Tuesday 7 July 2015

خواتین کا اعتکاف اور خواتین کا نماز کہاں ادا کرنا افضل ہے

0 comments
رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار مہینہ ہے اسی وجہ سے اس میں کچھ ایسی زائدعبادتیں بھی آئیں جن سے دوسرے مہینے خالی ہیں۔ مثلاً :قرآن پاک کا نزول، رمضان میں بیس تراویح کا اہتمام،تلاوت، قرآن ،سحری وافطاری نفل کا اجر فرض کے برابر ایک فرض ستر فرائض کے برابر، جنت کے دروازوں کا کھلنا ،جہنم کے دروازوں کا بند ہونا، شیاطین کا قید ہونا وغیرہ ا س میںاللہ رب العزت نے کاخاص اپنی رحمت کو خلقت میں بانٹنا جس کی وجہ سے لو گ آپس میں ہمدردی اورغم خواری کرتے ہیں اس ماہ مبارک میں صفت غفوریت کا بھی ظہور ہوتاہے کہ روزانہ ایک جم غفیر کے لیے جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔

اس مہینہ کی کس کس عبادت عظیمہ کا تذکرہ کیاجائے اس مبارک مہینے میں کئی عبادتیں ایسی ہیں کہ جن میں تلاش محبوب یعنی اللہ تعالی کے لیے ورافتگی عشق میں بھوک وپیاس سے بے نیاز ہوکرمحبت سے سرشار ادائیں قابل دید ہوتی ہیں۔انہی میں سے ایک اہم عبادت اعتکاف ہے ۔

اعتکاف: ’’روزہ دا ر کاتمام مشاغل دنیا سے خالی ہوکر اپنے اللہ کے حضور سپرد کرکے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں بیٹھنے کو۔‘‘ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا سنت موکدہ علی الکفایۃ ہے۔

یعنی محلے والوں میں سے اگر کچھ نے کر لیاتو تمام سے ساقط ہوجائے گا اگر کسی نے بھی نہ کیا تو تمام کے تمام گناہ گار ہوں گے کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف بڑے اہتمام اور پابندی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

فضیلت اعتکاف: ترجمان القرآن،صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اعتکاف کرنے والے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس کے گناہ روک دیے جاتے ہیں اور تمام نیکیاں(یعنی تمام اچھے کام جن کو وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتا ان کا اجر) نیکی کرنے والے کی طرح جاری کردیا جاتا ہے ۔

اسی لیے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے پر نہ مریض کی عیادت ہے اورنہ نماز جنازہ وغیر ہ پڑھنا سنت ہے ۔ اعتکاف کا وقت: جوآدمی اعتکاف کرنا چاہے تو وہ بیس رمضان المبارک کے دن نماز عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے سے پہلے اپنی اعتکاف کی جگہ میں بیٹھ جائے اور انتیس یا تیس رمضان کو (یعنی عید کا چاند دیکھنے کے بعد) بعد از مغرب اعتکاف سے نکلے اور دوران اعتکاف آدمی بغیر کسی شرعی ضرورت کے (مثلا قضائے حاجت وغیرہ) اعتکاف کی جگہ سے نہ نکلے۔

اعتکاف کہاں کرے ؟ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں ہی اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کا گھر میں اعتکاف کرنا یہی حنفیہ کا مذہب ہے عقل انسانی کا تقاضا بھی یہ کہ جب عورت کے لیے نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے تو پھر اعتکاف بھی گھر میں ہی کرنا افضل ہوگا۔

عورت کی مسجد: مذکورہ بالاحوالہ جات سے معلوم ہواکہ مرد کا مسجد اور عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کے نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ کو حضور ﷺ نے بھی مسجد ہی قرار دیا ہے دیکھئے حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیاہے کہ عورتوں کی بہترین مسجدیں ان کے اپنے گھروں کے تہہ خانے ہیں۔

اسی طرح ام حمید الساعدیۃ ؓ نے نبی علیہ السلام کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی درخواست کی تو حضور eنے فرمایا : ’’ اگر تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کی کو پسند کرتی ہے تو پھر تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے اور اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا یہ میری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔‘‘ یہ سن کرحضرت ام حمید ؓ نے اپنے گھر والوں کو گھر میں مسجد بنانے کا حکم دیا تو ان کیلئے گھر کے ایک کونے میں مسجد تیار کی گئی اور آپ آخر دم تک اسی مسجد میں ہی نماز پڑھتی رہیں (نہ کہ مسجد نبوی میں)

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت کی مسجد اس کا گھر (مخصوص جگہ) ہے تو اللہ رب العزت نے بھی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ذکر فرمایا وانتم عاکفون فی المساجد اسی وجہ سے مرد مسجد عرفی میں اور عورت اپنے گھر والی مسجد میں ہی اعتکاف کرے لیکن آج کے اس دور میں عورتوں کو اصل تعلیمات اسلامیہ سے ہٹا کر عورتوں کو مردوں کی ہم نشینی میں کھلے آسمان تلے اعتکاف کروا کے مزید اس بدعت اور اخلاق باختگی کو فروغ دیا اور اپنے اس عمل یعنی مسجد میں عورت کے اعتکاف کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی ناکام و بے فائدہ کوشش کی ہے ۔مثلاً: قرآن میں ہے وانتم عاکفون فی المساجد (البقرہ)

تم مسجدوں میں بیٹھنے والے ہو،اس سے یہ سمجھا کہ مرد و عورت مسجد میں ہی اعتکاف کریں جب کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں مرد اور عورت کی الگ الگ مسجد کو دلائل کی روشنی سے ثابت کر دیا کہ حضور ﷺ نے عورت کے گھر کو ہی عورت کی مسجد بتلایا ہے مزید برآں اسی آیت کے ذیل میں مفسرِقرآن ابوبکر الجصاصؒ (وفات ۳۷۰؁ھ) نے فرمایا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم فقط مردوں کیلئے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ احادیث رسول ﷺ میں بھی کسی عورت کا عملاً مسجد میں اعتکاف کرنا یا پیغمبر ﷺ کا حکم دیناکہ عورت مسجد میں اعتکاف کرے کسی صحیح ،صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔

وساوس و شبہات : لیکن اس کے باوجو د عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے بخاری ج۱ص۲۷۱،۲۷۳سے دو حدیثیں دکھاتے ہیں کہ (۱)حضور کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا
(۲)حضرات امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھن نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگائے۔

کاش!!! یہ لوگ ضد اور تعصب سے بالا تر ہو کر حدیث کو پڑھیں تو بات بہت آسان ہے حدیث میں ہے حضور ﷺ ہر رمضان میں مسجد نبوی میں مخصوص جگہ بنا کر اعتکاف کرتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے بھی اجازت لی تو حضور ﷺ نے اعتکاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ انہوں نے بھی اپنا خیمہ لگایا پھر ان کی دیکھا دیکھی حضرت حفصہ ؓ ،حضرت زینب ؓ نے بھی اپنا اپناخیمہ لگا لیا ۔ آپ ﷺ نے جب مسجد میں خیمے دیکھے تو تعجباً سوال کیا یہ کیوں لگائے گئے ہیں؟ اور کس چیز نے ان (یعنی ازواج مطہراتؓ) کو اس نیکی (یعنی مسجد نبوی میں اعتکاف) پر اُبھارا ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ یہ خیمے لگا کر اعتکاف کو تم نیکی سمجھتی ہو ؟ اس کے بعد حضور ﷺ نے ان خیموں کے اکھاڑنے کا حکم ارشاد فرمایا۔تو مسجد نبوی سے ازواج مطہرات کے خیمے (دوران اعتکاف ہی) اکھاڑ دیے گئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے حضور ﷺ نے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا پھر شوال میں اس کی قضا ء فرمائی ۔

اگر عورت کے لیے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضور ﷺ نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا ؟ اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم کیوں دیا ؟ اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے ؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا ؟ اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا ؟ اتنی عام فہم حدیث کے باوجو دبھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ ا طاعت مصطفی ﷺ نہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور حضور ﷺ کے عمل کی خلاف ورزی ہے ۔

علامہ ابن حجر ؒشارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیۃؒ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں اور مزید لکھتے ہیں:’’ عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے اور امام شافعیؒ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔