Thursday 30 July 2015

وہابیہ اور دیابنہ کی طرف سے اعلیٰ حضرت علیہ الرّحمہ پر شیعہ ہونے کا الزام کا جواب

0 comments
وہابیہ اور دیابنہ کی طرف سے اعلیٰ حضرت علیہ الرّحمہ پر شیعہ ہونے کا الزام کا جواب

دین و دیانت رکھنے والے حضرات کے لیے یہ امر باعثِ حیرت ہو گی کہ اہل سنت کے امام مولانا شاہ احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی ہے ۔

وہ ایسے شیعہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، جس نے اہل سنت کو نقصان پہنچانے کے لیے بطورِ تقیہ ، سنی ہونا ظاہر کیا تھا ۔ (احسان الٰہی ظہیر غیر مقلد وہابی : البریلویۃ ص ۲۱)

پندرھویں صدی کا یہ عظیم ترین جھوٹ بولتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ کیا ساری دنیا اندھی ہوگئی ہے جسے امام احمد رضا بریلوی علیہ الرّحمہ کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا جو شخص فتاویٰ رضویہ اور دیگر بلند پایہ علمی تصانیف کا مطالعہ کرے گا، وہ آپ کی صداقت اور دیانت کے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا ؟ کیا قیامت کے دن ، واحد قہار کی بارگاہ میں جواب دہی کا یقین بالکل ہی جاتا رہا ہے ؟ یا روزِ قیامت کے آنے کا یقین ہی نہیں ہے ۔

اس دعوے پر جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ، وہ اس قدر بے وزن اور غیر معقول ہیں کہ دلائل کہلانے کے قابل ہی نہیں ، ذیل میں ان کا مختصر سا جائز پیش کیا جاتا ہے :

الزام : ان کے آباؤ اجداد کے نام شیعوں والے ہیں ، ایسے نام اہل سنت میں رائج نہ تھے اور وہ یہ ہیں ۔
احمد رضا، ابن نقی علی ابن رضا علی، ابن کاظم علی۔‘‘ (احسان الٰہی ظہیر غیر مقلد وہابی : ابریلویۃ ص ۲۱) ۔

نواب صدیق حسن خان کے والد کا نام حسن، دادا کا نام علی الحسنین ، بیٹے کا نام میر علی خاں اور میر نور الحسن خان۔‘‘ (صدیق حسن خان بھوپالی ، نواب: ابجدالعلوم ج ۳، ص) ۔

غیر مقلدین کے شیخ الکل نذیر حسین دہلوی ہیں ، مدراس کے مولوی صاحب کا نام محمد باقر ہے ۔ قنوج کے مولوی کا نام ہے رستم علی ابن علی اصغر ، ایک دوسرے مولوی کا نام غلام حسنین ابن مولوی حسین علی۔ ان لوگوں کا تذکرہ نواب بھوپالی کی کتاب ابجد العلوم کی تیسری جلد میں کیا گیا ہے ۔ اہل حدیث کے جرید ے اشاعۃ السنۃ کے ایڈیٹر کا نام محمد حسین بٹالوی ہے ۔ کیا یہ سب شیعہ ہیں ؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی مگر آئے تو کیسے ؟ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

دو رنگی چھوڑ یک رنگ ہو جا
سرار موم ہو یا زنگ ہو جا​

حضرت مولانا احمد رضا خاں قادری بریلوی علیہ الرحمہ کا خاندانی نسب نامہ اس طرح ہے : احمد رضا خاں ابن حضرت مولانا نقی علی خاں بن حضرت مولانا رضا علی خاں بن حضرت مولانا حافظ محمدکاظم علی خاں بن حضرت مولانا شاہ محمد اعظم خاں بن حضرت محمد سعادت یار خاں بن حضرت محمد سعید اﷲ خاں رحمة اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ (حیات اعلیٰ حضرت، جلد اوّل، مطبوعہ مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی، ص۲)
کیا امام زین العابدین، امام، جعفر صادق، امام موسیٰ کاظم، امام علی رضا، امام نقی رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین شیعہ تھے؟ ، لاحول ولا قوة الا باﷲ​ ۔

خود ان وہابیوں کے اکابرعلماءکے نام ملاحظہ ہوں ،شیخ الکل مولوی نذیر حسین محدث دہلوی (غیر مقلد)، مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی(غیر مقلد)، مولوی محمد حسین بٹالوی(غیر مقلد) ، مولوی سید شریف حسین ،مولوی ڈپٹی سید احمد حسن، مولوی سید امیر حسن سہسوانی، مولوی سبط احمد، مولوی حکیم مظہر علی، مولوی محمد تقی، مولوی سید علی، مولوی سید اولاد حسن، مولوی نواب سید علی حسن بھوپالی، مولوی سید حیدر علی، مولوی خرم علی بلہوری ، مولوی مرزا حسن علی لکھنوی ۔
(تراجم علمائے حدیث ہند، از ابو یحیٰ امام خاں نوشہروی، مطبوعہ مکتبہ اہل حدیث ٹرسٹ، کراچی، ص۳ تا ۳۱)
کیا یہ غیر مقلد مولوی شیعہ تھے؟ اگر نہیں تھے تو کیوں ؟ ​

سنن ابن ماجہ کے مقدمہ میں حدیث نمبر ۵۶ کے تحت درج ہے : ”حدثنا علی بن موسیٰ الرضا عن ابیہ عن جعفر ابن محمد عن ابیہ عن علی ابن الحسین عن ابیہ عن ابی طالب “
ابن ماجہ کے دادا استاد ابو صلت نے کہا : لوقریءھذا الاسناد علی مجنون لبراً یعنی اس سند کو اگرکسی مجنون پر پڑھا جائے تو اس کا جنون دور ہوجائے۔ (سبحان اﷲ)
لیکن کیا کیجئے ، ان جہلائے وھابیت کی بد بختی کا کہ وہ ان بابرکت ناموں کو دیکھیں تو ان کا پاگل پن اور زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ ان اسماءمبارکہ کو یکجا لکھا دیکھ کر شیعہ شیعہ کا نعرہ لگانا شروع کردیتے ہیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا رد شیعت کرنا علماء دیوبند کی زبانی

آج کل دیوبندی علماء نے یہ پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ مولانا احمد رضا بریلوی شیعہ تھے نعوذ باللہ حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی نے شیعہ پر کفر و اتداد واضح بیان کیا ہے۔ شیعہ کے کسی اہل سنت سے اختلافی مسئلے کی حمایت کبھی نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ ان کی تردید کی ہے۔

دیوبندیوں میں اگر کوئی مائی کا لعل اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کی معتمد کتب سے شیعہ سے اہل سنت کے کسی اختلافی مسئلے کی حمایت ثابت کردے تو ہم اسے منہ مانگا انعام دیں گے۔ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔

دوسری طرف دیوبندی اکابر کی شیعیت نوازی ان کی کتب سے ثابت ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اکابر صحابہء کرام کی تکفیر کرنے والے کو سنت جماعت سے خارج نہیں مانتے، شیعہ کی امداد ان سے نکاح ان کے ذبیحہ حلال ہونے تعزیہ کی اجازت کے فتوے دیتے ہیں۔
نوٹ:۔ تفصیل کے لئے مولانا غلام مہر علی صاحب کی کتاب دیوبندی مذہب کا مطالعہ سود مند رہے گا۔

دیوبندیوں کو تو اپنے اکابر کے فتاوٰی پڑھ کر ڈوب مرنا چاہئیے۔ اب ہم اعلٰی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ببانگ دہل شیعیت کی تردید کرنا دیوبندی علماء کی زبانی بیان کرتے ہیں۔

عبدالقادر رائے پوری دیوبندی : مولوی محمد شفیع نے کہا کہ یہ بریلوی بھی شیعہ ہی ہیں یونہی حنفیوں میں گھس آئے ہیں (عبدالقادر رائے پوری نے) فرمایا یہ غلط ہے۔ مولوی احمد رضا خان صاحب شیعہ کو بہت بُرا سمجھتے تھے۔ بانس بریلی میں ایک شیعہ تفضیلی تھے۔ ان کے ساتھ مولوی احمد رضا خان صاحب کا ہمیشہ مقابلہ رہتا تھا۔ (حیات طیبہ صفحہ 232 طبع لاہور)

حق نواز جھنگوی دیوبندی : دیوبندی امیر عزیمت بانی نام نہاد سپاہ صحابہ حق نواز جھنگوی فرماتے ہیں کہ علامہ (احمد رضا) بریلوی جن کا قائد جن کا راہنما بلکہ بقول بریلوی علماء کا مجدد احترام کے ساتھ نام لوں گا۔ احمد رضا بریلوی اپنے فتاوٰی رضویہ میں اور اپنے مختصر رسالے رد رفض میں تحریر فرماتے ہیں: شیعہ اثنا عشری بدترین کافر ہیں اور الفاظ یہ ہیں کہ شیعہ بڑا ہو یا چھوٹا مرد ہو یا عورت شہری ہو یا دیہاتی کوئی بھی ہو لاریب و لاشک قطعاً خارج از اسلام ہیں اور صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے اور لکھتے ہیں۔

من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر
ترجمہ:۔ جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر
ترجمہ:۔ جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

یہ فتوٰی مولانا احمد (رضا) خان بریلوی کا ہے جو فتوٰی رضویہ میں موجود ہے۔ بلکہ احمد رضا خان نے تو یہاں تک شیعہ سے نفرت دلائی ہے کہ ایک شخص پوچھتا ہے کہ اگر شیعہ کنویں میں داخل ہو جائے۔ تو کنویں کا سارا پانی نکالنا ہے یا کچھ ڈول نکالنے کے بعد کنویں کا پانی پاک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی لکھتے ہیں:

کنویں کا سارا پانی نکال دیں جب کنواں پاک ہوگا۔ اور وجہ لکھتے ہیں کہ شیعہ سنی کو ہمیشہ حرام کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس سے اور کچھ بھی نہ ہو سکا۔ تب بھی وہ اہل سنت کے کنویں میں پیشاب ضرور کر آئے گا۔ اس لئے اس کنویں کا سارا پانی نکال دینا لازمی اور ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بھی شیعہ کا کفر بیان کیا ہے اور کھل کر بیان کیا ہے۔
(حق نواز جھنگوی کی 15 تاریخ ساز تقریریں صفحہ 13 تا صفحہ 15/ صفحہ 224 طبع لاہور خطبات جھنگوی ج اول ص 278 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

احمد رضا خان بریلوی شیعوں کو کافر کہتے ہیں۔ (حق نواز جھنگوی کی 15 تاریخ ساز تقریریں صفحۃ 142)
نوٹ:۔ یاد رہے کہ اس کتاب مذکورہ کا پیش نظر دیوبندی مولوی ضیاء القاسمی نے لکھا ہے۔

الٰہی آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑا کاذب پر : مگر پھر سپاہ صحابہ (نام نہاد) کے سٹیج سے شیعہ کو کافر کہنے کے لئے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کا ہی نام لیتے رہے کہ لوگو ! اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی ہے کہ شیعہ کافر ہیں۔

ہم یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہیں: یہ سیدنا اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی زندہ کرامت ہے کہ جو فاروقی (بزعم خود) اعلٰی حضرت کو شیعہ کہتا تھا۔ اب وہی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے حوالے سے شیعہ کو کافر قرار دیتا ہے۔ اب مذکورہ مولوی کی تحریر بھی ملاحظہ ہو۔

دیوبندی مولوی ضیاء الرحمان فاروقی لکھتے ہیں : فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (کا فتوٰی) رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے کتب معتمد و فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ آئمہ ترجیح و فتوٰی کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہیں۔ یہ حکم فقہی تبرائی رافضیوں کا ہے۔ اگرچہ تبراء و انکار خلافت شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سوا ضروریات دین کا انکار نہ کرتے ہوں۔ ولا حوط مافیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار وکناردبہ ناخذ۔ ترجمہ:۔ یعنی یہ گمراہ ہیں جہنم کی آگ کے کتے ہیں اور کافر ہیں اور روافض زمانہ (شیعہ) تو ہرگز صرف تبرائی نہیں۔

علی العموم منکران ضروریات دین اور باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کفار مرتدین ہیں۔ یہاں تک کہ علماء کرام نے تصریح فرمائی، کہ جو انہیں کافر نہ جانیں وہ خود کافر ہے۔۔۔۔۔۔ بہت سے عقائد کفریہ کے علاوہ وہ (شیعہ) کفر صریح میں ان کے عالم جاہل مرد، عورت چھوٹے بڑے سب بالا تفاق گرفتار ہیں۔

کفر اول : قرآن عظیم کو ناقص بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص قرآن مجید میں زیادت نقص یا تبدیل کسی طرح کے تصرف بشرٰی کا دخل مانے یا اسے متحمل جانے بالا جماع کافر و مرتد ہے۔

کفر دوم : ان کا ہر متنفس سیدنا امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر آئمہ طاہرین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو حضرات عالیات انبیاء سابقین علیہم الصلوٰت والتحیات سے افضل بتاتا ہے اور جو کسی غیر نبی کو نبی سے افضل کہے بہ اجماع مسلمین کافر بے دین ہے۔
بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں (شیعوں) کے باب میں حکم قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے۔ ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے۔ مرد رافضی (شیعہ) اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے۔ اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا۔ محض زنا ہوگا، اولاد ولدالزنا ہوگی۔ باپ کا ترکہ نہ پائے گی۔ اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً والدالزنا کا باپ کوئی نہیں۔ عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی، کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں، رافضی اپنے کسی قریب حتٰی کہ باپ بیٹے، ماں، بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا، ان کے مرد عورت عالم جاہل کسی سے میل جول سلام کلام سب سخت کبیرہ اشد حرام، جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی پھرا نہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے۔ باجماع تمام آئمہ دین خود کافر بے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی احکام ہیں۔ جو ان کے لئے مذکور ہوئے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس فتوٰی کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کرکے سچے پکے مسلمان سنی بنیں۔ (تاریخی دستاویز صفحہ۔ 65۔ 66)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اہل سنت و جماعت علماء بریلی کے تاریخ ساز فتوٰی جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔

غوث وقت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کا فتوٰی۔
دارالعلوم غوثیہ لاہور کا فتوٰی۔
جامعہ نظامیہ رضویہ کا فتوٰی۔

(ردالرفضہ کے حوالے سے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کا فتوٰی نقل کیا ہے جو اوپر مذکور ہوا

اعلٰی حضرت کی تصانیف رد شیعت میں : اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے رد شیعیت میں ردالرفضہ کے علاوہ متعدد رسائل لکھے ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

الادلۃ الطاعنۃ (روافض کی اذان میں کلمہ خلیفہ بلا فصل کا شدید رد)
اعالی الافادہ فی تعزیۃ الہندو بیان الشہادۃ 1321ھ (تعزیہ داری اور شہادت نامہ کا حکم)
جزاءاللہ عدوہ بابا بہ ختم النبوۃ 1317ھ (مرزائیوں کی طرح روافض کا بھی رد)
المعۃ الشمعۃ الشفتہ 1312ھ (تفصیل و تفسیق کے متعلق سات سوالوں کے جواب)
شرح المطالب فی مبحث ابی طالب 1316ھ ایک سو کتب تفسیر و عقائد وغیرہا سے ایمان نہ لانا ثابت کیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اَمامَ اہلسُنت کُون ۔؟ (اَمام احمد رضا بریلوی)۔

0 comments
یوں تُو سیدنا اِمام احمد رضا (رِحمتہ اللہ علیہ) کی ذاتِ مُبارکہ مجھے جیسے کِسی راہِ علم کے طالب کے الفاظوں کی مُحتاج نہیں ہے لیکن میں اپنے پڑھنے والوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہُوں۔ جیسا کہ پچھلی دُو اقساط میں آپ نے مُلاحظہ کیا ہُوگا کہ تمام عرب وحجاز شریف کے عُلما کس نیاز مندی کے ساتھ آپکا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ آپ نے دوسری قسط میں یہ بھی مُلاحظہ کیا۔ کہ نہ صرف اہلسنت کے وہ لوگ جو آپکی ذات مبارک کو اہلسنت کاسرمایہ سمجھتے ہیں اُن میں صرف محبین و مقدمین ہی شامل نہیں ہیں۔ بلکہ آپکی توصیف و ثنا میں وہ لوگ بھی شامل نظر آئے۔ جنکے علمی تعاقب میں سیدنا اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) نے بے شُمار کُتب بھی تحریر فرمائی۔

سیدنا اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) جیسی عِلمی شخصیات سینکڑوں برس میں پیدا ہُوا کرتی ہیں۔ آپ نے حیات مُبارکہ میں کم و بیش ایک ہزار کُتب تحریر فرمائیں۔ جبکہ آپ کی کُتب نے صرف ایک قسم کے علمی موضوع کا اِحاطہ ہی نہیں فرمایا۔ بلکہ آپکی نظر تمام دُنیاوی علوم پر تھی۔ اسلئے عُلما تُو علما دنیاوی عُلوم کے ماہرین بھی آپکے آستانہ مبارک پر اپنی جبین نیاز جُھکانے کو سعادت سمجھتے تھے۔ اور شائد یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں آپکو شائد ہی کوئی ایسی مذہبی شخصیت نظر آئے جسکی عظمت کو سلام پیش کرنے کیلئے اسقدر افراد نے ( پی ایچ ڈی) کی ہُو۔ کہ جسقدر ڈاکٹر حضرات نے سیدنا اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) کی ذات مبارک کے بے شُمار پہلوؤں پر مقالہ جات کے عظیم کوہِ ہمالیہ کی مانند مقالہ جات کے انبار لگائے ہیں ۔اور آپ کی ذات مُبارکہ پر لکھا گیا۔ اور ابھی تک لکھا جارہا ہے۔ اور اب بھی بے شُمار لوگ آپ کی ذاتِ کریمانہ پر (پی ایچ ڈی )کررہے ہیں۔

بہرحال قصہ مُختصر ہم اپنے موضوع کو آگے بڑھاتے ہُوئے وہیں سے جُوڑتے ہیں۔ کہ جہاں سے اِسے مُنقطع کیا تھا۔

جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں:۔

مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم و فضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے تھے۔ اور ان کی فضیلت ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ نزاعی مباحث کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں وہی دراصل ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کی موجب ہوئیں۔
(ہفت روزہ شہاب 25 نومبر 1962ء)

جسٹس ملک غلام علی۔
مودودی جماعت کے ذمہ دار فرد اور خود مودودی صاحب کے مشیر جسٹس ملک غلام علی لکھتے ہیں:۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاوٰی کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے اور عشق خدا اور رسولﷺ تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔
۔(ارمغان حرم لکھنؤ صفحہ14)

خیل العلماء مولانا خلیل اشرف صاحب نے یہی عبارت ابوالاعلیٰ مودودی کےقول میں لکھی ہے۔
(ہفت روزہ شہاب 25 نومبر 1962ء)

وہابی مسلک کے ترجمان المنبر لائل پورلکھتا ہے :۔
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے ترجمہ (قرآن، کنزالایمان)کو اعلٰی مقام حاصل ہے۔
(المنبرلائل پور 6 صفرالمظفر 1386ھ بحوالہ رضائے مصطفٰے فروری 1976ء )

ثناء اللہ امرتسری
وہابیہ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں :۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم مجدد ماتہء حاضرہ۔
(فتاوٰی ثنائیہ؍ ج1 صفحہ 64۔ 263 طبع لاہور)

مسلکِ وہابیہ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری مزید لکھتے ہیں :۔
امرتسر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اَسِّی80 سال پہلے قریباً سب مسلمان اسی خیال کے تھے(یعنی جنکی ترجمانی مسلک اِمام احمد رضا کے عُلما کرتے ہیں)۔ جن کو آج کل بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے۔
(شمع توحید صفحہ53 لاہور صفحہ 40 طبع امرتسر و سرگودھا)
نوٹ:۔ اب بعد کے ایڈیشنوں سے مذکورہ عبارت نکال دی گئی ہے۔ دیکھئے
مکتبہ قدوسیہ لاہور اور اہلحدیث ٹرسٹ کراچی کی شائع کردہ شمع توحید۔

(۳۸)احسان الٰہی ظہیر
مسلک وہابیہ کے علامہ احسان الٰہی ظہیر کی مسلک بریلوی سے دُشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اُنہوں نے باقاعدہ اِس دُشمنی کے اظہار کیلئے کُتب بھی تحریر کیں جس میں سے ایک کتاب البریلویت بھی لکھی ہے جس میں اُنہوں نے حقیقیت کو اگرچہ خُوب تُوڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ مگر اس میں بھی وہ لکھنے پر مجبور ہے کہ
انما جدیدۃ من حیث النشاء ۃ والاسم، ومن فرق شبہ القارۃ من حیث التکوین والمیۃ ولکنھا قدیمۃ من حیث الافکار والعقائد۔ (البریلویۃ صفحہ 7)
ترجمہ:۔ یہ جماعت (بریلوی) اپنی پیدائش اور نام دار اور برصغیر کے فرقوں میں سے اپنی شکل و شباہت کے لحاظ سے اگرچہ نئی ہے لکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔

معلوم ہوا کہ مولانا احمد رضا بریلوی کسی مذہب کے بانی نہیں اور بریلویت نہ ہی کوئی نیا مذہب ہے نہ ہی کوئی نیا فرقہ۔

نوٹ:۔ اِس کتاب مذکورہ کا مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے تحقیقی و تنقیدی جائزہ لکھا ہے۔

منظور الحق (جماعتِ اسلامی)
جماعت اسلامی کے مشہور صحافی منظور الحق لکھتے ہیں:۔
جب ہم امام موصوف (فاضل بریلوی)کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنی علمی فضیلت اور عبقریت کی وجہ سے دوسرے علماء پر اکیلا ہی بھاری ہے۔
(ماہنامہ حجاز جدید نئی دہلی جنوری 1989ء)

حافظ بشیر احمد غازی آبادی
لکھتے ہیں:۔
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ حضرت فاضل بریلوی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں شریعت کی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا، یہ سراسر غلط فہمی ہے جس کا حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہم اس غلط فہمی کی صحت کے لئے آپ کی ایک نعت نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں۔
سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے
بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر کی کیسی فصیح و بلیغ تائید ہے جتنی بار پڑھئیے کہ خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے دل ایمانی کیفیت سے سرشار ہوتا چلا جائے گا۔
(ماہنامہ عرفات لاہور، اپریل 1970ء صفحہ 31۔ 30)

مُولوی عبدالقدوس ہاشمی دیوبندی
سید الطاف علی کی روایت کے مطابق مولوی عبدالقدوس ہاشمی دیوبندی نے کہا کہ قرآن پاک کا سب سے بہتر ترجمہ مولانا احمد رضا خان کا ہے جو لفظ انہوں نے ایک جگہ رکھ دیا ہے اس سے بہتر لفظ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
(خیابان رضا صفحہ 121، طبع لاہور)

مفتی انتظام اللہ شہابی لکھتے ہیں :۔
حضرت مولانا احمد رضا خان مرحوم اس عہد کے چوٹی کے عالم تھے۔ جزئیات فقہ میں ید طولٰی حاصل تھا۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ کلام مجید (کنزالایمان) اور فتاوٰی رضویہ وغیرہ کا مطالعہ کر چکا ہوں، مولانا کا نعتیہ کلام پُر اثر ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر سراج الحق( پی ایچ ڈی )تو مولانا کے کلام کے گرویدہ تھے اور مولانا کو عاشق رسول سے خطاب کرتے ہیں۔ مولانا کو دینی معلومات پر گہری نظر تھی۔
(مقالات یوم رضا ج2 صفحہ 70 طبع لاہور)

مُولانا عامر عثمانی دیوبندی
ماہنامہ تجلی دیوبند کے ایڈیٹر عامر عثمانی لکھتے ہیں :۔
مولانا احمد رضا خان اپنے دور کے بڑے عالم دین اور مدبر تھے۔ گو انہوں نے کُچھ علمائے دیوبند کی تکفیر کی مگر اس کے باوجود بھی ان کی علمیت اور تدبر و افادیت بہت بڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بات ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے وہ بہت ہی کم لوگوں میں ہے کیونکہ ان کی تحریریں علمی و فکری صلاحیتوں سے معمور نظر آتی ہیں۔
(ماہنامہ ہادی دیوبند صفحہ 17 محرم الحرام 1360ھ)

مشہور دیوبندی مناظر اسلام مولوی منظور نعمانی کہتے ہیں:۔
میں ان کی کتابیں دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ بے علم نہیں تھے۔ بڑے ذی علم تھے۔
(بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 16 طبع لاہور)

مفتی عبدالرحمٰن آف جامعہ اشرفیہ لاہور
لکھتے ہیں، تمام اہل سنت و الجماعت خواہ دیوبندی ہو خواہ بریلوی قرآن و سنت کے علاوہ فقہ حنفی میں بھی شریک ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دیوبندی بریلوی کے پیچھے نماز پڑھ لے کیونکہ دونوں حنفی ہیں۔ (روزنامہ جنگ لاہور 28 اپریل 1990ء )

یہی مولوی عبدالرحمٰن اشرفی مہتمم اشرفیہ لاہور روزنامہ پاکستان کے سنڈے ایڈیشن میں انٹریو دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
بریلوی حضرات سے مجھے بڑی محبت ہے۔ اس لئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں۔ چنانچہ بریلوی عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مجھے پیارے لگتے ہیں۔
(روزنامہ پاکستان سنڈے ایڈیشن ہفت روزہ زندگی یکم تا 7 اگست 2004ء )
(بحوالہ رضائے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم رجب المرجب 1425ھ بمطابق ستمبر 2004ء )

اب ہم اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا قادیانیت کے لئے شمشیر بے نیام ہونا علمائے دیوبند سے ثبوت نقل کرتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت :۔
مسلکِ دیوبند کی تنظیم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت جوکہ دیوبندی حضرات کی محبوب تنظیم ہے۔ اُس وقت ان کے امیر مولوی خان محمد آف کندیاں ہیں ان کی طرف سے ایک رسالہ شائع ہوا، اس میں صاف لکھا ہوا ہے:۔

نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکہ زنی ہوتے دیکھ کر مولانا احمد بریلوی تڑپ اٹھے اور مسلمانوں کو مرزائی نبوت کے زہر سے بچانے کے لئے انگریز کے ظلم و بربریت کے دور میں علم حق بلند کرتے ہوئے اور شمع جراء ت جلاتے ہوئے مندرجہ ذیل فتوٰی دیا جس کا حرف حرف قادیانیت کے سومنات کے لئے گرز محمود غزنوی ہے۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی بناء پر اعلٰی حضرت احمد رضا خان بریلوی نے مرزائی اور مرزائی نوازوں کے بارے میں فتوٰی دیا قادیانی مرتد منافق ہیں مرتد منافق وہ کہ لب پر کلمہ اسلام پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا، اور اللہ عزوجل یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یا کسی نبی کی توہین یا ضروریات دین میں کسی شے کا منکر ہے۔ اس کا ذبیح محض نجس اور مردار حرام قطعی ہے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے سبب قادیانی کو مظلوم سمجھنے اور میل جول چھوڑنے کو ظلم اور ناحق سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے اور جو کافر کو کافر نہ کہے وہ کافر۔(احکام شریعت 112۔ 122، 177)

محترم قارئین
باپ بیٹے کی تعریف کرے یابیٹاباپ کی ،دوست دوست کی اس میں تعریف ضرور ہے لیکن کوئی کمال درجہ کی بات نہیں ۔لیکن اک لمحہ کے لیے سوچیے گا کہ ایک شخص جو مجھ سے یا آپ اپنے پر قیاس کرلیجیے آپ سے بعض و عناد رکھتا ہو،ببانگ دہل مخالفت بھی کرتاہوں ۔بلکہ لکھ اور بول کر تردید و تحقیر کے پہاڑکھڑے کرتا ہو۔ایسے میں اللہ تعالیٰ کی اُسے عطاکردہ بے بہا صلاحیتوں کی جولانیاں اسکی تعریف و مدحت پر ہمیں مجبور کردیں تو مان لیں کہ آپ کا مد مقابل انتہا کا باکمال،صاحب علم و دانش اور وَ رُشد و ہدایت کا منبع ہیں ۔میں اگر اپنے الفاظ میں امام اہلسنّت کی مداح سرائی کرتا تو عین ممکن ہے کہ آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات آسکتی تھی کہ اپنے مولوی کی تعریف کررہاہے ۔میں نے قلمی دیانت جانتے ہوئے تمام تر تاریخِ جہات آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اب فیصلہ آپ کی عدالت میں ہے ۔

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ' حیات وتعلیمات

0 comments
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے،آپ کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام انجام دئے جو ایک انجمن اور تحریک انجام نہيں دے سکتی۔آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دفاع اہل سنت کے لئے وقف کردی تھی۔
ولادت مبارکہ:

آپ کی ولادت مبارکہ 10 شوال المکرم 1272ھ م12 جون1856 ء،بروز اتوار ، ہندوستان کےمشہور شہر بریلی کے محلہ”جسولی“میں ہوئی۔

اسم گرامی ولقب مبارک:

آپ کے جدا مجد حضرت مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نام”احمد رضا“رکھاجبکہ آپ کا پیدائشی نام "محمد"تھا،اور تاریخی نام " المختار "ہے-

آپ کا لقب مبارک "اعلی حضرت"زبان زد خاص وعام ہے-

آپ "رضا"بطور تخلص استعمال فرماتے تھے،آپ نے اپنےاسم گرامی کے ساتھ"عبد المصطفی "کا اضافہ بھی فرمایا،چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو 'تو ہے عبد مصطفی

تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے

آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے جد امجد کا نام مبارک حضرت مولانارضا علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھا-

یہ دونوں حضرات اپنے وقت کے جلیل القدر علماءِ کرام میں شمار کئے جاتے تھے۔

آپ کی تربیت ایک علمی گھرانہ میں ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ نے صرف چار ، پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا تھا اور اپنی بے پنا ہ خداداد صلاحیتوں اور حیرت انگیز قوت حافظہ کی بناء پر صرف تیرہ سال اور دس ماہ کی عمر میں علم تفسیر، حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق و فلسفہ علم کلام اور مروجہ علوم دینیہ کی تکمیل کرلی۔

آپ علم وفضل کے اتنے بلندترین مقام پر فائز تھے کہ عرب و عجم کے علماء کرام نے شاندارالفاظ میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا اورعظیم الشان القاب سےنوازا۔

1295ھ/1878ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ اپنے والد کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کیلئے حاضر ہوئے،مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران مشہور شافعی عالم دین حضرت" شیخ حسین بن صالح" آپ سے بے حد متاثر ہوئے اور آپ کی بڑی تحسین و تکریم فرمائی،انہوں نے آپ کا یہ حیرت انگیز کارنامہ دیکھا کہ آپ نے صرف ایک دن میں ان کی کتاب ”الجوھرۃالمضیۃ“کی شرح نہایت فصیح و بلیغ عربی میں ”النیرۃالوضیۃ فی شرح الجوھرۃ المضیۃ“کے نام سےتصنیف فرمائی۔

اس کے بعد آپ نے اس کتاب میں کچھ تعلیقات اور حواشی کا اضافہ فرمایا اور اس کتاب کا تاریخی نام”الطرۃ الرضیۃ فی النیرۃ الوضیۃ “ تجویز فرمایا۔

اسی طرح1322 ھ/1905ء میں آپ دوبارہ زیارت حرمین شریفین کے لیے گئے تو اس بار وہاں کے علماء کبار کیلئے نوٹ (کرنسی) کے ایک مسئلے کا حل ”کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم“کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب “الدولۃ المکیّہ“بھی تحریر فرمائی، جس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کے اثبات پرعالمانہ اور محققانہ بحث فرمائی اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کوقرآن کریم واحادیث شریفہ کی روشنی میں ثابت فرمایاہے۔

آپ کی تصانیف،مؤلفات ،رسائل اور کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رنگارنگ جلوے نظر آتے ہیں،آپ کے نظم ونثر میں محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عنصر غالب رہا-جس کی چند مثالیں یہ ہیں:

اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ

ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ

دربار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح معروضہ کرتے ہیں:

اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا

تم نے چلے پھرتے مردے جلادئے ہیں

آنے دو یا ڈوبودو اب تو تمہاری جانب

کشتی تم ہی پہ چھوڑی لنگر اٹھادئے ہیں

ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود وعطا سے متعلق فرماتے ہیں:

واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحاتیرا

"نہيں"سنتا ہی نہیں مانگنے والاتیرا

تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا

تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا

فیض ہے یا شہِ تسنیم نِرالا تیرا

آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا

اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا

اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

رفعت شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق فرماتے ہیں:

فرش والے تری شوکت کا عُلو کیا جانیں

خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیر

حضرات اہل بیت کرام کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہےبچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

آپ کو بارگاہ غوثیت سے اٹوٹ وابستگی تھی،بارگاہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ میں آپ نے اس طرح نذرانۂ عقیدت پیش کیا:

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سَروں سے قدم اعلیٰ تیرا

سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا

اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا

تجھ سے در، در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کونسبت

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا

اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے

حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا

میری قسمت کی قسم کھائیں سگانِ بغداد

ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں حضرت غوث اعظم کا اس طرح وسیلہ پیش کیا:

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

مذہب و مشرب:

اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نسبت کے لحاظ سے" پٹھان" تھے،مسلک کے اعتبار سے "حنفی"اور مشرب کے لحاظ سے قادری تھے-

شرفِ بیعت وخلافت:

1295ھ/1877ء میں حضرت شاہ آل رسول مار ہروی رحمہ اللہ سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوئے اور دیگر سلاسل مثلاً سلسلۂ چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ وغیرہ میں دوسرے مشائخ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔

تصانیف:

آپ نے شان رسالت ،فضائل ومناقب اور عقائد پر (62)کتا بیں تحریر فرمائیں،حدیث اور اصول حدیث پرتیرہ(13)کتابیں،علم کلام اور مناظرہ پر(35)فقہ اور اصول فقہ پر 159 کتابیں اور متفرق باطل فرقوں کے رد میں (400)سے زائد کتابیں لکھی-

آپ کی تصانیف میں ایک شہرۂ آفاق کتاب"العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ "جو "فتاوی رضویہ"کے نام سے جانی جاتی ہے-

آپ نے اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی فرمایا،جس کا نام "کنز الایمان"ہے-

کرامت:

یوں تو آپ سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا ہے،یہاں بطور نمونہ ایک کرامت لکھنے کی عزت حاصل کی جارہی ہے:

ایک مرتبہ آپ ٹرین میں "پیلی"سے "بریلی"تشریف لارہے تھے،ٹرین "نواب گنج"کے اسٹیشن پر ایک دومنٹ کے لئے رکی،نماز مغرب کا وقت ہوچکاتھا،آپ احباب کے ساتھ پلیٹ فارم پر نماز کی ادائیگي کے لئے اترے ،احباب پریشان ہوئے کہ گاڑی چلی جائے گي-اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:فکر مندہونے کی ضرورت نہیں؛گاڑي ہمیں لے کرہی جائے گي!

چنانچہ اذان دلواکر بڑے خضوع وخشوع سے باجماعت نماز شروع کردی-

ادھر ڈرائیور نے انجن چلایا لیکن وا ایک انچ بھی آگے نہ بڑھا،ڈرائیور نے انجن کو پیچھے کی طرف چلایا تو وہ چل پڑا،اس نے دوبارہ آگے کی طرف چلایا تو نجن پہلے والی جگہ پر آکر بند ہوگيا-

ایک آواز بلند ہوئی کہ دیکھو وہ درویش نماز ادا کررہا ہے،اسی وجہ سے ریل نہیں چلتی،لوگ آپ کے گرد جمع ہوگئے ،انگریز گارڈ جو حیران کھڑا تھا ،بڑے ادب سے آپ کے قریب بیٹھ گیا،جو نہی آپ نماز سے فارغ ہوکر ریل میں سوار ہوئے ریل چل پڑي،انگریز گارڈ آپ سے متعارف ہوااور اپنے بچوں سمیت بریلی شریف حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگیا-

وصال مبارک:

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک 25،صفر المظفر1340ھ م 28 اکٹوبر 1921،بروز جمعہ ادھر مؤذن صاحب اذان جمعہ میں "حی علی الفلاح"کہا اور ادھر آپ نےکلمۂ طیبہ پڑھا،اور مولانا مصطفی رضا خان صاحب سے فرمایا :سورۂ یسین شریف اور سورۂ رعد شریف تلاوت کرو!اس کے بعد آپ کے چہرۂ مبارک پر ایک نور ظاہر ہوااورآپ اس دنیا ئے فانی سے کوچ فرماگئے-

اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

0 comments
اعلی حضرت بہت بڑے عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم عالم فاضل گزرے ہیں جن کو فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر عبورحاصل تھا۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ وه بےحد ذہین اور باریک بین عالم دین تھے فقہی بصریت میں انکا مقام بہت بلند تھا۔

ان کے فتاوی کے مطالعے سے اندازه ہوتا ہے کہ وه کس قدر اعلی اجتہادی صلاحتیوں سے بہره ور اور پاک و ہند کے کیسے بابغہ روزگار فقیہ تھے۔ ہندوستان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ بمشکل ملے گا۔
(عبدالنبی کوکب، مقالات یوم رضا، حصہ سوم)

آپ کا شمار ان بزرگان دین میں ہوتا ہے جن کو حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے ظاہری حالت میں اپنی بیعت نصیب فرمائی۔

اعلی حضرت کے بارے میں اویس رضا قادری کہتے ہیں کہ اعلی حضرت حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں ان سے ملاقات کی تمنا لیے حاضر ہوۓ اور وہاں جا کر دوردپاک کی کثرت کردی بے حساب درودپاک پڑھا مگر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره معصول نہ ہوا دوسرے دن بھی اسی طرح حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور درود پاک کی کثرت کردی مگر اس کے باوجود حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره نہ ہوا تیسرے دن آپ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور روتے ہوۓ یہ قیصدے پڑھنے لگے۔

وه سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جوتیرے درسے یارپھرتے ہیں
دربدریونہی خوار پھرتے ہیں

اور آخر میں اعلی حضرت نے خود کو بالکل مٹا دیا جب دیکھا کہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم اپنا جلوه نہیں دیکھا رہے تو آپ نے اپنی حثیت اور اوقات بالکل مٹا دی اور یوں فرمانے لگے کہ:

کوئی کیا پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں

یہ ہوتا ہے عشق کا مقام کہ خود کو معشوق کے قدموں میں گرا دیتا ہے عاشق خود کو معشوق کے سامنے حقیربنا کر پیش کرتا ہے

یہ بات کہنے کی دیر تھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم بشم خود ظاہری حالت میں تشریف لاۓ اور اعلی حضرت کو اٹھا کر اپنے سینہ مبارک سے لگایا۔
اس کے بعد اعلی حضرت کو حضورپاک کے اتنے جلوے نظر آۓ کہ کبھی کہتے ہیں:

کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
کبھی کہتے ہیں
تو شمع رسالت ہے عالم ہے تیرا پروانہ
کبھی کہتے ہیں
وه کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

غرض یہ کہ اس کے بعد اعلی حضرت کے قلم سے ایسے ایسے الفاظ نکلے کہ جنہیں سن کر بڑے بڑے اہل علم دنگ ہیں اعلی حضرت نے حضورپاک کی شان میں اتنا کچھ لکھ دیا کہ جو آج تک کوئی نہ لکھ سکا اور کمال بات یہ اعلی حضرت نے نہ کبھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی شان کو گھٹایا نہ کبھی بڑھایا بلکہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ کی شان کو بیان کیا اور ایسی بیخودی کے عالم میں بیان کیا کہ اگر اعلی حضرت کو کوئی کلام بھری محفل میں پڑھ دیا جاۓ تو وہاں پر موجود ہر فرد جھوم اٹھتا ہے۔

اعلی حضرت نے سرورکہوں کے مالک و مولا کہوں تجھے کلام لکھ کر اپنی حیرت و بے بسی کی انتہا کر دی آپ صلی الله علیہ وسلم کی جسم مبارک کی تعریف کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ:

الله رے تیرے جسم منور کی تابشیں
اے جان جاں میں جان تجلا کہوں تجھے

پھر جب اعلی حضرت آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصف کا ذکر کرتے ہیں تو یوں فرماتے ہیں:

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں میں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے

جب اعلی حضرت کی نظر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کے وصف پر پڑتی ہے ان کی عقل حیران ره جاتی ہے اگر کوئی ساری زندگی صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کی وصف تحریر کرتا رہے تو وه مر جاۓ گا مگر آپ کے وصف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوگا

زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گۓ مگر آپ کے وصف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا یہاں پر آکراعلی حضرت کا علم اور قلم جواب دے جاتا ہے اور آپ برجستہ فرماتے ہیں:

حیراں ہوں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
پھر فرماتے ہیں
کہہ لے گی سب کچھ تیرا ثنا خوان کی خاموشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے

قارئین ذرا سوچیۓ کہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کتنی بڑی ہستی ہیں کہ آپ کی تعریف کرتے کرتے ثناء خوان بھی خاموش ھوجاتے ہیں مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف مکمل نہیں ہوپاتی اور آخر پر اعلی حضرت نے کلام کا ختم سخن کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بنده خلق کا آقا کہوں تجھے

حضورپاک تو دور کی بات میں ان کے غلام کی تعریف کرنے کے بھی قابل نہیں اور نہ ہی میرے پاس ایسا علم ہے کہ میں اعلی حضرت کو خراج تحسین پیش کرسکوں میں خود یہ سب لکھنے کیلۓ انہی کے کلام کا سہارا لے رہا ہوں
میں کیا لکھ پاؤں گا اعلی حضرت کے مطلق کہ میرے اعلی حضرت کون تھے بس اتنا سمجھ لیجے وه میری جان ہیں میری دھڑکن ہیں میری روح میں ہلچل بیپاکردینے والے انسان ہیں مجھ جیسوں کو عاشق رسول بنا دینے والے عظیم انسان اور ثناء خوان مصطفی ہیں۔

دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اعلی حضرت کے کلام کی گونج نہ ہو۔

امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا استاد قادیانی تھا وہابیہ و دیابنہ کے جھوٹ کا منہ توڑ جواب

0 comments
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا استاد قادیانی تھا وہابیہ و دیابنہ کے جھوٹ کا منہ توڑ جواب

غیر مُقلد وھابی مولوی احسان الہیٰ ظہیر کذّاب اعظم پیروکار ابن وھاب نجدی کی بدنام زمانہ کتاب البریلویہ میں اہلسنت پر
 لگائے جانے والے ایک الزام کا منہ توڑ جواب :

مرزا غلام قادر بیگ کون تھے ؟ امام احمد رضا بریلو ی قدس سرہ ، العزیز کے مخالفین کی بے مائیگی کا یہ عالم ہے کہ پادر ہوا الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور یہ نہیں سوچتے کہ شکوک و شبہادت کی تاریکی چھٹتے کتنی دیر لگے کی اور جب ظلمتِ شبِ اعتراضات دور ہو گی تو امام احمد رضا بریلوی کا قداور اونچا ہو چکا ہو گا ۔

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے : والجدیر بالذکر ان المدرس الذی کان یدرسہ مرزا غلام قادر بیک کان اخلاللمر زاغلام احمد المتنبی القادیانی (البریلویۃ :ص ۲۰)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو مدرس انہیں پڑ ھایا کرتا تھا۔ مرزا غلام قادر بیگ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا ۔

اس سلسلے میں چند امور تو جہ طلب ہیں : ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ثابت کیا جائے کہ امام احمد رضا بریلوی کے استاذمرزا غلام قادر بیگ ، مرزا قادیانی کے بھائی تھے : فان لم تفعلو اولن تفعلوا فاتقو ا النار التی وقودھا الناس والحجارۃo

کان یدرسہ کا یہ مطلب ہے کہ مرزا غلام قادر بیگ مستقل استاذ تھے جن سے امام احمد رضا بریلوی نے تمام یا اکثر و بیشتر کتابیں پڑ ھی تھیں ، حالانکہ ان سے صرف چند ابتدائی کتابیں پڑ ھی تھیں ۔ ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری فرماتے ہیں : میزان منشعب وغیرہ جناب مرزا غلام قادربیگ صاحب سے پڑ ھنا شروع کیا۔
(ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت ، ص ۳۲)

جب عربی کی ابتدائی کتابوں سے حضور فارغ ہوئے ، تو تمام دینیات کی تکمیل اپنے والد ماجد حضرت مولانا مولوی نقی علی صاحب ۔ سے تمام فرمائی ۔(ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت ، ص ۳۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ردِّ مرزائیت : امام احمد رضا بریلو ی کے مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ مرزائیوں اور اسلام کے نام پر بد مذہبی پھیلانے والے تمام فرقوں کے لیے شمشیر بے نیام تھے ۔ مرزائیوں کے خلاف متعدد ورسائل تحریر فرمائے ۔ چند نام یہ ہیں :
(۱) المبین ختم النبیین
(۲) السوء والعقاب علی المسیح الکذاب
(۳) قھرالدیان علیٰ مرتد بقا دیان
(۴) جزاء للہ عدوہ بابائہ ختم البنوۃ
(۵) الجرازالدیانی علی المرتد القادیانی

آخرالذکر رسالہ ایک سوال کا جواب ہے جو ۳ محرم۱۳۴۰ھ کو پیش ہوا ، جس کا آپ نے جواب تحریر فرمایا۔ اسی سال ۲۴ صفر کو آپ کا وصال ہو گیا۔ یہ رسالہ مختصر مقدمہ کے ساتھ مرکزی مجلسِ رضا، لا ہور کی طرف سے چھپ چکا ہے ۔

ان رسائل کے علاوہ احکامِ شریعت ، المعتمد المستند اور فتاویٰ رضویہ میں رومرزائیت میں آپ کے فتاویٰ دیکھے جا سکتے ہیں ۔

پروفیسر خالد شبیر احمد، فیصل آباد، دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کے باوجود انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کے فتویٰ سے قبل ان تاثرات کا اظہار کیا ہے : اس فتویٰ سے جہاں مولانا کے کمالِ علم کا احساس ہوتا ہے ، وہاں مرزا غلام احمد کے کفر کے بارے میں ایسے دلائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی ذی شعور مرزا صاحب کے اسلام اور اس کے مسلمان ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔(خالد شبیر احمد: تاریخ محاسبہ قادیانیت (قرطاس، فیصل آباد) ص ۴۵۵)

مزید لکھتے ہیں : ذیل کا فتویٰ بھی آپ کی علمی استطاعت ، فقہی دانش و بصیرت کا ایک تاریخی شاہکار ہے ۔ جس میں آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کو خود ان کے دعاوی کی روشنی میں نہایت مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے ، یہ فتویٰ مسلمانوں کا وہ علمی و تحقیقی خزینہ ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کریں ، کم ہے ۔ (خالد شبیر احمد: تاریخ محاسبہ قادیانیت (قرطاس، فیصل آباد) ص ۴۶۰) ۔

مرزائے قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ دنیا نگر کا معزول تھا نیدار تھا۔ (ابوالقاسم رفیق دلاوری: رئیس قادیان (مجلس قادیان (مجلس تحفظ ختمِ نبوت ، ملتان) ج۱ ، ص ۱۱)

جوپچپن برس کی عمر میں ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا، ( ابوالقاسم رفیق دلاوری: رئیس قادیان (مجلس قادیان (مجلس تحفظ ختمِ نبوت ، ملتان) ج۱ ، ص ۱۴)،

جبکہ امام احمدر رضا کے بچپن کے چند کتابوں کے استاذ ، مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ پہلے بریلی میں رہے ۔ پھر کلکتہ چلے گئے اور بریلی سے بذریعہ استفتا ء رابطہ رکھتے رہے ۔

ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری فر ماتے ہیں : میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم و مغفور (مرزا غلام قادر بیگ ) کو دیکھا تھا، گورا چٹا رنگ عمر تقریباً اسی سال داڑ ھی سر کے بال ایک ایک کر کے سفید ، عمامہ باندھے رہتے ۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے ، اعلیٰ حضرت بہت ہی باعزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے ۔ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ، امر تلالین میں تھا، وہاں سے اکثر سوالات جواب طلب بھیجا کرتے ، فتاویٰ میں اکثر استفتاء ان کے ہیں ۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ تجلی الیقین بان نبینا سیدالمرسلین تحریر فرمایا ہے ۔ ( ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت، ج۱ ، ص ۳۲) ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فتاویٰ رضویہ جلد سوم مطبوعہ مبارک پورا، انڈیا کے ص۸ پر ایک استفتاء ہے جو مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۱ جمادی الآ خرہ ۱۳۱۴ھ کو ارسال کیا تھا۔

ان تفصیلات کو پیش نظر رکھیے ، آپ کو خود بخود یقین ہو جائے گا۔ مرزائے قادیانی کا بھائی اور امام احمد رضا بریلوی کے استاذ دو الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔

وہ قادیان کا معزول تھانیدار ۔ یہ مدرس ٹائپ مولوی

وہ پچپن سال کی عمر میں مر گیا ۔ یہ اسی سال کی عمر میں حیات تھے

وہ ۱۳۰۰ ھ /۱۸۸۳ء میں قادیان میں فوت ہوا ۔ یہ ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۷ء میں زندہ تھے

کیونکہ عادتاً ایسا تو ہو نہیں سکتاکہ وہ ۱۸۸۳ء میں قادیان میں فوت ہوا ہواور وفات کے ٹھیک چودہ برس بعد ۱۸۹۷ء میں کلکتہ سے بریلی استفتاء بھیج دیا ہو۔
(مولانا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کی وفات ۱۸اکتوبر ۱۹۱۷ء/یکم محرم الحرام۱۳۳۶ھ کوبعمر۹۰ سال بریلی میں ہوئی ، اور محلہ باقر گنج میں واقع حسین باغ میں دفن کئے گئے ، یہیں ان کے بڑ ے بھائی حضرت مولانا مطیع بیگ مرحوم دفن ہیں ، مولانا مرزا غلام قادربیگ کے بڑ ے بیٹے حکیم مرزا عبدالعزیز (متوفی۱۵شعبان ۱۳۷۴ھ) بھی بریلی میں لا ولد فوت ہوئے ، حضرت مرزا غلام قادر بیگ کی دو دختران تھیں دونوں فوت ہوگئیں ، بڑ ی دختر کے ایک پسر اور چھوٹی دختر کی اولاد اَب بھی بریلی میں سکونت پذیر ہے ۔ مضمون مرز ا غلام قادربیگ از مرزا عبدالوحید بیگ، بریلی نبیرۂ مرزا غلام قادر بیگ، ماہنامہ سنی دنیا، بریلی، شمارہ جون ۱۹۸۸ء: ص۳۷تا۴۱۔)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

پروفیسر محمد ایوب قادری نے ایک مکتوب میں لکھا : یہ افترائے محض ہے ، مرزا غلام قادر بیگ بریلوی قطعاً دوسری شخصیت ہیں ، میں تفصیلی جواب ارسالِ خدمت کروں گا، اطمینان فرمائیے “(مکتوب بنام راقم: تحریر۳۱ مئی ۱۹۸۳ء)نوٹ: افسوس کہ ۲۳ نومبر ۱۹۸۳ء کو پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب ایک ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے ، اس لیے انہیں تفصیلات لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ۱۲ شرف قادری ۔

شعبہ تاریخ احمدیت، ربوہ سے دوست محمد شاہد نے پروفیسر محمد مسعود احمد پرنسپل گورنمنٹ سائنس کالج، ٹھٹھہ کے نام کے ایک مکتوب میں لکھا ہے : بڑ ے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے آپ کے دعویٰ مسیحیت (۱۸۹۱ء) سے آٹھ سال قبل ۱۸۸۳ء میں انتقال کیا۔ آپ خود یا آپ کے کوئی بھائی، بانس بریلی ، رائے بریلی یا کلکتہ میں مقیم نہیں رہے (محمد مسعود احمد ، پروفیسر: مکتوب بنام راقم، ۲۳ دسمبر ۱۹۸۳ء)

اس کے بعد یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ امام احمد رضا کے استاذ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑ ے بھائی تھے ۔

مرزا غلام قادر بیگ ؟ ہٹلر کے دستِ راست گوئبلز کا قول ہے کہ ''جھوٹ اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے'' امام احمد رضا بریلوی کے چند ابتدائی کتب کے استاد، مرزا غلام قادر بیگ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مخالفین نے اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے زور شور سے یہ پروپگینڈا کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔ مرزا کا بھائی ١٨٨٣ء میں فوت ہو گیا تھا ، جبکہ مرزا غلام قادر بیگ ١٨٩٧ء میں کلکتہ میں حیات تھے۔ تفصیل آئندہ پیغامات میں ملاحظہ کی جائے۔ دراصل نام کے اشتراک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ایک صحیح العقیدہ مسلمان کو مرزائی اور کافر بنا دیا اور اس سے ان کے دل پر کوئی ملال نہیں آیا کہ کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر ہم نے ایک مسلمان کو کافر کیوں قرار دیا؟ اور ملال آئے بھی تو کیوں کر؟ جبکہ یہ لوگ تما م عامتہ المسلمین کو کافر قرار دے کر بھی اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔
عطیہ محمد سالم بھی اسی پروپگینڈا کے زیرِ اثر یہ کہہ گئے: ''بریلویۃ کے بانی کا پہلا استاذ، مرزا غلام قادربیگ ، مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قادیانیت اور بریلویت دونوں استعمار کی خدمت میں بھائی بھائی ہیں''۔(عطیہ محمد سالم: تقدیم البریلویۃ' ص٤)
اگر کسی دعوےٰ کا ثابت کرنا واقعی محتاج دلیل ہوتا ہے، توہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ اپنے دعوے کی صداقت پر کوئی دلیل پیش کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ قیامت تک کوئی دلیل نہ لا سکیں گے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

محترم قارئین : امام احمد رضا محدث بریلی علیہ الرحمہ پر کئی ایک جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت الزام و اتہام لگائے گئے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: ’’والجدیر بالذکر ان المدرس الذی کان یدرسہ مرزا غلام قادر بیگ کان اخاللمرزا غلام احمد المتنبی القادیانی‘‘(احسان الٰہی ظہیرغیر مقلد وہابی ‘البریلویہ (عربی) مطبوعہ لاہور ص 20)
ترجمہ: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔
(احسان الٰہی ظہیر‘ البریلویہ (اردو) ‘ مطبوعہ لاہور‘ ص 41)
عرب کے ایک نجدی قاضی عطیہ محمد سالم نے کتاب ’’البریلویہ‘‘ پر تقدیم لکھی اور قاضی ہونے کے باوجود بغیر تحقیق کے کہا!’’بریلویہ کے بانی کا پہلا استاذ‘ مرزا غلام قادر بیگ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا‘ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قادیانیت اور بریلویت دونوں استعمار کی خدمت میں بھائی بھائی ہیں‘‘ (عطیہ محمد سالم‘ تقدیم البریلویہ‘ عربی‘ مطبوعہ لاہور ص 4)
بغض اور حسد ایسی روحانی مہلک بیماریاں ہیں کہ جب انسانی دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں تو انسان میں حق و انصاف کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ تحقیق اور حق کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور انسان شکوک و شبہات کی عمیق دلدل میں پھنس کر راہ حق اور صراط مستقیم سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔
احسان الٰہی ظہیر غیر مقلد بھی ایسی خطرناک بیماریوںکا شکار ہوا اور ایک صالح عاشق رسول پر بے جا بہتان لگایا۔ دنیا مین تو تعصب کے اندھے حواری واہ واہ کردیں گے‘ مگر میدان محشر میں احسان الٰہی ظہیر ار اس کے حواریوں کے پاس اس بہتان کا کیا جواب ہوگا؟
قارئین کرام! امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے ابتدائی کتب کے استاذ مولانا مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ اور مرزا غلام قادر بیگ گورداسپوری دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے استاذ کو مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی کہنا تحقیق و مطالعہ سے یتیم‘ سراسر ظلم عظیم اور بغض رضا کا سبب ہے۔ یہ دھاندلی اسی وقت تک چلتی ہے جب تک حقیقت سامنے نہ ہو‘ لیکن جب سحر طلوع ہوتی ہے تو اندھیرے بھاگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر اعلیٰ حضرت کے استاذ گرامی مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ و الرضوان اور فرقہ قادیانیت کا بانی اور انگریزوں کا ایجنٹ مرزا غلام قادر بیگ دونوں کی سوانحی جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں۔ قارئین اندازہ لگاسکیں گے کہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی بن حکیم مرزا حسن جان بیگ علیہ الرحمہ ۔ حضرت مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بن حکیم مرزا حسن جان بیگ لکھنوی رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہ‘ یکم محرم الحرام ۱۲۴۳ھ/ 25 جولائی 1827ء کو محلہ جھوائی ٹولہ لکھنؤ (یوپی ‘ ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد نے لکھنؤ سے ترک سکونت کرکے بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ آپ کی رہائش بریلی شہر کے محلہ قلعہ میں جامع مسجد کے مشرقی جانب تھی۔ آپ کا رہائشی مکان بریلی شریف میں اب بھی موجود ہے۔ آپ کے بھائی مولانا مرزا مطیع اﷲ بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے مولانا مرزا محمد جان بیگ رضوی علیہ الرحمہ نے خاندانی تقسیم کے بعد 1914ء میں پرانے شہر بریلی میں سکونت کرلی تھی مگر مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کی سکونت محلہ قلعہ ہی میں رہی۔
آپ کا خاندان نسلاً ایرانی یا ترکستانی مغل نہیں ہے بلکہ مرزا اور بیگ کے خطابات اعزاز‘ شاہان مغلیہ کے عطا کردہ ہیں۔ اسی مناسبت سے آپ کے خاندان کے ناموں کے ساتھ مرزا اور بیگ کے خطابات لکھے جاتے رہے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نست حضرت خواجہ عبیداﷲ احرار نقشبندی علیہ الرحمہ سے ملتا ہے۔ حضرت احرار رحمتہ اﷲ علیہ نسلاً فاروقی تھی۔ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور اس کے والد‘ حضرت خواجہ عبیداﷲ احرار سے بیعت تھے۔ اس لئے بابر اور اس کے جانشین‘ حضرت خواجہ احرار کی اولاد سے فیض روحانی حاصل کرتے رہے۔ لیکن جلال الدین اکبر کے دور میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور اس خاندان کے بزرگ واپس وطن لوٹ گئے۔ مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر نے اپنے دور میں اپنے خاندانی بزرگوں سے رجوع کیا‘ لہذا اس خاندان کے بزرگ تاجکستان سے پھر ہندوستان آگئے۔
امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ کے اجداد کرام بھی شاہان مغلیہ سے وابستہ رہے ہیں۔ اسی زمانے سے ان دونوں خاندانوں کے قریبی روابط رہے ہیں۔ مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کے حقیقی بھائی مولانا مرزا مطیع اﷲ بیگ علیہ الرحمہ کے پوتے مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی کی دو ہمشیرگان‘ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کے خاندان میں بیاہی گئیں۔ ایک حضرت مفتی تقدس علی خان رحمتہ اﷲ علیہ کے تایا زاد بھائی حافظ ریاست علی خاں مرحوم کو اور دوسری فرحت علی خاں کے فرزند شہزادے علی خاں مرحوم کو۔
مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کے بھائی مولانا مرزا مطیع اﷲ بیگ جب جامع مسجد بریلی کے متولی مقرر ہوئے تو آپ نے مسجد سے ملحقہ امام باڑے سے علم اور جھنڈے وغیرہ اتروادیئے۔ آپ کے اس فعل سے بعض جاہل شرپسند رافضی لوگ آپ کے خلاف ہوگئے تو اس وقت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے دادا مولانا رضا علی خاں رحمتہ اﷲ علیہ نے فتویٰ دیا تھا کہ متولی مسجد صحیح العقیدہ سنی حنفی ہیں اور عمارت مسجد سے امام باڑہ کو ختم کرنا شرعا جائز ہے۔ یہ فتویٰ کرم خوردہ آج بھی بریلی شریف میں مولانا مرزا مطیع اﷲ بیگ علیہ الرحمہ کے پوتے مرزا عبدالوحید بیگ کے پاس موجود ہے۔
مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ اور امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں رحمتہ اﷲ علیہ کے درمیان محبت و مروت کے پرخلوص تعلقات تھے۔ اس لئے مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے امام احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کی تعلیم اپنے ذمہ لے لی تھی۔ آپ کے دیگر تلامذہ آپ کے مطب واقع محلہ قلعہ متصل جامع مسجد بریلی ہی میں درس لیا کرتے تھے‘ مگر صغرسنی اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو ان کے مکان پر ہی درس دیتے تھے (ماہ نامہ ’’سنی دنیا‘‘ بریلی‘ مضمون ’’مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی‘‘ مضمون نگار‘ مرزا عبدالوحید بیگ‘ شمارہ جون 1988ء ص 37)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے ابتدائی کتابیں‘ میزان‘ منشعب وغیرہ مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے پڑھیں (مولانا ظفر الدین بہاری‘ حیات اعلیٰ حضرت‘ مطبوعہ کراچی‘ ج 1ص 32)
مولانا عبدالمجتبیٰ رضوی لکھتے ہیں : اردو اور فارسی کی ابتدائی کتب آپ (مولانا احمد رضا علیہ الرحمہ) نے مولانا مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ سے پڑھیں‘‘ (مولانا عبدالمجبتیٰ رضوی‘ تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ‘ مطبوعہ لاہور 1989ء ص 394)
پروفیسر محمد ایوب قادری (کراچی)‘ بریلی کے اسلامی مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:مولانا محمد احسن نے بریلی کے اکابر وعمائد کے مشورے اور معاونت سے ایک مدرسہ باسم تاریخی ’’مصباح التہذیب‘‘ ۱۲۸۶ھ/1872ء میں قائم کیا… اس مدرسہ کے پہلے مہتمم مرزا غلام قادر بیگ تھے‘‘ ( پروفیسر محمد ایوب قادری‘ مولانا محمد احسن نانوتوی‘ مطبوعہ کراچی 1966ء ص 82)
مولوی محمد حنیف گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:اس مدرسہ (مصباح التہذیب) کے پہلے مہتمم مرزا غلام قادر بیگ تھے اور مولوی سخاوت حسین‘ سید کلب علی‘ مولوی شجاعت‘ حافظ احمد حسین اور مولوی حافظ حبیب الحسن درس دیتے تھے‘‘ (مولوی محمد حنیف گنگوہی‘ ظفر المحصلین باحوال المصنفین‘ مطبوعہ کراچی 1986ء ص 295)
ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم ومغفور (مولانا مرزا غلام قادر بیگ) کو دیکھا تھا۔ گورا چٹا رنگ‘ عمر تقریبا اسی سال‘ داڑھی سر کے بال ایک ایک کرکے سفید‘ عمامہ باندھے رہتے۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے‘ اعلیٰ حضرت بہت ہی عزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے‘ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ امر تلالین میں تھا‘ وہاں سے اکثر سوالات کے جواب طلب فرمایا کرتے تھے۔ فتاویٰ رضویہ میں اکثر استفتا ء ان کے ہیں۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ ’’تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین‘‘ (1305ھ/1887ئ) تحریر فرمایا ہے‘‘ (مولانا ظفر الدین بہاری‘ حیات اعلیٰ حضرت ‘ مطبوعہ کراچی‘ ج 1ص 32)
فتاویٰ رضویہ جلد سوئم‘ مطبوعہ مبارک پور (ہندوستان) کے صفحہ 8 پر ایک استفتاء ہے جو مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے 21 جمادی الآخر 1314ھ کو ارسال کیا تھا۔
فتاویٰ رضویہ ‘ جلد گیارہ‘ مطبوعہ بریلی (ہندوستان) بار اول کے صفحہ 45 پر ایک استفتاء ہے جو مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے کلکتہ دھرم تلا نمبر 1 سے 5 جمادی الآخر 1312ھ کو ارسال کیا تھا۔
مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کے دو فرزند اور دو دختران تھیں‘ دونوں دختران فوت ہوگئیں۔ بڑی دختر کے ایک پسر اور چھوٹی دختر کی اولاد بریلی شریف میں سکونت پذیر ہے۔ فرزند اکبر مولانا حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ علیہ الرحمہ اور دوسرے فرزند حکیم مرزا عبدالحمید بیگ علیہ الرحمہ تھے۔
مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:خدا کے فضل سے (مولانا غلام قادر بیگ) صاحب اولاد ہیں۔ ایک صاحبزادہ جن کا نام نامی عبدالعزیز بیگ ہے‘ دینیات سے واقف اور طبیب ہیں… بریلی کی جامع مسجد کے قریب مکان ہے‘ پنج وقتہ نماز اسی مسجد میں ادا کیا کرتے ہیں‘‘ (مولانا ظفر الدین بہاری‘ حیات اعلیٰ حضرت ‘ مطبوعہ کراچی ج 1‘ص 32)
مولانا حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ پہلے رنگون (برما) میں رہے‘ پھر کلکتہ میں طبابت کی‘ ایام جوانی میں کلکتہ ہی میں سکونت رکھی‘ چنانچہ مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کبھی کبھی اپنے فرزند اکبر کے پاس کلکتہ تشریف لے جاتے تھے‘ پھر حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ آخری ایام میں کلکتہ سے ترک سکونت کرکے بریلی شریف آگئے تھے اور وفات تک اپنے آبائی مکان میں سکونت پذیر رہے۔ آپ بڑے ہی علم و فضل والے‘ عابد ‘ تہجد گزار‘ متقی اور صاحب کرامت بزرگ تھے (ماہنامہ ’’سنی دنیا‘‘ بریلی‘ شمارہ جون 1988ء ص 40)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مولانا حکیم مرزا عبدالعزیز بیگ علیہ الرحمہ کا وصال 15/14 شعبان 1374ھ کی درمیانی شب کو بریلی شریف میں ہوا (مولوی عبدالعزیز خان عاصی (متوفی 14 اپریل 1964ئ) تاریخ روہیل کھنڈ و تاریخ بریلی‘ مطبوعہ کراچی 1963ء ص 299-300) اور آپ لاولد فوت ہوئے (ماہنامہ سنی دنیا‘ بریلی‘ شمارہ جون 1988ء ص 40)
دوسرے صاحبزادے مرزا عبدالحمید بیگ پہلے ریاست بھوپال میں رہے‘ پھر پیلی بھیت کے اسلامیہ انٹر کالج میں ملازم رہے‘ وہیں آپ کا وصال ہوا‘ مجرد تھے۔
مرزا محمد جان بیگ رضوی کی بیاض کے مطابق مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی کا وصال یکم محرم الحرام 1336ھ / 18 اکتوبر 1917ء کو 90 سال کی عمر میں ہوا اور محلہ باقر گنج واقع حسین باغ بریلی میں دفن ہوئے۔ آپ کے بھائی مرزا مطیع اﷲ بیگ علیہ الرحمہ بھی وہیں دفن ہیں۔( ماہنامہ سنی دنیا‘ بریلی شمارہ جون 1988ء ص 40)
حضرت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب علیہ الرحمہ نے ’’حیات مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘‘ مطبوعہ سیالکوٹ اور ’’حیات امام اہل سنت‘‘ مطبوعہ لاہور میں مولانا مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کا جو سن وفات 1883ء تحریر کیا ہے‘ وہ درست نہیں ہے۔
مرزا غلام قادر بیگ بن مرزا غلام مرتضیٰ : مرزا بشیر احمد بن غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:مرزا غلام مرتضیٰ بیگ جو ایک مشہور اور ماہر طبیب تھا۔ 1876ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اور اس کا جانشین ہوا۔ مرزا غلام قادر لوکل افسران کی امداد کے واسطے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ان افسران جن کا انتقامی امور سے تعلق تھا‘ بہت سے سرٹیفکیٹ تھے۔ یہ کچھ عرصہ تک دفتر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈنٹ رہا‘ اس کا اکلوتا بیٹا صغر سنی میں فوت ہوگیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنیٰ بنالیا تھا‘ جو غلام قادر کی وفات یعنی 1883ء / 1301ھ تقریبا سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا تھا… اس جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مرزا غلام احمد جو مرزا غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا تھا‘ مسلمانوں کے ایک بڑے مشہور مذہبی سلسلہ کا بانی ہوا‘ جو احمدیہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہوا‘‘ (سیرت المہدی‘ مطبوعہ قادیان ضلع گورداس پور (مشرقی پنجاب‘ انڈیا) 1935ء ص 135)(نوٹ): 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں احمدیہ سلسلہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
مولوی ابو القاسم رفیق دلاوری دیوبندی لکھتے ہیں:ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بھائی غلام قادر دینانگر (ضلع گورداسپور) کی تھانے داری سے معزول ہوکر عملہ کے پیچھے جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے‘‘ (مولوی ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری‘ رئیس قادیان‘ مطبوعہ مجلس ختم نبوۃ حضوری باغ روڈ ملتان 1337ھ/ 1977ء جلد اول‘ ص 11)
مولوی رفیق دلاوری دوسری جگہ لکھتے ہیں:مرزا غلام مرتضیٰ نے 1876ء میں 80 سال کی عمر میں دنیائے رفتنی و گزشتنی کو الوداع کہا۔ ان کی سب سے بڑی اولاد مراد بی بی تھیں‘ جن کی شادی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے بھائی محمد بیگ یعنی بیگم طال عمرہا کے حقیقی چچا سے ہوئی تھی۔ ان سے چھوٹے غلام قادر تھے‘ جنہوں نے اپنی حیات مستعار کے پچپن مرحلے طے کرکے 1883ء میں سفر آخرت کیا۔ ان سے شاہد جنت نامی ایک لڑکی تھی ۔ اور سب سے چھوٹے مرزا غلام احمد صاحب تھے‘‘ (سیرۃ المہدی) (مولوی ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری‘ رئیس قادیان‘ مطبوعہ ملتان 1977ء ج 1‘ص 11)
مرزا غلام قادر بیگ کے نام انگریزی حکومت کا ایک مکتوب:دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ‘ آپ کا خط 2 ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ این جانب میں گزرا ۔ مرزا غلام قادر آپ کے والد کی وفات کا ہم کو بہت افسوس ہوا‘ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریز کا اچھا خیرخواہ تھا اور وفادار رئیس تھا۔ ہم خاندانی لحاظ سے آپ کی اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ کی کی جاتی تھی۔ ہم کسی اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پا بحالی کا خیال رکھیں گے‘‘ المرقوم 29 جون 1876ء
الراقم سر رابرٹ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب ( مرزا بشیر احمد بن غلام احمد قادیانی‘ سیرت المہدی‘ طبع قادیان 1935ء حصہ اول‘ ص 134)( پروفیسر محمد ایوب قادری‘ جنگ آزادی 1857ء مطبوعہ کراچی 1976ء ص 512)
سندخیرخواہی مرزا غلام مرتضیٰ ساکن قادیان : میں (مرزا غلام احمد قادیانی) ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن کی تاریخ ’’رئیسان پنجاب‘‘ میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کی مدد کی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھی‘ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیاں جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات پر میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر‘ خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ الخ
پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں:یہ تحریر مرزا غلام احمد قادیانی کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ یہ خاندان سرکار برطانیہ کا ہمیشہ وفادار رہا ہے اور 1857ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کے والد غلام مرتضیٰ اور بڑے بھائی مرزا غلام قادر نے سرکار برطانیہ کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے اشتہار ’’واجب الاظہار‘‘ از مرزا غلام احمد قادیانی (قادیان 1897ئ) نیز ’’کشف العطائ‘‘ از مرزا غلام احمد قادیانی‘ (قادیان 1906ئ) (۱۶)( پروفیسر محمد ایوب قادری‘ جنگ آزادی 1857ء مطبوعہ کراچی 1976ء ص 508-509)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 21 July 2015

کون سا تعویذ و دم منع ہے اور کن سا جائز جناب عالی اس کا فرق ضرور کیجیئے ورنہ آپ کے بے لگام شرک کے فتوے کس کس پر لاگو ہوں گے ذرا وقت نکال کر شرک کے فتوے لگانے والے ضرور پڑھیں ؟

0 comments
تعویذ کی لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی.

التميمة : وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم , يتقون بها العين في زعمهم (النهاية لابن الأثير : ج ١ ، ص ١٩٧)
"تميمة : "یہ خرزات (پتھر، منکے اور کوڑیوں کی مالا) کو کہتے ہیں جنہیں (زمانہ جاہلیت میں) عرب لوگ ( موثر بالذات سمجھ کر) بچوں کو اس کے ذریعہ سے نظرِ بد سے بچانے کے زعم (عقیدہ و نظریہ) سے پہناتے تھے".

نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں کہ : (( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ قَبْلَ الْبَلاَئِ ))، ’’تمیمہ وہ نہیں جو بلاء (مرض) کے بعد لٹکایا جائے، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے۔‘‘
(المستدرک للحاکم  :۴/۲۱۷ , الترغیب : ج۵ ص۲۷ ؛ طحاوی : ٢/٣٦٠)  (البیہقی: 9/351)

ٓامام بغوی فرماتے ہیں : ’’ اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ ‘‘ [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]

’’تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔‘‘


علامہ ناصر البانی نے لکھا : ’’اور اسی قسم سے بعض لوگوں کا گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا، یا مکان کے اگلے حصے پر، یا بعض ڈرائیوروں کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچائو کی وجہ سے ہے۔‘‘ [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۵۰)]

چونکہ تمیمہ بھی (پناہ حاصل کرنے کے لئے) گلے میں لٹکایا جاتا، تو اسے بھی تعویذ کہا جانے لگا، جبکہ  تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو (صرف الله کو موثر حقیقی مانتے بطور سبب کے تعویذ اختیار کیا جاتا ہو) تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے، اس لیئے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲ وغیرہا) لہذا بعض لوگوں کا تعویذ پہننے کو مطلقاً شرک قرار دینا غلط ہے.

جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں،

١) جس میں شرکیہ و کفریہ کلمات لکھے ہوں،

٢) یا تعویذ کو موٴثر بالذات (ذاتی طور اثر رکھنے والا)، نافع (نفع دینے والا) اور ضار (نقصان دینے والا) سمجھا جائے جیسا کہ لوگ زمانہٴ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے

لیکن اگر اسمائے حسنیٰ اور دیگر آیاتِ قرآنیہ و ادعیہٴ ماثورہ لکھ کر لٹکایا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں۔

فتاویٰ علماۓ : حدیث ج ١٠، ص ٨٢ ، کتاب الایمان و العقائد : "کچھ شک نہیں کہ نفس دم (رقیہ) یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب (تولہ) کی  نہیں بلکہ ان کی بعض  قسمیں شرک ہیں ؛ اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا".[صحيح مسلم  » كِتَاب السَّلَامِ  » بَاب لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ...رقم الحديث: 4086]

فتاویٰ ثانیہ : ج ١ ، ص  ٣٣٩ ، باب اول : عقائد و مہمات دین : "مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ آیات یا کلمات صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان . صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا.

عن جابر رضی اللہ عنہ السئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النشرة فقال ہو من عمل الشیطان رواہ أبوداوٴد قال العلي القاري فی المرقاة النوع الذي کان من أہل الجاھلیة یعالجون بہ ویعتقدون فیہ وأما ما کان من الآیات القرآن والأسماء والصفات الربانیة والدعوات والماثورة النبویة فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذًا أو رقیة أو نشرة (مرقاة : ج۸ ص۳۶۱)

علاج بالقرآن پر اجماع ہے: دیکھئے بخاری شریف کے حاشیہ پر (حاشية بخاري : ١/٣٠٤) لکھا ہے: "فيه جواز الرقية وبه قالت الأئمة الأربعة" یعنی "رقیہ کے جواز پر ائمہ اربعہ قائل ہیں".

امام بخاری رح کے شیخ الحدیث امام ابو بکر بن ابی شیبہ رح کی کتاب "المصنف" کے "باب : جس نے اجازت دی تعویذ لٹکانے کے بیان میں" کی احادیث ملاحظہ ہوں:

حضرت مجاہد رح بچوں کے لئے "تعویذ" لکھتے تھے پھر وه ان پر اسے لٹکتے تھے.

٢٣٨٩٣- .....حضرت جعفر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ تعویذاتِ قرآنیہ کو چمڑے میں ڈال کر گلے وغیرہ میں لٹکانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.
٢٣٨٩٤- ....حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبدالرحمن بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1479 (29413) دعاؤں کا بیان؛
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 503 (18572) - طب کا بیان : تعویذ کیسے کیے جائیں]
٢٣٨٩٥- .....حضرت ابن سیرین تعویذاتِ قرآنیہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.
٢٣٨٩٦- .....حضرت ایوب رح نے حضرت عبیداللہ بن عبدالله بن عمر رح کے بازو میں ایک دھاگہ دیکھا.
٢٣٨٩٧- .....حضرت عطاء رح نے فرمایا : نہیں ہے کوئی حرج کہ (گلے میں) لٹکایا جاۓ قرآن.
٢٣٨٩٨- .....یونس بن حباب سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر رح سے سوال کیا گیا تعویذات بچوں پر لٹکانے کے بارے میں ؟ تو انہوں نے رخصت (اجازت) دی اس میں.

حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ نبی پاک ﷺ  حضرات حسنؓ حسین ؓ کا استعاذہ (تعویذ) ان کلمات سے کرتے:
اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّکُلِّ شَیْطَانٍ وَّھَامَّۃٍ وَمِنْ شَرِّکُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ۔
ترجمہ:میں پناہ چاہتا ہوں اللہ کے کلمات تامہ سے ہر شیطان کی برائی سے اورتکلیف دینے والی چیز سے اورنظر لگنے کی برائی سے۔
(ترمذی:۲/۲۷،حصن:۲۷۳)
آپ ﷺ  انہیں کلمات کو پڑھ کر دم کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑواسماعیل ؑاوراسحاق ؑانہیں کلمات سے تعویذ کرتے تھے۔
اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ                                                           
(بخاری:۲/۴۷۷)

اگر جانور سرکش ہوجائے(یا گاڑی وغیرہ) پریشان کرے
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب کسی کا جانور پریشان کرے مثلاً (دودھ نہ دے،پیر مارے وغیرہ)تویہ آیت اس کے کان میں پڑھے:
اَفَغَیْرَدِیْنَ اللہِ یَبْغُوْنَ وَلَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاً وَکَرْھاً وَاِلَیْہِ یُرْجَعَوْنْ
ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اللہ کےدین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؛حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے(کچھ نے)خوشی سے اور (کچھ نے)ناچار ہوکراور اسی کی طرف سب لوٹ کر جائیں گے۔
فائدہ:جانوروں کو نرم اورمطیع کرنے کے لئے یہ دعا بہت مؤثر ہے دودھ میں بھی زیادتی ہوتی ہے،تعویذ بنا کر گلے میں بھی باندھا جاسکتا ہے؛ ایسے ہی اگر گاڑی وغیرہ خراب ہوجائے اس سے پریشان ہوجائے تو یہ دعا پڑھے۔
(الاتقان:۲/۲۱۰،اذکار نووی:۱۹۲)

حافظ ابن القیم  نے اپنی کتاب ( زادُ المَعَاد : ٣/٥٧٢) میں نقل کیا ہے کہ
امام المروزي نے فرمایا کہ أبا عبد الله [يعني امام أحمد بن حنبل] کو یہ خبر پہنچی کہ مجهے بخار ہے تو انهوں نے میرے لیئے بخار کے علاج کا ایک تعویذ لکها جس میں یہ لکها ہوا تها ، : بسم الله الرحمن الرحيم باسم اللهِ وباللهِ ، وَمُحمدُ رسُولُ الله قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ، وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الأَخْسَرِينَ ) اللهُمَّ رَبَّ جبرئيلَ وَمِیكائيلَ وَإسرافيلَ اِشفِ صاحبَ هَذا الكتابِ بحَولكَ وَقـُوَّتِكَ وَجَـبَرُوتِكَ إلهَ الخـَلقِ . آمين

امام أحمد بن حنبل رحمه الله سے جب کسی بلاء (بیماری وغیره) آنے کے بعد تعویذات لٹکانے کے بارے پوچها گیا ؟ تو انهوں نے فرمایا (أرجو أن لا يكون به بأس) میں یہ امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئ حرج نہیں ہے ، اور امام أحمد بن حنبل رحمه الله بخار وغیره امراض میں تعویذ لکهتے تهے

وقال أحمد وقد سئل عن التمائم تعلق بعد نزول البلاء ؟ قال : أرجو أن لا يكون به بأس . قال الخلال : وحدثنا عبد الله بن أحمد ، قال : رأيت أبي يكتب التعويذ للذي يفزع ، وللحمى بعد وقوع البلاء
زاد المعاد في هدي خير العباد ، فصل الطب النبوي

یاد رہے کہ قرآنی آیات کو لکهہ کر پانی کے ساتهہ دهوکر مریض کو پلانا اور اس کا تعویذ بنانا سلف کے یہاں مشہور ومعروف ہے ، یعنی قرآنی آیات یا ادعیه ماثوره یا الله تعالی اسماء مبارکہ وغیره پرمبنی تعویذ ہو تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ کوئ شرکیہ کلام یاغیر معروف کلام نہ ہو جیسا کہ جادوگر اور نجومی وغیره لوگ لکهتے ہیں

علاّمہ ابن تیمیه  نے لکھا : کسی بهی مصیبت زده مریض وغیره کے لیئے مباح سیاہی کے ساتهہ قرآن مجید سے کچهہ لکهنا اوراس ک وپانی سے دهوکر اس کو پلانا جائز ہے جیسا کہ امام أحمد بن حنبل وغيره نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے

ويجوز أن يكتب للمصاب وغيره من المرضى شيئًا من كتاب اللّه وذكره بالمداد المباح ويغسل ويسقى، كما نص على ذلك أحمد وغيره، الخ
مجموع الفتاوى لابن تيمية رحمه الله (19/64) اهـــ

دانت کی درد کا علاج قرآن مجید کے ساتهہ :

جس دانت میں درد ہو اس کے قریب گال پر یہ لکهے

بسم الله الرحمن الرحيم ‏، ‏قـُل هـُوَ الذِي أنشـَأكـُم وَجَعَلَ لـَكـُمُ السـَّمْعَ وَالأبـْصَارَ وَالأفـْئِدَةَ قـَلِيـْلاً مـَّا تـَشـْكـُرُون‏،‏ ‏ ‏الملك‏ :‏23‏ ]‏اهـ

اور یہ بهی لکهہ سکتا ہے

‏وَلـَهُ مَا سَكـَنَ فِي الليْلِ وَالنـَّهَارِ وَهـُوَالسَّمِيعُ العَلِيْم‏‏ ‏[‏ الأنعام‏ :‏ 13‏ ]‏‏.‏ اهـ

حافظ ابن القيم نے اپنی کتاب ( الطب النبوي ) میں یہی تصریح کی ہے

یاد رہے کہ یہ ایک مجرب قرآنی دعا ہے لہذا اس کو یاد رکهنا چائیے

كتاب لوجع الضرس

يكتب على الخد الدي يلي الوجع باسم الله الرحمن الرحيم { قل هو الدي أنشأكم و جعل لكم السمع و الأبصار و الأفئدة قليلا ما تشكرون } ‏[ ‏الملك‏ :‏23‏ ]‏اهـ

وإن شاء كتب
وله ما سكن في الليل و النهار و هو السميع العليم [‏ الأنعام‏ :‏ 13‏ ]‏‏.‏ اهـ

[منقول من كتاب الطب النبوي لابن قيم الجوزية]

آيات السكينة کی تلاوت دل کے سکون واطمینان کی دوا

حافظ ابن القيم اپنی کتاب (مدارج السالكين ـ منزلة السكينة ـ 2 / 502 میں لکھا : ۔
الله سبحانه وتعالی نے السكينة کا ( لفظ ) اپنی کتاب میں چهہ جگہ ذکرکیا ہے ،
• أَعُوذُ باللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيـمِ
1• وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلـآئِكَةُ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِيـنَ (248) البقرة.
2• ثُمَّ أَنَزلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُواْ، وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِيـنَ (26) التوبة.
3• إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا، فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى، وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا، وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (40) التوبة.
4• هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (4) الفتح.
5• لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (18) الفتح.
6• إِذْ جَعَلَ الّذِينَ كَفَرُواْ فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيّةَ حَمِيّةَ الْجَاهِلِيّةِ فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىَ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التّقْوَىَ وَكَانُوَاْ أَحَقّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللّهُ بِكُلّ شَيْءٍ عَلِيماً (الفتح:26)


حافظ ابن القيم نے لکھا : ۔ کہ شيخ الإسلام ابن تيمية کوجب مشکل اورسختی والے امورپیش آتے توآپ آيات السكينة پڑهتے تهے

حافظ ابن القيم نے مزید لکھا : ۔
میں نے بهی دل کے اضطراب وپریشانی میں ان آیات کو آزمایا ہے اور میں نے دل کے سکون واطمینان میں ان آیات کی ایک عظیم تأثير دیکهی ہے

ابن القيم  " السكينة " نے اس کی شرح میں لکھا : ۔

یہ منزلة ومرتبہ خاص الله تعالی کی طرف سے عطا کی ہوئ منازل ومراتب میں ہے یہ کسبی منازل میں سے نہیں ہے ، یعنی اپنے عمل وکوشش سے یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ خاص الله تعالی کا عطیہ ہے ۰
اور " السكينة " کا معنی ہے اطمینان و وقار اور وه خاص سکون جس کو الله تعالی اپنے کسی بنده کے دل میں اضطراب وخوف وپریشانی کے وقت ڈالتے ہیں
حاصل یہ کہ کسی بهی قسم کی پریشانی غم وخوف واضطراب وتنگی اگرپیش آئے توان آیات کی تلاوت کرنا سکون واطمینان کے حصول کا مُجرب ذریعہ ہے
یہ آیات روزانہ تین مرتبہ یا پانچ یا سات مرتبہ پڑهے ، اور بہتریہ ہے کہ كلمه السكينة کو تین مرتبہ تکرار کے ساتهہ پڑهے ۰
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآنی آیات کا تعویذ بنانا ، یا مخصوص آیات کو لکهہ کرپانی میں گهول کرمریض کوپلانا ، سلف وخلف کے عمل سے ثابت ومشہور ہے ، الشيخ محمد بن صالح العثيمين عرب کے سلفی علماء میں سے تهے وه ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
سوال = كيا ولادت كے وقت سورۃ الزلزال كى قرآت كرنے سے آسانى پيدا ہو جاتى ہے، اور كيا ولادت ميں آسانى پيدا كرنے كے ليے كوئى دعائيں اور اذكار مشروع ہيں، اور كيا ولادت كے وقت دعا قبول ہوتى ہے ؟
جواب = ولادت كے وقت برتن ميں زعفران سے سورۃ الزلزلۃ " اذا زلزلزت الارض زلزالہا " اور اسى طرح وہ آيات جن ميں رحم كا ذكر ہے، اور اسى طرح { و ما تخرج من ثمرات من اكمامھا و ما تحمل من انثى و لاتضع الا بعلمہ (فصلت : 67 )}. اور فرمان بارى تعالى: { اللہ يعلم ما تحمل كل انثى و ماتغيض الارحام و ماتزداد و كل شيئ عندہ بمقدار (الرعد : 8 )}. تجربہ كيا گيا ہے كہ يہ آيات زعفران كے ساتھہ لكھہ كر اور پھر اس برتن ميں پانى ڈال كر زعفران كو حل كر كے نفاس والى عورت كو پلايا جائے اور نفاس والى عورت كے پيٹ كو ہاتھ سے ملا جائے، يا يہ آيات پانى ميں پڑھ كر وہ پانى نفاس والى عورت كو پلايا جائے اور اس كے پيٹ كو ملا جائے، يا پھر نفاس والى عورت كو پڑھ كر دم كيا جائے تو اللہ كے حكم سے اس كى ولادت ميں آسانى پيدا ہو جاتى ہے اور درد زہ كے وقت دعا كرنا قبوليت كے ليے اولى ہے كيونكہ يہ دعا مشكل و تنگى اور لاچارى كے وقت كى جا رہى ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ كون ہے جو مضطر اور لاچار كى دعا قبول كرتا اور اس كى تكليف اور مشكل دوركرتا ہے، اورتمہيں زمين كا خليفہ بناتا ہے كيا اللہ تعالى كے ساتھہ كوئى اور بھى معبود ہے ؟ (النمل : ۶۲ )}. اور پھر مشكل و تنگى اور بےكسى كے وقت تو اللہ سبحانہ و تعالى دعا بہت قبول كرتا ہے اور مشكل و تنگى سے نجات دلاتا ہے.
[الشيخ محمد بن صالح العثيمين مجلة الدعوة العدد 1754 ص 36.]
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رقیہ (دم جھاڑ پھونک)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے (شروع میں) دم کرنے سے منع کردیا تھا عمر بن حزم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی آل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے رسول ہمارے پاس ایک دم ہے جس کے ذریعے ہم بچھو کے ڈسنے پر دم کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دم کرنے سے منع فرمایا ہے، راوی کہتا ہیں کہ پھر انہوں نے اس دم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اس دم کے الفاظ میں کوئی قباحت نہیں پاتا تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ اسے فائدہ پہنچائے۔" [صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1234(12864)، سلام کرنے کا بیان : نظر لگنے پھنسی یرقان اور بخار کے لئے دم کرنے کے استحباب کے بیان میں] حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔"
[صحيح مسلم  » كِتَاب السَّلَامِ  » بَاب لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ...رقم الحديث: 4086]
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن مجید اور اذکار مسنونہ کے ذریعے سے دم کرنے پر اجرت (مانگ کر) لینے کے جواز کے بیان میں

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض صحابہ ایک سفر میں جا رہے تھے وہ عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمانی طلب کی لیکن انہوں نے مہمان نوازی نہ کی پھر انہوں نے صحابہ کرام سے پوچھا کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے کیونکہ قبیلہ کے سردار کو (کسی جانور نے) ڈس لیا ہے یا کوئی تکلیف ہے صحابہ میں سے کسی نے کہا جی ہاں پس وہ اس کے پاس آئے اور اسے سورت فاتحہ کے ساتھ دم کیا تو وہ آدمی تندرست ہوگیا انہیں بکریوں کا ریوڑ دیا گیا لیکن اس صحابی نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک اس کا ذکر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کرلوں نہیں لوں گا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سارا واقعہ ذکر کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں نے سور رة فاتحہ ہی کے ذریعے دم کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: "تمہیں یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ دم ہے پھر فرمایا ان سے لے لو اور ان میں سے اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔"
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1236 (12866) سلام کرنے کا بیان : قرآن مجید اور اذکار مسنونہ کے ذریعے سے دم کرنے پر اجرت لینے کے جواز کے بیان میں]

تعویذات و دم اور گلے میں تعویذ لٹکانے کا جواز

0 comments
قراآن پاک میں بیماریوں سے شفا ہے

قرآنِ کریم ہمارے لئے نہ صرف ایک بہترین ضابطۂ حیات (یعنی زندگی گزارنے کا قاعدہ) ہے بلکہ اسی میں ہمارے لئے دنیاو آخرت کی نجات ہے۔ اس کی برکت سے جسمانی و رُوحانی بیماریاں دُور ہوتی ہیں، جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں کافور ہوتی ہیں، بدعقیدگی اور بداخلاقی جاتی رہتی ہے اور خوش عقیدگی، خوش اخلاقی اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچ اللہ عَزَّوَجَلَّ قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ ۙ وَ لَایَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا

ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو نقصان ہی بڑھتا ہے۔ (پ ۱۵، بنی اسرائیل، آیۃ:۸۲)

اس آیتِ کریمہ کے تحت مفسرِ قراٰن امام فخرالدین رازی عَلیہ رَحمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی فرماتے ہیں:”قراٰنِ کریم ہر طرح کی بیماریوں سے شفا عطا فرماتا ہے وہ روحانی امراض ہوں چاہے جسمانی، قراٰنِ کریم کا امراضِ روحانیہ کے لیے شفا ہونا تو ظاہر ہے ہی اس کی تلاوت کی برکت سے بکثرت امراضِ جسمانیہ سے بھی شفا حاصل ہوتی ہے۔”(تفسیر کبیر،بنی اسرائیل،تحت الآیۃ:۸۲،۷/۳۹۰ ملخصاً)

(اسی آیت کے تحت دیگر مفسرینِ عظام نے جہاں یہ ارشاد فرمایا کہ) قراٰنِ مجید سے امراضِ ظاہرہ اور باطنہ، ضلالت و جہالت (گمراہی و لاعلمی)وغیرہ دُور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے، اعتقاداتِ باطلہ واخلاقِ رذیلہ(غلط عقیدے اور بُرے اَخلاق) دفع ہوتے ہیں اور عقائدِ حقّہ و معارفِ الٰہیہ و صفاتِ حمیدہ و اخلاقِ فاضلہ(صحیح عقیدے،اللّٰہ تعالٰی کی معرفت و پہچان،بہترین صفات اور زبردست اَخلاق)حاصل ہوتے ہیں(خزائن العرفان، ص۵۴۱) وہیں مفسرِ قراٰن علامہ ابنِ عطیہ اُندلسی عَلَیہِ رَحمَۃُ اللّٰہ القَوِی (متوفٰی ۶۴۵) نے یہ بھی فرمایا کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آیتِ کریمہ میں شِفَآء ٌسے دم اور تعویذات کے ذریعے بیماریوں میں قراٰنِ پاک کا فائدہ مند ہونا مراد ہے۔(تفسیر المحررالوجیز، بنی اسرائیل،تحت الآیۃ:۸۲،۳/۴۸۰)

مُفَسِّرینِ عِظام کی مندرجہ بالا تصریحات سے پتہ چلا کہ قراٰنِ مجید پورے کا پورا شفا ہے لیکن بعض سورتوں کے متعلق احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً (یعنی واضح طور پر) مختلف بیماریوں سے شفا کا بیان فرمایا گیا جیسا کہ سورۂ فاتحہ کے متعلق ارشاد ہے: حضرت سیّدنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنہ سے حضور سراپا نورعَلیہِ الصَّلٰوۃُ و السَّلام نے فرمایا: اے جابر کیا میں تجھے قراٰن میں نازل شدہ سب سے اچھی سورت نہ بتا دوں؟ سیّدنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنہ نے عرض کی: کیوں نہیں یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم۔تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا یہ سورئہ فاتحہ ہے مزید فرمایا:”اس میں ہر مرض کے لیے شفا ہے۔”(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الإیمان ہو باب فی تعظیم القرآن، فصل فی فضائل السور و الآیات، ۲/۴۴۹،حدیث: ۲۳۶۷)

مُحَدِّثِین ِکرام نے قراٰنِ مجید کی آیات بیماروں پر پڑھ کر دم کرنے کی بھی کئی روایات نقل فرمائی ہیں چنانچہ حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ صَلَّی اللّٰہ تَعالٰی عَلیہ واٰلہٖ وَ سَلَّم اس پر قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر دم فرماتے۔(مسلم،کتاب السلام،باب رقیۃ المریض بالمعوذات والنفث، ص ۱۲۰۵، حدیث:۲۱۹۲)

حضرت سیِّدُنا ابو سعید خُدری رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنہ بیان فرماتے ہیں: ایک بار چند صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضوَان سفر میں تھے، ان کا گزر عربوں کے ایک قبیلہ کے پاس سے ہوا، صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضوَان نے ان سے مہمان نوازی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس قبیلے کے سردار کو بچھو نے ڈس لیا تھا ، قبیلے والوں نے اس کی صحت کے لیے بڑے جتن کیے لیکن کسی چیز سے فائدہ نہ ہوا، پھر ان میں سے کسی نے کہا:تم اس (صحابۂ کرام کی)جماعت کے پاس جاؤ، ہو سکتا ہے ان کے پاس کوئی نفع بخش چیز ہو۔ وہ صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضوَان کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے :ہمارے سردار کو بچھو نے ڈس لیا ہے ، ہم نے اس صحتیابی کے لیے ہر قسم کی کوشش کر لی ہے مگر کسی چیز سے فائدہ نہیں ہوا، کیا آپ میں سے کسی کے پاس کوئی ایسی چیز ہے؟ ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنہ نے فرمایا: ہاں! اللّٰہ کی قسم میں دم کرتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے مہمانی طلب کی تو تم نے انکار کر دیا تھا ،لہٰذا اب میں اس وقت تک تمہارے سردار کودم نہیں کروں گا،جب تک تم مجھ سے اس کی اجرت نہ مقرر کرلو۔اس پر انہوں نے بکریوں کی ایک معین تعداد پر صلح کر لی، پھر وہ صحابی گئے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ سردار بالکل تندرست ہو گیا اور اس طرح چلنے لگا گویا اسے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ پھر ان قبیلے والوں نے جو بکریوں کی تعداد مقرر ہوئی تھی وہ دے دیں۔ بعض صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضوَان نے کہا:”ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔”بعض نے کہا: نہیں!یہ دم کی اجرت ہے ہم اس کو اس وقت تک تقسیم نہیں کریں گے جب تک کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کرسارا ماجرا بیان نہ کر دیں، پھر دیکھیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم اس میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ جب صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضوَان نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا عرض کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: تمہیں کس نے بتایا کہ یہ(سورہ فاتحہ)دم ہے، پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: تم نے درست کیا ان کو آپس میں تقسیم کرلو اور اس میں سے میرا حصہ بھی دو، پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم مسکرا دیے۔ (بخاری،کتاب الاجارۃ، باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب، ۲/ ۶۹، حدیث: ۲۲۷۶)

حضرت سیِّدُنا امام محمد بن عیسٰی ترمذی عَلَیہ رَحمَۃُ اللّٰہ القَوِی روایت نقل فرماتے ہیں: بے شک رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈر جائے تو وہ یہ دعا پڑھے :

اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن غَضَبِہ وَعِقَابِہ وَشَرِّ عِبَادِہ وَمِن ھَمَزَاتِ الشَّیٰطِین وَاَن یَّحضُرُون

تو شیاطین اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ حضرت سیّدنا عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنہ اپنے بالغ بچوں کوا س دعا کی تلقین فرماتے اور جو نابالغ بچے ہوتے ان کے لیے یہ دعا کاغذ پر لکھ کر گلے میں لٹکا دیتے تھے۔(ترمذی،کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل التسبیح الخ،۵/۳۱۲، حدیث:۳۵۳۹)

مُحَقِّق عَلَی الاِطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی عَلَیہ رَحمَۃُ اللّٰہ القَوِی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں”اس حدیث سے گردن میں تعویذات لٹکانے کا جواز معلوم ہوتا ہے، اس باب میں علماء کا اختلاف ہے، مختار یہ ہے کہ سیپیوں اور اس کی مثل چیزوں کا لٹکانا حرام یا مکروہ ہے لیکن اگر تعویذات میں قراٰنِ مجید یا اللّٰہ تعالیٰ کے اسماء لکھے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔”(اشعۃ اللمعات، کتاب اسماء اللّٰہ تعالی ،باب الاستعاذۃ، ۲/۳۰۷)

اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمدرضا خان عَلَیہ رَحمَۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں :جائز تعویذ کہ قراٰن کریم یا اسمائے الٰہیّہ (یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ناموں)یادیگر اذکارو دَعوات (دُعاؤں) سے ہو اس میں اصلاً حرج نہیں بلکہ مستحب ہے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعالٰی عَلیہ واٰلہٖ وَ سلَّم نے ایسے ہی مقام میں فرمایا کہ۔۔۔

مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُم اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَنْفَعْہٗ

یعنی تم میں جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچاسکے(تو اسے نفع) پہنچائے۔(فتاویٰ افریقہ ،ص ۱۶۸)

تعظیم مصطفٰے صلیٰ اللہ علیہ و سلم ۔ اللہ کا حکم بھی ھے اور سنت صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی۔ تو اے ابن وھاب نجدی کے غلامو و پیروکارو یہ شرک کیسے ھے ؟

0 comments
تمام تعریفیں اس پاک پروردگار عزوجل کے لئے جس نے انسان کو تخلیق فرماکر اشرف المخلوقات کی خصوصیات سے نوازا۔ اور تمام تر درود و سلام اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ جن کی مدحت و آداب کے اصول خود رب کریم نے اس اُمت پر آشکار فرمائے۔

لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے ۔

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا۔ لِّتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ۔ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلًا۔

بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا ۔ تاکہ اے لوگوں تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔
(سورت الفتح آیت 09 – 10)

اللہ کریم نے اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت سرائی فرماتے ہوئے آداب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے اور توقیر جاری رکھنے کا حکم دیا ۔ دراصل محب و محبوب کا بھی یہ عجیب معاملہ رہتا ہے کہ محب کبھی بھی اپنے محبوب کی توقیر میں کمی و کجی برداشت نہیں کرسکتا مگر توقیر کے ساتھ ساتھ تعظیم کا پہلو بھی نظرانداز نہیں ہونے دیتا۔

تعلیمات اسلام کی رُو سے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹا بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔ اپنے بڑوں ، بزرگوں کا زیادہ سے زیادہ ادب و تعظیم کرنا ایک معاشرتی تقاضا سمجھا جاتا ہے لیکن جب بات ہو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو لازمی ہے کہ معمول کی تعظیم کے عام طریقے ختم ہوجائیں اور تعظیم کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم از روئے قرآن واجب ہے۔ ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کرنا کفر ہے۔ سورت الاعراف میں اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کی باقاعدہ طور پر چار خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ جو تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی شرط ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ۔

تو وہ جو اس (برگزیدہ رسول صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔
(سورت الاعراف ، آیت 157)

اوپر مذکورہ دونوں آیات مبارکہ میں مجموعی طور پر ایمان بالرسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل چار تقاضے بیان ہوئے ہیں۔

 تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اولیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعت رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس اُلوہی ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہئے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک موثر ، نتیجہ خیز اور موجب ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیر کے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کا تعلق عقائد ، نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اول الذکر دونوں تقاضے ایمانی کیفیت ، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر تعظیم و توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجر ایمان کی جڑیں اور تنا ہیں جبکہ موخر الذکر دو تقاضے اس شجر کی شاخیں اور پھل ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعیم ، ایمان پر گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ یاد رکھا جائے کہ توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے۔ مفسرین نے بھی توقیر کا معنی بلند درجہ تعظیم و تکریم ہی بیان کیا ہے۔

لہٰذا امام ابن کثیر نے لکھا ہے

وتوقروہ ۔۔۔۔۔ یہ لفظ توقیر سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد ادب و احترام ، بلند مرتبہ اور عظمت ہے۔
(تفسیر ابن کثیر ، 04:186)

امام بغوی نے لکھا ہے

وتوقروہ ۔۔۔۔۔ کا معنی ہے ان کی تعظیم کرو اور خوب شان و شوکت بیان کرو۔
(بغوی ، معالم التنزیل ، 190 : 04)

اسی طرح امام قرطبی لکھتے ہیں

وتوقروہ ۔۔۔۔۔ یعنی ان کی خوب شان و شوکت بیان کرو۔
(قرطبی ، الجامع لاحکام القرآن ، 16 : 267)

مذکورہ بالا آیات قرآنی سے ثابت ہوا کہ تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توحید باری تعالیٰ عزوجل سے متعارض و متصادم نہیں۔ کیونکہ اس عمل کا حکم تو خود رب کریم نے اپنے پاک کلام میں دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نصوص قرآنیہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کرتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے۔ اور جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ دراصل اللہ عزوجل کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے۔ اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا دراصل اللہ کریم کو اذیت دینا ہے اور اللہ کریم کو اذیت دینے کا مطلب اس کے غضب اور ناراضی کو دعوت دینا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ؛

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا۔

بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(سورت الاحزاب ، آیت 57)

علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا اس آیت کے ذیل میں انھوں نے لکھا ۔

"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت و اذیت اور معصیت و نافرمانی کو (قرآن حکیم میں) ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔
(ابن تیمیہ ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 40-41)

بعض افراد عبادت و تعظیم کا فرق ملحوظ خاطر نہ رکھنے کے سبب دونوں کو ایک ہی پیرائے میں استعمال کرتے ہوئے تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ علمائے کرام نے عبادت کی درج ذیل تعریف کی ہے ۔

" یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خصوصی استحقاق ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ "
(ابن ابی العز دمشقی ، شرح العقیدہ الطحاویۃ ، 125 : 01)

امام خازن لکھتے ہیں

" عبادت بندے کی طرف سے عجزو انکساری کی بلند ترین کیفیت اور رب تعالیٰ کے لئے تعظیم کے بلند ترین درجے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بلند ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے ۔ اور عبادت کا لفظ فقط اللہ تعالیٰ سے عاجزی کےلئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عظیم ترین نعمتوں کا مالک ہے۔ "
(خازن ، لباب التاویل فی معانی التنزیل 17 : 01)

جبکہ امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں؛

" عبادت ، تعظیم کی بلند ترین کیفیت سے عبارت ہے "
(رازی ، التفسیر الکبیر 01 :242)

ان کے علاوہ بھی دیگر آئمہِ تفسیر نے عجز و انکساری کی بلند ترین کیفیت اور تعظیم کی آخری حد کو عبادت قرار دیا ہے۔ پس عبادت کے لئے لازمی ہے کہ اس میں عجزوانکساری کی بلند ترین کیفیت کے ساتھ تعظیم کا انتہائی درجہ شامل ہو اس کے علاوہ ایسےعمل کو جو اس سے کم تر درجے میں ہو اسے عبادت تصور نہیں کیا جاسکتا۔

عبادت و تعظیم کی درج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ ادب و احترام اور تعظیم کا اعلیٰ ترین درجہ ہی عبادت کہلائے گا جس کا حق دار و سزاوار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکت ہے اس میں حقیقت و مجاز کی تقسیم بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا عبادت کا کسی کے لےا مجازا اثبات بھی شرک ہے ۔ لیکن ہر تعظیم عبادت نہیں کیونکہ کسی بھی عمل کو عبادت قرار دینےکے لئے تین شرائط کا پایا جانا نہایت ضروری ہے ۔

بندہ عاجزی و تذلل اور عجز و انکساری کی آخری حد پر ہو۔
تعالیٰ کے لئے تعظیم کا آخری درجہ ہو۔
اُس عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص قرار دیا ہو۔

شرعاً تعظیم کے جائز و واجب طریقے

جائز طریقے : ۔

تعظیم بالقیام
تعظیم بالاستقبال
تعظیم بخلع النعال
تعظیم بالتقبیل
تعظیم بالزیارت
تعظیم بالمحبت
تعظیم بالتوجہ
تعظیم بالتبرک

واجب طریقے :

تعظیم الوہیت
تعظیم الوہیت
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تعظیم انبیاء علیھم السلام
تعظیم قرآن
تعظیم حدیث
تعظیم اہلبیت
تعظیم صحابہ علیھم الرضوان
تعظیم اولیاء و صالحین
تعظیم اکابر و مشائخ
تعظیم والدین
تعظیم شعائر
تعظیم شہورِ مقدسہ
تعظیم ایام مقدسہ
تعظیم اماکن مقدسہ

صحابہ کرام علیھم الرضوان کی جانب سے تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہرے

سن 06 ہجری کو جب کفار مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تو اس وقت مسلمانوں اور کافروں کے درمیان صلح نامہ طے پایا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود بارگاہ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا۔ اس نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ اور جو اس نے محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیران کن مناظر دیکھے تو واپس جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے ان کی منظر کشی کی۔ ان تفصیلات کو حضرت مسعود بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مروان نے درج ذیل الفاظ میں روایت کیا ہے ؛ " عروہ بن مسعود صحابہ کرام علیھم الرضوان کو غور سے دیکھتا رہا ۔ راوی کہتے ہیں ۔ اللہ رب العزت کی قسم ! جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب مبارک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ فوراً تعمیل میں لگ جاتے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان ہمہ تن گوش ہو کر اپنی آوازوں کو پست کرلیتے۔ اور تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم ! خدا کی قسم میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں۔ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم ! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی اس طرح دل سے تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ "( البخاری ، کتاب الشروط ، 2581 ۔۔۔۔۔۔ المسند امام احمد بن حنبل 04:329)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت کے آخری ایام کے اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں جس میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت کے بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں حالت نماز میں تھے مگر جیسے ہی حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ " حضور نبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ چناچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور قرآن کے اوراق کی طرح روشن معلوم ہوتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جماعت کو دیکھ کر) مسکرانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پر انوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں تشریف لارہے ہیں ۔ اس لئے انھوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر مقتدیوں میں مل جانا چاہا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔"
( بخاری کتاب الاذان 648 ، 721 ، کتاب التھجد 1147 ، کتاب المغازی 4183 ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم کتاب الصلوۃ 419)

غور کیجئے ۔۔۔۔۔ اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان بحالت نماز دیدار مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لذتوں سے فیضیاب ہورہے تھے۔ یعنی بحالت نماز آمد و مسکراہٹ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر توجہ ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیچھے کی طرف ہوجانے کا عمل اور شوق دیدار میں نماز توڑنے تک کی کیفیات اگر کسی عام سے منسوب ہوتیں تو لائق جراح بن جاتیں مگر اسے کیا کہئے کہ یہ اعمال خود صحابہ کرام علیھم الرضوان سے منسوب و ثابت ہیں۔ لہٰذا کہنے دیجئے کہ ادب و تعظیم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیکھنا ہو تو صحابی کی طرف رجوع کرو کسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی کیا اوقات کہ وہ تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھ سکے۔ بے شک صحابہ کرام علیھم الرضوان ہی نے سب سے بہتر سمجھا اور ہمارے لئے لائق تقلید اعمال کا ایک خزانہ چھوڑا۔

حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طویل واقعہ مروی ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفار کی طرف سفیر بنا کر روانہ کیا گیا اور کفار نے مذاکرات کے بعد انھیں طواف کعبہ کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً انکار کرتے ہوئے فرمایا ؛ " اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف نہیں کرلیتے۔ "
(بیہیقی ، السنن الکبری 09:221)

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ " نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہورہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اسی کو دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔"
(طبرانی ، المعجم الکبیر 390 ۔۔۔۔۔۔۔ ابن کثیر ، البدایۃ والنہایۃ 06:83)
   
میرے عزیز ساتھیوں ! ایک بار اس حدیث کو دوبارہ پڑھئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے کیا واقعہ ہوا یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور تو کیجئے ۔۔۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ہستی نماز کو جان بوجھ کر قضا فرما رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بتائیے جان بوجھ کر نماز قضا کرنے والوں پر عذاب کا ہمیں علم نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ علم کا دروازہ ہیں ان کو علم نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا یقیناً تھا بے شک علم تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایک طرف علم تھا اور دوسری طرف تعظیم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ آج کل کے ثواب کو تول تول کر نیک کام کرنے والوں جیسا کوئی ہوتا تو شاید محرومی ہی اس کا مقدر ہوتی مگر سامنے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی باکردار و باادب شخصیت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دوسری طرف یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی سرزنش نہیں فرمائی گئی کہ اے علی تم نے نماز قضا کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف میرا آرام تھا دوسری طرف تمھاری نماز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلمات ادا فرمائے مگر کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسا مقام ہے کہ جان بوجھ کر نماز قضا کی گئی مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فعل پر گرفت فرمانے کے بجائے رب کی بارگاہ میں اسے اپنی اور اپنے رب کی اطاعت سے تعبیر فرمارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر ہم کیوں نہ کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
    شرک ٹھرے جس مذہب میں تعظیم حبیب
    ایسے برے مذہب پر لعنت کیجئے
   
حضرت عبد الرحمن بن ابو لیلی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ " ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بوسہ دیا۔"
    (السنن ابو داود کتاب الادب 5223 ، بیہقی السنن الکبری 13362 ، شعب الایمان 8965)

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں تھے۔ کہ لوگ بری طرح بکھر کر محاذ سے پیچھے ہٹ گئے۔ تو ہم نے کہا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہم لوگ (جنگ سے) بھاگ گئے۔۔۔ اس پر آیت نازل ہوئی " بجز ان کے جو جنگی چال کے طور پر رخ بدل دیں۔" ہم نے کہا اب مدینہ میں چلے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا "ہم بھاگے ہوئے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " نہیں بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو۔" پس ہم قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک چوم لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں ہر مسلمان کی پناہ گاہ ہوں۔"
    (البخاری فی الادب المفرد 972 ، ابو داود السنن کتاب الجھاد 2647 ، ابن ابی شیبۃ فی المنصف 33676 ، المسند احمد بن حنبل ۔ 100۔5384 ، جامع ترمذی 01:205 ، اسنن ابن ماجہ 271 )

حضرت زارع رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ وفد عبد القیس میں شامل تھے بیان کرتے ہیں " جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو تیزی سے اپنی سواریوں سے اُتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔ "
    (السنن ابو داود کتاب الادب 5225 ، امام بخاری الادب المفرد 975 ، طبرانی فی المعجم الکبیر 5313 ، شعب الایمان 7729 ، البیہقی السنن الکبری 10267)

میرے عزیز ساتھیوں۔۔۔۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے آقائے نامدار دو جہاں کے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مقدس پاؤں شریف کو بوسہ دیتے ہوئے کیا انداز اختیار کیا ہوگا ؟ جلسہ ، قعود یا قیام ۔۔ ؟؟؟ تا کہ ان کا یہ عمل سجدہ سے مشابہ ہوکر شرک کے زمرے میں نہ آئے۔ سنن ابوداود کی اس صحیح روایت کی کیا تعبیر ہوگی ؟؟؟ کیا مذکورہ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا تھا ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔ ایسا کہنا ان پر بہتان طرازی ہوگا۔ لہٰذا اس حدیث مبارکہ کی درست تعبیر یہی ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا و مافیہا سے بڑھ کر محبوب سمجھتے تھے۔ یہ ان کا اظہار عقیدت و محبت تھا کہ ادب و تعظیمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ ہر جائز طریقہ و انداز اپناتے تھے۔
   
امام بخاری نے "الادب المفرد" میں ایک باب "تقبیل الرجل" قائم کیا یعنی "پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان"۔ اس حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں " ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور انھیں بوسہ دینے لگے۔"
(البخاری فی الادب المفرد 01:339 ۔ 975)
   
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا ۔۔۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ میں اسلام لانا چاہتا ہوں مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیے جس سے میرا یقین زیادہ ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "تو کیا چاہتا ہے" اس نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درخت کو اپنے پاس بلالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " تو جا کر اسے بُلا لا"۔ وہ اس (درخت) کے پاس گیا اور کہا کہ رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے بلاتے ہیں۔ یہ سن کر وہ (درخت) ایک طرف کو جھکا اور اس کی جڑیں اکھڑیں ۔ پھر دوسری طرف کو جھکا اور جڑیں اکھڑیں۔ اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یہ دیکھ کر اعرابی نے کہا مجھے کافی ہے۔ مجھے کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخت کو اپنی جگہ پر جانے کا حکم دیا تو وہ چلا گیا اور اپنی جڑوں پر قائم ہوگیا۔ اعرابی نے عرض کی ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سر مبارک اور دو پائے مبارک کو بوسہ دوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی۔ اور اس نے سر مبارک اور دو پائے مبارک کو چوم لیا۔ پھر اس نے عرض کی مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شخص دوسرے شخص کو سجدہ نہ کرے۔ اگر میں ایسے سجدے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیوں کہ شوہر کا اس پر بڑا حق ہے۔
(زرقانی علی المواھب ۔ وفد عبد القیس ، الادب المفرد للبخاری ۔ باب التودۃ الامور)
   
امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قوم یہود کے بعض افراد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے سچےرسول ہیں۔۔ " انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔"
    (ترمذی کتاب الاستئذان و الآداب باب فی قبلۃ الید و الرجل 05:77 ۔ 2733 ، ابن ماجہ کتاب الادب باب الرجل یقبل ید الرجل 02:1221 ۔ 3705 ، ابن ابی شیبۃ 6258 ، المسند احمد بن حنبل 04:239 ، المستدرک الحاکم 09:01)

نوٹ: اما م حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا جبکہ امام ذہبی نے بھی اس کی تائید کی۔

یہاں کوئی معتصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا۔ ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا فعل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ بابرکت و معظم ہستی نظر نہیں آتی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو اس فعل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تقریری ہوا۔

اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے احادیث کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے جو ہمیں تعظیم مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آداب و اصول سکھاتا ہے اور دعوت فکر دیتا ہے کہ جب بھی ہم اس عظیم ہستی کا نام نامی اسم گرامی یا حالات زندگی سنیں یا تصورات و تخیلات کی دنیا میں محو پرواز ہوں تو کسی طور اپنے فہم ناقص کو زور آور نہ بنا بیٹھیں اور نہ تعظیم مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرک و بدعت کے فلسفے میں پرکھیں کہ جس عمل کا حکم رب کائنات نے دیا ہو اور جس پر عمل صحابہ علیھم الرضوان کی جماعت نے کیا ہو ایسا عمل کیونکر شرک و بدعت ہوسکتا ہے۔ ہاں ہماری عقل ناقص ہے ۔ ہمارا فہم ادھورا ہے۔ لہٰذا تعظیم مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اگر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے ہاتھ مبارک اور پاؤں مبارک کو بوسے دیئے تو کیا عجیب کیا ۔ یاد رکھئے چومنے اور پوجنے میں بہت فرق ہے ۔ عشاق غلاف کعبہ و جزوان قرآن و حجر اسود کے چوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوجتے نہیں ۔

دعوت فکر : ۔ میرے عزیز مسلمان بہنو اور بھائیو غور کیجئے اعمال صحابہ علیھم الرضوان کی ہر لمحہ سند چاہنے والوں کو کیا یہ کافی نہیں کہ حکم خدا عزوجل کو اعمال صحابہ علیھم الرضوان کی تائید حاصل ہے۔ اور اثبات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔ کاش کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات ۔