امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 1
محترم قارئینِ کرام : امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نسباً پٹھان حنفی مشرباً قادری اور مولدا بریلوی تھے ۔ آپ کے والد ماجد مولانا نقی رحمۃ اللہ علیہ م 1297 ھ،1880 اور جدِ امجد مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ م 1282 ،ھ 1866 بلند پایہ عالم اور صاحب حال بزرگ تھے ۔ اعلٰی حضرت نے اپنے نعتیہ دیوان میں ان دونوں بزرگوں کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے ۔ احمد ہندی رضا ابن نقی ابن رضا ۔
ولادت
آپ کی ولادت باسعادت 10 شوال المکرم 1272 ھ،14 جون 1856 کو بہ مقام بریلی (یو،پی) میں ہوٸی ۔ اعلٰی حضرت نے اپنا سنہ ولادت اس آیت سے نکالا “ اولآٰک کتب فی قلوبھم الایمان وایدھم بروح منہ ۔ (پ28 -4)
ترجمہ : وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالٰی نے ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنی طرف سے روح کے ذریعے ان کی مدد فرمائی ۔
نام : فاضل بریلوی کا نام محمد رکھا گیا اور تاریخی نام “المختار“ 1676ھ(1852ء) لیکن جداامجد مولانا رضا علی خان رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے “احمدرضا“ تجویز فرمایا ۔ بعد میں فاضل بریلوی نے خود اسی اسم شریف کے ساتھ عبدالمصطفٰی کا اضافہ فرمایا ۔ چناچہ اپنے نعتیہ دیوان میں ایک جگہ فرماتے ہیں : ⬇
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبد مصطفٰی
تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے
تعلیم و ذہانت : اپنی فطری ذکات کی بنا پر 13 سال مہینے اور 5 دن میں علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی علوم عربیہ سے فراغت کے بعد ہی آپ کے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے افتاء کی ذمہداریاں بھی آپ کو تقوض کر دیں۔ آپ نے اسی صغرسنی میں اپنے علم و فضل کے سبب فتوٰی نویس کا آغاز فرمایا۔ مولانا ظفر الدین بہاری کےنام ایک مکتوب تحریر فرماتے ہیں : ⬇
بحمدہ تعالٰی فقیر نے 14 شعبان کو 13 سال کی عمر میں پہلا فتوٰی لکھا اور اگر زندگی رہی تو 10 شعبان 1336 ھ،1917 ء کو اس فقیر کو فتاوٰی لکھتے ھوٰے بفضلہ تعالٰی پورے پچاس سال ہو جاٰیں گے اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کر سکتا ہے ۔
اعلیٰ حضرت ،مجددِ دین وملّت شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی تحریر وتقریر سے برِصغیر (پاک و ہند) کے مسلمانوں کے عقیدہ وعمل کی اصلاح فرمائی ، آپ کے ملفوظات جس طرح ایک صدی پہلے راہنما تھے ، آج بھی مشعلِ راہ ہیں ۔ دور حاضرمیں ان پر عمل کی ضرورت مزید بڑھ چکی ہے ۔ چند فرامین مبارکہ ملاحظہ کیجئے اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ⬇
(1) ماں باپ کی مُمانَعَت کے ساتھ حجِ نَفْل جائز نہیں۔(ملفوظات اعلی حضرت، ص 182)
(2) والدین کے ساتھ حسن سلوک اعظم واجبات اور اہم عبادات میں سے ہے حتّٰی کہ اللہ سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ نے ان کی شکر گزاری کو اپنے شکریہ کے ساتھ متصل فرماتے ہوئے یہ حکم دیا :”میرے شکر گزار بنو او راپنے والدین کے۔“(فتاوٰی رضویہ،ج10،ص678)
(3) اطاعت والدین جائز باتوں میں فرض ہے اگر چہ وہ خود مرتکبِ کبیرہ ہوں۔ (فتاوٰی رضویہ،ج21،ص157،چشتی)
(4) والدین کاحق وہ نہیں کہ انسان اس سے کبھی عہدہ بر آ ہو وہ اس کے حیات و وجود کے سبب ہیں تو جو کچھ نعمتیں دینی و دُنیوی پائے گا سب اُنھیں کے طفیل (صدقے) میں ہوئیں کہ ہر نعمت وکمال ، وجود پر موقوف ہے اور وجود کے سبب وہ ہوئے تو صرف ماں باپ ہونا ہی ایسے عظیم حق کا مُوجِب ہے جس سے بری الذمہ کبھی نہیں ہو سکتا ،نہ کہ اس کے ساتھ اس کی پرورش میں ان کی کوششیں، اس کے آرام کے لئے ان کی تکلیفیں خصوصاً پیٹ میں رکھنے، پیدا ہونے ، دودھ پلانے میں ماں کی اذیتیں، ان کا شکر کہاں تک ادا ہو سکتا ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 24 صفحہ نمبر 401،چشتی)
(5) بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت و توانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں جلد نظر آجائے گا کہ جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے ہوئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے،جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ (فتاوٰی رضویہ،ج24،ص424)
(6) عقلمند اور سعادت مند اگر استاذ سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاذ کا فیض سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی سر پر ملتے ہیں۔(فتاوٰی رضویہ جلد 24 صفحہ 424)
(7) کسی مسلمان بلکہ کافر ذِمّی کو بھی بلاحاجتِ شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اُسے اِیذاء پہنچے، شرعا ًناجائز وحرام ہے۔(فتاوٰی رضویہ،ج23،ص204)
(8) عوام و خواص کے یہ بھی زبان زدہے کہ بخار کی شکایت ہے ،دردِ سر کی شکایت ہے، زکام کی شکایت ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔ یہ نہ (کہنا) چاہیے ، اس لیے کہ جملہ اَمراض کا ظہور مِنْ جانِبِ اللہ (اللہ تعالٰی کی طرف سے) ہوتا ہے تو شکایت کیسی ۔ (حیات اعلیٰ حضرت جلد 3 صفحہ 94،چشتی)
اعلٰی حضرت علمی انساٰیکلوپیڈیا تھے
اعلٰی حضرت نے علوم درسیہ کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں تو خود آپ کی طبع سلیم نے رہنمائ کی۔ ایسے تمام علوم وفنون کی تعداد 45 ہے جس کی تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے ۔
علم قرآن
علم حدیث
اصول حدیث
فقہ جملہ مذاہب
اصول فقہ
جدل
تفسیر
عقائد
کلام
نحو
صرف
معانی
بیان
بدیع
منطق
مناظرہ
فلسفہ
تکسیر
ھیٰت
حساب
ہندسہ
قراۃ
تجوید
تصوف
سلوک
اخلاق
اسماءالرجال
سیر
تاریخ
نعت
ادب
ارثماطیقی
جبرومقابلہ
حساب سینی
لوگارثمات
توقیت
مناظرہ و مرایا
زیجات
مثلث کردی
مثلث مسطح
ہٰیت جدیدہ
مربعات
جفر
زائرجہ
اکر-
ان علوم کے علاوہ علم الفرئض ، عروض و اقوافی ، نجوم اوفاق فن تاریخ (اعداد) نظم و نثر فارسی ، نثر و نظم ہندی ، خط نسخ اور خط نستعلیق وغیرہ میں بھی کمال حاصل کیا ۔ اس طرح فاضل بریلوی نے جن علوم و فنون پر دسترس حاصل کی ان کی تعداد 54 سے متجاوز ہے ہمارے خیال میں عالم اسلام میں مشکل ہی سے کوئی ایسا عالم نظر آئے گا جو اس قدر علوم و فنون پر دسترس لکھتا ہو۔پھر یہی نہیں کہ اعلٰی حضرت نے علوم کی تحصیل کی بلکہ ہر ایک علم و فن میں اپنی کوئی نا کوئی یادگار چھوڑ دی ہے جن علوم و فن کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض کو فاضل بریلوی نے خود ترک فرما دیا اور بعض اپنایا اس ترک و قبول پر موصوف علیہ الرحمۃہ نے اس طرح روشنی ڈالی ہے : ⬇
میں نے اس وقت سے فلسفہ ترک کیا میں نے محسوس کیا کہ اس میں سوائے طمع کاری کے کچھ نہیں ۔ اس کی ظلمت اور زنگ ایسا چھا جاتا ہے کہ دین سلب کر لیتا ہے اور اس ظلمت کی وجہ سے قیامت کا خوف ہلکا ہہو جاتا ہے اس لیے میں نے اپنی ذمہ داریوں پر غور کیا اور ھیئت ، ھندسہ ، نجوم ، لوگارثمات اور فنون ریاضی سے میرا شغف اس لیے نہیں کہ اس میں مجھے مچق حاصل ہو بلکہ یہ توجہ تو محض تفریح طبع کےلیے ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے وقت کے تعین اور تعدیل میں مدد ملتی ہے جس سے مسلمانوں کو نماز روزے کے اوقات کے جانچ کےلیے فائدہ مجھے تین کاموں سے دلچسپی اور لگن عطا کی گئی ہے جن کی تفصیل یہ ہے ۔
دلچسپ مشاغل
سیدالمرسلین صلٰوۃ اللہ تعالٰی و سلامہ علیہم اجمعین کی حمایت کرنا کیونکہ ہر ذلیل وہابی آپ کی شان میں توہین آمیز کلام سے زبان درازی کررہا ہے ۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ میرا رب اسے قبول فرمائے گا اور رب کی رحمت کے بارے میں میرا یہی ظن ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے ۔ میں اپنے بندے سے اس کے حسن ظن کے مطابق فرماتا ہوں ۔
اس کے علاوہ دیگر بدعتیوں کی بیخ کنی جو دین کے دعویدار ہیں حالانکہ وہ وہ مفسد محض ہیں ۔
حسب استطاعت او واضح مذہب حنفی کے مطابق فتوٰی نویسی۔
تصوف کی ابتداء
فاضل بریلوی 1294 ھ،1877 ء میں اپنے والد ماجد مولانا نقی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حضرت شاہ آل رسول رحمۃ اللہ علیہ (م 1692ھ 1878 ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے ۔ فاضل بریلوی رحمۃ اللہ نے اپنے دیوان میں اپنے مرشد طریقت کی شان میں ایک منقبت لکھی جس کا مطلع ہے : ⬇
خوشا دے کہ دہندش دلائے آل رسول
خوشا مرے کہ کنندش فدائے آل رسول
فاضل بریلوی کو جن سلاسل و طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی ۔ اس کی تفصیل خود موصوف نے اس طرح لکھی ۔
قادریہ برکاتیہ جدیدہ
قادریہ آبائیہ قدیمہ
قادرہ رزاقیہ
قادریہ منوریہ
چشتیہ نظامیہ قدیمہ
قادرہ اہدلیہ
چشتیہ محبوبیہ جدیدہ
سہروردیہ فضیلہ
نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ
نقشبندیہ علائیہ علویہ
بدیعیہ
علویہ منامیہ وغیرھا
مندرجہ بالا سلاسل میں اجازت کے علاوہ فاضل بریلوی کو مصافحات اربعہ کی سندات بھی ملیں جس کی تفصیل اعلٰحضرت نے اس طرح بیان فرمائی ۔
مصا حفۃہ ، الحسنیہ
مصاحفۃہ العمریہ
مصاحفۃہ،الخضریہ
مصافحۃہ المنانیہ
ان مصافحات و اجازت کے علاوہ مختلف اذکار اشغال و اعمال وغیرہ کی بھی آپ کو اجازت حاصل تھی جیسے خواص القرآن اسماء الٰہیہ ، دلائل الخیرات حصن حصین،حزب البحر،صزب النصر،حرز الامیرین،حرزالیمانی دعاءمغنی،دعا حیدری،دعا عزارائیلی،دعا سریانی،قصیدہ غوثیہ،قصیدہ بردہ وغیرہ وغیرہ ۔
حج بیت اللہ
1323 ھ،1905 ء کو فاضل بریلوی دوسری بار حج بیت اللہ اور زیارت حرمین شریفین کے لئے تشریف لے گئے ۔ اس موقع پر ایک نظم کہی تھی جو ان کے نعتیہ دیوان میں شامل ہے جس کا مطلع یہ ہے : ⬇
شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
اس سفر میں علمائے حجاز نے آپ کی قدر و منزلت کی جس کا بخوبی اندازہ حسام الحرمین 1324 ھ، 1906 ء الدولۃالمکیہ 1323ھ،1904ء اور کفل الفقیہ 1324ھ،1906ء وغیرہ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ میں اعلٰی حضرت کی جس قدر عزت افزائی کی گئی اس کا آنکھوں دیکھا حال شیخ اسماعیل علیہ الرھمۃہ نے تحریر فرمایا ۔ لکھتے ہیں : ⬇
اہل مکہ جوق در جوق آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے بہت سے حضرات نے آپ سے التجاء کی کہ ان سند اجازت مرحمت فرمائی جائے ۔ چناچہ ان کے اصرار کی وجہ سے ایسا ہی کیا گیا - مولانا حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس سفر میں فاضل بریلوی کے ہمراہ تھے انھوں نے الاجازت المتینہ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اجازت طلبی کے لئے سب سے پہلے مولانا سید عبد الھیی مکی۔م 1332ھ،1912 ء تشریف لائے ان کے ہمراہ ایک جوان صالح شیخ حسین جمال بن عبد الرحیم تھے دونوں حضرات کو سند اجازت مرحمت فرمائی-ان کے بعد مولانا شیخ صالح کمال،م 1325ھ،1907 ء اور بعض دوسرے اہل علم آئے اور اجازت سے مشرف ہوئے- مولانا سید اسماعیل خلیل تشریف لائے-چناچہ موصوف کو اور ان کے بھائی سید مصطفٰی خلیل کو اجازت مرحمت فرمائی-ان کے بعد شیخ احمد خضراوی تشریف لائے پھر اور لوگ بھی آنے لگے-سب کو اجازت سے مشرف فرمایا بعض حضرات رہ گئے تو ان سے وعدہ فرمایا ہ وطن عزیز واپسی کے بعد سندات ارسال کر دی جائیں گہ-قیام مکہ ہی کے زمانے میں شیخ عبد القادر کر دی اور ان کے صا حبزادے شیخ فرید اور سید محمد عمر کو بھی اجازت سے مشرف فرمایا-اس کے بعد فاضل بریلوی دیارحبیب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے-یہاں جس اکرام و اعزاز سے نوازے گئے-اس کا چشم دید حال مولانا عبد الکریم مہاجر مکی رحمہ اللہ علیہ کی زبانی سنئے ۔ وہ ذاتی تاثرات کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ⬇
میں کئی سال سے مدینے میں مقیم ہوں۔ۃندوستان سے ہزاروں صاحب علم آتے ہیں۔ ان میں علماء اتقیاء سب ہوتے ھیں میں نے دیکھا کہ وہ شہر کے گلی کوچہں میں مارے مارے پھرتے ھیں اور کوئی بھی ان کو مڑ کر نہیں دیکھتا۔لیکن فاضل بریلوی کی شان عجیب ہے۔ یہاں کے علماء اور بزرگ سب ہی انکی طرف جوق در جوق چلے آرہے ھیں اور ان کی تعظیم میں بصد تعجیل کہشاں ھیں۔ یہ اللہ تعالٰی کا فضل خاص ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے- مدینہ طیبہ میں بھی فاضل بریلوی سے بہت علماء نے اجازت حاصل کی بہت سوں کو زبانی اجازت مرحمت فرمائی اور بعض سے وعدہ کیا کہ وطن عزیز واپسی کے بعد سندات ارسال کر دی جائیں گی جیسے شیخ عمر بن حمدان المحرسی،سید مامون البری شیخ الدلائل شیخ محمد وغیرہ ۔
وصال مبارک
فاضل بریلوی نے 25 صفر المفظفر 1340 ھ یوم جمعۃ المبارک دوپہر دو بج کر 38 منٹ پر بریلی میں وصال فرمایا انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ مولانا حسنین رضا خان جنہوں نے اس الوادعی سفر کا روح پرور نظارہ اپنی آنکہوں سے دیکھا تھا-لکھتے ھیں کہ فاضل بریلوی نے وصیت نامہ تحریر کرایا- پہر اس پر خود عمل کرایا-وصال شریف کے تمام کام گھڑی دیکھ کر ٹھیک وقت ہوتے رہے-جب دو بجے میں 4 منٹ باقی تھے وقت پوچھا عرض کیا گیا- “اس وقت ایک بج کر 56 منٹ ہو رہے ھیں “ فرمایا گھڑی رکھ دو۔یکایک ارشاد فرمایا۔تصاویر ہٹا دو، حاضرین سوچ میں پڑ گئے کہ یھاں تصاویر کا کیا کام یہ خطرح گزرنا تھا کہ خود ارشاد فرمایا۔ یہی کارڈ،روپیہ،پیسہ پھر ذرا وقفے سے برادر معظم حضرت مولانا مولوی محمد رضا خان صاحب سے ارشاد فرمایا وضو کر آؤ قرآن لا ؤ ۔ ابھی تشریف نہ لائے کہ برادر مولانا مصطفٰی رضا خان سے پھر ارشاد فرمایا۔ اب بیٹھے کیا کر رہے ہو سورۃ یس شریف سورہ رعد تلاوت کرو۔ عمر شریف کے اب صرف چند منٹ باقی رہ گئے ۔ حسب الحکم دونوں سورتیں تلاوت کی گئیں۔ ایسے حضور قلب اور تیقین سے سنیں کہ جس آیت میں اشتباہ ہوا یا سننے میں نہ آئی تو خود تلاوت فرما کر بتلا دی ( سبحان اللہ) سفر کی وہ دعائیں جن کا چلتے وقت پڑھنا مسنون ہے۔ تمام و کمال بلکہ معمول شریف سے زیادہ پڑھین۔پھر کلمہ طیبہ پورا پڑھا۔ جب طاقت نہ رہی اور دم آ پہنچا،ہونٹوں کی حرکت اور ذکر پاس انفاس کا ختم ہونا تھا کہ چہرہ مبارک پرایک لمعہ نور چمکا جس میں ایسی جنبش تھی جس طرح آ ئینے میں المعان خورشید جنبش کرتا ہے اس کے غائب ہوتے ہی وہ جان نورِجسم اطہر سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون خود اسی زمانے میں آپ نے ارشاد فرمایا،جنہیں ایک جھلک دکھا دیتے ھیں وہ شوق دیدار میں ایسے جاتے ھیں کہ جانا معلوم بھی نہیں ہوتا ۔
مولانا عبد العزیز محدث مراد آبادی ( استاددارالعلوم ازرفیہ اعظم گڑھ) درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین دیوان سّید آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم رحمہ اللہ علیہ ( جو ایک بلند پایہ بزرگ تھے) کی زبانی ایک واقعہ نقل فرماتے ھیں جس سے فاضل بریلوی کی ساعت وصال کی حقیقت و عظمت کا حال معلوم ہوتا ہے۔ راوی نہایت معتبر ہے اور بات خواب کی ہے جن لوگوں کو اللہ تعالٰی نے بصیرت قلبی سے نوازا ہے وہ اس واقعہ سے ضرور روشنی حاصل کریں گے۔ فاضل موصوف فرماتے ھیں۔
ایک عجیب واقعہ
بارہ ربیع الثانی 1340 ھ میں ایک شامی بزرگ دہلی تشریف لائے ان کی آمد کی خبر پا کر ان سے ملاقات کی بڑی شان و شوکت کے بزرگ تھے طبیعت میں استغناء بہت زیادہ تھا۔مسلمان جس طرح عربوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ ان کی بھی خدمت کرنا چاہتے تھے۔نذرانہ پیش کرتے تھے مگر وہ قبول نہ کرتے تھے۔اور فرماتے تھے بفضلہ تعالٰی میں فارغ البال ہوں۔مجھے ضرورت نہیں انکے اس استغناء اور طویل سفر سے سخت تعجب ہوا۔عرض کیا یہاں تشریف لانے کا سبب کیا ہے۔ فرمایا مقصد بڑا زریں تھا لیکن حاصل ننہ ہوا جس کا افسوس ہے ۔ ہی واقعہ یہ ہے۔ کہ 25 صفر المظفر 1340ھ کو میری قسمت بیدار ہوئی۔خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین حاضر دربار ہیں لیکن مجلس پر سکوت طاری ہے ۔قرینے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی کا انتظار ہے میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا فداک ابی و امی کس کا انتظار ہے فرمایا احمد رضا کا انتظار ہے۔میں نے عرض کیا احمد رضا صاحب کون ہیں فرمایا۔ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں۔ بیداری کے بعد میں نے تحقیق کی معلوم ہوا مولانا احمد رضا خان صاحب بڑے ہی جلیل القدر عالم ہیں اور بقید حیات ہیں مجھے مولاناکی مولاقات کا شوق ہوا میں ہندوستان آیا۔بریلی پہنچا معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہو گیا اور وہی 25 صفر ان کی تاریخ وصال تھی۔ میں نے یہ طویل صفر ان کی ملاقات کے لئے کیا لیکن افسوس کہ ملاقات نہ ہو سکی۔
ازدوست چہ گوئم بچہ عنوان رفتم
ہمہ شوق آمدہ بودم ہمہ حرماں رفتم
مزارِمبارک:
شہر بریلی محلّہ سودگراں میں دارالعلوم منظر الاسلام کے شمال جانب ایک پر شکوہ عمارت میں آپ کا مزارِمبارک ہے۔آپ کا عرس ہر سال 24 ،25 صفر کو ہوتا ہے اور اصناف ہند کے علماء مشائخ اس میں شریک ہوتے ہیں۔
آثار و باقیات
فاضل بریلوی کی باقیات صالحات میں ان کی لا تعداد تصانیف و تعلیقات پچاس مختلف علوم و فنون پر ہزار کے قریب ہیں۔ مولونا رحمٰن علی نے اپنی تالیف تذکرہ علمائے ہند میں جو 1325 ہجری 1887 ء میں لکھنی شروع کی فاضل بریلوی کی پچاس تصانیف کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے ۔۔۔ اس وقت فاضل بریلوی کی عمر مبارک تقریباّ 31 سال ہوگی۔اور 14 سال کی عمر میں فتوٰی نویسی کا آغاز فرما کر دن علمی دنیا میں قدم رکھا اس طرح یہ 75 تصانیف تقریباّ18 کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ اس کے بعد 35 سال حیات رہے جب ابتداء کا یہ عالم تو انتہا کیسی شاندار ہو گی 1323ھ میں جب آپ دوسری بار زیارت حرمین شریفین حج کے لئے تشریف لے گئے اپنی تصنیفات کی تعداد 200 تحریر فرمائی ہے۔ اس وقت آپ کی عمر 41 سال ہو گی ۔ اس قدر تصانیف کے علاوہ فاضل بریلوی نے مختلف علوم و فنون کی تقریباّ 80 کتابوں پر تعلیقات و حواشی تحریر فرمائے ہیں۔اس سارے علمی سرمایہ کے علاوہ آپ کا فقہی شاہکار فتاویٰ رضویہ ہے جس کا پورا نام ۔۔۔۔ العطایا النبو یہ فی الفتاویٰ الرضویہ۔۔۔ 1324ھ تک فاضل بریلوی نے اس کی سات مجلدات کا ذکر فرمایا ہے جو بعد میں 12 مجلدات تک پہنچ گئیں اور جن میں 5 شائع بھی ہو گئیں ہر ایک جلد جہازی سائز کے ہزار صفحات سے زیادہ پر مشتمل ہے تاریخ الفتاویٰ میں یہ مجموعہ امتیازی حثیت رکھتا ہے۔ دوسرا علمی شاہکار قرآن کریم کا اردو ترجمہ ہے جو کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن کے نام سے 1330ھ میں منصئہ شہود پر آیا ۔ فاضل بریلوی کے خلیفہ اور جلیل القدر عالم مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے خزائن العرفان کے نام سے اس پر تفسیر حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ ٰیوں تو دنیا میں بے شمار ترجمے ہیں ، لیکن فاضل بریلوی کے ترجمے کی شان ہی یہ ہے کہ اس میں عشق ہے، مستی ہے، دردہے، تڑپ ہے اور ادب ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنی مثال آپ ہے ۔ (مزید حصّہ نمبر 2 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment