علامہ اقبال اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محترم قارئین کرام : صوفیا کی تعلیم اور ان کا فکر عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہل علم پر مخفی نہیں ۔ عشقِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز اسی فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں : ⬇
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست
بحر و بردر گوشہ دامانِ اوست
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے
ایک اور مقام پر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں ۔
ایک اور مقام پر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں : ⬇
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
اسی مضمون کو اردو میں علامہ اس طرح بیان فرماتے ہیں : ⬇
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال نے امّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ پیغام دیا بلکہ اسی عشقِ رسالت اور نسبتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملتِ اسلامیہ کی بقا و دوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں خائف تھیں ۔
زوالِ اسلام کے اس دور میں جب اقبال ملتِ اسلامیہ کے عروقِ مردہ میں عشقِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میںتھے ۔ اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں اسی عشقِ رسالت کی شمع بجھا دینے کا سوچ رہی تھیں ۔ انہیںمعلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے اور نہ ہی اصلاح و تجدید کی ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہیں ۔ یہ محض یا ایک خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے ۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا : ⬇
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیںکبھی
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
چناچہ اس مقصد کے تحت اہل مغرب نے یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر بعض متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا۔ جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے تحقیق کر کے لا تعداد کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان نہایت نیک نیتی کے ساتھ بھی ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے بارے میںطرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے اور ان کتب کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق رسالت کے تصور سے دور کا واسطہ باقی نہیں رہتا۔ ان مستشرقین نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کا محاذ سنبھال لیا جس سے وہ اپنے مطلوبہ نتائج کافی حد تک حاصل کر رہے ہیں۔ مغرب زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں مبتلا ہو کر خود کو روشن خیال مسلمان تصور کر رہا تھا۔ مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث عشقِ رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت سے عاری ہو گیا اور مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا جدید لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانی اسلام صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وابستہ تو رہا لیکن عشقِ رسول کے عقیدے کو غیر اہم تصور کرنے لگا۔ اس طرح دونوں طبقات اس دولتِ لازوال سے تہی دامن ہو کر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہو گئے۔ جدید تصورات کی گرفت اس قدر مضبوط اور کامل نہ تھی کہ مسلمانوں کی اسلامیت ظاہر و باطن کے اعتبار سے محفوظ رہتی۔ یوں قومی و ملی زندگی تباہی و ہلاکت کا شکار ہو گئی۔ اس دور میں احیائے اسلام اور ملّت کی نشاۃ ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصّہ شہود پر آئی ہیں، ان سب کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجواں نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے، یہی ہے کہ اسلام کو بحثیت نظامِ حیات قبول کر لینا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ ایمان اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اس اتباع کے علاوہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات سے خاص قسم کی قلبی اور جزباتی لگاؤ جسے والہانہ عشق و محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی علامت و احوال سے اہلِ دل بخوبی واقف ہیں مقصودِ ایمان ہے ۔ اس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملی پر جو مضر اثرات مرتب ہوئے محتاج بیان نہیں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل تصور کو قرآن و حدیث اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہم کے آئینے میں اس طرح اجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجواں نسل جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے ، اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کا وہ تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانش فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کر سکیں ۔
بقول اقبال : ⬇
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اور انہیں دین حق کی اس کامل تعبیر کی صیحح معرفت نصیب ہو جسے اقبال نے اس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے : ⬇
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگربہ او نر سیدی تمام بو لہبی ست
فلسفہ کی گہرائی اور خدا شناسی : ⬇
علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا مدار فکر اور معیار تمدن ہمیشہ اسوہ حسنہ رہا۔ ان کا کاسۂ سرعلم سے پر رہا اور کاسہ دل عشق سے معمور رہا۔ علم وہ نہیں جو سوز دماغ ہے بلکہ جوسوز جگر ہے اور عشق وہ نہیں جو بوالہوسوں کاشعار ہے بلکہ جو یزداں شکار ہے۔ علم سے انہوں نے راستہ معلوم کیا اور عشق سے منزل کو پایا۔ بیکن نے سچ کہا ہے کہ فلسفے کا تھوڑا علم انسان کو خدا سے بیزار اور گہرا علم خدا کا پرستار بنادیتا ہے اور اقبال علیہ الرحمہ بلاشبہ فلاسفے کے گہرے عالم تھے۔ وہ اتنی گہرائی میں اتر کر عشق رسول کے موتی چن کر باہرلائے اور انہیں اپنے دامن میں سجاکر پوری دنیا کو دعوت نظارہ دی اور بڑی بلند آہنگی اور خود اعتمادی سے کہا۔ اے منطق و کلام کے متوالو! اس کلام کو پڑھو جو امی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترا ہے۔ شاید تمہارا کام بن جائے۔ اے افلاطون اور ارسطو کے شیدائیوں! ان کی بارگاہ میں پہنچ کر کچھ سیکھو جن کے ہاتھوں نے تختی کو چھوا اور نہ ان کی انگلیوں نے کبھی قلم پکڑا۔ لیکن لوح و قلم کے سارے رازان پر منکشف ہوگئے۔(روزنامہ نوائے وقت 21 اپریل 1994)(علامہ اقبال جن کا سرمایہ ہستی تھی فقط عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحبزادہ خورشید گیلانی)
والدین کی تربیت
اقبال علیہ الرحمہ کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے والد سے ورثہ میں ملا تھا۔ شیخ نور محمد نے جب بھی اقبال کو کچھ سمجھانا ہوتا یا تنبیہ کرنا ہوتی تو وہ قرآن پاک کے حوالے سے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت یا تعلیمات کے حوالے سے کرتے۔ علامہ محمد اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد رحمة اللہ علیہ کے عشق مصطفی کی کیفیت کا ایک واقعہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے حوالے سے فقیر سید وحید الدین نے یوں تحریر کیا ہے : مثنوی رموز بے خودی میں علامہ نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک سائل بھیک مانگتا اور صدا لگاتا ہوا ان کے دروازے پر آیا۔ یہ گدائے مبرم یعنی اڑیل فقیر تھا۔ دروازے سے ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ اس کے بار بار چیخ چیخ کر صدا لگانے پر علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے طیش میں آکر اسے مارا۔ علامہ کے والد اس حرکت پر بہت آزردہ اور کبیدہ خاطر ہوئے اور دل گرفتہ ہوکر بیٹے سے کہا کہ ’’قیامت کے دن جب خیرالرسل کی امت سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور جمع ہوگی تو یہ گدائے دردمند تمہارے اس برتائو کے خلاف حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فریاد کرے گا ۔ علامہ کے والد ماجد اپنے ریش سفید کا واسطہ دے کر بیٹے کو کہتے ہیں کہ مجھے میرے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور یوں رسوا نہ کرو۔ تم چمنِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک کلی ہو ، وہی اخلاق اپناٶ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے ۔ فقیر وحید الدین لکھتے ہیں کہ : شیخ نور محمد علیہ الرحمہ کے حسن تربیت کا یہ اعجاز تھا کہ جب علامہ اقبال قرآن کی آیت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے تھے تو فورا ’’گردن بہ طاعت نہادن‘‘ کی تصویر بن جاتے تھے ۔ (روزگار فقیر جلد دوم صفحہ 152،چشتی)
کوہِ احد پر لرزہ طاری ہوگیا : ⬇
سید نذیر نیازی کی روایت ہے کہ ’’ایک مرتبہ ایک صاحب نے علامہ اقبال کے سامنے بڑے اچنبھے کے ساتھ اس حدیث کا ذکر کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا‘‘ علامہ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا ’’اس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ ومجاز نہیں، بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لئے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ مجازی طور پر نہیں، واقعی لرز اٹھتے ہیں ۔ (اقبال کامل ص 64 اور جوہر اقبال صفحہ 38)
نورِ بصیرت کا راز : ⬇
ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے جواب دیا ’’پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اور اپنی زندگی کو اسی میں ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو ۔ یہی ان کا دیدار ہے۔ کسی نے پوچھاکہ آپ کو اتنی بصیرت کیسے حاصل ہوئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ اکثر اوقات رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا رہتا ہوں۔ اب تک ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے ۔
آپ کے صاحبزادہ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ میں نے اماں جان کی موت پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا مگر قرآن سنتے وقت یا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ 1933ء میں ایک نوجوان نے حکیم الامت سے اس بارے میں استفسار کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تھے تو درخت تعظیم سے جھک جاتے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیونکہ یہ بات ماورائے فطرت معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے جواب دیا کہ تمہارا ذہن مختلف راستے پر منتقل ہوگیاہے۔ تم الجھ کر رہ گئے ہو۔ قدرت کے مظاہرے اور درختوں کے جھکنے میں بھائی یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عشق بتاتا ہے۔ کہ ان کی آنکھ یہ دیکھتی ہے ’’اگر تمہیں عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ نصیب ہو تو تم بھی دیکھو گے کہ دنیا ان کے سامنے جھک رہی ہے ۔ (ماہنامہ فکر ونظر مارچ 1979ء رسالت مآب اور اقبال،چشتی)
ما ترا جوئیم و تو از دیدہ دور
نے غلط، ماکور و تو اندر حضور
علامہ اقبال
ہم آپ کو ڈھونڈتے ہیں اور آپ ہماری آنکھوں سے دور ہیں
نہیں یہ بات نہیں ، آپ سامنے ہیں ، مگر ہم اندھے ہیں
برکات کا نزول : ⬇
علامہ اقبال علیہ الرحمہ سید غلام میراں شاہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں : خدا تعالیٰ! آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت، ہمت، اثر و رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کریں ۔
ان کو ایک اور خط میں لکھتے ہیں : میں آپ کے وجود کو غنیمت سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا اخلاص اور وہ محبت جو آپ کو حضور رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ آپ کے خاندان پر بہت بڑی برکات کے نزول کے باعث ہوگی ۔
اسمِ اعظم : ⬇
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کی خدمت وہی کرسکتا ہے جو عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار ہو اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات پر پورا پورا یقین ہو۔ شیخ اعجاز احمد (علامہ اقبال کے بھتیجے) کہتے ہیں کہ مجھے میری پھوپھی (ہمشیرہ اقبال) نے بتایا کہ میاں جی کو اسم اعظم معلوم ہے اور انہوں نے اسے اقبال کو بتادیا ہے۔ علامہ اقبال لاہور سے سیالکوٹ تشریف لائے تو ایک روز اعجاز صاحب نے ان کے پائوں دباتے ہوئے پوچھا۔ میں نے سنا ہے کہ میاں جی نے آپ کو اسم اعظم بتادیا ہے۔ فرمایا یہ بات تم میاں جی سے ہی پوچھنا۔ چنانچہ ایک دن اعجاز صاحب نے میاں جی سے اسم اعظم کے بارے میں دریافت کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مشکلوں کو آسان کرتی ہے۔ اس لیے دعا ہی اعظم ہے۔ پھر فرمایا۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی اچھی صفات ہیں جس کے ذریعے سے اس سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ مثلا صحت کےلیے یاشافی، رزق کےلیے یارزاق، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی نام پکارنے سے مشکلیں حل ہوتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ الفاظ صرف زبان سے ہی نہیں، دل سے بھی نکلیں اور دل اللہ تعالیٰ کی صفت پر یقین بھی رکھتا ہو۔ اس کے بعد کہا کہ قبولیت دعا کےلیے ایک نسخہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر دعا سے پہلے اور بعد حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجیں۔ کیونکہ درود سے بڑھ کر اور کوئی اسم اعظم نہیں اور تمہارے چچا کو میں نے اسی ’’اسم اعظم‘‘ کی تلقین کی ہے‘‘ (ماہنامہ کوثر نونمبر 1988ء اقبال کیسے بنتا ہے، ص 13-14،چشتی)
خدا چاہتا ہے اور رضائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
غالباً 1929ء کا واقعہ ہے کہ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ تھا۔ علامہ اقبال اس جلسے کے صدر تھے۔ جلسے میں کسی خوش الحان نعت خواں نے مولانا احمد رضا صاحب کی ایک نظم شروع کر دی ۔ ایک مصرعہ یہ تھا : ⬇
خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نظم کے بعد علامہ اقبال اپنی صدارتی تقریر کےلیے اٹھ کھڑے ہوئے اور تجالاً ذیل کے دو شعر ارشاد فرمائے : ⬇
تماشہ تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تعجب تو یہ ہے کہ فردوسِ اعلیٰ
بنائے خدا اور بسائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(نوادر اقبال سرسید بک ڈپو علی گڑھ صفحہ 25)(راجہ رشید محمود اقبال و احمد رضا 1977ء صفحہ 33)
قیمتی آنسو : ⬇
ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ کی زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر وصف جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی ان کے سامنے لیا ، ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوجاتی تھی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر چھڑتے ہی علامہ اقبال علیہ الرحمہ پر وارفتگی طاری ہو جاتی ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے احباب نے انہیں بارہا آنسو بہاتے دیکھا تھا۔ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں : میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں پوری طرح اظہار بہت مشکل ہے۔ وہ کیفیتیں بس محسوس کرنے کی تھیں ۔ (فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر جلد اول صفحہ 94)
چشمِ نمناک : ⬇
فقیر صاحب لکھتے ہیں : ڈاکٹر صاحب کا دل عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گداز کررکھا تھا ۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی۔ آواز بھرا جاتی تھی۔ اور وہ کئی کئی منٹ مکمل سکوت اختیار کرلیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پاسکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں ۔ (فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر جلد اول صفحہ 94)
آنسوٶں کی زبانی : ⬇
فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں : جب ڈاکٹر صاحب راٶنڈ ٹیبل کانفرنس سے واپس آئے تو والد صاحب مرحوم ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدت بعد ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس لئے بڑے تپاک سے ملے اور ڈاکٹر صاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والد صاحب مرحوم نے اثنائے گفتگو کہا ’’اقبال اگر تم یورپ ہوآئے، مصر اور فلسطین کی بھی سیر کی تو کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے‘‘ یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی حالت دگرگوں ہوگئی ۔ چہرے پر زردی چھا گئی اور آنکھں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔ پھر کہنے لگے فقیر! میں کس منہ سے روضہ اطہر پر حاضر ہوتا ۔
مرزا جلال الدین بیرسٹر کہتے ہیں : حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی طبیعت کا سوزوگداز عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کی سرشاری اور استغراق کے درجے پر جا پہنچا۔ آخر میں تو یہ حال ہوگیا تھا کہ ذرا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام کسی کی زبان پر آیا اور آپ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ اسی طرح آپ کو فریضہ حج کی ادائیگی اور روضہ مبارک کی زیارت کی شدید آرزو تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی جاتی تھی۔ آخر زمانے میں بیماریوں اور ضعف کی وجہ سے چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا۔ مگر اس وقت بھی یہی لگن تھی کہ شاید طاقت عود کر آئے اور مجھے یہ مقدس سفر نصیب ہوجائے ۔ (جلال الدین بیرسٹر ملفوظات اقبال)
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⬇
1926ء میں لاہور میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رکھنے کے تین طریقے بتائے ۔ پہلا طریقہ درود سلام ہے جو مسلمان کی زندگی کا جزولاینفک ہے۔ دوسرا طریق اجتماعی ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور کوئی حضور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوانح حیات بیان کرے اور ’’تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسول اس کثرت اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوئوں کا خود مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مقدس سے پیدا ہوتی تھی، وہ آج ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے ۔ (آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید، ص306،چشتی)(ماہنامہ صوفی منڈی بہاء الدین، اکتوبر 1926)(راجہ رشید محمد و اقبال و احمد رضا ص 60-61)
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⬇
لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید اپنے مضمون ’’علامہ اقبال کا تصور انسان کامل‘‘ میں کہتے ہیں : اقبال نے اپنے لیکچروں میں ایک شعر نقل کیا ہے : ⬇
موسیٰ زہوش رفت بیک جلوۂ صفات
توعینِ ذات می نگرمی درتبسمی
اس شعر میں ’’صفات‘‘ اور ’’ذات‘‘ کے الفاظ غور طلب ہیں ۔ یہ کیا مقام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضور سرور کونین محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ آ میرے محبوب ! میں تجھے اپنا آپ دکھاٶں ۔۔۔ جہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیگر انبیاء علیہم السلام پر بہت سی فضیلتیں ہیں ، وہاں یہ دو سب سے اہم ہیں ، خاتمیت ، معراج ۔ (بصیر کراچی عید میلاد النبی ایڈیشن مئی 1972ء صفحہ 39)
نبوت کے اجزاء : ⬇
سید نذیر نیازی کے نام خط میں انہوں نے لکھا : ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزاء نبوت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بناء پر قتل کیا گیا تھا ۔ (انوارِ اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار صفحہ 45-46،چشتی)
نعتیہ اشعار بقائے دوام : ⬇
شاعر مشرق کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر معمولی وابستگی کا ثمر یوں عطا ہوا کہ ان کے نعتیہ اشعار بقائے دوام حاصل کر گئے ۔ زمانہ صدیوں کی مسافتیں طے کرتا رہے گا مگر اقبال علیہ الرحمہ کے نعتیہ کلام کی آب و تاب میں کمی رونما نہیں ہوگی ۔ بلکہ ہر آنے والا دور اس سے فیض یاب ہوتے ہوئے فخر محسوس کیا کرے گا۔ مروجہ اسلوب میں باقاعدہ نعت گوئی نہ کرنے کے باوجود بھی علامہ اقبال علیہ الرحمہ توصیفِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنا کچھ کہہ گئے ہیں کہ زمانے بھر کے نعتیہ دوادین سے ان کے نعتیہ اشعار کا مقام و مرتبہ اولیٰ تر ہے۔ کیونکہ انہوں نے کوئی بھی نعتیہ کلام نعت برائے نعت کے حوالے سے نہیں لکھا۔ بلکہ ان کی نعت مفاہیم ومضامین کاعزوم بے کنار اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ نئے سے نیا پیغام، نئی سے نئی تجلی ، غرضیکہ تجلیات نعت کی فراوانی نے ان کی نعت کو عالمگیریت عطا کردی ہے ۔ (پروفیسر محمد اکرم رضا علامہ اقبال گلزار نعت میں کاروان نعت صفحہ 163،چشتی)
دیدارِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⬇
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہونے کی علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے بہت عمدہ اور دلچسپ تفسیر و توجیہ کی ہے ۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اتباعِ رسول اور تقلید نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب جانے کا نام ہی دیدار رسول ہے ۔ دنیا میں ایسے زندگی بسر کرو جیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ تم کو تلقین کرتا ہے ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم کو جن و انس سب میں مقبولیت حاصل ہوجائے گی ۔ آپ کی سنت کی پیروی میں ڈوب کر خود شناسی حاصل کرو۔ یہی آپ کا دیدار ہے ۔ (اقبال اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی)
روئے تو ایمان من قرآن من
جلوۂ داری دریغ از جان من
علامہ اقبال
آپ کا چہرہ ہی میرا ایمان اور میرا قرآن ہے
آپ اپنے دیدار سے مجھے کیوں محروم رکھتے ہیں
ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⬇
ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدے پر گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ : ختم نبوت کے عقیدے کی ثقافتی قدروقیمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کےلیے اعلان فرمادیا کہ آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہو گی ۔ میرے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلاچوں و چرا تسلیم کرلو ۔ ختم نبوت ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت انسانی علم کے دائرے کو وسعت نصیب ہو گئی ۔ (ملفوظات اقبال یوسف سلیم چشتی)
جواب شکوہ : ⬇
شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پروانے نے بارگاہ الٰہی میں جب ’’شکوہ‘‘ پیش کیا اور مسلمان کی حالت زار کی نشاندہی کی تو کس عقیدت اور محبت سے مقام رسول کو خدا کی جانب سے بطور ’’جواب شکوہ‘‘ متعین کیا : ⬇
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(ماہنامہ کاروان قمر، مارچ 2010ء ص 25)
فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⬇
علامہ اقبال علیہ الرحمہ خطابت میں فرماتے ہیں : پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم و جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے ۔ بااعتبار اپنے سرچشمہ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے۔ لیکن بااعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے ۔ یہ آپ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سرچشمے منکشف ہوئے جو آئندہ رخ کے عین مطابق تھے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ کے زمانے میں ہوا کرتے تھے ۔ (ماہنامہ کاروان قمر مارچ 2010 صفحہ 24،چشتی)
مقامِ حضرت بلال رضی اللہ عنہ : ⬇
یہ سب عزت و عظمت عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ان کو حاصل ہوئی تھی اور دنیا میں روزانہ پانچ وقت اذان کی آواز بلند ہوتی ہے ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو آپ کو جنت میں ایک طرف سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تو محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں پوچھا تو جواب آیا کہ یہ آپ کے موذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ سبحان اللہ ۔ (ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈاکٹر حمید یزدانی)
اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
روحانی غذا : ⬇
1931ء میں بیرون موچی دروازہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا ، تقریر غزالی زماں (فقیر چشتی کے استادِ محترم) قبلہ علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ کی اور صدارت حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی تھی ۔ اس جلسہ کی کیفیت اور حضرت علامہ علیہ الرحمہ کے عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہانی علامہ کاظمی علیہ الرحمہ کی زبانی سنیے فرماتے ہیں : علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے دل میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس کی عظمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ یہ حسنِ اتفاق تھا کہ 1931 ’’دارالعلوم نعمانیہ لاہور‘‘ کے مدرس کی حیثیت سے میں ایک جلسہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرکت کےلیے گیا ۔ اس جلسہ کا اہتمام بیرون موچی دروازہ کیا گیا تھا ۔ علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ کا تعارف مجھ سے کرایا گیا ۔ میں نے ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ پر سیر حاصل تقریر کی ۔ دورانِ جلسہ وہ اس قدر روئے کہ ہر دیکھنے والا یہ محسوس کررہا تھا کہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں مخمور تھے ۔ جلسے کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں آج روحانی غذا میسر کی ہے ۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ ذی علم تو تھے مگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس کی عظمت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ وہ ایک سچے مسلمان تھے۔ ان کی شاعری میں خالصتاً اسلام کا رنگ جھلکتا تھا ۔ (روزنامہ امروز 24 فروری 1982، مضمون سید محمد عبد اللہ قادری،چشتی)(ماہنامہ جہان رضا اپریل 2010)
اتباع : ⬇
اسی طرح ’’اسرار خودی‘‘ میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں انہوں نے بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ سنت کے بے حدپابند تھے اور انہوں نے خربوزہ صرف اس لیے نہ دکھایا کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پھل کو کبھی کھایا یا نہیں اور اگر کھایا تو کس طرح ۔ یہ بات یاد رہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ کے علامہ ’’بسطام‘‘ میں خربوزہ بڑی وافر مقدار میں ہوتا ہے : ⬇
کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد
(ماہنامہ کاروان قمر مارچ 2010)
بسطام کا مرد کامل نسبت رسول میں بے مثال تھا ۔ حتیٰ کہ اتباعِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خربوزہ کھانے سے اجتناب کرتا تھا ۔
گل صد برگ : ⬇
ڈاکٹر صاحب ’’اسرار و رموز‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی مثال گل صد برگ کی سی ہے کہ گو اس میں سو پنکھڑیاں ہیں مگر سب ایک اصل سے وابستہ ہیں اور میں تمہیں کیا بتائوں کہ آپ کی محبت کیا چیز ہے۔ یہ محبت تو وہ ہے جو بے جان چیزوں کوبھی آپ کے لئے بے قرار رکھتی ہے۔ چنانچہ منبر کی خشک لکڑی بھی آپ کی جدائی میں ایسے زار و قطار اور بلند آواز سے روئی تھی کہ سننے والے ششدر رہ گئے۔ مسلمانوں کا وجود آپ کے جلوئوں سے روشن ہے اور آپ کے قدموں کی خاک ایسی مقدس اور بلند رتبہ ہے کہ اس سے طور جنم لیتے ہیں۔ سبحان اللہ خاکِ طیبہ ! یہاں کی خاک دونوں عالم سے بہتر اور بڑھ کر ہی ۔
مٹی صاحب ایمان : ⬇
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے جسم میں استعمال ہونے والی خاک کو اس شہر مدینہ (مدینہ منورہ) کی خاک کا وہ حصہ ہونے کا شرف حاصل ہے جہاں میری آخری آرام گاہ ہے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا جس اللہ کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے اس کی قسم مدینہ منوہ کی مٹی بھی صاحبِ ایمان ہے ۔ چنانچہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بھی خوب فرمایا ۔ (نقوش سیر نمبر 9)
خاک طیبہ از دو عالم خوش تر اسب
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست
ترجمہ : طیبہ کی خاک دونوں جہانوں سے بہتر ہے۔ اے (دل) کی ٹھنڈک شہر کہ وہاں محبوب ہے ۔
زندہ واپس نہیں آئیں گے : ⬇
میر غلام بھیک نیرنگ تحریر فرماتے ہیں : اقبال کا قلبی تعلق حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات قدسی صفات سے اس قدر نازک تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آتے ہی ان کی حالت دگرگوں ہوجاتی تھی ۔ اگرچہ وہ فورا ضبط کرلیتے تھے ۔ چونکہ میں بارہا ان کی یہ کیفیت دیکھ چکا تھا ۔ اس لیے میں نے ان کے سامنے کچھ نہیں کہا ۔ مگر خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقد پر حاضر ہوں گے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے ۔ وہیں جاں بحق ہو جائیں گے ، میرا اندازہ یہی تھا ۔ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ (سید عبدالرشید فاضل اقبال اور عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ 51-52،چشتی)
آخری خواہش : ⬇
چراغ سحری بجھا چاہتا ہوں ۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن حکیم سے متعلق اپنے افکار قلمبند کرجاٶں ۔ جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن آپ کے جدِ امجد (حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجالایا ۔ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف تھے ، وہ اس دین کی خدمت بجالانے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ سمجھتے تھے ۔
تو اے مولا طیبہ آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی ، میرا ایمان ہے زناری
آخری عمر میں ان کا حال یہ تھا کہ وہ قرآن حکیم اور مثنوی مولانا روم علیہ الرحمہ کے علاوہ ہر قسم کا مطالعہ چھوڑ بیٹھے تھے۔ حکیم محمد حسن عرشی کے نام لکھتے ہیں : آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہوجائے تو اور کیا چاہیے ۔ شوق خود مرشد ہے ۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں ۔ اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی ۔ (ماہنامہ فکر و نظر اسلام آباد اپریل 1986 اقبال کے خطوط کے چند نظریاتی پہلو،چشتی)
یم عشق کشتی من یم عشق ساحل من
نہ غم سفینہ دارم نہ سر کرانہ دارم
شر رے فشاں و لیکن شر رے کہ دانسوزد
کہ ہنوز نو نیازم غم آشیانہ دارم
علامہ اقبال
دریائے عشق ہی میری کشتی ہے، دریائے عشق ہی میرا ساحل ہے
نہ مجھے سفینے کا غم ہے اور نہ ہی کنارے کی خواہش ہے مجھے پر اپنی
محبت کی چنگاری ڈالیے ، مگر ایسی نہیں جو مجھے بالکل ہی جلادے
میں نو نیاز عشق ہوں ، میرے اندر ابھی تک آشیانے سے وابستگی باقی ہے ۔
خوشنودی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⬇
1931ء میں علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کےلیے لندن گئے تو راستہ میں اسکندریہ (مصر) کے جہاں مصر کے دیگر علماء شخصیات کے ساتھ سید محمد قاضی ابوالعزام نے استقبال کیا اور پھر شام کو اپنے صاحبزادوں کے ساتھ علامہ کی قیام گاہ پر ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ علامہ نے کہا : میں خود زیارت کےلیے حاضر ہو جاتا ۔ آپ کیوں تشریف لائے ؟ قاضی ابوالعزم نے کہا کہ خواجہ دوجہاں کا ارشاد ہے : جس نے دین سے تمسک کیا اس کی زیارت کو جائو گے تو مجھے خوشی ہوگی لہذا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق چلا آیا ہوں کہ میرے آقا خوش ہوں ۔ علامہ نے سنا تو بے تاب ہو گئے اور انہیں ایک چپ سی لگ گئی ۔ سید قاضی ابو العزم نصیحتیں کرتے رہے اور علامہ سنتے رہے ۔ جب وہ واپس ہوئے تو علامہ دیر تک روئے اور فرمایا : ایسا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گنہ گار کو متمسک بالدین جان کر خواجہ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی اتباع میں حضورﷺ کی خوشنودی کے لئے ملنے آتے ہیں۔ اتنا کہہ کر پھر روئے کہ ہچکی بندھ گئی ۔ (ماہنامہ کاروان قرم مارچ 2010ء صفحہ 33،چشتی)
حج بیت اللہ کی آرزو : ⬇
علامہ اقبال علیہ الرحمہ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا بے حد شوق تھا ۔ ان ہی کوایک خط میں لکھتے ہیں ’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین برس سے میرے دل میں ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے تو مزید برکت کا باعث ہو، چند روز ہوئے سر اکبر حیدری وزیراعظم حیدرآباد کا خط مجھے ولایت سے آیا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ تمہاری معیت میں نصیب ہو تو بڑی خوشی کی بات ہے لیکن درویشوں کے قافلے میں جو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہوسکتی ہے ۔ وفات سے ایک سال پہلے بھی ان کے دل میں یہ خواہش موجزن تھی ۔ سر راس مسعود کے نام جو ان کے جگری دوست تھے لکھتے ہیں : امسال دربار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کا قصد تھا ۔ مگر بعض موانع پیش آگئے ۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ سال (آئندہ) حج بھی کروں گا اور دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری بھی دوں گا ۔ اور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لائوں گا کہ مسلمانان ہند یاد رکھیں گے ۔ (10 جنوری 1937،چشتی)(ماہنامہ فکر و نظر اسلام آباد 1986، اقبال کے خطوط کے چند نظریاتی پہلو کیپٹن محمد حامد)
مرد مومن : ⬇
سلطانِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر معمولی محبت اور عشق و عقیدت نے انہیں تاریخ اسلام کا مرد مومن بنادیا۔ وہ مرد مومن کہ جس کی عظمتوں کو وقت آخر انہوں نے یوں سلام کیا تھا : ⬇
نشان مرد مومن باتو گویم
چو مرگ آید تبسم برلب اوست
اور پھر اقبال علیہ الرحمہ کی وہ رباعی جو انہوں نے اپنے وصال سے چند منٹ پیشتر کہی ۔ یہ وہ وقت تھا کہ سانس بھی رک رک کر چل رہا تھا ۔ بعض اوقات آنکھوں کے اشارے اور ہاتھ کی جنبش سے کچھ سمجھاتے تھے ۔ راجہ حسن اختر صاحب کا بیان ہے کہ علامہ مرحوم نے انتقال سے تقریباً دس منٹ قبل اپنا حسبِ ذیل قطعہ کہہ کر وقت آجانے کا اعلان کر دیا تھا : ⬇
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید ؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
ترجمہ : سرزمین حجاز سے آنے والی خوبصورت اور زندگی بخش ہوا کہ جھونکے ختم ہونے کو ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ اس طرح کی ٹھنڈی اور فرحت افزا ہوا چلے گی یا نہیں ۔ ایک مرد حق آگاہ کی زندگی کا پیالہ لبریز ہو چکا ہے اس قدر دور اندیش انسان مسلمانوں میں پھر کبھی پیدا ہوگا یا نہیں ۔ (پروفیسر محمد اکرم رضا، علامہ محمد اقبال گلزار نعت میں کارواں نعت صفحہ 163) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment