حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت ملے گی اور باغی گروہ
محترم قارئینِ کرام : قرآن و سنت میں غور کیا جائے تو باغی دو طرح کے ہوتے ہیں : (1) اجتہادی باغی ۔ (2) دنیا دولت حکومت برے مقاصد بغض و عناد حسد وغیرہ کے لیے ہونے والے باغی ۔
اجتہادی باغی خاطی گناہ گار نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم والا باغی گناہ گار ہوتا ہے صحیح حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء اولیاء علیہم الرّحمہ نے جو باغی کہا وہ بمعنی مجتہد باغی کہا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان باغیوں کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے بھائی کہا اور آئمہ اسلاف نے دو ٹوک لکھا کہ اجتہاد تھا ۔ اور اجتہاد میں غلطی پر ایک ثواب اور اجتہاد مین درستگی ہو تو ڈبل ثواب ۔ بشرطیکہ معاملہ ایسا ہو کہ جس مین اجتہاد کی اسلام نے اجازت دی ہو اور اجتہاد کرنے والا اجتہاد کی شرائط پر بھی پورا اترتا ہو ۔
شیخ الاسلام منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیئے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92)
مزید لکھتے ہیں : مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیئے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)
اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی ۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے ۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے : اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو، پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو ۔‘‘ نیز ایک مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے رسوم و رواج کو بھی حالات زمانہ اور ضروریات معاشرہ وغیرہ کو بھی جانتا ہو ۔
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا : إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ .
ترجمہ : جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919)(مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716)۔
حضرت ابو سعید خدری و حضرت ام سلمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خندق کھود رہے تھے اس وقت حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دست ِشفقت پھیر کر ارشاد فرمایا کہ افسوس ! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ (مسلم جلد ۲ ص ۳۹۵ کتاب الفتن)
بخاری شریف کے اندر یہ حدیث شریف موجود ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر میں جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو دو پتھر اٹھا کر لارہے تھے ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی، جو عمار کو جہنم کی طرف بلا رہی ہوگی اور عمار ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہوںگے ۔
عن عکرمۃ قال : قال لي ابن عباس ولابنہ علی: انطلقا إلی أبي سعید فاسمعا من حدیثہ، فانطلقنا، فإذا ہو في حائط یصلحہ، فأخذہ رداء ہ فاحتبي، ثم أنشأ یحدثنا حتی أتی علی ذکر بناء المسجد، فقال: کنا نحمل لبنۃ لبنۃ وعمار لبنتین لبنتین، فرأہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فجعل ینفض التراب عنہ، ویقول: ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ یدعوہم إلی الجنۃ ویدعونہ إلی النار، قال: یقول عمار: أعوذ باللہ من الفتن۔ (بخاري شریف، کتاب الصلاۃ، باب التعاون في بناء المسجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۶۴، رقم: ۴۴۲، ف: ۴۴۷، وکذا في کتاب الجہاد، باب مسح الغبار عن الرأس ۱/ ۳۹۴، رقم : ۲۷۲۸، ف: ۲۸۱۲،چشتی)
یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے ۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا ۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگار نہ ہوں گے کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : عن عمرو بن العاص أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إذا حکم الحاکم فاجتہد، ثم أصاب، فلہ أجران، وإذا حکم فاجتہد ثم خطأ، فلہ أجر ۔ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا ۔ (بخاري، کتاب الاعتصام، باب أجر الحاکم إذا اجتہد، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۰۹۲، رقم: ۷۰۵۵، ف: ۷۳۵۲،چشتی)،(حاشيه بخاری بحواله کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوة) ۔
اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے ۔ پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کا گروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کر کے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں ۔ اس صورت میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ” افسوس اے عمار ! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ” اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا ۔ ِ وﷲ تعالیٰ اعلم ۔ بہر حال حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے ۔
رافضیوں کا اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ اور تفضیلی حضرات اکثر حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی اور جہنمی ٹھہرے ۔
اس حدیث میں جس باغی گروہ کی بات کی گئی ہے وہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ تعالی عنہ) کو قتل کیا اس سے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) بالکل مراد نہیں اور نہ ان کا نام موجود ہے اسی طرح کے خارجی لوگ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں بھی موجود تھے جب ایک شخص حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو خوشخبری ہو میں نے حضرت زبیر (رضی اللہ تعالی عنہ) (جو حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں موجود تھے) کو قتل کر دیا ہے تو اس کے جواب میں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے کہا میں تجھے جہنمی ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں کیوں کہ حضرت زبیر (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تو حدیث رسول تھی کہ جو ان کو قتل کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ اب جس طرح حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) پر کوئی الزام نہیں جہنمی ہونے کا (کیوں کہ وہ شخص حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں سے تھا) اسی طرح حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا ۔
حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ : وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه ۔ (کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج 3 - الصفحة 540،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس گئے اور فرمایا : آپ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلان عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا ۔
اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کو محض خلافت سے کوئی غرض نہیں تھی ان کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مکتوب میں بھی موجود ہے : وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان ۔ (کتاب نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - مکتوب 58 - الصفحة 448)
ترجمہ : ہمارے معاملے کی ابتداء یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب کہ بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا ۔
دوسری بات یہ کہ فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ الفاظ کہ امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) والے گروہ کے ایمان اور مسلمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کر کے امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) نے اس کی تائید مزید فرما دی ۔
یہ حدیث شیعہ کتاب كشف الغمة میں بھی موجود ہے : روى عن أبي بكرة قال بينما رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب إذ صعد إليه الحسن فضمه إليه وقال إن ابني هذا سيد وان الله عله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظمتين ۔ (کتاب كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج 2 - الصفحة 320،چشتی)
ترجمہ : ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے دوران یکا یک امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) منبر پر چڑھ گئے تو آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور الله اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۔
تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی ٹھہرے تو پھر امام حسن و امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) سے نہ صرف بیعت کی بلکہ انہیں مسلمانوں کا امیر بھی بنا دیا کیا امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیا یہ حدیث امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) کو معلوم نہ تھی جو ان کی بیعت کرلی اور کیا اس حدیث کا مفہوم آج کل کے شیعہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) ؟ امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اور امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی بیعت حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر دلائل اور بھی ہیں لیکن اختصار کے طور پر ایک حوالہ رجال کشی کا دے دیتے ہیں امام جعفر صادق (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو : وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام ۔ (کتاب اختيار معرفة الرجال (رجال الكشي) - الشيخ الطوسي - ج 2 - الصفحة 104)
ترجمہ : ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اٹھیئے اور بیعت کیجیئے وہ اٹھے اور بیعت کی پھر امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کو کہا آپ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو اس نے امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) میرے امام ہیں ۔
چوتھی بات یہ کہ جس کو خود حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی اور منافق نہ کہیں انہیں آج کل کہ شیعہ کس منہ سے کہتے ہیں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے : جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق ۔ (کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 93)
ترجمہ : امام جعفر عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدِمقابل (حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) اور ان کی لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لیئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا ۔
شیعہ محقق قمی لکھتا ہے : جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا ۔ (کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 94،چشتی)
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی ۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا کی آڑ لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی کہہ کر جہنّمی کہنے اور ثابت کرنے والو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کیا فتوے لگاؤ گے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل تھے ؟
آیئے ہم آپ کو مختصرا بتاتے ہیں کہ وہ جماعت کِن لوگوں پر مشتمل تھی ؟
حضرت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ والے صحابی ہیں ۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ : عَمْرٌو وَهِشَامٌ ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 8042)
ترجمہ : عاص کے دونوں بیٹےمومن ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے نام بھی لیے ، عمرو بن عاص اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنھما ۔
جس کے ایمان کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود دیں آپ لوگ ان کو بد نیت قراردیتے ہیں کہ جن کے ایمان کی گواہی بذریعہ وحی دی گئی ۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور تلاوت سن کر اپنے ساتھ موجود صحابی سے پوچھا کہ : تَرَاهُ مُرَائِيًا ؟ آپ کا کیا خیال ہے ، آپ انہیں ریا کار سمجھتے ہیں ؟ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی بتا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ، لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ ۔ نہیں ، یہ تو مومن ہیں ، اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے ہیں ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 22952)
جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بذریعہ وحی ایسی بشارتیں دیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ ڈھوگ رچاتے رہے ، یہ امت کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کرتے رہے ہیں ۔ ہمارا مدعا و مقصد صرف یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی آڑ لے کر توہین صحابہ رضی اللہ عنہم نہ کی جائے اور نہ ہی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا موازنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا جائے کیونکہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت بلند و بالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو عقلِ سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment