہ وزنی سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا : آپ کی خدمت میں درود پیش کرنا اور آپ کی شان و عظمت بیان کرنا ‘ نیز حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں خدائے تعالی سے درخواست رحمت کرنا ۔ (نزہۃ المجالس و منتخب النفائس باب مناقب أبی بکر وعمر جمیعا رضی اللہ عنہما جلد 1 صفحہ 348)

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت بافیض وصحبت بابرکت سے جنت کے اعلی مقامات پر فائز فرمایا ، جیسا کہ ابھی مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے سفر معراج کے موقع پر جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استقبال کیا ، اسی طرح امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی "مستدرک" اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی "جامع الاحادیث"میں روایت ہے : عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : دخلت الجنۃ البارحۃ فنظرت فیہا فإذا جعفر یطیر مع الملائکۃ ، وإذا حمزۃ متکء علی سریر ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ (حضرت)جعفر (رضی اللہ تعالی عنہ)  جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کررہے ہیں اور (حضرت) حمزہ (رضی اللہ عنہ) ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث نمبر 4878،چشتی)(جامع الأحادیث للسیوطی حدیث نمبر 12265)

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے بیان اور آپ کے مبارک تذکرہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ رفعت و عظمت اور قبولیت و بلندی عطا کی ہے کہ آپ کا تذکرہ صرف زمین والے ہی نہیں کرتے بلکہ آسمان والے بھی آپ کا ذکر خیر کرتے ہیں ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں روایت ہے : قالوا : لما أصیب حمزۃ جعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : لن أصاب بمثلک أبدا ، ثم قال لفاطمۃ ولعمتہ صفیۃ رضی اللہ عنہما : أبشرا أتانی جبریل علیہ الصلاۃ والسلام ، فأخبرنی أن حمزۃ مکتوب فی أہل السماوات حمزۃ بن عبد المطلب أسد اللہ وأسد رسولہ ۔
ترجمہ : حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا : جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمانے لگے : آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا ، پھر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی جان حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : خوش ہو جاؤ ! ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے ، انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ یقیناً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے : حمزۃ بن عبد المطلب أسد اللہ وأسد رسولہ " سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیر ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث نمبر 4869)

غزوۂ احد میں چونکہ سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادتِ عظمیٰ ہوئی ، اسی لیے بہ اختصار اس کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی شہادت کا واقعہ ذکر کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے : ⬇

غزوۂ احد 3ھ میں واقع ہوا۔ ’’اُحُد ‘‘مدینہ طیبہ کے ایک وسیع پہاڑ کا نام ہے ،جس کے متعلق نبی برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہَذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَ نُحِبُّہُ ۔
ترجمہ : یہ (اُحُد) وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب احد یحبنا و نحبہ حدیث نمبر 4083)

یہ حق و باطل کا معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں واقع ہوا ۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کے کاروان حق کی تعداد سات سو (700) تھی ، جس میں صرف سو (100)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زرہ پوش تھے، اور قریش کا لشکر تین ہزار (3000) افراد پر مشتمل تھا، جن میں سات سو (700) افراد زر ہ پوش تھے ۔ حق و صداقت کی راہ میں جام شہادت نوش کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد ستر (70) تھی ‘ جبکہ باطل پرستوں کے تیس (30) افراد جہنم رسید ہوئے ۔

غزوۂ  احد میں سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی مکمل شجاعت و جواں مردی کے ساتھ اہل مکہ کا مقابلہ کرتے رہے ۔ ہند بنت عتبہ کے وحشی نامی ایک حبشی غلام جو ماہر نشانہ باز تھے اور وہ دونوں اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے ‘ چنانچہ ان سے ہندہ نے کہا : اگر تم جنگ میں امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کردو تو تمہیں آزاد کردیا جائے گا ، وہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا مسلسل تعاقب کر رہے تھے اور موقع کی تلاش میں تھے کہ جیسا ہی موقع ملے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ پر نشانہ لگائیں گے ۔ وہ ایک مقام پر چھپ کر بیٹھ گئے ، جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ مقابلہ کرتے ہوئے ان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے چھپ کر آپ رضی اللہ عنہ پر ایک نیزہ سے وار کیا جو سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی ناف مبارک سے ہو کر پشت مبارک سے نکل گیا ۔ اور آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ پھر ہندہ نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کی بے حرمتی کی اور آپ کا شکم مبارک چاک کر کے اس سے جگر کو نکالا اور چبا کر نگلنا چاہا لیکن وہ نگل نہ سکی ۔ واضح رہے کہ بعد میں حضرت وحشی اور حضرت ہندہ دونوں کو نعمت اسلام سے سرفرازی ہو گئی ! رضی اللہ عنہما ۔

جس وقت آپ کی شہادت ہوئی اس وقت آپ کی عمر مبارک چوپن (54)سال تھی ۔ جیساکہ امام حاکم نے ’’مستدرک ‘‘ میں روایت کی ہے : حمزۃ بن عبد المطلب وقتل یوم أحد وہو ابن أربع وخمسین ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث نمبر 4880)

شہادت : پندرہ (15) شّوالُ المکرم 3 ہجری غزوہ اُحد میں آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفّار کو جہنّم واصِل کر کے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجا کر اس دنیا سے رُخْصت ہو گئے۔ (معرفتہ الصحابۃ، 17/2) دشمنوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ آپ رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه کے ناک اور کان جسم سے جُدا کر کے پیٹ مبارک اور سینئہ اقدس چاک کر دیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰه صلی اللّٰهُ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہو گئے: آپ پر اللّٰه تعالیٰ کی رحمت ہو کہ آپ قرابت، داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ (دارِ قطنی، 207/5، حدیث:4209، معجمِ کبیر، 143/3، حدیث:2937)

جب سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید رنج وملال کااظہار فرمایا اور نہایت غمگین ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی چشمان مقدس سے آنسو رواں ہوگئے اور جب حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہداء احدکی نماز جنازہ پڑھائی تو ہرشہید کی نمازجنازہ کے ساتھ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ بھی پڑھائی ، اس لحاظ سے آپ کو یہ اعزاز وامتیاز حاصل ہے کہ سترمرتبہ آپ کی نمازجنازہ ادا کی گئی‘ چنانچہ شرح مسند ابو حنیفہ،ذخائر عقبی اور سیرت حلبیہ میں روایت ہے : وعن ابن شاذان من حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ : ما رأینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باکیا قط أشد من بکائہ علی حمزۃ رضی اللہ عنہ ، وضعہ فی القبلۃ ، ثم وقف علی جنازتہ ، وأنحب حتی نشغ، أی شہق ، حتی بلغ بہ لغشی من البکاء یقول : یا حمزۃ یا عم رسول اللہ وأسد رسولہ : یا حمزۃ یا فاعل الخیرات ، یا حمزۃ یا کاشف الکرب ، یا حمزۃ یا ذاب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وکان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم إذا صلی علی جنازۃ ، کبر علیہا أربعا.وکبر علی حمزۃ سبعین تکبیرۃ ، رواہ البغوی فی معجمہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن شاذان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ ہم نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کبھی اتنا اشک بار نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اشک بار ہوئے،آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھا ،پھرآپ جنازہ کے سامنے قیام فرماہوئے،آپ اس قدر اشک بار ہوئے کہ سسکیاں بھی لینے لگے ، قریب تھا کہ رنجیدگی کے سبب آپ پر بیہوشی طاری ہوجائے،آپ یہ فرماتے جاتے:اے حمزہ !اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا،اے رسول اکر م صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شیر!اے حمزہ ! اے نیکیوں کو انجام دینے والے!اے حمزہ ! اے مصیبتوں کو دور کرنے والے!اے حمزہ ! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے دفاع کرنے والے،حضو ر صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب نماز جنازہ ادا فرماتے تو چار مرتبہ تکبیر فرماتے اور آپ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر(70) مرتبہ تکبیر کے ساتھ نمازِجنازہ ادا فرمائی۔امام بغوی نے اس روایت کو اپنی معجم میں نقل کیا ہے ۔ (شرح مسند أبی حنیفۃ جلد 1 صفحہ 526،چشتی)(ذخائر العقبی جلد 1 صفحہ 176)(السیرۃ الحلبیۃ جلد 4 صفحہ 153)(سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی جلد 1 صفحہ 161)(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی)

حضرت علی لمرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا : جس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو جمع فرمائے گا ان میں سب سے افضل انبیاء و مرسلین علیہم السلام ہی رہیں گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اور یقیناً شہداء کرام میں سب سے افضل حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہونگے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب،حدیث 4864)(المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث 930)(جامع الأحادیث للسیوطی، حدیث 4003)(کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، حدیث 36937)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا : حمزہ بن عبد المطلب تمام شہیدوں کے سردار ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب ،حدیث 4872)(المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین من اسمہ علی، حدیث 4227)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : جس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو جمع فرمائے گا ان میں سب سے افضل انبیاء و مرسلین علیہم السلام ہی رہیں گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اور یقیناً شہداء کرام میں سب سے افضل حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ (جامع الأحادیث للسیوطی ، حدیث4003) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔