Tuesday, 16 May 2023

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

حضرت مجدد اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تحصیل علم کے بعد آگرہ (ہند) تشریف لائے اور درس و تدریس کا سلسلئہ شروع فرمایا ، اپنے وقت کے بڑے بڑے فاضل علمائے کرام آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر علم و حکمت کے چشمے سے سیراب ہونے لگے ۔ جب ’’آگرہ‘‘ میں کافی عرصہ گزر گیا تو والدِ ماجد رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی یاد ستانے لگی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے کےلیے بے چین ہو گئے ، چنانچہ والدِ محترم طویل سفر فرما کر آگرہ تشریف لائے اور اپنے لخت جگر (یعنی مجدد الف ثانی) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ آگرہ کے ایک عالم صاحب نے جب اُن سے اس اچانک تشریف آوری کا سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا : شیخ احمد (سرہندی) کی ملاقات کے شوق میں یہاں آگیا ، چونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ان کا میرے پاس آنا مشکل تھا اس لیے میں آگیا ہوں ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۳۳)

فرمانبردار اور نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈ ک اور دل کا چین ہوتی ہے ۔ جس طرح والدین کی محبت بھری نظر کے ساتھ زیارت سے اولاد کو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اسی طرح جس اولاد کی زیارت سے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ، ایسی اولاد کےلیے بھی غلام آزاد کرنے کے ثواب کی بشارت ہے چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : جب باپ اپنے بیٹے کو ایک نظر دیکھتا ہے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : اگرچہ باپ تین سو ساٹھ (360) مرتبہ دیکھے ؟ ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل بڑا ہے ۔ (مُعْجَم کبِیر جلد ۱۱ صفحہ ۱۹۱ حدیث ۱۱۶۰۸)

یعنی اُسے سب کچھ قدرت ہے ، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس کے دینے سے عاجز کہا جائے ۔

حضرت علامہ عبدُالرّء وف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ جب اصل (باپ) اپنی فَرْع (بیٹے) پر نظر ڈالے اور اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری کرتے دیکھے تو بیٹے کو ایک غلام آزاد کرنے کی مثل ثواب ملتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بیٹے نے اپنے رب تعالیٰ کو راضی بھی کیا اورباپ کی آنکھوں کوٹھنڈک بھی پہنچائی کیونکہ باپ نے اُسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبردار ی میں دیکھا ہے ۔ (اَلتّیسیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۳۱)

مجدِّد اَلفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی ، پیشانی کشادہ اور چہرہ مبارک خوب ہی نورانی تھا۔اَبرو دراز،سیاہ اور باریک تھے ۔ آنکھیں کشادہ اور بڑی جبکہ بینی (یعنی ناک مبارک) باریک اور بلند تھی ۔لب (یعنی ہونٹ) سرخ اور باریک ، دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے ۔رِیش (یعنی داڑھی) مبارک خوب گھنی ، دراز اور مربع (یعنی چوکور) تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔ پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ ایسے نفیس (یعنی صاف ستھرے) تھے ۔ کہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۱۷۱،چشتی)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجدحضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو آگرہ (الھند) سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے تھے ، راستے میں جب تھانیسر (تھا ۔ نے ۔ سر) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا عقدِ مسنون (یعنی سنتِ نکاح) کروا دیا ۔

حضرت امام ربانی ، مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سراج الائمہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم  ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے ۔

حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بزرگوں کے بزرگ ترین امام ، امامِ اجل ، پیشوائے اکمل ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بلندیِ شان کے متعلق میں کیا لکھوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تمام ائمہ مجتہدین رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم اجمعین میں خواہ وہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یاپھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان سب میں سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ وَرَع و تقویٰ والے تھے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَلْفُقَہَاءُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیفَۃ ، یعنی : تمام فقہا امام ابوحنیفہ کے عیال ہیں ۔ (مَبْدا و مَعاد صفحہ ۴۹،چشتی)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف سلاسلِ طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی : {۱} سلسلئہ سہروردیہ کبرویہ میں اپنے استاد محترم حضرت شیخ یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی {۲} سلسلۂ چشتیہ اور قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی {۳} سلسلۂ قادریہ میں کیتھلی (مضافات سرہند) کے بزرگ حصرت شاہ سکندرقادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی {۴} سلسلئۂ  نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی ۔ (سیرت مجدد الف ثانی صفحہ ۹۱)

حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے تین سلسلوں میں اکتسابِ فیض کا یوں ذِکر فرمایا ہے : مجھے کثیر واسطوں کے ذریعے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اِرادت حاصل ہے ۔ سلسلۂ نقشبندیہ میں 21 ، سلسلۂ قادریہ میں 25 اور سلسلۂ چشتیہ میں 27 واسطوں سے ۔ (مکتوباتِ امامِ ربّانی دفتر سوم حصہ نہم مکتوب نمبر ۸۷ جلد ۲ صفحہ ۲۶)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا بے حد ادب و احترم فرما یا کرتے تھے اور حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک روز حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حجرہ شریف میں تخت پر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے درویشوں کی طرح تنِ تنہا تشریف لائے ۔ جب آپ حجرے کے دروازے پر پہنچے تو خادم نے حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بیدار کرنا چاہا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے منع فرمایا دیا اور کمرے کے باہر ہی آپ  کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی باہر آہٹ سن کر آواز دی کون ہے ؟ حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : فقیر محمد باقی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ آواز سنتے ہی تخت سے مضطربانہ (یعنی بے قراری کے عالم میں) اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر آکر نہایت عجز و انکساری کے ساتھ پیر صاحب کے سامنے باادب بیٹھ گئے ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ نمبر ۱۵۳،چشتی)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مرکزالاولیا لاہور میں تھے کہ 25 جُمادَی الْآخِرہ 1012ھ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت سیِّدُنا خواجہ محمد  باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا دہلی میں وصال ہو گیا ۔ یہ خبر پہنچتے ہی آپ فوراً دہلی روانہ ہو گئے ۔ دہلی پہنچ کر مزارِ پر انوار کی زیارت کی ، فاتحہ خوانی اور اہلِ خانہ کی تعزیت سے فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۳۲ ، ۱۵۹)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا ، لیکن  1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللّٰہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔ عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیشِ نظر رکھا۔ جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا ۔

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کےلیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنتِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں ، خلفا اور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی صفحہ۱۵۷،چشتی)

ایک مرتبہ ایک حافِظ صاحب حضرت مجدد اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھ کر قراٰنِ کریم کی تلاوت کر رہے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جب ان کی طرف نگاہ فرمائی تو دیکھا کہ جس جگہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں وہ جگہ حافظ صاحب والی جگہ سے تھوڑی اونچی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً اپنی نشست (یعنی بیٹھک) نیچی کردی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۹۵)

ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے فلاسِفہ کی تعریف کرنے لگا ، اس کا انداز ایسا تھا کہ جس سے علمائے کرام رحمہم اللہ علیہم کی تو ہین لازم آتی تھی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے فلاسفہ کے رد میں حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانِ عالی سنایا تو وہ شخص منہ بگاڑ کر کہنے لگا : غزالی نے نامعقول بات کہی ہے ، مَعَاذَ اللہ ۔ حضرت امام محمد بن محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخانہ جملہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جلال آگیا فوراً وہاں سے اٹھے اوراسے ڈانٹتے ہوئے ارشاد فرمایا : اگر اہلِ علم کی صحبت کا ذوق رکھتے ہو تو ایسی بے ادبی کی باتوں سے اپنی زبان بند رکھو ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۳۱،چشتی)

کسی بھی مسلمان کی تحقیردنیا و آخرت دونوں ہی کےلیے نقصان دہ ہے لیکن بزرگانِ دین کی گستاخی کی سزا بعض اوقات دنیا میں ہی دی جاتی ہے تاکہ ایسا شخص لوگوں کےلیے عبرت کا سامان بن جائے ۔ چنانچہ حضرت تاج الدین عبدالوہاب بن علی سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک فقیہ (یعنی عالم دین) نے مجھے بتا یا کہ ایک شخص نے فقہ شافعی کے درس میں حضرت اما م محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہا ، میں اس پر بہت غمگین ہوا ، رات اسی غم کی کیفیت میں نیند آگئی ۔ خواب میں حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی ، میں نے برا بھلا کہنے والے شخص کا ذکر کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : فکر مت کیجیے ، وہ کل مر جائے گا ۔ صبح جب میں حلقہ درس میں پہنچا تو اس شخص کو ہشاش بشاش (یعنی بھلا چنگا) دیکھا مگر جب وہ وہاں سے نکلا تو گھر جاتے ہوئے راستے  میں سواری سے گرا اور زخمی ہو گیا ، سورج غروب ہونے سے قبل ہی مرگیا ۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزَّبِیدی جلد ۱ صفحہ ۱۴،چشتی)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سفر میں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے ، بسا اوقات تین تین چار چار پارے بھی مکمّل فرما لیا کرتے تھے ۔ اس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ تلاوت فرماتے ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۲۰۷)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دیگر معاملات کی طرح سونے جاگنے میں بھی سنّت کا خیال فرمایا کرتے تھے ۔ ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تراویح کے بعد آرام کےلیے بے خیالی میں بائیں (LEFT) کروٹ پر لیٹ گئے ، اتنے میں خادم پاؤں دبانے لگا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اچانک خیال آیا کہ دائیں (RIGHT) کروٹ پر لیٹنے کی سنّت چھوٹ گئی ہے ۔ نفس نے سستی دلائی کہ بھولے سے ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ اُٹھے اور سنّت کے مطابق دائیں ( یعنی سیدھی) کروٹ پر آرام فرما ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سنّت پر عمل کرتے ہی مجھ پر عنایات ، برکات اور سلسلے کے انوار کا ظہور ہونے لگا اور آواز آئی : سنّت پر عمل کی وجہ سے آپ کو آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ دیا جائے گا اور آپ کے پاؤں دبانے والے خادم کی بھی مغفرت کردی گئی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات صفحہ ۱۸۰،چشتی)

حضرت مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا : ایک دن میں اپنے رفقا کے ساتھ بیٹھا اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کر رہا تھا ، عاجزی و انکساری کا غلبہ تھا ۔ اِسی دوران بمصداقِ حدیث : مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ ، یعنی جو اللہ کےلیے انکساری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرماتا ہے ۔ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے خطاب ہوا : غَفَرْتُ لَکَ وَلِمَنْ تَوَسَّلَ بِکَ بِوَاسِطَۃٍ اَوْبِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ یعنی میں نے تم کو بخش دیا اور قیامت تک پیدا ہونے والے ان تمام لوگوں کو بھی بخش دیا جو تیرے وسیلے  سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک پہنچیں ۔ اس کے بعد مجھے حکم دیا گیا کہ میں اس بشارت کو ظاہر کر دوں ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم  صفحہ ۱۰۴)

حضرت امامِ رَبّانی ، مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سفر و حضر کے خادم حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’اجمیر شریف‘‘ قیام کے دوران ایک دن میں نے  70 ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : میں نے 70 ہزار بار کلمہ شریف پڑھا ہے اُس کا ثواب آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔ اگلے روز فرمایا : کل جب میں دعا مانگ رہا تھا تو میں نے دیکھا : فرشتوں کی فوج اُس کلمہ طیبہ کا ثواب لے کر آسمان سے اتر رہی ہے ان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ زمین پر پاؤں رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا : اس ختم کا ثواب میرے لیے نہایت مفید ثابت ہوا ۔ انہی حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا : میں نے جو کچھ بتایا اس پر تعجب نہ کرنا ، میں اپنا حال بھی تمہیں بتاتا ہوں : میں روزانہ تہجد کے بعد پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مرحوم بچوں محمد عیسیٰ ، محمد فرخ اور بیٹی امِ کلثوم کوا یصالِ ثواب کرتا تھا ۔ ہر رات ان کی روحیں کلمہ طیبہ کے ختم کےلیے آمادہ کرتی تھیں ۔ جب تک میں تہجد کی ادائیگی کے بعد کلمہ طیبہ کا ختم نہ کرلیتا وہ روحیں میرے اِرد گِرد اسی طرح چکر لگاتی رہتی جیسے بچے روٹی کےلیے ماں کے گِرد اُس وقت تک منڈلاتے رہتے ہیں جب تک انہیں روٹی نہ مل جائے ۔ جب میں کلمہ طیبہ کا ایصالِ ثواب کر دیتا تو وہ روحیں واپس لوٹ جاتیں ۔ مگر اب کثر تِ ثواب کی وجہ سے وہ معمور ہیں اور اب اُن کا آنا نہیں ہوتا ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم  صفحہ ۹۵)

حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس دن میںنے حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو کلمہ طیبہ کا ثواب نذر کیا اسی دن سے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے ایک ہزار دانے والی تسبیح بنوائی اور تنہائی میں اس پرکلمہ طیبہ کا ورد فرمانے لگے ۔ شبِ جمعہ کو خاص طور پر مریدین کے ہمراہ اُسی تسبیح پر ایک ہزار دُرُود شریف کا وِرد فرمایا کرتے ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ نمبر ۹۶،چشتی)

امام ربّانی ، حضرت مجدّدِ اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے اگر میں کبھی کھانا پکاتا تو اس کا ثواب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و امیرُالْمُؤمِنِین حضرت علی و حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا و حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی ارواح مقدسہ کےلیے ہی خاص ایصال ثواب کرتا تھا ۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   تشریف فرما ہیں ۔ میں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری جانب  متوجہ نہ ہوئے اور چہرہ انور دوسری جانب پھیر لیا اور مجھ سے فرمایا : میں عائشہ کے گھر کھانا کھاتا ہوں ، جس کسی نے مجھے کھانا بھیجنا ہو وہ (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھیجا کرے ۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توجہ نہ فرمانے کا سبب یہ تھا کہ میں اُمُّ الْمؤمِنین حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کو شریک طعام ( یعنی ایصال ثواب) نہ کرتا تھا ۔ اس کے بعد سے میں حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا بلکہ تمام اُمَّہاتُ الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ کو بلکہ سب اہل بیت کو شریک کیا کرتا ہوں اور تمام اہل بیت کو اپنے لیے وسیلہ بناتا ہوں ۔(مکتوباتِ امام ربّانی دفتر دوم حصہ ششم مکتوب نمبر ۳۶ جلد ۲ صفحہ ۸۵)

اس سے معلوم ہوا کہ جن کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ان کو پہنچ جاتا ہے یہ بھی پتا چلا کہ ایصال ثواب محدود بزرگوں کو کرنے کے بجائے سبھی کو کر دینا چاہیے ۔ ہم جتنوں کو بھی ایصال ثواب کریں گے سبھی کو برابر برابر ہی پہنچے گا اور ہمارے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی ۔ یہ بھی پتا چلا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سے بے حد اُنسیت رکھتے ہیں ۔ ’’بخاری‘‘ شریف کی روایت ہے ، حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ جب’’ غزوۂ سلاسل‘‘ سے واپس لوٹے تو انہوں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ فرمایا : (عورتوں میں) عائشہ ۔ انہوں نے پھر عرض کی : مردوں میں ؟ فرمایا : ان کے والد (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ) ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۱۹ حدیث ۳۶۶۲،چشتی)

سفر ہو یا حضر ، سردی ہو یا گرمی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ آدھی رات کے بعد بیدار ہو جاتے اورمسنون دعائیں پڑھتے ۔ پابندی سے تہجد ادا فرماتے اور تہجد میں طویل قرات کرتے ۔ قبلہ رو بیٹھ کر وضو فرماتے اور ۔ وضو میں کسی سے مدد نہ لیتے ۔ وضو میں مسواک فرماتے،فراغت کے بعد کاتب (یعنی لکھنے والے) کی طرح مسواک کبھی کان پر لگا لیتے اور کبھی خادم کے سپرد فرما دیتے ۔ وضو کے دوران تمام سنن و مستحبات کا خوب خیال فرماتے ۔ اعضائے وضو دھوتے وقت اوروضو کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے ۔ نماز کےلیے عمدہ لباس زیبِ تن فرماتے اور نہایت وقار کے ساتھ نمازکی ادائیگی کےلیے تیّار ہو جاتے ۔ نمازِ فجر کی سنتیں گھر میں ادا فرماتے ۔ فجر کے فرض مسجد میں جماعتِ کثیرہ (یعنی بہت بڑی جماعت) کے ساتھ ادا فرماتے ۔ نمازسے فراغت کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے ۔ پھردائیں یابائیں جانب رخ فرما کر دعا فرماتے اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے ۔ نماز کے بعد ذِکر ، تلاوتِ قراٰنِ کریم کاحلقہ قائم کرتے اور ابتدائی طالب علموں کی تربیت فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثر خاموش رہا کرتے ۔ بعض اوقات آپ پر گریہ (یعنی رونا) طاری ہو جاتا اور آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو جایا کرتا (یعنی خوب روتے) ۔ نمازِ چاشت پابندی سے ادا فرماتے ۔ آپ نہایت ہی کم کھانا تناول فرماتے ۔ کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں پڑھتے ۔ (دن میں) کھانے کے بعد تھوڑی دیر کےلیے قیلولہ فرماتے ۔ اذان سن کر جواب دیتے ۔ نمازِ ظہر کے بعد پھر ذِکرِ الٰہی کا حلقہ قائم کرتے ، اس کے بعد ایک دو سبق کی تدریس فرماتے ۔ تحیۃُ المسجد پابندی سے ادا فرماتے ۔ نمازِ مغرب کے بعد اَوَّابین کے چھ نوافل ادا فرماتے ۔ نمازِِ وتر کی ادائیگی کے بعد سنّت کے مطابق قبلہ رخ ہو کر سیدھا ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر آرام فرماہوتے ۔ سورج یا چاند گرہن ہونے پر نمازِ کسوف و خسوف ادا فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے ۔ ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے (یعنی شروع کے دس دن) میں مخلوق سے کنارہ کش ہو کر عبادت کا اہتمام فرماتے ۔ کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتے اور خصوصا شبِ جمعہ مریدوں کے ساتھ مل کر ایک ہزار درودِ پاک کا نذرانہ بارگا ہ رسالت میں پیش کرتے ۔ سفر و حضر میں تراویح کی مکمل بیس رکعتیں خشوع و خضوع سے ادا فرماتے ۔ رمضانُ الْمُبارَک میں کم از کم تین مرتبہ قراٰنِ کریم کا ختم فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ چونکہ حافظِ قراٰن تھے اس لیے اکثر تلاوتِ قراٰنِ کریم کا سلسلئہ جاری رہتا ۔ دورانِ سفر بھی تلاوت فرماتے اور اگر اس دوران آیتِ سجدہ آجاتی تو فوراً سواری سے اتر کر سجدۂ تلاوت ادا فرماتے ۔ انفرادی نماز میں رکوع و سجود کی تسبیحات پانچ ، سات ، نو یا گیارہ مرتبہ تک ادا فرماتے ۔ سفر کےلیے اکثر آپ پیر یا جمعرات کے دن کا انتخاب فرماتے ۔ کپڑا پہننے ، آئینہ دیکھنے ، پانی پینے ، کھانا کھانے ، چاند دیکھنے اور دیگر معمولات میں جو مسنون دعائیں مروی ہیں ان کا اہتمام فرماتے ۔ نماز کی تمام سنتوں اور مستحبات کا خوب اہتمام فرماتے ۔ جب کوئی بزرگ آپ سے ملاقات کےلیے تشریف لاتے تو تعظیماً کھڑے ہو جاتے ۔ سلام میں ہمیشہ پہل فرماتے ۔ علامہ بدر الدین سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے علم نہیں کہ کبھی کوئی شخص سلام میں آپ سے سبقت لے گیا (یعنی پہل کرنے میں کامیاب ہوا) ہو ۔ سر پر عمامہ شریف سجائے رکھتے  ٭پاجامہ ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر ہوا کرتا ۔ (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۸۰ تا ۹۲،چشتی)

حضرت سیِّدُنا امامِ ربانی مجددِ الفِ ثانی شیخ احمدفاروقی سرہندی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ عمامہ  شریف آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سرِ مبارک پر ہوتا اور شملہ دونوں کندھوں کے درمیان ہوتا۔(حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۹۲)

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہر عمل سنتِ مصطفے کی عملی تصویر ہوا کرتا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی گفتگو ، چلنے پھرنے اور زندگی کے دیگر معمولات سنّت کے مطابق گزارتے ، سنّتوں کی برکت سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جو مقام و مرتبہ نصیب ہوا اس کے متعلّق آپ رحمۃ اللہ علیہ خود ارشاد فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کمالِ اتباع (یعنی مکمل پیروی) کی وجہ سے مجھے ایسے مقام سے سرفراز کیا گیا جو ’’مقامِ رضا‘‘ سے بھی بلند وبالا ہے ۔  (حَضَراتُ القُدْس دفتر دُوُم صفحہ ۷۷)

سنّتوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت بڑی سعادت ہے کہ اس کی برکت سے مقام ِ محبوبیت نصیب ہوتا ہے جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خود ارشاد فرماتے ہیں : ہر وہ چیز جس میں محبوب کے اخلاق و عادات پائی جائیں محبوب کے ساتھ وابستگی اور اس کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ بھی محبوب اور پیاری ہوجاتی ہے، اس کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے : فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ۔ (پ۳،اٰلِ عمرٰن:۳۱)
ترجَمہ : تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا ۔
لہٰذا اللہ تَعَالٰی  کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی میں کوشش کرنا بندے کو مقامِ محبوبیت تک لے جاتا ہے ، تو ہر عقلمند پر لازم ہے کہ اللہ تَعَالٰی کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اتباع میں ظاہراً و باطناً پوری کوشش کرے ۔ (مکتوباتِ امام ِربّانی دفتر اول حصہ دوم مکتوب نمبر ۴۱ جلد ۱ صفحہ ۵)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں سے فارسی ’’مکتوبات امام ربّانی‘‘ زیادہ مشہو ر ہوئے ۔ ان کے عر بی ، اردو ، ترکی اور انگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چار رسائل کے نام مُلاحَظہ ہوں : (۱) اِثْباۃُ النُّبُوَّۃ (۲) رِسالہ تَہْلِیْلِیَّہ (۳) معارفِ لَدُنِّیَّہ (۴) شرحِ رُباعیات ۔

حضرت مجدّدِ الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے چند اَقوالِ مبارکہ : ⬇

حلال و حرام کے معاملے میں ہمیشہ باعمل علما سے رجوع کرنا چاہیے اور ان کے فتاوٰی کے مطابق عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات کا ذریعہ شریعت ہی ہے ۔(مکتوباتِ امام ربّانی دفتر اول حصہ سوم مکتوب نبر ۱۶۳ جلد ۱ صفحہ ۴۶)

احکامِ شریعت کی صحیح نوعیت علمائے آخرت سے معلوم کیجیے ان کے کلام میں ایک تاثیر ہے ، شاید ان کے مبارک کلما ت کی برکت سے عمل کی بھی توفیق مل جائے ۔ (مکتوبات امام ربّانی حصہ دوم مکتوب۷۳ ج۱ص۵۹)

تمام کاموں میں ان باعمل علمائے کرام کے فتاوٰی کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے جنہوں نے ’’عزیمت‘‘ کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور ’’رخصت‘‘ سے اجتناب کرتے(یعنی بچتے) ہیں نیزاس کو نجاتِ ابدی و اُخروی کاذریعہ و وسیلہ قرار دینا چاہیے ۔ (مکتوبات امام ربّانی مکتوب۷۰ ج۱ص۵۲)

نجاتِ آخرت تما م افعال و اقوال،اصول و فرو ع میں اہلسنّت کی پیروی کرنے پر موقوف ہے ۔(مکتوبات امام ربّانی مکتوب۶۹ ج۱ص۵۰)

سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسایہ نہ تھا۔(مکتوبات امام ربّانی دفتر سوم ،حصہ نہم،مکتوب۱۰۰ ج۲ص۷۵)

اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے خاص علمِ غیب پر اپنے خاص رسولوں کو مطلع(یعنی باخبر) فرماتا ہے ۔ (مکتوبات امام ربّانی دفتر اول،حصہ پنجم،مکتوب۳۱۰ ج۱ص۱۶۰)

حضور شاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ کوذِکرِ خیر(بھلائی) کے ساتھ یاد کرنا چاہیے ۔(مکتوبات امام ربّانی حصہ چہارم مکتوب ۲۶۶ ج۱ص ۱۳۲)

صحابہ کرم رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل فاروق اعظم رضی  اللہ تعالٰی عنہ ہیں ، ان دونوں باتوں پر صحابۂ کرام اور تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع  ہے ، نیز امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمہ اور اکثر علمائے اہلسنّت کے نزدیک حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے بعد تمام صحابۂ کرام میں سب سے افضل عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہیں ، پھر ان کے بعد سب سے افضل مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمہیں ۔ (مکتوبات امام ربّانی حصہ چہارم مکتوب ۲۶۶ ج۱ص ۱۲۹،۱۳۰)

مجلس میلاد شریف میں اگر اچّھی آواز کے ساتھ قراٰنِ کریم کی تلاوت کی جائے، نعت شریف اور صحابہ و اہل بیت و اولیائے کاملین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَکی منقبت پڑھی جائے تو اس میں کیا حرج ہے ۔ (مکتوبات  امام ربّانی دفترسوم حصہ ہشتم ،مکتوب۷۲ ج۲ص۱۵۷)

حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کمالِ محبت کی علامت یہ ہے کہ آدمی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں سے کامل دشمنی رکھے ۔ (مکتوبات امام ربّانی دفتراول حصہ سوم مکتوب ۱۶۵ جلد ۱ صفحہ ۴۸)

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : گانے بجانے کی خواہش مت کیجیے ، نہ اس کی لذّت ہی پرفدا ہوں کیوں کہ یہ شہد ملا قاتل زہر ہے ۔ (مکتوبات امام ربّانی دفتر سوم حصہ ہشتم مکتوب ۳۴ ج ۲ ص ۸۶)

حضرتِ مجدد اَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو کچھ فُیُو ض و برکات کا مجمع ہے وہ سب سرکارِ غوثیت سے ملے ہیں ۔ نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِنْ نُورِ الشَّمْس یعنی چاند کی روشنی سورج کے نور سے مستفاد ہے ۔ (مکتوبات امام ربّانی دفتر سوم حصہ نہم مکتوب۱۲۳ ج۲ص۱۴۵)

مجدِّدِ اَلفِ ثانی اور اعلٰی حضرت علیہما الرحمہ

اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین و ملّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک حیات  کے کئی گوشے ایسے ہیں جن میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی سیر ت کی جھلک نظر آتی ہے بلکہ تعلیم و تربیت ، دینی خدمات حتّٰی کہ وصال کے مہینے میں بھی یکسانیت ہے ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے : {۱} حضرت  مجدّد الف ثانی اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہما دونوں کا نام احمد ہے {۲} دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے والد سے علمِ دین حاصل کیا {۳} دونوں حضرات کی تمام عمر اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی میں بسر ہوئی {۴} دونوں صاحبان نے کبھی بھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکا یا {۵} دونوں اولیائے کرام کا وصال صفر المظفر میں ہوا ۔

مکتوباتِ امامِ ربّانی اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہما

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مکتوب میں ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ سے ایک فرمان نقل کر کے حضرت مجد د الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کو ارشادِ ہدایت قرار دیا ہے چنانچہ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک اہل ِ محبت کو گمراہ لوگوں کی صحبت کے نقصانات سمجھاتے  ہوئے لکھتے ہیں : آپ جیسے صوفی صافی منش کو حضرت سیِّدُنا شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ارشاد یاد دلاتا ہوں اور عین ہدایت کے امتثال (حکم بجالانے) کی امید رکھتا ہوں ۔ پھر حضرت مجد د الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب کا کلام ذِکر فرما کر ارشاد فرمایا ’’مولانا انصاف ! آپ یا زید یا اور اراکین مصلحت دین و مذہب زیادہ جانتے ہیں یا حضرت شیخ مجدد ؟ مجھے ہرگز آپ کی خوبیوں سے امید نہیں کہ اس اِرشادِ ہدایت بنیاد کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ لغو و باطل جانیے ، اور جب وہ حق ہے اور بے شک حق ہے تو کیوں نہ مانیے ۔ (مکتوباتِ امام احمد رضا صفحہ ۹۰)

مجدد الف ثانی اور خُلفائے اعلٰی حضرت علیہم الرحمہ

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خلیفہ امام المحدثین حضرت محمد دیدار علی شاہ اَلوَری رحمۃ اللہ علیہ بھی نقشبندی مجددی ہیں ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا کو بھی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے بے پنا ہ عقیدت و محبت تھی ، قطب مدینہ حضرت قبلہ ضیاء الدّین احمد مَدَنی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ سرپردونوں ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا : حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تو ہمارے سر کے تاج ہیں ۔ (سیدی ضیاء الدین احمد القادری جلد ۱ صفحہ ۵۰۹)

خلیفہ اعلیٰ حضرت ابو البرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’40 اِرشاد ات‘‘ جمع فرمائے ہیں ۔

ایک ایک مکتوب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بشیخ صدرالدین صدور یافتہ در بیان آنکہ مقصود از خلقت انسانی ادائ وظائف بندگیست و کمال اقبال است بجناب حق سبحانہ و تعالی ۔ حق سبحانہ و تعالی بمنتہائ (بہ نہایت) متمنائ (آرزو) ارباب کمال رساند، مقصود از خلقت انسانی ادائ وظائف بندگیست و دوام اقبال است بجناب حق سبحانہ و تعالی و این معنی بے متحقق شدن بکمال اتباع سید اولین و آخرین ظاہرا و باطنا “علیہ من الصلوات اتمھا و من التحیات ایمنھا” میسر نیست رزقنا اللہ سبحانہ و ایاکم کمال اتباعہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قولا و فعلا ظاہرا و باطنا عملا و اعتقادا آمین یا رب العالمین ۔

بعد از خدائے ہرچہ پرستند ہیچ نیست
بیدولت است آنکہ بہیچ اختیار کرد

ہر چہ غیر از حق سبحانہ مقصود است معبود است ، از عبادت غیر وقتی نجات یابد کہ غیر از خداوند جل و علا مقصودے نماند اگرچہ از مقاصد اخروی و تنعمات بہشتی باشد، ہر چند این مقاصد از حسنات است اما نزد مقربان از سیئات است، ہرگاہ در امور اخروی حال بدین منوال باشد ، از امور دنیویہ چہ گوید کہ دنیا مغضوبہ حق است سبحانہ و تا آفریدہ است ہرگز بجانب او نگاہ نکردہ و حب او سر گناہان است و طالبان آن مستحق لعن و طرد اند ” الدنیا ملعونة و ملعون ما فیہا الا ذکراللہ تعالی نجانااللہ سبحانہ عن شرھا و شر ما فیھا بحرمة حبیبه محمد سید الاولین والآخرین علیہ الصلوات والسلام وآلہ الکرام ۔
ترجمہ : بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ شیخ صدر الدین کی طرف صادر فرمایا ۔ اس بیان میں کہ انسان کی پیدائش سے مقصود طاعت و عبادت کے وظائف کی ادائیگی اور حق سبحانہ و تعالی کی جانب پورے طور پر توجہ رکھنا ہے ۔ حق سبحانہ و تعالی ارباب کمال کی تمنائوں کے اعلی مرتبہ تک عروج عطا فرمائے۔ انسان کی پیدائش سے مقصود طاعت و عبادت کے وظائف کی ادائیگی اور حق سبحانہ و تعالی کی طرف کامل طور پر دائمی توجہ رکھنا ہے اور یہ بات سید اولین و آخرین علیہ من الصلوات اتمہا و من التحیات ایمنہا کی ظاہری و باطنی کامل تابعداری کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔ رزقنا اللہ سبحانہ و ایاکم کمال اتباعہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قولا و فعلا ظاہرا و باطنا عملا و اعتقادا آمین یا رب العالمین ۔ (یعنی : حق تعالی ہم کو اور آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول و فعل ظاہر و باطن اور عمل و اعتقاد میں کامل پیروی کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین) ۔

بعد از خدائے ہرچہ پرستند ہیچ نیست
بیدولت است آنکہ بہیچ اختیار کرد

یعنی : بجز سبحانہ و تعالی کے جس کی عبادت کی جائے ہیچ و باطل یے اور جو باطل کی عبادت کرے بڑا بدبخت و نادان ہے ۔

حق سبحانہ و تعالی کے علاوہ (آدمی کا) جو کچھ بھی مقصود ہے وہی اسکا معبود ہے ، غیر حق کی عبادت سے اس وقت نجات حاصل ہوتی ہے جب حق جل و علا کے سوا کوئی چیز بھی مقصود نہ رہے۔ خواہ وہ مقاصد آخرت اور بہشت کی لذتیں اور نعمتیں ہی کیں نہ ہوں ۔ اگرچہ یہ مقاصد حسنات میں سے ہیں لیکن مقربین کے نزدیک سیئات میں داخل ہیں۔ جب آخرت کے امور کے مقاصد کی نوعیت کا یہ حال ہے تو امور دنیاوی کو مقاصد قرار دینے کی نسبت کیا کہا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا حق تعالی کی مغضوبہ (سخت ناپسندیدہ) ہے ، اور (حق تعالی نے) جب سے دنیا کو پیدا کیا ہے اس کی طرف ہرگز نہیں دیکھا ۔ اس کی محبت گناہوں کی بنیاد ہے اور اس کا چاہنے والا لعنت و پھٹکار کا مستحق ہے ۔ الدنیا ملعونة و ملعون ما فیہا الا ذکراللہ تعالی نجانااللہ سبحانہ عن شرھا و شر ما فیھا بحرمة حبیبه محمد سید الاولین والآخرین علیہ الصلوات والسلام وآلہ الکرام ۔ (اللہ تعالی ہم کو اپنے حبیب پاک سید الاولین والآخرین علیہ الصلوات والسلام وآلہ الکرام کے طفیل دنیا کے شر اور اس کے اندر جو کچھ ہے ان سب کے شر سے نجات عطا فرمائے آمین ۔ مکتوبات امام ربانی مکتوب 110 دفتر اول حصہ دوم)

مجدد الف ثانی اور ایک بزرگ کا واقعہ

حضرت محبوب سبحانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بزرگ چشتیہ حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ مجھ کو کئی سال نسبتِ حق میں قبض (طبعی انقباض) تھا، آپ کے حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قبض کی شکایت کی تو حضرت خواجہ کی توجہ و دعاء سے میری حالتِ قبض بسط سے بدل گئی، آپ بھی کچھ توجہ فرمائیں کیونکہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام خلفاء اور مریدین کو آپ کے حوالے کر دیا ہے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میرے پاس تو اتباع سُنّت کے سوا کچھ بھی نہیں، یہ سنتے ہی ان بزرگ پر حال طاری ہوا اور کثرتِ نسبت اور قوتِ باطنی کے اثرات سے سر ہند شریف کی زمین جنبش کرنے لگی، حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خادم سے فرمایا کہ طاق میں سے مسواک اٹھا لائو، آپ نے مسواک کو زمین پر ٹیک دیا، اسی وقت زمین ساکن ہو گئی اور ان بزرگ کی کیفیتِ جذب جاتی رہی، اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان بزرگ سے فرمایا کہ تمہاری کرامت سے زمینِ سر ہند جنبش میں آگئی، اور اگر فقیر دُعاء کرے تو انشاء اللہ سر ہند شریف کے مردے زندہ ہو جائیں، لیکن میں تمہاری اس کرامت (جنبشِ زمین) سے اور اپنی اس کرامت سے کہ دعا سے سر ہند شریف کے تمام مردے زندہ ہو جائیں،اثناء وضو میں بطریقِ سُنّت مسواک کرنا بد رجہا افضل جانتا ہوں ۔ (جواہر پارے از دیباچہ درِ لاثانی شاہ محمد ہدایت علی جے پوری جلد 3 صفحہ 706)

صوفی ابوالوقت

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ رحمۃ اللہ علیہ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﮯ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﺫﺍﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺳﻮﺭ ﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻏﺼﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺍﭨﮭﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻭﺿﻮﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﺳﻨﺖ ﻭﻗﺖ ﻓﺠﺮ ۔ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﺠﺮ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻇﮩﺮ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻇﮩﺮ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺼﺮ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﻉ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﺪﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﭖ ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﻈﺮ ﺗﮭﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔

ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ رحمۃ اللہ علیہ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ اللہ ﻟﻄﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺟﮕﮧ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ ‏( ﻣﺠﺪﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ) ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﮑﮧ ﻣﻌﻈﻤﮧ ، ﺑﻐﺪﺍﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻡ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ ۔ ‏( ﺍﺯﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺷﺮﯾﻒ)

نوٹ : (ایسے صوفیاء کو صوفی ابوالوقت کہا جاتا ھے ، یہ زمان و مکان time & space پر دسترس رکھتے ہیں ، اور دن کو رات اور رات کو دن بنا سکتے ہیں ، نیز زمان و مکان میں تصرف کر سکتے ہیں)

مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خوبصورت نصیحت

حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی خدمت میں ایک شخص بغرض حصول نصیحت حاضر ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے نصیحت کے موتی دیتے ہوئے اسے فرمایا کہ بیٹا نہ کبھی خدا بننے کی اور نہ کبھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بننے کوشش کرنا ۔ وہ شخص حیرت سے گویا ہوا کہ ، حضور کیا ایسی بدبختی بھی کسی سے سر زد ہو سکتی ہے ؟
فرمایا کہ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ فعّال لما یرید ۔ وہ جو چاہتا ہے جیسا چاہتا ہے کرتا ہے ۔ لہٰذا کبھی اپنے بارے میں یہ گمان ہر گز نہ کرنا کہ تو جو چاہے اور جیسا چاہے کام تیری مرضی کے موافق ہو جائے ۔ کام کبھی تیری مرضی کے مطابق ہوگا اور کبھی تیری منشاء کے خلاف ہوگا کہ یہ صرف شانِ خداوندی ہے کہ ہر کام اس کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے ۔ اور کبھی مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف حضور احمد مجتبٰی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی شان ہے کہ جس نے ان کی بات مان لی وہ مومن ہوگیا اور جس نے ان کی بات رد کردی وہ کافر و جہنمی ہوگیا ۔ لہٰذا اگر تو بھی یہ چاہتا ہے کہ تیری ہر بات مِن و عَن تسلیم کرلی جائے ۔ تیری رائے سے اختلافات نہ کئے جائیں ۔ تیری بات ہی کو حتمی و یقینی سمجھا جائے ۔ اور تیرے قول کو رد نہ کیا جائے ۔ تو سمجھ لے کہ تو اپنے آپ کو مسندِ نبوت پر بٹھانے کے گناہِ عظیم کا مرتکب ہو چکا ۔

ایک اہم سوال کا عجیب جواب

جہانگیر بادشاہ نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر مرنے والے کی قبر میں تشریف لاتے ہیں ، مگر ایک ہی وقت میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہو گی ، اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک ذات ہے وہ بیک وقت ہر قبر میں کیسے پہنچ جاتے ہیں اس کی وضاحت فرمائیے ، یہ سن کر حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے بادشاہ آپ دہلی والوں کو حکم دیں کہ وہ میری دعوت کریں ، لیکن شرط یہ ہے کہ دعوت ایک ہی دن ایک ہی وقت میں ہو ، بادشاہ کے حکم پر بہت سارے لوگوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دعوت دی اور بادشاہ نے بھی اسی دن اسی وقت کی دعوت دی ، جب وہ تاریخ وہ وقت آیا تو امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہ کی دعوت کھائی اور رات کو وہیں قیام کیا ، فجر کے بعد بادشاہ جہانگیر نے دعوت کرنے والوں تمام لوگوں کو بلایا اور پوچھا کہ رات کو امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے تمہارے پاس دعوت کھائی ؟ تو سب لوگوں نے اقرار کیا کہ رات حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ میرے گھر تشریف فرما تھے ، اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دعوت کھائی یہ ماجرا دیکھ کر بادشاہ حیران ہوا تو امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے بادشاہ میں تو ان کا ادنیٰ امتی ہوں ہر گھر میں بیک وقت پہنچ سکتا ہوں ، تو الله تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر قبر میں کیوں نہیں پہنچ سکتے ۔ (فیوضات مجددیہ صفحہ 11) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...