Tuesday 16 May 2023

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم

0 comments
حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا ۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی ، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال پر ملال ٦٣ برس کی عمر میں بروز دوشنبہ (پیر) ٢٩ صفر المظفر ١٠٣٤ھ/١٦٢٤ء میں ہوا ۔ اپنے وصال کی خبر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی ، جوکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت ہے ۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔

شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نذرانہ عقیدت : ⬇

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیئ احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

عقائد و اعمال سے متعلق ارشادات : ⬇

اہلسنّت ہی جنت میں جائیں گے : نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع میں اہلسنّت و جماعت (اکثر ہم اللہ تعالیٰ ) کا اتباع کیا جائے اور صرف یہی فرقہ جنتی ہے اہلسنّت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دے گا۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٦٩ جلد اوّل مطبع نو لکشور لکھنؤ صفحہ ٨٦)

حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصود کائنات

حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی : اَللّٰھُمَّ اَنْتَ وَمَا اَنَا وَمَا سواک تَرَکْتُ لاَجَلِکَ ، یعنی اے اللہ توہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے لیے چھوڑ دیا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا : یَا مُحَمَّد اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِوَاکَ خَلَقْتُ لاجَلِکَ ، یعنی اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لیے پیدا کیا ۔ (مکتوبات مکتوب ٨ جلد دوم صفحہ ١٨)

معرفت ربّ العالمین کا سبب حقیقی

اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ارشاد فرمایا : لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ الافْلاک ، یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا ۔ لَوْ لاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوْ بِیَّۃَ ، یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ١١٢جلد سوم صفحہ ٢٣٢)

حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا مرکز و محور

مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس لیے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رب ہے ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٢٢١جلد سوم صفحہ ٢٢٤)

نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے نور سے ہیں

حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خلقت کسی بشر کی خلقت کی طرح نہیں بلکہ عالم ممکنات میں کوئی چیز بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧،چشتی)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاسایہ نہیں تھا

عالمِ امکان کو (جو تحت الثریٰ سے عرش تک کی جملہ موجودات و کائنا ت کا محیط ہے) جس قدر دقت نظر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود پاک اسکے اندر نظر نہیں آتا ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بزم امکان سے بالا تر ہیں۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سایہ نہ تھا ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)

عقیدہ علم غیب

جو علم غیب اللہ عزوجل کے ساتھ مخصوص ہے اس پر وہ اپنے خاص رسولوں علیہم السلام کو مطلع فرما دیتا ہے ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٣١٠ جلد اول ٤٤٦)

شیخ مجدد کا مسلک پرتصلّب و تشدد

جو شخص تمام ضروریات دین پرایمان رکھنے کا دعویٰ کرے لیکن کفرو کفار کے ساتھ نفرت و بیزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرتد ہے ۔ اس کا حکم منافق کا حکم ہے ۔ جب تک خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھی جائے اس وقت تک خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ محبت نہیں ہو سکتی ۔ یہیں پر یہ کہنا ٹھیک ہے ۔ تولّٰی بے تبرّ یٰ نیست ممکن ۔ (مکتوبات ربانی مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٥)

اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کرام کیساتھ محبت کا فرض ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے ۔ قُل لاَّ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی ۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے محبت

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نیکی کیساتھ یاد کرنا چاہیے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی وجہ سے انکے ساتھ محبت رکھنی چاہیے ۔ ان کے ساتھ محبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیساتھ محبت ہے ، ان کے ساتھ عداوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ساتھ عداوت ہے ۔ (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحابِِ رسول رضی اللہ عنہم کے درجات

تمام صحابہ کرام میں سب سے افضل و اعلیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان دونوں باتوں پر اجماع امت ہے اور چاروں آئمہ مجتہدین امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر علماء اہلسنّت کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا عثمان غنی ہیں ، پھر ان کے بعد تمام امت میں سب سے افضل سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٣٠)

مولیٰ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں

حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ ، کے ساتھ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و سیدنا طلحہٰ و سیدنا زبیر و سیدنا معاویہ و سیدنا عمر و بن العاص رضی اللہ عنہم کی لڑائیاں ہوئیں ۔ ان سب میں مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ حق پر تھے ۔ اور یہ حضرات خطا پر ۔ لیکن وہ خطا عنادی نہ تھی بلکہ خطائے اجتہادی تھی ۔ مجتہد کو اس کی خطائے اجتہادی پر بھی ایک ثواب ملتا ہے ۔ ہم کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت رکھنے ، ان سب کی تعظیم کرنے کا حکم ہے جو کسی صحابی کے ساتھ بغض و عداوت رکھے وہ بد مذہب ہے ۔ (خلاصہ مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ٣٢٦ تا ٣٣٠،چشتی)

روافض سے اجتناب

جو لوگ کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اللہ عزوجل نے قرآن میں ان کو کافر کہا ہے ۔ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّار مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھُلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے ۔ (مکتوب ٥٤ جلد اول صفحہ٧١،چشتی)

اولیائے کرام کی فضیلت

انبیا و اولیاء کی پاک روحوں کو عرش سے فرش تک ہر جگہ برابر کی نسبت ہوتی ہے کوئی چیز ان سے نزدیک و دور نہیں ۔ (مکتوب ٢٨٩ جلد ۱ صفحہ ٣٧١)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کے اولیائے کرام کا طواف کرنے کےلیے کعبہ معظمہ حاضر ہوتا اور ان سے برکتیں حاصل کرتا ہے ۔ (مکتوب ٢٠٩ جلد اول صفحہ ٢١١)

اکمل اولیا اللہ کو اللہ عزوجل یہ قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ (مکتوب ٥٨ جلد دوم صفحہ ١١٥)

عارف ایسے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ عرض ہو یا جوہر ، آفاق ہو یا انفس تمام مخلوقات اور موجودات کے ذروں میں سے ہر ایک ذرہ اس کےلیے غیب الغیب کا دروازہ ہوجاتا ہے اور ہر ایک ذرہ بارگاہ الٰہی کی طرف اس کےلیے ایک سڑک بن جاتا ہے ۔ (مکتوب ١١٠ جلد سوم صفحہ٢١٠)

غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ تقدیر بدل سکتے ہیں

حضرت غوث اعظم محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ جو قضا لوح محفوط میں بشکل مبرم لکھی ہوئی ہو اور اس کی تعلیق صرف علم خداوندی میں ہو ۔ ایسی قضا میں باذن اللہ تصرف فرما سکتے ہیں ۔ (مکتوب ٢١٧ جلد اول صفحہ ٢٢٤)

حضرت غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء ، ابدال ، اقطاب ، اوتاد، نقبا ، نجبا ، غوث یا مجدد ہونگے ، سب فیضان ولایت و برکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے محتاج ہونگے بغیر ان کے واسطے اور وسیلے کے قیامت تک کوئی شخص ولی نہیں ہو سکتا ۔ احمد سرہندی بھی حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا نائب ہے جس طرح سورج کا پرتو پڑنے سے چاند منور ہوتا ہے اسی طرح احمد سرہندی پر بھی تمام فیوض و برکات حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے فائز ہورہے ہیں ۔ (مکتوب ١٢٣ جلد سوم صفحہ ٢٤٨،چشتی)

تقلید واجب ہے

مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظیم و حدیث شریف سے احکام شرعّیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے۔ مقلدین کےلیے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کررہے ہیں اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کر کے اسی پر عمل کریں ۔ (مکتوب ٢٨٦ جلد اول صفحہ ٣٧٥)

بد مذہبوں سے بچو

اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خلق عظیم کے ساتھ موصوف ہیں ، کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا حکم دیا۔ اسلام کی عزت ،کفر کی ذلت پر اور مسلمانوں کی عزت ، کافروں کی ذلت پر موقوف ہے ۔ جس نے کافروں کی عزت کی اس نے مسلمانوں کی ذلیل کیا ۔ کافروں اور منافقوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہیے ۔ خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ میل جول بہت بڑا گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنی و عداوت تک پہنچا دیتی ہے ۔ (مکتوب ١٦٣ جلد اول صفحہ ١٦٥)

 

گائے کی قربانی

گائے ذبح کرنا ہندوستان میں اسلام کا بہت بڑا شعار ہے ۔ (مکتوب ٨١ جلد اول صفحہ ١٠٦)

ہندوؤں کے دیوتا مثل رام و کرشن وغیرہا کافر و بے دین تھے کہ لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ خدا ان کے اندر حلول کیے ہوئے ہے ۔ ہندو جس رام اور کرشن کو پوجتے ہیں وہ تو ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے ، رام وسرتھ کا بیٹا تھا ، لچھمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند تھا لہٰذا یہ کہنا کہ رام اور رحمان ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں ۔ (مکتوب ١٦٧ جلد اول صفحہ ١٧١)

میلاد و اعراس کی محافل جائز ہیں

مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام و اولیائے اعلام رضی اللہ عنہم اجمعین کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ ناجائز بات تو یہ ہے کہ قرآن عظیم کے حروف میں تغیر و تحریف کر دی جائے ۔ اور قصیدے پڑھنے میں راگنی اور موسیقی کے قواعد کی رعایت و پابندی کی جائے اور تالیاں بجائی جائیں ۔ جس مجلس میلاد مبارک میں یہ ناجائز باتیں نہ ہوں اس کے ناجائز ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ ہاں جب تک راگنی اور تال سُر کے ساتھ گانے اور تالیاں بجانے کا دروازہ بالکل بند نہ کیا جائے گا ابو الہوس لوگ باز نہ آئیں گے ۔ اگر ان نامشروع باتوں کی ذرا سی بھی اجازت دے دی جائے گی تو اس کا نتیجہ بہت ہی خراب نکلے گا ۔ (مکتوب ٧٢ جلد سوئم صفحہ ١١٦)

بے ادبوں گستاخوں سے صلح جائز نہیں

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں ۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں ۔ محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی جائز نہیں ۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے ۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے ۔ وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا ۔ دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔ کفار کے ساتھ جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہیے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہیے اور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہیے اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہیے اور ان سے اُنس و محبت نہیں کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہیے اور جہاں تک ہوسکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہ کرنا چاہیے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے تو جس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلا جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہیے ۔ (خلاصہ مکتوب ١٦٥ جلد اول صفحہ ١٦٦ تا ١٦٩)

بادشاہ حکمراں کی حیثیت

رعایا کے ساتھ بادشاہ کا تعلق ایسا ہے جیسا دل کا جسم سے ہوتا ہے ، اگر دل ٹھیک ہو تو بدن بھی ٹھیک رہے گا ، اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جائے گا ، بالکل اسی طرح ملک کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے ، اگر بادشاہ بگڑ جائے گا تو ملک کا بگڑ جانا بھی لازمی ہے ۔

شہزادہ خرّم (شاہجہاں) کو بشارت دی

ایک دن حضرت مجدد تنہا بیٹھے تھے کہ شہزادہ خرم آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یہ عجیب بات ہے کہ میں نے ہمیشہ آپ کی طرف دار و حمایت کی مگر آپ نے میرے حق میں دعا کے بجائے بادشاہ کے حق میں دعا فرمادی آپ نے جواباً فرمایا مت گھبرا ، مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ تو عنقریب تخت پر بیٹھے گا اور تیرا لقب شاہ جہاں ہوگا ۔ شہزادہ خرم نے استدعا کی کہ مجھے بطور تبرک اپنی دستار عطا فرمائیں تو امام ربانی نے اپنی دستار شہزادہ کو دی جو عرصہ تک مغل بادشاہوں کے پاس تبرکاً محفوظ رہی ۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ 1033ھ میں سرہند شریف آ کر خلوت نشین (یعنی سب سے الگ تھلگ) ہو گئے ۔ اپنے خالق و مالک عزوجل سے ملاقات کی لگن نے مخلوق سے بے نیاز کردیا ۔ اس خلوتِ خاص (یعنی خصوصی تنہائی) میں صرف چند افراد کو حجرے (یعنی کمرے) میں آنے کی اجازت تھی جن میں صاحبزادگان خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ خلفائے کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت خواجہ محمد ہاشم کِشمی ، حضرت خواجہ بدر الدین  رحمۃ اللہ علیہما اور دو ایک خادم۔ حضرت خواجہ محمد ہاشم رحمۃ اللہ علیہ وصال(یعنی انتقال) سے قبل ہی دکن تشریف لے گئے تھے ۔ حضرت خواجہ بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ آخر وقت تک حاضر رہے ۔ جب حضرت خواجہ محمد ہاشم رحمۃ اللہ علیہ رخصت ہونے لگے تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : دُعا کرتا ہوں کہ آخرت میں ہم ایک جگہ جمع ہوں ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۸۲ تا ۲۸۵) 

وصال مبارک : 28 صفرُ المُظَفَّر 1034؁ھ /1624 ء کو جانِ عزیز اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کردی ۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۲۰۸)        

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی ۔ اس کے بعد شہزادۂ مرحو م حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ۔ یہ وہی مقام تھا جہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں ایک نور دیکھا تھا اور وصیت فرمائی تھی : میری قبرمیرے بیٹے کی قبر کے سامنے بنانا کہ میں وہاں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری دیکھ رہا ہوں ۔ اس قبے (یعنی گنبد) میں پہلے شہزادۂ مرحوم حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ 1025ھ کی تدفین ہوئی او ر اس کے بعد حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کوان کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ اب اس روضہ شریف کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۹۴ ۔۲۹۶ ، ۳۰۵)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سات شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں جن کی تفصیل یہ ہے : شہزادگان : {۱} حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ {۲} حضرت خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ {۳} حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ {۴} حضرت خواجہ محمد فرخ رحمۃ اللہ علیہ {۵} حضرت خواجہ محمد عیسی رحمۃ اللہ علیہ {۶} حضرت خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ {۷} حضرت خواجہ محمد یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ ۔ شہزادیاں : {۱} بی بی رقیہ بانو  رحمۃ اللہ علیہا {۲} بی بی خدیجہ بانو رحمۃ اللہ علیہا {۳} بی بی ام کلثوم  رحمۃ اللہ علیہا (زُبْدَۃُ الْمَقامات)

خُلَفائے کِرام

حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے چند خلفائے کرام کے نام یہ ہیں :(۱) صاحبزادہ خواجہ محمد صادق (۲) صاحبزادہ خواجہ محمد سعید (۳) صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم (۴) حضرت میر محمد نعمان برہان پوری (۵) شیخ محمد طاہر لاہوری (۶) شیخ کریم الدین باباحسن ابدالی (۷) خواجہ سید آدم بَنّوری  (۸) شیخ نور محمد پٹنی (۹) شیخ بدیع الدین (۱۰) شیخ طاہر بَدَخشی (۱۱) شیخ یار محمد قدیم طالَقانی (۱۲) حضرت عبدالہادی بدایونی (۱۳) خواجہ محمد ہاشم کِشمی (۱۴) شیخ بدالدین سرہندی رحمہم اللہ علیہم اجمعین ۔ (حَضَراتُ القُدْس) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔