Tuesday 28 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ چہارم

0 comments
سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ چہارم
فقیر اس مضمون کا حصّہ چہارم ترتیب دے رہا تھا تو ایک دوست نے یہ مضمون سینڈ فرمایا فقیر نے پڑھا بہت مفید پایا آپ بھی پڑھیں : صداقت فریدی نامی شخص کی کتاب کا اجمالی رد ۔ احادیثِ صحاح ستہ میں "فیضانِ روافض" کا نامعقول نعرہ از ڈاکٹر محمد نعیم الدین الازھری صاحب ۔ ان دونوں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک نیا نعرہ سننے کو مل رہا ہے ۔ فیضانِ روافض زندہ باد ۔ یہ نعرہ لگانے والے صاحب اپنے تئیں بیک وقت ایک عالمِ دین اور کاشت کار ہیں اور انہوں نے اس نعرے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے کہ اہلسنت کا بہت سارا ذخیرہ حدیث گویا کہ غالی رافضیوں کی عطا ہے ۔ اگر یہ رافضی نہ ہوتے تو یہ احادیث کبھی ہم تک نہ پہنچ سکتیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ صحاح ستہ میں ہزاروں کی تعداد میں رافضی اور ناصبی راویوں کی روایات موجود ہیں۔ یوں انہوں نے پورے ذخیرہ حدیث کو مشکوک اور ناقابلِ تسلیم بنانے کی کوشش کی ہے ۔

مذموم تصویر کشی : موصوف نے اپنی گفتگو میں ایسا سوقیانہ انداز اپنایا ہے جس میں محدثینِ  کرام علیہم الرحمہ کے ادب اور مقام و مرتبہ کا بالکل لحاظ نہیں رکھا ۔

ان کی بات سن کر مبتدی شخص کو ایک لمحہ کےلیے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ سارے محدثین علیہم الرحمہ ہمارے ہی آس پاس کہیں رہتے ہیں اور وہ ہمہ وقت غالی قسم کے گستاخ رافضیوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور جہاں کہیں ان کو کوئی رافضی نظر آتا ہے تو وہ کلمہ شکر پڑھتے ہوئے اس کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں اور اس کے پاس سے جو باتیں ملتی ہیں انہیں حدیث بنا کر فورا اپنی کتب میں درج کر لیتے ہیں ۔ (العیاذ باللہ)

یوں ان نام نہاد محقق صاحب نے نہ تو محدثین کے بیان کردہ اصولوں کو پیش نظر رکھا ۔ نہ ہی بُعدِ زمانی کو دیکھا اور نہ ہی عصر حاضر اور قدیم زمانے کی مصطلحات کے فرق پر توجہ دی اور غالبا مکتبہ شاملہ کا استعمال کرتے ہوئے صفحوں کے صفحے کالے کر دیے اور یوں مصنفِ کتبِ کثیرہ بننے کا شوق پورا کر لیا ۔

موصوف کے یہ غلط نتائج اور اور بلند بانگ دعوے تاریخ کے کوڑا دان میں پھیکنے جانے کے لائق ہیں اور وہ اپنی ان مذموم کوششوں سے محدثین کرام کو ہر گز مجروح نہ کر سکیں گے۔ جنہوں نے تائید ایزدی سے خدمتِ حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے زندگیاں وقف کیں، جرح و تعدیل کے اصول وضع کیے، صیح اور ضعیف کی پہچان کے لیےبیسیوں فلٹر لگائے، طویل سفر کئے، مشقتیں برداشت کیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو مدون فرمایا ۔

چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک

اب ہم حقیقت پسندی سے ان کے دعووں کا جائزہ لیتے ہیں : یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ صحاح ستہ میں ایسے کچھ راوی موجود ہیں جن پر ناصبیت، رافضیت یا خارجیت کی تہمت لگائی گئی ہے لیکن اس حوالے سے درج ذیل حقائق ذہن میں رکھنا ضروری ہیں ۔ 
ہمارے محدثین کرام نے ہر چیز کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا، کسی چیز کو چھپایا نہیں ،  مخفی نہیں رکھا اگر کسی پر تشیع یا ناصبیت کا الزام تھا تو اس بات کو بھی مکمل واضح کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر چیز واضح ہونے کے باوجود ان راویوں سے روایات کیوں لیں؟!
ان کی روایت کردہ أحادیث کیوں اپنی کتابوں میں درج کیں؟!
جو لوگ اس چیز کو منفی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں
وہ یاد رکھیں کہ یہ چیز تو محدثین کرام کی فضیلت اور ان کی منقبت ہے جس کو ان کا عیب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ ان محدثین کا عدل و انصاف ہے کہ انہوں نے اہل سنت سے بھی روایات لیں اور دیگر افراد جن پر رافضیت ،  ناصبیت یا خارجیت کی تہمت تھی ان میں سے بھی قابلِ اعتماد راویوں کی روایت کو قبول کیا ۔ 
انہوں نے جرح و تعدیل کے سخت اصول بنائے پھر جو جو شخص بھی ان اصولوں پر پورا اترتا گیا ،  بغیر کسی بخل اور تعصب کے انہوں نے اس کی روایت کو اپنی کتب میں شامل کیا۔
جبکہ ان کے مقابلے میں شیعہ کتب کے مصنفین نے صرف اپنے ہی ہم خیال لوگوں سے روایات لی ہیں اور کسی دوسرے کی صحیح بات کو بھی قبول نہیں کیا۔

حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ وہ عظیم امامِ علمِ حدیث ہیں کہ جنہوں نے تعصب، گروہ بندی اور فرقہ پرستی سے پاک ہو کر علمی اصولوں کی روشنی میں اپنی کتاب کو مرتب فرمایا اور انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں یہ اعلان کیا کہ ہمارے نزدیک سب سے اہم چیز سچائی کی تلاش ہے ،  اس لیے ہمیں جہاں بھی کوئی بات جرح و تعدیل کے اصولوں پر پوری اترتی نظر آئے گی تو ہم اس کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے اپنی کتب میں جگہ دیں گے ۔ 

اس سلسلے میں اصولِ حدیث کی مستند کتاب نخبۃ الفکر میں راوی پر اسبابِ طعن کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
"مبتدعہ( خوارج، نواصب اور روافض وغیرہ ) سے روایات حدیث لینے کے حوالے سے محدثین کرام کے اصول درج ذیل ہیں:
  بدعت کی دو قسمیں ہیں؛
بدعت مکفرہ (کفر تک پہنچانے والی بدعت )
بدعت مفسقہ(فاسق بنانے والی بدعت)

علمائے حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ بدعتِ مکفرہ کے مرتکب سے حدیث کو ہرگز نہیں لیا جائے گا اگرچہ کچھ محدثین نے اس سے اختلاف بھی کیا لیکن اعتبار جمہور کے قول کا ہوگا ۔ 
ہاں اگر کوئی رافضی خارجی یا ناصبی بدعت مفسقہ کا مرتکب ہے تو اس سے حدیث قبول کرنے کی درج ذیل پانچ شرطیں لگائی گئیں جو انتہائی کڑی شرائط ہیں ؛
1. ان یکون صادقا وان لا یستحل الکذب
کہ وہ راوی صادق ہو اور اپنی بات منوانے کے لیے جھوٹ کو حلال نہ سمجھتا ہو اور نہ ہی اس پر کبھی جھوٹ کا بہتان لگا ہو یعنی صدق، عدالت، ضبط ،  عدم شذوذ و علت کی پانچ شرائطِ صحت اس میں پائی جائیں۔

2. ان لایکون داعیا الی بدعتہ
کہ وہ راوی اپنی بدعت کی ترویج و اشاعت کرنے والا نہ ہو یعنی اس کی طرف لوگوں کو دعوت نہ دیتا ہو۔

3. ان لاتکون ھذہ الروایۃ تؤید بدعتہ
اور وہ روایت ایسی نہ ہو کہ جو اس کی بدعت کی تائید کرنے والی ہے یعنی جو حدیث اس سے لی جا رہی ہے وہ اس کی بدعت کے موضوع سے متعلق نہ ہو ، اس روایت کا تعلق دین کے کسی بھی جز سے ہو لیکن اس کی بدعت کے ساتھ تعلق نہ ہو۔

4. ان لایکون ھذا الراوی من غلاۃِ الرُواۃِ فی بدعتہ
اور وہ راوی اپنی بدعت میں غلو کرنے والے راویوں میں سے نہ ہو
5. ان لا ینفرد بروایتہ
کہ وہ اپنی اس روایت میں اکیلا نہ ہو بلکہ وہی روایت دیگر راویوں سے بھی منقول ہو یعنی اس کے علاوہ اور بھی اہل سنت کے راوی اس حدیث کو روایت کرنے والے موجود ہوں۔
تو تابع اور شاہد کے درجے میں یا ایک تائیدی روایت کے طور پر پھر اس کی روایت کو بھی صحیح مانا جائے گا۔ جب یہ پانچ شرائط پائی جائیں گی تو پھر اس راوی کی روایت کو قبول کر لیا جائے گا ۔
دوسری طرف اگرچہ کوئی اہل سنت سے ہو لیکن اس پر جھوٹ ثابت ہو جائے اس کی روایت کو بھی مسترد کر دیا جائے گا 

اب آپ ہی بتائیں اس سے بہتر انصاف کیسے ہو سکتا ہے، اصولِ جرح و تعدیل کی ان تمام کڑی شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس اخذِ  روایت کے عمل کو فیضانِ روافض کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔

فیضان روافض تب ہوتا جب یہ محدثین آنکھیں بند کر کے رافضیوں کی ہر بات کو قبول کر لیتے کیونکہ بندہ جس سے فیض لیتا ہے اس کی ہر بات کو قبول کرتا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اس کو اپنا استاد مانتا ہے، یہاں معاملہ فیضان لینے کا نہیں بلکہ انصاف اور اصول کا ہے ۔
اصول قطعی حیثیت رکھتے ہیں، جذبات سے عاری ہوتے ہیں، اصولوں کا مذہب اور مسلک نہیں ہوتا نہ ہی ان میں لچک ہوتی ہے۔
اصول تو یونیورسل اور عالمگیر ہوتے ہیں پھر جو بھی ان اصولوں کے دائرے میں آتا ہے وہ پسند ناپسند سے بالا تر ہو کر تسلیم کر لیا جاتا ہے ،  ہمارے محدثین نے حق اور سچ کو اپنی ذات کے لیے محدود نہیں کیا بلکہ اصول و ضوابط کے مطابق فیصلے فرمائے ہیں ۔

وعینُ الرضا عن کل عیبٍ کلیلۃٌ
وعینُ السخطِ تبدی المساویَ
جب بندہ کسی بات پر رضامند ہو تو پھر وہ ہر عیب سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور جب کسی بات پر ناراض ہوتا ہے تو اسے اچھی بات بھی بری محسوس ہونے لگتی ہے۔

یہاں بھی یہ معاملہ ہے کہ جس چیز پر محدثین کی تعریف کرنی چاہیے تھی اور ان کی عظمت کا اعتراف کرنا تھا اسی بات کو نعوذ باللہ ان کے حق میں گالی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور سارے ذخیرہ حدیث کو مشکوک کر کے منہدم کرنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ موصوف اپنے ایک کلپ میں کہہ رہے تھے کہ صحاح ستہ کو ہمارے ائمہ اور فقھاء حدیث کی کتابیں ہی نہیں مانتے بلکہ ان کو فقہ شافعی کی ابواب بندی سمجھتے ہیں۔ ذرا بتائیں تو سہی کہ وہ آپ کے فقھاء کون ہیں جو ان کو حدیث کی کتابیں نہیں مانتے۔ امت مسلمہ کے تمام فقہاء، علماء اور أئمہ نے تو ان کتابوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے، دل و جان سے قبول کیا ہے۔ آپ کن علماء کی زبان بول کر ان کتب احادیث کو مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔( احناف اور شوافع میں اختلاف کے باوجود ان کتابوں کی صحت کو پوری امت نے تسلیم کیا ہے ) ۔

مفہوم تشیع میں متقدمین اور متاخرین کا فرق : اس ضمن میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ تشیع اور رفض پہلے محدثین کرام  کے زمانے میں الگ مفہوم میں استعمال ہوتا تھا اور آج کا مفہوم الگ ہے ۔ یہ بات اگر سمجھ آ جائے تو پھر میں صحاح ستہ میں موجود مبتدعہ و روافض کی روایات کا سبب معلوم ہو جاتا ہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب التہذیب میں رقم طراز ہیں؛
التشیع فی عرف المتقدمین ھو اعتقادُ تفضیل علیٍّ علی عثمانَ، وأنَّ علیًا کان مصیبًا فی حروبِہ وأنَّ مخالفہ مخطئٌ مع تقدیم الشیخین و تفضیلھما، وربما اعتقد بعضھم أنَّ علیا افضل الخلق بعد رسول اللہ ،  واذا کان معتقدا ذلک ورعًا دینیًا صادقًا مجتھدًا فلا تُردُّ روایتُہ بھذا ،  لاسیما ان کان غیر داعٍ
(التہذیب ج1،ص94)

متقدمین اصحاب حدیث کے نزدیک تشیع کا لفظ ایسے شخص پر بولا جاتا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتا ہو اور یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حضرت مولا علی جنگوں میں حق بجانب تھے اور ان کا مد مقابل خطا پر تھا جبکہ ساتھ وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو افضل بھی جانے یا پھر حضرت علی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الخلق سمجھے پس جب ایسا اعتقاد رکھنے والا سچا پرہیزگار صاحب اجتہاد ہوتا تو اس کی روایت کو قبول کر لیا کرتے تھے بشرطیکہ وہ اپنی بدعت کی طرف دوسروں کو دعوت دینے والا نہ ہو۔

پھر علامہ ابن حجر مزید فرماتے ہیں :  جو شخص حضرت مولا علی شیر خدا کو شیخین سے مقدم سمجھے وہ غالی شیعہ تصور کیا جاتا اور اس پر رافضی کا لفظ بولا جاتا اور اگر کوئی مذکورہ بالا اعتقاد کے ساتھ ساتھ گالی گلوچ بھی کرتا تو اس کو غالی رافضی کہا جاتا تھا اور غالی رافضی کی روایت محدثین کے ہاں قابل قبول نہیں ہے ۔ (التہذیب جلد 1 صفحہ 94،چشتی)
یہ سب چیزیں واضح ہو جانے کے بعد ہم حضرت محقق سے درخواست کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور تشیع کی اس اصطلاح کے مابین فرق کو بھی ملحوظ رکھیں جو متقدمین اور متاخرین کے ہاں پایا جاتا ہے۔

آج کل کے شیعہ ایسے بھی ہیں جو حضرت علی کو نعوذ باللہ الٰہ اور خدا کے درجے تک پہنچاتے ہیں۔
ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وحی تو حضرت علی کی طرف آنی تھی جبرائیل امین نعوذ باللہ بھول کے حضور کی طرف چلے گئے ۔
ایسے بھی ہیں جو قرآن میں تحریف کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اصل قرآن کا نسخہ حضرت امام مہدی کے پاس ہے۔
ایسے شیعہ تو بکثرت موجود ہیں جو حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ اور دیگر امہات المومنین اور اصحاب ثلاثہ پر سرعام تبرا کرتے ہیں ۔
جو اہل سنت کے دین کو "عمری دین" کہہ کر گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو سرعام اصحاب پر لعنت کرتے ہیں۔

میں پورے وثوق سے اور علی وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ ایسے غالی رافضیوں اور شیعوں کا فیضان ہمارے ذخیرہ حدیث میں کہیں موجود نہیں بلکہ ہمارے محدثین کرام نے تو ایسے غالی شیعوں کا ردِّ بلیغ فرمایا ہے، لہذا اس مذموم فیضانِ روافض کو آپ اپنے پاس رکھیں۔
آپ خود ہی اس سے دل کھول کر مستفید ہوں ،  رافضیوں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بنتے پھریں۔ ہم ایسے فیضان روافض سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔

یہاں امام ذہبی کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں، آپ میزان الاعتدال صفحہ نمبر 72 پہ فرماتے ہیں : سلف صالحین کے زمانے میں غالی شیعہ اسے سمجھا جاتا تھا جو حضرت عثمان ، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہھم اجمعین کے متعلق طعن و تشنیع کرے اور ایسے غالی کی روایت کو مسترد کر دیا جاتا تھا۔
جبکہ ہمارے زمانے میں غالی شیعہ اس کو کہا جاتا ہے جو ان حضرات صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہوئے شیخین پر تبرا کرتا ہے پس وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ملعون ہے۔

اپنے اس مقالے کے آخر میں نخبۃ الفکر سے علامہ ابن حجر عسقلانی کی ایک عبارت پیش کرتا ہوں جس سے محدثین کے ہاں عدل و انصاف وسعت ظرفی اور احقاق حق کا پتہ چلتا ہے ،  آپ مبتدعہ سے روایت لینے کے بارے میں قولِ فیصل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فالمعتمد : أن الذي تُرَدُّ روايته: من أَنْكَرَ أمراً متواتراً من الشرع، معلوماً من الدين بالضرورة، وكذا من اعتقد عكسه. فأما من لم يكن بهذه الصفة، وانضم إلى ذلك ضَبْطُه لما يرويه، مع وَرَعِهِ وتقواه: فلا مانع من قبوله بشرط ان لایکون داعیۃ لبدعتہ وان لایکون المروی موافقا لبدعتہ ۔ (نخبۃ الفکر،دارالبصائر،ص103،چشتی)
پس قابل اعتماد قول یہ ہے کہ (روافض نواصب اور خوارج میں سے) ایسے شخص کی روایت کو رد کر دیا جائے گا جو دین میں کسی ایسے امر متواتر کا انکار کرے جو ضروریات دین میں سے ہے یا کسی امر ضروری متواتر کے برعکس اعتقاد رکھے لیکن جو ضروریات دین کا منکر نہ ہو،اس کا حافظہ اور ضبطِ روایت درست ہو، اس میں پرہیزگاری اور تقوی بھی ہو نیز اپنی بدعت کو فروغ نہ دے اور نہ ہی وہ روایت اس کی بدعت کے موافق ہو پس ایسی روایت کو قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
یہ ہیں وہ اصول و ضوابط اور قواعد جن کی روشنی میں محدثین کرام نے تمام روایات اپنی کتب میں شامل فرمائی ہیں اب اس کو فیضان روافض یا فیضان نواصب کہنے والا کس قدر متعصب ، جاہل ، علوم سے نابلد ، ہٹ دھرم  اور کٹ حجتی ہے اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔

قیاس کن ز گلستان من بہار مرا

اللہ کریم حق بات کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔ (جناب علامہ ڈاکٹر محمد نعیم الدین الازھری صاحب کا مضمون مکمل ہوا)

الحبل المتین فی نصرۃ نعیم الدین (ڈاکٹر نعیم الدین الازہری _مدرس بھیرہ شریف کے مضمون پر صداقت فریدی نامی رافضی کی تنقید پر تبصرہ)

تحریر : صاحبزادہ ڈاکٹر عبدالسلام ثمر فاضل بھیرہ شریف

"احادیث صحاح ستہ میں "فیضان روافض" کا نامعقول نعرہ ۔۔۔۔۔ تحقیقی جائزہ " کے عنوان سے ہمارے ایک انتہائی فاضل دوست،بہت ساری شخصی وعلمی واخلاقی خوبیوں کے مالک، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے ترجمان جناب ڈاکٹر محمد نعیم الدین الازہری حفظہ اللہ نے  ایک علمی اور تحقیقی مضمون لکھ کر دو روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ علمی حلقوں میں ان کی اس تحریر کو خوب پذیرائی ملی۔ اربابِ علم و فکر کی طرف سے اس علمی تحقیق اور محقق کے طرزِ نگارش کو بہت سراہا گیا  ۔ مختلف وٹس ایپ گروپوں میں اس مضمون کو فارورڈ بھی کیا گیا ۔ اس  مضمون میں در حقیقت ایک نام نہاد محقق ڈاکٹر صداقت فریدی کی ایک کتاب "احادیث صحاح ستہ میں فیضان روافض " کا علمی انداز میں اجمالی جائزہ لیا گیا ہے ۔  عنوان سے ہی اس نعرہ کی نامعقولیت اور رکاکت  واضح ہے ۔ یہ درپردہ آئمہ محدثین کی توہین اور اہل سنت کے ذخیرہ احادیث کو مشکوک ٹھہرانے کی سعی نامشکور ہے۔ ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب نے اس نام نہاد محقق کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ آئمہ اصول حدیث کی تصریحات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اہل سنت کے محدثین نے کسی غالی شیعہ یا رافضی سے کوئی حدیث نہیں لی۔جس بدعتی کی روایت قبول کی جاتی یے اس کی  شرائط اور وجوہات  کو بھی بیان کر دیا ہے۔اس مضمون میں  اور بھی بہت سارے علمی نکات ضمنا درج کر دیے گئے ہیں ۔
آج صبح سوشل میڈیا پر قبلہ نعیم الدین الازہری صاحب کے اس مضمون کے رد میں خود صاحب کتاب ڈاکٹر صداقت فریدی کا طویل ویڈیو کلپ سننے کا اتفاق ہوا۔ تحقیق کے اس پہاڑ کو بصد ناز و ادا  سامنے جلوہ آراء  دیکھ کر میں وجد میں  امجد حیدرآبادی کی یہ رباعی گنگنانے لگا:
کس شان سے شیخ _ خود نما بیٹھا ہے
سچ مچ کوئی سمجھے تو خدا بیٹھا ہے
صورت میں بایزید ،سیرت میں یزید
چمڑے پہ ہرن کے بھیڑیا بیٹھا ہے

موصوف کو پہلی بار دیکھ کر بہت خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ خوشی تو اس لیے ہوئی کہ آج اس ہستی کا دیدار ہو گیا جس کی زیارت کا اس وقت سے  شوق تھا جب" انوار الثقلین " نامی کتاب نظر سے گزری ۔ دل میں خواہش تھی کہ اس نر کے بچے کو کبھی دیکھوں اور سنوں جس نے سیدھا امام اہلسنت اعلیحضرت علیہ الرحمہ پر ہاتھ ڈالا ہے۔  یہ کتاب موصوف کے زعم باطل میں اعلیحضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی افضلیت شیخین کے موضوع پر کتاب مستطاب "مطلع القمرین"  کا جواب ہے۔ کتاب کے مندرجات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب ان تمام کتب کا چربہ ہے جو اس اجماعی مسئلہ کے خلاف بازار میں دستیاب ہیں۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ وہی ہستی ہیں جنہوں نے ایک ایسی تحقیق انیق فرمائی ہے جو رافضیوں کے بھی حاشیہ خیال میں  نہ آئی ۔وہ تحقیق یہ ہے کہ کائنات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے بعد افضل ترین ہستی  جناب ابو طالب کی ہے۔ افسوس اس لیے ہوا کہ ڈاکٹر الازہری صاحب کے مضمون پر موصوف جو تبصرہ فرما رہے تھے وہ اتنا سطحی اور غیر معیاری تھا کہ ایک طرف تو جناب کی علمی مفلسی  ظاہر ہو رہی تھی تو دوسری طرف  ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب کے دلائل کے سامنے  بےبسی عیاں تھی  ۔

ڈاکٹر فریدی کی گفتگو کا لب لباب یہ ہے:
"ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب نے مجھے پندو نصائح سے نوازا۔۔۔۔۔ان کا مضمون درحقیقت میری تائید میں ہے۔۔۔۔۔محدثین نے یہ اصول ضرور وضع کیا ہے کہ کسی رافضی راوی سے روایت نہیں لی جائے گی لیکن محدثین صحاحِ ستہ نے اس اصول کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔جریر بن عبد الحمید تمہارے ماموں اور یزید کے باپ( استغفر اللہ العظیم صحابی رسول کا ایسے سوقیانہ انداز میں نام لینا) کو گالیاں دیا کرتا تھا۔۔۔۔۔700 سو زائد روایات صحاح ستہ میں موجود ہیں جن کے راوی رافضی ہیں۔۔۔۔فلاں فلاں راوی فلاں صحابی کو سب و وشتم کیا کرتا تھا۔ ۔۔۔۔یہ خدمت میں اس لیے انجام دے رہا ہوں تاکہ بریلویوں بالخصوص فرقہ خطائیہ کو شیشہ دکھایا جائے کہ بہت سارا فیض روافض کے سینے سے چل کر آیا ہے۔ فرقہ خطائیہ عبد القادر شاہ صاحب ،ریاض شاہ صاحب ،عرفان شاہ صاحب اور پیر منور شاہ صاحب جیسے بزرگ سادات کا گستاخ ہے۔۔۔۔ ۔ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب میدان میں آئے خوشی ہوئی لیکن دلیل کے ساتھ آئیں ۔۔۔۔۔میں وہی بات کہ رہا ہوں جو حافظ ابنِ حجر اور حافظ ذہبی نے کی ہے۔۔۔۔۔16000ہزار احادیث محدثین صحاحِ ستہ نے غالی رافضیوں سے لی ہیں۔۔۔۔۔۔شروع سے لے کر آج تک کسی سنی سے نہیں سنا ،نہ اس کی قلم سے نہ زبان سے کہ اس نے اہلبیت علیہم السلام کی توھین کرنے والوں کو کافر کہا ہو۔۔ایسا کرنے کی انہیں جرات بھی نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکے گی۔البتہ میں نے (روئے زمین پر) اس دوہرے معیار کا پردہ چاک کیا ہے کیونکہ میرے خمیر میں حرمت اہلبیت کا تصور دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے مسئلہ تفضیل کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ۔۔۔۔یہ قاعدہ غلط ہے کہ محدثین غالی رواۃ سے روایت نہیں لیتے تھے۔۔۔۔اس موضوع پر میں نے کتاب لکھ ماری ہے۔۔۔دوسری جلد بھی جلد آ رہی ہے۔ میں نے اعلیحضرت کی کتب سے غالی رواۃ کی روایات جمع کی ہیں۔۔۔۔۔تم لوگ بری طرح پھنس گئے ہو۔ نکلنے کی سبیل ایک ہی ہے کہ سادات سے (یعنی جنہیں میں سادات سمجھتا ہوں ) معافی مانگ لو۔۔۔۔ آخر میں یہ  روافض کا فیض یافتہ محقق یہ بھی فرماتا ہے کہ نعیم صاحب تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہے جو شیخ الاسلام ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف ہیں۔۔۔۔۔اگر تم ان کے ساتھ میدان میں اترے ہو تو پھر تمہارے ساتھ بھی اسی لہجے میں بات کریں گے"۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
یہ ہیں اس نام نہاد محب اہل بیت کی بونگیاں جن کو وہ اپنے زعم میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا جواب سمجھ بیٹھا ہے۔۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام باتیں موصوف اپنی گفتگو میں بارہا مرتبہ دہرا چکا ہے ۔۔۔۔۔یہی کچھ اپنی ان  ضخیم کتابوں میں تکرار کے ساتھ لکھ رہا ہے جن کے صفحات کاپی پیسٹ سے کالے کرتا رہا ہے۔
قارئین کرام!  اس نام نہاد محقق ،خارق اجماع مفکر کی تمام کتب کا اہلسنت کے جید علماء کرام نے دندان شکن جواب دے دیا یے۔ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب کے علاوہ بھی اہل سنت کے جید علماء کرام موصوف کی اس کتاب کا دندان شکن جواب لکھ رہے ہیں ۔اس بلند بانگ دعووں کا علمی انداز میں پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ محقق اہلسنت جناب علامہ فیض احمد چشتی صاحب سوشل میڈیا پر قسط وار جواب لکھ رہے ہیں۔ علامہ سید ذوالفقار علی شاہ صاحب ویڈیو کلپ میں خوب گرفت کر ریے ہیں ۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء
مجھے سر دست موصوف کی متذکرہ بالا باتوں کے حوالے سے مختصر جائزہ لینا ہے۔
1) موصوف فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر الازہری کا مضمون میری تائید میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ کی تائید میں تھا تو پھر آپ کو اپنے دفاع میں  لمبے چوڑے ویڈیو کلپ بنانے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟ جناب والا! نعیم الدین الازہری صاحب کا موقف وہی ہے جو ائمہ محدثین کا ہے کہ غالی رواۃ سے روایت نہیں لی جائے گی جبکہ آپ نہ صرف قائل ہیں بلکہ محدثین کو مطعون کرتے ہوئے ان کے اس قاعدے کو غلط ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ شروع میں آپ فرما گئے کہ یہ اصول ضرور ہے مگر محدثین نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ قاعدہ غلط ہے کہ وہ غالی رواۃ سے روایات نہیں لیتے تھے۔ ایسی منطق جھاڑ کر آپ نے ایک تو اکابر محدثین کو متہم کیا ہے اور دوسرا خود اپنا نقصان کیا ہے کیوں کہ اس سے جناب کا علمی پول کھل گیا ہے۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

2) موصوف فرماتے ہیں کہ محدثین صحاحِ ستہ نے اپنے وضع کردہ اس اصول کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
یہ آئمہ محدثین پر تہمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہستیاں اپنے اصول پر قائم رہی ہیں ۔ کسی غالی رافضی سے کوئی روایت نہیں لی۔ جن راویوں کے حوالے دیے گئے ہیں وہ اور  ان کے علاوہ وہ جن پر رافضیت  و خارجیت و ناصبیت کا الزام عائد تھا، انہوں نے  رجوع کر لیا تھا اور وہ سابقہ عقائد سے توبہ تائب ہو گئے تھے۔ محدثین نے تب ان سے روایت قبول کی۔۔ تہذیب التہذیب وغیرہ کتب رجال میں ایسے راویوں کے رجوع کے متعلق تصریحات موجود ہیں ۔ ایک دو مثالیں پیش کر دیتے ہیں: ایک راوی ہے حریز بن عثمان ۔اس پر جرح ہے کہ یہ ناصبی تھا، رافضی کہتے ہیں کہ یہ وہ ملعون شخص ہے جو سفر و حضر اور ہر نماز کے بعد مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر لعن طعن کرتا تھا ۔اور بعض علماء نے اس کے کفر کا فتویٰ دیا ہے (تہذیب التہذیب ج 1) ۔ہھر بھی امام بخاری نے اس سے استدلال کیا ہے ۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ خود امام بخاری اپنے استاد ابو الیمان حکم بن نافع الحمصی سے نقل کیا ہے کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا۔ (تہذیب التہذیب ج 2)
3) ڈاکٹر صداقت فریدی رافضی کہتا ہے کہ جریر بن عبد الحمید تمہارے ماموں اور یزید کے باپ کو گالیاں دیا کرتا تھا ۔
قارئین جب یہ غلیظ ترین جملہ میں نے سنا یقین جانیے جو مجھ پر گزری وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ۔ میری آنکھوں میں خون کے آنسو اتر آئے۔ کس طرح سطحی انداز میں صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کر رہا ہے اور طنزاً اہل سنت کا ماموں کہ رہا ہے۔ اس نام نہاد محب اہل بیت کو شاید معلوم نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستی نے خال المؤمنین (یعنی اہل ایمان کا ماموں) لکھا ہے۔پھر کس منہ سے یہ خود کو سنی کہتا  ہے؟ حیرت تو ایسے پیروں اور مفکروں پر ہے جو ایسے شخص کو اپنی کانفرنسوں اور تقاریب رونمائیوں میں بلا کر پروٹوکول دیتے ہیں۔بلکہ بعض آستانوں اور تحریکوں کا مزاج بھی اب یہی بن چُکا ہے کہ اپنی کانفرنسوں اور پروگراموں میں ہر ایسے شخص کو بلاتے ہیں جو صحابہ کرام بالخصوص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا منقص و مبغض ہو اور اعلیحضرت کی مخالفت کرتا ہو۔
جریر بن عبد الحمید کے حوالے سے علماء اہلسنت نے تفصیلی جواب دے دیا ہے۔ سر دست اتنا عرض ہے کہ تاریخ دمشق میں روایت موجود ہے کہ جریر بن عبد الحمید افضلیت شیخین کا قائل تھا۔ جبکہ موصوف فریدی خارق اجماع عقیدہ افضلیت کا منکر ہے۔ واہ! آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
4) موصوف کہتے ہیں کہ میں نے بھی تو وہی بات کی ہے جو ابن حجر اور ذہبی وغیرہ نے کی ہے۔
اس میں بھی کذب بیانی سے کام لے رہے ہیں کیوں کہ ابن حجر و امام ذہبی نے تو لکھا ہے کہ غالی شیعہ رواۃ سے روایت قبول نہیں کی جائے گی جبکہ موصوف کے نزدیک یہ قاعدہ ہی غلط ہے  اور ہزاروں کی تعداد میں روایات ایسے راویوں سے لی گئی ہیں ۔دوسرئ بات یہ ہے کہ
امام ذہبی فرماتے ہیں
والشیعی الغالی في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحه و معاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه وتعرض لسبهم
ترجمه: سلف صالحین کے زمانے میں اور ان کے عرف میں غالی شیعہ اسے کہا جاتا تھا  جو سیدنا عثمان ،سیدنا زبیر ،سیدنا طلحہ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھم کی شان میں طعن و تشنیع کرے اور ایسے راوی کی روایت کو رد کر دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔جبکہ ہمارے زمانے ( امام ذہبی کے زمانے  )میں غالی شیعہ اس کو کہا جاتا ہے  جو ان حضرات صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہوئے شیخین پر تبرا کرتا ہے۔ پس وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ملعون ہے۔ (میزان الاعتدال ص 73)
موصوف کے بقول وہ ذہبی کے نقش قدم پر ہیں ۔ اور امام ذہبی کی مذکورہ بالا رائے کے مطابق موصوف غالی شیعہ ٹھہرے کیوں کہ حضرات صحابہ کرام بالخصوص امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کرنا دن رات موصوف کا وظیفہ ہے۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

5) موصوف بیان کرتے ہیں کہ وہ یہ ساری خدمت خطائیہ فرقہ کو شیشہ دکھانے کے لیے سر انجام دے رہے ہیں۔یہ فرقہ فلاں فلاں سادات کا گستاخ ہے۔
اس کے متعلق عرض ہے کہ کسی کو شیشہ دکھانے کے لیے یہ کام نہیں ہو رہا بلکہ روافض کی طرف سے ملنے والے چرب نوالوں کو حلال کیا جا رہا ہے۔ اور ان کی نوکری کی جا رہی ہے کیوں کہ اگر سیادت کا پاس ہوتا تو باقی سادات کرام کا بھی احترام کیا جاتا، ان پر  طعن نہ کیا جاتا اور ان کے نسب کے شجرے نہ کھنگالے جاتے ۔ ان تین چار حضرات کی وکالت صرف اس لیے کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ مسلک حق اہلسنت سے برگشتہ ہو کر منہاج رفض پر گامزن ہیں اور موصوف کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کسی کا انتقام اکابر علماء محدثین سے جا لیں اور اہل سنت کے تمام ذخیرہ احادیث کو فیضان روافض کہیں۔
6) موصوف نے ڈاکٹر نعیم الازہری صاحب پر الزام لگایا ہے کہ وہ شاید کسی مخصوص طبقے کی حمایت میں میدان میں اترے ہیں اور وہ طبقہ حضرت ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کا مخالف ہے ۔ یہ بھی جھوٹ ہے اور بندہ مومن کے حق میں سوئے ظن  ہے۔ ڈاکٹر الازہری صاحب صرف اور صرف اکابر محدثین کے دفاع میں اور اہل سنت کے سچے مذہب مہذب کی کتب احادیث کو روافض رواۃ کے فیضان سے پاک ثابت کرنے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ ڈاکٹر صداقت فریدی! یہ بھی ذہن میں رہے بھیرہ شریف شخصیت پرستی یا گروہ بندی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ بھیرہ شریف حق پرست اور شخصیت شناس بناتا ہے۔ تم جس تحریک سے وابستہ ہو وہاں شخصیت پرستی کا درس دیا جاتا ہے۔ کسی نے اگر پیر صاحب سے کوئی علمی اختلاف کیا ہے اور معتقدات سلف پر کاربند ہے تو ہماری تربیت یہ ہے کہ ہم اس کا احترام کریں گے اور دفاع اہلسنت میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عقیدہ اہلسنت سے منحرف شخص پیر صاحب کا خواہ کتنا وفادار ہی کیوں نہ ہو وہ ہمارے لیے بالکل قابلِ احترام نہیں ہے۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہو گا کہ بھیرہ شریف اور اس کے پیر خانے سیال شریف نے عقائد اہلسنت پر اعلامیے بھی جاری کر رکھے ہیں۔ عقیدہ افضلیت شیخین کو اجماعی اور ضروریات اہلسنت میں سے سمجھتے ہیں۔اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھیرہ شریف کے دار الافتاء سے جاری کردہ مفصل فتویٰ بھی پڑھا ہو گا۔ لہذا بھیرہ شریف کے مطابق آپ اہل سنت سے خارج اور پکے رافضی اور رافضی نواز ہیں۔
7) موصوف کہتا ہے کہ میں نے مسئلہ تفضیل کا جنازہ نکال دیا ہے۔
واہ کیا پدی کیا پدی کا شوربا
میں کہتا ہوں مسئلہ تفضیل کا جنازہ نہیں نکالا  بلکہ اپنے ایمان اور عقیدے کا تختہ نکال دیا ہے۔ خارق اجماع کا مرتکب ہوا ہے۔ بے شمار نصوص اور اکابر کی تصریحات کا منکر ہو کر گمراہی اور رفض کی دلدل میں جا پھنسا ہے۔
8) موصوف کا فرمان ہے کہ سلفا خلفا پوری اہلسنت نے اب تک دوہرا معیار اپنایا ہے کہ شان صحابہ میں تنقیص کرنے والوں کا شرعی حکم بیان کیا ہے لیکن اہلبیت کے گستاخ کو کافر نہیں کہا۔میں نے اس دوہرے معیار کا پردہ چاک کیا ہے۔ "
مجھے یہ بات بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ موصوف نے حضرات اہلبیت اطہار کے نفوسِ قدسیہ کو شرف صحابیت سے محروم سمجھا ہوا ہے۔اس طرح قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں شان صحابہ میں وارد تمام نصوص کے عموم سے حضرات اہلبیت کو خارج کر دیا ہے۔ موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حضرات شرف صحابیت سے پہلے متصف ہیں ، باقی نسبتیں سب بعد میں ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے حوالے سے پہلے پہچان، پھر  باقی نسبتوں سے دیکھ۔ "لہذا اہل سنت جب صحابہ کرام کے مبغضین کا حکم بیان کرتے ہیں تو اس میں حضرات اہلبیت کے افراد شامل ہوتے ہیں ۔یہ در والے گھر والے کی تقسیم آپ جیسے روافض کی اختراع ہے ۔
مضمون کی طوالت کے خوف سے قلم کو یہیں پر روکتا ہوں اور تمہاری ہدایت کے لیے بارگاہِ الٰہی میں مصروف دعا ہوتا ہوں ۔

صداقت فریدی رافضی اور اس کے ہمنوا رافضی امام احمد علیہ الرحمہ سے ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔ اب آتے ہیں امام احمد بن حنبل کی مسند پر : ⏬

حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن الحكم، سمعت سيفا، يحدث، عن رشيد الهجري، عن أبيه: أن رجلا قال لعبد الله بن عمرو: حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودعني وما وجدت في وسقك يوم اليرموك. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ۔ (مسند احمد جلد ۱۱ صفحہ ٤٢٧)
اس روایت میں موجود راوی رشید الھجری رافضی تھا اور اپنے رفض میں غالی تھا لیکن امام احمد ابنِ حنبل علیہ الرحمہ نے اس کی روایت کو اپنی مسند میں قبول کیا جو کہ انکے منہج پر اصح ترین ہے ۔

جواب : یہ مثال فضول ہے دینا  کیونکہ یہ روایت  کی دس سے زیادہ طریق بیان کیے ہیں امام احمد علیہ الرحمہ نے اور دوسری بات امام احمد علیہ الرحمہ کی مسند میں ہر روایت صحیح ہے اس پر کسی کا اتفاق نہیں خود امام احمد علیہ الرحمہ نے اپنی مسند کے رجال پر جروحات کر رکھی ہیں اور اس میں ضعیف و معلل مروایات موجود ہیں ۔ یہاں اختلاف ہے بدعتی  شیعہ کا داعی ہونے کی صورت میں تفرد سے استدلال کرنا اور دلیل کیا دی جا رہی ہے  اندھیرے میں پتھر مارے جا رہے ہیں ک کہیں تو تکہ لگا جائے گا

صداقت فریدی رافضی اور اس کے ہمنوا رافضیوں کی اگلی مثال : ⏬

اب امام بخاری علیہ الرحمہ کا منہج دیکھا جائے ۔ حدثنا عبيد الله بن موسى، قال: أخبرنا حنظلة بن أبي سفيان، عن عكرمة بن خالد، عن ابن عمر، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان ۔ (صحیح البخاری جلد ۱ صفحہ ۱۲ ورقم الحدیث ۸)

امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہاں اپنے شیخ عبیداللہ بن موسیٰ سے حدیث لی جو کہ سخت شیعہ تھا ۔ یہ اپنے تشیع میں اس حد تک سخت تھے کہ یہ معاویہؓ پر لعنت کیا کرتے تھے ۔

سمعت محمد بن عبيد الله بن يزيد المنادي، يقول: كنا بمكة في سنة تسع، وكان معنا عبيد الله بن موسى، فحدث في الطريق فمر حديث لمعاوية، فلعن معاوية، ولعن من لا يلعنه ۔ (السنة لآبي بكر بن الخلال جلد ۳ صفحہ ۵۰۳ ورقم الروایت ۸۰۵)

فقال : هو على مذهب أهل بلده، ولو رأيتم عبيد الله بن موسى، وأبا نعيم، وجماعة مشايخنا الكوفيين، لما سألتمونا عن أبي غسان ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا ابی غسان کے تشیع کے حوالے سے۔ امام بخاری نے جواب دیا: وہ اپنے شہر والوں کے مذہب پر ہے اور اگر تم عبیداللہ بن موسیٰ، ابو نعیم اور ہمارے کوفی مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھتے تو تم ابو غسان سے متعلق سوال ہی نہ کرتے ۔ (سیئر اعلام النبلاء جلد ۱۰ صفحہ ٤٣٢)

جواب : پہلی بات امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس کو متابعت میں لیا ہے احتجاج میں نہیں لیا ۔ اور دوسر ی بات یہ دلیل ہماری ہے نہ کہ رافضی مذکور کی  کیونکہ ہم اوپر امام ذھبی علیہ الرحمہ سے نقل کر آئے ہیں کہ امام بخاری علیہ الرحمہ رافضیوں سے نہ لکھنے میں کتنی احتیاط کی اور سیر اعلام سے امام بخاری علیہ الرحمہ کا جو قول موصوف نے نقل کیا ہے اس میں بھی واضح ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں اگر تم ہمارے تشیع مشائخ کو دیکھ لیتے جیسا کہ ابو نعیم فضل بن دکین اور عبید اللہ بن موسیٰ کہ وہ (داعی نہیں یا غالی نہیں ) تو ابو غسان کے بارے سوال نہ کرتے ۔ یعنی امام بخاری علیہ الرحمہ بھی عبیداللہ بن موسیٰ کے تقیہ میں دھوکا کھا بیٹھے جبکہ یہ راوی حضرت امیر معاویہ پر طعن کرتا تھا  اور جبکہ  یہ خود ایسی روایات بھی بیان کرتا تھا جو اہلسنت کے دلائل میں سے ہیں ۔ اور اس نے صحابہ کی ترتیب پر پہلی مسند لکھی تھی جیسا کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : أَوَّلُ مَنْ صَنَّفَ (المُسْنَدَ) عَلَى تَرتِيْبِ الصَّحَابَةِ بِالكُوْفَةِ ۔ (سیر اعلام النبلاء)

لیکن اس کے باوجود اس رافضی کی ورادت امام احمد علیہ الرحمہ کے شاگرد کو پتہ چل گئی اور امام احمد علیہ الرحمہ اسکے رفض پر مطلع ہو گئے اور اس کو ترک کر دیا باوجود اس کی ثقاہت کے اور یہی ہمارا مسلک ہے ۔ اور رفض کی جب دلیل مل جائے کہ وہ لعن و طعن کرتا ہوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تو اس کی روایت سرے سے لینی ہی نہیں ۔ اور اگر وہ غالی شیعہ ہو اور اس کے ساتھ داعی ہو تو اس کے  مذہب کے موافق روایت نہیں لینی ۔ یہ ہے آسان سا اصول ۔

اب صداقت فریدی رافضی اس کے سرپرست رافضیوں کی منافقت اور جہالت اور دو  رخی ثابت کرنے کا وقت  آگیا ہے ۔ فقیر کو لگتا ہے کہ یہ روایت موصوف نے کسی رافضی سے اخذ کی ہے کیونکہ ایسے پاگل اور مضطرب التحریر لکھنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں اور رافضی صداقت فریدی نے مکھی پر مکھی مار کر لگتا ہے ساری کتاب چھاپ دی ہے ۔ وہ یوں کہ آخر میں اس نے یہ خلاصہ نکالا : ⏬

نوٹ : اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث میں سب سے زیادہ احتیاط کرنے والے شیخین یعنی امام بخاری و امام مسلم علیہما الرحمہ کے نزدیک بھی بدعتی (شیعہ) راوی کی روایات قابل قبول ہیں بشرطیکہ وہ عادل اور قوی حافظے کا مالک ہو ۔ دوئم یہ بھی واضح ہوگیا کہ راوی کے بدعتی ہونے سے راوی کی عدالت یا حافظے پر کوئی اثر پڑتا ہے ۔

صداقت فریدی رافضی کے خلاصہ میں پہلا نقص یہ ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے نزدیک جس کو فقط تشیع تسلیم کیا اس کی روایت لی اور مذکورہ شیخ  کی روایت جو پیش کی گئی ہے وہ تو متابعت میں اور نہ بھی ہوتی تو اس کا تقیہ ثابت کیا ہے کہ پہلے اس نے ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصنف لکھی اور معتدل انسان ثابت کیا اور پھر اس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن شروع کر دیا  جس سے امام بخاری علیہ الرحمہ کا اس سے تقیہ سے دھوکا کھانا ثابت ہوتا ہے فقط ۔

پھر رافضی مذکور کہتا ہے : بس یہ ثابت ہوا کہ بدعتی (یعنی رافضی ، وغیرہ) ہونے سے راوی کی عدالت یا حافظے پر اثر نہیں پڑتا ہے اچھا یہ سطر لکھ کر آگے پھر اپنے مقدمہ کی ساری عمارت گرا دی یہ لکھ کر لکھتا ہے : اب رہی آخری بات امام جوزجانی کی جسنے یہ بدعتی راوی داعی اور غیر داعی کا سارا ڈھونگ رچایا ہے ۔ یہ شخص امام جوزجانی بیشک متقدمین میں سے ایک عظیم امام تھا لیکن یہ ایک خبیث شیطان اور بغض علی میں مبتلا ایک ناصبی تھا ۔

امام عبد الرحمٰن المعملی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : هذا وأول من نسب إليه هذا القول إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني وكان هو نفسه مبتدعاً منحرفاً عن أمير المؤمنين علي متشدداً في الطعن على المتشيعين ۔
ترجمہ : سب سے پہلے جس شخص کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے جسنے یہ بات بیان کی ہے وہ جوزجانی ہے جو خود بدعتی تھا اور وہ منحرف تھا امیر المومنین علی سے اور بہت متشدد تھا اور آپ کے رفقاء پر طعن کیا کرتا تھا ۔

اس کو پڑھ کر رافضی مذکور کی بے بسی پر ہنسی آتی ہے ۔ معلمی یمانی سے نقل کرتا ہے اپنا مقدمہ کہ سب سے پہلے  جس بندے نے یہ اصول قائم کیا کہ بدعتی داعی کا ڈھونگ رچایا  وہ جوزجانی تھا پھر اس کو خبیث ، شیطان اور بغض علی والا کہتا ہے ۔ جواباً عرض ہے جب بدعتی راوی کے حافظے اور عدالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو علامہ جوزجانی کا اصول رد یہ کس علتِ قادعہ  سے رد کر رہا ہے ؟ ۔ ناصبی ہونے کی ؟

ناصبی ، رافضی  ہونا تو اس کے نزدیک علت ہی نہیں جب راوی ثقہ اور یہ خود بھی مان رہا ہے کہ جوزجانی متقدمین میں عظیم امام تھا تو بس پھر ناصبی ہونے سے اس کا بیان کردہ اصول کیسے ٹوٹ گیا ؟

یعنی ہم کہہ رہے ہیں بدعتی داعی کی روایت اس کے عقیدے کی تقویت میں قبول نہیں اور موصوف اس کا رد  کرتے کرتے ۔ آخر میں خود تسلیم کر بیٹھا کہ یہ اصول بیان کرنے والا بقول اس کے جوزجانی ہے اور وہ خود چونکہ ناصبی تھا بوجود امام ہونے کے تو ہم اس کا یہ اصول ڈھونگ سمجھتے ہیں ۔ یعنی اس کی کتی چوروں سے ملی ہے اس کے تمام دلائل فضول اور دلیل سے متابقت نہیں رکھتے تھے اور جن میں کچھ بات تھی  بھی تو  اس کا جواب فقیر نے دلائل سے دے دیا اور داعی اور بدعت کی روایت سے بچنے کا منہج فقیر نے جوزجانی کے علاوہ امام ابن معین علیہ الرحمہ سے ثابت کیا ۔ پھر امام ابن معین علیہ الرحمہ کے بقول امام مالک علیہ الرحمہ کا بھی یہی منہج تھا اور یہی امام احمد علیہ الرحمہ کا منہج ہے ۔ اور اس سے سابقہ مضمون میں یہی منہج امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا ثابت کیا ہے ۔ اور پھر متاخرین میں یہی راجح مذہب امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہما الرحمہ کا ثابت کیا ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔