Tuesday, 12 August 2025

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : کسی مقبوضہ جگہ پر مسجد تعمیر ہو جائے اور مسجد کی تعمیر کا مقصد صرف صاحبِ زمین کو ضرر پہنچانا ہو تو ایسی جگہ پر بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ اللہ تعالى کا فرمان ذی شان ہے : وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ ۔ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ ۔ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 107)

ترجمہ : اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں ۔


مزید فرمایا : لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ ۔ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ  اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ ۔ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 108)

ترجمہ : اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں ۔


مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ جس مسجد کی بنیاد تقوى پر ہو ، اللہ سے ڈر کر بنائی جائے اس میں نماز ادا کی جائے گی اور جس کی بنیاد تقوى پر نہ ہو ، بلکہ قبضہ گیری اور لڑائی فساد بپا کرنے پر ہو وہاں نماز پڑھنا منع ہے ۔


واضح رہے کہ شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کےلیے وقف جگہ ہوتی  ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے ۔ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا ، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی ۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے ۔ ایسی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ، البتہ نماز ادا ہو جائے گی ۔ کسی زمین کو مسجد کی تعمیر کےلیے وقف کرنے کےلیے اس جگہ کا مالک ہونا ضروری ہے ، دوسرے کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے ، ایسا کرنے والوں کو ثواب کے بجائے دوسرے کی زمین غصب کرنے کا گناہ ہوگا ، جس کے بارے میں صحیح بخاری میں موجود روایت کا مفہوم ہے کہ جس نے بالشت بھر زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اسے اتنے حصے کی سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ، جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بدلے اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا ۔


نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ ۔

ترجمہ : جس نے ایک بالشت زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا ، قیامت کے دن سے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ۔  (صحیح بخاری حدیث نمبر 3198)


نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ اقْتَطَعَ أَرْضًا ظَالِمًا لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ۔

ترجمہ : جس نے ناحق کسی زمین پر قبضہ کیا ، قیامت کے دن جب وہ اللہ سے ملے گا تو اللہ اس پر غضباناک ہونگے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 139)


لہٰذا کسی بھی مقصد کےلیے زمین پر قبضہ کرنا نا جائز ہے ۔ اور پھر اللہ عزوجل کا گھر مسجد تعمیر کرنے کےلیے نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین خریدنے کا طریقہ اپنی امت کو دیا ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ قَالَ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ قَالَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفَهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي حَائِطَكُمْ هَذَا فَقَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ قَالَ فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ كَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَتْ فِيهِ خِرَبٌ وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ قَالَ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً

ترجمہ : جب نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کےبالائی طرف بنون عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام فرمایا۔وہاں 14 دن تک ٹھہرے ، پھر بنونجار کی طرف پیغام بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے ۔ اور میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہی منظر ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ پر سوار تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے اور بنو نجار ان کے ارد گرد تھے ، حتى کہ وہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے ۔ اس وقت جہاں بھی نماز کا وقت ہوتا نماز ادا کر لیتے تھے حتى کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز ادا کرلیتے تھے ۔ پھر آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار کو پیغام بھیجا کہ یہ باغ ہمیں بیچ دو ۔ تو وہ عرض کرنے لگے کہ ہم اس کی قیمت صرف اللہ سے ہی لیں گے ۔ تو اس باغ میں موجود مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ دیا گیا اور ناہموار جگہ کو برابر کیا گیا اور کھجوروں کے درختوں کو کاٹ دیا گیا ۔ اور انہوں نے کھجوروں کے درختوں مسجد کے قبلہ کی جانب رکھ دیا اور دونوں اطرف میں پتھر رکھ دیے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3932)


نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کےلیے بنو نجار سے باغ خریدنے کی بات کی اور انہیں قیمت کی پیش کش کی ، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے وہ باغ مسجد کےلیے اللہ کی خاطر وقف کر دیا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے کےلیے بھی جگہ خریدی جائے اور اگر کوئی مسلمان اپنی رضا اور خوشی سے مسجد کےلیے جگہ وقف کر دے تو اس کی مرضی ہے ۔ لیکن کسی کی جگہ پر قبضہ کرکے مسجد بنانے کی شریعت اجازت نہیں دیتی ۔


       غصب شدہ زمین پر  نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ، اس کا اعادہ واجب ہے جیسا کہ بہار شریعت جلد سوم ہیں ہے : زمین مغصوب یا پراے کھیت میں جس میں زراعت موجود ہے یا جتے ہوے کھیت میں نماز پڑھنا مکروہ 

تحریمی ہے ۔ (بہار شریعت حصہ ٣ صفحہ ١٧٠)


     ایسا ہی فتاوی رضویہ میں ہے کہ آپ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ چوری کیے ہوئے کپڑے پہنے کر نماز پڑھی تو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا : چوری کا کپڑا پہن کر نماز پڑھنے میں اگرچہ فرض ساقط ہو جاۓ گا ، لان الفساد مجاور مگر نماز مکروہ تحریمی ہوگی ، للاشتمال علی المحرم جائز کپڑا پہن کر اس کا اعادہ واجب ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٣ صفحہ ٤٥١) 


فتاوی عالمگیری می ہے : الصلوۃ فی ارض مغصوبۃ جائزۃ ولکن یعاقب بظلمہ فما کان بینہ وبین اللہ تعالی یثاب وماکان بینہ وبین العباد یعاقب کذا دی مختار الفتاوی ۔

 

فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے : ناجائز طور پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا اپنے وقار اور مال کو داؤ پر لگانا ہے اور اس پر مسجد بنانا بھی جائز نہیں کہ کسی بھی وقت حکومت اسے واپس لے سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس حصے میں تعمیر شدہ مسجد کو منہدم کرنا ہو گا ۔ اس لیے ملکی قانون کی خلاف ورزی کرکے ناجائز طور پر قبضہ پھر اس پر مسجد بنانا ہرگز روا نہیں اس سے اجتناب ضروری ہے ۔ (فتاوی مرکز تربیت افتا باب مایکرہ فی الصلوۃ)


مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ سے سوال کیاگیا : کسی کی زمین میں مسجد تعمیر کی گئی ، آیا وہ مالک زمین اس مسجد کو منہدم کرسکتا ہے یا نہیں ؟

آپ علیہ الرحمہ جواب میں لکھتے ہیں : کسی شخص کا اپنی شخصی ملکیت میں مسجد بنانا جائز ہے اور اگر کوئی دوسرا شخص بنالے تو وہ مسجد نہ ہوگی اس کے توڑ دینے کا مالک کو اختیار ہے اس لیے کہ مسجد وقف ہے اور وقف مالک ہی کرسکتا ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ نے لکھا : ترجمہ : ’’البحر الرائق ‘‘ میں ذکر کیا کہ ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ (وقف کے صحیح ہونے کی) شرط یہ ہے کہ مسجد کی زمین بانیِ مسجد کی ملک میں ہو ، مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی زمین پر قبضہ کرنا غصب کرنا ہے اور فقہ کی تمام کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ غصب کی ہوئی زمین پر نماز مکروہ ہے ، لہٰذا ایسی مسجد جو مالک کی اجازت کے بغیر بنائی گئی ہو ، اس میں تو نماز پڑھنا ہی مکروہ ہے ۔ (وقارالفتاویٰ جلد دوم صفحہ 305)


عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، وكانت، بينه وبين أناس خصومة في أرض، فدخل على عائشة فذكر لها ذلك، فقالت : يا أبا سلمة، اجتنب الأرض، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من ظلم قيد شبر طوقه من سبع أرضين ۔ (صحيح البخاري 4/ 106،چشتی)


عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين ۔ (صحيح البخاري 3/ 130)


لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح ۔ (رد المحتار 4/ 341)


وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ ۔ (رد المحتار 1/ 381)


تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہر علاقے میں لوگوں کی ضرورت کے مطابق مسجد بنانا فرضِ کفایہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لہذا اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے، مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی ۔


غصب شدہ جگہ پر مسجد تو نہیں بن سکتی ہے، جب تک مالک سے اس کی اجازت نہ لے لی جائے، گورنمنٹ کے کسی دفتر یا ادارہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں شامل کرنا بھی غصب ہے، البتہ جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کےلیے خالی پڑی ہو ، وہاں مسجد بنانا جائز ہے۔ اور گورنمنٹ کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِ نظر وہاں مسجد بنوائے ۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 340) : (قوله : وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد ۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 341) : حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح، ولو أجاز المالك وقف فضولي جاز ۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 381) : وفي الواقعات: بنى مسجدًا على سور المدينة لاينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة ۔


الموسوعة الفقهية الكويتية (37 / 195) : يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية ۔


مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 678) : (و) ما (أخذ منهم) أي من أهل الحرب (بلا قتال) بأن أخذ بالصلح (في مصالح المسلمين) متعلق بيصرف (كسد الثغور) جمع ثغر وهو موضع مخافة البلدان (وبناء القناطر) جمع قنطرة (والجسور) جمع جسر والفرق بينهما أن الأول لا يرفع والثاني يرفع وفيه إشارة إلى أنه يصرف في بناء المساجد والبقعة عليها لأنه من المصالح فيدخل فيه الصرف على إقامة شعائرها من وظائف الإمامة والأذان ونحوهما ۔


سرکاری زمین پر بغیر سرکار کی اجازت کے مسجد تعمیر کرنا شرعی ، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے ۔ اس کےلیے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ کیونکہ سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے زمین سرکار کی ملکیت میں ہی رہے گی اور سرکار کو اس میں تصرف کرنے اور وہاں سے مسجد ہٹانے کا اختیار باقی رہے ۔ ایسا کرنے سے بعد میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات حکومت کی طرف سے ناجائز قبضہ ہٹانے کےلیے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے جس سے اشتعال جنم لیتا ہے ۔ اس لیے مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر اور اتنی ہی جگہ پر کی جائے جتنی مسجد کےلیے خریدی گئی ہے ، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے ۔


مغصوبہ زمین کے بقدر یا اُس کی قیمت مالکِ حقیقی یا اُس کے ورثہ کو اَدا کرے ، اس کے بعد اس جگہ مسجد بنوانا درست ہوگا ۔ و علی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ، فإن أخذہ فلیردہ علیہ …، ورد القیمۃ مخلص خلفًا ۔ (الہدایۃ ۳؍۳۷۳)


أفاد أن الواقف لا بد أن یکون مالکہ وقت الوقف ملکًا باتًا ولو بسبب فاسدٍ، وأن لا یکون محجورًا عن التصرف، حتی لو وقف الغاصب المغصوب، لم یصح، وإن ملکہ بعد بشراء أو صلح۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: قد یثبت الوقف بالضرورۃ ۴؍۳۴۱-۳۴۹ کراچی، البحر الرائق / کتاب الوقف ۵؍۳۱۴،الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الوقف الباب الأول ۲؍۳۵۳،چشتی)


یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي، کتاب الحدود / باب التعزیر، مطلب: في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الغصب / الباب السابع في حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۱۶۷ ، البحر الرائق، کتاب الحدود / باب حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۶۸ زکریا، النہر الفائق، کتاب الحدود / باب حد القذف ۳؍۱۶۵)


عن سالم عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من أخذ من الأرض شیئًا بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامۃ إلی سبع أرضین۔ (صحیح البخاري، کتاب المظالم والغصب / باب إثم من ظلم شیئًا من الأرض رقم: ۲۴۵۴ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع / باب الغصب والعاریۃ ۲۵۴)


وعلی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ۔ (الہدایۃ / کتاب الغصب ۳؍۳۵۷)

وکذا تکرہ في أماکن: کفوق کعبۃ … وأرض مغصوبۃ أو للغیر لو مزروعۃً أو مکروبۃً (الدر المختار) وفي الواقعات: بنی مسجدًا في سور المدینۃ، لا ینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ، فلم یخلص للّٰہ تعالیٰ کالمبنی في أرض مغصوبۃ … فالصلاۃ فیہا مکروہۃ تحریمًا في قول، وغیر صحیحۃ لہ في قول آخر ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ / مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ۱؍۳۸۱ کراچی)


سرکار کی اِجازت کے بغیر جس جگہ مسجد بناٸی گئی ہے وہ مسجدِ شرعی کے حکم میں نہ ہوگی ، اور وہاں نماز پڑھنے سے مسجدِ شرعی کا ثواب نہ ملے گا ۔


قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التأبید۔ والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ وکذا لو کانت ملکًا لہ؛ فإنّ لورثتہ بعدہ ذٰلک، فلا یکون الوقف مؤبدًا ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن الشحنۃ مع شیخہ العلامۃ قاسم في وقف البناء ۴؍۳۹۰ کراچی)


گورنمنٹ کی اِجازت کے بغیر سرکاری زمین پر مسجد و مدرسہ کی تعمیر ہرگز جائز نہیں ہے ۔


لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱ ، الأشباہ والنظائر / الفن الثاني ۲؍۴۴۴)

قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التابید، والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن شحنۃ ۴؍۳۹۰ کراچی)

المستفاد : لأن اللّٰہ تعالیٰ لا یقبل إلا الطیب فیکرہ تلویث بیتہٖ بما لا یقبلہ۔ (فتاویٰ شامی ۲؍۴۳۱)


اس لیے اگر آپ سرکاری زمین پر مسجد بنانا چاہتے ہیں یا مسجد سے متصل سرکاری زمین کو مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو حکومت سے اس کی اجازت لیں یا زمین کی قیمت دے کر رضا مندی سے خرید لیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم محترم قارئینِ کرام : کسی مقبوضہ جگہ پر مسجد تعمیر ہو جائے اور مسجد کی تعمیر کا ...