Tuesday, 7 November 2023

پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ دوم

پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ دوم

منصبِ امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالت (یعنی انبیاء علیہم السلام کے نائب) ہیں ، جس کی بناء پر ائمہ حضرات کا کرام و احترام لازم ہے ۔ امامت ، مٶذنی اور علمِ دین کی تدریس اللہ تعالٰی کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے ، اور ان لوگوں کےلیے اللہ تعالٰی کی خاص رحمت و انعام مقدرہے ۔ ان فضائل کو جان لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں بلاشبہ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امام ، مؤذن یا مدرس ہوتا لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور مٶذنین ، و مدرسین کے حالات اور ان کے ساتھ لوگوں کے سلوک و رویّوں کا جائزہ لیں تو بہت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے ، آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ دیندار اور باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت بالخصوص مٶذنی اور مکاتب کی مدرسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بعض مساجد و مدارس کے ذمہ داران مختلف طریقوں سے ان حضرات کو ہراساں کرتے رہتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگانا ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، خصوصاً مؤذنین کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ، بلاشبہ ان سے غلطیاں و کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی ، لیکن ایسے وقت میں ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں تنہائی میں تنبیہ کی جائے ، لوگوں کے سامنے ان سے سخت کلامی کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے ، ذمہ داران کے علاوہ اکثر نمازی حضرات بھی مؤذنین سے الجھ جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ مسجد میں آکر اپنی چلاتے ہیں ، چنانچہ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان ، امام باالخصوص موٴذن اور مکتب کا مدرس بننے کی حسرت اور خواہش کو دل میں ہی دبا دیتا ہے ۔ اور دیگر دنیاوی مشاغل کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے اِس غیر شرعی فعل سے باز آجانا چاہیے ، ورنہ ان سے بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا ، جہاں ان کی ایک ایک زیادتی کا حساب چُکتا کیا جائے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : تمہارے امام تمہارے سفارشی ہیں ،، یا یوں فرمایا : تمہارے امام الله تعالٰی کے یہاں تمہارے نمائندہ ہیں ۔ (اتحاف السادة المتقین،چشتی)

ذخیرہ احادیث میں مؤذن کی بہت فضیلت آئی ہے ، مثال کےلیے دو حدیثیں پیشِ خدمت ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : اگر تمہیں اذان دینے کی فضیلت اور خیروبرکت کا علم ہو جائے تو تم مؤذن بننے کےلیے قرعہ اندازی کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری)

یعنی ہر ایک اذان دینے کا اتنا شوقین ہو جائے گا کہ جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے قرعہ کی ضرورت پیش آئے گی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : مؤذن کو الله کے راستہ میں شہید کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ۔ (طبرانی کبیر)

امام اور مؤذن صاحبان کو نوکر سمجھنا یا نوکروں جیسا برتاؤ ان کے ساتھ کرنا بہت غلط بات ہے اور ان کی حق تلفی ہے ۔ یہ خیال تکبر سے پیدا ہوتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ، جب تک اس کو دوزخ میں جلا کر نکال نہ دیا جائے گا، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ (صحیح مسلم)

اس لیے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس سے باز آئیں اور اپنی اصلاح کریں اور آئندہ امام و مؤذن صاحبان کا اکرام و احترام کریں ۔
دینِ اسلام میں امامت کا منصب بڑا ہی معزز و محترم منصب ہے ۔ امامت وہی کرتا ہے جو قوم کا معزز اور صاحب علم شخص ہوتا ہے۔ اس بات سے بلکل واضح ہے کہ امامت اس دنیا کا ایک عظیم نصب ہے ، اس لیے کہ یہ منصب بڑا نازک اور حساس ہے ۔ اس کے تقاضے بہت اہم ہیں اور توقعات بہت زیادہ ۔ اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے وہ ائمہ کرام میں اقدار مفقود نظر آتی ہے جو اس منصب کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عہدے کو جو عزت بخشی اور اس کی جو راہ عمل متعین کی ہے اس نے اس کی عظمت کو ختم نہیں ہونے دیا ۔ اسلام نے اس کے شرائط و ضوابط متعین کردیے تاکہ ہر کوئی اسے اپنا حق نہ سمجھے ۔

لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی منصب کیسا بھی جلیل القدر ہو اس کی عظمت خود عہدیدار کو ہی قائم رکھنی پڑتی ہے۔ اس سے جڑا ہوا انسان اس کی عظمت سے اسی وقت معظم بن سکتا ہے کہ وہ خود اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو وہ خود اگر اس عہدے کے تقاضوں اور نزاکت کا خیال نہیں کرتا تو اس منصب کی عظمت بلکہ اندیشہ ہے کہ وہ اپنی کوتاہی اور بے حسی سے اس منصب کی اقدار کو ہی پامال کردے گا ۔

امام کو لازمی طور پر ان خامیوں کو جاننا ہوگا جن کی وجہ سے مقتدیوں کی نگاہ میں اس کی عظمت میں کمی آئی ہے اور مقتدی حضرات اپنے آپ کو امام کا آقا و مولا سمجھتے ہیں ۔ مقتدی حضرات کو بھی امام کا حق جاننا چاہیے اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ امامت کا منصب بےحد بزرگی والا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہوگا یعنی ان (مقتدیوں) پر نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ۹۸۳)

آج ائمہ مساجد کے ساتھ عوام کے رویوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حالات کتنے افسوسناک ہیں ۔ وہ شخص جو لوگوں کی نمازوں کی قبولیت کا وسیلہ و ذریعہ ہے ، آج وہ مسجد میں ایک نوکر کی زندگی گزار رہا ہے ۔ جس کی تنخواہ محض چند ہزار ہوتی ہے اور وہ بھی اتنی دھونس کی کہ وہ نمازوں کے ساتھ ساتھ نیاز، دسویں کی فاتحہ ، نماز جنازہ ، نکاح ، مسجد کی صفائی وغیرہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ مسجد کے باہر تھڑوں پر اور بازاروں بیٹھنے والے لوگ جن کو نماز سے کوئی سروکار نہیں اماموں کے حالات پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

نئے نئے مشورے کرتے ہیں کہ امام صاحب کو ایسا کرنا چاہیے ، ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ، امام صاحب کی ذمہ داری ہے وغیرہ ۔ بہت سی جگہوں پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اماموں پر دباؤ بناتے ہیں جس کی وجہ سے ائمہ مساجد حق گوئی سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ شخص بھی جس کے اپنے بچے نہیں سنتے ہو وہ بھی امام صاحب پر فرمانروا ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ امام صاحب کو کوئی پریشانی تو نہیں ۔ انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ان تمام چیزوں کی پرواہ بھی نہیں ہوتی ۔ جو بھی آتا ہے وہ اعتراض اور زبان طعن دراز کرتے ہے ۔

اب بات کرتے ہیں امام صاحب کی تنخواہ پر جو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ اس تنخواہ میں ایک عام آدمی زندگی گزار نہیں سکتا اور اتنے اخراجات ہوتے ہیں جو اتنی مختصر سی تنخواہ میں ممکن نہیں ۔ اماموں کے معاملات پر تو بہت بڑے زورشور پر ہوتی ہے ۔ ان کی غلطیوں کو اجاگر کرنے کےلیے تو بڑی محفل منعقد ہوتی ہیں۔ کیا کبھی اس بات کو لے کر کوئی سنجیدہ ہوا کہ امام صاحب کو نذرانہ کتنا دینا چاہیے ؟ ۔

کیا کسی نے اس بات کو اٹھایا کہ امام صاحب نے یہاں ایک عرصہ گزار دیا سب تعاون کرکے ان کو گھر مہیا کروا دیں ؟ مسجدوں میں لاکھوں کروڑوں لگانے کے لئے تو تیار رہتے ہیں کہ مسجد طرح طرح کے نقش و نگاری سے مزین ہو جائے کیوں کہ یہ اللہ کا گھر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ائمہ مساجد کے احوال سدھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ وہ مسجد کا ایسا ستون ہیں جن کے بغیر جماعت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت ممکن نہیں ۔ اور معاشرے میں امامت کی اہمیت کو اتنا کم سمجھا جاتا ہے کہ امام صاحب کا نام لیتے ہیں ایک عجیب و غریب تصور ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے ۔ کہ امام وہی ہوتا ہے جو غریب ہوتا ہے ۔ سادہ زندگی گزارنے والا جس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا ۔ جو ساری زندگی ایک چھوٹے سے حجرے میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ان کا بچہ امام بن گیا تو کھائے گا کیا وہ اپنے بچے کو غربت کے سمندر میں دھکیلتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ کہ وہ اپنے مسجد کے امام کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔

اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ منصب جو نیابت رسول سے منسلک ہے، اس کےلیے ہم نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔ امامت کے مسائل پر گفتگو ہونی چاہیے اس کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھانی چاہیے ۔ غرض اس مضمون سے یہ ہے کہ ائمہ کرام کے مسائل حل کیے جائیں ۔ ان کو معاشی طور پر مضبوط بنایا جائے ۔ ان کو تجارت کے مواقع فراہم کیے جائیں ، تاکہ وہ خوش دلی سے اس منصب کی انجام دہی کریں ۔ ائمہ حضرات کو بھی چاہیے کہ دین کی تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کریں ، نوجوانوں کو دینی مسائل سے آگاہ کریں ۔ ان کو دین پڑھانا بھی بہت بڑی تبلیغ ہے ۔ جب ائمہ حضرات ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو حالات بدل جائیں گے ان شاء اللہ ۔ اس سے اصلاح کی امید ہے اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔

فقہائے کرام رحمہم الله علیہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ :
مسجد کے متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد اور مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے ۔ (درمختار و شامی،چشتی)

صرف امامت کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی ذمہ داری ڈالنا ، ان سے جھاڑو دینے ، نالیاں صاف کرنے وغیرہ امور کی خدمت لینا ظلم شدید اور توہین ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) کی تعظیم کرو ، بےشک جس نے ان کی تکریم کی اس نے میری تکریم کی ۔ (الجامع الصغیر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کا جھنڈا اُٹھانے والے ہیں ۔ جس نے ان کی تعظیم کی اس نے الله کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی اس پر الله کی لعنت ہے ۔ (کنز العمال و مشکواة،چشتی)

مسجد کی انتظامیہ کو اس کا بھی خیال رکھا چاہیئے کہ امام و مؤذن کی شکل و صورت مسنون ہو اور ان کا تلفظ بھی تجوید کے مطابق درست ہو ۔

آٸمہ و مٶذننین کا تنخواہوں کے ذریعے بھی استحصال کیا جارہا ہے ، خطیر رقم مسجد و مدرسے میں جمع ہونے اور آمدنی کے متعدد ذرائع ہونے کے باوجود قلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں ، بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد ، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں ، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں ، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیے دیتے ہیں جن میں سرِ فہرست امام و مؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے ، اور اکثر چندہ دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ امام و مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو ، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا سانپ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دینا قطعاً ناجائز ہے ، انہیں اپنی اس روِش کو ترک کرنا ضروری ہے ۔

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے لاہو شہر میں دیکھا ہے کہ ایسے بھی ذمہ دارانِ مساجد ہیں جو خود امام و مؤذن کی مکمل اور معقول تنخواہ کا نظم کرتے ہیں ، یا تنخواہ کا ایک حصہ اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ، اور دیگر ذمہ داران کےلیے انہیں مشعلِ راہ بنائے آمین ۔ (چشتی)

لیکن فقیر نے دیگر مختلف شہروں و قصبوں  کی تمام مساجد اور مکاتب کا پروگرانوں کے سلسلے میں جا جا کر مشاہدہ کیا ہے تو وہاں ائمہ و مؤذنین کی ہفتہ واری تنخواہیں بارہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہیں ، چند مساجد ہوں گی جہاں معقول یعنی دو ہزار سے پچیس سو تک تنخواہ دی جاتی ہیں ۔ اکثر مضافاتی شہروں اور گاٶں کی مساجد کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے ، وہاں اب تک ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں ماہانہ تین ہزار تا پانچ ہزار ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

مدارس و مکاتب میں پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے مدرسین کی تنخواہیں عموماً تین ہزار تا پانچ ہزار دی جارہی ہیں ۔ حیرت اور درد کا ایک جھٹکا آپ کو اس وقت بھی لگے گا جب آپ دینی مکاتب و مدارس میں خدمات انجام دینے والی معلمات یہاں تک کہ فقہ اور حدیث شریف کا درس دینے والی جید عالمات کی تنخواہوں کے متعلق معلومات حاصل کریں گے ، پانچ سے سات گھنٹہ تعلیم دینے والی ان معلمات کی تنخواہیں ماہانہ دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہیں ۔

کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا ؟

اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی کم از کم بیس سے تیس سے چالیس ہزار ماہانہ کمالیتا ہے ، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے ؟ ۔ اس امت کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام سے بھی نچلے مقام پر کھڑا کر دیا ہے ۔ لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے ، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے ، تب جاکر یہ معاملہ قابو میں آئے گا ، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ان شاءاللہ ۔ اللہ عزوجل ہم سب اہلِ اسلام کو ان نفوس قدسیہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے ، اور بقدر استطاعت ان حضرات کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ حصّہ اوّل اس لنک میں پڑھیں : ⬇
https://faizahmadchishti.blogspot.com/2023/11/blog-post_7.html

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...