Wednesday 18 January 2017

رسول اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وسلّم کے جسم اقدس کا سایہ نہیں تھا اجماع امت

0 comments

رسول اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وسلّم کے جسم اقدس کا سایہ نہیں تھا اجماع امت

"حضورعلیہ السلام نور بھی ھیں اسلئیے آپکا سایہ نہ تھا"
حافظ علامہ ابن جوزی محدث رحمہ اللہ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ھیں : کہ حضور پر نور علیہ الصلوۃ والسلام کا سایہ نہ تھا نہ کھڑے ھوئے آفتاب کے سامنے مگر آپکا نور آفتاب پر غالب آ گیا اور نہ چراغ کے سامنے مگر یہ کہ حضور کے تابش نور نے اسکی چمک کو دبا لیا ۔ ( الوفاء باحوال المصطفی جلد 2 ،صفحہ 407 باب: 29 مطبوعہ: مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد )
Nafee E Zille (Saya)- Nabi Aur Ijma-e- Ummat

Qazi Ayaz RA farmate hain..

Huzur ka saya nahin tha Din Mein Na Raat mein dikhyee deta tha

Shifa Qazi Ayaz Vol 1 page 243

Huzur Mujadid Alfesani farmate hain ke

Allame shadat mein har shaks ka saya saye wale se lateef tar houta hai Huzur se lateef rab ne banaya nahin tou saya kahan se houta

Maktubaate Imam RabaniVol 3 Page 238

Yaad Rahe Mujadid alfe sani kou Tareek e ahle hadee mein Ibrahim sialkotvi ne Apna imam tasleem kiya hai

Shah Abdul haq Muhadiss Dehlvi farmate Hain

Hazrat usman Baraate Siddiqa ke mutaliq Bagahe Risalat mein arz karte hainke Allah ne Aapkee saye kee hifazat kee ke usse Zameen par padhne nahin deta(ke kahin Koi napak chiz par na pad jaye) Tou aapkee Ghar kee kis Tarah hifazat kare ga

Madarijun Nabuwah Vol 2 page 161

Yahi Shah Abdul haq Muhadiss Dehlvi farmate Hain

Huzur ka Saya na suraj kee raushnee mein dikh ta na chaand mein..

Madrijun Nabuwah Vol 1

Shah Abdul Aziz Muhadis Dehlvi Farmate hain

Ke Rasulallah ka saya Zameen par nahin girta tha

Allama Nasfee Farmate hain

Hazrat Usman ne Arz kiya ke Ya rasulallah allah tala ne aapka Saya zameen par Girne na diya take koi uspar apna pair na rakh de

Tafseer e Midraak Vol 2 Page 103

Tafseer e Azizi Para 30 Page - 219

Ibne Hajar Makki likhte hain

Ye Chiz huzur ke noor houne kee taeed kartee hai ke huzur ka saya na Suraj kee raushnee mein dikhta tha na chaan mein

Book - Afzalul qura Matboa Misr

Allama Zarqani Farmate hain

Huzur ka Saya na suraj raushnee mein dikh ta na chaand mein..............huzur ka saya na houne parAapke kee woh dua hai ke huzur ne farmaya Ae Allah mujhe noor kar (wajalnee Nooraoun) (rawahou muslim)

Zarquani Matboa MIsr Vol 4 page 220

Imam Ragib Asfahani likhte hain

Marvi hai ke jab Huzur chalte tou huzur ka Saya na tha...

Mufaridaate Imam Ragib Asfahani Matboa Misr page -317

Allama Shabuddin Qafaji Farmate hain

Ke

Huzur ke nabuwat kee daleel mein se ye bhi hai ke aapka saya na suraj kee roushnee mein dikh ta tha na chand kee .......

Nasim ur Riyaz Vol 3 page 319

Rashid Ahmed GAngohi likhta hain

Ke Rasulallah ka saya na houna tawatur sabit hain

Imdadus Suluk Page 84 - 85

Allama Nasfee Farmate hain

Hazrat Usman ne Arz kiya ke Ya rasulallah allah tala ne aapka Saya zameen par Girne na diya take koi uspar apna pair na rakh de

Tafseer e Midraak Vol 2 Page 103

Eitraz karny waly k ghar ki dalil

Rasheed GAND'GOHI
"To Atar Se Sabit howa He
K
Pyare AQA
(Alyeh SALAM)
SAYA Na Rakhte the"
-Imdad'UL'SULOOK
P 156
-
Ashraf ALI THANVI
"Mashoor He K Hamare
Pyare AAQA
(Alyeh SALAM)
Ka SAYA Na tha"
-Shukar AL Ne'Mata
P 20
-Khutbat'E'HAKEEM UL Islam
P 117
-
Ulma'E'DEOBAND
Owais KANDALVI
"Pyare AAQA
(Alyeh SALAM)
K
JISM Mubarak Ka SAYA Na tha"
-Usool Al Islam
P 92

Mufti AZiZ'UR' Rehman
"Pyare AQA
(Alyeh SALAM)
Ka Badan NOOR tha
Is Wajh Se
Apka SAYA Na tha"
-FAtAWA Dar'UL Uloom DEOBAND
J 1
P 142

DEO
ABiD MiYA
"Pyare AQA
(Alyeh SALAM)
Ka JISM NOORANi tha
JiS WaQt AP Dhoop
Or
Chandni Rat Me Ate Amada Farmate
to
SAYA NA hota"
-Rehmatal'LiL Alameen
P 53
ZAFAR Ahmed
"Pyare AQA
(Alyeh SALAM)
K SAYA ko Zamen Pr WaQa na Kia
Ta K Is Pr KiSi ki QADAM Na Pare"
-Imdad'UL AHKAM
J 1
P 340

DEO
MEHDi HASAN
Or
JAMEEL UR REHMAN
"Pyare AAQA
(Alyeh SALAM)
Ka SAYA Na Tha
Hum Isi Ko tasleem Karte hai"
-MAHANA TaJalli DEOBAND
MARCH 1959

KHALiFA THANVi Enayat ALI SHAH DEOBANDi
-JISM PAK InKa SARAPA NOOR Tha
Is Lie SAYE Se BilKul DOOR Tha-
-BAAG'E'JANNAt
P 284

KHALiFA THANVi
AZiZ UR REHMAN DEO
-Sara Badan HuZoor Ka Jub NOOR Ho Gya
Phir DOOR Kia hai
SAYA Agr DOOR Ho Gaya-
-Kash'KOL Maj'ZOOB
P 92

Mufti Abdul Rehman ASHRAFi DEOBANDi
"Bator Moa'JiZAH
Pyare AAQA
(Alyeh SALAM)
Ka SAYA Nai tha"
-ROZNAMA JANG
LAHOR
February 1990

NAWAB SiDDiQ HASAN BHOPALI
Urf
Ulama'E'WAHABi
"Ap Ka SAYA Zameen Pr Na Parta"
-AL SHAMAt UL AL ANEERIA
P 51۔

حسن و جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

0 comments
حسن و جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

حضور پُر نور ﷺ اپنے حسن و جمال میں بے مثال ہیں۔کوئی انسان آپ ﷺ کا حسن و جمال کیسے بیان کر سکتے ہے۔حضرات علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ آقائے دو عالم ﷺ پر ایمان لانا اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس بات پر ایمان نہ لائے جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کے جسم شریف کو اس شان سے پیدا فرمایا کہ کوئی انسان آپﷺ جیسا نہ آپ ﷺ سے پہلے پیدا ہوا نہ آپﷺ کے بعد پیدا ہو گا۔(انوار محمدیہ، ص۱۹۴)آپ ﷺ جیسا کون ہو سکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔قَد جاء کُم من اللہ نور۔تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور مجسم تشریف لایا ہے۔اس نور مجسم جیسا اور کوئی ہو سکتا ہے؟خود سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں ؛اَنَا اَمْلَحُ وَاَخِیْ یُوْ سُفُ اَصْبَحَ۔(مدراج النبوۃ جلد اول، ص۵، و توریخ حبیب الہٰ، ص ۱۵۷)میں ملیح ہوں اور میرے بھائی یوسف علیہ السلام خوب گورے تھے۔سب جانتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام اپنے حسن و جمال میں شہرہ آفاق ہیں، مگر حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ ملاحت رکھتا ہوں۔ثابت ہوا کہ سرکار دو عالم ﷺ یوسف علیہ السلام سے زیادہ خو بصورت تھے، آپﷺ کے حسن و جمال کے ملاحظہ کرنے والے صحابہ کیا فرماتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول پاکﷺ سے کوئی شے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھی۔گویا آفتاب آپ ﷺ کے چہر ے میں اتر آیا ہے۔(رواہ التر مذ ی ، مشکوۃ، ص۱۵۸)دوسری حدیث پا ک پڑھیے ؛ حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا فرمان ؛میں نے چاندنی رات میں نبی پاکﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نے دھارے دار جوڑا زیب تن کر رکھا تھا۔میں ایک نظر حضور ﷺ کی طرف کرتا تھا اور ایک چاند کی طرف پس آپ ﷺ میرے نزدیک چاند سے زیادہ خوبصورت تھے (رواہ الترمذی والدارمی،مشکوۃ، ص۱۵۷)فا ئدہ؛ حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا یہ فرمان کہ حضور ﷺ میر نزدیک زیادہ خوبصورت تھے۔یہ بطور تلذذ فرمایا۔ورنہ واقع میں حضور ﷺ تمام کے نزدیک چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔(مدراج جلد اول، ص۷) حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ الکریم کا فرمان۔آپ حضورﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔لَمْ اَرَ قَبْلَھٗ وَ لَا بَعْدَ ہٗ مِثْلَہٗ صَلَّی اَللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رواہ الترمذی، مشکوۃ، ص۱۵۷)ترجمہ؛ میں نے حضور ﷺ کی مثل نہ آپ ﷺ سے پہلے کسی کو دیکھا نہ بعد میں۔حضرت جبرئیل علیہ السلام کا فرمان میں تمام مشرق و مغارب میں پھرا لیکن میں نے کوئی شخص حضرت محمد رسول ﷺ سے افضل نہیں دیکھا کسی شاعر نے کیا خواب کہا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آقا قہا گردیدہ ام مہر بتاں دزدیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیز ے دیگری

علامہ بو صیری ؒ قصیدہ بردہ شریف میں عرض کرتے ہیں۔آپ فضائل باطنی و ظاہری میں کمال کے درجے کو پہنچے ہوئے ہیں۔پھر خداوند تعالیٰ نے آپ کو اپنا حبیب بنایا اور آپ اپنی خوبصورتی اور خوبیوں میں شریک سے پاک ہیں۔ہر حسن جو آپ میں پایا جاتا ہے وہ غیر منقسم اور غیر مشترک ہے۔مندرجہ بالا اقوال سے ثابت ہوا کہ حبیب خداﷺ حسن و جمال میں اس انتہائی مقام کو پہنچے ہوئے ہیں جہاں کوئی بھی نہیں پہنچا اور پہنچ سکے گا۔حقیقت وہ ہے جو امام قرطبیؒ نے فر مائی ہے۔آپ فرماتے ہیں۔ہمارے سامنے حضور ﷺ کا تمام حسن ظاہر نہیں ہوا کیونکہ اگر تمام حسن ہمارے سامنے ظاہر ہو جا تا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتیں۔(انوار محمدیہ، ص ۱۹۴) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضور سراپا نور ﷺ کے جمال پاک پر ستر ہزار پردے ڈال رکھا ہے تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں۔ورنہ کسی کی آنکھ تھی جو حضور اکرمﷺ کا مشاہدہ کر سکتی۔(معارج النبوۃ رکن دوم، ص ۱۱۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

جسم پاک کی نورانیت : ہمارے آقا و مولا حضرت محمد رسولﷺ کا جسم اقدس نورانی تھا، سر مبارک سے لے کر پاؤں شریف تک نور تھے۔ محقق علی الا طلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔رسو ل پاک بتمامہ چوٹی سے تا قدم بالکل نور تھے کہ انسان کی آنکھ آپ کے جمال با کمال کو دیکھنے سے چوندھیا جاتی تھی۔چاند اور سورج کی مانند روشن اور چمک دار تھے۔اگر لباس بشریت نہ پہنا ہوتا تو کسی کو آپ کی طرف نظر کرنے اور آپ کے حسن کا ادرک ممکن نہ ہوتا۔(مدراج النبوۃ جلد اول، ص ۱۳۷) چونکہ آپ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا، اس لئے آپ ﷺ کا سایہ بھی نہیں تھا۔حضرت ذکوان ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا سایہ نہ تھا۔رسول پاک ﷺ کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں تھا، نہ چاند کی چاندنی میں۔حکیم ترمذی نے حضرت ذکوان سے نوادر اصول میں اس کو روایت کیا (مدراج النبوۃ جلد اول، ص۲۶)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضور ﷺ کے جسم اقدس کی لطافت و نظافت : حضور سراپا نور ﷺ اتنے صاف اور پاکیزہ تھے کہ جسم اقدس پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔اور نہ ہی آپﷺ کے کپڑوں میں جوئیں پڑتی تھیں (مدراج النبوۃ جلد اول، ص ۱۱۴، شفا شریف، ص۲۳۴، انوار محمد یہ، ص ۳۱۱)

جسم اقدس خوشبودار تھا : ہما رے آقا و مولیٰ ﷺ کے جسم اقدس سے کستوری و عنبر کی سی خوشبو آیا کرتی تھی۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں۔ میں نے کوئی کستوری اور عنبر حضور ﷺ کے جسم اقدس سے زیادہ خوشبودار نہیں سونگھا۔(متفق علیہ، مشکوۃ، ص۵۱۷)حضور پر نور ﷺ کے ساتھ جو شخص مصافحہ کرتا تو اس کے ہاتھوں سے تمام دن خوشبو آیا کرتی تھی۔اور جس بچے کے سر پر ہاتھ پھیر دیتے تھے وہ بچوں میں خوشبودار مشہور ہو جاتا تھا۔(مدراج النبوۃ جلد اول، ص۳۰، شفا شریف، ص ۴۰) حضرت جا بر ؓ فرماتے ہیں۔میں نے صبح کی نماز رسول پاکﷺ کے ہمراہ پڑھی، پھر آپ ﷺ اپنے گھر کی طرف نکلے، میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ نکلا، آپ ﷺ کے سامنے بہت سے بچے آئے آپ ﷺ ہر ایک بچہ کے رخسار پر ہاتھ پھیر تے جاتے تھے۔میر رخسار پر بھی ہاتھ مبارک پھیر ا تو میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں ٹھنڈک محسوس کی بلکہ ایک خوشبو پائی۔گویا کہ آپ نے وہ خوشبو عطر فروش کے ڈبہ سے نکالی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ میں نے (وقت انتقال)نبی کریم ﷺ کو غسل دیا۔میں وہ چیز جو میت سے نکلا کرتی ہے، دیکھنے لگا، مگر میں نے کوئی چیز نہ دیکھی۔تو میں نے کہا، آپﷺ زندگی اور موت میں بھی پاکیز ہ ہیں۔فرمایا کہ آپ ﷺ سے ایسی خوشبو نکلی کہ میں نے ہر گز اس کی مثل نہیں پائی ( شفا شریف۔ص، ۱۴) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں۔ (ایک دفعہ ) مجھے پیارے رسول پاک ﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ میں نے مہر نبوت کو اپنے منہ میں لے لیا۔پس مجھ پر خوشبو اور کستوری کی لپٹ آنی شروع ہو گئی۔(شفا شریف، ص، ۰ ۴)حضرت انس ؓ فرماتے ہیں۔ جب حبیب خدا ﷺ مدینہ طیبہ کے کسی راہ پر گزر فر ماتے تو لوگ اس راہ میں خو شبو پاتے اور کہتے کہ رسول پاک ﷺ اس راہ سے گزرے ہیں۔(رواہ ابو یعلی، انوار محمد یہ، ص۱۲۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا سایہ نہیں ظل اور فئی کی تحقیق

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا سایہ نہیں ظل اور فئی کی تحقیق

قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ .
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
(المائده، 5 : 15)

يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا آرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِيْراً وَّ دَاعِيًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِيْراً.

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔(الاحزاب، 33 : 46)

ان دو آیتوں میں اللہ تعاليٰ نے واضح طور پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور اور چمکا دینے والا آفتاب قرار دیا ہے۔

نور و ظلمت : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور و آفتا ب ہوئے۔ روشن کرنے والے ہوئے تو لا محالہ ظلمت و اندھیرے کا آپ سے تعلق نہ رہا کہ وہ روشنی کی ضد ہے۔ فرمان باری تعاليٰ ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ ۔ ترجمہ : سب تعریفیں اللہ تعاليٰ کے لئے جس نے

السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ. ثُمَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ.

ترجمہ : آسمان اور زمین پیدا فرمائے اور اندھیرے اور نور پیدا فرمائے۔ پھر کافر لوگ (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔(الانعام، 6 : 1)

کیا نور و ظلمت برابر ہیں ؟

قُلْ هَلْ يَسْتَوِيْ الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِيْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ.

ترجمہ : تم فرماؤ! کیا اندھا اور انکھیارا برابر ہیں؟ یا کیا برابر ہیں اندھیریاں اور نور۔
(الرعد،13 : 16)

اللہ کا حکم، انبیاء کا منصب : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰيٰتِنَا آنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

ترجمہ : اور بے شک ہم نے موسيٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لا۔(ابراهیم، 14 : 15)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

الٰر. کِتَابٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ.

ترجمہ : یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائو۔ ان کے رب کے حکم سے۔(ابراهيم، 14 : 1)

اللہ کا کام اور شیطان کا کام : اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا! يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا اُوْلِيٰئُهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَلِدُوْنَ.

ترجمہ : اللہ والی ہے مسلمانوں کا، انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرة، 2 : 57)

هُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِه اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

ترجمہ : وہی ہے کہ اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے۔(الحديد، 57 : 9)

ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ نور و ظلمت آپس میں متضاد ہیں۔ جہاں ایک ہو دوسرا نہیں ہوسکتا۔ نہ دونوں جمع ہوں، نہ اٹھ سکیں۔ اللہ پاک رسول پاک قرآن ایمان اسلام نور ہیں اندھیرے نہیں۔ نیکی نور ہے اندھیرا نہیں۔ اللہ تعاليٰ اپنے مسلمان بندوں کے لئے نور پسند فرماتا ہے۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ شیطان کے دوست کافر اور کافروں کا دوست شیطان شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے کھینچ کھینچ کر اندھیروں میں جھونکتا ہے۔ ان کا فکر و عقیدہ اندھیرا۔ان کا عمل و کردار اندھیرا۔ جبکہ مسلمان کا عقیدہ بھی نور اس کا عمل بھی نور۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سِرَاج مُنِيْر، روشن آفتاب ہیں۔ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں ہوسکتا۔

حدیث پاک کی روشنی میں : حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔انی عندالله مکتوب خاتم النبيين وان ادم لمنجدل فی طينته وساخبرکم باول امری، دعوة ابراهيم وبشارة عيسٰی ورؤيا امی التی رأت حين وضعتنی وقد خرج لها نور اضاء لها منه قصور الشام.

ترجمہ : میں اللہ کے ہاں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے بن رہا تھا۔ اب میں تم کو اپنی پہلی بات بتائوں گا۔ کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسی علیہ السلام کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کا وہ منظر ہوں جو میری پیدائش کے وقت انہوں نے دیکھا۔ کہ ان کے جسم اقدس سے عظیم نور نکلا جس سے شام کے محلات ان پر روشن ہوگئے۔(مشکوة ص 513)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا۔ وجهه مثل السيف. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ روشن تلوار کی طرح چمکتا تھا؟ انہوں نے کہا لا نہیں۔ بل کان مثل الشمس والقمر بلکہ سورج اور چاند کی طرح۔ مسلم

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔ لم ارقبله ولا بعده مثله صلی الله عليه وسلم

میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔

ترمذی شریف میں آیا ہے کہ محمد عمار بن یاسر کے بیٹے ابو عبیدہ کہتے ہیں میں نے ربیع بنت معاذ بن عفراء سے عرض کی صفی لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کریں۔بولیں، بیٹا! اگر تم سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ۔

رَاَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً. دیکھتے کہ سورج طلوع ہورہا ہے۔ دارمی۔

جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دیکھتا اور چاند کو بھی۔ آپ کے جسم اقدس پر سرخ رنگ کا حلہ تھا،

فاذا هو احسن عندی من القمر.

تو آپ میری نظر میں چاند سے زیادہ حسین تھے۔ ترمذی، دارمی

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

مارأيت شيئا احسن من رسول الله صلی الله عليه وسلم.

میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھی۔

کأنّ الشمس تجری فی وجهه.

گویا سورج آپ کے چہرہ اقدس میں پیر رہا ہے۔ ترمذی

ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کرتے۔

کالنور يخرج من بين ثناياه.

گویا سامنے کے دو دانتوں سے نور نکل رہا ہے۔ دارمی

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ اقدس یوں چمک اٹھتا جیسے قطعۃ قمر چاند کا ٹکڑا۔ متفق علیہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا مانگتے۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِيْ قَلْبِيْ نُوْرًا وَّ فِيْ بَصْرِيْ نُوْراً وَّفِی سَمِعْی نُوْراً وَّعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْراً وَّعَنْ يَسَارِيْ نُوْراً فَوْقِيْ نُوْراً وَّ تَحْتِيْ نُوْراً وَّاَمَا مِيْ نُوْراً

اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما۔ اور میری آنکھ (نظر) میں نور پیدا فرما۔ میرے کان (شنوائی) میںنور پیدا فرما۔میرے دائیں نور۔ اور میرے بائیں نور، میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور 10 میرے لئے نور وَّخَلْفِيْ نُوْراً وَّاجْعَلْ لِيْ نُوْراً. ۔۔۔۔۔۔عصبی، لحمی۔ دمی، شعری، بشری کردے۔۔۔ دوسری روایت میں ہے میرا پٹھہ، گوشت، خون، میرے بال، میرا چمڑا۔

(صحيح بخاری ص 935 ج 2 طبع کراچی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعاء مقبول بارگاہ ہے۔ لازم ہے کہ یہ دعائے نور بھی مقبول ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں نور ثابت ہوگئے تو اس دعاء کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی دعاء اس لئے ہوتی ہے کہ جو بندے کے پاس نہیں وہ مل جائے اور کبھی اس لئے کہ جو ہے اس میں برکت ہو۔ اضافہ ہو۔ دوام ہو۔ ہم فاتحہ میں ہمیشہ ہدایت کی اور سیدھی راہ چلنے کی دعاء مانگتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ مانگتے تھے اور ہر مسلمان ہمیشہ یہ دعاء مانگ رہا ہے اور مانگتا رہے گا۔

اس کا یہی مفہوم ہے۔

تو ہے سایہ نور کاہر عضو ٹکڑا نور
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے، نہ سایہ نور کا

اہل لعنت : النور ههنا هو سيدنا محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم ای جاء کم نبی وکتاب.

اس جگہ نور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یعنی تمھارے پاس نبی تشریف لائے اور کتاب آئی۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

لسان العرب لابن منظور افريقی ص 322 ج 14 طبع بيروت

ابن الاثیر نے کہا نور وہ ہے جس کی روشنی سے اندھا دیکھنے لگتا ہے اور گمراہ راہ پر آجاتا ہے۔

الظاهر فی نفسه المظهر لغيره.

جو خود ظاہر اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ایضاً

فی صفته صلی الله عليه وسلم انور المتجرد.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم پاک خالص نور تھا۔

النهاية لابن الاثير الخدری ص 125 ج 5 طبع ايران

امام قاضی ایاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

انه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولا قمر لانه کان نورا. وان الذباب کان لا يقع علی جسده ولا ثيابه.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھوپ یا چاندنی میں سایہ نہیں تھا، کیونکہ آپ نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اقدس اور کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھی۔

الشفاء بتعريف حقوق المصطفی ص 243 ج 1 طبع مصر

ان النبی صلی الله عليه وسلم کان اذا مثی لم يکن له ظل.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا۔

مفردات راغب ص 315 طبع کراچی
ظل اور فئی

ظلالهم اشخاصهم.

ان کے ظلال یعنی ذاتیں۔

ابن عباس کی حدیث میں ہے ’’کافر غیراللہ کے آگے سجدہ کرتا ہے اور اس کا ظل یعنی جسم جس کا ظل ہے، اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے‘‘۔ ظل الشئی۔ کنہ کسی چیز کا حفاظتی پردہ۔ ظل کل شئی شخصہ۔ ہر چیز کا ظل، اس کی ذات۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

لسان العرب لابن منظور ص 261 ج 8 طبع بيروت.النهاية لابن الاثير ص 161 ج 3 طبع ايران

تیرے اور سورج کے درمیان جب کوئی شے حائل ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا سایہ ظل اور فئی ہے۔ سورج ڈھلتے وقت تک ظل اور س کے بعد فئی کہلاتا ہے۔

نهاية ص 159 ج 3

کبھی ظل بول کر عزت، طاقت اور خوشحالی مراد ہوتی ہے۔ اظلنی فلان۔ حرسنی۔ فلاں نے میری حفاظت کی۔

مفردات ص 314.

ذات کو ظل کہا جاتا ہے جیسے شاعر کہتا ہے۔

لما نزلنا رفعنا ظل اخبية

جب ہم اترے تو خیموں کو نصب کیا۔ یہاں ظل سے مراد خیمے ہیں۔ کہ انہی کو نصب کیا جاتا ہے نہ کہ سائے کو۔

مفردات راغب ص 315 طبع کراچی

الظل من کل شئی شخصه.

ہر چیز کا ظل اس کی ذات۔

تاج العروس سيد مرتضيٰ الزبيدی. ص 426 ج 7 طبع بيروت

جسم کثیف پر جب روشنی پڑتی ہے تو اس کا جسم کا سایہ پیدا ہوتا ہے جو دیوار، درخت یا زمین وغیرہ پر نظر آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم میں نور اور سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) فرمایا گیا ہے لہذا آپ کی نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسم اقدس کا سایہ نہ تھا۔ علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر عالم نے آپ کی نورانیت کا انکار نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ نور کا انکار کرنے سے اس کی ضد کا اثبات لازم آئے گا۔ اور نور کی ضد ظلمت و اندھیرا ہے۔ کس مسلمان کی ہمت ہے کہ اپنے نبی کی نورانیت کا انکار کرکے اس کی ضد یعنی آپ کو اندھیرا و ظلمت و تاریکی کا نام دے؟ یاد رہے کہ نور کے مقابلہ میں بشر نہیں، اندھیرا ہے۔ نورو بشر میں کوئی تضاد نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں۔ بشر بھی۔ ہاں نور و ظلمت میں تضاد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر گز ہر گز ظلمت و اندھیرا نہیں مانتے۔ نور مانتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن وحدیث و عربی لغت کے حوالوں سے یہ حقیقت ہم واضح کرچکے ہیں۔ یونہی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر مانتے ہیں۔ جو بشریت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں۔ کہ قرآن و حدیث و حقائق کا منکر ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سایہ کی روایات اور ان کی حقیقت ومفہوم

سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا فرماتی ہیں کہ دوران سفر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فالتو اونٹ تھا۔ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، صفیہ کا اونٹ بیمار ہوگیا ہے اگر تم اسے اپنا اونٹ دے دو تو بہتر ہو، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بولیں، میں اس یہودیہ کو دوں؟ اس پر رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ذولحجہ اور محرم دو مہینے، یا تین مہینے صفر بھی چھوڑے رکھا۔ ان کے پاس تشریف نہ لاتے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، یہاں تک میں آپ سے مایوس ہوگئی۔ (نہ جانے ملیں نہ ملیں) اور میں نے اپنی چارپائی بستر اٹھالیا۔

فبينما انا يوما بنصف النهار اذا انا بظل رسول الله صلی الله عليه وسلم مقبل.

اسی اثناء میں ایک دن دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو سامنے سے آتے دیکھا۔(مسند احمد ص 132 ج 6 طبع بيروت)

جن حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت سے کد ہے اور بہر صورت آپ کی ذات ستودہ صفات کے لئے تاریک سایہ ثابت کرنے کے درپے ہیں پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے اپنا مدعا ثابت کردیا۔ حدیث پیش کردی۔ حالانکہ ظل کا مطلب ہم نے لغت عرب کی معتبر و مستند کتب سے باحوالہ نقل کردیا ہے کہ جس طرح اس کا مطلب تاریک سایہ ہے اسی طرح ذات بھی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن و حدیث میں نور فرمایا گیا تو آپ کا تاریک سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نور کی تو نورانی شعاعیں ہوتی ہیں۔ کرنیں ہوتی ہیں۔اس حدیث پاک میں بھی ظل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اللہ کا ظل : ہم نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا، کہ ظل کا مطلب جیسے مادی کثیف چیزوں کا تاریک سایہ ہے اسی طرح اس کا مفہوم ذات اور شخص ہے۔ لہذا دلائل شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر ہی اس کا مفہوم متعین کیا جائے گا مگر بعض کم عقل و بدفہم لوگ اسی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ ظل کا مطلب تاریک و کثیف سایہ ہے جیسے ہمارا، تمہارا اور ہر مادی چیز کا۔ وہ اس حدیث پاک پر بار بار غور کریں شاید اللہ پاک شفاء دیدے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا۔ میری عزت و جلال کی بنا پر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟۔

اَلْيَوْمَ اُظِلُّهُمْ فِيْ ظِلِّيْ يَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّيْ.

آج میں ان کو اپنے سایہ میں، زیر سایہ رکھوں گا۔ جس دن میرے سائے کے بغیر کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مشکوة ص 425 بحواله مسلم)

ظل کا لفظ دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تاریک کثیف سایہ ثابت کرنے والے ایمان و عقل کو سامنے رکھ کر بتائیں اللہ کا سایہ اسی طرح ثابت کرو گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثابت کرتے ہو؟(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اس تمام تحقیق و گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کے مطابق نور بھی ہیں۔ بشر بھی، نورانیت کی وجہ سے آپ کا تاریک سایہ نہیں تھا۔ آیت و روایت میں جہاں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ظل کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاریک سایہ نہیں بلکہ آپ کی ذات اور شخصیت مراد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق سلف و خلف، تمام علماء، محدثین، مفسرین، اہل سیر متفق ہیں۔ مثلاً چند اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ۔

(حکيم ترمذی عن ذکوان. نور دراالاصول فی معرفة الرسول) (امام عبدالباقی زرقانی. زرقانی شرح مواهب اللدنيه ص 220 ج 4 طبع مصر) (امام راغب اصفهانی. مفردات ص 317 طبع مصر) (امام قاضی عياض. کتاب الشفاء 3.242 ص ج 1 طبع مصر. ) (شهاب الدين خفاجی. نسيم الرياض ص 391 ج 3 مصری) (سيرة حليه ص 422 ج 3 طبع مصر) (تفسيه مدارک ص 102 ج 2 طبع مصر) (تفسير عزيزی. شاه عبدالعزيز. دهلوی30 ص 219) (شيخ عبدالحق محدث دهلوی. مدارج النبوت ص 161 ج 2) (امام ابن حجر مکی. افضل القريٰ) (مجدد الف ثانی. مکتوبات شريف ص 187 . 337 ج 3 طبع نور کشور لکهنو) (مولوی رشيد احمد گنگوهی ديوبندی) (خصائص کبريٰ. سيوطی) (عزيز الفتاويٰ، مفتی عزيز الرحمن ديو بندی وغيره وغيره.)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)