Thursday 26 September 2019

حضرات مولا علی المرتضیٰ و امیر معاویہ رضی ﷲ عنہما کا باہمی تعلق و محبت

0 comments
حضرات مولا علی المرتضیٰ و امیر معاویہ رضی ﷲ عنہما کا باہمی تعلق و محبت

محترم قارئین : حیرت کی بات ہے بعض لوگ خود کو سنی ، اور محبِ مولا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مگر فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نہیں مانتے یا جھٹلا دیتے ہیں آیئے ایک بار پھر فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے اپنے دلوں کو منور کرتے ہیں اور حضرات مولا علی المرتضیٰ و امیر معاویہ رضی ﷲ عنہما کا باہمی تعلق و محبت کے بارے میں جانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت و ادب پر قائم رکھے آمین ۔

محترم قارئینِ کرام دشمنان اسلام لوگوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے ۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں ، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف ، ہشام کلبی ، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا ۔ یہاں ہم چند روایات اور کچھ نکات پیش کر رہے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی ؟

حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی ﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)

حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258،چشتی)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا ۔ امارات معاویہ رضی ﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے ۔ (البدایہ ج 8 ص 130)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131)

حضرت ابو امامہ رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا ۔ (بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)

حضرت علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان ، حضرت علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار عقیل ، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔‘‘ ( ابن عساکر۔ 42/416،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک ، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے ۔ ( سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58)

ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا : اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا : ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا : علی ! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسیٰ کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170)

خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ ” آپ نے فرمایا : “بیان کرو ۔” کہنے لگا : “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا ۔” آپ نے فرمایا : “کاش ! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ ( طبری۔ 3/2-357)

جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : “لوگو! آپ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں ۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ المصنف 14/38850)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا , فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا , وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا , فَقَالَ : فِيمَا يَقُولُ : " أَيُّهَا النَّاسُ , لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ , وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ ! لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ ! " ۔(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37151،چشتی)

یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا ۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139)

ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کوئی ذی شعور بے سند اور لا یعنی بات نہیں کر سکتا ایک اور بات امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما ہم سے زیادہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ہیں جب انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان سے سالانہ وظائف بهی قبول کرتے رہے تو ہمیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کا کوئی حق نہیں. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کسی کافر یا فاسق کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے . اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید درپردہ سرداران نوجوانان جنت رضی اللہ عنہما پر تنقید ہے ۔

حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا ، جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے ، پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں ، میں تو صرف قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو مانگتا ہوں ، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں ۔ (ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ)

وہ نہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ؛ بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے ، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم ، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)

حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند نہ کرو۔ واللہ! اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم ضرور دیکھو گے کہ سر ، شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گر رہے ہوں گے جیسا کہ حنظل کا پھل اپنے پودے سے گرتا ہے ۔ (ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ کتاب الجمل، باب صفین۔ جلد 14)( 38850۔ ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)

حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : زید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی (رضی اللہ عنہ) اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139،چشتی)

اہل تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ (Circular) نقل کیا گیا ہے جو آپ نے جنگ صفین کے بارے میں شہروں میں بھیجا۔ اس میں لکھا ہے : حضرت علی علیہ السلام کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا :
ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی ۔ (سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58،چشتی)
یہ تحریر وہ خط ہے جو نہج البلاغہ کے مولف شریف رضی کے مطابق مختلف شہروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بھیجا گیا تاکہ اس جنگ سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر کو واضح کیا جا سکے ۔ انڈر لائن الفاظ سے واضح ہے کہ آپ ، اہل شام کو عین مسلمان سمجھتے تھے اور ہر حال میں صلح چاہتے تھے ۔ اس سے ابو مخنف کی ان روایات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جن کے مطابق حضرت علی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے مجبور کر دینے پر وہ بادل نخواستہ جنگ بندی کے لیئے تیار ہوئے تھے ۔

فرمان مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں ان سے خطاء اجتہادی ہوئی ہم سب ساتھ ہونگے ۔ (ازالۃُ الخفاء جلد 4 صفحہ 522)

اے خود کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا محب کہنے والو اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والو حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں اپنا بھائی فرما رہے ہیں کیسے بد بخت ہو تم جنہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اپنا بھائی کہیں تم انہیں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو ان سے بغض رکھتے ہو ارے نہیں نہیں بلکہ تم لوگ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جھٹلاتے اور انہیں کی توہین کرتے ہو کچھ سوچو کیا تم لوگ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم و محقق ہو ؟ اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔