ماتم کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
کوئی بھی خرد مند اس حقیقت سےانکار نہیں کرسکتا کہ دورِ حاضر میں مسلمان جس ذلت ورسوائی، زوال وپستی اور بے راہ روی کے شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ خالقِ کائنات اللہ رب العزت اور محسنِ انسانیت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ان عظیم تعلیمات وفرمودات سے کنارہ کشی ہے جو ہمارے لیے فیروز مندی اورسربلندی کی ضمانت ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ہم نے ان تعلیمات وارشادات کو اپنے گلے سے لگایا دنیا بھر میں ہم مرجعِ خلائق بنے رہے، لیکن جب سے ان سے روگردانی اختیار کی دنیا بھر کی ذلتیں اور رسوائیاں ہم پر مسلط کردی گئیں ۔
نوحہ وماتم کی حرمت قرآنِ مجید سے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیۡءٍ مِّنَ الْخَوۡفِ وَالْجُوۡعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الۡاَمۡوٰلِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔الَّذِیۡنَ اِذَا اَصٰبَتْہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔(البقرہ:۱۵۵/ ۱۵۶،چشتی)
ترجمہ : ہم تمھیں ضرور کچھ خوف، بھوک اور تمھارے جان ومال اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صبر کرنے والوں کےلیے بشارت ہے جنھیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یٰاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوااصْبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا ۔ (اٰلِ عمران:۲۰۰)
ترجمہ : اے ایمان والو! صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو۔
پہلی آیت میں مصیبت کے وقت صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور غم واندوہ کے وقت خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بالوں میں خاک ڈالنا، کپڑے پھاڑنا، ہائے وائے کرنا، منھ، سینہ اور زانو پر طمانچے مارنا یہ تمام کام صبر کے منافی ہیں اور اس کی ضد ہیں۔ جب کسی چیز کو فرض قرار دیا جائے تو اس کی ضد حرام ہوجاتی ہے۔ آیت میں صبر کو فرض قرار دیا گیا تو نوحہ اورماتم جو اس کی ضد ہیں دونوں حرام ہوگئے۔ اور دوسری آیت میں خود صبر کرنے اور اگر کوئی دوسرا بے صبری کا مظاہرہ کرتا نظر آئے تو اسے صبر کی تلقین کرنے کا حکم ہے ۔
ماتم کی حرمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّة ۔ (بخاری، باب لیس منا من شق الجیوب)
ترجمہ : جو شخص منھ پر طمانچے مارے، گریبان چاک کرے اور زمانۂ جاہلیت کی طرح چیخ وپکار کرے وہ ہمارے دین پر نہیں ہے۔
حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : اِثْنَتَانِ فِیْ النَّاسِ ھُمَا بِھِمْ کُفْرٌ: اَلطَّعْنُ فِیْ النَّسَبِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلیَ الْمَیِّتِ ۔ (مسلم،اطلاق اسم الکفر علی الطعن فی النسب) ۔ ترجمہ : دوچیزیں لوگوں میں رائج ہیں حالاں کہ وہ کفر سے ہیں: نسب پر طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا ۔
ان احادیث سے صاف طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ نوحہ و ماتم حرام ہے۔اور اس کی تعبیر کفر سے کی گئی ہے ۔
امام یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ کفر کی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ماتم کو کفر سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کافروں کا عمل ہے، یا یہ کفر کی طرف لے جانے والا ہے، یا اس لیے کہ یہ نعمت واحسان کا انکار ہے، یا اگر کوئی حلال سمجھ کر کرے تو کفر ہے ۔ (المنہاج مشمولہ مسلم، تحت حدیث ابی ہریرۃ، ص:۵۸،چشتی)
پاکیزگی اور طہارت ہی معاشرے کی ترقی اور بلندی کا کلیدی ذریعہ ہے ۔ وہ جماعت یا گروہ بھلا کیوں کر ترقی کرسکتی ہے جس کے یہاں ایسی حرام بدعات ورسومات رائج ہوں ۔ ہمارے معاشرے میں کچھ اس طرح کے رسوم وبدعات رائج ہیں جس کی اصل تو دور ان کے حکمِ جواز پر بھی سوالیہ نشان قائم ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان قبیح افعال کو بزرگانِ دین کی شان میں خراجِ عقیدت اور اظہارِ محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
ماہِ محرم میں کیے جانے والے خلافِ شرع امور : ڈھول تاشہ بجانا، تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھرانا، سینے کو ہاتھوں یا زنجیروں سے پیٹ پیٹ کر، اچھلتے کودتے ہوئے ماتم کرنا، تعزیوں کی تعظیم کے لیے ان کےسامنے سجدہ ریز ہونا، تعزیوں کے پاس پڑے ہوئے گرد وغبار کو اٹھا کر بطورِ تبرک سروں، چہروں اور سینوں پر ملنا، اپنے بچوں کو محرم کا فقیر بناکر محرم کی نیاز کے لیے خاص قسم کے کالے کپڑے پہنا کر ننگے سر، ننگے پاؤں، گریبان کھولے ہوئے گلی گلی دوڑانا، بھگانااور طرح طرح کی لغویاتی اور خرافاتی رسمیں جو مسلمانوں میں جراثیم کے مثل پھیلی ہوئی ہیں، یہ سب حرام وممنوع وناجائز ہیں۔ سب زمانۂ جاہلیت اور شیعوں کی نکالی ہوئی رسمیں ہیں جن سے توبہ کرکے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بچانا لازم وضروری ہے ۔ یوں ہی عورتوں کا جلوسِ تعزیہ دیکھنے کے لیے بے پردہ گھروں سے نکلنا، مردوں کے مجمع میں چلنا اور تعزیوں کو جھک جھک کر سلام کرنا بھی حرام وناجائز ہے ۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ : بعض لوگ ماہِ محرم الحرام کے بارے میں عجیب وغریب توہمات کے شکار ہیں۔ ان کے خیال میں یہ مہینہ نحوست کا شکار ہے۔ ان کے اس غلط عقیدے کی بڑی وجہ واقعاتِ شہادت کا پیش آنا ہے۔ فساد وبطلان پر مبنی اپنے انھی خیالات وتصورات کی بنا پر لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس طرح کے خیالات وتصورات قرآن وحدیث کے ارشادات وتعلیمات کے یکسر خلاف ہیں۔ اگر کسی عظیم شخصیت کے انتقال یا کسی بڑے حادثے کے پیش آنے سے کوئی دن یا کوئی مہینہ دائمی طور پر منحوس قرار پائے تو شاید سال بھر کے تین سو ساٹھ دنوں میں کوئی دن بھی ایسا ہوتا جو اس غلط نظریے کی بنا پر منحوس نہ ہو، گویا اس طرح پورا سال منحوس ہوگیا؛ کیوں کہ پورے سال کے کلینڈر کی تاریخ میں کوئی نہ کوئی افسوس ناک واقعہ ضرور ملے گا۔ ظاہر ہے کہ پورے سال کو منحوس سمجھنا کتنا غلط اور اپنے آپ کو کتنی مشکل میں ڈالنا ہوگا ۔ مسلمانوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ قرآن وسنت نے انھیں اس طرح کی توہم پرستی کی قید سے آزاد کرکے غلط نظریات کی بنا پر پیش آنے والی مشکلات سے انھیں بچا لیا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ماتم کرنے کا شرعی حکم ، ماتم کی ابتداء کب سے ہوئی اور کس نے کی ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : یاد رکھیں غمِ امام حسین رضی اللہ عنہ میں رونا سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ماتم کرنا یزید اور یزیدیوں کا طریقہ ہے یہ میں نہیں کہتا شیعہ عالم لکھ رہا ہے اب لمحہ فکریہ ہے شیعہ ماتمی حضرات کےلیئے کہ وہ کس کے راستے پر چل رہے ہیں ۔ مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے، واویلا کرنا ، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا، کپڑے پھاڑنا، بدن کو زخمی کرنا، نوحہ و جزع فزع کرنا، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں ۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا ۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔
ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام ، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے حضرت ام حبیبہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جو عورت ﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز)
سب سے پہلے ماتم کرنے والا یزید اور اس کے گھر والے تھے مشہور شیعہ عالم باقر مجلسی لکھتا ہے : لباس ماتم پہن کر تین دن یزید اور اس کے گھر والوں نے ماتم کیا ۔ (جلاءالعیون صفحہ 295 ، 296)
امام حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتے ہیں ۔ چارپائی پر نہیں سوتے ، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں ۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے ، یہ سوگ نہیں ہے ۔
مسلمانوں کا شرف یہ ہے کہ صابر اور شاکر ہو
خیال و فعل میں حق ہی کا شاغل اور ذاکر ہو
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنے کا ارادہ کیا تو انہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور فرمایا اے عمر چھوڑو بھی پھر فرمایا اے عورتوں شیطانی آواز سے پرہیز کرنا پھر فرمایا : مہما یکن من القلب والعین فمن ﷲ عزوجل ومن الرحمۃ ومہما کان من الید واللسان فمن الشیطان ۔
ترجمہ : جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو ، وہ ﷲ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو ، وہ شیطان کی طرف سے ہے ۔ (مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت 1748)،(مسندِ احمد حدیث 3093)
حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لیس منا من ضرب الخد وشق الحیوب ودعا بدعوی الجاہلیۃ ۔
ترجمہ : وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے ، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے ۔ (بخاری حدیث 1297، مسلم حدیث 103، مشکوٰۃ حدیث 1725، کتاب الجنائز باب البکاء،چشتی)
یعنی میت وغیرہ پر منہ پیٹنے ، کپڑے پھاڑنے ، رب تعالیٰ کی شکایت ، بے صبر کی بکواس کرنے والی ہماری جماعت یا ہمارے طریقہ والوں سے نہیں ہے ۔ یہ کام حرام ہیں۔ ان کاکرنے والا سخت مجرم ۔ یہ عام میت کا حکم ہے لیکن شہید تو بحکم قرآن زندہ ہیں ، انہیں پیٹنا تو اور زیادہ جہالت ہے ۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے ، حسب و نسب پر فخر کرنا ، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا ، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی ۔ (مسلم حدیث 934، مشکوٰۃ حدیث 1727، کتاب الجنائز باب البکاء)،(شیعوں کی معتبر کتاب، حیات القلوب، ملا باقر مجلسی جلد 2، ص 677)
میت کے سچے اوصاف بیان کرنا ندبہ ہے اور اس کے جھوٹے بیان کرنا نوحہ ہے ۔ ندبہ جائز ہے نوحہ حرام ہے ۔ گندھک میں آگ بہت جلد لگتی ہے اور سخت گرم بھی ہوتی ہے اور جرب وہ کپڑا ہے جو سخت خارش میں پہنایا جاتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے نائحہ پر اس دن خارش کا عذاب مسلط ہوگا کیونکہ وہ نوحہ کرکے لوگوں کے دل مجروح کرتی تھی تو قیامت کے دن اسے خارش سے زخمی کیا جائے گا ۔ (مراۃ جلد 2، ص 503)
دو کفریہ کام
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اثنتان فی الناس ہما بہم کفر: الطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت ۔
ترجمہ : لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں ، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا ۔ (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)
اس حدیث میں میت پر نوحہ کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ حرام ہے ۔
دو ملعون آوازیں
حضرت انس رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : صوتان ملعونان فی الدنیا والاخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ۔
ترجمہ : دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے ۔ نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کیوقت چلا کر آواز بلند کرنا یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ ۔ (بزار حدیث 795، ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5179)
حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : نوحہ کرنے والی عورتوں کی جہنم میں دو صفیں بنائی جائیں گی ۔ ایک صف ان کے دائیں طرف اور ایک صف ان کے بائیں طرف تو وہ عورتیں دوزخیوں پر کتوں کی طرح بھونکیں گی ۔ (طبرانی فی الاوسط ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5182،چشتی)
ماتم کی ابتداء کس نے کی تھی ؟
سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا : مشہور شیعہ عالم علامہ شفیع بن صالح لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے ۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا ۔ اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا : کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
امام حسین رضی ﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا ۔ (جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)
پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا ۔ (جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)
ابن زیاد نے آپ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا ۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کردیا ۔ شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم ۔ ترجمہ : یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔ (احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29)
حضرت سیدہ طاہرہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو ؟ ایسا ہی سہی ۔ روتے رہو ، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے ۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا ۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو ۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے ۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسوؤں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے ۔ (احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)
اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے ۔ (مجالس المومنین ج 1، ص 56)
کیا شیعوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا تھا ؟
امام حسین رضی ﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا : کہ مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ (جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238)
مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہوگیا کہ قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہ شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے ۔ ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے : ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے ۔ (صافی شرح اصول کافی)
کیا امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل شیعہ تھے ؟
مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے ۔ ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)
ترجمہ : یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی ﷲ عنہما ۔ (جلاء العیون ص 358)
ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی شیعہ تھے اور ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے اور ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا ۔ اب اگر امام حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا ۔
بارہ اماموں رضی اللہ عنہم کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا ۔ چوتھی صدی ہجری 352 ھجری میں المطیع ﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔ اور دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے ، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا ۔ (شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452،چشتی)،(البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)
بے صبری کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ کتب شیعہ کی روشنی میں
حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخذیہ عند مصیبۃ حبط عملہ ۔
ترجمہ : صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت اتنا بڑا صبر درکار ہوتا ہے) جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہوگئے ۔ (شیعوں کی معتبر کتاب، نہج البلاغہ، ص 495، باب المختار من حکم امیر المومنین حکم 144) (شرح نہج البلاغہ لابن میثم ج 5، ص 588)
بے صبر کے پاس ایمان نہیں
امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔
ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایسا ہے جیسا کہ سر کا آدمی کے جسم میں ، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔ (جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)
فرمان امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔
ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا ، جب سر نہ رہے ، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے ، ایمان نہیں رہتا ۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)
عن ابی عبد ﷲ علیہ السلام قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے ۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں ۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)
کیا پیغمبر ، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو فرمایا : اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔
ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاؤں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا ، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔ (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا : لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔
ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)
کربلا میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت
یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فرمایا ۔ اے پیاری بہن ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا ، خوب سمجھ لو ۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے ، میرے نانا ، میرے بابا ، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے ۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں ۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا : اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں ۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا ۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا ۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399،چشتی)
مشہور شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں : کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی ، اے میری معزز بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا ۔ (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)
شاعر نے حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کی وصیت کو اپنے انداز میں پیش کیا
ﷲ کو سونپا تمہیں اے زینب و کلثوم رضی اللہ عنہما
لگ جاؤ گلے تم سے بچھڑتا ہے یہ مظلوم
اب جاتے ہی خنجر سے کٹے گا میرا یہ حلقوم
ہے صبر کا اماں کے طریقہ تمہیں معلوم
مجبور ہیں ناچار ہیں مرضی خدا سے
بھائی تو نہیں جی اٹھنے کا فریاد و بکاء سے
جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری
رونا نہ آئے نہ آواز تمہاری
بے صبروں کا شیوہ ہے بہت گریہ و زاری
جو کرتے ہیں صبر ان کی خدا کرتا ہے یاری
ہو لاکھ ستم رکھیو نظر اپنے خدا پر
اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جزاء پر
قبر میں ماتمی کا انجام کیا ہوگا ؟
قبر میں ماتمی کا منہ قبلہ کی سمت سے پھیر دیا جائے گا : ایک روایت میں ہے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کہ سات آدمیوں کا قبر میں منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دیا جاتا ہے ۔
(۱) شراب بیچنے والا
(۲) شراب لگاتار پینے والا
(۳) ناحق گواہی دینے والا
(۴) جوا باز
(۵) سود خور
(۶) والدین کا نافرمان
(۷) ماتم کرنے والا ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب، مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 168، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
گانا گانے والے اور مرثیہ خواں کو قبر سے اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے منقول ہے کہ غنا کرنے والا اور مرثیہ خواں کو قبر سے زانی کی طرح اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا ۔ اور کوئی گانے والا جب مرثیہ خوانی کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو ﷲ تعالیٰ دو شیطان اس کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں ۔ وہ دونوں اپنے پائوں کی ایڑھیاں اس کی چھاتی اور پشت پر اس وقت تک مارتے رہتے ہیں ۔ جب تک وہ نوحہ خوانی ترک نہ کرے ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب: مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 163، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی ۔ کہ فرشتے اس کی دبر (پاخانے کی جگہ) سے آگ داخل کرتے ہیں اور منہ سے آگ باہر آجاتی ہے ۔ اور فرشتے گرزوں کے ساتھ اس کے سر اور بدن کو مارتے ہیں ۔ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے پوچھا ۔ میرے بزرگوار ابا جان مجھے بتلایئے کہ ان عورتوں کا دنیا میں کیا عمل اور عادت تھی کہ ﷲ تعالیٰ نے ان پر اس قسم کا عذاب مسلط کردیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کہ وہ عورت جو کتے کی شکل میں تھی اور فرشتے اس کی دبر میں آگ جھونک رہے تھے ۔ وہ مرثیہ خواں ، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی ۔ (شیعہ کی معتبر کتاب، حیات القلوب جلد 2، ص 543، باب بست و چہارم در معراج آنحضرت، عیون اخبار الرضا جلد 2، ص 11، انوار نعمانیہ جلد 1، ص 216)
کیا ماتم سننے کی بھی ممانعت ہے ؟
نہ صرف ماتم کرنے بلکہ سننے کی بھی ممانعت ہے حضرت ابو سعید خدری رضی ﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ : لعن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم النائحۃ والمستمعۃ ۔
ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی ۔ (ابو دائود حدیث 3128، مشکوٰۃ حدیث 732، کتاب الجنائز باب البکا)
کیونکہ اکثر عورتیں ہی نوحہ کرتی ہیں اس لئے مونث کا صیغہ استعمال فرمایا تو جو مرد ہوکر نوحہ کرے تو وہ مرد نہیں زنانہ ہے ۔
شیعہ حضرات کے شیخ صدوق نقل کرتے ہیں : نہی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونہی عن النیاحۃ والاستماع الیہا ۔
ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بوقت مصیبت بلند آواز سے چلانے، نوحہ و ماتم کرنے اور سننے سے منع فرمایا (من لایحضرہ الفقیہ ج 4، ص 3)
ایک شبہ : فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی ۔ فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجہہا ۔
ترجمہ : آپ کی بیوی چلانے لگیں، پس اپنا منہ پیٹ لیا (شیعہ ترجمہ) معلوم ہوا کہ ماتم کرنا حضرت سارہ کی سنت ہے ۔
جواب : کوئی شیعہ اس آیت سے حضرت سارہ کا ماتم کے لئے پیٹنا ہرگز ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ قدیم ترین شیعہ مفسر علامہ قمی کے مطابق مصکت پیٹنے کے معنی میں نہیں ہے ۔ غطت ڈھانپنے کے معنی میں ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت سارہ عورتوں کی جماعت میں آئیں اور حیا سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا کیونکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی ۔ (تفسیر قمی ج 2، ص 330)
اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی تو شیعہ صاحبان کو چاہئے کہ ماتم شہداء کی بجائے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سن کر کرنا چاہئے تاکہ اپنے خیال کے مطابق سنت سارہ پر عمل پیرا ہوسکیں ۔ اہل بیت کرام نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ فرمایا ۔ نہ خود ماتم کیا اور نہ کرنے کا حکم دیا اور ہم محب اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں اور ان کے قول و فعل کو اپناتے ہوئے صبر کا اظہار کرتے ہیں اور جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ائمہ کرام کے فرمان کو نہ مانے اور بے صبری کا مظاہرہ کرے وہ محب اہل بیت نہیں ہوسکتا ۔
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا اور مہندی، پنجہ، گھوڑا ، اور تعزیہ نکالنے کا حکم
مہندی، پنجہ ، گھوڑا ار تعزیہ نکالنا یزیدیوں کے کرتوتوں کی نقل ہے کہا جاتا ہے کہ کربلا میں قاسم بن حسن رضی ﷲ عنہ کی شادی ہوئی تو حضرت قاسم نے مہندی لگائی مروجہ رسم مہندی نکالنے کی اسی کی نقل ہے ۔ حالانکہ یہ حقیقت مخفی نہیں کہ کربلا کا معرکہ خونی شادی کا موقع ہرگز نہ ہوسکتا تھا ۔ نیز مہندی پانی میں ملا کر لگائی جاتی ہے اور اہل بیت کے لئے تو پانی بند تھا ۔ یونہی پنجہ و گھوڑا نکالنا اور مروجہ تعزیہ بنانا یہ سب بدعت باطلہ اور انصاب میں داخل ہیں ۔ ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ان چیزوں کی قطعا کوئی سند نہیں ملتی ۔ فی الحقیقت یزیدیوں نے صرف ایک دفعہ اہل بیت پر مظالم ڈھا کر کوفہ و دمشق کے بازاروں میں گھمایا تھا لیکن یہ لوگ ہر سال یزیدیوں کے کرتوتوں کی نقل بناکے گلی کوچوں میں گھماتے پھرتے ہیں ۔ پھر اس پر دعوت محبت بھی ۔ ﷲ ہدایت دے آمین ۔
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا ممنوع ہے
مذہب مہذب اہل سنت و جماعت میں علی العموم سیاہ لباس پہننا محض مباح ہے ۔ نہ تو اس پر کسی قسم کا ثواب مرتب ہوتا ہے ، نہ گناہ ۔ البتہ ماتم کی غرض سے سیاہ کپڑے پہننا شرعا ضرور ممنوع ہے ۔ شیعہ اثناء عشریہ کے مذہب میں ماتم کا موقع ہو یا نہ ، ہر حال میں سیاہ لباس سخت گناہ و ممنوع و حرام ہے ۔ پھر اسے ثواب جاننا بالکل الٹی گنگا بہانا اور شیعہ مذہب کے مطابق ڈبل گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ چنانچہ شیعہ لٹریچر کی انتہائی مستند کتب سے دلائل ملاحظہ ہوں ۔
حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لا تلبسوا لباس اعدائی ۔
ترجمہ : میرے دشمنوں کا لباس مت پہنو اور میرے دشمنوں کے کھانے مت کھائو اور میرے دشمنوں کی راہوں پر مت چلو، کیونکہ پھر تم بھی میرے دشمن بن جاؤ گے جیسا کہ وہ میرے دشمن ہیں۔ اس کتاب کا مصنف (شیخ صدوق شیعی) کہتا ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دشمنوں کا لباس ، سیاہ لباس ہے ۔ (عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق باب 30، الاخبار المنشور حدیث 51،چشتی)
شیعہ حضرات کے یہی صدوق رقم طراز ہیں : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : لا تلبسوا السواد فانہ لباس فرعون ۔
ترجمہ : سیاہ لباس نہ پہنا کرو کیونکہ سیاہ لباس فرعون کا لباس ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق باب یصلی فیہ من الثیلب حدیث 17)
مشہور شیعہ محدث جعفر محمد بن یعقوب کلینی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : انہ لباس اہل النار ۔
ترجمہ : بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے ۔ (الکافی کلینی کتاب الزی والتجمیل باب لباس السواد)
شیعوں کے مشہور محدث شیخ صدوق لکھتے ہیں کہ : امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے سیاہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا : لاتصل فیہا فانہا لباس اہل النار ۔
ترجمہ : سیاہ ٹوپی میں نماز مت پڑھو بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ باب ما یصلی فیہ حدیث 19765، حلیۃ المتقین ملا باقر مجلسی باب اول در لباس پوشیدن فصل چہارم در بیان رنگہائے)
کربلا جانے والے اہل بیت کی تعداد کیا تھی ؟
حضرت امام حسین کے تین صاحبزادے (۱) علی اوسط امام زین العابدین (۲) علی اکبر (۳) علی اصغر اور ایک بیٹی حصرت سکینہ جن کی عمر سات سال تھی ۔ دو بیویاں بھی ہمراہ تھیں حضرت شہربانو اور علی اصغر کی والدہ حضرت امام حسن کے چار صاحبزادے (۱) حضرت قاسم (۲) حضرت عبد ﷲ (۳) حضرت ابوبکر (۴) حضرت عمر کربلا میں شہید ہوئے ۔
حضرت علی کے پانچ (۱) حضرت عباس (۲) حضرت عثمان (۳) حضرت عبد ﷲ (۴) حضرت جعفر (۵) حضرت محمد اصغر (ابوبکر) رضی اﷲ عنہم
حضرت علی کی کل اولاد (۲۷) ہیں، ان میں سے پانچ کربلا میں شہید ہوئے ۔
(کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ 440/1،چشتی)
حضرت عقیل کے (۴) فرزندوں سے حضرت امام مسلم پہلے ہی شہید ہوچکے تھے اور تین کربلا میں شہید ہوئے (۲) حضرت عبد ﷲ (۳) حضرت عبدالرحمن (۴) حضرت جعفر رضی ﷲ عنہم ۔
حضرت زینب امام حسین کی بہن کے دو بیٹے عون اور محمد رضی ﷲ عنہم
ان کے والد کا نام حضرت عبد ﷲ بن جعفر رضی ﷲ عنہما کربلا میں شہید ہوئے ۔ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم میں سے کل سترہ افراد آپ کی ساتھ کربلا میں شہید ہوئے ۔ (سوانح کربلا، طبری خطبات محرم جلال الدین امجدی، ص 378)
شیعہ نہ اہل بیت کو مانتے ہیں اور نہ شہداء کربلا کو ، حضرت امام حسن کے صرف ایک بیٹے حضرت قاسم کا نام لیتے ہیں ۔ حضرت عبد ﷲ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہم تین کا نام نہیں لیتے ۔ اگر وہ شہداء کربلا کا نام لے لیں تو ان کا عقیدہ ختم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیار تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی اولاد کے نام خلفائے راشدین کے نام پر رکھے ۔ اہل سنت چاروں کا نام لیتے تو حقیقت میں شہداء کربلا کو ماننے والے سنی ہیں ، شیعہ ان کے منکر ہیں ۔
شیعہ حضرت علی کی اولاد کے بھی منکر ہیں ۔ پانچ شہداء کربلا میں صرف ایک کا نام لیتے ہیں ۔ حضرت عباس کا ، ان کا علم بھی لگاتے ہیں ، باقی چار کا نام تک نہیں لیتے حالانکہ حضرت عباس کے حضرت عثمان ، حضرت عبد ﷲ اور حضرت جعفر کے سگے بھائی ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام ام البنین بنت حرام ہے اور حضرت محمد اصغر (ابوبکر) بن علی کا نام بھی نہیں لیتے ان کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود تھا تو شہداء کربلا اور اہل بیت کا منکر کون اور محب کون ؟
شیعہ حضرت امام حسین کی اولاد کو امام مانتے ہیں جو کربلا میں شہید بھی نہیں ہوئے اور آپ کے سگے بھائی حضرت امام حسن کی اولاد کو امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ کتنی ناانصافی ہے اور حضرت علی کی اولاد کو بھی امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔
اہل بیت کی تین قسمیں ہیں (۱) اہل بیت سکونت یعنی ازواج (۲) اہل بیت ولادت (۳) اہل بیت نسب پہلی قسم اہل بیت سکونت یعنی (۱۱) ازواج میں سے صرف ایک زوجہ حضرت خدیجہ کو مانتے ہیں ۔ باقی سب کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کو گالیاں دیتے ہیں حالانکہ قرآن نے ان کو اہل بیت اور مومنوں کی ماں فرمایا ہے ۔ اہل سنت سب کو مانتے ہیں ۔
دوسری قسم اہل بیت ولادت چار بیٹیوں میں سے صرف ایک بیٹی کو مانتے ہیں لہذا اہل بیت کے منکر ہوئے بلکہ یہ حضرت علی کی بیویوں کے بھی منکر ہیں ۔ حضرت علی کی ایک بیوی کا نام امامہ تھا ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نواسی تھیں ۔ حضرت زینب کی بیٹی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صرف ایک ہی بیٹی تھی ۔ حضرت فاطمہ تو پھر حضرت علی کی بیوی حضرت امامہ بنت زینب بنت رسول ﷲ کہاں سے آگئیں ۔ معلوم ہوا کہ اہل سنت ہی اہل بیت اور شہداء کربلا کے محب ہیں ۔ رضی اللہ عنہم)
اہل بیت کے سچے محب کون ہیں ؟
اہل بیت کے سچے محب سنی ہیں ، شیعہ منکر اہل بیت ہیں کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چاربیٹیوں میں سے ایک کو اور تمام زواج میں سے صرف ایک زوجہ کو مانتے ہیں ۔ اس لئے یہ منکر اہل بیت ہیں نیزاس واقعہ سے بھی اہل سنت کی حقانیت واضح ہے ۔
ضلع شیخوپورہ میں موٹر وے پر خانقاہ ڈوگراں انٹرچینج کے قریب ڈیرہ سروٹھ میں صحیح العقیدہ سنی بریلوی نوجوان محمد سرفرازپر آگ گلزار ہوگئی جبکہ منکر صحابہ شاہد نامی آگ میں جل گیا ۔ تفصیلات کے مطابق ۱۰ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ بمطابق ۲۸ دسمبر ۲۰۰۹ بروز پیر ڈیرہ سروٹھ میں شاہد نامی نوجوان (جوکہ شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے) اپنے خود ساختہ عقیدہ کے مطابق عمل کرکے بوقت عصر اپنے ڈیرے پر پہنچا تو بعض سنی حضرات نے اسے کہا ’’الحمد ہم بھی اہل بیت کے غلام ہیں اور ہم بڑے ادب کے ساتھ قرآن خوانی اور فضائل و شہادت کا بیان سن سنا کر امام حسین کی یاد مناتے ہیں ۔ تم بھی اسی طریقہ سے امام حسین کی یاد منایا کرو ، خود ساختہ نظریات چھوڑ دو، اس پر شاہد ولد اشرف خان نے کہا کہ ’’ہمارا طریقہ ٹھیک ہے اور جنت کی ٹکٹیں ہمارے پاس ہیں، ہمارے علاوہ باقی سب دوزخی ہیں اور میرا چیلنج ہے کہ پورے ملک میں سے کوئی سنی آگ میں چھلانگ لگائے جو سچا ہوگا بچ جائے گا جو جھوٹا ہوگا جل جائے گا۔ یہ بات سن کر محمد سرفراز ولد محمد انور بھٹی نمبردار نے شاہد سے کہا ’’مجھے تیرا چیلنج منظور ہے‘‘ چنانچہ اسی وقت آگ لگائی گئی اور محمد سرفراز شاہدکا بازو پکڑکر آگ میں داخل ہوگیا۔ محمد سرفراز نے آگ میں داخل ہوتے ہی شاہد کا بازو چھوڑ دیا تو شاہد کے کپڑوں کو فوری طور پر آگ لگ گئی اور محمد سرفراز تین منٹ تک آگ کے شعلوں میں کھڑا ہوکر کلمہ طیبہ الصلوۃ والسلام علیک یارسول ﷲ وعلی الک واصحابک یا حبیب ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ورد کرتا رہا ۔ اس منظر کو موقع پر موجود بیس پچیس افراد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ (ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ) ، دیوبندی مکتبہ فکر کے روزنامہ اسلام کی ۱۵ جنوری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں بھی یہ واقعہ شائع ہوا ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ۱۹۹۸ء میں لاڑکانہ میں بھی ہوا تھا جس میں ایک وہابی اور ایک عاشق رسول محمد پناہ ٹوٹانی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حاضر و ناظر اور اختیار پر مباہلہ ہوا تھا جس پر دونوں نے آگ میں چھلانگ لگائی تھی وہابی جل گیا اور سنی کا ایک بال بھی نہ جلا ، کپڑے بھی محفوظ رہے ۔ ﷲ تعالیٰ نے حق و باطل دنیا میں ہی دکھا دیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment