Wednesday 29 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ پنجم

0 comments

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ پنجم

مضمون کے آخر میں ایک بار مختصراً اُن راویوں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی آڑ لے کر صداقت فریدی رافضی اور اس کے سرپرست روافض اہلسنت و جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں : ⏬

حریز بن عثمان : حریز بن عثمان پر جرح یہ ہے کہ وہ ناصبی تھا یہ رافضی کہتے ہیں کہ : یہ وہ ملعون شخص ہے جو سفر و حضر اور ہر نماز کے بعد مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کرتا تھا بعض علماء نے اس کے کفر پر فتویٰ  دیا ہے ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۱ صفحہ ۴۶۵) ۔ اور ناصبیت کا داعی بھی تھا پھر بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس سے استدالال کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے استاد ابو الیمان حکم بن نافع الحمصی (یہ حریز بن عثمان کے شاگرد بھی تھے) سے نقل کیا ہے کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۲۳۸)

بلکہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے فرمایا : انہ رجع عن النصب یعنی حریز بن عثمان نے ناصبیت سے توبہ کر لی تھی ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۲۴۰)

عمران بن حطان : روافض کہتے ہیں کہ : یہ وہ بدبخت انسان ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کے قصیدے پڑھتا تھا ۔(تہذیب التہذیب جلد ۴ صفحہ ۳۹۷) ۔ اس کے باوجود بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس سے احتجاج کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ عمران بن حطان السدوسی نے خارجیت سے آخری عمر میں توبہ کر لی تھی ۔ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ تقریب میں لکھتے ہیں : رجع عن ذلک یعنی اس نے خارجیت سے رجوع کر لیا تھا ۔ (تقریب التہذیب صفحہ ۴۲۹،چشتی)

حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ تہذیب التہذیب جلد ۸ صفحہ ۱۱۴ لکھتے ہیں : خلاصہ یہ کہ ابو زکریا الموصلی نے اپنی تاریخ موصل میں بروایت محمد بن بشر العبدی بیان کیا ہے کہ عمران بن حطان نے اپنی آخر عمر میں موت سے قبل اس رائے سے خوارج سے رجوع کر لیا تھا ۔

حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ نے عمران بن حطان کے خارجی ہونے سے قبل روایت کیا ہو ۔ (ھدی الساری صفحہ ۴۳۳)

شبابہ بن سوار : شباب بن سوار پر روافض مذکور کا اعتراض ہے کہ وہ ارجاء کی طرف داعی تھا یعنی بدعت کی طرف داعی تھا پھر بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے اصول لے برعکس اس سے احتجاج کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ احمد بن صدیق الغماری یا تو حقیقت حال معلوم نہیں ہے یا پھر اس مسئلہ کو الجھا کر عوام الناس کے ذہن میں احتمالات ڈالنا چاہتے ہیں ۔ مگر روافض کی یہ کوشش فضول ہے ۔ کیونکہ شبابہ بن سوار پر ارجاء کی داعی ہونے کا اعتراض صحیح نہیں کیونکہ شبابہ بن سوار نے ارجاء والے عقیدے سے رجوع کر لیا تھا ۔

امام ابو زرعہ الرزای علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں : رجع شبابہ عن الارجاء یعنی شبابہ نے ارجاء سے رجو ع کیا اور تائب ہوگئے تھے ۔ (میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۲۶۱،چشتی)(الضعفاء لابی زرعہ جلد ۲ صفحہ ۴۰۷)(ہدی الساری صفحہ ۴۰۹)

عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی : اس پر رافضیوں کا اعتراض ہے کہ یہ راوی ارجاء کی طرف دعوت دیتا تھا اور پھر بھی امام بخاری علیہ الرحمہ نے احتجاج کیا ۔

جواباً عرض ہے کہ اس راوی کے بارے میں علامہ ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: لعلھم تابوا یعنی پس ممکن ہے کہ عبدالحمید نے بھی توبہ کر لی ہوں ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۵۱۵)

مزید یہ کہ اس کی صرف ایک روایت صحیح بخاری : ۵۰۴۸ پر موجود ہے اور یہ روایت دوسری سند کے ساتھ صحیح مسلم : ۷۹۳ پر بھی موجود ہے ۔

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ روافض نے جو اعتراضات اٹھانے کی کوشش کی ہے وہ تمام کے تمام اعتراضات مردود اور خلاف تحقیق ہیں ۔ مزید یہ کہ بدعتی کی روایت کو ترک اس کے فسق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کاوہ جذبہ ترویج بدعت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعت کو حسین الفاظ میں بتانے کو شش میں مصروف ہوتا ہے ۔ کیو نکہ بدعتی اپنی بدعت کو خوشنما بنانے کا خیال اسے روایت میں تحریف کرنے اور انہیں اپنے مسلک کے مطابق بنانے کی تحریک پیدا کر سکتا ہے ۔ لہٰذا صداقتفریدی جیسے روافض کا یہ کہنا کہ بدعتی کے فسق کی وجہ سے روایت رد کردی جاتی ہیں ، ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا بلکہ بدعتی کے اندر وہ چھپا  ہوا خیال ہوتا ہے جو روایت میں تحریف کرنے کا خیال پیدا کر سکتا ہے ۔ لہٰذا اہلسنت اس کی روایت کو احتیاط کے پیش نظر چند شرائظ کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ روافض کی خواہش پر ہم محدثین علیہم الرحمہ کے اصولوں سے انحراف کریں اور تمام ضوابط کو رد کر دیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہزار نعمتیں اور انعامات ان جلیل القدر ہستیوں علیہم الرحمہ پر جنہوں نے اپنی ساری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کی احادیثِ مبارکہ کو محفوظ کرنے کی لیے خرچ کردی ۔

رافضیوں اور تفضیلیوں کے اس پروپیگنڈے کہ متقدمین علیہم الرحمہ حب اہل بیت رضی اللہ عنہم پر تشیع کا اطلاق کرتے تھے ۔ کا تحقیقی جواب : ⏬

تشیع کی اصطلاحی تعریف

صداقت فریدی رافضی جیسے لوگ اپنا  مدعا ثابت کرنے کےلیے عوام الناس کے سامنے ایسی روایات پیش کرتے ہیں جس میں شیعہ راوی موجود ہوتے ہیں ۔ جب ان کو ایسے رایوں کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے تو انہوں نے رٹا رٹایا ہوا ایک اصول پیش کرنے کی عادت بنا لی ہے کہ متقدمین علیہم الرحمہ تشیع سے مراد حبِ اہل بیت رضی اللہ عنہم لیتےتھے ۔ مگر ان لوگوں کی یہ بات علی الاطلاق غلط اور خلافِ اصول ہے ۔ اس لیے اس بارے میں چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں : ⏬

امام ذہبی علیہ الرحمہ نے تشیع کے اقسام کی ہیں ۔ 1 ۔ تشیع معتدل ۔ 2 ۔ تشیع غالی ۔

امام ذہبی علیہ الرحمہ کی تحقیق : امام ذہبی علیہ الرحمہ کے مطابق سلف کے نزدیک غالی شیعہ وہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا جنہوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی لڑی ان کو برا بھلا کہنا یا ناراضگی کا اظہار کیا ۔ میزان الاعتدال جلد1 صفحہ 6)

فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم ۔ والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر ۔ (میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 6)

حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کی تحقیق : حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے نزدیک حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہم کو تقدیم دینا ہے ۔ اسے بھی غالی شیعہ یعنی رافضی کیا جاتا ہے ۔ (ہدی الساری صفحہ 490،چشتی)
والتشيع محبة على وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه ويطلق عليه رافضي وإلا فشيعي إن فإن انضاف إلى ذلك السب أو التصريح بالبغض فغال إلا في الرفض ۔ (ہدی الساری صفحہ 490)

ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ غالی شیعہ دو طرح کے ہیں ۔ (1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر کلام کرنے والا ۔ (2) حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہم کو تقدیم دینے والا ۔

3 ۔ رافضی غیر غالی : وہ راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات شیخین کریمین رضی اللہ عنہما سے افضل سمجھے مگر حضرات شیخین کی تعظیم کرے اور ان کی امامت کو تسلیم کرے ۔ جیسے کہ ابن بن ابی تغلب ۔

4 ۔ غالی رافضی : وہ راوی جو حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی تنقیص کرے ۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ غالی تشیع اور غیر غالی رافضی ایک ہی حکم میں ہیں۔

تشیع کی اقسام باعتبار بدعت : ⏬

محدثین کرام علیہم الرحمہ نے تشیع کی اقسام ان کی بدعت کے اعتبار سے بھی کی ہے ۔1 ۔ تشیع کبری ۔ تشیع شدید ۔ 2 ۔ تشیع صغری ۔ تشیع خفیف ۔

امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک غلو فی التشیع  کی ایک قسم تشیع خفیف ہے ۔ شیخین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے پر تشیع خفیف کا اطلاق کیا ہے ۔

تشیع خفیف کی دو اقسام ہیں : 1 ۔ حب اہل بیت اور کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہ کرنا ۔ طاوس بن کیسان ، منصور بن معتمر،وکیع بن الجراح ۔ اس کو بھی تشیع خفیف کہا گیا ہے ۔ 2 ۔ شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی تعظیم کرنا ، مگر اس کے ساتھ دیگر علتیں ہوں ۔

علت اول : حضرت علی رضی اللی عنہ کے ساتھ جنہوں نے لڑائی لڑی ان کے بارے میں غلط خیال رکھنے والا یعنی تنقیص کرنے والا ۔

محمد بن زياد [خ، عو] الالهانى الحمصي ۔ صاحب أبي أمامة.وثقه أحمد، والناس، وما علمت فيه مقالة سوى قول الحاكم الشيعي: أخرج البخاري في الصحيح لمحمد بن زياد وحريز بن عثمان - وهما ممن قد اشتهر عنهم النصب ۔ قلت : ما علمت هذا من محمد، بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين  علي رضي الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين - إلا من شاء ربك - فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن - معشر أهل السنة - أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم.فهذا تشيع خفيف ۔ (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 552،چشتی)

امام ذہبی علیہ الرحمہ میزان الاعتدال میں اسی تشیع خفیف  پر غالی تشیع کا اطلاق کرتے ہیں ۔ فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم ۔ والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً ، فهذا ضال معثر (ولم يكن أبان بن تغلب يعرض للشيخين أصلا ، بل قد يعتقد عليا أفضل منهما) ۔ (میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 6)

امام ذہبی علیہ الرحمہ کے مطابق سلف کے نزدیک غالی شیعہ وہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا جنہوں نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لڑائی لڑی ان کو برا بھلا کہایا ناراضگی کا اظہار کیا ۔ (میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 6)
فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم ۔ والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر ۔

علت دوم : حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہم کو تفضیل دینے والا ۔ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: اختلفَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ، فَقَالَ قَوْمٌ: عُثْمَانُ أَفضلُ، وَقَالَ قَوْمٌ: عليٌّ أَفضلُ ۔ فَتَحَاكَمُوا إِليَّ، فَأَمسكتُ، وَقُلْتُ: الإِمْسَاكُ خَيْرٌ ۔ ثُمَّ لَمْ أَرَ لِدِيْنِي السُّكُوتَ، وَقُلْتُ لِلَّذِي اسْتَفْتَانِي: ارْجِعْ إِلَيْهِم، وَقُلْ لَهُم: أَبُو الحَسَنِ يَقُوْلُ: عُثْمَانُ أَفضَلُ مِنْ عَلِيٍّ بِاتِّفَاقِ جَمَاعَةِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، هَذَا قَولُ أَهْلِ السُّنَّةَ، وَهُوَ أَوَّلُ عَقْدٍ يَحلُّ فِي الرَّفْضِ ۔ قُلْتُ : لَيْسَ تَفْضِيْلُ عَلِيٍّ بِرَفضٍ، وَلاَ هُوَ ببدعَةٌ، بَلْ قَدْ ذَهبَ إِلَيْهِ خَلقٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ، فَكُلٌّ مِنْ عُثْمَانَ وَعلِيٍّ ذُو فضلٍ وَسَابِقَةٍ وَجِهَادٍ، وَهُمَا ۔ تَقَارِبَانِ فِي العِلْمِ وَالجَلاَلَة، وَلعلَّهُمَا فِي الآخِرَةِ مُتسَاويَانِ فِي الدَّرَجَةِ، وَهُمَا مِنْ سَادَةِ الشُّهَدَاءِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا -، وَلَكِنَّ جُمُهورَ الأُمَّةِ عَلَى تَرَجيْحِ عُثْمَانَ عَلَى الإِمَامِ عَلِيٍّ، وَإِلَيْهِ نَذْهَبُ ۔ وَالخَطْبُ فِي ذَلِكَ يسيرٌ، وَالأَفضَلُ مِنْهُمَا - بِلاَ شكٍّ - أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، مَنْ خَالفَ فِي ذَا فَهُوَ شِيعِيٌّ جَلدٌ، وَمَنْ أَبغضَ الشَّيْخَيْنِ وَاعتقدَ صِحَّةَ إِمَامَتِهِمَا فَهُوَ رَافضيٌّ مَقِيتٌ، وَمَنْ سَبَّهُمَا وَاعتقدَ أَنَّهُمَا لَيْسَا بِإِمَامَيْ هُدَى فَهُوَ مِنْ غُلاَةِ الرَّافِضَةِ - أَبعدَهُم اللهُ ۔ (سير أعلام النبلاء جلد 16 صفحہ 458،چشتی)

اس دوسری قسم کے لوگوں پر امام ذہبی علیہ الرحمہ نے شیعی جلد یعنی غالی شیعہ کا اطلاق کیا ہے جسے بدعت خفیفہ کہا گیا ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے میزان الاعتدال میں ایک راوی ابان بن تغلب کو شیعی جلد بھی کہا اور ساتھ اس کی بدعت کو خفیف بھی کہا،جس سے واضح ہوا کہ غالی شیعہ پر بدعت خفیفہ کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ أبان  بن تغلب [م، عو] الكوفي شيعي جلد ۔ (میزان الاعتدال جلد1 صفحہ 6)
ابان بن تغلب کو شیعی جلد اور غالی کہا اور ساتھ بدعت خفیفہ سے متصف کیا اور غالی شیعہ کا اطلاق کرنے کے باوجود بدعت خفیفہ کے ساتھ متصف کرنے کی وجہ تقابل ہے جوکہ بدعت کبری یعنی رفض سے ہے۔اس لیے بدعت خفیفہ کا اطلاق تقابل کے طور پر کیا گیا نہ کہ حقیقت کے طور پر ۔

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ بدعت خفیف سے مراد غالی تشیع کے ساتھ ہے ، اور غالی تشیع پر محدثین کرام علیہم الرحمہ کے اقوال کے مطابق رافضی کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جس سے ان لوگوں کا  موقف غلط ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی کسی راوی پر شیعہ یا تشیع کا اطلاق ہو تو فوراً جواب دیتے ہیں کہ شیعہ کا مطلب حب اہل بیت ہے ۔ مگر ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ حُبِ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم تو اہل سنت و جماعت کا طرہ امتیاز ہے ۔ لغوی تعریف اور اصطلاحی تعریف میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے تو جو اس لفظ کا غلط مطلب لیا گیا وہ اصول کے خلاف ہے ۔ اللہ عزوجل جملہ مسلمانانِ اہلسنت کو سنیوں کے لبادے میں چھپے ہوۓ رافضیوں اور کھلے رافضیوں کے جھوٹ ، شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔