Wednesday, 8 July 2015

توحید و شرک اور حقیقت و مجاز کا قرآنی تصور ابن وھاب نجدی گمراہ اور اس کے پیروکاروں کے خود ساختہ تصور توحید و شرک کا منہ توڑ جواب حصّہ ششم

افعال میں اشتراک کی مثالیں

جس طرح مذکورہ بالا بحث میں صفات و اسمائے باری تعالیٰ میں اشتراک کی متعدد مثالیں بیان ہوئیں اسی طرح بعض افعالِ الہٰیہ اور افعالِ بشریہ میں بھی اشتراک پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی مثالیں متعدد مقامات پر موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1۔ درحقیقت ایمان میں کمی یا زیادتی تو اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے لیکن درج ذیل آیتِ مبارکہ میں ایمان میں زیادتی کی نسبت آیاتِ قرآنی کی طرف جا رہی ہے :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَO
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔‘‘
الانفال، 8 : 2
دوسرے مقام پر جنگِ احد کے تناظر میں اﷲتعالیٰ نے منافقین کے طرزِ عمل کو صحابہ کرام کے ایمانی جذبوں میں اضافے کا سبب ٹھہراتے ہوئے فرمایا :
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُO
’’ (یہ) وہ لوگ (ہیں) جن سے لوگوں نے کہا کہ مخالف لوگ تمہارے مقابلے کے لئے (بڑی کثرت سے) جمع ہو چکے ہیں سو ان سے ڈرو تو (اس بات نے) ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور وہ کہنے لگے : ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 173
2۔ حقیقت میں افعال کا صدور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا :
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَO
’’حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خَلق فرمایا ہے۔‘‘
الصافات، 37 : 96
لیکن قرآن میں ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ نے پہلے بندوں کے فعل کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کو بھی اپنی طرف منسوب کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاَءً حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
’’ (اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
الانفال، 8 : 17
3۔ روح قبض کرنا اﷲ تعالیٰ کا فعل ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1. اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا.
’’اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے۔‘‘
الزمر، 39 : 42
2. وَاللّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لاَ يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌO
’’اور اللہ نے تمہیں پیدا فرمایا ہے پھر وہ تمہیں وفات دیتا (یعنی تمہاری روح قبض کرتا) ہے۔ اور تم میں سے کسی کو ناقص ترین عمر (بڑھاپا) کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ (زندگی میں بہت کچھ) جان لینے کے بعد اب کچھ بھی نہ جانے (یعنی انسان مرنے سے پہلے اپنی بے بسی و کم مائیگی کا منظر بھی دیکھ لے)، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
النحل، 16 : 70
دوسرے مقام پر اسی فعل کی نسبت اپنے بندے کی طرف کی، فرمایا :
قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَO
’’آپ فرما دیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
السجدة، 32 : 11
4۔ حقیقت میں اولاد عطا کرنا اﷲ تعالیٰ کا فعل ہے، ارشاد فرمایا :
الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِO
’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام دو فرزند) عطا فرمائے، بیشک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے۔‘‘
ابراهبم، 14 : 39
یہی وَھَب (عطا کرنے) کی نسبت بندے کی طرف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO
’’ (جبرئیل علیہ السلام نے) کہا : میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
مريم، 19 : 19
عطا کی نسبت ایک ہی آیت میں اﷲ نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف فرمائی :
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَO
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا) ۔‘‘
التوبة، 9 : 59
5۔ خالقِ حقیقی اﷲ رب العزت کی ذات ہے، فرمایا :
1. اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌO
’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘
الزمر، 39 : 62
اسی طرح بے جان جسم میں روح ڈالنا بھی اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے، ارشاد فرمایا :
2. فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO
’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا۔‘‘
الحجر، 15 : 29
خلق کی ان تمام صفات کی نسبت ایک مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی طرف کی، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
’’اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اﷲ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے اور میں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں اﷲ کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بیشک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘
آل عمران، 3 : 49

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...