Monday 23 September 2019

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آئمہ احناف علیہم الرّحمہ کی نظر میں

0 comments
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آئمہ احناف علیہم الرّحمہ کی نظر میں

علامہ امام بدرالدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م:855ھ) فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت کا بر حق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کیا جائے ، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اور یہ کہ وہ لوگ مجتہد تھے، کسی معصیت کا قصد کیا اور نہ ہی دنیا داری کا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری)

علامہ امام ابن ہمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م861ھ) فرماتے ہیں : حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان جو واقعات پیش آئے ان کی بنا اجتہاد پر تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوئی تنازعہ نہ تھا ۔ (المسایرۃ:،ص:۳۱۴)

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م:1014ھ) فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عادل اور صاحب فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں اور ان کا شمار اخیار صحابہ میں ہوتا ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج:۱۱،ص:۲۷۲)

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ (م:1034ھ) فرماتے ہیں : اور قوم (یعنی علمائے اہل سنت) کی کتابیں خطائے اجتہادی کے اقوال سے بھری ہوئی ہیں جیسا کہ امام غزالی اور قاضی ابو بکر باقلانی رحمہما اللہ کی تصریحات سے واضح ہیں ، پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے والوں کو فاسق یا گمراہ قرار دینا جائز نہیں ہے ۔ (مکتوبات امام ربانی ،دفتر اول مکتوب 251،چشتی)

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ (م:1069ھ) نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔ ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121،چشتی)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م:1176ھ) فرماتے ہیں : معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب میں سے ہیں اور فضیلت جلیلہ کے حامل اصحاب میں شامل ہیں ، خبردار ! معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور سب و طعن کے چکر میں پڑ کر حرام فعل کا ارتکاب نہ کرنا ۔ (ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفا ،ص۱۴۶)

علامہ امام ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م:1252ھ) فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہونے والے نزاعات میں ہم سکوت اختیار کریں گے کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ تھا ، اور یہی صحابہ کرام ، تابعین اور ائمہ مجتہدین سمیت اہل سنت و جماعت کا موقف ہے ۔ (تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چاروں آئمہ فقہا علیہم الرّحمہ کا مؤقف

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنت میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105)

حضرت امام مالک رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہم کو برا کہنا ہے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 102)

حضرت امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105)

امام احمد بن حنبل رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں۔
(صواعق محرقہ صفحہ نمبر 106،چشتی)

اما م اہلسنت ابو لحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324 ہجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنّت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے، اسی طرح جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل و اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626)

امام قاضی ابو بکر باقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں :
واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کریں ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان ، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ نمبر 64)

حضرت خواجہ شمس العارفین شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جو نزاع اور خصومت واقع ہوئی وہ ازروئے اجتہاد تھی ، کسی عناد کی بنا پر نہیں ، پس درویش کو چاہیے کہ ان حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے حق میں کچھ نازیبا کلام ہرگز نہ کرے ۔ (مرأۃ العاشقین در ملفوظات حضرت اعلی خواجہ شمس العارفین ، صفحہ نمبر 109) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔