Sunday 1 September 2019

امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہ علیہ اور ادب و محبت ساداتِ کرام

0 comments
امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہ علیہ اور ادب و محبت ساداتِ کرام

محترم قارئینِ کرام : امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے:مدینۃُ المرشد بریلی شریف کے کسی محلہ میں میرے آقا اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن مَدْعُو تھے۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کے لئے پالکی کا اِہتمام کیا۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت نے پالکی میں سے آواز دی: ”پالکی روک دو۔“پالکی رُک گئی۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا: سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے؟کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور! مَیں سیِّد ہوں۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّتنے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا۔ امامِ اہلسنّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجئے،بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی،اگر بروزِقیامت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی۔کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں۔ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدو ر شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا ،ص٤١٥،چشتی)

اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں؟ توآپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا :ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے۔بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اور معروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے(یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸،چشتی)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام ملاحظہ فرمائیے،چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کے لیے(اعلیٰ حضرتعَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت کے)کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا(اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے)گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں(یعنی پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں)حاضِر کی جائے ۔جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۱۷۹)

تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز ورسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت 165/1)

تعظیم کے لیے نہ یقین دَرْکارہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے،ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا:فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا،مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا،انہوں نے فرمایا:میں سید ہوں،کہا: کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے،یہ شفاعت خواہ ہوا، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا: کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)

تعظیمِ ساداتِ کرام

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نےسید صاحب کے ہاتھ چوم لئے

جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ : فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع ِعید الفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا، مگر جس وقت سید قناعت علی رحمۃ اللہ علیہ دست بوس ہوئے سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے ہاتھ چوم لئے ، یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان ِ خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہی معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران ِمصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں ۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 286)

سادات کودوگناحصّہ عطا فرماتے

جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ حضر ت کی محبتِ سادات کا ایک اورواقعہ یوں بیان کرتے ہیں : اعلیٰ حضر ت رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مجلس ِ میلاد مبارک میں سادات کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصہ بروقت تقسیم شیرینی ملا کرتا تھا اور اسی کا اتباع اہلِ خاندا ن بھی کرتے ہیں ۔ ایک سال بموقع بارہویں شریف ماہ ربیع الاول ہجو م میں سید محمود جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خلاف ِمعمول اکہر ا(ایک) حصہ یعنی دو تشتریاں شیر ینی کی بلا قصد پہنچ گئیں ۔موصوف خاموشی کے ساتھ حصہ لے کر سیدھے حضورِ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کے یہاں سے آج مجھے عام حصہ ملا ۔ فرمایا : سید صاحب تشریف رکھئے !اور تقسیم کرنے والے کی فوراً طلبی ہوئی اور سخت اظہار ناراضی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :ابھی ایک سینی (بڑی پلیٹ) میں جس قدر حصے آسکیں بھر کر لاؤ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ۔ سید صاحب نے عرض بھی کیا کہ حضور میرا یہ مقصد نہ تھا ، ہاں دل کو ضرور تکلیف ہوئی جسے برداشت نہ کر سکا ۔ فرمایا سید صاحب ! یہ شیرینی تو آپ کو قبول کرنا ہوگی ورنہ مجھے سخت تکلیف رہے گی ۔ اور شیر ینی تقسیم کرنے والے سے کہا کہ ایک آدمی کو سید صاحب کے ساتھ کر دو جو اس خوان کو ان کے مکان پر پہنچا آئے انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 288)

سید صاحب کے گھر جا کر بچے کو دم کیا

قاری احمد صاحب پیلی بھیتی بیان کرتے ہیں کہ : اعلیٰ حضرت’’مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت‘‘میں قیام فرما ہیں،سید شوکت علی صاحب خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ حضرت! میرا لڑکا سخت بیمار ہے ،تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے ، یہی ایک بچہ ہے صبح سے نزع کی حالت طاری ہے ،سخت تکلیف ہے ،میں بڑی اُمید کے ساتھ آپ کی خدمت میں آیا ہوں ۔

اعلیٰ حضرت سید صاحب کی پریشانی سے بہت متاثر ہوئے اور خود اُن کے ہمراہ مریض کو دیکھنے کے لیے گئے ، مریض کو ملاحظہ فرمایا پھر سر سے پیر تک ہاتھ پھیر پھیر کر کچھ دُعائیں پڑھتے رہے ، سید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے ہاتھ رکھتے ہی مریض کو صحت ہونا شروع ہو گئی اور صبح تک وہ مرتا ہوا بچہ اعلیٰ حضرت کی دعا کی برکت سے بالکل تندرست ہو گیا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور صٖحہ نمبر 978 ،چشتی)

غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون(لعنت کیا گیا) ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہتعالیٰ،فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہتعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة...الخ ،ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے، اَلْبَتَّہ ہمارے علم(میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،٢٣/١٩٨)

بد مذ ہب سیِّد کا حکم

اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت،مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی )جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے: )' قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ترجَمۂ کنز الایمان:”فرمایا! اے نوح ! وہ(یعنی تیرابیٹا کنعان)تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں۔“بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں،نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)

صَدرُالْافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶)

سادات كا احترام : اعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام كا بے پناه ادب و احترام كرتے۔ مولوي محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان ہے كه حضرت مهدی حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا كه : ٫٫ميں جب بريلي آتا تواعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود كھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے ۔ حسب دستور ایک بار ہاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھي اور چھلے مجھے دے ديجيے ، ميں نے اتار كر دے ديے اور وہاں سے ممبئي چلا گيا ۔ ممبئي سے مارهره واپس آيا تو ميري لڑكي فاطمه نے كہا ابا بريلي كے مولانا صاحب كے يہاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھی تھے ، يه دونوں طلائی تھے اور نامه ميں مذكور تھا ، شهزادی يه دونوں طلائي اشيا آپ كي ہيں ۔ ﴿حيات اعليٰ حضرت صٖحہ نمبر 112 ، 111) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔