یزید پلید نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا تھا
محترم قارئینِ کرام : یزید پلید نے حکم دیا کہ اگرحضرت امام حسین اور ان کے ساتھی رضی اللہ عنہم بیعت نہ کریں تو انہیں قتل کردو ۔ (البدایہ ولنہایہ جلد ہشتم صفحہ نمبر 191 مترجم اردو مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
یزید پلید کے وکیل آج بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ امیر یزید بن معاویہ بے گناہ ہے ، وہ قتل حسین میں ملوّث نہیں ۔ جبکہ محدثین کرام علیہم الرّحمہ لکھتے آرہے ہیں کہ یزید پلید ہی نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے اور ان کے ساتھ لڑائی کے احکامات جاری کیے تھے ۔
یزید نے کوفہ کے گورنر کو لکھا تھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تیرے شہر میں آنے کو منتخب کیا ہے ، اب یہ تیرے اوپر منحصر ہے کہ تو آزاد زندگی گذارنا چاہتا ہے یا غلامی کی زندگی ، اور کوفہ کے گورنر ملعون ابن زیاد نے اپنی زندگی گذارنے کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل (شہید) کرکے سر یزید کے پاس بھیج دیا ۔
امام ذهبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کا انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بھیجا ۔ (شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام ج 5 ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء ج 3 ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي،چشتی) ، یہی بات امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل ہے ہے : تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614)
علامہ امام جلال الدین سيوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں : فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله ۔
ترجمہ : يزيد نے عبيد الله بن زياد کہ جو والی عراق تھا کو امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا ۔ (تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت)
ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ : أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله ۔
ترجمہ : میں نے حسین (رضی اللہ عنہ) کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین (رضی اللہ عنہ) کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا تھا اور میں نے ان دونوں میں سے حسین (رضی اللہ عنہ) کو قتل کرنے کو انتخاب کیا ۔ (الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324. لابن اثیر)
ابن زياد نے امام حسين (رضی اللہ عنہ) کو خط لکھا کہ : قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام ۔
ترجمہ : مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلا میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں ۔ (الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324. لابن اثیر،چشتی)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق یزید شرابی و کافر ہے اور اس پر لعنت کرنا جائز ہے ۔ قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1225 ھ) جو کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "اپنے دور کا بیہقی" ہونے کا لقب دیا، اپنی کتاب تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں : یزید اور اس کے ساتھیوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہل ِبیت کی دشمنی کا جھنڈا انہوں نے بلند کیا اور حضرت حسین کو انہوں نے ظلماً شہید کردیا اور یزید نے دین ِمحمدی کا ہی انکار کردیا اور حضرت حسین کو شہید کرچکا تو چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ تھا کہ آج میرے اسلاف ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے آل ِمحمد اور بنی ہاشم سے ان کا کیسا بدلہ لیا ۔ یزید نے جو اشعار کہے تھی ان میں آخری شعر یہ تھا : احمد نے جو کچھ (ہمارے بزرگوں کے ساتھ بدر میں) کیا اگر اولاد سے میں نے اس کا انتقام نہ لیا تو میں بنی جندب سے نہیں ہوں ۔
یزید نے شراب کو بھی حلال قرار دے دیا تھا۔ شراب کی تعریف میں چند شعر کہنے کے بعد آخری شعر میں اس نے کہا تھا : اگر شراب دین ِاحمد میں حرام ہیں تو (ہونے دو) مسیح بن مریم کے دین (یعنی عیسایت) کے مطابق تم اس کو(حلال سمجھ کر) لے لو ۔ یزید اور اس کے ساتھیوں اور جانشینوں کے یہ مزے ایک ہزار مہینے تک رہے، اس کے بعد ان میں سے کوئی نہ بچا ۔ (تفسیر مظہری عربی ، ج 5 ص 271 سورہ 14 آیت 29)،(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327،چشتی)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یزید بد بخت نے امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کروایا اور اسے بدر والے مقتول کفار کا بدلہ قرار دیا،یزید شرابی کو حلال جنات،حرمت کعبۃ اللہ و مدینۃ المنوّرہ پامال کی غرض کونسا جرم ہے جو اس نے نہ کیا ۔ (تفسیر مظری پنجم ص 645)
ہمیشہ کی طرح دیوبندیوں نے دارالاشاعت کراچی کے ترجمہ میں ڈنڈی مار ہے اور یزید کے اشعار جو قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیئے ہیں وہ مکمل طور پر نقل نہیں کئے ۔
سورہ نمبر 24 آیت 55 کی تفسیر میں بھی قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت "ومن كفر بعد ذلك" میں یزید بن معاویہ کی طرف اشارہ ہو۔ یزید نے رسول اللہ کے نواسے کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ یہ ساتھی خاندان ِنبوت کے ارکان تھے، عزت ِرسول کی بےعزتی کی اور اس پر فخر کیا اور کہنے لگا آج بدر کے دن کا انتقام ہوگیا، اسی نے مدینۃ الرسول پر لشکر کشی کی اوت حرہ کے واقع میں مدینہ کو غارت کیا اور وہ مسجد میں جس کی بناء تقویٰ پر قائم کی گئی تھی اور جس کے جنت کو باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے اس کی بے حرمتی کی، اس نے بیت اللہ پر سنگباری کے لئے منجیقیں نصب کرایئں اور اس نے اول خلیفہ رسول حضرت ابو بکر کے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرایا اور ایسی ایسی نازیبا حرکتیں کیں کہ آخر اللہ کے دین کا منکر ہوگیا اور اللہ کی حرام کی ہوئی شراب کو حلال کردیا ۔ (تفسیر مظہری، ج 8 ص 268،چشتی)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ السّیف المسلول میں فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنا جائز ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے ثابت کیا ہے اور جو اللہ کو مانتا ہے وہ یزید سے دوستی نہیں کرے علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید پر لعنت ہے ، اور یزید کا کفرِ صریح یہ ہے کہ اس نے سرِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی اور کفریہ اشعار پڑھےایسوں پر اللہ ، تمام فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ۔ (السیّف المسلول 488تا490)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا : غرض یہ کہ یزید کافر معتبر روایت سے ثابت ہے۔ پس وہ مستحق ِلعنت ہے اگرچہ لعنت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن الحب فی اللہ البغض فی اللہ اس کا متقاضی ہے ۔ (المکتوبات، ص 203)
نوٹ : قضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کو دیوبندی اپنا رہنما کہتے ہیں اب بعض دیوبندی جو یزید کی حمایت کرتے ہیں ان کےلیئے لمحہ فکریہ جو اسے تابعی ثات کرنا چاہتے ہیں ان کےلیئے جواب ہے کہ جب کفر کرلیا یزید نے تو تابیعت کیا فائدہ دے گی اسے کیا اس کفر کے بعد بھی اس کی تابیعت باقی رہی ؟ ۔
امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یزید بد تمیز، ناصبی ، نشہ کرنے والا ، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل اور مدینۃُ المنورہ کی بے حرمتی کرنے والا تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء صفحہ 37 ، 38)
اب کیا کہتے ہیں یزید کے وکیل کہ یزید نے قتل کا حکم نہیں دیا ؟ یزید کے وکلیو اب بھی وقت ہے یزید کی وکالت و حمایت سے توبہ کر لو ایسے بدبخت کی حمایت کرتے ہو قاتلِ اہلبیت رضی اللہ عنہم اور مدینۃ المنورہ کی بے حرمتی کرنے والے خبیث پلید کی حمایت کرتے ہو کچھ شرم و حیاء کرو جن کا کملہ پڑھتے ہو انہیں کی آل کے قاتل کی حمایت کرتے ہو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment