Monday, 8 May 2023

فضائل و مناقب حضرت سیّدُنا امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ حصّہ سوم

فضائل و مناقب حضرت سیّدُنا امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ حصّہ سوم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ (حضرت) جعفر طیار جنت میں فرشتوں کیساتھ پرواز کر رہے ہیں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔ (المستدرک للحاکم ، حدیث 4878)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : شب معراج جب میں جنت میں داخل ہوا تو حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے میرا استقبال کیا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کونسا عمل ہے جس کو آپ سب سے زیادہ فضیلت والا ، اللہ تعالی کے دربار میں محبوب ترین اور میزان میں سب سے زیادہ وزنی سمجھتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا : آپ کی خدمت میں درود پیش کرنا اور آپ کی شان و عظمت بیان کرنا ‘ نیزحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں خدائے تعالی سے درخواست رحمت کرنا ۔ (نزہۃ المجالس و منتخب النفائس باب مناقب أبی بکر وعمر جمیعا رضی اللہ عنہما جلد 1 صفحہ 348)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ (حضرت) جعفر (رضی اللہ عنہ) جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں اور (حضرت) حمزہ (رضی اللہ عنہ) ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب، حدیث 4878)

حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے فرمایا : جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمانے لگے : آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا ، پھر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی جان حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا : خوش ہو جاؤ ! ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے ، انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ یقینا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے : سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیر ہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث 4869،چشتی)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : ہمارے قبیلہ کے ایک صاحب کو لڑکا تولد ہوا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے سب سے زیادہ محبوب جو نام ہے وہی اس لڑکے کا نام رکھا جائے ! (مجھے سب سے پسندیدہ نام) "حمزہ بن عبد المطلب" رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث 4876)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں بحوالہ مستدرک للحا کم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا : جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمانے لگے : آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی جان حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : خوش ہو جاٶ ! ابھی جبریل امین میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ یقینا حضرت حمزہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیر ہیں ۔ (المستدرک للحا کم حدیث 4869)

فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے : کہ میں ایک دن حضرت سید الشہدا جناب حمزہ رضی اللہ عنہ کے مزارِ اقدس کی زیارت کےلیے گئی اور میں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہو کر ’’السلام علیک یا عم رسول اللہ‘‘ کہا تو آپ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا ۔ (حجۃ اللہ علی العلمین جلد 2 صفحہ 863،چشتی)

سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی چمن کی آبیاری اپنے مبارک لہو سے کی

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچاؤں کی تعداد میں مورخین کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک نو،بعض کے نزدیک دس اور بعض کا قول ہے کہ گیارہ۔مگر صاحب مواہب الدنیہ نے ’’ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ‘‘کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ آپ کے والد ماجدحضرت عبداﷲ کے علاوہ حضرت عبدالمطلب کے بارہ بیٹے تھے ۔ ان میں سے صرف حضرت حمزہ وحضرت عباس رضی اللہ عنہما نے اسلام قبول کیا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بہت ہی طاقتور ، بہادراور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی والدہ ھالہ بن عبد مناف بن زہرہ ہیں ۔ آپ کی کنیت ابوعمارہ اور ابو یعلی دونوں بیٹوں کے نام سے ہے ۔ معجم بغوی میں ہے کہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ، اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان میں لکھاہواہے کہ حمزہ ’’اسداللّٰہ اور اسدرسول اللّٰہ‘‘ (اللہ ورسول کا شیر)ہیں ۔

حضرت حمزہ رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام

آپ بعثت کے دوسرے سال میں ایمان لائے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ بعثت کے چھٹے سال میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دارِارقم میں داخل ہوئے تب آپ قبولِ اسلام سے مشرف ہوئے ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے تین دن پہلے آپ نے اسلام قبول کیا ۔ اسلام کی سب سے پہلی جنگ’’غزوۂ بدر‘‘میں بھی آپ شریک تھے اوراس جنگ میں آپ نے شجاعت وجواں مردی کے وہ جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے سرداران قریش کو واصل جہنم کیا ۔

علامہ پیر کرم شاہ ازہری علیہ الرحمہ تاریخ الخمیس کے حوالے سے ضیاء النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جلد ۳ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : وحشی نے آپ کو شہید کرنے کے بعدآپ کا پیٹ چاک کیا ۔ آپ کاکلیجہ نکالا اور سردارِ مکہ ابو سفیان کی بیوی ہندکے پاس لے آیااور کہا یہ حمزہ (رضی اللہ عنہ) کا کلیجہ ہے ۔ ہند نے اسے چبایا ، اس نے نگلنا چاہا لیکن تھوک دیا شاید نگل نہ سکی ۔ ہند نے اپنے کپڑے اور زیور اتار کر وحشی کو بطور انعام دیے اور وعدہ کیا کہ مکہ جاکر وہ اسے مزید دس دینار بطور انعام دے گی ۔ پھر وحشی سے کہا چلو میرے ساتھ مجھے حمزہ (رضی اللہ عنہ)کی لاش دکھاؤ ، وہاں پہنچ کر اس سنگ دل عورت نے آپ کے اوردیگر شہداء کے کان ناک کاٹے یعنی مثلہ کیا ، پھر ان اعضاء کو پِرُویا ، ان کے کڑے بازوبند اور پازیب بنائے اور مکہ میں جب داخل ہوئی تویہ زیورپہن کر داخل ہوئی ۔

قلبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوتکلیف

جنگ ختم ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا کو تلاش کیا ، بطن وادی میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لاشہ مبارک کو پایا ، جس کامثلہ کیا گیا تھا یعنی کان ناک کاٹ لیے گئے تھے اور پیٹ جگر کی جگہ سے چاک کر دیا گیا تھا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو سخت رنج ہوا ، آپ کی ہچکی لگ گئی ، ابن ہشام نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : آپ بہت خیر کاکام کرتے تھے اور بہت صلہ رحمی کرتے تھے ، لوگو سن لو ! واللہ میں آپ کے بدلے مشرکین کے ستر آدمیوں کاضرور مثلہ کروں گا ۔ تمہاری مثل کسی کو بھی ایسی مصیبت نہیں پہنچی یعنی کوئی اس انداز پرقتل نہیں کیا گیا ۔ میں کسی ٹھہرنے کی جگہ ہرگز نہیں ٹھہرا کہ میرے دل کو وہ جگہ زیادہ غیظ میں لانے والی ہے یعنی یہ وہ جگہ ہے کہ میرے دل کو زیادہ غضب میں لارہی ہے ۔ اس سے زیادہ غضب میں لانے والی جگہ میں کبھی کھڑا نہیں ہوا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سورۂ نحل کی آیتیں نازل ہوئی ۔ ترجمہ : اور تم سزادوتو ایسی ہی سزا دو جیسی تمھیں تکلیف پہونچائی تھی اور اگر تم صبر کرو تو بے شک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا ۔ (پارہ۱۴ ، سورۂ نحل،آیت۱۲۶) ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صبر کیا اور اپنی قسم کا کفارہ دیا اور جو آپ نے کیا تھا ، اس سے رک گئے ۔ اس روایت سے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس قدر گریہ وزاری کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ، آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں قبلہ کی جانب رکھا ، پھر ان کے جنازہ کے پاس آپ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے تھے : یاحمزہ ! یا عم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسد اللہ و اسدِ رسولہ ۔ یاحمزہ یافاعل الخیرات ۔ یاحمزہ یاکاشف الکریات ۔ یاحمزہ یاذایاعن وجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔

دینِ اسلام کی خاطر عظیم قربانی

راہِ خدا میں شہید ہوناجہاں بڑی فضیلت ہے وہی یہ بڑی قربانی بھی ہے ۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرماکر راہ اسلام میں بڑی قربانی تو پیش کیں مگر شہادت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچانے اور بھی کئی قربانیاں دیں جیسے آپ کامثلہ کیاگیا اور حضرت خباب بن ارث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے کفن کےلیے سیاہ دھاریوں والی چادر جو چھوٹی تھی اس کے سوا کچھ نہ مل سکا ، اس سے جب سر ڈھکا جاتا تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھکا جاتا تو سر کھل جاتا تھا ۔ آخر میں اس چادر سے آپ کا سر ڈھکا گیا اور پیر پر اذخر گھاس ڈالی گئی ، معلوم رہے کہ اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے جو عرب میں پائی جاتی ہے ۔

جنابِ وحشی کا قبول اسلام

ایک شخص نے وحشی سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی ایسے شخص کو ہرگز قتل نہیں کرتے جودین اسلام کو قبول کر لے ۔ چنانچہ جنابِ وحشی مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے ، داعی حق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بہادر اور از حد عزیز چچا کے قاتل کو اپنے قابو میں پانے کے بعد فرط غضب سے اس کے پرکھچے اڑانے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان اقدس سے وہی بات نکلی جو ہادی برحق کی شان رفیع کے شایاں تھی ، فرمایا : اسے رہنے دواسے کچھ نہ کہو ، ایک آدمی کا مشرف بااسلام ہو جانا مجھے اس بات سے بہت عزیز ہے کہ میں ایک ہزار کفار کو تہ تیغ کروں ۔

نتیجہ : اسلام ہم تک بڑی مشقتوں اور تکلیفوں کے ساتھ پہونچاہے ، اس کی تبلیغ واشاعت کےلیے ہمیں بھی قربانی دینی چاہیے مگر افسوس ! آج جتنا نقصان اسلام کو اسلام کے ماننے والے پہنچا رہے ہیں شایدہی کوئی دوسرا پہنچا رہا ہوگا ، ہمیں ایک عزم کرنا ہوگا کہ ہم شمع اسلام کی تابناکی کو بڑھانے کےلیے صبح قیامت تک کوشش کرتے رہینگے اگر ہم سے دین کی خاطر خواہ خدمت نہیں ہو پاتی تو کم از کم اتنا ضرور عہد کریں کہ ہم ہر اس کام سے بچے گے جو اسلام کی بدنامی کا باعث ہو ۔ (ماخوذ : ضیاء النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم از علامہ پیرکرم شاہ ازہری جلد ۳ صفحہ ۴۸۹)(مواہب اللدنیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۷)(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صفحہ ۵۲۲)(سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صفحہ۱۸۵)

بے شک آپ کی ذات بڑی شجاع و بہادر اور پیکرِ استقامت تھی آپ نے اسلام کے چمن کی آبیاری اپنے مبارک لہو سے کی : ⬇

ان کے آگے وہ حمزہ کی جاں بازیاں
شیر غرّانِ سطوت پہ لاکھوں سلام

جب سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شدید رنج و ملال کا اظہار فرمایا اور نہایت غمگین ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی چشمان مقدس سے آنسو رواں ہو گئے اور جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہداء احدکی نماز جنازہ پڑھائی تو ہرشہید کی نمازجنازہ کے ساتھ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ بھی پڑھائی ، اس لحاظ سے آپ کو یہ اعزاز و امتیاز حاصل ہے کہ ستر مرتبہ آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی‘ چنانچہ شرح مسند ابو حنیفہ ، ذخائر عقبی اور سیرت حلبیہ میں روایت ہے : وعن ابن شاذان من حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ : ما رأینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باکیا قط أشد من بکائہ علی حمزۃ رضی اللہ عنہ ، وضعہ فی القبلۃ ، ثم وقف علی جنازتہ ، وأنحب حتی نشغ، أی شہق ، حتی بلغ بہ لغشی من البکاء یقول : یا حمزۃ یا عم رسول اللہ وأسد رسولہ : یا حمزۃ یا فاعل الخیرات ، یا حمزۃ یا کاشف الکرب ، یا حمزۃ یا ذاب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، وکان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم إذا صلی علی جنازۃ ، کبر علیہا أربعا.وکبر علی حمزۃ سبعین تکبیرۃ ، رواہ البغوی فی معجمہ.
ترجمہ : حضرت ابن شاذان رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ ہم نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کبھی اتنا اشک بار نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اشک بار ہوئے ، آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھا ، پھرآپ جنازہ کے سامنے قیام فرماہوئے ، آپ اس قدر اشک بار ہوئے کہ سسکیاں بھی لینے لگے ، قریب تھا کہ رنجیدگی کے سبب آپ پر بیہوشی طاری ہو جائے ، آپ یہ فرماتے جاتے:اے حمزہ !اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا،اے رسول اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیر ! اے حمزہ ! اے نیکیوں کو انجام دینے والے!اے حمزہ ! اے مصیبتوں کو دور کرنے والے!اے حمزہ ! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے دفاع کرنے والے ، حضو ر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب نماز جنازہ ادا فرماتے تو چار مرتبہ تکبیر فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر (70) مرتبہ تکبیر کے ساتھ نمازِجنازہ ادا فرمائی۔امام بغوی نے اس روایت کو اپنی معجم میں نقل کیا ہے ۔ (شرح مسند أبی حنیفۃ جلد 1 صفحہ 526،چشتی)(ذخائر العقبی جلد 1 صفحہ 176)(السیرۃ الحلبیۃ جلد 4 صفحہ 153)(سمط النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی جلد 1 صفحہ161)(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی)

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا جو اندوہناک واقعہ پیش آیا اور حق تعالی نے آپ کو جو سرفرازی اور فضیلت عطافرمائی ، اس کا تذکرہ مختلف کتب حدیث وکتب تاریخ میں ملتا ہے ‘ چنانچہ مستدرک علی الصحیحین اور امام طبرانی کی معجم اوسط وغیرہ میں روایت ہے : عن علی قال : إن أفضل الخلق یوم یجمعہم اللہ الرسل ، وأفضل الناس بعد الرسل الشہداء ، وإن أفضل الشہداء حمزۃ بن عبد المطلب ۔
ترجمہ : حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا : جس دن اللہ تعالی تمام مخلوق کو جمع فرمائے گاان میں سب سے افضل انبیاء ومرسلین ہی رہیں گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اور یقیناً شہداء کرام میں سب سے افضل حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہونگے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث نمبر 4864)(المعجم الأوسط للطبرانی حدیث نمبر 930)(جامع الأحادیث للسیوطی حدیث نمبر 4003)(کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال کتاب الفضائل من قسم الأفعال باب فضائل الصحابۃ مفصلا مرتبا علی ترتیب حروف المعجم حرف الحاء حمزۃ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر 36937)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت سے متعلق ارشاد فرمایا کہ آپ شہداء امت کے سردار ہیں ، جیسا کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے : عن جابر رضی اللہ عنہ ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : سید الشہداء حمزۃ بن عبد المطلب ، ورجل قام إلی إمام جائر فأمرہ ونہاہ فقتلہ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ نے ارشاد فرمایا : حمزہ بن عبد المطلب تمام شہیدوں کے سردار ہیں اور ایک وہ ہستی بھی سید الشہداء ہے جو کسی ظالم بادشاہ کے سامنے حق کا پرچم بلند کرے اور اسے بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہ بادشاہ اسے شہیدکردے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب حدیث نمبر 4872) ۔ اس روایت کو امام طبرانی نے معجم اوسط میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت نقل کیا ہے ۔ ( المعجم الأوسط للطبرانی،باب العین من اسمہ علی،حدیث نمبر 4227)

یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حدیث مبارک میں سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو کہا گیا ہے ، تو پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو سید الشہداء کیوں کہا جاتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بھی سید الشہداء ہیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی سید الشہداء ہیں ، کیونکہ حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی سید الشہداء فرمایا اور اس ہستی کو بھی سید الشہداء کے لقب سے ممتاز کیا جو کسی ظالم بادشاہ کے سامنے حق کو پیش کرے اور باطل کے خلاف آواز اٹھائے یہاں تک کہ جامِ شہادت نوش کرے ، چنانچہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ظالم و جابر حاکم یزید پلید کے خلاف آواز اٹھائی اور حق کا پیام پہنچایا اور آپ کو اس ظالم نے شہید کروا دیا ، لہٰذا اس حدیث شریف کی روشنی میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی سید الشہداء کہا جاتا ہے اور دونوں حضرات کا اپنی اپنی شان کے لحاظ سے سید الشہداء ہونا حدیث شریف کی روشنی میں حق و صداقت پر مبنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقے اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کی روشنی سے ہماری تاریک زندگیوں کو روشن و منور فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...