رافضی کسےکہتے ہیں رافضی و لفظ شیعہ کا معنیٰ و مفہوم شیعوں کے فریب کا جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی کے معنی : (مجازاً) شیعہ انحراف کرنے والا اہل تشیع کا ایک فرقہ سپاہیوں کا وہ گروہ جو اپنے سردار کو چھوڑ دے فرقہ رافضہ فرقہ رافضہ کا ایک فرد رافضی کے انگریزی معنی :
(one of) a Shi'ite dissenting sect (Plural) روافض rva'fizadj & n.m
رافضہ یا روافض کے لفظ کے ساتھ کوئی پیشین گوئی حدیث میں نہیں ہے ۔ البتہ ان لوگوں نے ایسے ایسے عقیدے گھڑے جو قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہیں ، اس لیئے علماء نے اس جماعت کا نام رافضی رکھا ۔
رافضی کے معنی ہیں تارکِ اسلام
چونکہ انہوں نے اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے اسلام کو چھوڑدیا اس لیئے انہیں رافضی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً ان کے عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السّلام کو خائن کہتے ہیں یعنی وحی امام غائب کے پاس لانے کے بجائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔ اپنے بارہ اماموں کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ان کو اللہ کی طرف سے نیا دین دیا گیا اور آسمانی نئی کتاب دی گئی ہے ۔ شیعہ در حقیقت رافضی ہی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بطور تقیہ شیعہ ظاہر کرتے ہیں تاکہ غیر مضر تشیع کے ذریعے اہلِ سُنّت و جماعت میں بھی رہا جائے اور جب موقعہ ملے تو اپنی رافضیت کو ظاہر بھی کر دیا جائے ۔
اعتراض : شیعہ کا لفظ قرآن مجید میں مذکور ہے ۔ لیکن "سنُی" کا لفظ نہیں ہے جو کہ شیعہ مذہب کی صداقت کا ثبوت ہے ؟
اعتراض کا جواب : اہل تشیع بڑی شدومد کے ساتھ بھولے بھالے اہلسنت کو ورغلانے کے لیئے ایک جال پھیلاتے ہیں کہ دیکھو۔ تم اہلسنت ہمیں برا بھلاکہتے ہو، اور اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو ۔ ایسا نہیں بلکہ معاملہ الٹ ہے۔ وہ اس طرح کہ قرآن کریم میں "شیعہ " کا لفظ موجود ہے ۔ "سنی " کا لفظ نہیں۔ اگر شیعہ بقول تمہارے اللہ اور اسکے رسول کے منکر اور ان کے مخالف ہوتے ۔ تو قرآن کریم میں بارہاا ن کا نام نہ آتا۔ اس لیئے شیعہ لوگوں کو ایک یہودی کے پیروکار بتلانا قطعاً درست نہیں۔ دیکھیئے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس لفظ کو استعمال فرمایا ۔ ان من شیعتہ لابراھیم۔ اللہ تعالیٰ کے "شیعہ" میں سے ایک ابراہیم بھی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے تبھی توآ پ بھی اسی کے ایک فرد کہلائے۔ جدالانبیاء علیہ السلام کا جو مذہب تھا۔ وہ آج بھی مقبول و محبوب ہے ۔ لہٰذا سنیوں کو بھی چاہیئے کہ اپنے تئیں سُنی کہلانے کی بجائے شیعہ کہلایا کریں ۔ اور پھراس سے بڑھ کر خود اہلسنت کی کتب میں بھی موجود ہے کہ جنتی ٹولہ یا فرقہ صرف "شیعہ " ہی ہے ۔ تو پھر کیوں اس سے اتنا بغض وحسد کیا جاتا ہے۔
صواعق محرقہ : عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال نزلت ھٰذہ الاٰیۃُ ان الذین امنو وعملو الصلحٰت اولٰئک ھم خیرالبریۃ قال رسول اللہ لعلی ھو انت وشیعتک یوم القیٰبۃ راضین مرضیین ۔ الصواعق المحرقہ صص ۱۶۱فصل ۱ في الآيات الوارده فيهم
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ ان الذین امنو الخ۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک کاموں کے پابند رہے ۔ وہ بہترین مخلوق ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کے شیعوں کے لیئے اتری ہے۔ وہ بروز حشر راضی رہیں گے اوراللہ تعالیٰ ان کو راضی کردے گا۔
یہ طعن اہل تشیع کے مناظر اور مبلغ مولوی اسماعیل شیعہ نے فتوحات شیعہ ص ۱۰۷ بعنوان شيعه کے حق میں پیشنگوئی۔ اور ص ۱۵۳ پر بعنوان "مذہب شیعہ قرآن میں"میں ذکر کیا ہے۔ ہم نے اس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔
مذکورہ طعن کے تین ارکان
۱۔قرآن کریم میں شیعہ کا نام تو ہے لیکن سنی کا لفظ موجود نہیں۔۲۔حضرت ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے۔ ۳۔ شیعوں کا جنتی ہونا اہلسنت کی کتابوں سے ثابت ہے۔
ان تین باتوں سے ثابت ہوا کہ مذہب شیعہ ہی حق ہے اور اس کے پیروکار ہی جنتی ہیں۔ اور مذہب سنی کوئی اصل نہیں رکھتا۔ اس لیئے جنت کے خواہشمندوں کو شیعہ کہلانا چاہیئے۔
جواب ء اہلسنت بررکن اول؛۔
طعن مذکور کے رکن اول میں یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ شیعہ کا لفظ تو قرآن مجید میں موجود ہے "سنی" کا لفظ نہیں ۔ یہ قرآن کریم سے ناواقف ہونے کیوجہ سے کہا گیا ہے۔ اور حقیقت میں معترض اور اس کے ساتھی قرآن کریم کا علم رکھتے ہی نہیں۔ "سنی" سُنیت کی طرف منسوب ہے۔ اور یہ لفظ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔ چند مقامات پیش خدمت ہیں۔
"سنت" کا لفظ قرآن مجید میں موجود ہے چند آیات بطور حوالہ درج ذیل ہیں
آیت نمبر ۱
سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا۔ پاره ۲۲ايت ۳۸
ترجمہ:۔ خدا کا طریقہ ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے۔ ایک ہی چلا آتا ہے ۔ اور خدا کا حکم ایک حد پر اندازہ کیا ہوتا ہے۔
آیت نمبر ۲
يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ۔سورہ النساء آیت ۲۶پارہ ۵
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تمہارے لیئے پہلے لوگوں کے طریقے بیان فرمادے۔ اور ان کی طرف رہنمائی کردے اور تم پر رجوع فرمائے۔
آیت نمبر ۳
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا ۔ پارہ ۱۵ ع ۸
ترجمه؛۔طریقہ ان رسولوں کا جو آپ سے قبل ہم نے بھیجے تھے اور تم ہمارے طریقہ میں ہیر پھیر نہ پاؤ گے۔
آیت نمبر ۴
سنۃ اللہ التی قدخلت من قبل ولن تجد لسنتنا تبدیلا۔ پ ۲۶ ع ۱۱
ترجمه؛اللہ کے طریقہ کے مطابق جو پہلے سے ہوتا چلا آیا اور تم اللہ کے طریقہ کو ہرگز تبدیل ہوتا نہ پاؤ گے۔
آیت نمبر۵
قد خلت سنۀ الاولين. پ ۱۴ ع ۱
ترجمه؛اورپہلوں کا طریقہ گزر چکا ہے۔
آیت نمبر ۶
الا ان تاۍتيځم سنۀ الاولين . پ ۱۵ ع ۱۹
ترجمه؛مگر یہ کہ آگیا ان کے پاس طریقہ گزرے لوگوں کا۔
آیت نمبر ۷
سنۃ اللہ التی قد خلت فی عبادہ وخسرھنا لک الکٰفرون۔ پ ۲۴.ع ۱۴
ترجمہ؛۔ اللہ کا طریقہ جو اس کے بندوں میں ہوگزرا۔ اور کافروہاں خسارے میں پڑے۔
آیت نمبر ۸
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ ۔ پ۹ ع آخری۔
ترجمہ؛۔ کفارسے کہہ دیجئیے کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ا ور اگر وہ پھر سے لوٹ کر کفر میں آگئے ۔ تو پھر پہلے سے گزرے لوگوں کا طریقہ ان کے ساتھ بھی برتا جائے گا۔
آیت نمبر ۹
سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا ۔ الاحزاب آیت ۶۲
ترجمہ؛۔اللہ کا طریقہ گزرے لوگوں کے بارے میں۔ا ور تم اللہ کے طریقہ میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے۔
مذکورہ آیاتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور راستہ کو "سنت" کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ خصوصاً حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے طریقہ مبارکہ کو "سنت" کہا گیا۔ اور اس بات کو اہل تشیع کے مجتہدین ومفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔
تفسیر منہج الصادقین؛۔
(یرید اللہ) می خواہد خدا (لیبین لکم) تا بیان کند برائے شما۔۔۔۔(ویھدیکم) وراہ نماید شمارا (سکن الذین) راہ ہائے آنانکہ بودند (من قبلکم) پیش از شما یعنی دین ابراہیم واسماعیل۔ (حوالہ؛تفسیر منہج الصادقین جلد ۳ص۷ طباعت تهران طبع جديد،چشتی)
ترجمہ:۔ "اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ تاکہ تمہارے لیئے بیان کرے اور تمہیں راستہ دکھائے اُن لوگوں کی راہوں کی طرف جو تم سے پہلے گزر چکے یعنی حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے دین کی طرف۔
قرآن کریم میں لفظ "سُنت" کے مذکور ہونے کے بارے میں ہم نے جو آیات درج کی ہیں۔ آپ اُن میں غورفرمائیں۔ تو دوچیزیں سامنے آئیں گی۔ اول یہ کہ بعض مقامات میں اس لفظ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف مضاف کیا۔ (یعنی سنۃ اللہ) اور بعض آیات میں اس لفظ کی اضافت اس کے نیک بندوں یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف کی گئی ہے۔ اہلسنت کے لیئے یہ کتنی بڑی سعادت اور خوش بختی ہے کہ انہوں نے اپنے طریقہ کے امتیاز کے لیئے وہی لفظ استعمال کرنا پسند کیا جس کی اضافت اللہ اور اسکے رسولوں کی طرف ہے۔ لفظ "سنت " کا ایسا امتیازی استعمال کہ کتب شیعہ میں بھی اس کی تصدیق وتائید موجود ہے۔
لفظ سنت کی عظمت کتب اہل تشیع میں؛۔
فروع کافی؛۔ عربی کی الکافی ایڈیشن میں کچھ یوں تحریر ہے کہ ۔ قال من احب ان یتبع سنتی فان سنتی التزویج۔ اور
وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۹ کتاب النکاح باب کراهته الغروبته مطبوعہ تہران طبع جدید میں لکھا ہے ۔ فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔ یعنی جو بھی میری سنت سے منہ پھیرے گا وہ میرا نہیں ہے۔
جلا ء العیون:۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے فارغ ہوئے ۔ تو آپ نے مدینہ منورہ کی طرف روانگی کے دوران ایک عظیم فصیح وبلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں یہ الفاظ بھی تھے۔
جلاء العیون: "وصیت می فرمود ایشاں را کہ دست از سنت وطریقہ اوبرنہ دارد"۔ (جلاء العیون جلد اول، صفحہ ۵۹ فصل ۴ دربيان وصيت مطبوعه تهران جديد،چشتی)
ترجمہ؛۔ آپ نے صحابہ کرام کو مخاطب فرما کر ان کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو وصیت فرمائی ۔ کہ میری سنت اور میرے طریقے سے کبھی بھی ہاتھ نہ اٹھانا۔ (یعنی اس کی پابندی کرتے رہنا)۔
معانی الاخبار : عن جعفر بن محمد عن آبائہ علیھم السلام قال قالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما وجدتم فی کتاب اللہ عزوجل فالعمل لکم بہ لاعذرلکم فی ترکہ ومالم یکن فی کتاب اللہ عزوجل وکانت فیہ سنتہ منی فلاعذرلکم فی ترک سنتی۔ (حوالہ؛۔ معانی الاخبار تصنیف ابن بابویہ قمی ، ص۱۵۶باب معني قول النبي صلي الله عليه وسلم مثل اصحابي الخ، مطبوعه بيروت طبع جديد،چشتی)
ترجمہ؛۔ "امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے آباؤاجداد سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں جو حکم اللہ رب العزت کی کتاب میں سے ملے۔ تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے چھوڑنے پر کوئی عذر تمہیں نہیں کرنا چاہیئے۔ اور وہ حکم جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے نہ ملے۔ اور اس کے بارے میں میری طرف سے کوئی سنت مل جائے تو پھر میری سنت کے ترک میں کوئی عذرنہ ہونا چاہیئے"۔
قرآن حکیم کی آیات اور شیعہ مفسرین ومجتہدین کی کتب معتبرہ میں سے بھی آپ پڑھ چکے ۔ کہ لفظ "سنت" کئی دفعہ ذکر ہوا۔ اور اسکی نسبت اللہ نے اپنی طرف یا اپنے برگزیدہ بندوں کیطرف کی۔ اسلیئے ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم منسوب الی السنت یعنی سُنی کہلاتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے ۔پھر سنت پرعمل کرنے کی خود نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے تاکید فرمائی۔ اور اس کے تارک کے متعلق فرمایا۔ وہ ہمارا نہیں۔ نتیجہ یہی سامنے آیا۔ کہ معترض کا یہ کہنا کہ "سنی" کا قرآن و حدیث میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ محض لاعلمی پر مبنی ہے اور جہالت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔
جواب رکن دوم؛۔قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں مذکور ہے (وان من شیعتہ لابراھیم) بے شک ابراہیم علیہ السلام اس کے شیعوں میں سے ہیں۔ اس آیت میں اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیعہ کہا گیا ہے لیکن اس سےمراد موجودہ دور کے شیعہ (فرقہ) نہیں۔ اور نہ ہی "شیعان علی" ہیں۔ بلکہ اس "شیعہ " لفظ کی ضمیر کا مرجع حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ اب معنی یہ ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے شیعوں میں سے ایک شیعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں۔
لہٰذا اس آیت کریمہ سے یہ ثابت کرنا کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام موجودہ شیعوں میں سے تھے۔ بالکل غلط اور قرآن کریم کی تاویلِ غلط ہے۔ خود اہل تشیع مانتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت نوح علیہ السلام کا شیعہ کہا گیا ہے۔
تفسیر مجمع البیان ؛۔
"وان من شیعتہ لابراھیم ای واِنَ من شیعۃ نوح ابراھیم یعنی انہ علیٰ منھاجہ وسنتہ فی التوحید والعدل واتباع الحق"۔ حوالہ۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۴ جز ۸ ص ۴۴۹ پاره نمبر ۲۳مطبوعه تهران طبع جديد۔
ترجمہ؛۔ "اللہ تعالیٰ کا ارشاد (اور بے شک ابراہیم اس کے شیعہ میں سے ہیں) یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے شیعہ میں سے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اسی طریقہ اور اسی راستہ ء توحید وعدل اور اتباع حق پر تھے ۔ جو حضرت نوح علیہ السلام کا تھا"۔
توجس طرح آیت مذکورہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا موجودہ دور کے شیعہ اور شیعان علی میں سے ہونا بالکل ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح آیت مبارکہ سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ شیعہ مذہب ہی حق ہے۔ اوریہی پاکیزہ مسلک ہے کیونکہ لفظ "شیعہ" کے معنی گروہ کے ہیں۔ جیسا کہ خود نام سے بھی ظاہر ہے۔ "شیعان علی" حضرت علی المرتضےٰ رضی اللہ عنہ کے طرف داروں کو اور "شیعان معاویہ" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حمایتیوں کو کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی مذہب کا نام نہیں۔ بلکہ کسی ایک گروہ پر لفظ شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ چاہے وہ نیک لوگوں کا ہو یا برے لوگوں کا۔ خود قرآن کریم نے اسے گروہ کے معنی میں استعمال فرمایا ۔ جس میں نیک و بد کا امتیاز نہیں۔
قرآن کریم میں یہود و نصاری فرعونیوں اور جہنمیوں کو بھی "شیعہ" کہا گیا ہے۔
آیت نمبر (۱)۔(پ ۲۰ ع۵) ۔ترجمہ؛"بے شک فرعون زمین میں بڑا بن بیٹھا۔ اور زمین پر بسنے والوں کو شیعہ(گروہ درگروہ)کردیا"۔
آیت نمبر (۲)۔ (پ۸ ع۷)۔ترجمہ؛"بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ اور وہ شیعہ (گروہ) تھے۔ اے حبیب آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں"۔
آیت نمبر (۳)۔ (پ۷ع۱۴)۔ ترجمہ:"فرمادیجیئے! اللہ اس بات پر قادر ہے ۔ کہ تم پر اوپر سے یا پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے۔ یا تم کو شیعہ (گروہ درگروہ) بنا کر باہم لڑائے"۔
آیت نمبر (۴)۔ (پ۲۱)۔ ترجمہ:"جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ان مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔ اور وہ شیعہ ہوگئے"۔ (وکانو شیعاً)۔
آیت نمبر (۵)۔ (پ۱۶ع۸)۔ ترجمہ :"آ پ کے پرودگار کی قسم! ہم ضرور انہیں اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے۔پھر جہنم کے اردگرد ہم انہیں لاکھڑا کریں گے۔ پھر ہرشیعہ (گروہ) سے ان لوگوں کو علیحدہ کردیں گے۔ جو ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرکشی کا رویہ رکھتےہیں"۔
یعنی مذکورہ آیاتِ قرانیہ میں کہیں تو لفظ "شیعہ " اور کہیں "شیعاً" وارد ہوئے ہیں۔ پہلا مفرد اور دوسرا س کی جمع ہے۔ لیکن ان تمام آیات کریمہ میں اس لفظ سے مراد "مذہب شیعہ" نہیں ۔ اب ہم دنیائے شیعیت کو دعوت دیتےہیں ۔ کہ دوباتوں میں سے جوایک چاہیں اختیار کرلیں۔ اول یہ کہ شیعہ کا معنی گروہ ہے۔ دوم یہ کہ اس لفظ سے مراد "شیعہ مذہب" ہے۔
اگر شق اول تسلیم کرلی جائے، تو پھر یہ کہنا کہ قرآن کریم میں لفظ "شیعہ" ، مذہب ء شیعہ کے لیئے استعمال ہوا ہے بالکل ہی غلط اور لاعلمی کا مظہر ہے۔ کیونکہ گروہ عام مراد ہے۔ چاہے وہ کسی مسلمان کا ہو یا غیرمسلم کا۔ گروہ ء یزید کو "شیعانِ یزید" ، گروہ علی کو "شیعانِ علی" ، گروہ فرعون کو "شیعانِ فرعون" کہا جاتا ہے۔
اور اگر دوسری شق مراد ہو۔ تو پھر ان آیات میں مذکور اس لفظ سے مراد بھی یہی ہوگا ۔
۱۔ فرعون نے جب زمین میں سرکشی کی تو اس نے لوگوں کو شیعہ بنا دیا۔
۲۔جن لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا وہ شیعہ تھے۔
۳۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اوپر نیچے ہرطرف سے عذاب دے گا۔ وہ شیعہ ہوں گے۔
۴۔اور تم مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ، کیونکہ مشرکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور شیعہ ہوگئے۔
۵۔ پھر ہم ان شیعوں کو کھینچ کھینچ کر دوزخ میں ڈالیں گے۔
ذرا بتائیے کہ ان آیات میں لفظ "شیعہ " واقعی "شیعہ مذہب" کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس مذہب کے ماننے والے فرعون کا نشانہ ، دین کے ٹکڑے کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق، شرک کرنے والے اور دوزخی ہوئے۔ حالانکہ تم اپنے تئیں حق پر اور جنتی ہونے کا دعویٰ کررہے تھے ۔ کہاں تمہارا دعوےٰ اور کہاں قرآن کریم کی مذکورہ آیات میں لفظ شیعہ کا مفہوم ؟ اس کے باوجود اگر تمہیں اصرا ر ہے کہ قرآن کریم میں لفظ "شیعہ " ہرجگہ پر ہمارے مذہب حق کے لیے ہی استعمال ہوا ہے تو پھرتمہیں اس لفظ کا مستحق ہونے کی ڈھیروں مبارکیں ہوں اور اس میں مزید ترقی نصیب ہو ۔ لیکن جاتے جاتے اتنا عرض کرجائیں کہ ، اسی طرح کی غلط اور گمراہ تاویلات (چھوٹے رافضی) یعنی (وہابی) کرتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں مثال کے طور پر (یداللہ) کا لفظ آیا ہے تو اس کے ظاہری معنی یعنی (اللہ کے ہاتھ) مراد لے کر اس کےلیئے تشبیہہ اور تجسیم رکھنے جیسے شرکیہ عقائد تک جا پہنچتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جملہ فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment