Wednesday 8 July 2015

توحید و شرک اور حقیقت و مجاز کا قرآنی تصور ابن وھاب نجدی گمراہ اور اس کے پیروکاروں کے خود ساختہ تصور توحید و شرک کا منہ توڑ جواب حصّہ چہارم

0 comments
اﷲ اور مخلوق سے منسوب امورِ مشترکہ

یہی حال کسی ایک مقدور کے دو قدرتوں سے متعلق ہونے کا بھی ہے۔ اس کے جواز و وقوع کی دلیل وہ امور ہیں جن کی نسبت خود اللہ تعالیٰ نے کبھی ملائکہ کی طرف، کبھی بندں کی طرف اور کبھی اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اس کی چند مثالیں بطورِ نمونہ ملاحظہ کیجئے۔

سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا :

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا.

’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے۔‘‘

الزمر، 39 : 42

یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے یہاں اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جبکہ سورۃ السجدۃ میں فرمایا:

قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَO

’’آپ فرما دیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

السجدة، 32 : 11

اس آیتِ مبارکہ میں جانیں قبض کرنے کی نسبت ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام کی طرف کی گئی جو جانیں قبض کرنے پر مامور ہے۔ ایک ہی بات تھی۔ ایک جگہ فاعل مذکور ہے اور دوسری جگہ وہ حذف ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب جانیں عزرائیل قبض کرتا ہے تو اَﷲُ يَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت یوں ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ یہاں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جانیں قبض کرنا حقیقتاً تو میرے قبضۂ قدرت میں ہے لیکن اس کے لئے میں نے اپنے فرشتے عزرائیل کو مامور کیا ہے لہٰذا ان سب باتوں کو شرک ہونے سے مجاز نے بچا لیا اور شرک کا امکان ہی باقی نہ رہا جو لوگ وسیلہ کو نہیں مانتے انہیں عالم نزع میں عزرائیل کو کہنا چاہیے کہ میں تو وسیلہ اور ذریعہ کو نہیں مانتا تم چلے جاؤ اللہ تعالیٰ خود آئے اور میری جان قبض کرے۔ ایسا نکتہ نظر رکھنا سوائے جہالت اور لا علمی کے کچھ نہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ملک الموت کا دلچسپ واقعہ

بعض متشدد نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کو مندرجہ ذیل واقعہ پر خود غور و فکر کر کے فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ صحيح البخاري (کتاب الجنائز، باب من أحب الدفن في الأرض المقدسة أو نحوها، 1 : 449، رقم : 1274) اور صحيح مسلم (کتاب الفضائل، باب من فضائل موسي، 4 : 1842، رقم : 2372) کی متفق علیہ روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ملک الموت انسانی شکل میں روح قبض کرنے آئے تو آپ علیہ السلام نے کسی سبب سے ملک الموت کو ایک طمانچہ مارا اور اس کی آنکھ نکال دی۔ ملک الموت انسانی شکل میں تھے اس لیے ان کی آنکھ نکل گئی کیونکہ قاعدہ ہے کہ جس ہیئت میں کوئی ہوتا ہے اس پر اسی ہیئت کے احوال وارد ہوتے ہیں۔

وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا : اَرْسَلْتَنِيْ اِلَی عَبْدٍ لَا يُرِيْدُ الْمَوتَ ’’باری تعالیٰ آپ نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیج دیا جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے میری آنکھ پھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوبارہ جاؤ لیکن یہ نہ کہنا کہ میں آپ کی جان قبض کرنے آیا ہوں کیونکہ بارگاہِ انبیاء کے آداب ہوتے ہیں۔ میرے برگزیدہ نبی موسیٰ سے پہلے اجازت طلب کرنا اور پھر ان کی روح قبض کرنا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملک الموت حضرت عزرائیل کو یہ ادب کیوں سکھایا وہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک 70 ہزار انبیاء کی روحیں قبض کر چکے تھے پہلے بھی بڑے جلالی نبی آئے لیکن کسی نے تھپڑ نہیں مارا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ انہیں خبر تھی کہ آخر میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ السلام آنے والے ہیں جن کی شان اور عظمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ جب ان کے وصال مبارک کا وقت آ جائے تو عزرائیل (علیہ السلام) کو بارگاہِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے آداب معلوم ہوں۔

درجِ بالا حدیثِ مبارکہ میں حضرت عزرائیل علیہ السلام کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں ’’لا یرید الموت‘‘ (وہ بندہ مرنا ہی نہیں چاہتا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرنا نہ مرنا اس بندۂ مرتضیٰ کے اختیار میں ہے یعنی زندگی یا موت کا اختیار بندے کو سونپ دیا گیا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لَا يَمُوْتُ نَبِيٌّ حَتَّی يُخَيَرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.

’’ہر نبی کو اس کے وصال سے پہلے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی مرضی سے واصلِ بہ حق ہوجائے اور اگر چاہے تو مزید دنیا میں قیام کرے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلي الله عليه وآله وسلم ووفاته، 4 : 1612، رقم : 4171
2. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل عائشة، 4 : 1893، رقم : 2444

ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے بھی یہ اختیار دیا گیا لیکن میں نے اپنے رب سے ملاقات کرنے کو اختیار کیا ہے۔

احمد بن حنبل، المسند، 3 : 488، 489
امورِ مشترکہ کی چند مزید مثالیں

2۔ سورۃ الانبیاء میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے روح پھونکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کر کے ارشاد فرمایا :

فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا.

’’پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘

الانبياء، 21 : 91

حالانکہ روح پھونکنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام مامور تھے اور وہ اس فعل کے فاعلِ حقیقی نہیں تھے۔

3۔ سورۃ القیامۃ میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے وحی سنانے کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا :

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُO

’’پھر جب ہم اسے (زبانِ جبرئیل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں۔‘‘

القيٰمة، 75 : 18

حالانکہ پڑھنے والے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جن کی قرات کے سامع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔

4۔ جنگِ بدر میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کا آمنا سامنا ہوا۔ کئی کفار مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر واصلِ جہنم ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کے عمل کی نسبت اپنی طرف کی اور ارشاد فرمایا :

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى.

’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘

الانفال، 8 : 17

اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں کفار کے قتل کی نفی کر کے اسے اپنی ذات سے منسوب کیا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سنگریزے مارنے کی نفی کر کے اس عمل کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حسی طور پر نسبتِ قتال کی نفی فرمائی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کی نفی فرمائی ہے۔ مسلمانوں کے کفار کو قتل کرنے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنکریاں پھینکنے کا معنی اور ہے اور اللہ عزوجل کے قتل کرنے اور کنکریاں پھینکنے کا مفہوم کچھ اور۔ اس کا مقصد حقیقت و مجاز کا فرق واضح کرنا اور خلق و تقدیر کا اثبات ہے جس کا مفہوم دو مختلف طریقوں میں بیان کیا گیا۔
12۔ ایک فعل کی بیک وقت خالق اور مخلوق دونوں کی طرف نسبت

قرآن میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں بیک وقت ایک فعل خالق اور مخلوق دونوں کی طرف منسوب ہوا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَO

’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے اگریہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔‘‘

التوبة، 9 : 59

اس آیت میں عطا کرنے کا عمل اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی طرف منسوب ہے۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں اسی مضمون کی وضاحت اس طرح بیان ہوئی ہے جسے حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَدْخُلُ الْمَلَکُ عَلَی النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِيْنَ أَوْ خَمْسَةٍ وَ أَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً. فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ أَشَقِیٌّ أَوْ سَعِيْدٌ؟ فَيُکْتَبَانِ. فَيَقُوْلُ : أَيْ رَبِّ أَذَکَرٌ أَوْ اُنْثٰی؟ فَيُکْتَبَانِ. وَيُکْتَبُ عَمَلُه وَأَثَرُه وَأَجَلُه وَرِزْقُه ثُمَّ تُطْوَي الصُّحُفُ فَلَا يُزَادُ فِيْهَا وَلَا يُنْقَصُ.

’’جب چالیس یا پینتالیس راتوں میں نطفہ رحمِ مادر میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ رحم مادر میں داخل ہوکر کہتا ہے : اے رب! یہ شقی ہو گا یا سعید؟ پھر ان میں سے ایک لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے : اے رب! یہ مذکر ہو گا یا مونث؟ پس اس میں سے ایک کو لکھ دیا جاتا ہے، پھر اس کے اعمال، اثر، مدتِ حیات اور اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے پھر صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں اور ان میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ کمی۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق الآدمي في بطن أمه، 4 : 2037، رقم : 2644
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 116، رقم : 12178

اس حدیثِ مبارکہ میں خیرو شر کی تقدیر کا نکتہ بیان ہوا ہے جس کا صدور بہ یک وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
13۔ مختلف الوجوہ فعل کے استعمال میں کوئی تناقض نہیں

بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی فعل کا استعمال مختلف وجوہ سے ہوتا ہے اور ان میں کوئی تناقض بھی نہیں ہوتا، قرآن مجید میں عالَم نباتات کی طرف کسی فعل کو منسوب کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں ارشادِ ربانی ہے :

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا.

’’(وہ درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔‘‘

ابراهيم، 14 : 25

اب ذرا غور کریں تو وہ درخت خود کہاں سے پھل لا سکتا ہے اس کے ثمر آور ہونے کا فعل تو اﷲتعالیٰ نے اس درخت میں فطرتاً پیدا کیا ہے اس مفہوم میں کوئی تعارض اور تناقض نہیں۔ اسی طرح طبرانی اور ابن حبان کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو کھجور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لے لو۔ اگر یہ تمہاری قسمت میں ہے اور تم خود نہ بھی لو تو پھر بھی یہ چل کر تمہارے پاس آ جائے گی۔ کھجور کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے اور آدمی کے چل کر آنے کا مطلب کچھ اور ہے۔ دونوں کی طرف نسبت مجازی ہے۔ آدمی کے چل کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے میں قدرت و ارادہ پیدا فرما دے گا اور کھجور کے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا سبب پیدا فرما دے گا کہ کوئی اور بندہ کھجور کو اس تک پہنچا دے گا اس طرح حقیقت میں دونوں صورتوں میں اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور ان میں معنوی طور پر کوئی تناقض نہیں۔
14۔ واسطہ کو مؤثرِ حقیقی اور خالق جاننا کفر ہے

اﷲتعالیٰ نے واسطہ کو پیدا کیا اور اس میں وساطت کی قدرت رکھی ہے لیکن اگر کوئی واسطے کو اصل اور مؤثر حقیقی سمجھنے لگے تو اس سے کفر لازم آتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قارون کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا تو وہ اِترا گیا اورگھمنڈ کرنے لگا کہ شاید یہ میرا کمال ہے۔ اس نے مال و دولتِ کثیرہ کو اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا :

قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي.

’’وہ کہنے لگا : (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔‘‘

القصص، 28 : 78

ارون مال و دولت کی فراوانی سے غرور پر اتر آیا اور یہ سمجھنے لگا کہ یہ مجھے اپنی ذاتی تگ و دو اور ہنرمندی سے ملا ہے حالانکہ اﷲ رب العزت نے اسے خزانوں کا مالک بہ طور آزمائش بنایا تھا لیکن وہ مؤثر حقیقی کو بھول گیا، اﷲ رب العزت کو اس کا غرور وتکبر پسند نہ آیا اور اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور وہ اپنے اس کفر کے باعث دنیوی اور اخروی عذاب کا مستحق ٹھہرا۔

اس مفہوم کی مزید وضاحت اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے، حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت رات کی بارش کا اثر باقی تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر حاضرین کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا :

هَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا : اَﷲُ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ. قَالَ : قَالَ : أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُوْمِنٌ بِيْ وَ کَافِرٌ، فَاَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَ رَحْمَتِهِ، فَذَلِکَ مُوْمِنٌ بِيْ کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ. وَ أَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَ کَذَا فَذَلِکَ کَافِرٌ بِيْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.

’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض کی صبح ایمان پر اور بعض کی صبح کفر پر ہوئی ہے۔ جس شخص نے کہا ہے کہ ہم پر خدا کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث بارش ہوئی تو اس نے مجھ پر ایمان رکھا اور ستاروں کا کفر کیا، اور جس نے کہا کہ فلاں ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی ہے تو اس نے میرا کفر کیا اور ستاروں پرایمان رکھا۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، بيان کفر من قال مطرنا بالنوء، 1 : 83، رقم : 71

ق گویا کفر کا باعث یہ زعمِ باطل ہے کہ واسطہ کو مؤثر حقیقی و خالق مانا جائے۔
15۔ واسطہ کے جواز پر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم

اس حوالے سے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص فعل کو واسطہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور واسطہ کو مؤثر حقیقی نہیں سمجھتا تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ واسطہ اور ذریعہ کو ملحوظ رکھنے کا خود شریعت نے حکم دیا ہے۔ حضرت ابنِ عمرص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنِ اسْتَعَاذَ بِاﷲِ فَأَعِيْذُوْهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاﷲِ فَأَعْطُوْهُ، وَمَنْ دَعَاکُمْ فَأَجِيْبُوْهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْکُمْ مَعْرُوْفًا فَکَافِئُوْهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْنَهُ فَادْعُوْا لَهُ حَتَّی تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوْهُ.

’’جو شخص تم سے اﷲ تعالیٰ کے نام پر پناہ مانگے تو تم اسے پناہ دے دو، جو اﷲتعالیٰ کے نام پر سوال کرے تو اسے عطا کر دو، جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جو تمہارے ساتھ احسان کرے تو اس کا بدلہ احسان کے ساتھ دو، اگر تم اس کی نیکی کا بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے دعا کیا کرو یہاں تک کہ تم اطمینانِ قلب حاصل کرلو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘

ابوداؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب عطية من سأل باﷲ، 2 : 128، رقم : 1672

کسی کے کام آنا اس کی مشکل آسان کرنا اس پر احسان کرنا بلاشبہ نیکی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسان کے انسان پر احسان کا مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس احسان کی نسبت موثر مجازی کی طرف کرکے اس کا بدلہ دینے کی کوشش کرنا مستحسن اسلامی اقدار میں سے ہے۔ حضور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد کس قدر فطری اصولوں کے قریب ترین ہے۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ لَمْ يَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْکُرِ اﷲَ.

’’جوشخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘

1. ترمذی، السنن، کتاب البر، باب فی الشکر، 4 : 339، رقم : 1955
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 32
3. ابويعلی، المسند، 2 : 365

احسان کا مؤثر مجازی بندہ ہے اور یہی اس احسان کا واسطہ بن رہا ہے، اس واسطہ احسان کا اس قدر خیال رکھنا اس احسان کے مؤثر حقیقی (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہونے کے منافی نہیں۔ اگر منافی ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا انسان کا شکر بجالانے کا حکم نہ فرماتے۔
16۔ ترکِ مجاز سے معانیء قرآن میں تطبیق ممکن نہیں رہتی

قرآن حکیم میں اگر ایک فعل کا استعمال مختلف طریق سے ہوتا ہے تو اس کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ پس اگر ہم صرف حقیقت کو لیں اور مجاز کو ترک کر دیں تو مختلف و متفرق نصوص میں تطبیق کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ قول مجازًا منسوب کیا :

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ.

’’اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔‘‘

ابراهيم، 14 : 36

کیا اس آیت کے مفہوم پر غور کرنے سے کوئی مؤمن یہ گمان بھی کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پتھر سے تراشے ہوئے بتوں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک بنایا ہو گا۔ العیاذ باﷲ ایسا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی نفی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے اس قول سے ہو جاتی ہے جس میں قرآن نے انہیں مشرکین سے مخاطب ہو کر ان (بتوں) معبودانِ باطلہ کے حوالے سے یہ استفسار کرتے ہوئے بیان کیا :

قَالَ اَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُوْنَo

’’ابراہیم (علیہ السلام) نے (ان سے) کہا : کیا تم ان (ہی بے جان پتھروں) کو پوجتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو۔‘‘

ان دو قرآنی ارشادات کے مفہوم میں کوئی تعارض اور تضاد نہیں۔ بلاشبہ وہ شخص مشرک قرار پائے گا جو غیر اﷲ کے کسی عمل کی اختراع اور اس میں پائی جانے والی تاثیر کو اﷲ تعالیٰ کا شریک سمجھے۔ اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں جیسے انبیاء و اولیاء یا عام مخلوقاتِ جن و انس، جمادات اور مظاہرِ فطرت میں سے کسی کو اﷲ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص مشرک ہو گا البتہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ مسبب میں سبب کا پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہے اور وہی فاعلِ حقیقی ہے تو اس کا ایمان شرک سے محفوظ رہے گا خواہ وہ سبب سمجھنے میں خطا ہی کر جائے۔ کیونکہ اس صورت میں اس کی خطا سبب میں ہو گی نہ کہ مسبِّب میں؟ مسبب الاسباب اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
17۔ معانیء قرآن کی تطبیق میں احتیاط

معانی قرآن کی تطبیق میں توحید اور شرک کا فرق سمجھنا ضروری ہے صحیح عقیدہ یہ ہے کہ کسی غیر کو رازق ماننا شرک ہے اسے رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ محنت کرنے والا کسان، زمین سے رزق پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے نہ کہ مسبب؟ کسان کو رزق کا سبب ماننا شرک نہیں۔ اسی طرح لوگ کسی دفتر، فیکٹری یا کارخانہ میں کام کرتے ہیں اور آجر اور مالک ان سے کام لیتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کی ولادت کا سبب بنتے ہیں۔ درسگاہوں میں استاد اور معلم علم دینے کا سبب بنتے ہیں جبکہ مسبِب حقیقی اﷲ تعالیٰ ہی رہتا ہے۔ سب سے بڑا عالم اور ہر چیز کا مالک اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔ ساری عطائیں، عزت اور شان و شوکت اﷲ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور یہ سب کچھ دینے میں وہ خود سبب نہیں بنتا بلکہ مخلوق میں سے کسی کو رزق، علم اور ولدیت کا سبب بناتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسبِّب ہی ہوتا ہے۔ سبب نہیں۔ سبب ہمیشہ مخلوق میں سے ہوتا ہے۔ اور اسی سبب کو واسطہ و وسیلہ کا نام دیا جاتا ہے نہ کہ مسبِّب کو، لہٰذا سبب یعنی واسطہ سے توسل ہوتا ہے جبکہ مسبِّب پر توکل ہوتا ہے۔
کسی کو نفع و نقصان کا سبب ماننا شرک نہیں

کسی اور کو اﷲ تعالیٰ کے سوا نفع و نقصان کا سبب اور ذریعہ ماننا توحید کی نفی نہیں۔ توحید کی نفی اور شرک تو تب ہو گا جب کسی اور کو مسبِّب حقیقی مانا جائے۔ کوئی مسلمان ازروئے عقیدہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو مسبِّب حقیقی نہیں مانتا حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ تک رسائی کے لئے صرف وسیلہ، ذریعہ اور سبب مانا جاتا ہے اس آخری حد سے اوپر کوئی نہیں جاتا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اﷲ رب العزت نے زمین میں کسی کے رزق کا مالک ہونے کی نفی کی ہے رزق کا وسیلہ، سبب اور ذریعہ بننے کی نفی نہیں کی۔

اﷲ تعالیٰ جیسے مالکِ رزق ہے ویسے وہ مالکِ نفع و ضرر بھی ہے۔ قرآن حکیم نے نقصان کا سبب، باعث، وسیلہ یا ذریعہ ہونے کی نفی نہیں کی۔ وسیلہ کی نفی اس وقت ہو گی جب اﷲ تعالیٰ کے سوا ان امور کا مالک دوسروں کو مانا جائے اس کی مثال یوں ہے کہ سانپ نے کاٹ لیا تو سانپ نقصان کا سبب یا باعث بنا، ڈاکٹر کی دوا سے کسی مرض سے شفایابی ہوئی تو وہ شفا کا سبب بن گیا مگر نہ ڈاکٹر اور دوائی نفع یا شفا کے مالک ہیں اور نہ سانپ یا زہر نقصان کے مالک ہیں یہاں سببیت کی نہیں بلکہ مالکیت کی نفی ہے۔ ( جاری ہے )

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔