Saturday, 28 September 2019

واقعہ کربلا اور مقبوضہ کشمیر

واقعہ کربلا اور مقبوضہ کشمیر

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سیّدنا اِمام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر دے دی تھی ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ جلد 5 صفحہ نمبر 107 ، 108 محقق و محدث الکبیر وہابیہ شیخ ناصر البانی)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ حضرتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا جائے گا اور مقامِ شہادت سے بھی آگاہ تھے ۔ (سلسلہ احاددیث صحیحہ جلد پنجم صفحات 108 ،109محقق و محدث الکبیر وہابیہ شیخ ناصر البانی)

یہ حدیث امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد، ج 9، صفحہ نمبر 120 پر بھی تحریر فرمائی ہے : 15116 - عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه ؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل ۔ صفحہ نمبر . 303 ، قال : ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء . (مصنف ابن ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 595،چشتی)
15117- وفي رواية : صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
ترجمہ : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے گھر میں بیٹھے تھے ۔ مجھ سے فرمایا کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دو ۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رونے کی آواز سنی ۔ میں داخل ہوئی ، اور کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ کب داخل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ جبریل میرے پاس اس گھر میں تھے ۔ اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس دنیا میں ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ان کق کربلا نامی زمین میں قتل کر دے گی۔ پھر جبریل وہاں سے مٹی لائے۔ پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ قتل ہونے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اس زمین کا کیا نام ہے ؟ بتایا گیا : کربلا ۔ انہوں نے کہا اللہ و رسول نے سچ کہا ، کرب و بلا ، اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول نے سچ کہا کرب و بلا ، طبرانی نے اسے مختلف سندوں کے ساتھ لکھا ، اور ایک کے راوی ثقہ ہیں ۔

عن ام سلمه قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔

عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔
ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819،چشتی)

عن ام سلمة قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔

غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)

حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12)

حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔

حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126) (سر الشهادتين : 13)

گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے ۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)

ان مستند اور معتبر روایات کے مطابق واقعہ کربلا کاتب تقدیر نے لکھ رکھا تھا جس کا مقصد مولانا محمد علی جوہر کی دانش میں یہ تھا :

قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں ۔ خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ ۔ (طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے ۔

جب کربلا میں یزید لعین کی فوجوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا تو اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کانپ اٹھی ہوگی البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر کیا ہوگا کہ ان کا نواسہ اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے کربلا کے میدان میں شہید ہوگیا اور اس نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کر کے آنے والے مسلمانوں کو یہ پیغام دے دیا کہ اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔

حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے ؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند،چشتی)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا دن تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں ۔ (البدایۃ والنھایۃ)

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ میں مقیم تھے جب ان کو حج کے دوران قتل کرنے کی سازش کی اطلاع ملی تو انہوں نے مکہ سے کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا اور شہادت کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مکہ کے علماء سے خطاب کرتے ہوئے یے فرمایا "آپ اسلام کے ہیروز ہیں عوام میں آپ کی شناخت ہے عوام کی رہنمائی کرنا اور انہیں صراط مستقیم پر چلانا آپ کا بھی فریضہ ہے آپ کے سامنے قرآن و حدیث کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور آپ احتجاج نہیں کر رہے حالانکہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف جہاد اسلام کا سنہری اصول ہے مگر آپ زندگی سے پیار کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں" یہ امر افسوسناک ہے کہ اسلامی تاریخ میں دنیا دار علماء کا کردار اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق نہیں رہا اور عالم اسلام زوال پزیر ھو گیا - قافلہ حسین میں زہیر نامی ایک سنی بھی تھا -وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لئے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر قافلے میں شامل ہوگیا یوم عاشور پر جب حضرت امام حسین پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی تو زہیر ڈھال بن کر سیدنا حسینؓ کے آگے کھڑے ہو گئے اور اپنی جان نثار کر دی - حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سب کے ہیں ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے - ایک روایت کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ" اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے بھی جو ان دونوں سے محبت کریں" کوفہ پہنچنے سے پہلے ایک مقام پر حضرت امام حسین نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا " لوگو خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کرلی ہے اور رحمان کی اطاعت چھوڑ دی ہے ملک میں فساد پھیلا دیا ہے حدود الہی کو معطل کر دیا ہے مال غنیمت میں سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے اس لیے مجھ پر جہاد فرض ہو چکا ہے- بقول شاعر :

جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاؤ تم حسین کے انکار کی طرح

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی پابندی کرتے تھے نماز روزہ حج زکوٰۃ کا پورا اہتمام کرتے انہوں نے پیدل بیس حج کئے ایک بار گھوڑے پر کسی جگہ جا رہے تھے راستے میں غریب لوگ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے انہوں نے فرمائش کی نواسہ رسول ہمارے ساتھ کھانا کھائیے آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے نیچے اترے اور غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا آپ رضی اللہ عنہ نے ان غریبوں کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی - حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ وہ محاصرے میں آگئے ہیں اور ابن زیاد کے ارادے درست نہیں ہیں تو آپ نے نویں محرم کو چراغ گل کردیئے اور خطبہ دیا اور اپنے عزیز و اقارب سے کہا کہ یزید کو صرف ان سے دشمنی ہے لہذا جو لوگ واپس جانا چاہیں وہ چلے جائیں ۔ قافلے میں شامل سب لوگوں نے واپس جانے سے انکار کردیااور آخری دم تک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا - حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت سے پہلے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے میں نے جنت کا انتخاب کرلیا ہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے یا جلا دیا جائے :

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

معروف عالمی مورخ گبن نے اپنی کتاب میں کربلا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کیا : اس طرح زمانے کے پارسا ترین انسانوں میں سے ایک کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے ساتھ اس کے خاندان کے تمام مرد بھی شہید ہو گئے سوائے امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہم کے جو بیماری کی وجہ سے کربلا میں شریک نہ ہو سکے اور امام محمد بن باقر بن علی رضی اللہ عنہم کے جو اس وقت بچے تھے ۔

یزید کی فوجوں نے حسینی قافلے کا محاصرہ کرکے تمام آزادیاں اور انسانی حقوق سلب کر لئے تھے یہاں تک کہ ان پر پانی بھی بند کر دیا گیا تھا انتہاء پسند یزید نے قرآن اور سیرت کے بنیادی اصولوں خلفائے راشدین کی شاندار روایات اپنے زمانے کی تہذیب و ثقافت اور مسلمہ عالمی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا تھا - حق و باطل کا معرکہ ہر دور میں جاری رہا ہے حسینیت اور یزیدیت کے پیروکارہر دور میں موجود رہے ہیں - بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی جنوبی ایشیا کا یزید بن کر نمودار ہوا ہے جس کی دس لاکھ افواج نے نواسہ رسول کے پیروکار کشمیری مسلمانوں کا محاصرہ کرکے پورے مقبوضہ کشمیر کو کربلا میں تبدیل کر دیا ہے - کشمیریوں کے ہر قسم کے مذہبی سیاسی جمہوری سماجی معاشرتی آئینی اور قانونی حقوق سلب کر لئے گئے ہیں - ہندو بنیئے ہٹلر کی ناجائز اولاد مودی کو مذاہب کے اخلاقی اصولوں عالمی قوانین ہندوستان کی ثقافت اور تہذیب کی کوئی پرواہ نہیں ہے مودی نے امن کے دروازے بند کر کے دہشت گردی کے دروازے کھول دئیے ہیں ‘ اس نے ایک جانب کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق اور دوسری جانب ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔ مودی کی خواہش ہے کہ بھارت اور کشمیر کے مسلمان اسلام کو بھول جائیں اور ہندو ازم کی بالا دستی کو قبول کر لیں - لاکھوں کشمیری مسلمانوں کو کربلا کا سامنا ہے مگر آج وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کی طرح تنہاء نہیں ہیں ۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام پاک فوج اور بیدار باشعور عالمی رائے عامہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام کے ساتھ کھڑے ہیں - سیاسی اور عسکری قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آخری فوجی آخری گولی اور آخری سانس تک کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیا جائے گا اور ان کو حالات کے رحم و کرم پر نھیں چھوڑاجا ئے گا - ان شاء اللہ وقت کے یزید مودی کو شکست ہوگی اور حسین کے ماننے والے فتح یاب ہوں گے :

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

اللہ تعالیٰ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مدد اور ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...