Wednesday 29 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ پنجم

0 comments

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ پنجم

مضمون کے آخر میں ایک بار مختصراً اُن راویوں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی آڑ لے کر صداقت فریدی رافضی اور اس کے سرپرست روافض اہلسنت و جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں : ⏬

حریز بن عثمان : حریز بن عثمان پر جرح یہ ہے کہ وہ ناصبی تھا یہ رافضی کہتے ہیں کہ : یہ وہ ملعون شخص ہے جو سفر و حضر اور ہر نماز کے بعد مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کرتا تھا بعض علماء نے اس کے کفر پر فتویٰ  دیا ہے ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۱ صفحہ ۴۶۵) ۔ اور ناصبیت کا داعی بھی تھا پھر بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس سے استدالال کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے استاد ابو الیمان حکم بن نافع الحمصی (یہ حریز بن عثمان کے شاگرد بھی تھے) سے نقل کیا ہے کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۲۳۸)

بلکہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے فرمایا : انہ رجع عن النصب یعنی حریز بن عثمان نے ناصبیت سے توبہ کر لی تھی ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۲۴۰)

عمران بن حطان : روافض کہتے ہیں کہ : یہ وہ بدبخت انسان ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کے قصیدے پڑھتا تھا ۔(تہذیب التہذیب جلد ۴ صفحہ ۳۹۷) ۔ اس کے باوجود بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس سے احتجاج کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ عمران بن حطان السدوسی نے خارجیت سے آخری عمر میں توبہ کر لی تھی ۔ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ تقریب میں لکھتے ہیں : رجع عن ذلک یعنی اس نے خارجیت سے رجوع کر لیا تھا ۔ (تقریب التہذیب صفحہ ۴۲۹،چشتی)

حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ تہذیب التہذیب جلد ۸ صفحہ ۱۱۴ لکھتے ہیں : خلاصہ یہ کہ ابو زکریا الموصلی نے اپنی تاریخ موصل میں بروایت محمد بن بشر العبدی بیان کیا ہے کہ عمران بن حطان نے اپنی آخر عمر میں موت سے قبل اس رائے سے خوارج سے رجوع کر لیا تھا ۔

حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ نے عمران بن حطان کے خارجی ہونے سے قبل روایت کیا ہو ۔ (ھدی الساری صفحہ ۴۳۳)

شبابہ بن سوار : شباب بن سوار پر روافض مذکور کا اعتراض ہے کہ وہ ارجاء کی طرف داعی تھا یعنی بدعت کی طرف داعی تھا پھر بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے اصول لے برعکس اس سے احتجاج کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ احمد بن صدیق الغماری یا تو حقیقت حال معلوم نہیں ہے یا پھر اس مسئلہ کو الجھا کر عوام الناس کے ذہن میں احتمالات ڈالنا چاہتے ہیں ۔ مگر روافض کی یہ کوشش فضول ہے ۔ کیونکہ شبابہ بن سوار پر ارجاء کی داعی ہونے کا اعتراض صحیح نہیں کیونکہ شبابہ بن سوار نے ارجاء والے عقیدے سے رجوع کر لیا تھا ۔

امام ابو زرعہ الرزای علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں : رجع شبابہ عن الارجاء یعنی شبابہ نے ارجاء سے رجو ع کیا اور تائب ہوگئے تھے ۔ (میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۲۶۱،چشتی)(الضعفاء لابی زرعہ جلد ۲ صفحہ ۴۰۷)(ہدی الساری صفحہ ۴۰۹)

عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی : اس پر رافضیوں کا اعتراض ہے کہ یہ راوی ارجاء کی طرف دعوت دیتا تھا اور پھر بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے احتجاج کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ اس راوی کے بارے میں علامہ ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: لعلھم تابوا یعنی پس ممکن ہے کہ عبدالحمید نے بھی توبہ کر لی ہوں ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۵۱۵)

مزید یہ کہ اس کی صرف ایک روایت صحیح بخاری : ۵۰۴۸ پر موجود ہے اور یہ روایت دوسری سند کے ساتھ صحیح مسلم : ۷۹۳ پر بھی موجود ہے ۔

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ روافض نے جو اعتراضات اٹھانے کی کوشش کی ہے وہ تمام کے تمام اعتراضات مردود اور خلاف تحقیق ہیں ۔ مزید یہ کہ بدعتی کی روایت کو ترک اس کے فسق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کاوہ جذبہ ترویج بدعت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعت کو حسین الفاظ میں بتانے کو شش میں مصروف ہوتا ہے ۔ کیو نکہ بدعتی اپنی بدعت کو خوشنما بنانے کا خیال اسے روایت میں تحریف کرنے اور انہیں اپنے مسلک کے مطابق بنانے کی تحریک پیدا کر سکتا ہے ۔ لہٰذا صداقتفریدی جیسے روافض کا یہ کہنا کہ بدعتی کے فسق کی وجہ سے روایت رد کردی جاتی ہیں ، ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا بلکہ بدعتی کے اندر وہ چھپا  ہوا خیال ہوتا ہے جو روایت میں تحریف کرنے کا خیال پیدا کر سکتا ہے ۔ لہٰذا اہلسنت اس کی روایت کو احتیاط کے پیش نظر چند شرائظ کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ روافض کی خواہش پر ہم محدثین علیہم الرحمہ کے اصولوں سے انحراف کریں اور تمام ضوابط کو رد کر دیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہزار نعمتیں اور انعامات ان جلیل القدر ہستیوں علیہم الرحمہ پر جنہوں نے اپنی ساری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کی احادیثِ مبارکہ کو محفوظ کرنے کی لیے خرچ کردی ۔

رافضیوں اور تفضیلیوں کے اس پروپیگنڈے کہ متقدمین علیہم الرحمہ حب اہل بیت رضی اللہ عنہم پر تشیع کا اطلاق کرتے تھے ۔ کا تحقیقی جواب : ⏬

تشیع کی اصطلاحی تعریف

صداقت فریدی رافضی جیسے لوگ اپنا  مدعا ثابت کرنے کےلیے عوام الناس کے سامنے ایسی روایات پیش کرتے ہیں جس میں شیعہ راوی موجود ہوتے ہیں ۔ جب ان کو ایسے رایوں کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے تو انہوں نے رٹا رٹایا ہوا ایک اصول پیش کرنے کی عادت بنا لی ہے کہ متقدمین علیہم الرحمہ تشیع سے مراد حبِ اہل بیت رضی اللہ عنہم لیتےتھے ۔ مگر ان لوگوں کی یہ بات علی الاطلاق غلط اور خلافِ اصول ہے ۔ اس لیے اس بارے میں چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں : ⏬

امام ذہبی علیہ الرحمہ نے تشیع کے اقسام کی ہیں ۔ 1 ۔ تشیع معتدل ۔ 2 ۔ تشیع غالی ۔

امام ذہبی علیہ الرحمہ کی تحقیق : امام ذہبی علیہ الرحمہ کے مطابق سلف کے نزدیک غالی شیعہ وہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا جنہوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی لڑی ان کو برا بھلا کہنا یا ناراضگی کا اظہار کیا ۔ میزان الاعتدال جلد1 صفحہ 6)

فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم ۔ والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر ۔ (میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 6)

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کی تحقیق : حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے نزدیک حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہم کو تقدیم دینا ہے ۔ اسے بھی غالی شیعہ یعنی رافضی کیا جاتا ہے ۔ (ہدی الساری صفحہ 490،چشتی)
والتشيع محبة على وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه ويطلق عليه رافضي وإلا فشيعي إن فإن انضاف إلى ذلك السب أو التصريح بالبغض فغال إلا في الرفض ۔ (ہدی الساری صفحہ 490)

ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ غالی شیعہ دو طرح کے ہیں ۔ (1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر کلام کرنے والا ۔ (2) حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہم کو تقدیم دینے والا ۔

3 ۔ رافضی غیر غالی : وہ راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات شیخین کریمین رضی اللہ عنہما سے افضل سمجھے مگر حضرات شیخین کی تعظیم کرے اور ان کی امامت کو تسلیم کرے ۔ جیسے کہ ابن بن ابی تغلب ۔

4 ۔ غالی رافضی : وہ راوی جو حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی تنقیص کرے ۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ غالی تشیع اور غیر غالی رافضی ایک ہی حکم میں ہیں۔

تشیع کی اقسام باعتبار بدعت : ⏬

محدثین کرام علیہم الرحمہ نے تشیع کی اقسام ان کی بدعت کے اعتبار سے بھی کی ہے ۔1 ۔ تشیع کبری ۔ تشیع شدید ۔ 2 ۔ تشیع صغری ۔ تشیع خفیف ۔

امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک غلو فی التشیع  کی ایک قسم تشیع خفیف ہے ۔ شیخین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے پر تشیع خفیف کا اطلاق کیا ہے ۔

تشیع خفیف کی دو اقسام ہیں : 1 ۔ حب اہل بیت اور کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہ کرنا ۔ طاوس بن کیسان ، منصور بن معتمر،وکیع بن الجراح ۔ اس کو بھی تشیع خفیف کہا گیا ہے ۔ 2 ۔ شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی تعظیم کرنا ، مگر اس کے ساتھ دیگر علتیں ہوں ۔

علت اول : حضرت علی رضی اللی عنہ کے ساتھ جنہوں نے لڑائی لڑی ان کے بارے میں غلط خیال رکھنے والا یعنی تنقیص کرنے والا ۔

محمد بن زياد [خ، عو] الالهانى الحمصي ۔ صاحب أبي أمامة.وثقه أحمد، والناس، وما علمت فيه مقالة سوى قول الحاكم الشيعي: أخرج البخاري في الصحيح لمحمد بن زياد وحريز بن عثمان - وهما ممن قد اشتهر عنهم النصب ۔ قلت : ما علمت هذا من محمد، بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين  علي رضي الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين - إلا من شاء ربك - فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن - معشر أهل السنة - أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم.فهذا تشيع خفيف ۔ (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 552،چشتی)

امام ذہبی علیہ الرحمہ میزان الاعتدال میں اسی تشیع خفیف  پر غالی تشیع کا اطلاق کرتے ہیں ۔ فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم ۔ والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً ، فهذا ضال معثر (ولم يكن أبان بن تغلب يعرض للشيخين أصلا ، بل قد يعتقد عليا أفضل منهما) ۔ (میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 6)

امام ذہبی علیہ الرحمہ کے مطابق سلف کے نزدیک غالی شیعہ وہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا جنہوں نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لڑائی لڑی ان کو برا بھلا کہایا ناراضگی کا اظہار کیا ۔ (میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 6)
فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم ۔ والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر ۔

علت دوم : حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہم کو تفضیل دینے والا ۔ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: اختلفَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ، فَقَالَ قَوْمٌ: عُثْمَانُ أَفضلُ، وَقَالَ قَوْمٌ: عليٌّ أَفضلُ ۔ فَتَحَاكَمُوا إِليَّ، فَأَمسكتُ، وَقُلْتُ: الإِمْسَاكُ خَيْرٌ ۔ ثُمَّ لَمْ أَرَ لِدِيْنِي السُّكُوتَ، وَقُلْتُ لِلَّذِي اسْتَفْتَانِي: ارْجِعْ إِلَيْهِم، وَقُلْ لَهُم: أَبُو الحَسَنِ يَقُوْلُ: عُثْمَانُ أَفضَلُ مِنْ عَلِيٍّ بِاتِّفَاقِ جَمَاعَةِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، هَذَا قَولُ أَهْلِ السُّنَّةَ، وَهُوَ أَوَّلُ عَقْدٍ يَحلُّ فِي الرَّفْضِ ۔ قُلْتُ : لَيْسَ تَفْضِيْلُ عَلِيٍّ بِرَفضٍ، وَلاَ هُوَ ببدعَةٌ، بَلْ قَدْ ذَهبَ إِلَيْهِ خَلقٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ، فَكُلٌّ مِنْ عُثْمَانَ وَعلِيٍّ ذُو فضلٍ وَسَابِقَةٍ وَجِهَادٍ، وَهُمَا ۔ تَقَارِبَانِ فِي العِلْمِ وَالجَلاَلَة، وَلعلَّهُمَا فِي الآخِرَةِ مُتسَاويَانِ فِي الدَّرَجَةِ، وَهُمَا مِنْ سَادَةِ الشُّهَدَاءِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا -، وَلَكِنَّ جُمُهورَ الأُمَّةِ عَلَى تَرَجيْحِ عُثْمَانَ عَلَى الإِمَامِ عَلِيٍّ، وَإِلَيْهِ نَذْهَبُ ۔ وَالخَطْبُ فِي ذَلِكَ يسيرٌ، وَالأَفضَلُ مِنْهُمَا - بِلاَ شكٍّ - أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، مَنْ خَالفَ فِي ذَا فَهُوَ شِيعِيٌّ جَلدٌ، وَمَنْ أَبغضَ الشَّيْخَيْنِ وَاعتقدَ صِحَّةَ إِمَامَتِهِمَا فَهُوَ رَافضيٌّ مَقِيتٌ، وَمَنْ سَبَّهُمَا وَاعتقدَ أَنَّهُمَا لَيْسَا بِإِمَامَيْ هُدَى فَهُوَ مِنْ غُلاَةِ الرَّافِضَةِ - أَبعدَهُم اللهُ ۔ (سير أعلام النبلاء جلد 16 صفحہ 458،چشتی)

اس دوسری قسم کے لوگوں پر امام ذہبی علیہ الرحمہ نے شیعی جلد یعنی غالی شیعہ کا اطلاق کیا ہے جسے بدعت خفیفہ کہا گیا ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے میزان الاعتدال میں ایک راوی ابان بن تغلب کو شیعی جلد بھی کہا اور ساتھ اس کی بدعت کو خفیف بھی کہا،جس سے واضح ہوا کہ غالی شیعہ پر بدعت خفیفہ کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ أبان  بن تغلب [م، عو] الكوفي شيعي جلد ۔ (میزان الاعتدال جلد1 صفحہ 6)
ابان بن تغلب کو شیعی جلد اور غالی کہا اور ساتھ بدعت خفیفہ سے متصف کیا اور غالی شیعہ کا اطلاق کرنے کے باوجود بدعت خفیفہ کے ساتھ متصف کرنے کی وجہ تقابل ہے جوکہ بدعت کبری یعنی رفض سے ہے۔اس لیے بدعت خفیفہ کا اطلاق تقابل کے طور پر کیا گیا نہ کہ حقیقت کے طور پر ۔

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ بدعت خفیف سے مراد غالی تشیع کے ساتھ ہے ، اور غالی تشیع پر محدثین کرام علیہم الرحمہ کے اقوال کے مطابق رافضی کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جس سے ان لوگوں کا  موقف غلط ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی کسی راوی پر شیعہ یا تشیع کا اطلاق ہو تو فوراً جواب دیتے ہیں کہ شیعہ کا مطلب حب اہل بیت ہے ۔ مگر ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ حُبِ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم تو اہل سنت و جماعت کا طرہ امتیاز ہے ۔ لغوی تعریف اور اصطلاحی تعریف میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے تو جو اس لفظ کا غلط مطلب لیا گیا وہ اصول کے خلاف ہے ۔ اللہ عزوجل جملہ مسلمانانِ اہلسنت کو سنیوں کے لبادے میں چھپے ہوۓ رافضیوں اور کھلے رافضیوں کے جھوٹ ، شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 28 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ چہارم

0 comments
سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ چہارم
فقیر اس مضمون کا حصّہ چہارم ترتیب دے رہا تھا تو ایک دوست نے یہ مضمون سینڈ فرمایا فقیر نے پڑھا بہت مفید پایا آپ بھی پڑھیں : صداقت فریدی نامی شخص کی کتاب کا اجمالی رد ۔ احادیثِ صحاح ستہ میں "فیضانِ روافض" کا نامعقول نعرہ از ڈاکٹر محمد نعیم الدین الازھری صاحب ۔ ان دونوں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک نیا نعرہ سننے کو مل رہا ہے ۔ فیضانِ روافض زندہ باد ۔ یہ نعرہ لگانے والے صاحب اپنے تئیں بیک وقت ایک عالمِ دین اور کاشت کار ہیں اور انہوں نے اس نعرے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے کہ اہلسنت کا بہت سارا ذخیرہ حدیث گویا کہ غالی رافضیوں کی عطا ہے ۔ اگر یہ رافضی نہ ہوتے تو یہ احادیث کبھی ہم تک نہ پہنچ سکتیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ صحاح ستہ میں ہزاروں کی تعداد میں رافضی اور ناصبی راویوں کی روایات موجود ہیں۔ یوں انہوں نے پورے ذخیرہ حدیث کو مشکوک اور ناقابلِ تسلیم بنانے کی کوشش کی ہے ۔

مذموم تصویر کشی : موصوف نے اپنی گفتگو میں ایسا سوقیانہ انداز اپنایا ہے جس میں محدثینِ  کرام علیہم الرحمہ کے ادب اور مقام و مرتبہ کا بالکل لحاظ نہیں رکھا ۔

ان کی بات سن کر مبتدی شخص کو ایک لمحہ کےلیے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ سارے محدثین علیہم الرحمہ ہمارے ہی آس پاس کہیں رہتے ہیں اور وہ ہمہ وقت غالی قسم کے گستاخ رافضیوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور جہاں کہیں ان کو کوئی رافضی نظر آتا ہے تو وہ کلمہ شکر پڑھتے ہوئے اس کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں اور اس کے پاس سے جو باتیں ملتی ہیں انہیں حدیث بنا کر فورا اپنی کتب میں درج کر لیتے ہیں ۔ (العیاذ باللہ)

یوں ان نام نہاد محقق صاحب نے نہ تو محدثین کے بیان کردہ اصولوں کو پیش نظر رکھا ۔ نہ ہی بُعدِ زمانی کو دیکھا اور نہ ہی عصر حاضر اور قدیم زمانے کی مصطلحات کے فرق پر توجہ دی اور غالبا مکتبہ شاملہ کا استعمال کرتے ہوئے صفحوں کے صفحے کالے کر دیے اور یوں مصنفِ کتبِ کثیرہ بننے کا شوق پورا کر لیا ۔

موصوف کے یہ غلط نتائج اور اور بلند بانگ دعوے تاریخ کے کوڑا دان میں پھیکنے جانے کے لائق ہیں اور وہ اپنی ان مذموم کوششوں سے محدثین کرام کو ہر گز مجروح نہ کر سکیں گے۔ جنہوں نے تائید ایزدی سے خدمتِ حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے زندگیاں وقف کیں، جرح و تعدیل کے اصول وضع کیے، صیح اور ضعیف کی پہچان کے لیےبیسیوں فلٹر لگائے، طویل سفر کئے، مشقتیں برداشت کیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو مدون فرمایا ۔

چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک

اب ہم حقیقت پسندی سے ان کے دعووں کا جائزہ لیتے ہیں : یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ صحاح ستہ میں ایسے کچھ راوی موجود ہیں جن پر ناصبیت، رافضیت یا خارجیت کی تہمت لگائی گئی ہے لیکن اس حوالے سے درج ذیل حقائق ذہن میں رکھنا ضروری ہیں ۔ 
ہمارے محدثین کرام نے ہر چیز کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا، کسی چیز کو چھپایا نہیں ،  مخفی نہیں رکھا اگر کسی پر تشیع یا ناصبیت کا الزام تھا تو اس بات کو بھی مکمل واضح کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر چیز واضح ہونے کے باوجود ان راویوں سے روایات کیوں لیں؟!
ان کی روایت کردہ أحادیث کیوں اپنی کتابوں میں درج کیں؟!
جو لوگ اس چیز کو منفی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں
وہ یاد رکھیں کہ یہ چیز تو محدثین کرام کی فضیلت اور ان کی منقبت ہے جس کو ان کا عیب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ ان محدثین کا عدل و انصاف ہے کہ انہوں نے اہل سنت سے بھی روایات لیں اور دیگر افراد جن پر رافضیت ،  ناصبیت یا خارجیت کی تہمت تھی ان میں سے بھی قابلِ اعتماد راویوں کی روایت کو قبول کیا ۔ 
انہوں نے جرح و تعدیل کے سخت اصول بنائے پھر جو جو شخص بھی ان اصولوں پر پورا اترتا گیا ،  بغیر کسی بخل اور تعصب کے انہوں نے اس کی روایت کو اپنی کتب میں شامل کیا۔
جبکہ ان کے مقابلے میں شیعہ کتب کے مصنفین نے صرف اپنے ہی ہم خیال لوگوں سے روایات لی ہیں اور کسی دوسرے کی صحیح بات کو بھی قبول نہیں کیا۔

حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ وہ عظیم امامِ علمِ حدیث ہیں کہ جنہوں نے تعصب، گروہ بندی اور فرقہ پرستی سے پاک ہو کر علمی اصولوں کی روشنی میں اپنی کتاب کو مرتب فرمایا اور انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں یہ اعلان کیا کہ ہمارے نزدیک سب سے اہم چیز سچائی کی تلاش ہے ،  اس لیے ہمیں جہاں بھی کوئی بات جرح و تعدیل کے اصولوں پر پوری اترتی نظر آئے گی تو ہم اس کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے اپنی کتب میں جگہ دیں گے ۔ 

اس سلسلے میں اصولِ حدیث کی مستند کتاب نخبۃ الفکر میں راوی پر اسبابِ طعن کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
"مبتدعہ( خوارج، نواصب اور روافض وغیرہ ) سے روایات حدیث لینے کے حوالے سے محدثین کرام کے اصول درج ذیل ہیں:
  بدعت کی دو قسمیں ہیں؛
بدعت مکفرہ (کفر تک پہنچانے والی بدعت )
بدعت مفسقہ(فاسق بنانے والی بدعت)

علمائے حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ بدعتِ مکفرہ کے مرتکب سے حدیث کو ہرگز نہیں لیا جائے گا اگرچہ کچھ محدثین نے اس سے اختلاف بھی کیا لیکن اعتبار جمہور کے قول کا ہوگا ۔ 
ہاں اگر کوئی رافضی خارجی یا ناصبی بدعت مفسقہ کا مرتکب ہے تو اس سے حدیث قبول کرنے کی درج ذیل پانچ شرطیں لگائی گئیں جو انتہائی کڑی شرائط ہیں ؛
1. ان یکون صادقا وان لا یستحل الکذب
کہ وہ راوی صادق ہو اور اپنی بات منوانے کے لیے جھوٹ کو حلال نہ سمجھتا ہو اور نہ ہی اس پر کبھی جھوٹ کا بہتان لگا ہو یعنی صدق، عدالت، ضبط ،  عدم شذوذ و علت کی پانچ شرائطِ صحت اس میں پائی جائیں۔

2. ان لایکون داعیا الی بدعتہ
کہ وہ راوی اپنی بدعت کی ترویج و اشاعت کرنے والا نہ ہو یعنی اس کی طرف لوگوں کو دعوت نہ دیتا ہو۔

3. ان لاتکون ھذہ الروایۃ تؤید بدعتہ
اور وہ روایت ایسی نہ ہو کہ جو اس کی بدعت کی تائید کرنے والی ہے یعنی جو حدیث اس سے لی جا رہی ہے وہ اس کی بدعت کے موضوع سے متعلق نہ ہو ، اس روایت کا تعلق دین کے کسی بھی جز سے ہو لیکن اس کی بدعت کے ساتھ تعلق نہ ہو۔

4. ان لایکون ھذا الراوی من غلاۃِ الرُواۃِ فی بدعتہ
اور وہ راوی اپنی بدعت میں غلو کرنے والے راویوں میں سے نہ ہو
5. ان لا ینفرد بروایتہ
کہ وہ اپنی اس روایت میں اکیلا نہ ہو بلکہ وہی روایت دیگر راویوں سے بھی منقول ہو یعنی اس کے علاوہ اور بھی اہل سنت کے راوی اس حدیث کو روایت کرنے والے موجود ہوں۔
تو تابع اور شاہد کے درجے میں یا ایک تائیدی روایت کے طور پر پھر اس کی روایت کو بھی صحیح مانا جائے گا۔ جب یہ پانچ شرائط پائی جائیں گی تو پھر اس راوی کی روایت کو قبول کر لیا جائے گا ۔
دوسری طرف اگرچہ کوئی اہل سنت سے ہو لیکن اس پر جھوٹ ثابت ہو جائے اس کی روایت کو بھی مسترد کر دیا جائے گا 

اب آپ ہی بتائیں اس سے بہتر انصاف کیسے ہو سکتا ہے، اصولِ جرح و تعدیل کی ان تمام کڑی شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس اخذِ  روایت کے عمل کو فیضانِ روافض کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔

فیضان روافض تب ہوتا جب یہ محدثین آنکھیں بند کر کے رافضیوں کی ہر بات کو قبول کر لیتے کیونکہ بندہ جس سے فیض لیتا ہے اس کی ہر بات کو قبول کرتا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اس کو اپنا استاد مانتا ہے، یہاں معاملہ فیضان لینے کا نہیں بلکہ انصاف اور اصول کا ہے ۔
اصول قطعی حیثیت رکھتے ہیں، جذبات سے عاری ہوتے ہیں، اصولوں کا مذہب اور مسلک نہیں ہوتا نہ ہی ان میں لچک ہوتی ہے۔
اصول تو یونیورسل اور عالمگیر ہوتے ہیں پھر جو بھی ان اصولوں کے دائرے میں آتا ہے وہ پسند ناپسند سے بالا تر ہو کر تسلیم کر لیا جاتا ہے ،  ہمارے محدثین نے حق اور سچ کو اپنی ذات کے لیے محدود نہیں کیا بلکہ اصول و ضوابط کے مطابق فیصلے فرمائے ہیں ۔

وعینُ الرضا عن کل عیبٍ کلیلۃٌ
وعینُ السخطِ تبدی المساویَ
جب بندہ کسی بات پر رضامند ہو تو پھر وہ ہر عیب سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور جب کسی بات پر ناراض ہوتا ہے تو اسے اچھی بات بھی بری محسوس ہونے لگتی ہے۔

یہاں بھی یہ معاملہ ہے کہ جس چیز پر محدثین کی تعریف کرنی چاہیے تھی اور ان کی عظمت کا اعتراف کرنا تھا اسی بات کو نعوذ باللہ ان کے حق میں گالی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور سارے ذخیرہ حدیث کو مشکوک کر کے منہدم کرنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ موصوف اپنے ایک کلپ میں کہہ رہے تھے کہ صحاح ستہ کو ہمارے ائمہ اور فقھاء حدیث کی کتابیں ہی نہیں مانتے بلکہ ان کو فقہ شافعی کی ابواب بندی سمجھتے ہیں۔ ذرا بتائیں تو سہی کہ وہ آپ کے فقھاء کون ہیں جو ان کو حدیث کی کتابیں نہیں مانتے۔ امت مسلمہ کے تمام فقہاء، علماء اور أئمہ نے تو ان کتابوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے، دل و جان سے قبول کیا ہے۔ آپ کن علماء کی زبان بول کر ان کتب احادیث کو مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔( احناف اور شوافع میں اختلاف کے باوجود ان کتابوں کی صحت کو پوری امت نے تسلیم کیا ہے ) ۔

مفہوم تشیع میں متقدمین اور متاخرین کا فرق : اس ضمن میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ تشیع اور رفض پہلے محدثین کرام  کے زمانے میں الگ مفہوم میں استعمال ہوتا تھا اور آج کا مفہوم الگ ہے ۔ یہ بات اگر سمجھ آ جائے تو پھر میں صحاح ستہ میں موجود مبتدعہ و روافض کی روایات کا سبب معلوم ہو جاتا ہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب التہذیب میں رقم طراز ہیں؛
التشیع فی عرف المتقدمین ھو اعتقادُ تفضیل علیٍّ علی عثمانَ، وأنَّ علیًا کان مصیبًا فی حروبِہ وأنَّ مخالفہ مخطئٌ مع تقدیم الشیخین و تفضیلھما، وربما اعتقد بعضھم أنَّ علیا افضل الخلق بعد رسول اللہ ،  واذا کان معتقدا ذلک ورعًا دینیًا صادقًا مجتھدًا فلا تُردُّ روایتُہ بھذا ،  لاسیما ان کان غیر داعٍ
(التہذیب ج1،ص94)

متقدمین اصحاب حدیث کے نزدیک تشیع کا لفظ ایسے شخص پر بولا جاتا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتا ہو اور یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حضرت مولا علی جنگوں میں حق بجانب تھے اور ان کا مد مقابل خطا پر تھا جبکہ ساتھ وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو افضل بھی جانے یا پھر حضرت علی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الخلق سمجھے پس جب ایسا اعتقاد رکھنے والا سچا پرہیزگار صاحب اجتہاد ہوتا تو اس کی روایت کو قبول کر لیا کرتے تھے بشرطیکہ وہ اپنی بدعت کی طرف دوسروں کو دعوت دینے والا نہ ہو۔

پھر علامہ ابن حجر مزید فرماتے ہیں :  جو شخص حضرت مولا علی شیر خدا کو شیخین سے مقدم سمجھے وہ غالی شیعہ تصور کیا جاتا اور اس پر رافضی کا لفظ بولا جاتا اور اگر کوئی مذکورہ بالا اعتقاد کے ساتھ ساتھ گالی گلوچ بھی کرتا تو اس کو غالی رافضی کہا جاتا تھا اور غالی رافضی کی روایت محدثین کے ہاں قابل قبول نہیں ہے ۔ (التہذیب جلد 1 صفحہ 94،چشتی)
یہ سب چیزیں واضح ہو جانے کے بعد ہم حضرت محقق سے درخواست کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور تشیع کی اس اصطلاح کے مابین فرق کو بھی ملحوظ رکھیں جو متقدمین اور متاخرین کے ہاں پایا جاتا ہے۔

آج کل کے شیعہ ایسے بھی ہیں جو حضرت علی کو نعوذ باللہ الٰہ اور خدا کے درجے تک پہنچاتے ہیں۔
ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وحی تو حضرت علی کی طرف آنی تھی جبرائیل امین نعوذ باللہ بھول کے حضور کی طرف چلے گئے ۔
ایسے بھی ہیں جو قرآن میں تحریف کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل قرآن کا نسخہ حضرت امام مہدی کے پاس ہے۔
ایسے شیعہ تو بکثرت موجود ہیں جو حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ اور دیگر امہات المومنین اور اصحاب ثلاثہ پر سرعام تبرا کرتے ہیں ۔
جو اہل سنت کے دین کو "عمری دین" کہہ کر گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو سرعام اصحاب پر لعنت کرتے ہیں۔

میں پورے وثوق سے اور علی وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ ایسے غالی رافضیوں اور شیعوں کا فیضان ہمارے ذخیرہ حدیث میں کہیں موجود نہیں بلکہ ہمارے محدثین کرام نے تو ایسے غالی شیعوں کا ردِّ بلیغ فرمایا ہے، لہذا اس مذموم فیضانِ روافض کو آپ اپنے پاس رکھیں۔
آپ خود ہی اس سے دل کھول کر مستفید ہوں ،  رافضیوں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بنتے پھریں۔ ہم ایسے فیضان روافض سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔

یہاں امام ذہبی کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں، آپ میزان الاعتدال صفحہ نمبر 72 پہ فرماتے ہیں : سلف صالحین کے زمانے میں غالی شیعہ اسے سمجھا جاتا تھا جو حضرت عثمان ، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہھم اجمعین کے متعلق طعن و تشنیع کرے اور ایسے غالی کی روایت کو مسترد کر دیا جاتا تھا۔
جبکہ ہمارے زمانے میں غالی شیعہ اس کو کہا جاتا ہے جو ان حضرات صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہوئے شیخین پر تبرا کرتا ہے پس وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ملعون ہے۔

اپنے اس مقالے کے آخر میں نخبۃ الفکر سے علامہ ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت پیش کرتا ہوں جس سے محدثین کے ہاں عدل و انصاف وسعت ظرفی اور احقاق حق کا پتہ چلتا ہے ،  آپ مبتدعہ سے روایت لینے کے بارے میں قولِ فیصل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فالمعتمد : أن الذي تُرَدُّ روايته: من أَنْكَرَ أمراً متواتراً من الشرع، معلوماً من الدين بالضرورة، وكذا من اعتقد عكسه. فأما من لم يكن بهذه الصفة، وانضم إلى ذلك ضَبْطُه لما يرويه، مع وَرَعِهِ وتقواه: فلا مانع من قبوله بشرط ان لایکون داعیۃ لبدعتہ وان لایکون المروی موافقا لبدعتہ ۔ (نخبۃ الفکر،دارالبصائر،ص103،چشتی)
پس قابل اعتماد قول یہ ہے کہ (روافض نواصب اور خوارج میں سے) ایسے شخص کی روایت کو رد کر دیا جائے گا جو دین میں کسی ایسے امر متواتر کا انکار کرے جو ضروریات دین میں سے ہے یا کسی امر ضروری متواتر کے برعکس اعتقاد رکھے لیکن جو ضروریات دین کا منکر نہ ہو،اس کا حافظہ اور ضبطِ روایت درست ہو، اس میں پرہیزگاری اور تقوی بھی ہو نیز اپنی بدعت کو فروغ نہ دے اور نہ ہی وہ روایت اس کی بدعت کے موافق ہو پس ایسی روایت کو قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
یہ ہیں وہ اصول و ضوابط اور قواعد جن کی روشنی میں محدثین کرام نے تمام روایات اپنی کتب میں شامل فرمائی ہیں اب اس کو فیضان روافض یا فیضان نواصب کہنے والا کس قدر متعصب ، جاہل ، علوم سے نابلد ، ہٹ دھرم  اور کٹ حجتی ہے اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔

قیاس کن ز گلستان من بہار مرا

اللہ کریم حق بات کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔ (جناب علامہ ڈاکٹر محمد نعیم الدین الازھری صاحب کا مضمون مکمل ہوا)

الحبل المتین فی نصرۃ نعیم الدین (ڈاکٹر نعیم الدین الازہری _مدرس بھیرہ شریف کے مضمون پر صداقت فریدی نامی رافضی کی تنقید پر تبصرہ)

تحریر : صاحبزادہ ڈاکٹر عبدالسلام ثمر فاضل بھیرہ شریف

"احادیث صحاح ستہ میں "فیضان روافض" کا نامعقول نعرہ ۔۔۔۔۔ تحقیقی جائزہ " کے عنوان سے ہمارے ایک انتہائی فاضل دوست،بہت ساری شخصی وعلمی واخلاقی خوبیوں کے مالک، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے ترجمان جناب ڈاکٹر محمد نعیم الدین الازہری حفظہ اللہ نے  ایک علمی اور تحقیقی مضمون لکھ کر دو روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ علمی حلقوں میں ان کی اس تحریر کو خوب پذیرائی ملی۔ اربابِ علم و فکر کی طرف سے اس علمی تحقیق اور محقق کے طرزِ نگارش کو بہت سراہا گیا  ۔ مختلف وٹس ایپ گروپوں میں اس مضمون کو فارورڈ بھی کیا گیا ۔ اس  مضمون میں در حقیقت ایک نام نہاد محقق ڈاکٹر صداقت فریدی کی ایک کتاب "احادیث صحاح ستہ میں فیضان روافض " کا علمی انداز میں اجمالی جائزہ لیا گیا ہے ۔  عنوان سے ہی اس نعرہ کی نامعقولیت اور رکاکت  واضح ہے ۔ یہ درپردہ آئمہ محدثین کی توہین اور اہل سنت کے ذخیرہ احادیث کو مشکوک ٹھہرانے کی سعی نامشکور ہے۔ ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب نے اس نام نہاد محقق کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ آئمہ اصول حدیث کی تصریحات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اہل سنت کے محدثین نے کسی غالی شیعہ یا رافضی سے کوئی حدیث نہیں لی۔جس بدعتی کی روایت قبول کی جاتی یے اس کی  شرائط اور وجوہات  کو بھی بیان کر دیا ہے۔اس مضمون میں  اور بھی بہت سارے علمی نکات ضمنا درج کر دیے گئے ہیں ۔
آج صبح سوشل میڈیا پر قبلہ نعیم الدین الازہری صاحب کے اس مضمون کے رد میں خود صاحب کتاب ڈاکٹر صداقت فریدی کا طویل ویڈیو کلپ سننے کا اتفاق ہوا۔ تحقیق کے اس پہاڑ کو بصد ناز و ادا  سامنے جلوہ آراء  دیکھ کر میں وجد میں  امجد حیدرآبادی کی یہ رباعی گنگنانے لگا:
کس شان سے شیخ _ خود نما بیٹھا ہے
سچ مچ کوئی سمجھے تو خدا بیٹھا ہے
صورت میں بایزید ،سیرت میں یزید
چمڑے پہ ہرن کے بھیڑیا بیٹھا ہے

موصوف کو پہلی بار دیکھ کر بہت خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ خوشی تو اس لیے ہوئی کہ آج اس ہستی کا دیدار ہو گیا جس کی زیارت کا اس وقت سے  شوق تھا جب" انوار الثقلین " نامی کتاب نظر سے گزری ۔ دل میں خواہش تھی کہ اس نر کے بچے کو کبھی دیکھوں اور سنوں جس نے سیدھا امام اہلسنت اعلیحضرت علیہ الرحمہ پر ہاتھ ڈالا ہے۔  یہ کتاب موصوف کے زعم باطل میں اعلیحضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی افضلیت شیخین کے موضوع پر کتاب مستطاب "مطلع القمرین"  کا جواب ہے۔ کتاب کے مندرجات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب ان تمام کتب کا چربہ ہے جو اس اجماعی مسئلہ کے خلاف بازار میں دستیاب ہیں۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ وہی ہستی ہیں جنہوں نے ایک ایسی تحقیق انیق فرمائی ہے جو رافضیوں کے بھی حاشیہ خیال میں  نہ آئی ۔وہ تحقیق یہ ہے کہ کائنات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے بعد افضل ترین ہستی  جناب ابو طالب کی ہے۔ افسوس اس لیے ہوا کہ ڈاکٹر الازہری صاحب کے مضمون پر موصوف جو تبصرہ فرما رہے تھے وہ اتنا سطحی اور غیر معیاری تھا کہ ایک طرف تو جناب کی علمی مفلسی  ظاہر ہو رہی تھی تو دوسری طرف  ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب کے دلائل کے سامنے  بےبسی عیاں تھی  ۔

ڈاکٹر فریدی کی گفتگو کا لب لباب یہ ہے:
"ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب نے مجھے پندو نصائح سے نوازا۔۔۔۔۔ان کا مضمون درحقیقت میری تائید میں ہے۔۔۔۔۔محدثین نے یہ اصول ضرور وضع کیا ہے کہ کسی رافضی راوی سے روایت نہیں لی جائے گی لیکن محدثین صحاحِ ستہ نے اس اصول کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔جریر بن عبد الحمید تمہارے ماموں اور یزید کے باپ( استغفر اللہ العظیم صحابی رسول کا ایسے سوقیانہ انداز میں نام لینا) کو گالیاں دیا کرتا تھا۔۔۔۔۔700 سو زائد روایات صحاح ستہ میں موجود ہیں جن کے راوی رافضی ہیں۔۔۔۔فلاں فلاں راوی فلاں صحابی کو سب و وشتم کیا کرتا تھا۔ ۔۔۔۔یہ خدمت میں اس لیے انجام دے رہا ہوں تاکہ بریلویوں بالخصوص فرقہ خطائیہ کو شیشہ دکھایا جائے کہ بہت سارا فیض روافض کے سینے سے چل کر آیا ہے۔ فرقہ خطائیہ عبد القادر شاہ صاحب ،ریاض شاہ صاحب ،عرفان شاہ صاحب اور پیر منور شاہ صاحب جیسے بزرگ سادات کا گستاخ ہے۔۔۔۔ ۔ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب میدان میں آئے خوشی ہوئی لیکن دلیل کے ساتھ آئیں ۔۔۔۔۔میں وہی بات کہ رہا ہوں جو حافظ ابنِ حجر اور حافظ ذہبی نے کی ہے۔۔۔۔۔16000ہزار احادیث محدثین صحاحِ ستہ نے غالی رافضیوں سے لی ہیں۔۔۔۔۔۔شروع سے لے کر آج تک کسی سنی سے نہیں سنا ،نہ اس کی قلم سے نہ زبان سے کہ اس نے اہلبیت علیہم السلام کی توھین کرنے والوں کو کافر کہا ہو۔۔ایسا کرنے کی انہیں جرات بھی نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکے گی۔البتہ میں نے (روئے زمین پر) اس دوہرے معیار کا پردہ چاک کیا ہے کیونکہ میرے خمیر میں حرمت اہلبیت کا تصور دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے مسئلہ تفضیل کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ۔۔۔۔یہ قاعدہ غلط ہے کہ محدثین غالی رواۃ سے روایت نہیں لیتے تھے۔۔۔۔اس موضوع پر میں نے کتاب لکھ ماری ہے۔۔۔دوسری جلد بھی جلد آ رہی ہے۔ میں نے اعلیحضرت کی کتب سے غالی رواۃ کی روایات جمع کی ہیں۔۔۔۔۔تم لوگ بری طرح پھنس گئے ہو۔ نکلنے کی سبیل ایک ہی ہے کہ سادات سے (یعنی جنہیں میں سادات سمجھتا ہوں ) معافی مانگ لو۔۔۔۔ آخر میں یہ  روافض کا فیض یافتہ محقق یہ بھی فرماتا ہے کہ نعیم صاحب تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہے جو شیخ الاسلام ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف ہیں۔۔۔۔۔اگر تم ان کے ساتھ میدان میں اترے ہو تو پھر تمہارے ساتھ بھی اسی لہجے میں بات کریں گے"۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
یہ ہیں اس نام نہاد محب اہل بیت کی بونگیاں جن کو وہ اپنے زعم میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا جواب سمجھ بیٹھا ہے۔۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام باتیں موصوف اپنی گفتگو میں بارہا مرتبہ دہرا چکا ہے ۔۔۔۔۔یہی کچھ اپنی ان  ضخیم کتابوں میں تکرار کے ساتھ لکھ رہا ہے جن کے صفحات کاپی پیسٹ سے کالے کرتا رہا ہے۔
قارئین کرام!  اس نام نہاد محقق ،خارق اجماع مفکر کی تمام کتب کا اہلسنت کے جید علماء کرام نے دندان شکن جواب دے دیا یے۔ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب کے علاوہ بھی اہل سنت کے جید علماء کرام موصوف کی اس کتاب کا دندان شکن جواب لکھ رہے ہیں ۔اس بلند بانگ دعووں کا علمی انداز میں پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ محقق اہلسنت جناب علامہ فیض احمد چشتی صاحب سوشل میڈیا پر قسط وار جواب لکھ رہے ہیں۔ علامہ سید ذوالفقار علی شاہ صاحب ویڈیو کلپ میں خوب گرفت کر ریے ہیں ۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء
مجھے سر دست موصوف کی متذکرہ بالا باتوں کے حوالے سے مختصر جائزہ لینا ہے۔
1) موصوف فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر الازہری کا مضمون میری تائید میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ کی تائید میں تھا تو پھر آپ کو اپنے دفاع میں  لمبے چوڑے ویڈیو کلپ بنانے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟ جناب والا! نعیم الدین الازہری صاحب کا موقف وہی ہے جو ائمہ محدثین کا ہے کہ غالی رواۃ سے روایت نہیں لی جائے گی جبکہ آپ نہ صرف قائل ہیں بلکہ محدثین کو مطعون کرتے ہوئے ان کے اس قاعدے کو غلط ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ شروع میں آپ فرما گئے کہ یہ اصول ضرور ہے مگر محدثین نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ قاعدہ غلط ہے کہ وہ غالی رواۃ سے روایات نہیں لیتے تھے۔ ایسی منطق جھاڑ کر آپ نے ایک تو اکابر محدثین کو متہم کیا ہے اور دوسرا خود اپنا نقصان کیا ہے کیوں کہ اس سے جناب کا علمی پول کھل گیا ہے۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

2) موصوف فرماتے ہیں کہ محدثین صحاحِ ستہ نے اپنے وضع کردہ اس اصول کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
یہ آئمہ محدثین پر تہمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہستیاں اپنے اصول پر قائم رہی ہیں ۔ کسی غالی رافضی سے کوئی روایت نہیں لی۔ جن راویوں کے حوالے دیے گئے ہیں وہ اور  ان کے علاوہ وہ جن پر رافضیت  و خارجیت و ناصبیت کا الزام عائد تھا، انہوں نے  رجوع کر لیا تھا اور وہ سابقہ عقائد سے توبہ تائب ہو گئے تھے۔ محدثین نے تب ان سے روایت قبول کی۔۔ تہذیب التہذیب وغیرہ کتب رجال میں ایسے راویوں کے رجوع کے متعلق تصریحات موجود ہیں ۔ ایک دو مثالیں پیش کر دیتے ہیں: ایک راوی ہے حریز بن عثمان ۔اس پر جرح ہے کہ یہ ناصبی تھا، رافضی کہتے ہیں کہ یہ وہ ملعون شخص ہے جو سفر و حضر اور ہر نماز کے بعد مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر لعن طعن کرتا تھا ۔اور بعض علماء نے اس کے کفر کا فتویٰ دیا ہے (تہذیب التہذیب ج 1) ۔ہھر بھی امام بخاری نے اس سے استدلال کیا ہے ۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ خود امام بخاری اپنے استاد ابو الیمان حکم بن نافع الحمصی سے نقل کیا ہے کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا۔ (تہذیب التہذیب ج 2)
3) ڈاکٹر صداقت فریدی رافضی کہتا ہے کہ جریر بن عبد الحمید تمہارے ماموں اور یزید کے باپ کو گالیاں دیا کرتا تھا ۔
قارئین جب یہ غلیظ ترین جملہ میں نے سنا یقین جانیے جو مجھ پر گزری وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ۔ میری آنکھوں میں خون کے آنسو اتر آئے۔ کس طرح سطحی انداز میں صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کر رہا ہے اور طنزاً اہل سنت کا ماموں کہ رہا ہے۔ اس نام نہاد محب اہل بیت کو شاید معلوم نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستی نے خال المؤمنین (یعنی اہل ایمان کا ماموں) لکھا ہے۔پھر کس منہ سے یہ خود کو سنی کہتا  ہے؟ حیرت تو ایسے پیروں اور مفکروں پر ہے جو ایسے شخص کو اپنی کانفرنسوں اور تقاریب رونمائیوں میں بلا کر پروٹوکول دیتے ہیں۔بلکہ بعض آستانوں اور تحریکوں کا مزاج بھی اب یہی بن چُکا ہے کہ اپنی کانفرنسوں اور پروگراموں میں ہر ایسے شخص کو بلاتے ہیں جو صحابہ کرام بالخصوص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا منقص و مبغض ہو اور اعلیحضرت کی مخالفت کرتا ہو۔
جریر بن عبد الحمید کے حوالے سے علماء اہلسنت نے تفصیلی جواب دے دیا ہے۔ سر دست اتنا عرض ہے کہ تاریخ دمشق میں روایت موجود ہے کہ جریر بن عبد الحمید افضلیت شیخین کا قائل تھا۔ جبکہ موصوف فریدی خارق اجماع عقیدہ افضلیت کا منکر ہے۔ واہ! آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
4) موصوف کہتے ہیں کہ میں نے بھی تو وہی بات کی ہے جو ابن حجر اور ذہبی وغیرہ نے کی ہے۔
اس میں بھی کذب بیانی سے کام لے رہے ہیں کیوں کہ ابن حجر و امام ذہبی نے تو لکھا ہے کہ غالی شیعہ رواۃ سے روایت قبول نہیں کی جائے گی جبکہ موصوف کے نزدیک یہ قاعدہ ہی غلط ہے  اور ہزاروں کی تعداد میں روایات ایسے راویوں سے لی گئی ہیں ۔دوسرئ بات یہ ہے کہ
امام ذہبی فرماتے ہیں
والشیعی الغالی في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحه و معاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه وتعرض لسبهم
ترجمه: سلف صالحین کے زمانے میں اور ان کے عرف میں غالی شیعہ اسے کہا جاتا تھا  جو سیدنا عثمان ،سیدنا زبیر ،سیدنا طلحہ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھم کی شان میں طعن و تشنیع کرے اور ایسے راوی کی روایت کو رد کر دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔جبکہ ہمارے زمانے ( امام ذہبی کے زمانے  )میں غالی شیعہ اس کو کہا جاتا ہے  جو ان حضرات صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہوئے شیخین پر تبرا کرتا ہے۔ پس وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ملعون ہے۔ (میزان الاعتدال ص 73)
موصوف کے بقول وہ ذہبی کے نقش قدم پر ہیں ۔ اور امام ذہبی کی مذکورہ بالا رائے کے مطابق موصوف غالی شیعہ ٹھہرے کیوں کہ حضرات صحابہ کرام بالخصوص امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کرنا دن رات موصوف کا وظیفہ ہے۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

5) موصوف بیان کرتے ہیں کہ وہ یہ ساری خدمت خطائیہ فرقہ کو شیشہ دکھانے کے لیے سر انجام دے رہے ہیں۔یہ فرقہ فلاں فلاں سادات کا گستاخ ہے۔
اس کے متعلق عرض ہے کہ کسی کو شیشہ دکھانے کے لیے یہ کام نہیں ہو رہا بلکہ روافض کی طرف سے ملنے والے چرب نوالوں کو حلال کیا جا رہا ہے۔ اور ان کی نوکری کی جا رہی ہے کیوں کہ اگر سیادت کا پاس ہوتا تو باقی سادات کرام کا بھی احترام کیا جاتا، ان پر  طعن نہ کیا جاتا اور ان کے نسب کے شجرے نہ کھنگالے جاتے ۔ ان تین چار حضرات کی وکالت صرف اس لیے کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ مسلک حق اہلسنت سے برگشتہ ہو کر منہاج رفض پر گامزن ہیں اور موصوف کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کسی کا انتقام اکابر علماء محدثین سے جا لیں اور اہل سنت کے تمام ذخیرہ احادیث کو فیضان روافض کہیں۔
6) موصوف نے ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب پر الزام لگایا ہے کہ وہ شاید کسی مخصوص طبقے کی حمایت میں میدان میں اترے ہیں اور وہ طبقہ حضرت ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کا مخالف ہے ۔ یہ بھی جھوٹ ہے اور بندہ مومن کے حق میں سوئے ظن  ہے۔ ڈاکٹر الازہری صاحب صرف اور صرف اکابر محدثین کے دفاع میں اور اہل سنت کے سچے مذہب مہذب کی کتب احادیث کو روافض رواۃ کے فیضان سے پاک ثابت کرنے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ ڈاکٹر صداقت فریدی! یہ بھی ذہن میں رہے بھیرہ شریف شخصیت پرستی یا گروہ بندی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ بھیرہ شریف حق پرست اور شخصیت شناس بناتا ہے۔ تم جس تحریک سے وابستہ ہو وہاں شخصیت پرستی کا درس دیا جاتا ہے۔ کسی نے اگر پیر صاحب سے کوئی علمی اختلاف کیا ہے اور معتقدات سلف پر کاربند ہے تو ہماری تربیت یہ ہے کہ ہم اس کا احترام کریں گے اور دفاع اہلسنت میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عقیدہ اہلسنت سے منحرف شخص پیر صاحب کا خواہ کتنا وفادار ہی کیوں نہ ہو وہ ہمارے لیے بالکل قابلِ احترام نہیں ہے۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہو گا کہ بھیرہ شریف اور اس کے پیر خانے سیال شریف نے عقائد اہلسنت پر اعلامیے بھی جاری کر رکھے ہیں۔ عقیدہ افضلیت شیخین کو اجماعی اور ضروریات اہلسنت میں سے سمجھتے ہیں۔اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھیرہ شریف کے دار الافتاء سے جاری کردہ مفصل فتویٰ بھی پڑھا ہو گا۔ لہذا بھیرہ شریف کے مطابق آپ اہل سنت سے خارج اور پکے رافضی اور رافضی نواز ہیں۔
7) موصوف کہتا ہے کہ میں نے مسئلہ تفضیل کا جنازہ نکال دیا ہے۔
واہ کیا پدی کیا پدی کا شوربا
میں کہتا ہوں مسئلہ تفضیل کا جنازہ نہیں نکالا  بلکہ اپنے ایمان اور عقیدے کا تختہ نکال دیا ہے۔ خارق اجماع کا مرتکب ہوا ہے۔ بے شمار نصوص اور اکابر کی تصریحات کا منکر ہو کر گمراہی اور رفض کی دلدل میں جا پھنسا ہے۔
8) موصوف کا فرمان ہے کہ سلفا خلفا پوری اہلسنت نے اب تک دوہرا معیار اپنایا ہے کہ شان صحابہ میں تنقیص کرنے والوں کا شرعی حکم بیان کیا ہے لیکن اہلبیت کے گستاخ کو کافر نہیں کہا۔میں نے اس دوہرے معیار کا پردہ چاک کیا ہے۔ "
مجھے یہ بات بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ موصوف نے حضرات اہلبیت اطہار کے نفوسِ قدسیہ کو شرف صحابیت سے محروم سمجھا ہوا ہے۔اس طرح قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں شان صحابہ میں وارد تمام نصوص کے عموم سے حضرات اہلبیت کو خارج کر دیا ہے۔ موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حضرات شرف صحابیت سے پہلے متصف ہیں ، باقی نسبتیں سب بعد میں ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے حوالے سے پہلے پہچان، پھر  باقی نسبتوں سے دیکھ۔ "لہذا اہل سنت جب صحابہ کرام کے مبغضین کا حکم بیان کرتے ہیں تو اس میں حضرات اہلبیت کے افراد شامل ہوتے ہیں ۔یہ در والے گھر والے کی تقسیم آپ جیسے روافض کی اختراع ہے ۔
مضمون کی طوالت کے خوف سے قلم کو یہیں پر روکتا ہوں اور تمہاری ہدایت کے لیے بارگاہِ الٰہی میں مصروف دعا ہوتا ہوں ۔

صداقت فریدی رافضی اور اس کے ہمنوا رافضی امام احمد علیہ الرحمہ سے ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔ اب آتے ہیں امام احمد بن حنبل کی مسند پر : ⏬

حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن الحكم، سمعت سيفا، يحدث، عن رشيد الهجري، عن أبيه: أن رجلا قال لعبد الله بن عمرو: حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودعني وما وجدت في وسقك يوم اليرموك. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ۔ (مسند احمد جلد ۱۱ صفحہ ٤٢٧)
اس روایت میں موجود راوی رشید الھجری رافضی تھا اور اپنے رفض میں غالی تھا لیکن امام احمد ابنِ حنبل علیہ الرحمہ نے اس کی روایت کو اپنی مسند میں قبول کیا جو کہ انکے منہج پر اصح ترین ہے ۔

جواب : یہ مثال فضول ہے دینا  کیونکہ یہ روایت  کی دس سے زیادہ طریق بیان کیے ہیں امام احمد علیہ الرحمہ نے اور دوسری بات امام احمد علیہ الرحمہ کی مسند میں ہر روایت صحیح ہے اس پر کسی کا اتفاق نہیں خود امام احمد علیہ الرحمہ نے اپنی مسند کے رجال پر جروحات کر رکھی ہیں اور اس میں ضعیف و معلل مروایات موجود ہیں ۔ یہاں اختلاف ہے بدعتی  شیعہ کا داعی ہونے کی صورت میں تفرد سے استدلال کرنا اور دلیل کیا دی جا رہی ہے  اندھیرے میں پتھر مارے جا رہے ہیں ک کہیں تو تکہ لگا جائے گا

صداقت فریدی رافضی اور اس کے ہمنوا رافضیوں کی اگلی مثال : ⏬

اب امام بخاری علیہ الرحمہ کا منہج دیکھا جائے ۔ حدثنا عبيد الله بن موسى، قال: أخبرنا حنظلة بن أبي سفيان، عن عكرمة بن خالد، عن ابن عمر، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان ۔ (صحیح البخاری جلد ۱ صفحہ ۱۲ ورقم الحدیث ۸)

امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہاں اپنے شیخ عبیداللہ بن موسیٰ سے حدیث لی جو کہ سخت شیعہ تھا ۔ یہ اپنے تشیع میں اس حد تک سخت تھے کہ یہ معاویہؓ پر لعنت کیا کرتے تھے ۔

سمعت محمد بن عبيد الله بن يزيد المنادي، يقول: كنا بمكة في سنة تسع، وكان معنا عبيد الله بن موسى، فحدث في الطريق فمر حديث لمعاوية، فلعن معاوية، ولعن من لا يلعنه ۔ (السنة لآبي بكر بن الخلال جلد ۳ صفحہ ۵۰۳ ورقم الروایت ۸۰۵)

فقال : هو على مذهب أهل بلده، ولو رأيتم عبيد الله بن موسى، وأبا نعيم، وجماعة مشايخنا الكوفيين، لما سألتمونا عن أبي غسان ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا ابی غسان کے تشیع کے حوالے سے۔ امام بخاری نے جواب دیا: وہ اپنے شہر والوں کے مذہب پر ہے اور اگر تم عبیداللہ بن موسیٰ، ابو نعیم اور ہمارے کوفی مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھتے تو تم ابو غسان سے متعلق سوال ہی نہ کرتے ۔ (سیئر اعلام النبلاء جلد ۱۰ صفحہ ٤٣٢)

جواب : پہلی بات امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس کو متابعت میں لیا ہے احتجاج میں نہیں لیا ۔ اور دوسر ی بات یہ دلیل ہماری ہے نہ کہ رافضی مذکور کی  کیونکہ ہم اوپر امام ذھبی علیہ الرحمہ سے نقل کر آئے ہیں کہ امام بخاری علیہ الرحمہ رافضیوں سے نہ لکھنے میں کتنی احتیاط کی اور سیر اعلام سے امام بخاری علیہ الرحمہ کا جو قول موصوف نے نقل کیا ہے اس میں بھی واضح ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں اگر تم ہمارے تشیع مشائخ کو دیکھ لیتے جیسا کہ ابو نعیم فضل بن دکین اور عبید اللہ بن موسیٰ کہ وہ (داعی نہیں یا غالی نہیں ) تو ابو غسان کے بارے سوال نہ کرتے ۔ یعنی امام بخاری علیہ الرحمہ بھی عبیداللہ بن موسیٰ کے تقیہ میں دھوکا کھا بیٹھے جبکہ یہ راوی حضرت امیر معاویہ پر طعن کرتا تھا  اور جبکہ  یہ خود ایسی روایات بھی بیان کرتا تھا جو اہلسنت کے دلائل میں سے ہیں ۔ اور اس نے صحابہ کی ترتیب پر پہلی مسند لکھی تھی جیسا کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : أَوَّلُ مَنْ صَنَّفَ (المُسْنَدَ) عَلَى تَرتِيْبِ الصَّحَابَةِ بِالكُوْفَةِ ۔ (سیر اعلام النبلاء)

لیکن اس کے باوجود اس رافضی کی ورادت امام احمد علیہ الرحمہ کے شاگرد کو پتہ چل گئی اور امام احمد علیہ الرحمہ اسکے رفض پر مطلع ہو گئے اور اس کو ترک کر دیا باوجود اس کی ثقاہت کے اور یہی ہمارا مسلک ہے ۔ اور رفض کی جب دلیل مل جائے کہ وہ لعن و طعن کرتا ہوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تو اس کی روایت سرے سے لینی ہی نہیں ۔ اور اگر وہ غالی شیعہ ہو اور اس کے ساتھ داعی ہو تو اس کے  مذہب کے موافق روایت نہیں لینی ۔ یہ ہے آسان سا اصول ۔

اب صداقت فریدی رافضی اس کے سرپرست رافضیوں کی منافقت اور جہالت اور دو  رخی ثابت کرنے کا وقت  آگیا ہے ۔ فقیر کو لگتا ہے کہ یہ روایت موصوف نے کسی رافضی سے اخذ کی ہے کیونکہ ایسے پاگل اور مضطرب التحریر لکھنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں اور رافضی صداقت فریدی نے مکھی پر مکھی مار کر لگتا ہے ساری کتاب چھاپ دی ہے ۔ وہ یوں کہ آخر میں اس نے یہ خلاصہ نکالا : ⏬

نوٹ : اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث میں سب سے زیادہ احتیاط کرنے والے شیخین یعنی امام بخاری و امام مسلم علیہما الرحمہ کے نزدیک بھی بدعتی (شیعہ) راوی کی روایات قابل قبول ہیں بشرطیکہ وہ عادل اور قوی حافظے کا مالک ہو ۔ دوئم یہ بھی واضح ہوگیا کہ راوی کے بدعتی ہونے سے راوی کی عدالت یا حافظے پر کوئی اثر پڑتا ہے ۔

صداقت فریدی رافضی کے خلاصہ میں پہلا نقص یہ ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے نزدیک جس کو فقط تشیع تسلیم کیا اس کی روایت لی اور مذکورہ شیخ  کی روایت جو پیش کی گئی ہے وہ تو متابعت میں اور نہ بھی ہوتی تو اس کا تقیہ ثابت کیا ہے کہ پہلے اس نے ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصنف لکھی اور معتدل انسان ثابت کیا اور پھر اس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن شروع کر دیا  جس سے امام بخاری علیہ الرحمہ کا اس سے تقیہ سے دھوکا کھانا ثابت ہوتا ہے فقط ۔

پھر رافضی مذکور کہتا ہے : بس یہ ثابت ہوا کہ بدعتی (یعنی رافضی ، وغیرہ) ہونے سے راوی کی عدالت یا حافظے پر اثر نہیں پڑتا ہے اچھا یہ سطر لکھ کر آگے پھر اپنے مقدمہ کی ساری عمارت گرا دی یہ لکھ کر لکھتا ہے : اب رہی آخری بات امام جوزجانی کی جسنے یہ بدعتی راوی داعی اور غیر داعی کا سارا ڈھونگ رچایا ہے ۔ یہ شخص امام جوزجانی بیشک متقدمین میں سے ایک عظیم امام تھا لیکن یہ ایک خبیث شیطان اور بغض علی میں مبتلا ایک ناصبی تھا ۔

امام عبد الرحمٰن المعملی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : هذا وأول من نسب إليه هذا القول إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني وكان هو نفسه مبتدعاً منحرفاً عن أمير المؤمنين علي متشدداً في الطعن على المتشيعين ۔
ترجمہ : سب سے پہلے جس شخص کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے جسنے یہ بات بیان کی ہے وہ جوزجانی ہے جو خود بدعتی تھا اور وہ منحرف تھا امیر المومنین علی سے اور بہت متشدد تھا اور آپ کے رفقاء پر طعن کیا کرتا تھا ۔

اس کو پڑھ کر رافضی مذکور کی بے بسی پر ہنسی آتی ہے ۔ معلمی یمانی سے نقل کرتا ہے اپنا مقدمہ کہ سب سے پہلے  جس بندے نے یہ اصول قائم کیا کہ بدعتی داعی کا ڈھونگ رچایا  وہ جوزجانی تھا پھر اس کو خبیث ، شیطان اور بغض علی والا کہتا ہے ۔ جواباً عرض ہے جب بدعتی راوی کے حافظے اور عدالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو علامہ جوزجانی کا اصول رد یہ کس علتِ قادعہ  سے رد کر رہا ہے ؟ ۔ ناصبی ہونے کی ؟

ناصبی ، رافضی  ہونا تو اس کے نزدیک علت ہی نہیں جب راوی ثقہ اور یہ خود بھی مان رہا ہے کہ جوزجانی متقدمین میں عظیم امام تھا تو بس پھر ناصبی ہونے سے اس کا بیان کردہ اصول کیسے ٹوٹ گیا ؟

یعنی ہم کہہ رہے ہیں بدعتی داعی کی روایت اس کے عقیدے کی تقویت میں قبول نہیں اور موصوف اس کا رد  کرتے کرتے ۔ آخر میں خود تسلیم کر بیٹھا کہ یہ اصول بیان کرنے والا بقول اس کے جوزجانی ہے اور وہ خود چونکہ ناصبی تھا بوجود امام ہونے کے تو ہم اس کا یہ اصول ڈھونگ سمجھتے ہیں ۔ یعنی اس کی کتی چوروں سے ملی ہے اس کے تمام دلائل فضول اور دلیل سے متابقت نہیں رکھتے تھے اور جن میں کچھ بات تھی  بھی تو  اس کا جواب فقیر نے دلائل سے دے دیا اور داعی اور بدعت کی روایت سے بچنے کا منہج فقیر نے جوزجانی کے علاوہ امام ابن معین علیہ الرحمہ سے ثابت کیا ۔ پھر امام ابن معین علیہ الرحمہ کے بقول امام مالک علیہ الرحمہ کا بھی یہی منہج تھا اور یہی امام احمد علیہ الرحمہ کا منہج ہے ۔ اور اس سے سابقہ مضمون میں یہی منہج امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا ثابت کیا ہے ۔ اور پھر متاخرین میں یہی راجح مذہب امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہما الرحمہ کا ثابت کیا ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ سوم

0 comments
سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ سوم
صداقت نام نہاد فریدی اور اس کے بڑوں یعنی رافضی جو اعتراضات کرتے ہیں وہ اصول کے خلاف ہے ۔ امام بخاری اور امام مسلم علیہما الرحمہ کا داعی الی بدعت راویوں سے احتجاج کرنا ، تو اس بارے  میں امام سخاوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ نے عمران بن حطان السدوسی سے جو روایت کی ہے تو وہ اس کے بدعت سے قبل کی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے آکر عمر میں اپنی بدعت سے توبہ کر لی ہو اور یہ روایت اس کے رجوع کے بعد کی ہو ۔ پھر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس سے صرف ایک ہی حدیث (کتاب التوحید میں) تخریج کی ہے اور وہ بھی متابعات میں سے ہے ۔ پس یہ تخریج متابعات میں مضر نہیں ہے ۔ (فتح المغیث للسخاوی جلد ۲ صفحہ ۶۸)(فتح الباری جلد ۱۰ صفحہ ۲۹۰)

صداقت نام نہاد فریدی اور اس کے بڑوں یعنی رافضی جن راویان کے نام لیتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق پیش خدمت ہے ۔

صداقت فریدی رافضی اہلسنت پر تنقید کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ : ناصبی (یاد رہے یہ صداقت فریدی رافضی اپنے بڑوں رافضیوں کی طرح اہلسنت کو ناصبی کہتا ہے) کے پیش کردہ دلائل درج ذیل ہیں : ⏬

مثلاً : اختلف أهل العلم في السماع من أهل البدع والأهواء كالقدرية والخوارج والرافضة , وفي الاحتجاج بما يروونه , فمنعت طائفة من السلف صحة ذلك , لعلة أنهم كفار عند من ذهب إلى إكفار المتأولين , وفساق عند من لم يحكم بكفر متأول , وممن لا يروى عنه ذلك مالك بن أنس , وقال من ذهب إلى هذا المذهب: إن الكافر والفاسق بالتأويل بمثابة الكافر المعاند والفاسق العامد , فيجب ألا يقبل خبرهما ولا تثبت روايتهما ۔
ترجمہ : امام خطیب بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہل علم کا اس کا اس مسئلہ پر اختلاف ہے کہ اہل بدعت سے اہل اھواء سے سماع کرنا اور ان کی مرویات کو قابل احتجاج سمجھنا یہ جائز ہے کہ نہیں ۔ اسلاف میں سے ایک گروہ اسے ناجائز سمجھتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ یہ کفار و فاسقین ہیں ۔ (کتاب الکفایة فی علم الرواية صفحہ ۱۲۰)

امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں : (ومن لم يكفر) فيه خلاف ۔ (قيل: لا يحتج به مطلقا) ، ونسبه الخطيب لمالك ; لأن في الرواية عنه ترويجا لأمره، وتنويها بذكره ; ولأنه فاسق ببدعته، وإن كان متأولا يرد كالفاسق بلا تأويل، كما استوى الكافر المتأول وغيره ۔
ترجمہ : امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : خطیب بغدادی نے امام مالک کے حوالے سے یہ بات کہی ہے جو بدعتی شخص کی روایت ہے اسے بلکل ترک کر دو کیونکہ اس سے اس کے مذہب کی ترویج ہو گی اور اس کا ذکر عام ہو گا ۔ وہ آدمی فاسق ہے اپنی اس بدعت کی وجہ سے لہٰذا ہم اس کی روایت کو قبول نہیں کریں گے ۔ (تدریب الراوی في شرح تقریب النواوی جلد اوّل صفحہ ٣٨٤،چشتی)

جواب : ان روایتوں میں اختلاف اس چیز کا بیان کیا گیا ہے کہ بدعتی راوی کی مطلق روایت یا تو رد کی جائیں گی سماع ہی نہیں کیا جائے گا یا اس کی روایت مطلق سنی جائیں گی اور روایت کی جائیں گی ۔ لیکن  مسٸلہ خاص کہ جس میں بدعتی فقط اپنے مذہب کی تائید میں روایت بیان کرے گا اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تو یہ دلائل غلط ہیں ۔

ایک صاحب  اس کے جواب میں جو لکھتے ہیں اس کے دلائل جو کہ ابن حجر علیہ الرحمہ سے پہلے نقل کرتا ہے : امام ابنِ حجر العسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ثم البدعة 1: وهي السبب التاسع من أسباب الطعن في الراوي: وهي إما أن تكون بمكفر : ⏬

1 ۔ كأن يعتقد ما يستلزم الكفر ۔ 2 ۔ أو بمفسق ۔ فالأول : لا يقبل صاحبها الجمهور ۔ وقيل : يقبل مطلقا ۔ وقيل : إن كان لا يعتقد حل الكذب لنصرة مقالته قبل ۔ والتحقيق أنه لا يرد كل مكفر ببدعة1؛ لأن كل طائفة تدعي أن مخالفيها مبتدعة، وقد تبالغ فتكفر مخالفها، فلو أخذ ذلك على الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف ۔ فالمعتمد أن الذي ترد روايته من أنكر أمرا متواترا من الشرع معلوما من الدين بالضرورة، وكذا من اعتقد عكسه، فأما من لم يكن بهذه الصفة وانضم إلى ذلك ضبطه لما يرويه، مع ورعه وتقواه، فلا مانع من قبوله ۔
ترجمہ : 1 ایسی بدعت جس سے کفر لازم آتا ہے ۔ 2 ۔ ایسی بدعت جو کہ فاسق کر دے ۔ پہلی قسم جو راوی کو کافر کردیتی ہے اس پر جمہور کا اتفاق ہے کہ اس کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکی روایت کو بھی قبول کرلیا جائے گا اور اگر وہ اپنے مذہب کو تقويت پہنچانے کی غرض سے جھوٹ نہیں بولتا تو بھی اس کی بات کو قبول کیا جائے گا ۔ تحقیق قول یہ ہے کہ ہر اس بدعتی راوی کی روایت کو ترک نہیں کیا جائے گا جس کی تکفیر اس کی بدعت کی وجہ سے لازم آتی ہے کیونکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر گروہ دوسرے کو بدعتی کہتا ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے ایک دوسرے کی تکفیر کی جاتی ہے اور اگر علی الاطلاق اس قاعدے کو نافذ کردیا جائے تو لازم آئے گا کہ تمام کے تمام لوگوں کی تکفیر کردیں بہر حال اعتماد اس میں یہ کہ اسی کی تکفیر کی جائے جو کسی متواتر امر دین کا منکر ہو البتہ جو اس صفت کا حامل نہ ہو اور اسکا حافظہ بھی قوی ہو تو کوئی شے مانع نہیں کہ اس کی روایات کو قبول نہ کیا جائے ۔ (فتح الباری جلد ۱ صفحہ ۳۸۵،چشتی)(نزھة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الاثر صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۳)

یہاں تک تو فقیر نے ان کے اس غلط اور خود ساختہ اصول کی تردید اصول سے کی لیکن اب متقدمین کے فہم و عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ ان کے نقل کردہ دلائل پر مٶقف پیشِ خدمت ہے : ⏬

امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے کلام میں صداقت فریدی رافضی اور اس کے بڑے شیعہ حضرات کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے درج ذیل الفاظ قابل غور ہیں اور اگر علی الاطلاق اس قاعدے کو نافذ کر دیا جائے تو لازم آئے گا کہ تمام کے تمام لوگوں کی تکفیر کر دیں ۔ یہاں بات اس موقف کے رد  کی ہو رہی ہے کہ مطلق ہر قسم کے بدعتی کی روایت مطلق طور پر رد کر دی جائیں چاہے وہ بدعت صغریٰ ہو یا  کبریٰ  تو یہ بات  تو ہم بھی کہتے ہیں کہ شیعہ ثقہ راویان کی مطلق روایت رد نہ ہو گی بلکہ فضائل اہل بیت اور مذمت اصحاب رسول رضی اللہ عنہم میں ان کا تفرد رد ہوگا ۔ تو یہ مذکورہ دلیل فضول ثابت ہوئی ۔ بلکہ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ سے خاص کہ جب راوی  ثقہ و صدوق ہونے ساتھ ساتھ اپنے دین کا داعی ہو (یعنی اپنے عقیدے کا پر چار کرے  روایات بیان کرے اپنے عقیدے کی تقویت میں) تو اس پر امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا کلام درج ذیل ہے : ⏬

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة ۔
ترجمہ : عرف متقدمین میں تشیع سے مراد شیخین  (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کو دیگر صحابہ پر فضیلت دینے کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت ماننے والے کو کہا جاتا تھا ، اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں مصیب اور ان کا مخالف خطاء پر تھا ۔ بعض کا یہ نظریہ بھی  ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب مخلوق سے افضل ہیں ، اگر اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا متقی ، دیندار  اور سچا ہو تو محض اس وجہ (عقیدہ) کے سبب اس کی روایت ترک نہیں کی جائے گا جبکہ وہ  اپنے اعتقاد کا داعی نہ ہو (یعنی اپنے عقیدے کے موافق روایات بیان نہ کرتا ہو اس کا پرچار نہ کرتا ہو) ۔ جبکہ عرف متاخرین میں تشیع سے مراد محض رفض ہے ۔ لہٰذا غالی رافضی کی روایت (مطلق) مقبول نہیں اور نہ ہی اس کےلیے کی قسم کی کوئی کرامت (بزرگی و تعظیم) ہے ۔۔ الخ ۔ (تھذیب التھذیب جلد ۱ صفحہ ۹۴،چشتی)

امام ابن حجر علیہ الرحمہ نے بھی وہی موقف رکھا ہے جو امام ذھبی کا تھا کہ شیعہ جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن نہ کرتا ہو اور اتقان کے حوالے سے مضبوط اور عدالت کے اعتبار سے سچا ہو تو محض شیعت کے سبب اس کی روایات رد نہ ہونگی جب تک وہ داعی نہ ہو یعنی اپنے عقیدے کے موافق روایات بیان کرتا ہوں اور پر چار کرتا ہوں اور داعی ہو ۔ اور یہی اہلسنت مٶقف ہے جو ابن حجر علیہ الرحمہ نے  بیان کیا ہے ۔

لیکن صداقت فریدی رافضی اور اس کے بڑی شیعہ حضرات جو اپنے نزدیک اہلسنت کا رد کرتے نظر آتے ہں وہ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا کلام بطو ر مقدمہ پیش کرتے ہیں جبکہ موصوف کا خود حال  یہ ہے کہ وہ نفسِ مسٸلہ میں امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کی تصریح پر مطلع ہی نہیں اور مطلق بدعتی روایت کو قبول کرنے کے مسٸلہ کو بیان کر رہا ہے جس کا مسٸلہ مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کے  بعد صداقت رافضی نام نہاد فریدی نے اہلسنت کے رد میں یہ مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے کہ پھر اہلسنت کے ناقدین  نے کیوں بدعتی راویوں کی روایات قبول کی ہیں جبکہ انہوں نے ان سے مطلق نہ لکھنے کا فتویٰ دیا ہے فلاں فلاں جبکہ ان کی کتب میں بدعتیوں سے روایتیں موجود ہیں ۔

صداقت رافضی نام نہاد فریدی نے سب سے پہلے امام مالک علیہ الرحمہ سے مثال پیش کی کہ انہوں نے مطلق کہا ہے کہ بدعت راویوں سے روایت بیان نہ کی جائے اور یہ بات خطیب بغدادی نے امام مالک کی طرف منسوب کی ہے کہ انکا موقف تھا کہ مطلق اہل بدعت سے روایت نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ان کے عقیدے کی تشہیر ہوتی ہے ۔ اور پھر امام مالک علیہ الرحمہ کے قول اور عمل میں تضاد پیش کرنے کےلیے جو دلیل دی صداقت رافضی نام نہاد فریدی نے وہ درج ذیل ہے : ⏬

پہلی مثال : شروعات امام مالک علیہ الرحمہ سے کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ بدعتی راوی کے حوالے سے جو اقوال پیش کیے جاتے ہیں انہیں امام مالک علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لہٰذا امام مالک علیہ الرحمہ سے شروع کرتے ہیں : حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن ثور بن زيد الديلي، عن ابن لعبد الله بن سفيان الثقفي، عن جده سفيان بن عبد الله، أن عمر بن الخطاب صلى الله عليه وسلم بعثه مصدقا , فكان يعد على الناس بالسخل، ولا يأخذ منه شيئا فقالوا: تعد علينا بالسخل ولاتأخذه؟ فلما قدم على عمر بن الخطاب , ذكرذلك له، فقال عمر: نعم نعد عليهم بالسخلة، يحملها الراعي، ولا نأخذها , ولا تأخذ الأكولة، ولا الرباء , ولا الماخض , ولا فحل الغنم، ونأخذ الجذعة , والثنية , ذلك عدل بين غذاء المال وخياره ۔ (المؤطا للامام مالک صفحہ ٤٨٣ ورقم الحدیث ۵۷۵،چشتی)

یہاں امام مالک علیہ الرحمہ نے ثور بن زید سے روایت لی ہے جو کہ بدعتی ( متھم بالقدر) ہے چناچہ امام ابنِ حجر العسقلانی علیہ الرحمہ اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : أتهمه بن البرقي بالقدر ولعله شبه عليه بثور بن يزيد انتهى والبرقي لم يتهمه بل حكى في الطبقات أن مالكا سئل كيف رويت عن داود بن الحصين وثور بن زيد وذكر غيرهما وكانوا يرمون بالقدر فقال كانوا لأن يخروا من السماء إلى الأرض أسهل عليهم من أن يكذبوا كذبة وقد ذكر المزي أن مالكا روى أيضا عن ثور بن يزيد الشامي فلعله سئل عنه ۔
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ سے داؤد اور ثور بن یزید / ثور بن زید سے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ لوگ قدری ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ امام مالک نے فرمایا : اگرچیکہ ان پر یہ الزام ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیئے یہ معانی رکھتا ہے کہ یہ آسمان سے گر جائیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی قسم کا جھوٹ باندھیں ۔

اس سے امام مالک علیہ الرحمہ کا نظریہ مؤطا میں ایسے بدعتی راویان سے روایت لینے جو ان کے منہج پر اصح ترین ہیں سے ان کا فہم و عمل بھی معلوم ہوا جبکہ خطیب بغدادی نے جو امام مالک علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کیا ، امام مالک علیہ الرحمہ کا قول وعمل دونوں اس کے سخت مخالف ومعارض ہے ۔

جواب : امام مالک علیہ الرحمہ اور ان جیسے دیگر ناقدین شیوخ سے روایت کرنے کے معاملے میں محتاط اور متنعت شمار ہوتے ہیں جیسا کہ امام مالک علیہ الرحمہ ، امام شعبہ ، امام ابو زرعہ وغیرہم  ان کا مکمل موقف موصوف سمجھنے قاصر رہا ہے اور پھر ایک مثال پیش کر کے امام خطیب کی طر ف یہ طعن کر دیا کہ انہوں نے امام مالک کے موطاکے عمل کے خلاف ان کی طرف  بدعتیوں سے مطلق روایت نہ لینے کا منسوب کر دیا ہے جبکہ مٶطا میں ان کا طریقہ کار بالکل اس کے برعکس ہے ۔ تو عرض ہے کہ خطیب بغدادی کا قصور نہیں ان تک امام مالک علیہ الرحمہ کا جو قول پہنچا انہوں نے اس کو ظاہر پر محمول کر کے ویسے ان کا منہج بیان کر دیا ہے جیسا کہ خطیب بغدادی نے  اپنی سند سے امام مالک علیہ الرحمہ کا قول بھی بیان کیا ہے جو کہ کچھ یوں ہے : وأخبرنا محمد بن عمر، ثنا أبو بكر بن سلم , (ح) ۔ وأخبرني ابن الفضل، أنا دعلج , أنا , وقال ابن سلم: ثنا أحمد بن علي الأبار , (ح) ۔ وأخبرنا أحمد بن أبي جعفر، ثنا محمد بن عثمان النفري، ثنا عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري , قالا ثنا يونس بن عبد الأعلى، ثنا ابن وهب , قال: سمعت مالك بن أنس , يقول: «لا يصلى خلف القدرية ولا يحمل عنهم الحديث ۔ امام مالک علیہ الرحمہ کہتے ہیں قدری کے پیچھے نماز مت پڑھو اور نہ ہی ان سے روایت لو ۔ (الكفاية في علم الرواية صفحہ ۱۲۴)

یہ قول مطلق ہے کہ نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھو اور نہ ہی ان کی طرف روایت لینے کےلیے جاو  تاکہ یہ لوگ مشہور نہ ہوں اور نہ ہی ان کے عقائد کی مشہوری ہو یہ تھا اصل مقصد لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے روایت مطلق لی ہی نہ جائے بلکہ اس میں تخصیص ہے کہ کون سا بدعتی داعی ہے اور کون سا داعی نہیں ہے ۔ امام مالک علیہ الرحمہ کے اس فرمان کا مطلب امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے اور متقدمین کا منہج بھی کہ بعض اوقات محدث کسی بدعتی سے روایت لکھنے سے منع کرتا ہے اور پھر وہ خود اس سے لکھ بھی رہا ہوتا ہے اور بیان بھی کر رہا ہوتا ہے  اور یہ عمل بظاہر تضا د معلوم ہوتا ہے لیکن محدثین کے منہج و اسلوب سے نا واقف ہونے کے سبب ہی یہ تضاد لگتا ہے لیکن حقیقت میں ہوتا نہیں ہے جیسا کہ امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ سے مروی ہے  : أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن محمد بن جعفر، أنا محمد بن العباس الخزاز، أنا أحمد بن سعيد بن مرابا السوسي , قال: ثنا عباس بن محمد , قال : سمعت يحيى بن معين , يقول: ” ما كتبت عن عباد بن صهيب , وقد سمع عباد من أبي بكر بن نافع وأبو بكر بن نافع قدري يروي عنه مالك بن أنس. قلت ليحيى: هكذا تقول في كل داعية , لا يكتب حديثه إن كان قدريا أو رافضيا , أو كان غير ذلك من الأهواء , ممن هو داعية؟ قال: لا يكتب عنهم إلا أن يكونوا ممن يظن به ذلك , ولا يدعو إليه كهشام الدستوائي وغيره , ممن يرى القدر ولا يدعو إليه ۔
ترجمہ : امام عباس الدوری کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا عباد بن صھیب سے  میں نے نہیں لکھا  اور  عباد نے ابی بکر بن نافع سے  سنا ہے ۔ اور ابو بکر بن نافع قدری ہے اور ان سے امام مالک علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں ۔ تو میں (عباس) نے امام یحییٰ بن معین سے کہ آپ کا ہی قول ہے کہ جو بھی (بدعت) کا داعی ہے اس سے حدیث مت لکھو  کہ وہ قدری ہے یا رافضی ہے یا ان کے علاوہ  یا  خارجی   تو ان میں سے داعی کون ہیں ؟(یعن جو اپنے عقائد کا پرچار کریں اور اپنے عقیدے کی روایات کی تشہیر کریں )  تو امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ نے کہا ان سے نہ لکھو سوائے اس کے کہ جب تم کو یہ یہ مناسب لگے کہ یہ ویسے ہے جیسا آپ کا ظن ہے اور یہ داعی نہیں (اپنی بدعت کا پرچار نہیں کرنے والا نہ ہی روایات بیان کرنے والا ہے اپنی بدعت کی تقویت میں) جیسا کہ ھشام الدستائی ہے  کہ یہ قدری نظریات رکھتا تھا لیکن کبھی اس کی دعوت نہیں دی ۔ (الكفاية في علم الرواية صفحہ ۱۲۷ و سندہ صحیح

معلوم ہوا کہ ناقدین جو کہتے ہیں کہ بدعتیوں سے نہ لکھو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کون داعی ہے کون نہیں یہ تحقیق تو بعد کی ہے لیکن جب ہو بدعتی ہے تو اس سے اس وقت تک نہیں لکھا جائے گا جب تک یہ تسلی نہ ہو کہ یہ داعی نہیں ہے کیونکہ داعی کی روایت (اس کے تفرد یا اجتہاد میں ) نہیں لی جائے گی !! اسی طرح امام مالک علیہ الرحمہ نے بھی اس احتیاط کے سبب یہ مسلک بیان کیا کہ بدعتیوں سے روایت ہی نہ کرو  کیونکہ اگر ہر عام لوگوں کو ان سے روایت لکھنے کی اجازت ہوتی تو پھر ان کے عقائد کی تشہیر ہونے لگ جاتی  اس لیے جب  یہ معلوم ہو جائے کہ راوی بدعتی ہونے کے ساتھ داعی نہیں ہیں تو پھر اسکی روایت لکھنے میں حرج نہیں جیسا کہ امام مالک علیہ الرحمہ نے ان سے سماع بھی کیا ہے اور اپنی موطا میں روایت بھی لی ہے ابو بکر بن نافع سے ۔ تو جو ایسے قدری ، مرجئ  راویان جو داعی نہ ہوں اور نیک ہوں تو انکی روایت رد نہیں ہوگی کیونکہ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے رافضیوں کی طرح ۔

نوٹ: ابو بکر بن نافع کو قدری کہنے میں امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ کا تفرد ہے نیز اور کسی ناقد نے یہ ان پر جرح نہیں کی تو امام ابن معین کے برعکس یہ بھی راجح ہو سکتا ہے کہ امام مالک علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ قدری ہو ہی نہ ۔ کیونکہ امام مالک کے عمل میں تضاد تب ثابت ہوگا جب وہ خود کسی راوی پر جرح کریں بدعت کی اور اس کو داعی بھی قرار دیں اور پھر اس سے روایت لیں ۔ مگر ابو بکر بن ابی داود کو تو امام ابن  معین نے بھی ان رواتہ میں شامل کیا جو داعی نہیں تھے ھشام دستوائی کی مثال دے کر ۔ اور جو مثال اوپر ثور بن زید کے حوالے سے پیش کی کہ اس پر قدری ہونے کا الزام ہے۔تو عر ض ہے یہ ابن برقی جو امام مالک کے بعد کا ناقد ہے اس کی جرح سے امام مالک علیہ الرحمہ پر کیسا کلام ؟

کیونکہ امام ذھبی علیہ الرحمہ نے  بھی تصریح کی ہے : [صح] ثور بن زيد [خ، م] الديلى ۔ شيخ مالك ۔ ثقة ۔ اتهمه محمد بن البرقى بالقدر، وكأنه شبه عليه بثور بن يزيد ۔ ثور بن زید یہ  امام مالک کے شیخ ہیں اور ثقہ ہے ۔ اور اس پر قدریت کی تہمت ابن برقی نے لگائی ہے اور  لگتا ہے  وہ (ابن برقی) اس کو ثور بن یزید سمجھے ہیں (جو کہ اور راوی ہے اور وہ قدری تھا) ۔ (میزان الاعتدال)

تو یہی وجہ ہے کہ یہ مٶطا کا راوی ثور بن زید ہے نہ کہ ثور بن یزید کیونکہ ثور بن یزید مشہور قدری را وی ہے جبکہ ثور بن زید پر تو کسی قسم کی کوئی  جرح ہی نہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس امام  ابن ابی حاتم علیہ الرحمہ نقل کرتے ہیں : قرئ على العباس بن محمد  الدوري قال سمعت يحيى يعني ابن معين يقول: ثور بن زيد الديلي ثقة يروى عنه مالك ويرضاه ۔ الدوری کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا کہ ثور بن زید ثقہ ہے اور ان سے امام مالک روایت کرتے ہیں او ر وہ ان سے راضی  ہیں ۔ (الجرح والتعدیل)

اس کے بعد رافضی مذکور اور اس کے ہمنواٶں نے دوسری دلیل امام مالک علیہ الرحمہ سے دی : اسی طرح امام مالک علیہ الرحمہ سے ایک اور مثال ۔ حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن داود بن الحصين قال أخبرني مخبر أن عبد الله بن عباس كان يقول دلوك الشمس إذا فاء الفيء وغسق الليل اجتماع الليل وظلمته ۔ (المؤطا للامام مالک صفحہ ٢٨٧حدیث ۲۱)

اس میں داؤد بن الحصین یہ بھی بدعتی راوی تھا ۔ امام ابنِ حجر العسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وعاب غير واحد على مالك الرواية عنه وتركه الرواية عن سعد بن ابراهيم ۔
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ پر بہت سے لوگوں نے عیب لگایا ہے کہ انہوں نے اس سے روایت لی ہے جبکہ سعد بن ابراھیم کی روایات کو ترک کر دیا ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۱۸۲،چشتی)

امام جمال الدین المزی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وَقَال أَبُو حاتم: ليس بالقوي، ولولا أن مالكا روى عنه لترك حديثه ۔
ترجمہ : ابو حاتم کہتے ہیں : یہ راوی قوی نہیں ہے اور اگر مالک انسے روایت نہ لیتے تو ہم اسے ترک کر دیتے ۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد ۸ صفحہ ۳۸۱)

داٶد بن حصین پر کسی قسم کی حفظ کے حوالے سے کوئی جرح نہیں یہ ثقہ ہے سوائے عکرمہ کے کیونکہ عکرمہ سے اس کی روایت  ضعیف ہوتی تھی۔ اور امام عکرمہ پر بہت خطر ناک جروحات تھیں جسکی وجہ سے امام مالک علیہ الرحمہ داود بن حصین کی روایت عکرمہ سے روایت کرنا پسند نہیں کرتے تھے یہ بات اس چیز کی متقاضی ہے کہ امام مالک علیہ الرحمہ رواتہ کی بدعت کے حوالے سے کتنی احتیاط کرتے تھے اور داود بن حصین سے امام مالک علیہ الرحمہ نے تفرد میں روایت نہیں لی بلکہ اسکی شاہد بھی ثابت ہیں ۔ اور امام مالک علیہ الرحمہ عکرمہ کا نام لیے بغیر اسکی روایت کیوں بیان کرتے تھے داود بن حصین سے اس کی وجہ بھی امام ابن معین نے بیان کی ہوئی ہے جیسا کہ امام الدوری بیان کرتے ہیں : محمد الدوري عن يحيى بن معين أنه قال: داود بن حصين ثقة وإنما كره مالك له لأنه كان يحدث عن عكرمة، وكان يكره مالك عكرمة ۔
ترجمہ : محمد الدوری بیان کرتے ہیں یحییٰ بن معین سے کہ داود بن حصین ثقہ ہے۔اور اسکو اسکے لئے نا پسند کیا ہے امام مالک نے.. کیونکہ وہ عکرمہ سے روایت بیان کرتے ہیں مگر امام مالک عکرمہ کو نا پسند کرتے ہیں ۔ (الجرح والتعدیل)

نیز امام مغلطائی علیہ الرحمہ نے تصریح لکھی ہے کہ یہ داعی نہیں تھا بدعت کا جیسا کہ لکھتے ہیں : وذكر البرقي في «باب من تكلم فيه من الثقات لمذهبه ممن كان يرمى منهم بالقدر»: داود بن حصين، وثور بن زيد، وصالح بن كيسان. يقال: إنهم جلسوا إلى غيلان القدري ليلة، فأنكر عليهم أهل المدينة، ولم يكونوا يدعون إلى ذلك ۔
ترجمہ : البرقی نے ذکر کیا ہے کہ  باب قائم کر کے کہ وہ ثقات جنکے مذہب کے سبب ان پر قدریت کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ داود بن حصین ، ثوربن زید (یہ ثور بن یزید تھا جیسا کہ امام ذھبی نے تصریح کی میزان میں )، اور صالح بن کیسان  کہا گیا یہ غییلان قدری کے ساتھ بیٹھے توان پر اہل مدینہ نےاس بات پر انکا نکار کیا، لیکن  یہ داعی نہیں تھے اس میں ۔ (إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال)

نیز دوسری بات یہ راویان جن پر قدری و مرجئ ہونے کی جروحات ہیں لیکن اگریہ ثقہ ہوں تو یہ روایت میں جھوٹ بولنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ  یہ لوگ عبادت گزار  تھے اور یہ جھوٹ کو تقیہ سمجھ کر بولنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور اگر یہ داعی نہ ہوں تو انکی روایت  مقبول ہوتی ہیں کیونکہ روافض اور شیعوں کا مسلہ اس سے الگ ہے ۔

جیسا کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ پہلے ایک غالی شیعہ کے ترجمہ میں امام بخاری و ابن حبان کا کلام نقل کرتے ہیں  : قال البخاري : كان هو وأبوه غاليين في مذهبهما ۔ وقال ابن حبان: غال في التشيع ۔ روى المناكير عن المشاهير ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ نے کہا کہ یہ اور اس کا والد غالی بد مذہبوں (کھٹملوں ) میں سے تھے ۔ اور امام ابن حبان نے کہا یہ تشیع میں غالی تھا اور اس نے مشہور ثقات سے مناکر بیان کی ہیں ۔

اس کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قلت : ولغلوه ترك البخاري إخراج حديثه، فإنه يتجنب الرافضة كثيرا، كأنه يخاف من تدينهم بالتقية ولانراه يتجنب القدرية ولا الخوارج ولا الجهمية، فإنهم على بدعهم يلزمون الصدق، وعلى بن هاشم، قال أحمد: سمعت منه مجلسا واحدا.
ترجمہ : میں (ذھبی) کہتا ہوں : اسکے غلو کی وجہ سے امام بخاری نے اس سے حدیث نقل نہیں کی ، کیونکہ وہ رافضیوں سے بہت زیادہ اجتناب کرتے تھے ، انہیں ان کے مسلک میں تقیہ کا بہت اندیشہ تھا ، ہم نے انہیں نہیں دیکھا کہ انہوں نے قدریوں یا خارجیوں یا جہمیوں سے اجتناب کیا ہو ، لیکن ان کی بدعت کے باوجود یہ لوگ سچ کو اختیار کرتے تھے (کیونکہ انکے نزدیک جھوٹ گناہ تھا اور کوئی تقیہ والا عقیدہ انکا نہ تھا) ۔ (میزان الاعتدال رقم : ۵۹۶۱)

یہ ہے اصل اختلاف جو صداقت فریدی جیسے رافضیوں کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ تشیع غالی راویان سے ان کے مذہب کی تقویت میں روایات میں تفرد کتنا خطر ناک ہوتا ہے ۔ اب آتے ہیں صداقت فریدی رافضی کی شیعہ راویان کے بارے دی گئی مثالوں کی طرف : ⏬

عدی بن ثابت ۔

ان سے بھی امام مالک علیہ الرحمہ نے روایت لی ۔

حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عدي بن ثابت الأنصاري، عن البراء بن عازب، أنه قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة فقرأ فيها {بالتين والزيتون ۔ (المؤطا صفحہ ۳٤٢ حدیث ۱۸٦)

امام ابو حاتم الرازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : صدوق، وكَانَ إمام مَسْجِد الشيعة وقاصهم ۔
ترجمہ : یہ صدوق تھا اور شیعہ کا امام مسجد تھا ۔

قال عَبد الله بْن أحمد بْن حنبل ، عَن أبيه: ثقة ۔ وكَذَلِكَ أَحْمَد بْن عَبد الله العجلي والنَّسَائي ۔
ترجمہ : احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کہتے ہیں ثقہ ، امام عجلی اور نسائی بھی ثقہ کہتے ہیں ۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد ۱۹ صفحہ ۵۲۳)

اس کے بعد صداقت فریدی رافضی نے امام دارقطنی و زرقانی سے اس کے رفض پر جروحات پیش کی جو ہم نے سابقہ تحریر میں کچھ رافضیوں کے رد میں الزامی تحریر میں جواب دے چکے ہیں ۔

صداقت فریدی رافضی نے یہاں امام مالک علیہ الرحمہ سے اس کو رافضی یا غالی شیعہ ثابت کرنا تھا پھر امام مالک علیہ الرحمہ کے قول و عمل میں تضاد ثابت ہوتا مگر امام مالک علیہ الرحمہ نے تو اس پر کوئی کلام ہی نہیں کیا ۔ بلکہ امام بخاری علیہ الرحمہ جو غالی اور رافضیوں سے اجتناب کرنے والے تھے انہوں نے بھی تاریخ الکبیر میں اس پر کوئی جرح نہیں کی بلکہ یہ لکھا کہ ان سے سماع کرنے والے امام یحییٰ بن سعید ، امام شعبہ  اور امام مسعر جیسے نقاد ہیں ۔ اور امام بخاری علیہ الرحمہ نے بھی ان سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے یہ بالکل اس جیسے ہیں جیسے امام اعمش ، امام ابو نعیم وغیرہم ہیں  نہ یہ غالی ہیں اور نہ ہی  یہ داعی ہیں ۔ اور فقیر نے امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی علیہما الرحمہ سے  یہی موقف ثابت کیا کہ راجح یہ ہے کہ داعی بدعتیوں سے روایت نہ لی جائے گی یعنی انکے مذہب کے تقویت میں ۔ اور رافضیوں سے تو بالکل روایت لی ہی نہیں جائےگی ۔ بلکہ یہ اس روایت کے راوی ہیں کہ انصار صحابہ سے بغض سوائے کافر کے نہیں رکھ سکتا ۔

أخبرنا محمد بن المثنى قال أنا معاذ بن معاذ عن شعبة عن عدي بن ثابت عن البراء بن عازب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يبغضهم إلا كافر من أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله ۔ قال شعبة قلت لعدي أنت سمعت هذا من البراء قال إياي حدث ۔
ترجمہ : امام شعبہ نے عدی سے پوچھا کہ کیا یہ روایت آپ نے خود  براء سے سنی ہے تو انہوں نے کہا مجھے بیان کی ہے ۔ (فضائل صحابہ للنسائی)

نیز اس میں عدی بن ثابت کو امام مالک علیہ الرحمہ کی زبانی جب داعی ثابت نہیں کیا گیا تو پھر انکے عمل و قول میں تضا د اخذ کرنا احمقو ں کا کام ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 27 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ دوم

0 comments
سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ دوم
محدثینِ کرام علیہم الرحمہ نے جو شیعہ راوی سے استدالال کے قواعد بنائے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں ۔ بلکہ اس کو تشیع کے ساتھ مخصوص کرنا ہی جہالت ہے کیونکہ ان کے یہ اصول بدعتی کی روایت کے بارے میں ہے نہ کہ صرف ایک فرقہ سے مختص ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ امام بخاری اور امام مسلم علیہما الرحمہ نے شیعہ راویوں سے فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ میں روایات لیں ہیں ۔ جو ان کے مذہب کو تقویت دیتی ہیں ۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ یہ اعتراض اصول سے بے خبری اور جہالت کا نتیجہ ہے ۔سطحی قسم کا مطالعہ ایسے سوالات اٹھانے میں کافی معاون ثابت ہوتا ہے ۔ لہٰذا انسا ن اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے محدثین کرام علیہم الرحمہ پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیتا ہے ۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کے موافق بظاہر نظر آتی ہے ۔ یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلاں راوی شیعہ ہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں روایت کرتا ہے ۔ جیسے انت منی و انا منک تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہو ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاۃ رقم الحدیث : ۴۰۰۵،چشتی) ۔ اسی طرح حدیث : لا یحبک الا مومن و لا یبغضک الا منافق ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار علی من الایمان الخ رقم الحدیث:۱۱۳) ۔ ترجمہ : تجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور تجھ سے منافق یہ بغض کرے گا ۔

اس بارے عرض ہے کہ ان دونو ں باتوں میں ایک واضح فرق موجود ہوتا ہے ۔اور وہ فرق یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات میں جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل وارد ہوئے ہیں ان میں شیخین کریمین یا صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص نہیں ہوتی ۔ اور نہ ہی اس میں غلو ہوتا ہے اورنہ ہی الفاظ رکیک ہوتے ہیں اور معانی میں ضعف نہیں ہوتا ۔جیسا کہ مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہو رہا ہے ۔ اس لیے اس کو قبول کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ محدثین علیہم الرحمہ سند کے ساتھ متن کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔ جبکہ شیعہ راویوں کی مذہب کی تقویت والی روایت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس میں اکثر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے شان میں غلو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص ہوتی ہے ۔ ان کے معانی بڑے ہی ضعیف ہوتے ہیں اور الفاظ رکیک ہوتے ہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کوئی شیعہ راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی روایت بیان کرے تو اہل سنت اس کی صرف وہ روایت تسلیم کرتے ہیں جو قواعدِ اہل سنت کے موافق ہوں ۔ اور یہ قواعد یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کی شان بہت بلند اور اعلیٰ ہے جیسا کہ روایات سے ثابت  ہیں مگر دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص اس سے ثابت نہ ہو ۔ جو ان قواعد کے دائرہ کار میں ہوں تو ہم ا س شیعہ (مفسق بدعتی) کی روایت قبول کرتے ہیں اور اس کی بدعت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اعتقاد بدعت ہرگز نہیں ہے اور جو شیعہ یا رافضی اس قواعد کے خلاف روایت کرے تو ہم اس کو رد کرتے ہیں اور اس کو قبو ل نہیں کیا جاتا ۔ (اسکی مزید تفضیل عرب محقق کی کتاب اتحاف النبیل ابی الحسن السلیمانی صفحہ ۲۴۷ میں ملاحظہ فرمائیں،چشتی)

لہٰذا صداقت فریدی یا اس کے بڑے روافضیوں نے جو مثالیں پیش کیں ہم ان روایات کو ماننا اپنا دین اور مذہب سمجھتے ہیں ۔ مگر ان روایات کے ذریعے جو احتمالات اور شکوک لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی وہ فضول ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ محدثین کرام علیہم الرحمہ صرف سند پر ہی نہیں بلکہ متن پر بھی کڑی شرائط عائد کر کے اس کو قبول کرتے تھے ۔ اس کے برعکس یہ روایات مذکورہ  بالا جو صداقت فریدی یا اس کے بڑے روافضیوں نے اہل سنت کے اصولوں کے رد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ تو خود ان کا رد کر رہی ہیں ۔ کیونکہ ان روایات سے تو اہل سنت کی محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ثابت کر رہی ہے ۔ اور صداقت فریدی یا اس کے بڑے روافضیوں کا محدثین کرام علیہم الرحمہ پر یہ الزام کہ وہ بدعتی اور غیر بدعتی کے تقسیم اس لیے کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کا انکار کر سکیں بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ محدثین نے جس شاندار طریقے سے عظمت اہل بیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی شان بیان کی وہ تو قابل تحسین ہے۔اللہ تعالیٰ محدثین کرام کو جزاء خیر عطا فرمائے ۔

وذكر شهاب أنه سمع ابن عيينة يقول : تركت جابرا الجعفي وما سمعت منه ، قال : دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا فعلمه مما تعلم ، ثم دعا على الحسن فعلمه مما تعلم، ثم دعا الحسن الحسين فعلمه مما تعلم ۔ ثم دعا ولده ۔ حتى بلغ جعفر بن محمد ۔ قال سفيان : فتركته ذلك ۔
ترجمہ : ابن عیینہ کہتے ہیں میں نے جابر جعفی کو ترک کر دیا  اور پھر کوئی روایت نہ سنی اس سے جب اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں ان چیزوں کا علم دیا جس کا علم آپو کو علم حاصل تھا  پھر حضرت  علی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو وہ علم دیا اور سب علم ان کو دیا  پھر حضرت حسن نے حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا اور ان کو سارا علم دیا پھر انہوں نے اپنے صاحبزادے کو یہاں تک کہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ تک پہنچے ۔

حضرت امام سفیان بن عیینہ علیہ الرحمہ کہتے ہیں (اس روایت کے سبب) میں نے اس (جابر الجعفی) کو ترک کر دیا ۔

الحسن بن علي الحلواني ، حدثنا أبويحيى الحمانى ، حدثنا قبيصة وأخوه ۔ أنهما سمعا الجراح بن مليح يقول : سمعت جابرا يقول : عندي سبعون ألف حديث عن أبي جعفر عن النبي صلى الله عليه وسلم كلها ۔
ترجمہ : جرح بن ملیح کہتے ہیں  میں نے جابر جعفی کو کہتے سنا میرے پاس ستر ہزار ایسی احادیث ہیں جو سب امام باقر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں ۔ (میزان اعتدال برقم : ۱۴۲۵،چشتی)

یہ حال ہے شیعہ کے سب سے بڑے  عالم کا کہ جس کے حفظ و اتقان کے حوالے سے کوئی مسلہ نہ تھا بلکہ ثقہ تھا اور بظاہر عبادت گزار بھی تھا لیکن حدیث صحیح بیان کر کے اپنی توثیق ظاہر کی پھر اس کے بعد اپنے مذہب کی تقویت میں ایسی ایسی روایتیں بیان کرنے لگا کہ متروک بن گیا ۔

لیکن اس کے تفرد کے سبب متاخرین آئمہ نے اس کو ضعیف رافضی قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ شیعہ رافضیوں کے رویات سے کتنا پرہیز کرتے تھے ۔

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے راوی کا قول : ⏬

وقال : وحدثنا عبد الحميد الحماني، قال: سمعت أبا سعد الصغاني قام إلى أبي حنيفة، فقال: يا أبا حنيفة، ما تقول في الأخذ عن الثوري ؟فقال: اكتب عنه، فإنه ثقة ما خلا أحاديث أبي إسحاق عن الحارث، وحديث جابر الجعفي ۔
ترجمہ : امام الحمانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو سعد الصغانی کو سنا کہ وہ ابو حنیفہ کی طرف آیا اور کہا کہ اے ابو حنیفہ آپ سفیان الثوری سے (حدیث) لینے کے بارے کیا کہتے ہیں ؟ تو ابو حنیفہ نے فرمایا ان سے لکھ لو کیونکہ وہ ثقہ ہیں سوائے ان احادیث میں کہ جب جو وہ ابی اسحاق کے طریق سے الحارث سے بیان کریں اور ان احادیث کے جب وہ جابر جعفی سے بیان کریں ۔ (دلائل النبوی جلد ۱ صفحہ ۴۴ وسندہ حسن)

یہاں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ابو اسحاق سبیعی کے طریقے سے حارث جو کہ شیعہ کے بڑے علماء میں سے تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شاگرد تھا اسکی روایات کو بیان نہ کرنے کا فتویٰ دیا ہے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس پر زیادہ بحث کرنے کی بجائے ابن حجر کے مختصر کلام سے سمجھ لیتے ہیں ۔ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا اپنا کلام تقریبب میں ہے : صاحب علي : كذبه الشعبي في رأيه، ورمي بالرفض، وفي حديثه ضعف ۔
ترجمہ : یہ صاحب علی تھا ، امام شعبی نے اس کو رائے میں جھوٹا قرار دیا ہے ، اور اس کو رفض کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے ، اور اس کی حدیث میںں کمزوری ہوتی ہے ۔ (تقریب التہزیب)

یہ اپنی رائے میں جھوٹا تھا  یعنی جب کلام کرتا یا معنی یا تفسیر بیان کرتا تو غلط بیانی کراتا تھا اور یہ رافضی بھی تھا  اور اس کی روایت میں کمزوری ہے یعنی اس کا تفرد قبول نہ ہوگا اس وجہ سے کہ یہ متن میں تدلیس کرتے تھے ایسے راوی یعنی اصل روایت کا بالمعنی الفاظ استعمال کر کے اس روایت کو یکسر تبدیل کر دیتے جس سے یہ کذب کی جرح سے بھی بچ جاتے اور فضائل اہل بیت  میں باطل روایات بھی پھیلا دیتے ۔

سالم بن ابی حفظہ ۔ اس راوی کے بارے امام ابن حجر علیہ الرحمہ کہتے ہیں : صدوق فى الحديث إلا أنه شيعى غالى ۔
ترجمہ : صدوق ہے حدیث میں سوائے یہ کہ یہ غالی شیعہ تھا ۔ (تقریب التہذیب)

امام ذھبی علیہ الرحمہ میزان الاعتدال میں اس راوی پر تفصیل لکھتے ہیں : قال الفلاس: ضعيف مفرط في التشيع.وأما ابن معين فوثقه.وقال النسائي:ليس بثقة. وقال ابن عدي: عيب عليه الغلو، وأرجو أنه لا بأس به ۔
ترجمہ : افلاس کہتا ہے یہ ضعیف ہے اور شیعت میں غالی تھا بہت ،ابن معین نے ثقہ قرار دیا اور نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں ہے۔ابن عدی کہتے ہیں اس پر عیب اسکے غالی ہونے کی وجہ سے ہے میرا خیال ہے اسکی روایت میں کوئی حرج نہیں ۔
اس کے بعد امام ذھبی علیہ الرحمہ کے غالی شیعت کے بارے نقل کرتے ہیں : وقال محمد ابن بشر العبدي: رأيت سالم بن أبي حفصة ذا لحية طويلة أحمق بها من لحية، وهو يقول: وددت أنى كنت شريك علي عليه السلام في كل ما كان فيه. الحميدي، حدثنا جرير بن عبد الحميد، قال: رأيت سالم بن أبي حفصة وهو يطوف بالبيت، وهو يقول: لبيك مهلك بنى أمية ۔
ترجمہ : محمد بن بشر کہتے ہیں میں نے سالم بن ابو حفصہ کو دیکھا اس کی داڑھی لمبی تھی اور وہ ایک احمق شخص تھا ، وہ یہ کہتا تھا میری خواہش ہے میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں موجود ہر خوبی میں ان کا حصہ دار بن جاٶں ، جریر بن عبدالحمید کہتا ہے میں نے سالم کو دیکھا وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتا تھا : اے بنو امیہ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کو ہلاک کرنے والے میں حاضر ہوں اور یہ راوی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہودی کہتا تھا ۔ وقال حسين بن علي الجعفي: رأيت سالم بن أبي حفصة طويل اللحية أحمق، وهو يقول: لبيك قاتل نعثل ۔
ترجمہ : حسین بن علی جعفی کہتا ہے میں سالم کو دیکھا یہ بڑے قد والا اور لمبی داڑھی ولا احمق تھا اور کہتا تھا یں نعثل (یہودی عثمان) کو قتل کروانے والی ذات کی بارگاہ میں حاضر ہوں ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) ۔ (میزان الاعتدال)

اب ایسے خبیث راوی جو غالی ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دشمن تک ہو ان کو یہودی کہتا ہو تو کیا ایسے صدوق غالی بدعتی حرامی راوی کی روایت ردی کی ٹوکری میں پھینکی جائے یا اس کو لیا جائے ؟

اس کا فیصلہ سنی حضرات کو کرنا ہے ۔

لیکن امام ذھبی علیہ الرحمہ نے ایسے راوی سے احتجاج نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔

سالم بن أبي حفصة أبو يونس الكندي عن الشعبي وإبراهيم بن يزيد التيمي وعنه السفيانان وابن فضيل ۔ شيعي لا يحتج بحديثه ۔ (الکاشف برقم : ۱۷۶۸)

اب یہاں یہ بات یقینی ہے کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ نے اس سے احتجاج نہ کرنے کا فصیلہ اس کے فقط شیعہ ہونے کے سبب کیا ہے جبکہ وہ اس کے اتقان کے مضبوط ہونے پر مطلع تھے لیکن احتمال شیعت کے سبب اس کی روایت سے سکوت کو ہی اولیٰ سمجھا ۔

اب ایک اور شیعہ راوی سے روایات کے متن میں تدلیس کا ثبوت دیتے ہیں جو ائمہ کی تصریح کے مطابق صدوق شیعہ راوی تھے جیسا کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ اس پر جرح و تعدیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ورمى السدي بالتشيع ۔ اس کو شیعت کی طرف منسوب کیاگیا ہے ۔ (میزان الاعتدال برقم : 907)

اور ایسے ہی امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ تقریب میں اس کے بارے فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں : الكوفي : صدوق يهم ورمي بالتشيع ، یہ کوفی ہے صدوق ہے اور وھم بھی کا جاتا تھا اور شیعت کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس کو ۔ (تقریب التہذیب برقم : 463)

جبکہ امام نسائی علیہ الرحمہ اس سے ایک روایت بیان کرتے ہیں ، امام نسائی علیہ الرحمہ ایک روایت بیان کرتے ہیں الخصائص علی رضی اللہ عنہ میں : أَخْبرنِي زَكَرِيَّا بن يحيى قَالَ حَدثنَا الْحسن بن حَمَّاد قَالَ حَدثنَا مسْهر ابْن عبد الملک عَن عِيسَى بن عمر عَن السّديّ عَن أنس بن مَالك أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ عِنْده طَائِر فَقَالَ اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأحب خلقك إِلَيْك يَأْكُل معي من هَذَا الطير فجَاء أَبُو بكر فَرده وَجَاء عمر فَرده وَجَاء عَليّ فَأذن لَهُ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پرندہ پکایا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ اس بندے کو بھیج دے جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے وہ میرے ساتھ آکر اس پرندے کو کھا لے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں واپس بھیج دیا پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپس بھیج دیا پھ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو اندر آنے کی اجازت دی ۔ (خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، برقم: 10)

اب اس روایت میں بہت سارا متن نکارت پر بلکہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر بھی حملہ موجود ہے اس میں کہ اللہ حضرت ابو بکر کو لائے لیکن معاذاللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو واپس بھیجا یعنی اللہ کی رضا اور تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور اور یہ روایت غلو پر مبنی ہے اور اس روایت کا مدار اس راوی پر ہے ۔ جبکہ یہ پہلے روایت کرتا تھا تو حضرت ابو بکر  وغیرہ کا نام نہیں بلکہ مجہول رجل کہہ کر روایت بیان کرتا تھا : دَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الطَّيِّبِ بْنِ الشُّجَاعِ، حَدَّثَنا الحسن بن حماد الضبي، حَدَّثَنا مسهر بْن عَبد الملك بْن سَلْعٍ عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَر الْقَارِي عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبد الرَّحْمَنِ السُّدِّيِّ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ، أَن النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ كَانَ عِنْدَهُ طَائِرٌ فَقَالَ اللَّهُمَّ آتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي هَذَا الطَّائِرُ فَجَاءَ رَجُلٌ فَرَدَّهُ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَرَدَّهُ ثُمَّ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَأَذِنَ لَهُ فَأَكَلَ مَعَهُ ۔ امام ابن عدی نے جو بیان کیا ہے اس میں رجال کا نام نہیں ہے ۔ (الکامل ابن عدی)

لیکن پھر یہ خلفاء رضی اللہ عنہم کا نام متن میں گھسا دیا اور یہ کام شیعہ کرتا ہے تاکہ کذب کی جرح سے بچ جائے ایک جگہ مجہول کہا اور دوسری جگہ بقول اس کے نام کی تصریح دے دی  اس وجہ سے انکی ثقہ صدوق توثیق دیکھ کر آنکھیں بند کرکے انکی روایات کبھی قبول نہیں کی جا سکتی خاص کر  جب مسلہ صحابہ یا معاملات مولا علی رضی اللہ عنہ کے بارے ہوں ۔

بہت سے ایسے صدوق شیعہ راوی ہیں جن کے تفرد پر ائمہ نے احتمال اور شکوک و شبھات کا علان کیا ہوا ہے ۔ جیسا کہ ایک راوی جو جمہور کے نزدیک صدوق ہے امام ابن حبان علیہ الرحمہ کہتے ہیں : روى عَن الثِّقَات تفرد عَنْهُم بأَشْيَاء فِي الْقلب مِنْهَا ۔ جب یہ ثقات سے روایت میں منفرد ہوتا ہے تو اس کے متعلق میرے دل میں شک ہے ۔ (الثقات ابن حبان)

اس طرح امام ابن عدی ایسے شعیہ راوی کے بارے جو کہ خاص بس فضائل اہل بیت کی روایات بیان کرتا تھا اور اس میں  اس کا تفرد تھا ۔

اور امام ابن عدی اس پر جرح خاص کرتے ہوئے کہتے ہیں : وجعفر الأحمر له أحاديث يرويه عَنْهُ غير أهل الكوفة غير ما ذكرته، وَهو يروي شيئا من الفضائل، وَهو فِي جملة متشيعة الكوفة، وَهو صَالِح فِي رواية الكوفيين ۔ کہ جعفر جو احادیث غیر اہل کوفہ ے بیان کرتا ہے جسکا میں نے ذکر کیا ہے جو کہ فضائل میں کچھ مروی ہیں یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ایک تھا ۔ اور یہ (صرف) کوفین سے روایت کرنے میں صالح ہے ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال)

تو ایسے راویوں کے بارے یقیناً یہی منہج سب سے اعلیٰ ہے کہ ان کی روایات ان کے مذہب کے موافق ترک ہی ہونگی اور ایسی روایات جن کا تعلق ایسے راویان کے مذہب و فکر سے نہیں وہ قبول ہونگی ۔ اور یہ تخصیص خود ناقدین سے مروی ہے ۔ جیسا کہ ایک راوی کے بارے امام ابن عدی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : عبید اللہ بن موسی ۔ یہ راوی ویسے تو صدوق و حسن الحدیث ہے لیکن شیعہ اور بدعتی تھا اور شیعہ کے مذہب میں مناکیر بیان کرتا تھا ۔ جیسا کہ امام ابن سعد علیہ الرحمہ کہتے ہیں : وكان ثقة صدوقا إن شاء الله كثير الحديث حسن الهيئة. وكان يتشيع ويروي أحاديث في التشيع منكرة فضعف بذلك عند كثير من الناس.وكان صاحب قرآن ۔ کہ یہ ثقہ و صدوق ہے ان شاء اللہ اور اس کی روایت حسن ہوتی ہے ، یہ شیعہ تھا اور یہ شیعت مذہب (کی تقویت) میں مناکیر روایات بیان کرتا تھا اور اس سبب اس میں یہ کمزوری بہت زیادہ تھی لوگوں کے نزدیک ۔ (الطبقات الکبری جلد 6 صفحہ 368)
یعنی ثقہ و صدوق شیعہ راویان کی شیعت مذہب کی روایات میں نکارت یعنی ان کا تفرد خود ان کے ضعف کی دلیل ہے اس کا تعلق نہ ہی ان کے اعتقان سے ہے نہ ہی حفظ سے بلکہ یہ تفرد  پر سکوت ان کے مذہب کے سبب تھا اور یہی راجح موقف ہے ۔ اس کی ایک اور مثال ایک راوی  شیعہ ھاشم سے بیان کرتے ہیں جو کہ اکثر محدثین کے نزدیک  صدوق شیعہ اور اکثر کے نزدیک رافضی اور کچھ کے نزدیک کذب کی جرح ہے لیکن راجح قول میں صدوق ہیں ۔ یہ ایک روایت بیان کرتا تھا : عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ ، وَ الْقُرْآنُ مَعَ عليٍ ، لَن يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن اور قرآن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگا یہاں تک کہ یہ کوثر پر جا ملیں گے ۔

جبکہ یہ روایت پہلے اس طرح بیان کرتا تھا : أخبرني الحسن بن علي بن عبد الله المقرئ، حدثنا أحمد بن الفرج بن منصور الوراق، أخبرنا يوسف بن محمد بن علي المكتب- سنة ثمان وعشرين وثلاثمائة- حدثنا الحسن بن أحمد بن سليمان السراج، حدثنا عبد السلام بن صالح، حدثنا علي ابن هاشم بن البريد عن أبيه، عن أبي سعيد التميمي عن أبي ثابت مولى أبي ذر قال : علي مع الحق والحق مع علي، ولن يفترقا حتى يردا علي الحوض يوم القيامة
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ اور حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگا یہاں تک کہ یہ قیامت کے روز ملیں گے ۔ (تاریخ بغداد)

اب  چونکہ پہلے حق مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور قرآن بھی حق ہے تو اس راوی نے متن میں تدلیس کر کے ایک اور روایت بنا دی جس کی وجہ سے اس پر کذب کی صریح جرح بھی نہیں ہو سکتی بلکہ بالمعنی روایت بیان کرنے کا فائدہ اٹھایا ہے اس راوی نے ۔ اس کے بارے آئمہ کی رائے یہ ہے : ⏬

امام بخاری علیہ الرحمہ سے : هاشم بن البريد كوفي ۔ سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري هاشم بن البريد وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ھاشم بن بریدہ اور اس کا بیٹا دونوں غالی اور برے مذہب والے (رافضی) تھے ۔ (تاریخ الکبیر بخاری برقم : 2033،چشتی)

امام ابن عدی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه ۔
ترجمہ : اس کی روایت زیادہ نہیں ہیں اس کو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اس کے بیٹے کو بھی اور میں اس کی کوئی منکر روایت پر مطلع نہیں ہو سکتا لیکن اس کی روایات میں جو نکارت ہے وہ اس کے بیٹے کی وجہ سے ہے ۔ (الکامل فی الضعفاء)

امام  ذھبی علیہ الرحمہ اس کو صدوق قرار یتے ہیں : هَاشم بن الْبَرِيد صَدُوق يترفض ۔
ترجمہ : ھاشم بن بریدہ سچا تھا لیکن رافضی تھا ۔ (المغنی فی الضعفٓاء برقم 6710)

هاشم بن البريد [د، س، ق] أبو على. عن زيد بن علي، ومسلم البطين. وعنه ابنه، والخريبي، وجماعة.وثقه ابن معين وغيره، إلا أنه يترفض.وقال أحمد: لا بأس به ۔ ابن معین کہتے ہیں ثقہ تھا ،لیکن یہ رافضی تھا ۔ (میزان الاعتدال برقم: 9181)

اور دیوان الصعفاءمیں فرماتے ہیں کہ سچا تھا مگر شیعت میں غالی تھا ۔ هاشم بن البريد الكوفي: صدوق غال في التشيع. -د، س، ق ۔ (دیوان الضعفاء، برقم: 4440،چشتی)

تو ایسے راوی کے تفرد کیسے قبول کیے جا سکتے ہیں ؟ جن پر ثقہ مامون یا صدوق کی توثیق دیکھ کر صداقت فریدی رافضی جیسے نام نہاد محکک اندھا  دھند جنگ صفین و جمل اور مولا علی اور اختلافات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ابواب میں  استدلال کرتے نظر آرہے ہیں ۔ یقیناً  یہ ان کا تساہل نفس پرستی کے سبب ہے اور کچھ نہیں ۔ یہاں تک کہ ائمہ کرام علیہم الرحمہ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ ناقدین رمی بالتشیع تھے وہ جرح و تعدیل کے اقوال میں  دھوکہ دہی کرتے تھے تو ان سے روایت بیان کرنا تو دور کی بات ہے تفرد میں ۔ جیسا کہ امام ابو نعیم فضل بن دکین ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ کے شیعہ اماموں میں سے تھے لیکن یہ ففط تفضیل کے قائل تھے ۔ اس کے باجود امام ابن معین انکے بارے کہتے ہیں : سمعت يحيى بن معين يقول : كان أبو نعيم إذا ذكر إنسانًا، فقال: (هو جيد) ، وأثنى عليه؛ فهو شيعي، وإذا قال: (فلان كان مرجئًا) ؛ فاعلم أنه صاحب سنة لا بأس به ۔
ترجمہ : میں نے ابن معین کو کہتے سنا : کہ ابو نعیم جب کسی شخص کا ذکر کرتے اور کہتے کہ یہ جید ہے اور اسکی تعریف کرتے تو وہ شیعہ ہوتا اور جب یہ کہیں فلاں مرجئ ہے تو جان لو وہ صاحب سنت  ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (سوالات ابن الجنید برقم: ۷۹۷،چشتی)

معلوم ہوا کہ جن کے شعیت کے سبب اقوال جرح و تعدیل میں یہ حال تھا ان کے فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اور ایسی روایات جن میں اصحاب رسول رضی اللہ عنہ پر آنچ آئے ان میں متن میں کتنی تدلیس کرتے ہونگے ۔

ایک یہی وجہ ہے صاحب استقراء امام ذھبی علیہ الرحمہ نے بدعت صغریٰ و کبریٰ کی تخصیص متقدمین کے فہم کو سامنے رکھ کر ہی بیان کی ہے کہ جو رافضی بدعتی غالی اور دعوت دینے والا ہو تو اسکی روایت قبول نہ ہوگی تفرد میں اور یہی منہج امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا ہے ۔

فبدعة صغرى : كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق ۔ فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة ۔

ثم بدعة كبرى : كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة ۔ وأيضا فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله! حاشا وكلا ۔
امام ذھبی علیہ الرحمہ یہ اعتراض نقل کرکے اسکا جواب یوں دیتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہے : ⏬

1 : بدعت صغریٰ

2 : بدعت کبریٰ

بدعت صغریٰ : جیسے غالی شیعہ ہونا یا غلو اور تحریکے کے شیعہ ہونا (اور دعوت نہ دینے والا ہو )یہ قسم میں تو بہت سے تابعین اور تابع تابعین میں تھی باجود یہ کہ وہ دیندار متقی اور صادت تھے لہذا ایسوں کی حدیث بھی رد کر دی جائے تو حدیث کا ذخیرہ احادیث کا ایک برا حصہ ضائع ہو جائے گا ۔

بدعت کبریٰ : جسیے کہ رافضی ہونا اور رفض میں غالی ہونا ہے ۔

حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کرنا اور اس پر دوسروں کو ابھارنا (یعنی داعی ہونا ) اس قسم والے کی روایت قابل احتجاج نہیں نہ ہی اس کی وئی عزت و تکریم ہے اس قسم میں اب مجھے کوئی نہیں یاد ہو صادق اور مومون ہو (جس کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں بھی قبول کر لی جائے) کیونکہ انکا شعار جھوٹ بولنا تقیہ کرنا اور معاملات میں نفاق کا مظاہرہ کرنا ہے لہٰذا جس کا یہ حال ہو ایسے کی روایت بھلا قبول کیسے کی جائے گی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی ۔ (میزان الاعتدال صفحہ 6)

باقی رہہ گیا مسلہ رافضی تبرائی راوی کا تو اس کےلیے ثقہ و غیر ثقہ کی تخصیص کی ضرورت ہی نہیں اس سے روایت ہر حال میں نا جائز ہے جیسا کہ امام ابن معین علیہ الرحمہ کہتے ہیں : كان يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، ومن شتم أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- فليس بثقة ۔
ترجمہ : یہ اصحاب رسول رضی اللہ عنہم پر تبرہ کرتا تھا اور جو شخص اصحاب نبی رضی اللہ عنہم پر تبرہ کرے او ر ثقہ نہیں ہو سکتا ۔ (سوالات ابن الجنید ، برقم:۵۵۹)

بلکہ امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے بھی قائل نہیں تھے روایت بیان کرنا تو دور کی بات ۔

قال يحيى لا أصلي خلف قدري إذا كان داعيا ولا خلف الرافضي الذي يشتم أبا بكر وعمر وعثمان ۔
ترجمہ : امام یحییٰ علیہ الرحمہ نے کہا کہ قدری کے پیچھے نماز نہ پڑھو اگر وہ داعی ہو (یعنی اپنے مذہب کی روایات بیان کرتا ہوں ) اور نہ ہی رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھو جو ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر تبرہ کرتے ہیں ۔ (تاریخ ابن معین بروایت الدوری برقم:۲۲۹۰)

نیز ایک جگہ فرماتے ہیں : سمعت يحيى يقول تليد كذاب كان يشتم عثمان وكل من يشتم عثمان أو طلحة أو أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم دجال لا يكتب عنه وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ۔
ترجمہ : میں نے امام یحییٰ کو کہتے سنا کہ تلید یہ کذاب ہے یہ حضرت عثمان پر تبرہ کرتا تھا اور وہ سب جو حضرت عثمان ، یا حضرت طلحہ رضی اللہ عنہما یا  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ پر تبرہ کرے وہ دجال ہے اس سے روایت نہین  لکھی جائے گی اور ان پر اللہ ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہو ۔ (تاریخ ابن معین بروایت الدوری برقم:۲۶۷۰) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 26 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ اوّل

0 comments
سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کےلیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا ۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے ۔ شیعہ راوی کے تفرد اور اس کے مذہب کی تقویت میں روایت کے بارے ناقدین کی رائے: اب اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ غالی شیعہ جو کہ تبرائی ہوتا  یا اپنے مذہب میں غالی مشہور ہو  اس کا صدوق ہونا کا یہ مطلب بالکل نہیں ہوتا کہ اس کو مطلق قبول کیا جائے گا ۔ بلکہ یہ عمومی روایات میں صدوق ہوتا ہے لیکن فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اور مذہب شیعت کے باب میں ایسا راوی ناقابل اعتبار ہوتا ہے اور اس کا تفرد ہر گزر قبول نہیں ہوتا ہے ۔ ایسے ایسے راوی بھی موجود ہیں جو رافضی ہیں جن کو ترک کرنے کی تصریحات ہیں باجود اس کے بھی محدثین علیہم الرحمہ نے اس کو رافضی مان کر بھی صدوق مانا ہے تبرائی مان کر بھی صدوق مانا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ایسے راویان ویسے جھوٹ بولتے ہی نہیں تھے تاکہ اپنی توثیق برقرار رکھیں اور خاص متن میں اپنے تفرد کو قابل استدلال بنا سکیں اہلسنت ناقدین کی نظر میں یہ مسٸلہ تھا اصل یہی وجہ ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ اس پر منہج سخت تھا اور ایسا ہی منہج امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا بھی تھا ۔

اہلسنت کتب میں کچھ شیعہ راوی ہیں لیکن متقدمین کے نزدیک شیعہ اور روافض میں بہت فرق ہے ان کامعاملہ آج کل کے شیعہ حضرات کی طرح نہ تھا کہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق و امتیاز نہیں بلکہ متقدمین کے نزدیک شیعہ سےمراد وہ لوگ تھے جو صرف تفضیل کے قائل تھے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے ، اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور صحابی سمجھتے تھے مگر اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے تھے لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جو بہت بڑی قابلِ اعتراض ہو ہاں کچھ شیعہ حضرات شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے اگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما کے متعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اور صحابی تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے تھے اوران کی بات زیادہ سے زیادہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے اور اصولِ حدیث میں مبتدعین کی روایت کو درج ذیل شرائط سےقبول کیا گیا ہے : ⏬

(1) وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو ، عادل ہو ۔

(2) وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو ۔

(3) اس کی روایت اس کی بدعت کی مٶید نہ ہو ۔

باقی روافض وہ تو متقدمین کے نزدیک وہ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر تمام صحابہ کو معاذاللہ بے دین اور غاصب وغیرہ کہتے رہتے ہیں گویا ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر کو ترک کر دیا ہے اس طرح کے شخص کی روایت قطعاً غیر مقبول ہے ۔

صحیح بخاری میں جو شیعہ راوی ہیں وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہیں اوران کی روایات بدعت کی مٶید بھی نہیں اور وہ فی نفسہ ثقہ و صدوق  ہیں بلکہ کچھ روایات ان سے ایسی بھی مروی ہیں جو ان کی بدعت کے خلاف ہیں لہٰذا ایسے راویوں کی روایت میں کچھ حرج نہیں ۔ لہٰذا امام بخاری و دیگر محدثین علیہم الرحمہ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ۔تفصیل کےلیے اصولِ حدیث کی کتب کا مطالعہ کیا جائے ۔

حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ کے متعلق شیعہ ہونے کی بات کہنا بالکل غلط ہے اور حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ پر اتہام ہے ۔ باقی حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ نے جوکتاب خصائص علی رضی اللہ عنہ لکھی ہے وہ اس لیے  کہ ان کا کچھ ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل منحرف تھے اور ان کے متعلق ناشائستہ لفاظ کہتے تھے ، اس لیے ایسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کی مدافعت میں یہ کتاب لکھی اس کتاب میں کچھ احادیث صحیح تو کچھ ضعیف بھی ہیں مگر یہ تو محدثین کرتے آئے ہیں (کہ اپنی کتب صحیح و ضعیف  سب طرح کی احادیث درج کرتے ہیں) دیکھیے ترمذی ، ابن ماجہ ، ابوداٶد ان سب کتب میں کچھ احادیث صحیح ہیں تو کچھ ضعیف ۔

امام  حاکم واقعتاً شیعیت کی طرف مائل تھے جیسا کہ حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں صراحت فرمائی ہے لیکن غالی شیعہ یا رافضی نہ تھے بلکہ صرف تفضیل کے قائل تھے اورحضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کرنے والے تھے اور شیعیت و رافضیت کا فرق فقیر اوپر درج کر آیا ہے ۔ امام حاکم کا مقام حدیث میں بہت بلند ہے ، ان کے ترجمہ کو کتب تاریخ اور تذکرۃ الحفاظ میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بڑے بڑے ائمہ اور حفاظ حدیث نے ان کی بہت ثناء بیان کی ہے باقی رہی ان کی کتاب المستدرک تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس کی تبییض و نظرثانی کا موقع نہیں مل سکا ، اس لیے اس میں کچھ منکر اور موضوع احادیث ہیں اس کے باوجود بھی اس میں کافی احادیث صحیح اور حسن ہیں ۔

شارح بخاری اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض ، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة انتهى ۔ (تهذيب التهذيب جلد 1 صفحہ 81،چشتی)
ترجمہ : متقدمین کے نزدیک شیعہ اور روافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کا معاملہ آج کل کے شیعہ حضرات کی طرح نہ تھا کہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق و امتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کے نزدیک شیعہ سے مراد وہ لوگ تھے جو صرف تفضیل کے قائل تھے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے ، اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور صحابی سمجھتے تھے ۔ اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے تھے لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جو بہت بڑی قابلِ اعتراض ہو ۔ ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے اگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما کے متعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اور صحابی رضی اللہ عنہم تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے تھے اور ان کی بات زیادہ سے زیادہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے ۔

حدیث اور بدعتی راوی : کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں : ⏬

1 ۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو ۔
2 ۔ صاحب عدالت ہو ۔

زیرِ بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی روای خارج ہو جاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہٰذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی غالی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغریٰ میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ روای اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے لکھا ۔اس لیے محدثین علیہم الرحمہ نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے) اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے : ⏬

1۔ وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو،عادل ہو ۔

2 ۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔

3 ۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔

4 ۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔

یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہٰذا بعض جگہوں پر محدثین علیہم الرحمہ نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔

صحیح بخاری میں بعض شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی ہیں جو مذکورہ تمام شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔ اس کی مکمل تحقیق کی گئی ، محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے : ⏬

1 ۔ صحیح بخاری میں بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔

2 ۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔

3 ۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔

4 ۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔

مزید تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا صفحہ 105 خاصۃ)

بخاری کے چند مشہور رافضی راوی اور ان کی حقیقت  : ⏬

رافضیوں کے وکیل صداقت علی فریدی نے بخاری اور سنی کتابوں کے رافضی راوی کے نام سے ایک کتاب لکھ ماری ہے اس میں بخاری اور دیگر کتب کے کچھ شیعہ راویوں کے نام گنوائے اور انہیں انتہائی مبالغہ آرائی سے امام بخاری و دیگر محدثین علیہم الرحمہ کا استاد بھی قرار دیا ۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی امام بخاری و دیگر محدثین علیہم الرحمہ کا استاد نہیں ہے ۔

ابن جریج ابوخالد المکی بخاری شریف کا راوی ہے امام ذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ یہ متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا اور (اس کی کوالیفیکشن یہ تھی) کہ اس نے ستر عورتوں سے متعہ کیا تھا ۔ (میزان الاعتدال الذھبی الجزء ثالث،چشتی)

علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب “فتح الباری شرح صحیح البخاری” میں امام بخاری کے استاد و راوی ، عباد بن یعقوب کے متعلق لکھا ہے کہ امام ابن حبان فرماتے ہیں : كان رافضيا داعية “ کہ یہ نہ صرف خود رافضی تھا بلکہ رافضیت کی تبلیغ کرنے والے تھا ۔

شیعی حدیث کی کتب اربعہ میں “زُرارۃ بن اعین” کی کثرت سے روایات موجود ہیں ، اِن کے بھائی “عبد الملک بن اعین بخاری کے راوی ہیں ۔ چنانچہ امام ذہبی “میزان الاعتدال” میں لکھتے ہیں: 5190 – عبد الملك بن أعين ۔ قال ابن عيينة : حدثنا عبد الملك : وكان رافضيا ۔ کہ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ یہ رافضی تھے ۔

جواب : حقیقت یہ ہے کہ ابوخالد مکی کے بارے میں متعہ سے رجوع ثابت ہے ۔ عباد بن یعقوب جسے نان نہاد فریدی و دیگر شیعوں نے محض عوام دھوکہ دینے کےلیے بخاری کا استاد لکھا ہے ۔ سے صرف ایک حدیث بخاری میں لی گئی ہے اور وہ بھی مقرون ہے یعنی کسی اور سند سے بھی موجود ہے ۔ اسی طرح عبدالمالک بن اعین سے بھی صرف ایک حدیث مروی ہے اور وہ بھی عباد بن یعقوب کی طرح مقرون ہے ۔ اللہ ان منافقوں و کذابوں کے شر سے بچائے آمین۔

خلاصہ یہ کہ بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ احادیث میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت نہیں ہے کہ جو رافضی ہو یا شیخین اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرتا ہو وغیرہ ۔ اگر کسی کو شیعہ راوی سے محدثین کے روایت کرنے کے اصولوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہو تو اس موضوع پر محمد خلیفہ الشرع کی کتاب “منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما” اور کریمہ سودانی کی کتاب “منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔

متقدمین میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جن کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ان کا منہج غالی شیعہ اور روافض راویان کے بارے میں درج ذیل ہے : ⏬

امام بیھقی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف میں بیان کرتے ہیں کہ ائمہ حدیث کی طرح فقھا یعنی مجتہدین نے بھی حدیث کے رجال پر جرح کی ہے اور راویان کو میزان جرح و تعدیل میں تولا ہے :  وقد تكلم فقهاء الأمصار في الجرح والتعديل فمن سواهم من علماء الحديث ۔ پھر پہلی روایت امام بیھقی علیہ الرحمہ اپنی سند سے لاتے ہیں : أخبرنا أبو عبد الرحمن : محمد بن الحسين السلمي ، حدثنا أبو سعيد الخلال ، حدثنا أبو القاسم البغوي ، حدثنا محمود بن غيلان المروزي ، قال : حدثني الحماني عن أبي حنيفة قال : ما رأيت أحدا أكذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء ۔
ترجمہ : امام حمانی علیہ الرحمہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے جابر جعفی سے بڑا کوئی کذاب نہیں دیکھا اور حضرت عطاء بن ابی رباح سے افضل کوئی نہیں دیکھا ۔

سب سے پہلے جابر جعفی کا تعارف کہ یہ کس عقیدے سے تعلق رکھتا تھا : ⏬

أحد علماء الشيعة. له عن أبي الطفيل والشعبي وخلق. وعنه شعبة، وأبو عوانة، وعدة ۔ امام ذھبی کہتے ہیں  یہ شیعہ علماء میں سے ایک تھا اس نے ابی  طفیل و شعبی اور ایک جماعت سے روایت کیا ہے ۔ اور ان سے امام شعبہ ، ابو عوانہ کے علاوہ لوگوں نے اس سے روایت کیا ہے ۔

قال ابن مهدي، عن سفيان : كان جابر الجعفي ورعا في الحديث، ما رأيت أورع منه في الحديث ۔ امام سفیان کہتے ہیں کہ جابر جعفی روایت حدیث میں پر ہیز گار تھا میں نے اس سے زیادہ حدیث میں پرہیزگار نہیں دیکھا ۔ (یہ بات قابل غور ہے اس کا تذکرہ آگے آئے گا)

وقال شعبة : صدوق.وقال يحيى بن أبي بكير، عن شعبة: كان جابر إذا قال: أخبرنا، وحدثنا، وسمعت – فهو من أوثق الناس.وقال وكيع: ما شككتم في شئ فلا تشكوا أن جابرا الجعفي ثقة ۔ امام شعبہ کہتے ہیں یہ سچا تھا،امام  یحییٰ امام شعبہ سے نقل کرتے ہیں :  جابر جب اخبرنا یا حدثنا کہے (یعنی تدلیس کا احتمال نہ ہو ) تو یہ پوری جماعت سے زیادہ ثقہ ہے۔ امام وکیع کہتے ہیں تم ہر چیز کے بارے شک کرو لیکن اس با ت پر شک نہ کرو کہ جعفی ثقہ ہے ۔

وقال ابن عبد الحكم: سمعت الشافعي يقول: قال سفيان الثوري لشعبة: لئن تكلمت في جابر الجعفي لاتكلمن فيك ۔ ابن عبدالحکم کہتے ہیں میں نے شافعی کو فرماتے سنا انہوں نے کہا کہ سفیان ثوری شعبہ سے کہتے اگر تم نے جابر جعفی پر کلام کیا تو میں ضرور تم پر بھی کلام کرونگا ۔

یہاں تک معلوم ہوا کہ جابر جعفی تو بڑا نیک اور دیندار اور متقی پرہیز گار اور ثقہ انسان تھا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا کلام اس پر غلط ہے بلکہ انہوں نے جابر جعفی کو سب سے بڑا جھوٹا قرار دے دیا ۔ فقیر مزید دلائل پیش کرتا ہے کہ یہ رافضی جو حافظے اور اتقان کے حوالے سے بلکل اچھے ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر ناقدین ان کی توثیق کر دیتے تھے لیکن یہ راویان اکثر صحیح روایات بیان کر کے پھر اس کے متن میں تدلیس کر کے بیان کر دیتے اور اپنی ثقاہت کا فائدہ اٹھاتے اور جن ناقدین نے ان کی مدح و توثیق کی ہوتی وہ ان کی اس حرکت پر بعد میں مطلع ہوتے اور پھر اس کی اصلیت واضح کرتے اور لوگوں کے سامنے یہ ہے وہ بنیادی وجہ جس کے سبب شیعہ و رافضییوں کا تفرد قبول نہیں ہوتا ان کے مذہب کے موافق ۔ فقیر اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہے کہ اس کے کذب پر کیسے مطلع ہوئے ناقدین : ⏬

اب ہم ائمہ سے مثالیں پیش کرتے ہیں کہ جن ائمہ نے جابر کی تعریف و مدح کی انہوں نے اس جابر کو اسکے عقیدے کی روایت میں تفرد کے سبب ترک اور تکذیب  اور متروک کی جرح کی ہے ۔

الحميدي ، عن سفيان : سمعت رجلا سأل جابرا الجعفي عن قوله: ” فلن أبرح الأرض حتى يأذن لي أبي (أو يحكم الله لي) ۔ قال : لم يجئ تأويلها ۔ قال سفيان . كذب ۔ قلت : وما أراد بهذا ؟ قال : الرافضة : يقول : إن عليا في السماء لا يخرج مع من يخرج من ولده حتى ينادى مناد من السماء : اخرجوا مع فلان ، يقول جابر : هذا تأويل هذا ، لا تروى عنه ، كان يؤمن بالرجعة ، كذب ، بل كانوا إخوة يوسف ۔
ترجمہ : حمیدی امام سفیان علیہ الرحمہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں : میں نے ایک شخص کو جابر جعفی سے اللہ کے اس فرمان کے بارے دریافت کیا ” پس میں اس سر زمین سے نہ ٹلوں گا جب تک والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے ” تو جابر بولا : اس کی تفسیر منقول نہیں ہےتو امام سفیان علیہ الرحمہ کہتے ہیں : اس نے جھوٹ بولا (حمیدی کہتے ہیں) میں نے دریافت کیا اس جواب کے ذریعہ کہ اس کی مراد کیا تھی ؟
تو امام سفیان علیہ الرحمہ بولے رافضی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آسمان میں موجود ہیں اور وہ اپنی اولاد میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں نکلیں گے  یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا ایک منادی آسمان سے اعلان کرےگا کہ فلاں شخص (یعنی امام مھدی) کے ساتھ نکلو ! جابر جعفی کہتا ہے اس آیت سے یہی مراد ہے ۔ تو امام سفیان علیہ الرحمہ کہتے ہیں :  اس  (باب کے حوالے سے) اس جابر  سے روایت نقل نہ کرو ۔ کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتا تھا اور اس نے یہ بات غلط بیان کی ہے کیونکہ یہ آیت حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے  بارے نازل ہوئی ۔

یہاں تک یہ بات معلوم ہوئی کہ امام سفیان علیہ الرحمہ چونکہ جابر جعفی کے عقیدے بدعت و گمراہی کو جان چکے تھے تو انہو ں نے اس مخصوص باب میں جابر جعفی کو غیر مستند قرار دے کر اس سے روایت بیان نہ کرنے کا فتویٰ دے دیا کیونکہ یہ اپنے عقیدے کے موافق آیت کی تفسیر بیان کر رہا تھا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)