Monday 30 September 2019

مولوی فضل الرّحمٰن دیوبندی نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کا اعلان کر دیا

0 comments
مولوی فضل الرّحمٰن دیوبندی نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کا اعلان کر دیا ، اس اعلان کے بعد اب آزاد ہو کے رہے گا کشمیر اورمولوی فضل الرّحمٰن دیوبندی اسلام کی سر بلندی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں آزادی کےلیئے جِدُّ جہد کرتے ہوئے سنا ہے آج کل کشمیر کے مظلوم مسلمانوں ، ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی مدد کےلیئے چندہ اکھٹا کر رہے ہیں تاکہ جہاد ِ آزادی کشمیر میں اُن کی مدد کریں ۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کےلیئے فضل الرّحمٰن دیوبندی صاحب کی جد و جہد بہت پورانی ہے اس کے بر خلاف کسی کے پاس کوئی خبر ہو تو آگاہ کریں ہم شکریے کے ساتھ پوسٹ کرینگے سر بکف سر بلند دیوبند دیوبند کیونکہ مہتمم دیوبند ہندو بنیئے مودی کی مکمل حمایت اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مخالفت کا اعلان کر چکے ہیں جیو سر بکف سر بلند ہو کر اور دیو کے بند بن کر

آخر دیوبندیوں کو لڑکی بننے کا شوق کیوں ہے ؟

0 comments
آخر دیوبندیوں کو لڑکی بننے کا شوق کیوں ہے ؟

بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

پڑھیئے فقیر غازی کی زبانی

قارئین کرام ، آج ہم پیش کرتے ہیں عجب پریم کی غضب کہانی کی سچی کہانی 😇

ایک گروپ جو چھترول کی وجہ سے سیکرٹ ہوگیا اسکی موڈیئٹر ہیں محترمہ فریحہ ناز،
انکی ترچھی نگاہ کا پہلا شکار ناظم عباسی بنے ، فریحہ ناز کے لئے جو فیس بک پر مشہور ہورہی ہیں اپنی آنکھوں کی وجہ سے😇
(نوٹ: پوری پوسٹ پڑھیں یہ ہیں کون 😇)
انکی خدمت میں ایک نظم پیش ہے 😇

سنا ہے جو بھی اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے عاشق پھر ان کو بپھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے تاڑتا ہے سارا دن ابھی نندن اس کو
اور اس کو رات میں لڑکے گورایا کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کا مڈل نیم ہے "ناز"، سو دیوبندی
پچاس والا اسے لوڈ کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کا "مرغے پھنسانے " کا دھندا ہے
"مکیں دوسرے گروپ کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں"

سنا ہے ہم نے لگاتی ہے اس قدر میک اپ
کہ گروپ والے مدہوش ہوکر دیکھتے ہیں

ہے اس کی ترچھی نگاہوں کی وجہ بھینگاپن
طبیب زاویے اس کی نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے زہر ہے اتنا زبان میں اس کی
کہ اس کو سانپ زبانیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو کسی کا ذرا لحاظ نہیں
سو بچے بوڑھے سبھی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

جو اس سے بھول کے کر لے مباحثہ کوئی
تو پھر وہ نوچتا ہے بال سر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آگ لگاتی ہے ایسی پل بھر میں
کہ سب فسادی بھی جس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

محلے بھر میں کوئی بھی فساد جب پھیلے
تو اس کی سمت سبھی لوگ گھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو دعائیں ہی ایسی ملتی ہیں
کھلے دہانے اسے ہر گٹر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو خوشامد بہت ہی بھاتی ہے
لو عینؔ آج کرشمے بَٹر کے دیکھتے ہیں​

محترم ناظم عباسی، ابھی نندن، محترم یامین اور محترم گورایا صاحب سب ہی فریحہ پر فدا ہیں😇

یہ محترمہ ہمیں پہلے سی جانتی ہیں اسکا ثبوت ہم دینگے، یہ ہمیں بلاک کرگئی ہیں مگر اس سے انکو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا رہی ہیں مگر انکو یہ علم ہونا چاہئے کہ اس سے پچھلا حصہ اوپر ہوجاتا ہے جو انکے لئے مناسب نہیں جبکہ ناتوی کے مقلدین ان کے اطراف میں ہیں🙄🥺🥴
یامین، گورایا، ابھی نندن اور ناظم عباسی اور دوسرے عاشقان فریحہ کی خدمت میں😇
(پوسٹ مکمل پڑھیں)
تمہاری بنوں تو اپنے عاشقان سے آپ ہی لڑ پڑا کرے گی
جو ٹھرکیوں سے رشتہ ناطہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

جبکہ انکے عاشقان یہ کہتے پھرتے ہیں
سسر کے خادم تو ہیں ہزاروں ، گھروں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا نوکر بنوں گا جس کو سسر کے لڑکیوں سے پیار ہو گا😇
سنیوں کو لفٹ کرانے کا سبب

سبب کھلا یہ ہمیں ان کے منہ لگانے کا
ہے ان کا موڈ کسی کام میں پھنسانے کا

انکے چاہنے والے کہتے ہیں
وہ جو ہے جیسا بھی ہے عینؔ خوبصورت ہے
مذاق اڑاؤ نہ قدرت کے کارخانے کا

یہ خاتون ہی ہیں اسکا ثبوت اسکرین شاٹ نمبر 1، 1a, 1 b
اسکرین شاٹ نمبر 2 میں انکی پروفائل پکچر ہے ملاحظہ فرمائیں ، جس کو دیکھ کر لوگ آہیں بھرتے ہیں اور انکی ایک جھلک کے لئے بے قرار رہتے ہیں😛

قارئین کرام آپکو حیرت ہورہی ہوگی یہ کیا داستان شروع کردی ہم نے؟ تو ہم بتاتے ہیں کہ یہ پہلے مرد تھیں پھر ناتوی کی محبت میں آپریشن کراکر خاتون بن گئیں، تاکہ مرغے پھنسا سکیں یا ساجد صدیقی المعروف ابھی نندن یا دوسرے دیوبندیوں کو ناتوی والا فیض پہنچا سکیں 😊😇

نازنینوں کی شکل دیکھ کہاں تک پہنچے
کوئی ٹھرکی نہ پہنچ پایا وہاں تک پہنچے

تیری مسکان میں پنہاں ہے فتور اور ہی کچھ
یہ شرارت کی کتھا دیکھیں کہاں تک پہنچے

اب فریحہ ناز اصل میں ہیں کون یہ آپکو بتاتے ہیں جس کا راز افشاء ہونے سے بچانے کے لئے یہ ہمیں بلاک کرگئیں 🤓
ایک صاحب بتاتے ہیں کہ اچھی بھلی انباکس میں بات ہو رہی تھی😝😝😝
فریحہ بولی جان میں مسجد میں نماز پڑھ کر آ رہی ہوں
😱😱😱😱😱
اتنا بڑا دھوکا😤😤😤

یہ ہیں Abu Lubaba المعروف میاں لفافہ 😇 جو باجی سے لفافے لیکر سنیوں کے سامنے پیش ہوتے رہے بقول ہمارے دوست جاوید علی عباسی کے تاویلاتی کھوتے انکی باجیاں بھرتی کرتی ہیں لفافے دے کر 😁😁 تاکہ سنیوں کے سامنے پیش کرکے خود چھترول سے بچ سکیں،

اسکا ثبوت اسکرین شاٹ نمبر 3 ہے جہاں انکا پروفائل ایڈریس شو ہورہا ہے 😂😂😂😂

انکی زبانی اقرار ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ابو لبابہ ہیں اسکرین شاٹ نمبر 4 😇
اسکرین شاٹ نمبر4a, 4b, 4c, 4d میں انکو Abu Lubaba کے نام سے مینشن کیا گیا ہے جسکا یہ جواب دے رہے ہیں ، اس میں گورایا اور ساجد صدیقی بھی میاں لفافہ کے نام سے مینشن کررہے ہیں 😁😁 فیس بک نے نام تو تبدیل کیا مگر مینشن والی جگہ نام تبدیل نہ ہوسکا 😊

یہ پہلے سے ہمیں جانتے تھے ملاحظہ فرمائیں اسکرین شاٹ نمبر 5 تا 11
اور میاں لفافہ پہلے مرد تھے 😇
میاں لفافہ سے ہماری اور ہمارے دوست حافظ عثمان کی بھی گفتگو ہوتی رہی، اور یہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں
ملاحظہ فرمائیں اسکرین شاٹ نمبر 12 تا 19😇

اب آپ سب کو یہ پتہ چل گیا کہ یہ میاں لفافہ تھے جو آپریشن کروا کر فریحہ ناز بن گئی ہیں😛😂😂

مگر میاں لفافہ ہیں کون اصل میں ؟ یہ ہمارے دوست افضل کلیم ہیں جو میاں ڈھکن کے نام سے مشہور ہیں 😇 😂😂😂
اس کے ثبوت ملاحظہ فرمائیں اسکرین شاٹ نمبر 20 تا 46
اب چونکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ آپریشن کے بعد خاتون بن گئی ہیں تو انکو پھر مس ڈھکن کہا جائے؟ کیا خیال ہے دوستوں؟ 😛
انکی اس حرکت سے یہ بھی پتہ لگا دیوبندیوں میں ناتوی کی سنت پوری کرنے کا اتنا شوق یے کہ یہ
آپریشن بھی کرالیتے ہیں 😊😊😇

اب ہم ان سے درخواست کرتے ہیں

کہاں چھُپی ہے؟ ذرا اپنے بھائیوں کو تو روک
یہ مار ڈالیں گے ہیرو ترے فسانے کا

اب ہمیں امتہ اللہ پر شک بلکہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ بھی وگ لگا کر باجی بنی ہوئی ہیں انکی زبان اسکا ثبوت ہے 😇😊

ویسے بھی کافی دوستوں کا شک تھا ان پر جو مس میاں ڈھکن کے فریحہ بننے کے بعد مزید پختہ ہوگیا ہے😇
اب تک جتنی بھی خواتین فیس بک پر دیکھی ہیں دیوبندیوں کی ، سب کے کرتوت دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ کوئی لڑکا ہی آئی ڈی چلا رہا ہے ماسوائے ام فاطمہ کے ، جن سے اختلافات ہیں مگر کبھی فحش گفتگو نہیں کی اور واقعی میں خاتون ہی ہیں اور فریحہ ناز نے جو حرکات کی ہیں ایسی حرکات ناپسند کرتی ہیں 😊😊
یہ میاں لفافہ جو فریحہ ناز بن گئی ہیں بعد از آپریشن 😛 انکی پروفائل کا لنک ہے، ہمیں یہ محترمہ بلاک کرچکیں ہیں اس لئے آپ احباب انکو پکڑ کر لائیں اور ہماری پیاری بنوں کے لئے کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈیں 😇
https://www.facebook.com/abu.lubaba.5070































عظمت و شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

0 comments
عظمت و شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ - وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘ - سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ - ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰةِ - وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْـــهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِه یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ - وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠ ۔ (سورۃُ الفتح آیت نمبر 29)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ا ور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ اُن سے کافروں کے دل جلیں اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا ۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تاجدار گولڑہ شریف حضرت پیرسیّد مہر علی شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : آیت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَ الَّذِیْنَ مَعَه اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ (سورۃُ الفتح آیت نمبر 29) ترجم : مُحَمَّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔ میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ سے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں ، اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارسے خلیفۂ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ سے خلیفۂ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً ، اِلَخ سے خلیفہ رابع حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، حلم وکرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت واخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخصوصی شان رکھتے تھے۔(مِھر منیر، صفحہ نمبر 424 ، 425 ، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح:۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷،چشتی)

مفسرین کرام علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں : کہ یہ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تنہا اُٹھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلص اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تَقْوِیَت دی ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اَصحاب کی مثال انجیل میں یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہوگی ، اس کے لوگ نیکیوں کا حکم کریں گے اور بدیوں سے منع کریں گے ۔ ایک قول یہ ہے کہ کھیتی سے مراد حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی شاخوں سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور (ان کے علاوہ) دیگر مومنین ہیں ۔ (تفسیرکبیر ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۹ ، ۱۰/۸۹،چشتی)(تفسیر خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴/۱۶۲)(تفسیر مدارک ، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸)

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کو کھیتی سے اس لئے تشبیہ دی کہ جیسے کھیتی پر زندگی کا دار و مدار ہے ایسے ہی ان پر مسلمانوں کی ایمانی زندگی کا مدار ہے اور جیسے کھیتی کی ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کی نگرانی فرماتا رہتا رہے گا ، نیز جیسے کھیتی اولاً کمزور ہوتی ہے پھر طاقت پکڑتی ہے ایسے ہی صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) اولاً بہت کمزورمعلوم ہوتے تھے پھر طاقتور ہوئے ۔ ( نور العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۸۲۲)

آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ جس طرح توریت اور انجیل میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت شریف مذکور تھی ایسے ہی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مَناقِب بھی تھے ۔ اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسل بشر و رسل ملائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعدحضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا ، ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہ کے بقیہ صحابۂ کرام ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان، پھر تمام صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا تَسُبُّوا اَصْحَابِي فَلَوْ اَنَّ اَحَدَكُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ ۔
ترجمہ : میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مُد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مُد کے آدھے کو ۔ (بخاری شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522 حدیث نمبر 3673)

مختصر شرح حدیث : شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا ۔ (اشعۃ اللمعات جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 641)

قراٰن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا : لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھجری) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے ، جمہور (یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 395 تحت الحدیث 4699،چشتی)

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ : شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھجری) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مقام نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری ،ج6،ص442، ،تحت الحدیث:3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت محض ”رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت“ اور ”وحی کا زمانہ پانے“ کی وجہ سے تھی ، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کاسب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت نبی کریم کرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح ،ج6،ص286 ،تحت الحدیث:4699)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا ، یہ ہی حال روزہ ، نماز اور ساری عبادات کا ہے ۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُناہے تو جنہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے ۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو ۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لئے چُنا ، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ (مراٰۃ المناجیح،ج8،ص335،چشتی)

سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا انعام

حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں چالیس ایسے تابعینِ عظام کو ملا جوسب ہمیں صحابَۂ کرام سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ،ج2،ص1063، حدیث:2337)

شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے

صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اور عظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کى فضىلت مىں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہے کیونکہ پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں یا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38)

سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں

صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ - رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۰۰) ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (پارہ نمبر 11 سورۃُ التوبۃ آیت نمبر 100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتے ہیں : وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)

محترم قارئینِ کرام : یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُ اللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 حدیث نمبر 3888) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 29 September 2019

صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں اور صحابۂ کرام کے حقوق

0 comments
صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں اور صحابۂ کرام کے حقوق

محترم قارئینِ کرام : ارشاد باری باری تعالیٰ ہے : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۔
ترجمہ : اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل، کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ۔ (البقرة:2 - آيت:143 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ
وسط سے مراد عدل ہے (یعنی متوازن اور افراط و تفریط کے درمیانی راہ چلنے والی امت) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء)

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ ثابت ہوا کہ یہ امتِ محمدیہ ، امتِ عادلہ ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حوالے سے جو بھی روایات بیان کی ہیں ، اہلِ علم نے ان تمام روایات کو کھنگالا اور پرکھا تو ایک بھی صحابی ایسا نہ ملا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی جھوٹ بولا ہو ۔
حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آخری دَور میں جب قدریہ ، نسلِ ابنِ سباء رافضی شیعہ ، ناصبی و خوارج جیسے فرقوں کی بدعات کا دَور شروع ہوا تو کوئی ایک صحابی رضی اللہ عنہ بھی ایسا نہ ملا جو ان اقوام میں شامل ہوا ہو اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقتِ مبارکہ کے لیئے اللہ تعالیٰ کی پسند تھے ۔

جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ (مسند احمد ، جلد اول،چشتی)

اس بات کا بھی ذکر بہت ضروری ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت سے ان کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ اہل سنت و جماعت اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عدالت کے قائل ہیں لیکن ہم انہیں معصوم نہیں سمجھتے کیونکہ وہ پھر بھی بشر ہیں ۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بشر ہونے کے ناطے سے غلطی بھی کرتے ہیں اور درستی بھی ، اگرچہ ان کی خطائیں ان کی نیکیوں کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں ۔ (رضی اللہ عنہم)

امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول ۔ ترجمہ : مسلمانوں کے اہلِ حق گروہ یعنی اہل سنت و جماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل تھے ۔ (مقدمہ الاستیعاب،چشتی)

امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں ۔

امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين ۔
ترجمہ : اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ، ان کی ہجرت و نصرت ، جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ ، دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا ، ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں ، اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے ۔ (الكفاية في علم الرواية ، باب ما جاء في تعديل الله ورسوله للصحابة)

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 29 میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :
1 : وہ کافروں پر سخت ہیں
2 : آپس میں رحم دل ہیں
3 : رکوع و سجود کی حالت میں رہتے ہیں
4 : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں
5 : سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے
6 : ان کے شرف و فضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتب میں بھی موجود تھے
7 : ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے ۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقت ور ہو گئے اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیض و غضب میں مبتلا ہو جاتے تھے ۔

مندرجہ بالا صفات کے حامل اور ایمان اور عملِ صالح کے مجسم صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ ” ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ (مسند احمد ، جلد اول)

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ ، أَبَّرَهَا قُلُوبًا ، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا ، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا ، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَقْلِ دِينِهِ ، فَتَشَبَّهُوا بِأَخْلاقِهِمْ وَطَرَائِقِهِمْ فَهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ص کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر گامزن تھے ۔ (حلية الأولياء لأبي نعيم)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حقوق

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه ۔ (صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )
ترجمہ : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اس لئے کہ اگر تممیں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔

مختصر تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب نبیوں علیہم السّلام کے دلوں کے بعد اور بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل کو پایا تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اس کے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان (یعنی صحابہ ) جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔ (مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379،چشتی)(شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214)

صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمسے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اس کا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت و جماعت کے یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی اہمیت اور ان کے کچھ خاص حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ :

اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ۔

ثانیا : ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ۔

ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درمیان واسطہ ہیں ۔

رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی۔

خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔ (رضوان اللہ عنہم اجمعین)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب “الإصابة في تمييز الصحابة” میں “صحابی” کی تعریفیوں کی ہے : الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم | مؤمنا به ، ومات على الإسلام ۔
ترجمہ : صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا ۔

پھر درج بالا تعریف کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ مزید کہتے ہیں :
فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ، | ومن روى عنه أو لم يرو ، ومن غزا معه أو لم يغز ، ومن رآه رؤية ولو لم يجالسه ، | ومن لم يره لعارض كالعمى . | ويخرج بقيد الإيمان من لقيه كافرا ولو أسلم بعد ذلك إذا لم يجتمع به مرة أخرى .

اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کو مانتا تھا ، پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ گئی ۔ خواہ وہ زیادہ عرصہ تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصہ کے لیے ، خواہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو ، خواہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، خواہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا (بصارت نہ ہونے کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دیدار نہ کر سکا ہو ہر دو صورت میں وہ “صحابئ رسول” شمار ہوگا ۔ اور ایسا شخص “صحابی” متصور نہیں ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7-8،چشتی)

فضائل اصحاب النبی (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے ضمن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : عن عبد الله بن عمر، قال: من كان مستناً فليسن. ممن قد مات، أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا خير هذه الأمة، أبرها قلوباً، وأعمقها علماً، وأقلها تكلفاً، قوم أختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونقل دينه، فتشبهوا بأخلاقهم وطرائقهم فهم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا على الهدى المستقيم ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھی تھے ، اور صراط مستقیم پر گامزن تھے ۔ (حلية الأولياء لأبي نعيم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 162)

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب “الفقہ الاکبر” کو بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير ۔
ترجمہ : ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر صفحہ نمبر 71)

الفقہ الاکبر کے شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اہل سنت و جماعت کا عقیدہیہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کی ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن – 1948ء،چشتی)

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب “العقیدہ الطحاویۃ” میں لکھا ہے :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں ، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویۃ صفحہ نمبر 467)

امام المحدثین و سید الفقہاء حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ (م : 256ھ) نے اپنا عقیدہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا ہے کہ : میں نے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملاقات کی ہے اور ایک ہی بار نہیں بلکہ کئی بار میں نے ان سے ملاقات کی ۔ تمام بلاد اسلامیہ حجاز ، مکہ ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ ، واسط ، بغداد ، شام ، مصر ، جزیرہ میں 46 سال سے زیادہ عرصہ ان سے یکے بعد دیگرے ملتا رہا ہوں ، وہ سب اس عقیدہ پر متفق تھے کہ دین قول و عمل کا نام ہے ، قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں وغیرہ ۔ اور انہی اعتقادی مسائل میں سے ایک یہ بھی کہ :
وما رأيت فيهم أحدا يتناول أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قالت عائشة أمروا أن يستغفروا لهم ۔ میں نے اپنے ان شیوخ میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہتا ہو ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے : لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بخشش کی دعا کریں ۔ امام بخاری نے یہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے بلاد اسلامیہ کا ذکر کر کے وہاں کے اپنے بعض مشائخ کا نام بہ نام تذکرہ کیا ہے ۔ (شرح أصول إعتقاد أهل السنة والجماعة – اللالكائى / ص: 173 اور 175 : آن لائن ربط)

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ فتح الباری “ھدی الساری” (ص:479) میں ذکر کیا ہے کہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ کی تعداد 1080 (ألف وثمانين) ہے ۔ ان تمام کے اسماء کا ذکر یقیناً طویل ہوگا ۔ اس لیے اس ذکر کو نظرانداز کرتے ہوئے عرض ہے کہ ۔۔۔ یہ سب شیوخ کرام اس بات پر متفق تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں ہمیشہ بخشش کی دعا ہی کرنا چاہئے اور انہیں برا کہنے یا ان کی عزت و عصمت کو داغدار کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)