Saturday, 4 July 2015

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور کوئی بھی سورہ پڑھنا منع ہے

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ اور کوئی بھی سورہ پڑھنا منع ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام کے پیچھے مقتدی نماز میں فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت نہ پڑھے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و ائمہ کبار کا معمول ہے ۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے ، اس کا فرمان سب سے بڑا ہے ، جو بات قرآن سے ثابت ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں ۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی روایت پیش ہو سکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول ۔ اس مسئلہ پر ہم پہلے قرآن کریم سے ہدایت لیں گے ، پھر حدیث پاک سے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 204)

یہ قرآن حکیم کا حکم ہے جس میں کوئی شک نہیں ، واضح ہے کوئی ابہام نہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور چپ رہو ۔ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو مت سنو اور مت خاموش رہو ، بلکہ تم بھی پڑھا کرو جب امام فاتحہ پڑھتا ہے تم بھی پڑھو ، نہیں بلکہ فاتحہ بھی قرآن مجید کی ایک سورت ہے ۔ لہٰذا قرآن ہے اور امام چونکہ تلاوت کر رہا ہے ، لہٰذا سب کو غور سے سننے اور چپ رہنے کا حکم ہے ، اب جو صاحب یہ فرمائیں کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی فاتحہ پڑھے ، اس سے قرآن مجید کی آیت پوچھیں ۔ قرآن کا مقابلہ حدیث سے نہیں ہو سکتا نہ روایت قرآن کی آیت کو منسوخ کرتی ہے ۔

ظہر اور عصر میں نماز میں قرات آہستہ ہوتی ہے جو سنی نہیں جاتی ، فجر ، مغرب اور عشا کی نمازوں میں قرات با آواز بلند ہوتی ہے جو سنی جاتی ہے ، گویا قرآن مجید کی دو صورتیں ہوئیں ۔ (1) ۔ جہری ، یعنی بلند آواز کے ساتھ ، جیسے فجر ، مغرب اور عشا ۔ (2) ۔ سری ، یعنی آہستہ ، جیسے ظہر و عصر ۔

لہٰذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے ، ایک یہ کہ کان لگا کر سنو ، یعنی جب آواز آئے ، جیسے جہری نمازوں میں ۔ دوسرا چپ رہو ، یعنی جب آواز نہ آئے ، جیسے سری نمازوں میں ۔ حدیثِ مبارکہ کی توضیح : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة ۔
ترجمہ : جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من صلی صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهی خداج ثلاثا غير تام ۔ (صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 149)
ترجمہ : جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے ۔ تین بار فرمایا مکمل نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز کےلیے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں ۔ فاسجدوا و لا تعدوه شياء و من ادرک رکعة فقد ادرک الصلوٰة ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 :صفحہ 136)
ترجمہ : تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا ، اور جس نے رکوع پا لیا اس نے (رکعت) پا لی ۔

کیا فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟ : ⏬

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، حدیثِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ، فعل یا تقریر ہے ، قرآن مجید میں کمی بیشی جائز نہیں ۔ حدیثِ مبارکہ میں کسی راوی سے غلطی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے ، اس لیے صحت حدیث کےلیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف نہ ہو ۔ قرآن مجید نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ جو بھی قرآن مجید جہاں سے آسان ہو پڑھنا فرض قرار دیا ، تو اب فاتحہ کی تخصیص بطور فرض قرآن کے عموم و اطلاق کے خلاف ہو گا ۔ ہاں مطلق قرآن پڑھنا ، قرآن مجید کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث واجب ۔ اگر فاتحہ کے علاوہ قرآن پڑھا تو فرض ادا ہو جائے گا ۔ لیکن واجب رہ گیا ۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی ۔ دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب الاعادہ ہے ، فھی خداج کا مفہوم یہی ہے ۔ نماز نہ ہوئی کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی ۔ جس نے امام کے پیچھے رکوع پا لیا اس نے پوری رکعت پا لی، اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو رکعت کیسے مل سکتی ہے ؟ حالانکہ بالاتفاق رکوع میں ملنے والا رکعت پا لیتا ہے ۔ پتہ چلا کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں ۔

امام کے پیچھے فاتحہ یا دیگر قرآن نہ پڑھنے کا حکم حدیثِ مبارکہ سے : ⏬

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : هل قرا معی احد منکم انفا فقال رجل نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، قال انی اقول مالی انازع القرآن قال فانتهی الناس عن القراة مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيما جهر فيه ، بالقراة عن الصلوة حين سمعوا ذلک من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ۔ (مٶطا امام مالک ، مسند احمد ، سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی ، نسائی ، سنن ابن ماجه ، بحواله مشکوٰة صفحہ 81)
ترجمہ : ابھی ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرآن پڑھا ؟ ایک شخص نے عرض کی جی ہاں ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرمایا میں کہہ رہا تھا میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیوں ہو رہا ہے ؟ کہا اس کے بعد جب لوگوں نے یہ بات جہری نمازوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن لی تو قراءت خلف الامام ترک کر دی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان المصلی يناجی ربه و لا يجهر بعضکم علی بعض بالقرآن ۔ (مسند احمد بن حنبل بحواله مشکوٰٰة صفحہ 81)
ترجمہ : نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کوئی آواز سے قرآن نہ پڑھے ۔

سو اسے دیکھنا چاہیے کہ کیسی سرگوشی کر رہا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا ۔ (سنن ابو داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجه ، بحواله مشکوٰة صفحہ 81)
ترجمہ : امام صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ۔ پھر جب تکبیر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو ، اور جب قرآن پڑھے تو خاموش رہو ۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے : فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال لا تفعلوا الا بفاتحة الکتاب فانه لا صلوة لمن لم يقرا بها ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن پڑھنا دشوار ہو گیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ، شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو ؟ ہم نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرمایا ایسا مت کرو ۔ ہاں فاتحہ ، کہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ (اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے) ۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھنے لگو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے ایک امامت کروائے، جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تم آمین کہو۔ اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ فاذا کبر و رکع فکبروا وارکعوا. واذا قراً فانصتوا ۔
ترجمہ : جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تکبیر کہو اور رکوع کرو ، اور جب قرآن پڑھے تم خاموش رہو ۔ (مشکوٰة بحواله صحيح مسلم صفحہ 79)

حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : اذا انت قمت فی صلوتک فکبر الله عزوجل ثم اقراء ما تيسر عليک من القرآن ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 صفحہ 132)
ترجمہ : جب نماز میں کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو، پھر جو قرآن میں سے آسان لگے پڑھو ۔

شروع اسلام میں نماز میں گفتگو بھی کر لیتے تھے : حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : کنا نتکلم فی الصلوٰة يکلم احدنا اخاه فی حاجته حتی نزلت هذه الا به حافظوا علی الصلوٰت و الصلوة و الوسطی و قوموا لله قانتين فامرنا بالسکوت ۔ (صحيح بخاری جلد 2 صفحہ 250)(جامع ترمذی جلد 1 صفحہ 123)
ترجمہ : نماز میں بات چیت کر لیتے تھے ، ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے کام اور حاجت سے متعلق پوچھتا ، یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ اتری تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی (بھی) اور اللہ کےلیے عاجزی سے کھڑا ہوا کرو۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا ۔

خلاصہ کلام : ابتدائے اسلام میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو بعد میں آئیں نماز میں گفتگو تک ہوتی تھی ،، فامرنا بالسکوت ،، پھر ہمیں خاموشی کا حکم ملا ۔ پس پہلے کوئی صاحب حکم واضح نہ ہونے کی وجہ سے فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتا تھا تو خاموشی کے حکم سے وہ بھی خاموش ہو گیا ، قرآن کریم کے حکم ، فاستمعوا لہ وانصتوا ، سنو اور چپ رہو ، کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خاموشی ہمارے اطمینان کےلیے کافی ہے ۔ پس ہم امام کے پیچھے مطلق قرآن پڑھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ قعدے میں جو قرآنی دعائیں پڑھی جاتی ہیں ، ہم ان کو بطور قرات نہیں بطور دعا پڑھتے ہیں ۔ نیز مقام قرات قیام ہے ، قعدہ نہیں ۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت کی ہے ؟ اعتراض کا جواب : ⏬

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (متوفی ۱۵۰ ؁ھ) امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ قرآن حکیم صحیح و معتبر احادیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال پر عمل کیا ہے ۔ امام کے پیچھے مقتدی کے قرأت نہ کرنے پر قرآن حکیم سے دلیل یہ آیت ہے : وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 204)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابی تھے انہوں نے آیت مذکورہ کو اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی قرأت نہ کرے ، نہ سورہ فاتحہ نہ ہی کوئی اور سورہ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو امام کے پیچھے کچھ لوگوں کو قرأت کرتے ہوئے سنا ۔ جب امامت سے فارغ ہوئے تو فرمایا : کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھو اور سوچو ؟ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے دھیان سے سنو اور چپ رہو پھر انہوں نے آیت مذکورہ کی تلاوت کی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر مترجم جلد دوم صفحہ نمبر 485 مطبوعہ ضیاء القرآن)

عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ حسن صحیح ۔ (جامع ترمذی جلد اول مترجم اردو صفحہ 212 حدیث نمبر 297،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی، علاوہ اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

اسی حدیث کی بناء پر امام ترمذ ی رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ھے کہ : لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں ۔ (جامع ترمذی شریف)

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صلاۃ یقرا فیھما بام الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف الامام۔(کتاب القراءۃ للبیہقی ص170۔171)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا ہمارے سامنے اپنی سنت کو بیان فرمایا اور ہمیں نماز پڑھنا سکھایا ۔ فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنی صفیں درست کر لو پھر تم میں سے ایک آدمی امامت کرے جب امام اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو اور جب قرأت کرے تو تم چپ رہو (بروایت جریر عن سلیمان عن قتادۃ صحیح مسلم حدیث نمبر ۸۰۹،چشتی)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس کا امام ہو تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔ (مسند امام ابوحنیفہ حدیث نمبر ۱۰۴)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت یہ بھی ہے : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے نماز ظہر یا عصر پڑھی اس نے قرأت کی تو اشارے سے ایک شخص نے اسے روکا۔ جب نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کرنے سے تو مجھے روکتا ہے ؟ دونوں کی تکرار بڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سنا تو فرمایا : من صلی خلف الامام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ ۔جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اس کے لئے کافی ہے ۔ (مسند ابوحنیفہ حدیث نمبر ۱۰۵ حدیث نمبر ۲۷۸)(مصنف عبد الرزاق جلد ۱ صفحہ ۳۷۷)(موطا امام محمد صفحہ ۳ ۳۲)(سنن ابن ماجہ جلد ١ باب اذا قرء الامام فانصتوا صفحہ ۶۱،چشتی)(شرح معانی الاثار جلد ۱ صفحہ ۱۰۶ مکتبہ رحیمیہ دیوبند)(سسن الکبری للبیہقی جلد ۲ صفحہ ۱۶۰)(کتاب الاثار امام ابویوسف حدیث نمبر ۱۱۳)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جہری قرأت والی نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا ، کیا کسی نے میرے ساتھ نماز میں قرأت کی ؟ ایک آدمی نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے کی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا بات ہے ؟ میرے ساتھ قرآن پڑھ کرجھگڑا کیا جاتا ہے ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس بات کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کرنا چھوڑ دیا ۔

اس حدیث پاک سے صاف معلوم ہوگیا کہ اگر کسی صحابی نے کبھی امام کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد میں اس سے منع فرمادیا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ نماز میں قرأت کرنا گویا امام سے منازعہ (جھگڑا) کرنا ہے ۔

امام کے پیچھے قرآن نہ پڑھنے کی بات تقریبا اسی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری)

یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت سختی کے ساتھ امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ (1) حضرت ابوبکر صدیق ، (2) حضرت عمر فاروق ، (3) حضرت علی مرتضیٰ ، (4) حضرت عثمان ذوالنورین ، (5) حضرت عبداللہ بن مسعود ، (6) حضرت سعد بن ابی وقاص ، (7) حضرت زید بن ثابت ، (۸) حضرت جابر ، (9) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ، (10) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ حدیث نمبر ۲۸۱۰،چشتی)(طبرانی کبیر ، طبرانی اوسط مجمع الزوائد جلد ۲ صفحہ ۱۱۰ ، ۱۱۱)(موطا امام مالک صفحہ ۶۶)(موطا امام محمد صفحہ ۱۰۷)

اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو قرأت کرنے سے منع کرکے قرآن و احادیث و آثار صحابہ کرام کی پیروی کی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کی ہے۔ اعتدال کی بات : دلائل کے لحاظ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف راجح ہونے کے باوجود یہ مسئلہ ائمہ مسلمین کے مابین اختلاف فی ہے لہٰذا امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین دوسرے ائمہ دیم مثلا امام مالک ، امام شافعی، امام احمد رحمہم اللہ اور ان کے مقلدین کو جن میں سے بعض جہری اور سری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کو ضرورت یا جائز سمجھتے ہیں ، لعن طعن نہیں اور اس فقہی و فرعی مسئلہ کی بنیاد پر حنفی علماء و عوام مالکی، شافعی یا حنبلی کسی بھی سنی صحیح العقیدہ شخص کو بدعتی گمراہ اور حدیث کی مخالفت کرنے والا ، نہیں کہتے کوئی بھی سنی صحیح العقیدہ شخص خواہ وہ مالکی ہو یا شافعی و حنبلی کسی حنفی شخص کو لعن طعن نہیں کرتا ہاں ہر ایک دوسرے کو صحیح العقیدہ سنۃ کا پیروکار کہتا ہے لیکن جماعت اہل سنت سے کٹا ہوا ایک ہی فرقہ اہل حدیث (وہابی ) ہے جو مسئلہ مذکورہ کی بنیاد پر سنی حنفی مسلمان کو بدعتی ، مخالف سنت ، حدیث کا منکر کہتا ہے ۔ ان کی جرأت و بے باکی کا یہ عالم ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ جن کا شمار زمرۂ تابعین میں ہوتا ہے ۔ امام بخاری کے استاذ کے استاذ جن کی شاگردوں کی جماعت میں شامل ہیں ، جلیل القدر ائمہ احادیث مثلا عبداللہ بن مبارک ، سفیان بن عینیہ ، سفیان ثوری ، حماد بن زید ،امام عبدالرزاق ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ جن کے زہد وتقویٰ حدیث دانی اور تفقہ فی الدین کے مدح خواں ہیں ، ایسے عظیم المرتبت ہستی اوررب کے محبوب بندے کی شان میں ایک معمولی اردو خواں ، انگریزی داں بلکہ ان پڑھ اہل حدیث (غیر مقلد) بھی بڑی دریدہ ذہنی کے ساتھ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ابوحنیفہ نے حدیث کو چھوڑ کر اپنی رائے پر عمل کیا ہے ۔ اور اہل حدیث کے علماء امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے تعصب رکھنے والے ان کے بعض معاصرین کی باطل و بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر انہیں اپنے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ۔ حالانکہ اگر وہ اپنے عناد کی عینک اتار کر اپنے مقتدا شیخ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تاثرات امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے پڑھ لیں تو ان کی ساری غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زہد و ورع اور ان کے علم و فقہ اور ان کی نقاہت و صداقت کے دل سے قائل ہو جائیں گے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ائمۃ الحدیث (حدیث کے اماموں) کی جماعت میں شمار کیا ہے ۔ (منہاج السنۃ جلد ۱ صفحہ ۲۳۱) ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل سلیم اور ہدایت کی توفیق عطا فرمائیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...