Friday, 20 September 2019

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کی ولی عہدی

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کی ولی عہدی

محترم قارئینِ کرام : ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد کیوں مقرر کردیا تھا ۔

جواب : ہاں بے شک انہوں نے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تھا اس لئے نہیں کہ خلافت ، مملکت اور حکومت کو اپنے خاندان میں بند کردیں ۔ یہ بدگمانی ہم نہیں کرسکتے کیوں ؟ اس لئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کے حق میں مومن کو حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم ہے کہ : مومن کے حق میں خیر کا گمان کرو ۔ (مشکوۃ المصابیح)

معاذ اللہ یا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تم کافر کہو اور اگر مومن کہتے ہو تو قرآن کریم کہتا ہے کہ مومن کے حق میں بدگمانی مت کرو میں کہتا ہوں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومن ہیں لہٰذا ہم ان کے حق میں بدگمانی نہیں کریں گے اور جب بدگمانی نہیں کریں گے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہوں نے اپنے خیال میں وہ بہتر سمجھ کرکیا اگرچہ اس کا نتیجہ بہتر نہیں نکلا ۔

بعض حضرات یزید کی ولی عہدی کے معاملے کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی آڑ میں یزید کی ایسی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی ظلم تھا ہی نہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر یزید ایسا ہی برا تھا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی برائیاں کیوں نہ دکھائی دیں ، پس ماننا پڑے گا کہ یزید بہت اچھا ہوگا اور اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہوگا ۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یزید کی ولی عہدی کے بعد واقعہ کربلا و حرا وغیرہ رونما ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے کہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پر یزید اور اس کی حکومت کو ڈسکاؤنٹ دینا بھی جائز نہیں کہ ان معاملات کو طاقت کے یوں اندھا دھن استعمال کے بغیر بھی حل کرنا ممکن تھا ۔

لیکن ان تمام واقعات کو صرف اور صرف یزید کی ولی عہدی کا لازمی نتیجہ قرار دینا یک طرفہ سوچ کا نتیجہ ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کا طریقہ اختیار کرتے وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مثالی طرز عمل کی متابعت نہ کی ، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سیاسی انتظامی فیصلے بہت حد تک اس بات کے مرہومن منت ہوتے ہیں کہ اطاعت و قبولیت عامہ کی عصبیت کس چیز یا تصور کو حاصل ہے ۔ مثلا آج اگر پاکستان میں کوئی پارٹی یکدم ولی عہدی کا نظام متعارف کروائے (یا کوئی وزیر اعظم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح کسی کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہے) تو پاکستانی عوام اسے قبول نہ کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمر بھی کسی نہ کسی صورت میں جمہوریت کا ورژن چلانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں سربراہ مملکت کے معاملے کو یونہی کھلا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوجاؤں اور پھر مکتب شام ، عراق و حجاز سب اپنے اپنے امیر چن کر ایک دوسرے کے خلاف تلواریں لیکر نکل آئیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید بہت سی مزید صفین اور جمل کے نتیجے میں امت کا شیرازہ بکھر جاتا ۔ صفین و جمل کے بعد مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو دوبارہ ایک سیاسی جھنڈے تلے متحد رکھنے کی خواہش ہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی ولی عہدی کا یہ قدم اٹھایا جو نتیجے کے اعتبار سے درست ثابت نہ ہوا ۔ لیکن نتائج دیکھ لینے کے بعد تاریخ کو الٹ سمت میں پڑھنا شروع کرکے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نیت پر حملہ آور ہوجانا یا بیٹے کے کرتوتوں کا الزام باپ پر ڈال دینا ، یہ غلط طریقہ تجزیہ ہے ۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ، اور کوئی بوجھ اٹھانے وا لی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 7)

امام ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : امام کی حقیقت یہی ہے کہ وہ قوم کے دینی و دنیوی مصالح پیش نظر رکھتا ہے لہذا امام قوم کا خیرخواہ ، ہمدرد اور محافظ ہوتا ہے ۔ شریعت مطہرہ میں اجماع سے ولی عہد کا جواز و انعقاد ثابت ہے ۔ اس سلسلے میں امام پر بدگمانی روا نہیں اگرچہ وہ اپنے باپ یا بیٹے ہی کو ولی عہد بنا جائے ۔۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی حسن ظن رکھنا چاہیئے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی عدالت اور صحبت رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہی تقاضہ ہے اور پھر بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع اور ان کی خاموشی اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بدگمانی سے بری ہیں کیونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ شان نہ تھی کہ وہ حق سے چشم پوشی فرمائیں اور مروت سے کسی کے ساتھ نرمی برتیں اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ شان تھی کہ وہ اقتدار شاہی کے سامنے حق بات ماننے سے انکار کردیں ۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی شان بلند و ممتاز ہے اور ان کی عدالت ان کے ساتھ اس قسم کی بدگمانیوں سے مانع ہے ۔ (مقدمہ ابن خلدون اردو، جلد 2، ص 26-28، نفیس اکیڈمی)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اسے (یزید کو) اس لیے ولی عہد بنالیا ہے کہ وہ میری رائے میں اس کا اہل ہے تو اس ولایت کو اس کے لیے پورا فرما دے اور اگر میں نے اس لئے اس کو ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرما ۔ (البدایہ والنہایہ ص 80 جلد 8)

غور کرنے کی بات ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو یا وہ زبردستی ایک کام کو مسلط کرنا چاہ رہا ہو وہ جمعہ کے دن مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر قبولیت کی گھڑی میں اپنے بیٹے کے لیے ایسی دعا کرسکتا ہے ؟

اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یزید کو نااہل سمجھنے کے باوجود محض اپنا بیٹا ہونے کی وجہ سے خلافت کے لئے نامزد کیا تھا تو یہ اتنا بڑا تحکم ہے جس کےلئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے ۔ کسی شخص کی نیت پر حملہ کرنا زندگی میں بھی شریعت نہیں جائز قرار نہیں دیا ، چہ جائیکہ اس کی وفات کے چودہ سو برس بعد اس ظلم کا ارتکاب کیا جائے ۔

محترم قارئینِ کرام : اس اعتراض کی حقیقت کے لیے اگر ان دو سوالوں کے جوابات دیکھ لیے جائیں تو یہ فیصلہ کرنا آسان ہو گا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فعل جائز تھا یا ناجائز وہ قصوروار تھے یا نہیں۔ وہ سوال یہ ہیں۔

(1) ولی عہدی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

(2) کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یزید کو ولی عہد بنانا شرعی طور پر جائز تھا ؟

اگر اس متعلق شرعی دلائل کاجائزہ لیں تو دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں

(1) . علماء کے نزدیک یہ متفقہ علیہ ہے کہ اگر خلیفہ وقت نیک نیتی کے ساتھ اپنے بیٹے کو خلافت کا اہل سمجھتا ہے تو وہ اسے اپنا ولی عہد مقرر کرسکتا ہے ۔

(2) . علماء کی ایک جماعت کے نزدیک ولی عہد بنانے کے لیے ارباب حل و عقد سے مشورہ کرنا ضروری ہے اسکے بغیر خلافت منعقد نہیں ہوتی۔ (تفصیل ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ص 5 جلد اول)

اور ایک جماعت (علامہ ماہ روی، ابن خلدون، شاہ ولی اللہ ) اسکی بھی قائل رہی ہے کہ جس میں وہ خلافت کی اہلیت سمجھتا ہو وہ تنہا اپنی مرضی سے اسے 'ولی عہد' بناسکتا ہے۔

امام ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں : امام کی حقیقت یہی ہے کہ وہ قوم کے دینی و دنیوی مصالح پیش نظر رکھتا ہے لہذا امام قوم کا خیرخواہ، ہمدرد اور محافظ ہوتا ہے۔ شریعت مطہرہ میں اجماع سے ولی عہد کا جواز و انعقاد ثابت ہے۔ اس سلسلے میں امام پر بدگمانی روا نہیں اگرچہ وہ اپنے باپ یا بیٹے ہی کو ولی عہد بنا جائے۔۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہکے ساتھ بھی یہی حسن ظن رکھنا چاہیئے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی عدالت اور صحبت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تقاضہ ہے اور پھر بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع اور ان کی خاموشی اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بدگمانی سے بری ہیں کیونہ صحابہ کرام کی یہ شان نہ تھی کہ وہ حق سے چشم پوشی فرمائیں اور مروت سے کسی کے ساتھ نرمی برتیں اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ شان تھی کہ وہ اقتدار شاہی کے سامنے حق بات ماننے سے انکار کردیں۔ تمام صحابہ کرام کی شان بلند و ممتاز ہے اور ان کی عدالت ان کے ساتھ اس قسم کی بدگمانیوں سے مانع ہے"۔(مقدمہ ابن خلدون اردو، جلد 2، ص 26-28، نفیس اکیڈمی)۔

اسلامی سیاست کے مشہور عالم اور مصنف قاضی ابویعلی الفراء الحنبلی رحمۃُ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : خلیفہ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بعد کے لیے کسی شخص کو ولی عہد بنائے اور اس معاملہ میں اہل حل و عقد کی موجودگی کوئی ضروری نہیں اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ولی عہد بنایا اور حضرت عمر رضی اللہ نے چھ صحابہ کرام کو یہ فریضہ سپرد کیا اور سپرد کرتے وقت کسی نے بھی اہل حل و عقد کی موجودگی کو ضروری نہیں سمجھا ۔ اسکی عقلی وجہ یہ ہے کہ کسی کو ولی عہد بنانا اس کو خلیفہ بنانا نہیں ہے۔ ورنہ ایک ہی زمانے میں خلفاء کا اجتماع لازم آئے گا جو جائز نہیں ہے اور جب یہ خلافت کا عقد نہیں ہے تو اہل حل و عقد کی موجودگی بھی ضروری نہیں، ہاں ولی عہد بنانے والے کی وفات کے بعد انکی موجودگی ضروری ہے ۔
چند سطروں کے بعد لکھتے ہیں : خلیفہ کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ولی عہد بنائے جو اسکے ساتھ باپ یا بیٹے کا رشتہ رکھتا ہو، بشرطیکہ وہ خلافت کی شرائط کا حامل ہو، اس لئے کہ خلافت محض ولی عہد بنانے سے منعقد نہیں ہوجاتی بلکہ مسلمانوں کے قبول کرنےسے منعقد ہوتی ۔ اور اس وقت ہر تہمت دور ہوجاتی ہے"۔ (ابویعلی الفراء، الاحکام السلطانیہ ص 9)

اب یزید کی ولی عہدی کے مسئلے پر غور فرمائیے، مندرجہ بالا احکام کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دیانت داری سے اپنے بیٹے یزید کو خلافت کا اہل سمجھتے تھے تو اسے ولی عہد بنا دینا شرعی اعتبار سے بالکل جائز تھا۔ اگر وہ یہ کام پوری امت کے مشورے سے کرتے تب تو باتفاق انکا یہ فیصلہ ہر فرد کے لیے واجب الاتباع ہوتا ، اور اگر تنہا اپنی رائے سے کیا تو انکے فعل کی حد تک کم از کم یہ فیصلہ باتفاق جائز تھا۔

اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ کیا امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو خلافت کا اہل سمجھ کر ولی عہد بنایا تھا یا محض اپنا بیٹا ہونے کی وجہ سے ؟

واقعہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پوری دیانت داری اور نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ یزید خلافت کا اہل ہے ۔ متعدد تواریخ میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک خطبہ میں یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اسے (یزید کو) اس لیے ولی عہد بنالیا ہے کہ وہ میری رائے میں اسکا اہل ہے تو اس ولایت کو اسکے لیئے پورا فرما دے اور اگر میں نے اس لئے اسکو ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرما ۔ (البدایہ والنہایہ ص 80 جلد 8)

غور کرنے کی بات ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو یا وہ زبردستی ایک کام کو مسلط کرنا چاہ رہا ہو وہ جمعہ کے دن مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر قبولیت کی گھڑی میں اپنے بیٹے کے لیے ایسی دعا کرسکتا ہے ؟
اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یزید کو نااہل سمجھنے کے باوجود محض اپنا بیٹا ہونے کی وجہ سے خلافت کے لئے نامزد کیا تھا تو یہ اتنا بڑا تحکم ہے جس کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ کسی شخص کی نیت پر حملہ کرنا زندگی میں بھی شریعت نہیں جائز قرار نہیں دیا، چہ جائیکہ اسکی وفات کے چودہ سو برس بعد اس ظلم کا ارتکاب کیا جائے۔

یزید کے دور حکومت میں جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ لیکن جس وقت یزید کو ولی عہد بنایا جارہا تھا اس وقت کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یزید کی حکومت میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا جائے گا، اس وقت وہ ایک صحابی اور ایک خلیفہ وقت کا صاحبزادہ تھا ، اس کے ظاہری حالات کی بناء پر یہ رائے قائم کرنے کی پوری گنجائش تھی کہ وہ حکومت کا اہل ہے اور صرف یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے نہیں تھی بلکہ بہت سے دوسرے جلیل القدر صحابہ (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ)و تابعین (حضرت علی کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ )بھی یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ حکومت کا اہل ہے۔(تفصیل البلاذری : انساب الاشراف ص 3 قسم 2) ( البدایہ و النہایہ ص 233، ج 8)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت دیانت داری کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مؤقف کی ہمنوا تھی اور وہ پانچ صحابہ جنہوں نے اسکی مخالفت کی تھی، وہ بھی کسی ذاتی خصومت یا حرص اقتدار کی بناء پر مخالفت نہیں کررہے تھے ، بلکہ وہ دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ یزید حکومت کا اہل نہیں ہے۔ ان کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ کا ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو حضرت امام حسین اور ان عباس رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ کے مقابلے میں یزید کو خلافت کے لیے بہتر تو نہیں سمجھتا تھا لیکن اس خیال سے اس کی حکومت کو گوارا کررہا تھا کہ امت میں افتراق و انتشار برپا نہ ہو ۔ اگر ان تین گروہوں کے خیالات کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے یزید کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ اختلاف درحقیقت رائے اور اجتہاد کا اختلاف تھا اور اس معاملے میں کسی کو بھی مطعون نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بات یاد رہے کہ یہ ولی عہد بنانے کے لیئے شرائط اور جائز یا ناجائز کی بحث ہے، باقی جہاں تک افضیلت کی بات ہے تو بلاشبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسوں کی موجودگی میں یزید کو حکومت کے لیئے غیر موزوں سمجھنا کچھ بعید نہیں۔ اس لیئے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس نامزدگی کی کھل کر مخالفت بھی کی۔

اور یہ بھی کہ مذکورہ بالا بحث سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ حضرت امیر معاویہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کی رائے واقعہ کے لحاظ سے سو فیصد درست تھی اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ نفس الامر میں ٹھیک کیا بلکہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ امانت کے ساتھ اور شرعی جواز کی حدود میں رہ کر کیا۔(الذھبی تاریخ الاسلام ص 267۔ 468 جلد 2)

جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو جمہور امت کی یہی رائے ہے کہ اس معاملے میں رائے انہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی صحیح تھی جو یزید کو ولی عہد بنانے کے مخالف تھے اور اس کی وجوہات کئی بیان کی گئی ہیں۔

یزید اور اسکی ولی عہدی کے سلسلہ میں ہم نے اوپر جو کچھ لکھا' جمہور امت کے معتدل اور محقق علماء کا یہی مسلک ہے ، قاضی ابو بکر بن عربی مالکی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو جائز قرار دینے کے ساتھ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں : بلاشبہ افضل یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملے کو شوری کے سپرد کردیتے اور اپنے کسی رشتہ دار اور خاص طور سے اپنے بیٹے کے لئے اسکو مخصوص نہ کرتے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے انکو جو مشورہ دیا تھا' ولی عہد بنانے یا نہ بنانے میں اسی پر عمل کرتے' لیکن انہوں نے اس افضل کام کو چھوڑ دیا۔(العواصم من القواصم ص222)

یزید پلید خلافت راشدہ کے طریقے پر ہرگز ہرگز خلیفہ نہ تها، اور نہ ہی اس کی تخت نشینی خلافت کے اصولوں پر ہوئی بلکہ اس کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنا ولی عہد مقرر کیا تها. جیسا کہ شروع میں ہم لکھ آئے ہیں ۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنهم اجمعین کا بیعت کرنا : اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابن اثیر نے الکامل میں اور ابن خلدون نے مقدمہ میں ابن خلدون میں تفصیل سے لکها کہ یہ بیعت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں ہی لی گئی تهی.

اور اس وقت یزید پلید کے فسق و فجور کهل کر عیاں نہ تهے

یہاں پر یہ بات بھی واضح رہے کہ سید الشہداء سرکار سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یزید پلید کے خلاف جنگ لڑنے کےلئے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنهم اجمعین کو دعوت نہیں دی تهی.

واقعہ کربلا تو اہل کوفہ کی دعوت پر تشریف لیجانے کے ضمن میں پیش آیا

جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنهم اجمعین پر یزید پلید کی خباثتیں ظاہر ہوئیں کہ یہ شراب پیتا ہے، ستار بجاتا اور گانا گاتا ہے، کتوں سے کهیلتا ہے، نمازوں کا تارک ہے تو ان نفوس قدسیہ نے یزید پلید کی بیعت کو توڑ دیا چنانچہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالٰی عنهما فرماتے تھے : اے قوم! خدا کی قسم ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹهه کهڑے ہوئے جب ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کیوجہ سے ہم پر کہیں آسمان سے پتهر نہ برس پڑیں ، اہل مدینہ مسجد اقدس میں منبر پرنور کے قریب جمع ہوئے اور یزید پلید کی بیعت توڑنے کا اعلان کیا . ان روایات کو ابی الفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی ( متوفی 597) نے اپنی کتاب *الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید* میں نقل کیا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید پلید کے بعض کفریہ عقائد و نظریات جن کا اظہار اس نے کیا

جب سرانور یزید پلید کے سامنے رکھا گیا تو وہ خوش ہوا اس نے اہل شام کو جمع کیا اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے سرانور الٹ پلٹ کرتا تھا اور ابن الربعری کے یہ شعر پڑھتا تھا :

لیت اشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج فی وقع الاسل
قد قتلنا القوم من ساداتکم
وعدلنا میل بدر فاعتدل
ترجمہ : اے کاش ! آج میرنے بزرگ جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے زندہ موجود ہوتے تو دیکھتے کہ بیشک ہم نے ان سے دوگنے ان کے اشراف کو قتل کرکے بدر کا بدلہ لے لیا اور معاملہ برابر کردیا ۔ (صواعق محرقہ ص 218 ،البدایہ والنہایہ 8/192۔ ابن عساکر)

فاھلوا واستھلوا فرحا
ثم قالوا یا یزید لا تشل
ترجمہ : اس وقت خوشی کے مارے ضرور بآوازبلند پکار کر کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں
علامہ ابن حجر مکی شافعی اورشعبی نے فرمایا :
وزادفیھا بیتین مشتملین علی صریح الکفر
لعبت بنو ھاشم بالملک فلا
خبر ی جاء ہ ولا وحی نزل
ترجمہ : بنی ہاشم نے ملک گیری کےلیے ایک ڈھونک رچایا تھا ورنہ کوئی خبر آسمانی آئی تھی اور نہ کوئی وحی نازل ہوتی تھی۔(تفسیر روح المعانی : علامہ آلوسی جلد 29 ص 72)

لست من خندف ان لم انتقم
من بنی احمد ما کان فعل
ترجمہ : میں اولاد خندف سے نہیں ہوں اگر اولاد احمد سے ان کے کئے ہوئے کا بدلہ نہ لوں جو کچھ انہوں نے کیا تھا ۔ (تفسیر روح المعانی : علامہ آلوسی جلد 29 ص 72، صواعق محرقہ ص218)

یہ ہیں یزید پلید کےکفری عقائد و نظریات جو دین اسلام اور اس کے حقائق کا انکار کرنے کے ساتھ اپنے نجس و ناپاک خیال کا اظہار کرتا ہے کہ میں نے بدر والوں کا اولاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بدلہ لیا ہے ۔
علامہ آلوسی اپنا فیصلہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کہ یہ خبیث یزید تو رسالت مقدسہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بھی قائل تھا یعنی یہ ہے دین اسلام سے کھلم کھلا خارج ہونا یزید کا اور اس کا یہ قول کہ وہ اللہ تعالی کی طرف اور نہ ہی اس کے دین کی طرف اور نہ ہی اس کی کتاب طرف اور نہ ہی اس کے رسول کی طرف اور نہ ہی اللہ پر اور جو کچھ اس کی طرف سے آیا ہے رجوع نہیں کرے گا۔(تذکرہ خواص الامہ صفحہ 148 ،صواعق المحرقہ صفحہ 223 ،طبری صفحہ 72،چشتی)

یزید پلید علانیہ شراب کے دور چلاتا تھا اور عیش وعشرت کرتا تھا جب اس کو روکا جاتا تو کہا کرتا تھاکوئی بات نہیں،
فان حرمت یوما علی دین احمد
فخذ علی دین مسیح بن مریم
اگر دین احمد میں شراب نوشی حرام ہے تو پھر مسیح بن مریم (علیہ السلام) کے دین پر پی لو۔
ما قال ربک ویل للذی شربوا
بل قال ربک ویل للمصلین
خدا نے شراب خوروں کے بارے میں ویل اللشاربین نہیں کہا ۔ لہذا نماز گزاروں کے متعلق ویل اللمصلین موجود ہے۔ یعنی ہلاک ہوجائے شرابی نہیں کہا بلکہ ہلاک ہوجائے نمازی کہا ہے۔ (تفسیرمظہری جلد2 صفحہ 912 ، ابن اثیرکامل جلد 2 صفحہ 36،چشتی)

مطلب یہ کہ یزید نے شراب کی حرمت میں کہا کہ اللہ نے نمازیوں کے لئے ہلاکت کا حکم دیا ہے نہ کہ شرابیوں کے لیے پس شراب حلال ہے اس لئے ہم پیتے ہیں اور یہ جنت میں بھی جنتوں کو پلائی جائی گی۔ ینز کہا کہ اگر دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں شراب نوشی حرام ہے تو تم حضرت عیسی علیہ السلام کے مذہب پر رہ کر شراب نوشی کرلو ۔ العیاذ باللہ ۔ اللہ عز و جل اورسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور قرآن کا کیسا کھلا تمسخر کیا گیا ہے اور آیات خداوندی کو کس طرح اپنی شراب نوشی بنانے کی کوشش کی ۔

یزید اپنی سوتیلی ماؤں، بیٹیوں سے اور بہنوں سے نکاح کرواتا تھا اور نماز ترک کرتا تھا۔ (بحوالہ تاریخ الخلفاء صفحہ 702)

یزید عیاش اور شرابی تھا

یزید کی عیش و عشرت اور عادات واطوار کا یہ حال تھا : وکان یزید صاحب طرب وجوارح وکلاب و قردود نھمودومنا علی اشراب ۔
یزید بڑا عیش و عشرت پسند ، شکاری ، جانوروں ، کتوں، بندروں اور چیتوں کا دلدادہ تھا اور ہروقت اس کے ہاں شراب خوری کی بزمیں لگی رہتی تھیں۔ ( بحوالہ تاریخ الخلفاء )

یزید پلید کے کفریہ عقائد صاحب تفسیر المعانی لکھتے ہیں کہ : یزید نے حضرت سید نا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کہا کہ کاش میرے بدر والے بزرگ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ میں نے بنی ہاشم کے سرداروں میں سے بڑے سردار امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو قتل کرکے بدرکا بدلہ لے لیا ہے اور اس وقت وہ خوشی سے پکارتے کہ اے یزید! تیرے ہاتھ کبھی نہ تھکیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ یزید بلاکا شراب نوش اور ناچ گانے کا دلدادہ تھا ۔ یزید کی بدکرداری دیکھ کر اہل مدینہ نے ایک وفد اس کو سمجھانے کے لئے بھیجا اور اس وفد نے ناکام واپس آکر یزید کی بدکرداری اور برائیاں بیا ن کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے دین ہے ، خدا کا دشمن ہے شراب نوش ہے ، تارک الصلواۃ ہے ، زانی ہے، فاسق ہےاور محارم سے صحبت کرنے سے باز نہیں آتا ہم اس کی بیعت توڑتے ہیں ۔ (تکمیل الایمان صفحہ نمبر 178) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...