Monday, 27 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ دوم

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ دوم
محدثینِ کرام علیہم الرحمہ نے جو شیعہ راوی سے استدالال کے قواعد بنائے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں ۔ بلکہ اس کو تشیع کے ساتھ مخصوص کرنا ہی جہالت ہے کیونکہ ان کے یہ اصول بدعتی کی روایت کے بارے میں ہے نہ کہ صرف ایک فرقہ سے مختص ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ امام بخاری اور امام مسلم علیہما الرحمہ نے شیعہ راویوں سے فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ میں روایات لیں ہیں ۔ جو ان کے مذہب کو تقویت دیتی ہیں ۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ یہ اعتراض اصول سے بے خبری اور جہالت کا نتیجہ ہے ۔سطحی قسم کا مطالعہ ایسے سوالات اٹھانے میں کافی معاون ثابت ہوتا ہے ۔ لہٰذا انسا ن اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے محدثین کرام علیہم الرحمہ پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیتا ہے ۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کے موافق بظاہر نظر آتی ہے ۔ یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلاں راوی شیعہ ہے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں روایت کرتا ہے ۔ جیسے انت منی و انا منک تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہو ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاۃ رقم الحدیث : ۴۰۰۵،چشتی) ۔ اسی طرح حدیث : لا یحبک الا مومن و لا یبغضک الا منافق ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار علی من الایمان الخ رقم الحدیث:۱۱۳) ۔ ترجمہ : تجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور تجھ سے منافق یہ بغض کرے گا ۔

اس بارے عرض ہے کہ ان دونو ں باتوں میں ایک واضح فرق موجود ہوتا ہے ۔اور وہ فرق یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات میں جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل وارد ہوئے ہیں ان میں شیخین کریمین یا صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص نہیں ہوتی ۔ اور نہ ہی اس میں غلو ہوتا ہے اورنہ ہی الفاظ رکیک ہوتے ہیں اور معانی میں ضعف نہیں ہوتا ۔جیسا کہ مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہو رہا ہے ۔ اس لیے اس کو قبول کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ محدثین علیہم الرحمہ سند کے ساتھ متن کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔ جبکہ شیعہ راویوں کی مذہب کی تقویت والی روایت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس میں اکثر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے شان میں غلو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص ہوتی ہے ۔ ان کے معانی بڑے ہی ضعیف ہوتے ہیں اور الفاظ رکیک ہوتے ہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کوئی شیعہ راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی روایت بیان کرے تو اہل سنت اس کی صرف وہ روایت تسلیم کرتے ہیں جو قواعدِ اہل سنت کے موافق ہوں ۔ اور یہ قواعد یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کی شان بہت بلند اور اعلیٰ ہے جیسا کہ روایات سے ثابت  ہیں مگر دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص اس سے ثابت نہ ہو ۔ جو ان قواعد کے دائرہ کار میں ہوں تو ہم ا س شیعہ (مفسق بدعتی) کی روایت قبول کرتے ہیں اور اس کی بدعت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اعتقاد بدعت ہرگز نہیں ہے اور جو شیعہ یا رافضی اس قواعد کے خلاف روایت کرے تو ہم اس کو رد کرتے ہیں اور اس کو قبو ل نہیں کیا جاتا ۔ (اسکی مزید تفضیل عرب محقق کی کتاب اتحاف النبیل ابی الحسن السلیمانی صفحہ ۲۴۷ میں ملاحظہ فرمائیں،چشتی)

لہٰذا صداقت فریدی یا اس کے بڑے روافضیوں نے جو مثالیں پیش کیں ہم ان روایات کو ماننا اپنا دین اور مذہب سمجھتے ہیں ۔ مگر ان روایات کے ذریعے جو احتمالات اور شکوک لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی وہ فضول ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ محدثین کرام علیہم الرحمہ صرف سند پر ہی نہیں بلکہ متن پر بھی کڑی شرائط عائد کر کے اس کو قبول کرتے تھے ۔ اس کے برعکس یہ روایات مذکورہ  بالا جو صداقت فریدی یا اس کے بڑے روافضیوں نے اہل سنت کے اصولوں کے رد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ تو خود ان کا رد کر رہی ہیں ۔ کیونکہ ان روایات سے تو اہل سنت کی محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ثابت کر رہی ہے ۔ اور صداقت فریدی یا اس کے بڑے روافضیوں کا محدثین کرام علیہم الرحمہ پر یہ الزام کہ وہ بدعتی اور غیر بدعتی کے تقسیم اس لیے کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کا انکار کر سکیں بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ محدثین نے جس شاندار طریقے سے عظمت اہل بیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی شان بیان کی وہ تو قابل تحسین ہے۔اللہ تعالیٰ محدثین کرام کو جزاء خیر عطا فرمائے ۔

وذكر شهاب أنه سمع ابن عيينة يقول : تركت جابرا الجعفي وما سمعت منه ، قال : دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا فعلمه مما تعلم ، ثم دعا على الحسن فعلمه مما تعلم، ثم دعا الحسن الحسين فعلمه مما تعلم ۔ ثم دعا ولده ۔ حتى بلغ جعفر بن محمد ۔ قال سفيان : فتركته ذلك ۔
ترجمہ : ابن عیینہ کہتے ہیں میں نے جابر جعفی کو ترک کر دیا  اور پھر کوئی روایت نہ سنی اس سے جب اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں ان چیزوں کا علم دیا جس کا علم آپو کو علم حاصل تھا  پھر حضرت  علی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو وہ علم دیا اور سب علم ان کو دیا  پھر حضرت حسن نے حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا اور ان کو سارا علم دیا پھر انہوں نے اپنے صاحبزادے کو یہاں تک کہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ تک پہنچے ۔

حضرت امام سفیان بن عیینہ علیہ الرحمہ کہتے ہیں (اس روایت کے سبب) میں نے اس (جابر الجعفی) کو ترک کر دیا ۔

الحسن بن علي الحلواني ، حدثنا أبويحيى الحمانى ، حدثنا قبيصة وأخوه ۔ أنهما سمعا الجراح بن مليح يقول : سمعت جابرا يقول : عندي سبعون ألف حديث عن أبي جعفر عن النبي صلى الله عليه وسلم كلها ۔
ترجمہ : جرح بن ملیح کہتے ہیں  میں نے جابر جعفی کو کہتے سنا میرے پاس ستر ہزار ایسی احادیث ہیں جو سب امام باقر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں ۔ (میزان اعتدال برقم : ۱۴۲۵،چشتی)

یہ حال ہے شیعہ کے سب سے بڑے  عالم کا کہ جس کے حفظ و اتقان کے حوالے سے کوئی مسلہ نہ تھا بلکہ ثقہ تھا اور بظاہر عبادت گزار بھی تھا لیکن حدیث صحیح بیان کر کے اپنی توثیق ظاہر کی پھر اس کے بعد اپنے مذہب کی تقویت میں ایسی ایسی روایتیں بیان کرنے لگا کہ متروک بن گیا ۔

لیکن اس کے تفرد کے سبب متاخرین آئمہ نے اس کو ضعیف رافضی قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ شیعہ رافضیوں کے رویات سے کتنا پرہیز کرتے تھے ۔

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے راوی کا قول : ⏬

وقال : وحدثنا عبد الحميد الحماني، قال: سمعت أبا سعد الصغاني قام إلى أبي حنيفة، فقال: يا أبا حنيفة، ما تقول في الأخذ عن الثوري ؟فقال: اكتب عنه، فإنه ثقة ما خلا أحاديث أبي إسحاق عن الحارث، وحديث جابر الجعفي ۔
ترجمہ : امام الحمانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو سعد الصغانی کو سنا کہ وہ ابو حنیفہ کی طرف آیا اور کہا کہ اے ابو حنیفہ آپ سفیان الثوری سے (حدیث) لینے کے بارے کیا کہتے ہیں ؟ تو ابو حنیفہ نے فرمایا ان سے لکھ لو کیونکہ وہ ثقہ ہیں سوائے ان احادیث میں کہ جب جو وہ ابی اسحاق کے طریق سے الحارث سے بیان کریں اور ان احادیث کے جب وہ جابر جعفی سے بیان کریں ۔ (دلائل النبوی جلد ۱ صفحہ ۴۴ وسندہ حسن)

یہاں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ابو اسحاق سبیعی کے طریقے سے حارث جو کہ شیعہ کے بڑے علماء میں سے تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شاگرد تھا اسکی روایات کو بیان نہ کرنے کا فتویٰ دیا ہے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس پر زیادہ بحث کرنے کی بجائے ابن حجر کے مختصر کلام سے سمجھ لیتے ہیں ۔ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا اپنا کلام تقریبب میں ہے : صاحب علي : كذبه الشعبي في رأيه، ورمي بالرفض، وفي حديثه ضعف ۔
ترجمہ : یہ صاحب علی تھا ، امام شعبی نے اس کو رائے میں جھوٹا قرار دیا ہے ، اور اس کو رفض کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے ، اور اس کی حدیث میںں کمزوری ہوتی ہے ۔ (تقریب التہزیب)

یہ اپنی رائے میں جھوٹا تھا  یعنی جب کلام کرتا یا معنی یا تفسیر بیان کرتا تو غلط بیانی کراتا تھا اور یہ رافضی بھی تھا  اور اس کی روایت میں کمزوری ہے یعنی اس کا تفرد قبول نہ ہوگا اس وجہ سے کہ یہ متن میں تدلیس کرتے تھے ایسے راوی یعنی اصل روایت کا بالمعنی الفاظ استعمال کر کے اس روایت کو یکسر تبدیل کر دیتے جس سے یہ کذب کی جرح سے بھی بچ جاتے اور فضائل اہل بیت  میں باطل روایات بھی پھیلا دیتے ۔

سالم بن ابی حفظہ ۔ اس راوی کے بارے امام ابن حجر علیہ الرحمہ کہتے ہیں : صدوق فى الحديث إلا أنه شيعى غالى ۔
ترجمہ : صدوق ہے حدیث میں سوائے یہ کہ یہ غالی شیعہ تھا ۔ (تقریب التہذیب)

امام ذھبی علیہ الرحمہ میزان الاعتدال میں اس راوی پر تفصیل لکھتے ہیں : قال الفلاس: ضعيف مفرط في التشيع.وأما ابن معين فوثقه.وقال النسائي:ليس بثقة. وقال ابن عدي: عيب عليه الغلو، وأرجو أنه لا بأس به ۔
ترجمہ : افلاس کہتا ہے یہ ضعیف ہے اور شیعت میں غالی تھا بہت ،ابن معین نے ثقہ قرار دیا اور نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں ہے۔ابن عدی کہتے ہیں اس پر عیب اسکے غالی ہونے کی وجہ سے ہے میرا خیال ہے اسکی روایت میں کوئی حرج نہیں ۔
اس کے بعد امام ذھبی علیہ الرحمہ کے غالی شیعت کے بارے نقل کرتے ہیں : وقال محمد ابن بشر العبدي: رأيت سالم بن أبي حفصة ذا لحية طويلة أحمق بها من لحية، وهو يقول: وددت أنى كنت شريك علي عليه السلام في كل ما كان فيه. الحميدي، حدثنا جرير بن عبد الحميد، قال: رأيت سالم بن أبي حفصة وهو يطوف بالبيت، وهو يقول: لبيك مهلك بنى أمية ۔
ترجمہ : محمد بن بشر کہتے ہیں میں نے سالم بن ابو حفصہ کو دیکھا اس کی داڑھی لمبی تھی اور وہ ایک احمق شخص تھا ، وہ یہ کہتا تھا میری خواہش ہے میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں موجود ہر خوبی میں ان کا حصہ دار بن جاٶں ، جریر بن عبدالحمید کہتا ہے میں نے سالم کو دیکھا وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتا تھا : اے بنو امیہ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کو ہلاک کرنے والے میں حاضر ہوں اور یہ راوی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہودی کہتا تھا ۔ وقال حسين بن علي الجعفي: رأيت سالم بن أبي حفصة طويل اللحية أحمق، وهو يقول: لبيك قاتل نعثل ۔
ترجمہ : حسین بن علی جعفی کہتا ہے میں سالم کو دیکھا یہ بڑے قد والا اور لمبی داڑھی ولا احمق تھا اور کہتا تھا یں نعثل (یہودی عثمان) کو قتل کروانے والی ذات کی بارگاہ میں حاضر ہوں ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) ۔ (میزان الاعتدال)

اب ایسے خبیث راوی جو غالی ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دشمن تک ہو ان کو یہودی کہتا ہو تو کیا ایسے صدوق غالی بدعتی حرامی راوی کی روایت ردی کی ٹوکری میں پھینکی جائے یا اس کو لیا جائے ؟

اس کا فیصلہ سنی حضرات کو کرنا ہے ۔

لیکن امام ذھبی علیہ الرحمہ نے ایسے راوی سے احتجاج نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔

سالم بن أبي حفصة أبو يونس الكندي عن الشعبي وإبراهيم بن يزيد التيمي وعنه السفيانان وابن فضيل ۔ شيعي لا يحتج بحديثه ۔ (الکاشف برقم : ۱۷۶۸)

اب یہاں یہ بات یقینی ہے کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ نے اس سے احتجاج نہ کرنے کا فصیلہ اس کے فقط شیعہ ہونے کے سبب کیا ہے جبکہ وہ اس کے اتقان کے مضبوط ہونے پر مطلع تھے لیکن احتمال شیعت کے سبب اس کی روایت سے سکوت کو ہی اولیٰ سمجھا ۔

اب ایک اور شیعہ راوی سے روایات کے متن میں تدلیس کا ثبوت دیتے ہیں جو ائمہ کی تصریح کے مطابق صدوق شیعہ راوی تھے جیسا کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ اس پر جرح و تعدیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ورمى السدي بالتشيع ۔ اس کو شیعت کی طرف منسوب کیاگیا ہے ۔ (میزان الاعتدال برقم : 907)

اور ایسے ہی امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ تقریب میں اس کے بارے فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں : الكوفي : صدوق يهم ورمي بالتشيع ، یہ کوفی ہے صدوق ہے اور وھم بھی کا جاتا تھا اور شیعت کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس کو ۔ (تقریب التہذیب برقم : 463)

جبکہ امام نسائی علیہ الرحمہ اس سے ایک روایت بیان کرتے ہیں ، امام نسائی علیہ الرحمہ ایک روایت بیان کرتے ہیں الخصائص علی رضی اللہ عنہ میں : أَخْبرنِي زَكَرِيَّا بن يحيى قَالَ حَدثنَا الْحسن بن حَمَّاد قَالَ حَدثنَا مسْهر ابْن عبد الملک عَن عِيسَى بن عمر عَن السّديّ عَن أنس بن مَالك أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ عِنْده طَائِر فَقَالَ اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأحب خلقك إِلَيْك يَأْكُل معي من هَذَا الطير فجَاء أَبُو بكر فَرده وَجَاء عمر فَرده وَجَاء عَليّ فَأذن لَهُ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پرندہ پکایا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ اس بندے کو بھیج دے جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے وہ میرے ساتھ آکر اس پرندے کو کھا لے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں واپس بھیج دیا پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپس بھیج دیا پھ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو اندر آنے کی اجازت دی ۔ (خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، برقم: 10)

اب اس روایت میں بہت سارا متن نکارت پر بلکہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر بھی حملہ موجود ہے اس میں کہ اللہ حضرت ابو بکر کو لائے لیکن معاذاللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو واپس بھیجا یعنی اللہ کی رضا اور تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور اور یہ روایت غلو پر مبنی ہے اور اس روایت کا مدار اس راوی پر ہے ۔ جبکہ یہ پہلے روایت کرتا تھا تو حضرت ابو بکر  وغیرہ کا نام نہیں بلکہ مجہول رجل کہہ کر روایت بیان کرتا تھا : دَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الطَّيِّبِ بْنِ الشُّجَاعِ، حَدَّثَنا الحسن بن حماد الضبي، حَدَّثَنا مسهر بْن عَبد الملك بْن سَلْعٍ عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَر الْقَارِي عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبد الرَّحْمَنِ السُّدِّيِّ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ، أَن النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ كَانَ عِنْدَهُ طَائِرٌ فَقَالَ اللَّهُمَّ آتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي هَذَا الطَّائِرُ فَجَاءَ رَجُلٌ فَرَدَّهُ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَرَدَّهُ ثُمَّ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَأَذِنَ لَهُ فَأَكَلَ مَعَهُ ۔ امام ابن عدی نے جو بیان کیا ہے اس میں رجال کا نام نہیں ہے ۔ (الکامل ابن عدی)

لیکن پھر یہ خلفاء رضی اللہ عنہم کا نام متن میں گھسا دیا اور یہ کام شیعہ کرتا ہے تاکہ کذب کی جرح سے بچ جائے ایک جگہ مجہول کہا اور دوسری جگہ بقول اس کے نام کی تصریح دے دی  اس وجہ سے انکی ثقہ صدوق توثیق دیکھ کر آنکھیں بند کرکے انکی روایات کبھی قبول نہیں کی جا سکتی خاص کر  جب مسلہ صحابہ یا معاملات مولا علی رضی اللہ عنہ کے بارے ہوں ۔

بہت سے ایسے صدوق شیعہ راوی ہیں جن کے تفرد پر ائمہ نے احتمال اور شکوک و شبھات کا علان کیا ہوا ہے ۔ جیسا کہ ایک راوی جو جمہور کے نزدیک صدوق ہے امام ابن حبان علیہ الرحمہ کہتے ہیں : روى عَن الثِّقَات تفرد عَنْهُم بأَشْيَاء فِي الْقلب مِنْهَا ۔ جب یہ ثقات سے روایت میں منفرد ہوتا ہے تو اس کے متعلق میرے دل میں شک ہے ۔ (الثقات ابن حبان)

اس طرح امام ابن عدی ایسے شعیہ راوی کے بارے جو کہ خاص بس فضائل اہل بیت کی روایات بیان کرتا تھا اور اس میں  اس کا تفرد تھا ۔

اور امام ابن عدی اس پر جرح خاص کرتے ہوئے کہتے ہیں : وجعفر الأحمر له أحاديث يرويه عَنْهُ غير أهل الكوفة غير ما ذكرته، وَهو يروي شيئا من الفضائل، وَهو فِي جملة متشيعة الكوفة، وَهو صَالِح فِي رواية الكوفيين ۔ کہ جعفر جو احادیث غیر اہل کوفہ ے بیان کرتا ہے جسکا میں نے ذکر کیا ہے جو کہ فضائل میں کچھ مروی ہیں یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ایک تھا ۔ اور یہ (صرف) کوفین سے روایت کرنے میں صالح ہے ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال)

تو ایسے راویوں کے بارے یقیناً یہی منہج سب سے اعلیٰ ہے کہ ان کی روایات ان کے مذہب کے موافق ترک ہی ہونگی اور ایسی روایات جن کا تعلق ایسے راویان کے مذہب و فکر سے نہیں وہ قبول ہونگی ۔ اور یہ تخصیص خود ناقدین سے مروی ہے ۔ جیسا کہ ایک راوی کے بارے امام ابن عدی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : عبید اللہ بن موسی ۔ یہ راوی ویسے تو صدوق و حسن الحدیث ہے لیکن شیعہ اور بدعتی تھا اور شیعہ کے مذہب میں مناکیر بیان کرتا تھا ۔ جیسا کہ امام ابن سعد علیہ الرحمہ کہتے ہیں : وكان ثقة صدوقا إن شاء الله كثير الحديث حسن الهيئة. وكان يتشيع ويروي أحاديث في التشيع منكرة فضعف بذلك عند كثير من الناس.وكان صاحب قرآن ۔ کہ یہ ثقہ و صدوق ہے ان شاء اللہ اور اس کی روایت حسن ہوتی ہے ، یہ شیعہ تھا اور یہ شیعت مذہب (کی تقویت) میں مناکیر روایات بیان کرتا تھا اور اس سبب اس میں یہ کمزوری بہت زیادہ تھی لوگوں کے نزدیک ۔ (الطبقات الکبری جلد 6 صفحہ 368)
یعنی ثقہ و صدوق شیعہ راویان کی شیعت مذہب کی روایات میں نکارت یعنی ان کا تفرد خود ان کے ضعف کی دلیل ہے اس کا تعلق نہ ہی ان کے اعتقان سے ہے نہ ہی حفظ سے بلکہ یہ تفرد  پر سکوت ان کے مذہب کے سبب تھا اور یہی راجح موقف ہے ۔ اس کی ایک اور مثال ایک راوی  شیعہ ھاشم سے بیان کرتے ہیں جو کہ اکثر محدثین کے نزدیک  صدوق شیعہ اور اکثر کے نزدیک رافضی اور کچھ کے نزدیک کذب کی جرح ہے لیکن راجح قول میں صدوق ہیں ۔ یہ ایک روایت بیان کرتا تھا : عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ ، وَ الْقُرْآنُ مَعَ عليٍ ، لَن يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن اور قرآن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگا یہاں تک کہ یہ کوثر پر جا ملیں گے ۔

جبکہ یہ روایت پہلے اس طرح بیان کرتا تھا : أخبرني الحسن بن علي بن عبد الله المقرئ، حدثنا أحمد بن الفرج بن منصور الوراق، أخبرنا يوسف بن محمد بن علي المكتب- سنة ثمان وعشرين وثلاثمائة- حدثنا الحسن بن أحمد بن سليمان السراج، حدثنا عبد السلام بن صالح، حدثنا علي ابن هاشم بن البريد عن أبيه، عن أبي سعيد التميمي عن أبي ثابت مولى أبي ذر قال : علي مع الحق والحق مع علي، ولن يفترقا حتى يردا علي الحوض يوم القيامة
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ اور حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگا یہاں تک کہ یہ قیامت کے روز ملیں گے ۔ (تاریخ بغداد)

اب  چونکہ پہلے حق مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور قرآن بھی حق ہے تو اس راوی نے متن میں تدلیس کر کے ایک اور روایت بنا دی جس کی وجہ سے اس پر کذب کی صریح جرح بھی نہیں ہو سکتی بلکہ بالمعنی روایت بیان کرنے کا فائدہ اٹھایا ہے اس راوی نے ۔ اس کے بارے آئمہ کی رائے یہ ہے : ⏬

امام بخاری علیہ الرحمہ سے : هاشم بن البريد كوفي ۔ سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري هاشم بن البريد وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ھاشم بن بریدہ اور اس کا بیٹا دونوں غالی اور برے مذہب والے (رافضی) تھے ۔ (تاریخ الکبیر بخاری برقم : 2033،چشتی)

امام ابن عدی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه ۔
ترجمہ : اس کی روایت زیادہ نہیں ہیں اس کو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اس کے بیٹے کو بھی اور میں اس کی کوئی منکر روایت پر مطلع نہیں ہو سکتا لیکن اس کی روایات میں جو نکارت ہے وہ اس کے بیٹے کی وجہ سے ہے ۔ (الکامل فی الضعفاء)

امام  ذھبی علیہ الرحمہ اس کو صدوق قرار یتے ہیں : هَاشم بن الْبَرِيد صَدُوق يترفض ۔
ترجمہ : ھاشم بن بریدہ سچا تھا لیکن رافضی تھا ۔ (المغنی فی الضعفٓاء برقم 6710)

هاشم بن البريد [د، س، ق] أبو على. عن زيد بن علي، ومسلم البطين. وعنه ابنه، والخريبي، وجماعة.وثقه ابن معين وغيره، إلا أنه يترفض.وقال أحمد: لا بأس به ۔ ابن معین کہتے ہیں ثقہ تھا ،لیکن یہ رافضی تھا ۔ (میزان الاعتدال برقم: 9181)

اور دیوان الصعفاءمیں فرماتے ہیں کہ سچا تھا مگر شیعت میں غالی تھا ۔ هاشم بن البريد الكوفي: صدوق غال في التشيع. -د، س، ق ۔ (دیوان الضعفاء، برقم: 4440،چشتی)

تو ایسے راوی کے تفرد کیسے قبول کیے جا سکتے ہیں ؟ جن پر ثقہ مامون یا صدوق کی توثیق دیکھ کر صداقت فریدی رافضی جیسے نام نہاد محکک اندھا  دھند جنگ صفین و جمل اور مولا علی اور اختلافات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ابواب میں  استدلال کرتے نظر آرہے ہیں ۔ یقیناً  یہ ان کا تساہل نفس پرستی کے سبب ہے اور کچھ نہیں ۔ یہاں تک کہ ائمہ کرام علیہم الرحمہ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ ناقدین رمی بالتشیع تھے وہ جرح و تعدیل کے اقوال میں  دھوکہ دہی کرتے تھے تو ان سے روایت بیان کرنا تو دور کی بات ہے تفرد میں ۔ جیسا کہ امام ابو نعیم فضل بن دکین ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ کے شیعہ اماموں میں سے تھے لیکن یہ ففط تفضیل کے قائل تھے ۔ اس کے باجود امام ابن معین انکے بارے کہتے ہیں : سمعت يحيى بن معين يقول : كان أبو نعيم إذا ذكر إنسانًا، فقال: (هو جيد) ، وأثنى عليه؛ فهو شيعي، وإذا قال: (فلان كان مرجئًا) ؛ فاعلم أنه صاحب سنة لا بأس به ۔
ترجمہ : میں نے ابن معین کو کہتے سنا : کہ ابو نعیم جب کسی شخص کا ذکر کرتے اور کہتے کہ یہ جید ہے اور اسکی تعریف کرتے تو وہ شیعہ ہوتا اور جب یہ کہیں فلاں مرجئ ہے تو جان لو وہ صاحب سنت  ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (سوالات ابن الجنید برقم: ۷۹۷،چشتی)

معلوم ہوا کہ جن کے شعیت کے سبب اقوال جرح و تعدیل میں یہ حال تھا ان کے فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اور ایسی روایات جن میں اصحاب رسول رضی اللہ عنہ پر آنچ آئے ان میں متن میں کتنی تدلیس کرتے ہونگے ۔

ایک یہی وجہ ہے صاحب استقراء امام ذھبی علیہ الرحمہ نے بدعت صغریٰ و کبریٰ کی تخصیص متقدمین کے فہم کو سامنے رکھ کر ہی بیان کی ہے کہ جو رافضی بدعتی غالی اور دعوت دینے والا ہو تو اسکی روایت قبول نہ ہوگی تفرد میں اور یہی منہج امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا ہے ۔

فبدعة صغرى : كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق ۔ فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة ۔

ثم بدعة كبرى : كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة ۔ وأيضا فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله! حاشا وكلا ۔
امام ذھبی علیہ الرحمہ یہ اعتراض نقل کرکے اسکا جواب یوں دیتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہے : ⏬

1 : بدعت صغریٰ

2 : بدعت کبریٰ

بدعت صغریٰ : جیسے غالی شیعہ ہونا یا غلو اور تحریکے کے شیعہ ہونا (اور دعوت نہ دینے والا ہو )یہ قسم میں تو بہت سے تابعین اور تابع تابعین میں تھی باجود یہ کہ وہ دیندار متقی اور صادت تھے لہذا ایسوں کی حدیث بھی رد کر دی جائے تو حدیث کا ذخیرہ احادیث کا ایک برا حصہ ضائع ہو جائے گا ۔

بدعت کبریٰ : جسیے کہ رافضی ہونا اور رفض میں غالی ہونا ہے ۔

حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کرنا اور اس پر دوسروں کو ابھارنا (یعنی داعی ہونا ) اس قسم والے کی روایت قابل احتجاج نہیں نہ ہی اس کی وئی عزت و تکریم ہے اس قسم میں اب مجھے کوئی نہیں یاد ہو صادق اور مومون ہو (جس کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں بھی قبول کر لی جائے) کیونکہ انکا شعار جھوٹ بولنا تقیہ کرنا اور معاملات میں نفاق کا مظاہرہ کرنا ہے لہٰذا جس کا یہ حال ہو ایسے کی روایت بھلا قبول کیسے کی جائے گی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی ۔ (میزان الاعتدال صفحہ 6)

باقی رہہ گیا مسلہ رافضی تبرائی راوی کا تو اس کےلیے ثقہ و غیر ثقہ کی تخصیص کی ضرورت ہی نہیں اس سے روایت ہر حال میں نا جائز ہے جیسا کہ امام ابن معین علیہ الرحمہ کہتے ہیں : كان يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، ومن شتم أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- فليس بثقة ۔
ترجمہ : یہ اصحاب رسول رضی اللہ عنہم پر تبرہ کرتا تھا اور جو شخص اصحاب نبی رضی اللہ عنہم پر تبرہ کرے او ر ثقہ نہیں ہو سکتا ۔ (سوالات ابن الجنید ، برقم:۵۵۹)

بلکہ امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے بھی قائل نہیں تھے روایت بیان کرنا تو دور کی بات ۔

قال يحيى لا أصلي خلف قدري إذا كان داعيا ولا خلف الرافضي الذي يشتم أبا بكر وعمر وعثمان ۔
ترجمہ : امام یحییٰ علیہ الرحمہ نے کہا کہ قدری کے پیچھے نماز نہ پڑھو اگر وہ داعی ہو (یعنی اپنے مذہب کی روایات بیان کرتا ہوں ) اور نہ ہی رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھو جو ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر تبرہ کرتے ہیں ۔ (تاریخ ابن معین بروایت الدوری برقم:۲۲۹۰)

نیز ایک جگہ فرماتے ہیں : سمعت يحيى يقول تليد كذاب كان يشتم عثمان وكل من يشتم عثمان أو طلحة أو أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم دجال لا يكتب عنه وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ۔
ترجمہ : میں نے امام یحییٰ کو کہتے سنا کہ تلید یہ کذاب ہے یہ حضرت عثمان پر تبرہ کرتا تھا اور وہ سب جو حضرت عثمان ، یا حضرت طلحہ رضی اللہ عنہما یا  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ پر تبرہ کرے وہ دجال ہے اس سے روایت نہین  لکھی جائے گی اور ان پر اللہ ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہو ۔ (تاریخ ابن معین بروایت الدوری برقم:۲۶۷۰) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...