Tuesday, 21 July 2015

ایصال ثواب قرآن حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ دوم

سوئم، ساتواں، چہلم، برسی کرنا جائز ہے
سوئم، ساتواں، چہلم اور برسی وغیرہ کرنا یہ سب ایصال ثواب کے نام ہیں اور ایصال ثواب قرآن و حدیث سے ثابت ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سید اشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کےلئے تیسرے، دسویں، چالیسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔
معلوم ہوا کہ یہ مروجہ تیجہ، ساتواں، چہلم، اور گیارہویں وغیرہ دراصل ایصال ثواب کے نام ہیں جو کہ جائز ہیں۔ ان کو بدعت سیہ یا لغو وغیرہ کہنا گمراہی ہے۔
(1) سوئم: میت پر تین دن خاص سوگ کی جاتا ہے۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے۔ اب اٹھنے سے پہلے چند گھر کے افراد مل کر کچھ صدقے کرو۔ کچھ پڑھو اور اس کا ثواب کا ثواب میت کی روح کو پہنچا کر اٹھو۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ مشہور ہوگیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تیجا ہوا چنانچہ
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "تیسرے دن لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ شمار سے باہر ہے۔ اکیاسی (81) بار کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے زیاد ہوئے ہونگے اور کلمہ طیبہ کا تو انداز ہی نہیں کہ کتنا پڑھا گیا"۔ (ملفوظات عزیزی)
نوٹ: میت پر اس کے گھر والوں کیلئے سوگ تین دن ہے مگر شوہر کے انتقال پر بیوی کےلئے چار ماہ دس دن سوگ یعنی (عدت) ہے۔
(2) ساتواں: حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ"بے شک مردے سات روز تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تواسلئے علماء کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے"۔
یعنی مردے کیطرف سے سات یوم تک فقراء کو کھانا کھلایا جائے۔ چنانچہ شیخ المحدثین حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہئیے"۔ اشعہ اللمعات بآ زیارۃ القبورجلد اول 716۔
(3) چھلم : بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس روز تک اپنے گھر اور مقامات سے خاص تعلق رہتا ہے جو بعد میں نہیں رہتا۔ چنانچہ
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ" مومن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے اس کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے اس کی روزی اترتی تھی، روتے رہتے ہیں"۔ (شرح الصدور ص102)
اسی لئے بزرگان دین نے چالیسوں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہوجائے گا لہٰذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو۔
میت کے گھر میں ضیافت (دعوت) کا اہتمام کرنا
آج کل یہ عام رواج ہے کہ تیجا، دسواں اور چالیسواں یا برسی وغیرہ کے موقع پر باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ اور بہت اہتمام کے ساتھ کھانے کا انتظار کیا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔
فتح القدیر میں ہے اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت مکروہ (تحریمی) ہے کہ شریعت نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بری بدعت ہے۔
یہ حکم تو اس صورت میں ہے کہ جب تمام وارث بالغ ہوں اور سب اپنی خوشی سے انتظام کر رہے ہوں اور اگر وارثوں میں کوئی نابالغ بھی ہے تو کھانے کا انتظام سخت حرام ہے اور قرآن کریم کی اس وعید میں دخل ہے" وہ جو یتیموں کا مال ناحق کھانے ہیں وہ تو اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں"۔ (سورہ النساء)
ہاں! اگر غریبوں اور محتاجوںکےلئے کھانا پکوائیں اور تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ اپنے مال سے کریں یا ترکہ سے تو اچھا ہے۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ص91)
مسئلہ: اہل میت کےلئے کھانے لے جانا اور ان کے ساتھ کھانا، ان کے میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہونے کی وجہ سے پہلے دن جائز ہے اور اس کے بعد مکروہ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ) جلد نہم مع تخریج ص667
دن مقرر کرنا : اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق ایصال ثواب جائز ہے۔ جس دن چاہیں کریں۔ دس یا بیس دن کی کوئی قید نہیں۔ مسلمان اگر کبھی دن مقرر کرکے مجلس ایصال ثواب مقرر کرتے ہیں تو صرف اپنی سہولت کےلئے تاکہ بلانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لوگ خود ان دنوں میں قرآن خوانی اور فاتحہ میں شریک ہوجائیں گے۔ کیونکہ کسی کام کےلئے اپنی سہولت کی خاطر دن اور وقت مقرر کرنا "سنت مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ہے اور سنت صحابہ بھی"۔
بخاری شریف میں ہے " نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر ہفتہ روز مسجد قباء میں کبھی پیدل اور کبھی سوار ہو کر تشریف فرما ہوتے اور عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے"۔
اس حدیث میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نیک کام کرنے کےلئے دنوں اور وقتوں کو خاص کرنا جائز ہے۔
"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعررات کے دن لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے"۔ (صحیح بخاری) باب من جعل لاہل العلم ایاما معلومۃ جلد 1 ص16
پس! معلوم ہوا کہ دن مقرر کرکے کسی ایک کام کو بجالانا، نہ حرام ہے اور نہ بدعت، بلکہ سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور طریقہ اسلاف ہے۔ اور کسی جگہ اس کی ممانعت نہیں آئی اس لئے یہ جائز ہے۔
ایصال ثواب کا طریقہ
سورہ فاتحہ اور آیتہ الکرسی ایک ایک بار، تین بار سورہ اخلاص اول و آخر تین تین بار دورود شریف پڑھی۔
پھر اس طرح کہیں!
یا اللہ عزوجل جو کچھ پڑھا گیا (اگر کھانا وغیر ہے تو اس طرح سے کہیں) اور جو کچھ کھانا وغیرہ پیش کیا گیا ہے۔ بلکہ آج تک جو کچھ ٹوٹا پھوٹا عمل ہوسکتا ہے۔اس کا ثواب ہمارے ناقص عمل کے لائق نہں بلکہ اپنے کرم کی شایان شان مرحمت فرما۔ اور اسے ہماری جانب سے اپنے پیارے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں نذر پہنچا۔ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے توسط سے تمام انبیاء کرام، تمام صحابہ کرام، تمام اولیاء عظام کی جناب میں نذر پہنچا سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے توسط سے سدینا آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک جتنے انسان و جنات مسلمان ہوئے یا قیامت تک ہونگے سب کو پہنچا (جن جن بزرگوں کو خصوصا ایصال ثواب کرنا ہے ان کا نام لیں اپنے ماں باپ، استاد، پیرومرشد کو بھی ایصال ثواب کریں۔ فوت شدگان میں سے جن جن کا نام لیتے جائیں ان کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔
اگر تھوڑا کھانا اور پانی نکالا تھا وہ دوسرے کھانوں اور پانی میں ملادیں۔
ایصال ثواب کی فضیلت
طبرانی اوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ "میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جب کوئی شخص میت کو ایصال ثواب کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام اسے نور کے طباق میں رکھ کر قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں۔ اے قبر والے! یہ ہدیہ تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے۔ قبول کر یہ سن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی محرومی پر غمگین ہوتے ہیں"۔
ایصال ثواب (یعنی ثواب پہنچانا اس کےلئے دل میں نیت کرلینا کافی ہے مثلا آپ نے کسی کو ایک روپیہ خیرات دیا یا ایک بار دورود شریف پڑھایا کسی کو ایک سنت بتائی یا "نیکی کی دعوت" دی یا سنتوں بھرا بیان کیا الغرض کوئی بھی نیکی کا کام کیا۔ آپ دل ہی دل میں نیت کرلیں مثلا "ابھی میں نے جو سنت بیان کی اس کا ثواب سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پہنچے"۔ ان شاء اللہ عزوجل ثواب پہنچ جائے گا مزید جن جن کی نیت کریں گے ان کو بھی پہنچے گا۔ دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے کہہ لینا سنت صحابہ رضی اللہ عنہ ہے جیسا کہ ابھی حدیث سعد رضی اللہ عنہ میں گزرا کہ انہوں نے کنواں کھدوا کر فرمایا "یہ ام سعد کیلئے ہے"۔
جتنوں کو ایصال ثواب کریں اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا ملے گا۔ یہ نہیں کہ ثواب تقسیم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ملے۔ (ردالمختار) فتاوٰی رضویہ جلد نہم مع تخریج ص601
ایصال ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ یہ امید ہے کہ اس نے جتنوں کو ایصال ثواب کیا ان سب کے مجوعے کے برابر ثواب ملے۔ مثلا کوئی نیک کام کیا جس پر اس کو دس نیکیاں ملیں۔ اب اس نے دس مردوں کو ایصال ثواب کیا تو ہر ایک کو دس دس نیکیاں پہنچیں گی اور ایصال ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ہزار کو ایصال ثواب کیا تو اس کو دس ہزار دس۔ (ملخص ااز فتاوٰی رضویہ) بہار شریعت جلد اول حصہ چہارم ص89
بلکہ اللہ عزوجل اس سے زیادہ پر بھی قادر ہے۔

عورتیں بھی ایصال ثواب کرسکتی ہیں
عورتیں بھی ایصال ثواب کرسکتی ہیں۔ عموما یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شائد صرف مرد ہی فاتحہ دے سکتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ بلککہ بعض خؤاتین تو کبھی مسجد کے مولوی و مئوذن کو بلوائیں گی۔ کہیں کسی اور کو بلوا کر فاتحہ دلوائیں گی۔ یہ ضروری نہیں عورتوں کو چاہئیے کہ وہ صحیح طریقے سے قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھیں اور خود ہی اپنے گھر میں فاتحہ دیں۔
اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہماری زندگی اور موت کے تمام معاملات اپنے پسندیدہ اور اپنے پیارے محبوب علیہ السلام کے احکامات کے طریقے کے مطابق کردے۔ (آمین)
یہ ضروری نہیں کہ بڑے پیمانے پر کھانا وغیرہ پکا کر ہی ایصال ثواب کیا جائے بلکہ کچھ اور ایسے کام ہیں جو اس دنیا سے جانے والے مسلمانوں کےلئے تحفہ آخرت ہیں۔ مثلا
(1) کسی دینی مدرسے میں اپنے مردوں کی طرف سےکوئی تعمیری کام کروادیں۔ یا تفسیر، حدیث اور فتنہ وغیرہ کی کتابیں خرید کر وقف کردیں۔
(2) دینی مدارس کے نادار و غریب طلبہ کی کسی طرح بھی امداد کریں خصوصا ان کے کھانے، کپڑے اور درسی کتابیں کا انتظام کردیں۔
(3) دینی کتابیں اور دینی کیسٹ خرید کر اہلسنت کی لائبریری کےلئے وقف کریں تاکہ عوام کو دینی معلمومات حاصل ہوں۔
(4) اپنے خرچ پر کوئی دینی و اصلاحی کتاب چھپوا کر مفت تقسیم کردیں۔
(5) کسی غریب شخص کی مدد کردیں۔
(6) کسی غریب کی بیٹی کی شادی کروادیں۔

1 comment:


  1. (1) کسی دینی مدرسے میں اپنے مردوں کی طرف سےکوئی تعمیری کام کروادیں۔ یا تفسیر، حدیث اور فتنہ وغیرہ کی کتابیں خرید کر وقف کردیں
    لفظی غلطی ہے فتنہ

    ReplyDelete

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...