حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر شراب پینے کے الزام کا جواب حصّہ دوم
محترم قارئین : رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں کی طرف سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر شراب پینے کی تہمت لگائی جاتی ۔ اور مسند احمد کی ایک روایت میں منکر زیادت سے استدلال کرگئے اور ایک بالکل ستھری روایت جو مصنف ابن ابی شیبہ میں تھی اس کو نظر انداز کرگئے ۔
اس سلسلے میں روافض اور سبائی جتنی بھی روایت پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب جھوٹی اور من گھڑت ہیں اب جب سبائیوں نے یہ دیکھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے شراب پینے سے متعلق ساری روایات موضوع اور من گھرت ہیں تو انہوں نے سوچا کہ صحیح روایات سے بھی زبردستی یہی مفہوم کشید کر لیا جائے چناچہ اس مقصد کے تحت انہوں نے مسند احمد کہ محولہ حدیث پیش کا انتخاب کیا اور اس کی سند ظاہری حسن دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس سیاق کے ساتھ نہ تو یہ روایت صحیح ہے اور نہ ہی اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ شراب پیتے تھے تفصیل ملاحضہ ہو :
اولا مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ملاحظہ فرمائیں : حدثنا زيد بن الحباب ، عن حسين بن واقد ، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة، قال : دخلت أنا وأبي على معاوية فأجلس أبي على السرير، وأتي بالطعام فطعمنا، وأتى بشراب فشرب، فقال معاوية: ما شيء كنت أستلذه وأنا شاب فآخذه اليوم إلا اللبن، فإني آخذه كما كنت آخذه قبل اليوم، والحديث الحسن ۔
ترجمہ : زید بن حباب، حسین بن واقد سے اور وہ عبد اللہ بن بریدہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : میں اور میرے والد (حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے ، حضرت معاویہ نے میرے والد کو اپنی چارپائی پر ساتھ بٹھایا ، کھانا لایا گیا ہم نے کھانا کھایا ، پھر اس کے بعد پینے کےلیے (دودھ) لایا گیا ، حضرت معاویہ نے اسے پیا اور فرمایا ، میں جوانی سے ہمیشہ جس چیز سے لذت حاصل کرتا رہا ہوں ، اوراس سے آج بھی لذت حاصل کرتا ہوں وہ دودھ ہی ہے ، میں اسے ایسے ہی استعمال کرتا ہوں جیسے پہلے استعمال کرتا تھا ، اور اچھی گفتگو (سے لطف اندوز ہوتا ہوں) ۔ (المصنف لابن أبي شيبة ج ١٦ ص ٧٩ رقم ٣١٢٠١،چشتی)
اس میں واضح ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جو پینے کی چیز لائی گئی وہ دودھ تھا ۔
محدثین نے مسند احمد کی حدیث سے کیا سمجھا یہ بھی آپ کو بتا دیں
حافظ نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ تعالی نے’’غاية المقصد في زوائد المسند‘‘میں اس پر باب باندھا ہے’’باب مدح اللبن‘‘اسی طرح اپنی دوسری کتاب ’’مجمع الزوائد‘‘میں’’باب ما جاء في اللبن‘‘میں ہی اس حدیث کو ذکر کیا ہے ۔ (غاية المقصد ج ٤ ص ١١٥ رقم ٤٠٤٥)،(مجمع الزوائد ج ١١ص ٩٩ رقم ٨٠٩٢)
معاصر صہیب عبد الجبار فلسطینی نابلسی نے بھی ’’الجامع الصحيح للسنن والمسانيد‘‘ میں اس روایت کو کتاب الاطعمۃ میں دودھ کی فضیلت پر مشتمل روایات کے تحت ذکر کیا ہے ۔ (الجامع الصحيح للسنن والمسانيد ج ١٦ ص ٧٩ رقم ٣١٢٠١)
اور ساعاتی نے مسند احمد کی ترتیب الفتح الربانی میں ’’ باب ما جاء في بركة اللبن وشربه وحلبه‘‘ میں اس کو ذکر کیا ہے ۔ (الفتح الرباني لترتيب الإمام مسند أحمد ج ١٧ ص ١١٥)
یہاں مسند احمد میں درمیان میں ایک منکر جملہ زائد ہے جس سے رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں کو موقع ملا اور اپنے فاسد عقیدے کی ترویج کے لیے اپنی عادت بد کے مطابق اس جملے سے بغیر سمجھے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان ذیشان میں گستاخی کرنے کی کوشش کی ، وہ جملہ یہ ہے ’’ثم ناولني أبي ثم قال : ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم‘‘پھر اسے میرے والد نے لیا اور پھر حضرت معاویہ نے کہا : جب سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اسے حرام فرمایا ہے میں نے اسے نہیں پیا ۔
اولا تو یہ جاننا ہوگا کہ اس جملے کا قائل کون ہیں ؟ حضرت بریدہ اسلمی یا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما۔اس کے قائل حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : وفي كلام معاوية شيء تركته حضرت معاویہ کی گفتگو میں جملہ تھا جسے میں نے ترک کردیا ہے ۔
جس جملے کو ترک کیا ہے وہ یہ ہے ۔ ثم قال : ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله و سلم جب سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اسے حرام فرمایا ہے میں نے اسے نہیں پیا ۔
رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں نے مسند احمد سے یہیں تک عبارت نقل کرتے ہیں جبکہ مسند احمد میں اس کے بعد بھی کلام ہے ، جس سے اس جملے کا منکر ہونا بالکل واضح ہے ، لیکن رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں حسب عادت اگلی عبارت کو چھوڑ جاتے ہیں تاکہ جواب ہی نہ دینا پڑے ۔ آگے کا کلام مسند امام احمد میں یہ ہے : قال معاوية : كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغرا، وما شيء كنت أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب، غير اللبن أو إنسان حسن الحديث يحدثني ۔
ترجمہ : پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں قریش کا جمیل ترین اور سخی ترین نوجوان تھا اور جوانی میں جن چیزوں سے میں لطف اندوزہوتا تھا اور اب بھی اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں وہ صرف دودھ ہے یا یہ ہے کہ اچھی گفتگو کرنے والا شخص مجھ سے اچھی گفتگو کرے ۔
مسند احمد کے منکر جملے کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ عجب بات ہوئی کہ پی بھی رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب سے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حرام فرمائی ہے میں نے پی ہی نہیں ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ جملہ ہے ہی زیادت منکرہ سے ، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کے راوی اگرچہ فی نفسہ ثقہ ہیں لیکن ان پر خود امام احمد حنبل رحمہ اللہ تعالی کا کلام موجود ہے ۔
امام ابو داؤد ، امام احمد رحمہما اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں : زيد بن الحُباب كان صدوقاً ، وكان يضبط الألفاظ عن معاوية بن صالح، ولكن كثير الخطأ زید بن الحباب صدوق ہیں اور معاویہ بن صالح سے الفاظ کا ضبط رکھتے ہیں ، لیکن کثیر الخطا ہیں ۔ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد ص ٣١٩ رقم ٤٣٢،چشتی)،(تهذيب التهذيب ج ٣ ص ٢٢٠ رقم ٢١٩٥)
حسین بن واقد کے بارے میں فرماتے ہیں : حسين بن واقد له أشياء مناكير ان کی کئی منکر روایات ہیں ۔ (العلل ومعرفة الرجال رواية المروزي وغيره ص ١٨٧ رقم ٤٤٤)
حافظ عقیلی کہتے ہیں : ’’أنكر أحمد بن حنبل حديثه‘‘ امام احمد نے اس کی حدیث کو منکر قرار دیا ہے ۔ (تهذيب التهذيب ج ٢ ص ٣٤٠ رقم ١٤١٦)
وقال الأثرم : ’’قال أحمد: في أحاديثه زيادة ما أدري أي شئ هي ونفض يده‘‘ اثرم کہتے ہیں امام احمد بن حنبل نے فرمایا : اس کی احادیث میں ایسی زیادتی ہوتی ہے جسے میں نہیں جانتا ، اور اپنے ہاتھ جھاڑ لیے ۔ (تهذيب التهذيب ج ٢ ص ٣٤٠ رقم ١٤١٦)،(الضعفاء الكبير للعقيلي ج ٢ ص ٣٦ رقم ٣٠٣)
یہ جملہ حسین بن واقد کی زیادت منکرہ میں سے ہے ۔ کبھی یہ اس زیادت کو ذکر کرتے ہیں جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا اور خود ہی ان کے بارے میں فرمایا کہ منکر روایت لے کر آتے ہیں ، اسی وجہ سے امام ہیثمی نے اس جملے کو ذکر نہیں کیا ، اور کبھی حسین بن واقد اس زیادت منکرہ کو لے کر نہیں آتے اور اس کے بغیر ہی یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے ۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا معنی
رافضی اور اور تفضیلی رافضی کہتے ہیں : ’’یہ حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی دیانت داری ہے کہ انہوں نے خود ہی بتا دیا کہ انہوں نے وہ جملہ حذف کردیا ہے جس سے معاویہ کی شراب نوشی ثابت ہوتی ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا جبکہ ان کے نزدیک اس حدیث کی سند بھی صحیح ہے ؟ کیا کوئی صحابی کہا جانے والا شخص اگر بادشاہ بن جائے اور پھر وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو تو اس پر پردہ ڈالنا اور اس کی خاطر احادیثِ صحیحہ سے جملے حذف کرنا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب : یہ تو تقریبا واضح ہوچکا ہے کہ رافضی اور اور تفضیلی رافضی پی کر ہی لکھتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ بغضِ معاویہ کی شراب پی کر لکھتے ہیں اور خیانت کرتے ہیں یا واقعی حقیقی شراب پی کر لکھتے ہیں کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کیا لکھ رہے ہیں ۔
اولا : ایسے موقع پر یہ کہنا ’’ احادیث صحیحہ سے جملے حذف کرنا ‘‘ واضح ایہام کرتا ہے کہ گویا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں سے جملہ حذف کیا ہو ۔ حالانکہ واضح لکھا ہے کہ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے کلام کا ایک جزء تھا جسے ذکر نہیں کیا ۔
ثانیا : ہم ابھی واضح کر آئے ہیں کہ پینے کی چیز سے مراد دودھ ہے ، مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت اس حوالے سے واضح ہے ، اور خود حافظ ہیثمی رحمہ اللہ تعالی نے اس پر باب مدح اللبن کا باندھا ہے ۔ پھر آپ یہ کہہ رہےہیں ’’ جس سے معاویہ کی شراب نوشی ثابت ہوتی ہے‘‘ لعنۃ اللہ علی شرکم ۔ ذرا بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابی پر بلا دلیل شراب نوشی کا الزام لگانے کی وجہ سے خود آپ پر کیا حکم شرعی لگے گا ؟
ثالثا : آپ نے مکمل روایت کیوں ذکر نہیں کی ، جس سے خود اس کلام کا منکر ہونا واضح ہے ۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ تعالی نے تو واضح کردیا کہ یہ جملہ میں نے حذف کیا ہے اور اہل علم بخوبی جان سکیں گے کہ زیادت منکر ہے ۔ لیکن رافضی اور اور تفضیلی رافضی تو آگے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلام ذکر نہیں کرتے اور بتاتے بھی نہیں ۔ ذرا بتائیں رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں پر اس خیانت کا کیا حکم لگے گا ؟
رابعا : حافظ ہیثمی رحمہ اللہ تعالی کے کلام سے بات تو واضح ہوچکی تھی کہ یہ جملہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے ، پھر رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں نے اس جملے کا قائل حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کیوں بنادیا ؟ رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں پر کیا حکم لگے گا ؟ جہالت کا یا خیانت کا ؟
رافضی اور اور تفضیلی رافضی کہتے ہیں :’’قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ جملہ مجمع الزوائد کے قدیم نسخہ سے تو محذوف ہے ، مگر دار الفکر اور دار الکتب العلمیہ بیروت کے محققین نے اس جملہ کو مسند احمد سے لے کر پھر مجمع الزوائد میں شامل کردیا ہے مگر قوسین کے اندر لیکن شیخ حسین سلیم اسد کی تحقیق سے جو مجمع الزوائد شائع ہوئی ہے اس میں شیخ موصوف نے اس جملہ کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے ، میں پوچھتا ہوں : امیر شام کے متعلق شیخ موصوف کتنے جملوں کو ناپسندیدہ قرار دیں گے ؟ ہم اگر شیخ حسین سلیم اسد الدارانی کی تحقیق سے شائع شدہ مسند ابی یعلی اور مجمع الزوائد سے ایسے جملوں کی نشاندہی کرنا شروع کریں تو شیخ موصوف سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے ۔
گوگلی ترجمہ
سبحان اللہ ! کیا قابلیت ہے رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں کی ! حسین سلیم اسد الدارانی نے یہ بات اصطلاحی اعتبار سے کی تھی ، اور ساتھ لکھ بھی دیا ہے : ’’غير أن زيادات حديثه وصفها الإمام أحمد بقوله : في أحاديثه زيادة ما أدري أي شيء هي ونفض يده . وذلك مثل الزيادة التي تركها الهيثمي-رحمه الله تعالى- وهي : ثم قال: ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ) وهذه زيادة منكرة جدا‘‘ یعنی اس اس سند کے رجال تو ثقہ ہیں مگر اس حدیث میں وہ زیادت ہے جسے امام احمد نے اپنے اس قول سے بیان کیا ہے : اس (حسین بن واقد) کی احادیث میں وہ زیادتی ہے جو میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے ؟ اور اپنے ہاتھ جھاڑ لیے ۔ اور اسی زیادت کی مثل وہ جملہ ہے جسے امام ہیثمی رحمہ اللہ تعالی نے ترک کردیا اور وہ زیادتی یہ ہے:’’جب سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اسے حرام فرمایا ہے میں نے اسے نہیں پیا۔‘‘ اور یہ زیادتی سخت منکر ہے ۔ (مجمع الزوائد ج ١١ ص ٩٩ رقم ٨٠٩٢ باب ما جاء في اللبن،چشتی)
یہ اصطلاحی بحث تھی اور رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں نے اس کا ترجمہ لغوی کر دیا کہ یہ ناپسندیدہ زیادتی ہے اور ہم ایسے ناپسندیدہ جملوں کی نشاندہی کریں گے تو موصوف دارانی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے ۔ صحیح کہہ رہے ہیں رافضی اور اور تفضیلی رافضی ، واقعی جب دارانی صاحب رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں کی تحقیق پڑھیں گے تو سر پکڑ کر بیٹھ ہی جائیں گے ۔
ویسے رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں نے بھی اس حوالے سے کمال کیا تھا ۔ ان سے بعض احبابِ اہلسنت کا ’’ لا یصح‘‘ کے معنی پرمباحثہ ہوا ، جس پر رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں نے لا یصح کا معنی گوگل سے سرچ کرکے بتایا ’’خراب ، گلا ہوا، سڑا ہوا، باطل‘‘
سبحان اللہ ! اسی طرح رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں نے تدلیس کا معنی ’’فریب کاری کرنے والا ‘‘ کیا ہے ۔ یہ تحقیات دیکھ کر دارانی صاحب تو سر پکڑنے کی بجائے سر دیوار میں مار ہی لیں گے ۔
حرمت شراب کی احادیث جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہیں ۔
جامع ترمذی کی مشہور روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا «مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ فَإِنْ عَادَ فِى الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ» یعنی جو شراب پیے اسے کوڑے لگاؤ اگر وہ چوتھی بار بھی پیے تو اس کو قتل کردو ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وإنما كان هذا في أول الأمر ثم نسخ بعد هكذا یعنی یہ حکم ابتداء میں تھا پھر اس طرح کا حکم منسوخ ہوگیا ۔ (جامع الترمذی ج ٣ ص ٤٦٦ رقم ١٤٤٤)
لیکن اگر اس حدیث کو تعزیر پر محمول کرلیا جائے تو جامع ترمذی کی دیگر احادیث کی طرح یہ حدیث بھی معمول بہ ہوجاتی ہے ۔ (تذكرة المحدثین ص ٢٣٣)
یہ حدیث مبارک روایت کرنے والے صحابی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں ۔
ایک اور حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیں : امام ابن ماجہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں : سمعت رسول الله - صلى الله تعالى عليه وآله وسلم - يقول: "كل مسكر حرام على كل مؤمن". میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر مؤمن پر ہر نشے والی چیز حرام ہے ۔ (سنن ابن ماجه ج ٤ ص ٦٨ رقم ٣٣٨٩)
اللہ تعالی کی بارگاہِ اقدس میں دعا ہے کہ وہ بغضِ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment