کیا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کےلیے راضی تھے ؟
محترم قارٸینِ کرام : آج کل سب سے بڑا جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ (معاذاللہ) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کرنے پر راضی تھے اور اس کو امیرالمومنین کہتے تھے ۔ اس بات کو ثابت کرنے کےلیے انساب الاشراف اور تاریخ طبری کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ یزید کو اچھا اور صحیح سمجھتے تھے ۔ آئیے انساب الاشراف اور تاریخ طبری کی روایت کو دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ روایات قابلِ حجت ہیں ۔
علامہ بلاذری طوسی کی کتاب انساب الاشراف کی وہ روایت یہ ہے : حدثنا سعدويه، حدثنا عباد بْن العوام، حَدَّثَنِي حصين، حَدَّثَنِي هلال بن إساف قال : أمر ابن زياد فأخذ مَا بين واقصة، إِلَى طريق الشَّام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يترك أحد يلج وَلا يخرج، فانطلق الْحُسَيْن : يسير نحو طريق الشَّام يريد يزيد بْن مُعَاوِيَة فتلقته الخيول فنزل كربلاء، وَكَانَ فيمن بعث إِلَيْهِ عمر ابن سعد بن أبي وقاص، وشمر ابن ذي الجوشن، وحصين بْن نمير، فناشدهم الْحُسَيْن أن يسيروه إِلَى يزيد فيضع يده فِي يده فأبوا إِلا حكم ابْن زياد ۔
ترجمہ : عبید اللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اور شام و بصرہ کے بیچ پہرہ لگا دیا جائے اور کسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے ، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ سے ملنے کےلیے شام کی طرف چل پڑے ، پھر راستے میں گھوڑ سواروں نے انہیں روک لیا اور وہ کربلا میں رک گئے ، ان گھوڑ سواروں میں عمر بن سعد بن ابی وقاص ، شمر بن ذی الجوشن ، اور حصین بن نمیر تھے ۔ حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے التجا کی کہ انہیں یزید کے پاس لے چلیں ، تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں ، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم عبید اللہ ابن زیاد کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے ۔ (انساب الاشراف جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 383)
ایک یزید کے وکیل غیر مقلد نے انساب الاشراف کی اس سند کو امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ۔ (یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر 349)
اور تاریخ طبری کی روایت کے متن میں راوی نے کچھ اپنی طرف سے اضافے کیے ہیں جس میں امیرالمومنین کا لفظ بھی اضافہ شدہ ہے ۔ وہ روایت یہ ہے : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ حصين: فَحَدَّثَنِي هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ مَا بين واقصة إِلَى طريق الشام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يدعون أحدا يلج وَلا أحدا يخرج، فأقبل الْحُسَيْن وَلا يشعر بشيء حَتَّى لقي الأعراب، فسألهم، فَقَالُوا:لا وَاللَّهِ مَا ندري، غير أنا لا نستطيع أن نلج وَلا نخرج، قَالَ: فانطلق يسير نحو طريق الشام نحو يَزِيد، فلقيته الخيول بكربلاء، فنزل يناشدهم اللَّه والإسلام، قَالَ: وَكَانَ بعث إِلَيْهِ عُمَر بن سَعْدٍ وشمر بن ذي الجوشن وحصين ابن نميم، فناشدهم الْحُسَيْن اللَّه والإسلام أن يسيروه إِلَى أَمِير الْمُؤْمِنِينَ، فيضع يده فِي يده ۔
یزید کے وکیل ترجمہ کرتے ہیں : ہلال بن یساف کہتا ہے کہ عبید اللہ ابن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اور شام و بصرے کے بیچ پہرہ لگا دیا جائے اور کسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے، چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ان باتوں سے بے خبر آگے بڑھے، یہاں تک کہ بعض اعرابیوں کے ساتھ آپ کی ملاقات بھی ہوئی تو آپ نے ان سے پوچھ کاچھ کی تو انہوں نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ! ہمیں کچھ معلوم نہیں ، کیونکہ نہ ہم وہاں جا سکتے ہیں اور نہ وہاں سے نکل سکتےہیں ۔پھر حسین رضی اللہ عنہ شام کے راستے یزید کی طرف چل پڑے، پھر راستے میں گھوڑے سواروں نے انھیں کربلا کے مقام پر روک لیا اور وہ رک گئے ۔ تو انھیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دینے لگے ۔ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر و بن سعد بن ابی وقاص ، شمر ذی الجوشن اور حصین بن نمیر کو ان کی طرف بھیجا تھا۔ حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہا: وہ انہیں امیر المومنین یزید بن معاویہ کے پاس لے چلیں ، تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں ۔ (تاریخ طبری 3/299)
اور تاریخ طبری کی اس سند کو اسی یزید کے وکیل نےصحیح قرار دے دیا ۔
(یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر365)
یزید کے وکیل غیر مقلد کا رد
یزید کے وکیل غیرمقلد کی یہ دونوں تصحیح اعلیٰ درجہ کی جہالت پر مبنی ہیں کیونکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے میری تحقیق کے مطابق عباد بن العوام عن حصین کےطرق سے اصول میں ایک بھی حدیث نہیں لی ہے ۔ صرف ایک جگہ اس طرق کا ذکر کیا ہے وہ بھی مقرون اور متابعت میں ۔
وہ یہ ہے ۔ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، يُحَدِّثَانِهِ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا؟» فَقَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَارْجِعْهُ»
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: أَتَى بِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا، فَقَالَ: «أَكُلَّ بَنِيكَ نَحَلْتَ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَارْدُدْهُ»، (صحیح مسلم (3/1242، رقم الحدیث 1623)
اور اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کرنے کےلیے اس حدیث کے متابعت کا ذکر بھی کر دیا ہے جو کہ مقرون سند ہے عباد بن العوام عن حصین کی وہ یہ ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: تَصَدَّقَ عَلَيَّ أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ، فَقَالَتْ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «اتَّقُوا اللهَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ»، فَرَجَعَ أَبِي، فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ ۔ (صحیح مسلم (3/1242، رقم الحدیث 1623)
اور اوپر والی سند میں عباد بن العوام عن حصین کےطرق کی متابعت بھی امام مسلم نے دوسری سند میں ذکر کر دیا ہے علی بن مسہر عن ابی حیان کی سند نے عباد بن العوام عن حصین کے طرق کی متابعت کر رکھی ہے اور وہ سند یہ ہے : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ، أَنَّ أُمَّهُ بِنْتَ رَوَاحَةَ، سَأَلَتْ أَبَاهُ بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ مِنْ مَالِهِ لِابْنِهَا، فَالْتَوَى بِهَا سَنَةً ثُمَّ بَدَا لَهُ، فَقَالَتْ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا وَهَبْتَ لِابْنِي، فَأَخَذَ أَبِي بِيَدِي وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمَّ هَذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ أَعْجَبَهَا أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى الَّذِي وَهَبْتُ لِابْنِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا بَشِيرُ أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا؟» قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: «أَكُلَّهُمْ وَهَبْتَ لَهُ مِثْلَ هَذَا؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا، فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ» ۔ (صحیح مسلم (3/1242، رقم الحدیث 1623،چشتی)
اس سے ثابت ہو گیا کہ امام مسلم نے عباد بن العوام عن حصین کے طرق کو مقرون اور متابعت کے طور ذکرکیا لہذا امام مسلم نےعباد بن العوام عن حصین کے طرق کی منفرد روایت کوقبول نہیں کیا کیونکہ عباد بن العوام کا سماع حصین سے اس کے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے لہذا بنا قدیم السماع راوی کے یا متابعت کے اس کی سند ضعیف ہے ۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ امام مسلم متابعت میں بعض اوقات ایسی سند لاتے ہیں جو ان کی شرط پر صحیح نہیں ہوتی ۔
علامہ نووی رحمتہ اللہ علیہ انہی طبقات کی تقسیم پر بحث کے دوران لکھتے ہیں : ويأتى بأحاديث الطبقتين فيبدأ بالاولى ثم يأتى بالثانية على طريق الاستشهاد والاتباع ۔
امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ دونوں طبقوں کے راویوں سے روایت لائے ہیں ۔ پہلے طبقے اولیٰ سے پھر استشہاد ومتابعت میں دوسرے طبقہ کے راویوں سے۔(مقدمہ شرح صحیح مسلم صفحہ ۱۵)
اس کے چند سطور بعد صحیح مسلم میں متکلم فیہ راویوں پر اعتراض کے جواب میں بھی لکھتے ہیں : أن يكون ذلك واقعا في المتابعات والشواهد لافي الأصول وذلك بأن يذكر الحديث أولا باسناد نظيف رجاله ثقات ويجعله أصلا ثم يتبعه باسناد آخر أو أسانيد فيها بعض الضعفاء على وجه التأكيد بالمتابعة ۔
ترجمہ : ایسے متکلم فیہ راوی متابعت اور شواہد میں ہیں ۔ا صول میں نہیں کیونکہ پہلے وہ ثقہ راویوں والی صاف ستھری سند سے روایت لاتے ہیں اور اسے اصل قرار دیتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد کوئی اور سند یا ایسی سند جس میں بعض راوی ضعیف ہوتے ہیں بطور تاکید وتائید لاتے ہیں ۔ (مقدمہ شرح مسلم صفحہ 16)
یہی بات ابن عبدالہادی حنبلی نے بھی کہی ہے ۔ (دیکھیے الصارم المنکی صفحہ ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۳۱۸ھ)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ صحیح مسلم کی ایک روایت پر ایک اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں : لَوْ ثَبَتَ ضَعْفُ هَذَا الطَّرِيقِ لَمْ يَلْزَمْ مِنْهُ ضَعْفُ الْمَتْنِ فَإِنَّهُ صَحِيحٌ بِالطُّرُقِ الْبَاقِيَةِ الَّتِي ذَكَرَهَا مُسْلِمٌ وَقَدْ سَبَقَ مَرَّاتٍ أَنَّ مُسْلِمًا يَذْكُرُ فِي الْمُتَابَعَاتِ مَنْ هُوَ دُونَ شَرْطِ الصَّحِيحِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ ۔
ترجمہ : اگر اس سند کا ضعف ثابت ہوجائے تو پھر متن کے ضعیف ہونے کو مستلزم نہیں کیونکہ وہ دوسری سندوں سے صحیح طور پر ثابت ہے ۔ جنہیں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے اور پہلے کئی بار گزر چکا ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ متابعات میں ایسی روایت بھی لے آتے ہیں جو الصحیح کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی ۔ (شرح مسلم جلد 2 صفحہ 59)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح سے ثابت ہو گیا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ متابعات میں ایسی سند بھی لا تے ہیں جو ان کی شرط پر صحیح نہیں ہوتی اس لیے عباد بن العوام عن حصین کی سند امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک علت پائی جاتی ہے کہ عباد بن العوام کا سماع حصین سے اس کے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اس سند کو لائے بھی متابعات اور شواہد میں ہیں لہذا سنابلی غیر مقلد کا اس کو امام مسلم کی شرط پر صحیح کہنا جہالت ہے ۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قلت : "ولا يلزم من كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحا لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة ۔
ترجمہ : میں (امام ابن حجرالعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں : صحیح (بخاری و مسلم) کے رجال سے جو اسناد کے رواۃ ہیں یہ لازم نہیں آتا جو ان رواۃ کے ساتھ حدیث وارد ہو وہ صحیح ہو کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اس روایت میں شذوذ یا علت ہو ۔ (النكت على كتاب ابن الصلاح النوع الاول: الصحیح (1/274)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ آگے کی عبارت میں امام ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : امام ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : من حكم لشخص بمجرد رواية مسلم عنه في صحيحه : بأنه من شرط الصحيح عند مسلم فقد غفل وأخطأ، بل ذلك يتوقف على النظر في أنه كيف روى عنه وعلى أي وجه روى عنه ۔
ترجمہ : جو آدمی کسی شخص کے لئے یہ حکم لگائے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے اپنی صحیح میں روایت کی کہ وہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں شرط صحیح پر ہے تو اس نے غفلت برتی اور خطا کھائی ، بلکہ اس میں توقف کیا جائے گا کہ کس طرح انہوں نے اس سے روایت کی ہے اور کس طریقے پر اس سے روایت کی گئی ہے ۔ (النكت على كتاب ابن الصلاح النوع الاول: الصحیح (1/274)
س لیے امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : إذْ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ الرَّاوِي مُحْتَجًّا بِهِ فِي الصَّحِيحِ أَنَّهُ إذَا وُجِدَ فِي أَيِّ حَدِيثٍ، كَانَ ذَلِكَ الْحَدِيثُ عَلَى شَرْطِهِ ۔
ترجمہ : جب کسی راوی سے الصحیح ( یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم) میں احتجاج کیا گیا ہو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جس حدیث میں بھی ہوگا اس کی حدیث الصحیح (یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم ) کی شرط پر ہو گی ۔ (نصب الرایہ 1/342،چشتی)
امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ کی اسی بات کو غیر مقلد ارشاد الحق اثری نے تسلیم کیا ہے اور دیوبندی عالم سرفراز صفدر کے جواب میں دلیل کے طور پر لکھا ہے ۔ (دیکھیے مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینہ میں صفحہ نمبر 42)
خود سنابلی کی کتاب سے اس کی دونوں تصحیح کا رد بلیغ:سنابلی غیر مقلدصحیحین میں موجود مختلطین راویوں کی روایت کے بارے میں خود اپنی جماعت کے غیر مقلد زبیر زئی کا رد کرتے ہوئے لکھتا ہے۔" الکواکب النیرات" کے محقق لکھتے ہیں:"و ھذ الذی ذکروہ من ان کل من روی عن المختلط و اخرج بطریقه صاحبا الصحیح و احدھما فھو ممن سمع منه قبل الاختلاط خلاف الواقع و مخالف لما صرح بہ ائمة الحدیث"
ترجمہ بقول سنابلی: لوگوں نے جو یہ بیان کیا ہےکہ صحیحین کے مصنفین یا ان میں سے کسی ایک نے مختلط یا ان کے طرق سے جو بھی روایت نقل کی ہے، وہ ان کے اختلاط سے پہلے سنی ہو ئی ہے۔یہ بات حقیقت کے بر عکس ہےاور آئمہ حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے ۔ (یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر 244)
لہٰذا اس سے ثابت ہو گیا سنابلی کا انساب الاشراف کی روایت کو شرط مسلم پر صحیح کہنا اور تاریخ طبری کی روایت کو صحیح کہناغلط اور مردود بلکہ اعلیٰ لیول کی جہالت ہے کیو نکہ اس دونوں روایتوں میں عباد بن العوام عن حصین کا طرق موجود ہے اور عباد بن العوام کا حصین بن عبدالرحمن سے سماع اس کے اختلاط (حافظہ خراب ) ہونے کے بعد کا ہے۔ لہذا انساب الاشراف اور تاریخ طبری کی سند ضعیف اور مردود ہے اور حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے منسوب یزید پلید کی بیعت اور امیرالمومنین کہنے والی روایت ضعیف مردود اور باطل ہے ۔ (الحمدللہ)
سنابلی غیر مقلد کا جھوٹ ملاحظہ فرماٸیں : جب سنابلی کو جید اور اعلیٰ لیول کے محقق محدثین سے عباد بن العوام کا حصین سے قدیم سماع کی دلیل نہیں ملی تو ایک نامعلوم شخص اسماعیل رضوان کی کتاب حصین بن عبدالرحمن السلمی و روایہ فی الصحیحین کا حوالہ دے دیا کہ عبادالعوام کا حصین سے قدیم سماع ہے۔ اس کے ثبوت کے لیے نہ ہی کوئی عربی عبارت پیش کی بلکہ صرف کتاب کا نام لکھ دیا اور اسی پر گزارہ کیا ۔اب پتہ نہیں اسماعیل رضوان نے قدیم السماع ہونے کی دلیل کس امام سے لی ہے ؟ ۔(دیکھیے یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر 352)
ہم اعلیٰ لیول کے محدثین اور محققین سے سنابلی کی اس بات کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں کہ عباد بن العوام کا سماع حصین بن عبدالرحمن سے قدیم نہیں بلکہ اختلاط (حافظہ خراب) ہونے کے بعد کا ہے ۔
اب ہم آتے ہیں حصین کے قدیم شاگردوں کی تحقیق پر کہ حصین سے اس کے حافظہ خراب ہونے سے پہلے کن کن راویوں نے ان سے حدیث سنی ہے ۔
شیخ الاسلام امام زین الدین عراقی لکھتے ہیں:وقد سمع منه قديما قبل أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان والله تعالى أعلم ۔
ترجمہ: اور تحقیق تغیر (حافظہ خراب ہونے )سے پہلے سلیمان تیمی، سلیمان الاعمش ، شعبہ اور سفیان (ثوری) نے اس (حصین بن عبدالرحمن) سے سنا۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح النوع الثاني والستون: معرفة من خلط في آخر عمره من الثقات(1/458)
حافظ الدنیا امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں (جو میرے روحانی شیخ اور حدیث کےاستاد ہیں):فَأَما شُعْبَة وَالثَّوْري وزائدة وهشيم وخَالِد فَسَمِعُوا مِنْهُ قبل تغيره ۔
ترجمہ : برحال شعبہ، سفیان (ثوری)، زائدہ ،ہشیم اور خالد نے (حصین بن عبدالرحمن سے) ان کے حافظہ کے خراب ہونے سے پہلے سنا۔(ھدی الساری مقدمة فتح الباری الْفَصْل التَّاسِع فِي سِيَاق أَسمَاء من طعن فِيهِ من رجال (1/98،چشتی)
امام المحدثین امام شمس الدین سخاوی لکھتے ہیں:وَفِي هَؤُلَاءِ مَنْ سَمِعَ مِنْهُ قَبْلَ الِاخْتِلَاطِ كَالْوَاسِطِيِّ وَزَائِدَةَ وَالثَّوْرِيِّ وَشُعْبَةَ ۔
ترجمہ : اور ان میں مذکورہ (رواۃ) میں سے جنہوں نے حصین بن عبد الرحمن کے حافظہ خراب ہونے سے پہلے سنا وہ واسطی، زائدہ ، سفیان (ثوری) اور شعبہ ہیں ۔ (فتح المغيث بشرح الفية الحديث مَعْرِفَةُ مَنِ اخْتَلَطَ مِنَ الثِّقَاتِ أمثلة لمن اختلط من الثقات (4/374)
امام المحدثین والفقہاء امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:وَمِمَّنْ سَمِعَ مِنْهُ قَدِيمًا سُلَيْمَانُ التِّيمِيُّ، وَالْأَعْمَشُ وَشُعْبَةُ وَسُفْيَانُ.
ترجمہ : اور ان (رواۃ) میں سے جنہوں نے حصین بن عبدالرحمن سے (اختلاط) سے پہلے سنا وہ سلیمان تیمی، اعمش، شعبہ اور سفیان (ثوری) ہیں۔ (تدريب الراوي النَّوْعُ الثَّانِي وَالسِّتُّونَ مَعْرِفَةٌ مِنْ خَلَطَ مِنَ الثِّقَاتِ (2/903)
امام الجرح والتعدیل امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:قال يزيد بن الهيثم عن يحيى بن معين: ما روى هشيم وسفيان عن حصين صحيح، ثم أنه اختلط.وقال أيضاً يزيد: قلت ليحيى بن معين: عطاء بن السائب وحصين اختلطا؟ قال: نعم.قلت: من أصحهم سماعاً؟ قال: سفيان أصحهم يعني الثوري وهشيم في حصين ۔
ترجمہ : یزید بن الھیثم (ثقہ) نے کہا امام یحییٰ بن معین سے کہ (انہوں نے کہا) جو ہشیم اور سفیان نے حصین (بن عبدالرحمن)سے روایت کی وہ صحیح ہے، پھر ان کو اختلاط ہو گیا (یعنی حافظہ خراب ہو گیا تھا)۔اور اسی طرح یزید بن الھیثم (ثقہ) کہا کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے پوچھا: عطاء بن السائب اور حصین کو اختلاط ہوگیا تھا ؟
انہوں نے کہا : ہاں۔میں (یزید بن الھیثم ) نے پوچھا: ان میں زیادہ صحیح سماع کن کا ہے؟ انہوں نے( یعنی امام یحییٰ بن معین) نے کہا: سفیان ان میں زیادہ صحیح یعنی ثوری اور ہشیم ہیں حصین کی (حدیث) میں ۔ (شرح علل الترمذي حصين بن عبد الرحمن (2/739)
امام برہان الدین ابناسی شافعی (متوفی 802 ھ) لکھتے ہیں:وقد سمع منه قديما أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان
ترجمہ: اورتحقیق تغیر سے پہلے سلیمان تیمی، سلیمان الاعمش ، شعبہ اور سفیان (ثوری) نے اس (حصین بن عبدالرحمن) سے سنا ۔ (الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح النوع الثاني والستون معرفة من خلط في آخر عمره من الثقات (2/765،چشتی)
امام ابوالبرکات ابن الکیال شافعی (متوفی 929ھ) لکھتے ہیں:وقد سمع منه قديما قبل أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان
ترجمہ: اورتحقیق تغیرسے پہلے سلیمان تیمی، سلیمان الاعمش ، شعبہ اور سفیان (ثوری) نے اس (حصین بن عبدالرحمن) سے سنا۔ (الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات (1/136)
خود غیر مقلد ارشاد الحق اثری (جس کی تحقیق اور علم کو یزید کا وکیل سنابلی بھی مانتا ہے اور خود سنابلی نے اپنی سینے پر ہاتھ باندھنے والی کتاب میں اس کی تعریف بھی بیان کی ہے) نے اس بات کو تسلیم کیا اور امام عراقی کے قول سے دلیل لی ۔
ارشاد الحق اثری غیر مقلد اپنی کتاب میں لکھتا ہے : علامہ عراقی لکھتے ہیں : وقد سمع منه قديما قبل أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان والله تعالى أعلم ۔
ترجمہ : بقول ارشاد الحق اثری غیرمقلد : یعنی حصین سےتغیر سے پہلےسلیمان تیمی ، سلیمان اعمش، شعبہ اور سفیان نے سماع کیا ۔ (توضیح الکلام صفحہ 450)
جمہور محدثین علیہم الرّحمہ : سے ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ عباد بن العوام کا سماع حصین بن عبد الرحمٰن السلمی سےاس کے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے اور جس سے انساب الاشراف اور تاریخ طبری کی روایت کی سند ضعیف اور مردود ثابت ہو گی اور اس سے سنابلی غیر مقلد کی شرط مسلم اور دوسری تصحیح باطل ثابت ہو ئی اور جس سے ثابت ہوا سنابلی ناصبی غیرمقلد کذاب ہے کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں عباد بن العوام کا حصین بن عبدالرحمٰن سے قدیم سماع کا دعویٰ کیا ہے جو کہ ایک جھوٹ ہے ۔ (دیکھئے یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر 352)
اس کے علاوہ اس واقعہ اور اس کی روایت کے باطل ہونے کے شواہد مندرجہ ذیل ہیں : ⬇
(1) ہلال بن یساف نے بیعت اور امیرالمومنین والی بات خود امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی نہ ہی یہ راوی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ساتھ تھا نہ ہی یزیدی لشکر کے ساتھ تھا پھر اس راوی نے یہ روایت کس سے سنی ؟
(3) ہلال بن یساف کوفی نے یہ راویت کوفہ میں کیسے اور کس سے سن لی تھی جب کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی شہید کر دیئے گئے تھے ؟
(3) اگر (معاذاللہ ) امام عالی مقام رضی اللہ عنہ یزید کو اچھا سمجھتے تو مدینہ میں ہی بیعت فرما لیتے شام آنے کی ضرورت نہ تھی ؟
(4) اگر ( معاذ اللہ) امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو شام یزید سے ملنے جانا تھا تو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ اپنا سفیر بنا کر نہ بھیجتے اور نہ ہی وہ شہید کیے جاتے ؟
(5) اگر اما م عالی مقام رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ) بیعت کے لیے تیار تھے تو مدینہ میں ہی سب کے سامنے بیعت فرمالیتے اور کربلا میں اپنے بھائیوں ، اپنے بچوں ، اپنی ازواج اور اپنے اصحاب کو ساتھ نہ لاتے ؟
ان تمام شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ راویت اور وا قعہ من گھڑت اور باطل ہےاوراس کا حقیقت کے ساتھ دور دور کا تعلق تک نہیں ہے ۔
الحمد للہ ہم نے یزید کے وکیلوں کا رد بلیغ خود انہیں سے اوراصول حدیث اور جمہور محدثین علیہم الرّحمہ سے ثابت کر دیا ہے اور اس کے علاوہ دریتاً اس واقعہ کو باطل ثابت بھی کیا ہے ۔
آخر میں انہیں یزید کے وکیلوں غیر مقلدوں کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی کی بھی سن لیجیئے وہ لکھتے ہیں : یہ روایت کئی وجوہ سے منکر و مردود ہے اس کا راوی و سند نامعلو ہے اور کئی روایاتِ صحیحین و صحیحہ کے خلاف ہے ۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو اگست 2013)
الحمد للہ ثم الحمد للہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی پاک ہستی اس مردود روایت سے پاک ہے ۔ یا اللہ عزوجل ہم سب سنیوں کو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اولاد پاک اہلبیتِ اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اٹھانا اورہم سب سنیوں کو دنیا میں بھی حسینی رکھنا اور قیامت کے دن بھی ۔ اور یزید کے وکیلوں کو ان کے امام یزید پلید کے ساتھ ہی قیامت کے دن اٹھانا اور اس پلید کے ساتھ ہی ان کا حشر فرمانا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment