Saturday 21 September 2019

قاری ظہور فیضی کے نزدیک معیار صرف بغض معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے

1 comments
قاری ظہور فیضی کے نزدیک معیار صرف بغض معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے

محترم قارئینِ کرام : قاری ظہور فیضی رافضیوں کا اجرتی محقق ہے ۔ اس قاری ظہور فیضی کے نزدیک معیارِ تحقیق صرف بغضِ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے ، قاری ظہور فیضی اپنی کتاب الاحادیث الموضوعہ فی فضائل معاویہ میں بڑا شور مچایا ہے ، صرف جہالتِ راوی کی بنیاد پر حدیث کو موضوع قرار دیتا رہا ہے ، لیکن جہاں کسی طرح طعن وتشنیع کا موقع ملے اس کے لیے سب قبول ومحبوب ہے ۔

قاری ظہور فیضی اپنی کتاب الاحادیث الموضوعہ فی فضائل معاویہ میں سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے وصالِ باکمال پر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تہمت لگانے کے لیے حیاۃ الحیوان اور وفیات الاعیان سے ایک بے سند واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے ، ’’معاویہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خبر سن کر کہا’’استراح قلبي‘‘ میرے دل نے راحت حاصل کی ہے، ان دونوں کتابوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس وقت شام میں تھے ، انہوں نے معاویہ کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے تو وجہ پوچھی ، معاویہ نے کہا مات الحسن حسن مرگیا‘‘
لعنۃ اللہ علی شرکم ۔ یہاں اولا یہ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ واقعہ بلا سند ہے ، اگر ایسا واقعہ سند کے ساتھ ہوتا بھی تو اولا سند کی تحقیق لازم ہوتی ، سند صحیح بھی ہوتی تو بھی اصول اہل سنت کے مطابق قبول نہ ہوتی ، واجب التاویل ہوتی ۔ لیکن موصوف بلا تحقیق اس واقعے کو ایسے قبول کررہے ہیں جیسے یہ واقعہ قطعی الثبوت قطعی الدلالت ہو ۔
پھر غور کرنے والے پر واضح ہے ، یہ عجیب بے وقوفانہ بات ہے کہ کسی کے انتقال پر اس کے عزیز کے سامنے خوشی کا اظہار کرنا ، یہ قاری ظہور فیضی اینڈ کمپنی تو کرسکتی ہے ، لیکن کسی عقل مند سے یہ متصور نہیں ۔

اس واقعے کا اصل ماخذ کیا ہے ؟

ویسے قاری ظہور فیضی بغض معاویہ میں ہیرا پھیری کرنے میں بہت سیانے ہیں ، بہت بعید ہے کہ ان کو معلوم نہ ہو کہ اس واقعے کا اصلا ماخذ کیا ہے ۔ اس واقعے کا ماخذ مسعودی شیعہ کی کتاب مروج الذہب ہے ۔ اس نے اپنی کتاب میں اس واقعے کو سند کے ساتھ لکھا ہے ۔

اولا اس کی سند میں ضعیف اور کذاب راوی ہیں ۔

راوی ہیں اس میں محمد بن حمید الرازی : امام بخاری اس کے بارے میں فرماتے ہیں : فيه نظر امام نسائی فرماتے ہیں: ليس بثقة یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں : محمد بن حميد كثير المناكير(تهذيب التهذيب ج ٧ ص ١١٩ رقم ٦٠٤٩،چشتی)

بعض نے اس کی توثیق کی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ ضعیف راوی ہے ۔

دوسرے راوی علی بن مجاہد ہیں ، ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ کذاب راوی ہے ، یحیی بن ضریس ، ابو جعفر الجمال نے ان کو کذاب کہا ہے ۔ (الجرح والتعديل ج ٦ ص ٢٦٦ رقم ١١٢٣) (الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي ج٢ ص ١٩٨ رقم ٢٣٩٨)

یحیی بن معین فرماتے ہیں : كان يضع الحديث حدیث گھڑا کرتے تھے ۔ (الكشف الحثيث ص ١٨٩ رقم ٥٢١)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں : علي بن مجاهد بن مسلم القاضي الكابلي بضم الموحدة وتخفيف اللام متروك من التاسعة، وليس في شيوخ أحمد أضعف منه ، علی بن مجاہد بن مسلم القاضی الکابلی ، متروک راوی ہیں ،طبقہ تاسعہ سے ہیں، امام احمد کے شیوخ میں ان سے زیادہ ضعیف کوئی نہیں ۔ (تقريب الهذيب ص ٤٣٦ رقم ٤٧٩٠)
یہ روایت کر رہے ابن اسحاق سے اور علما نے صراحت کی ہے کہ ان کا ان سے سماع ہی ثابت نہیں ۔ (الجرح والتعديل ج ٦ ص ٢٦٦ رقم ١١٢٣)

ثانیا : اس کے متصل ہی مسعودی نے طبری کے دوسرے نسخے کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا خوش ہونا اور تکبیر بلند کرنا یا اس وقت تھا جب حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے صلح کا پیغام آیا تھا. (مروج الذهب ج ٢ ص ٤٠٩)

افسوس ہے قاری ظہور فیضی تمہاری سوچ پر ، کتنا زور لگایا تھا تم نے ان احادیث کو رد کرنے کے لیے جو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل میں آئی ہیں ، صرف راویوں کے مجہول ہونے تک کی وجہ سے بھی تم نے حدیث کو موضوع کہدیا تھا ، لیکن یہاں تمہارے سارے اصول بغضِ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ میں الٹے ہوگئے ، اسی طرح کے واقعات سے آپ ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث جسے کثیر ائمہ نے نہ صرف روایت کیا بلکہ متعدد محدثین نے اسے حسن قرار دیا رد کرنے چلے ہیں ۔

قاری ظہور فیضی کی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں بدترین گستاخی

اس بے اصل من گھڑت واقعے میں عربی جملہ تھا ’’مات الحسن‘‘ جس کا با ادب ترجمہ بنتا ہے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا ، انتقال فرمایا ، انتقال فرما گئے ، وصال فرمایا ۔ لیکن افسوس قاری ظہور فیضی بغضِ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ میں ایسے مدہوش ہے کہ کتنا بھونڈا اور بدتمیزی والا ترجمہ کرتا ہے کہ ’’حسن مرگیا ‘‘
مانا قاری ظہور فیضی تم نے اور تمہارے متبعین نے بغض معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شراب پی ہوئی ہے ، اور تم ایک من گھڑت واقعے کو قطعی الثبوت واقعے کی طرح پیش کررہے ہیں اور یہ بھونڈا اعتقاد آپ نے بنایا ہوا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کے دلوں میں ایک دوسرے کےلیے وہ کچھ تھا جو ظاہر میں نہیں تھا ، لیکن کچھ تو سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات کا خیال کرلیتے ، اگرچہ آپ کے زعم فاسد میں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں لیکن ترجمہ تو تمہارا ہے ، کیا کچھ حیا نہیں ہے تمہیں ؟ نعوذ بالله من بغض الصحابة الذي يؤدي إلى توهين أهل البيت ا لكرام رضي الله تعالي عنهم أجمعين . اللهم ارزقنا حبهم وجنبنا عن بغضهم.
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بہت سارے واقعات موجود ہیں جن میں سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے عقیدت ، محبت کی انتہاء ہے ۔ ہم یہاں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کرتے ہیں جو سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی مسند میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں : رأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم يمص لسانه، أو قال: شفته يعني الحسن بن علي صلوات الله عليه، وإنه لن يعذب لسان أو شفتان مصهما رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم كوان کی (یعنی امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی) زبان یا ہونٹوں کوچوستے ہوئے دیکھا اور ہر گز اس زبان یا ہونٹوں کو عذاب نہیں دیا جائے گا جسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے چوسا ہو ۔ (مسند أحمد ج ١٣ ص ١٨٠ رقم ١٦٧٩١)
امام ہیثمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں سوائے عبد الرحمن بن ابی عوف کے اور وہ بھی ثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج ١٨ رقم صفحہ نمبر ٤٩٨ رقم ١٥٠٤٣)

اللہ تعالی ہمیں دور حاضر کے اس عظیم فتنے سے محفوظ رکھے جس میں اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی محبت کے پردےمیں صحابۂ کرام علیہم الرضوان پر طعن کیے جارہے ہیں ۔ اور جھوٹے الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ۔

بصد شکریہ علاّمہ سیّد غلام حسین شاہ القادری ۔ طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔