Sunday, 1 January 2017

حجاز مقدس‘‘ سعودی عرب ‘‘ کیسے بنا ؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے قائم’’حجاز مقدس‘‘ سعودی عرب ‘‘ کیسے بنا؟آل سعود نے حجاز مقدس پر قبضہ کرنے کے لیے تیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا؟حجاز مقدس سلطنت عثمانیہ کی حدود میں شامل تھا۔ سلطنت عثمانیہ میں ایران کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے تقریباً تمام علاقے شامل تھے۔ برطانیہ براہ راست سلطنت عثمانیہ سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔ اپنی طاقت کے زور پر ظالمانہ و جابرانہ طریقے سے چھینی گئی حکومت، حکومت نہیں بلکہ غاصبانہ اور قابض گروہ ہے۔انہی قابض گروہ میں سے ایک گروہ عرب شریف پر ناجائز قابض گروہ نجدیوں وہابیوں اور سعودیوں کا ہے جنہوں نے 1925ء میں طاقت کے زور پر ترک مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے اور امن و سلامتی والی مقدس جگہوں مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کو خون سے رنگ دیا، تفصیل سے پڑھئے مظلوم ترک مسلمانوں نے ادب و احترام کے پیش نظر مدمقابل آنے سے انکار کردیا۔حجاز مقدس سے شریف حسین کی امارت ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے نجد کے سرکش قبیلہ آل سعود کو تاکا اورکرنل لارنس کے بنائے ہوئے منصوبہ کے تحت انہیں بھرپور مدد دے کر اپنی نگرانی میں سلطان عبدالعزیز کو 1925ء میں حرمین شریفین پر قابض کیا۔سعودی ریال کے زیر سایہ پل کر تحفظ حرمین کی دہائی دینے والے علماء شاید ان دلدوز واقعات کو فراموش کر بیٹھے ہیں جب حرم شریف کے اندر آل سعود کی بندوقوں کی گولیاں کھا کر ترک نوجوان شہید ہورہے تھے مگر اس پاک سرزمین کے احترام میں کوئی جوابی کارروائی نہ کرنے کی انہوں نے قسم کھا رکھی تھی اور جب ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کے ہاتھ میں بندوقیں ہیں ان کے باوجود اس بے بسی کے ساتھ گولیاں کھا کر کیوں شہید ہورہے ہیں؟ تو ایک ترک مرد مومن نے جواب دیا کہ گولیاں کھا کر مرجانا ہم پسند کرتے ہیں مگر حرم محترم کے تقدس پر کسی قیمت پر ہم آنچ نہیں آنے دیں گے۔علامہ امام امین الدین محمد بن عابدین شامی علیہ الرحمہ نے کچھ تذکرہ اس واقعہ ہائلہ کا فرمایا۔ رد المحتار حاشیہ در مختار کی جلد ثالث کتاب الجہاد باب البغاۃ میں زیر بیان خوارج فرماتے ہیں۔’’یعنی خارجی ایسے ہوتے ہیں ہمارے زمانے میں پیروان عبدالوہاب (نجدی) سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کرکے حرمین شریفین پر تغلب کیا اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی لوگ مسلمان ہیں جو ان کے (وہابی) مذہب پر ہیں اور جو ان کے (وہابی) مذہب پر نہیں، وہ تمام مشرک ہیں، اس وجہ سے انہوں نے اہلسنت و علمائے اہلسنت کا قتل مباح (جائز) ٹہرایا۔ یہاں تک کہ اﷲ کریم نے ان کی شوکت توڑ دی اور ان کے شہر ویران کئے اور لشکر مسلمین کو ان پر فتح بخشی 1233ھ میں۔ (ردالمحتار، کتاب الجہاد، مطبوعہ مصطفی البابی مصر 339/3)عبدالوہاب نجدی ’’نجد‘‘ سے برآمد ہوا، نجد وہ جگہ ہے جس کے لئے حضورﷺ نے دعا نہیں فرمائی چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔ صحاح ستہ کی مایہ ناز کتاب ترمذی شریف میں یہ حدیث موجود ہے۔حدیث شریف: حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ سید عالمﷺ نے دعا مانگی یااﷲ جل جلالہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ تبارک و تعالیٰ! ہمارے لئے ہمارے یمن کو بابرکت بنادے (کچھ) لوگوں (نجدیوں) نے کہا اور ہمارے نجد میں بھی، حضور سید عالمﷺ نے پھر وہی دعا فرمائی یا اﷲ جل جلالہ! ہمارے شام میں برکت نازل فرما، الٰہی جل جلالہ! ہمارے یمن کو بابرکت بنادے۔ ان لوگوں نے (پھر) کہا اور ہمارے نجد میں بھی، حضورﷺ نے فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا (ترمذی جلد دوم، ابواب المناقب حدیث نمبر 1888 صفحہ 791 مطبوعہ فرید بک لاہور)ف: مخبر صادقﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق تیرہویں صدی کی ابتداء میں سرزمین نجد سے محمد ابن عبدالوہاب نجدی کا ظہور ہوا۔ یہ شخص خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ کا حامل تھا۔ اس لئے اس نے اہلسنت و جماعت سے قتل و قتال کیا اور کتاب التوحید کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ملت اسلامیہ کے ہرشخص کو تکفیر کا نشانہ بنایا۔سعودی نجدی حکومت عرب شریف پر قابض ہوتے ہی روز اول سے آج تک انہوں نے شعائر اﷲ یعنی اسلام اور پیغمبر اسلام حضور سید عالمﷺ کی نشانیوں کی بے حرمتی کی، ان کی نشانیوں کو چن چن کر مٹانے کی مہم کاآغاز کیا، جو اب تک جاری ہے، یہی نہیں بلکہ وہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جن کے ذریعے ہمیں اسلام صحیح سلامت پہنچا، ان کے مزارات کو بڑی بے دردی بلکہ بڑی بے ادبی کے ساتھ بلڈوزر چلا کر مسمار کردیئے۔مکہ معظمہ کے مشہور قبرستان جنت المعلیٰ میں موجود اولوالعزم صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اﷲ علیہم اجمعین حضرت عبداﷲ ابن عمر، حضرت عبدالرحمن ابن ابوبکر، حضرت سیدہ اسماء اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے مزارات کو شہید کرکے مٹی کا ڈھیر بنادیا۔ مدینۃ المنورہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں موجود اولوالعزم صحابہ کرام، صحابیات اور اہلبیت اطہار رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین حضرت عثمان غنی، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت امام باقر، امام حسن مجتبیٰ، امام جعفر صادق، امام زین العابدین، سیدہ عائشہ صدیقہ، سیدہ زینب، سیدہ حفصہ، سیدہ فاطمۃ الزہرا، سیدہ ام کلثوم، سیدہ زینب بنت رسول اور سیدہ فاطمہ صغریٰ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے مزارات کو منہدم کردیا گیا۔اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ماہ رمضان 1999ء میں سیدہ ساجدہ طیبہ طاہرہ حضرت بی بی آمنہ رضی اﷲ عنہا کا مزار شریف جوکہ مقام بدر، ابواء شریف کے نزدیک واقع بڑی بے دردی کے ساتھ پامالی کے بعد منہدم کردیا یہ سانحہ 18 رمضان المبارک 1419ھ بمطابق 7 جنوری 1999ء کو پیش آیا، چشم دید گواہوں کا کہناہے۔مزار سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی جگہ کو نہ صرف بلڈوزر سے منہدم کیاجاچکا تھا بلکہ Excavator استعمال کرکے جگہ کو کئی فٹ گہرائی تک کھود کر تلپٹ کردیا گیاتھا۔ پہاڑ کی وہ چوٹی جس پر یہ مزار شریف واقع تھا، اسے بلڈوزر سے کاٹ کر پہاڑی کی ایک جانب دھکیل کر گرادیاگیا تھا۔ مزار شریف سے متعلق وہ پتھر جن پر ماضی میں زائرین نے نشاندہی کی نیت سے سبز رنگ کردیا تھا، ان میں سے کچھ پہاڑی کی ڈھلوان پر پڑے ہوئے تھے اور کچھ پہاڑ سے نیچے ایک چھوٹی سی ڈھیر کی شکل میں پڑے تھے۔مندرجہ بالا انتہائی درد ناک اور ناقابل برداشت گستاخانہ افعال کے علاوہ مزار شریف کی نزدیکی چڑھائی کے راستہ میں شیشے توڑ کر ڈال دیئے گئے اور غلاظت کے ڈھیر لگا دیئے گئے۔کسی بھی مسلمان کی قبر کی بے حرمتی کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ مسلمانوں کی قبروں پر چلنا، ان پر بیٹھنا یہاں تک کہ ان پر پائوں رکھنا جائز نہیں اور مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی کرنے والے کو روکنا واجب ہے کیونکہ وہ فاسق مستحق عذاب جہنم ہے اور سرور عالمﷺ کے والدین کریمین، امہات المومنین، اہلبیت اطہاراور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعظیم و تکریم ایمان کاحصہ ہے بعد از وصال ان کے مزارات کی تعظیم و تکریم بھی واجب ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک مسلمان اپنے والدین اور بزرگوںکی قبروں کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتا تو پھر جن نجدیوں نے مقدس ہستیوں کے مزارات پر بے دردی سے بلڈوزر چلائے، گندگی ڈالی اور بے حرمتی کی، ان نجدیوں کی اس حرکت کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ایک وفادار مسلمان ہرگز ہرگز اسے گوارا نہیں کرسکتا۔جب یہ سانحہ پیش آیا تو دنیائے اہلسنت کا دل خون کے آنسو رویا جس کی تکلیف اب بھی ہمارے جگر میں ہے۔ سوائے اہلسنت کے کوئی بھی مکتبہ فکر حکومت سعودیہ نجدیہ کے خلاف احتجاج کرنے میدان میں نہیں آیا۔ شیعوں نے احتجاج کیا مگر صرف اہلبیت کے مزار کے انہدام پر کیا صحابہ کرام کے مزارات کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔دنیا بھر کے وہابی، دیوبندی بھی خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ بعض دیوبندی علماء نے نجدی حکومت کے اس فیصلے کو سراہا مگر جب 16 دسمبر 2006ء ہفتہ کی رات ہندوستان کے علاقے تھانہ بھون کے قبرستان میں ہندوئوں نے مولوی اشرف علی تھانوی اور اس کے خاندان کے افراد کی قبروں کو مسمار کیا تو دنیائے دیوبند چیخ اٹھی، انہی کا اخبار ’’روزنامہ اسلام‘‘ ملاحظہ ہو۔اشرف علی تھانوی کی قبر کی مسماری پر احتجاج کرنے والے سینکڑوں علمائے دیوبند اور عوام دیوبند ہمارے کچھ سوالات کے جوابات دیں:سوال: انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اس کائنات کی سب سے افضل جماعت صحابہ کرام علیہم الرضوان کی جماعت ہے جن کے مزارات سب سے زیادہ جنت المعلیٰ (مکہ المکرمہ) اور جنت البقیع (مدینہ منورہ) میں ہیں جن کو کئی سال قبل سعودی حکومت نے بڑی بے دردی کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہوئے مسمار کردیا۔ اس وقت علمائے دیوبنداور عوام دیوبند نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ کیا تھانوی صاحب کا رتبہ صحابہ کرام اور اہلبیت سے بھی بڑھ کر ہے جو اس وقت احتجاج نہ کیا گیا اوراب تھانوی صاحب کی قبر کی مسماری پر کیا گیا؟بلکہ اس وقت جب صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کے مزارات کو مسمار کیا جارہا تھا تو علمائے دیوبند نے سعودی حکومت کے اس کارنامے کو سراہا، کیا اب انتہا پسند ہندوئوں کے کارنامے پر ان کو خراج تحسین پیش نہیں کریں گے۔سوال: ملک شام میں موجود کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے مزار پرانوار کو ملک شام کی حکومت نے بڑی بے حرمتی کے ساتھ مسمار کیا، اس وقت علمائے دیوبند اور عوام دیوبند نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟سوال: میدان بدر و احد میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات کو بڑی بے دردی کے ساتھ مسمار کیا گیا اس وقت سعودی حکومت سے علمائے دیوبند اور عوام دیوبند نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟سوال: عرب شریف کی سرزمین پر حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے مزار کو ابواء شریف میں بے حرمتی کرتے ہوئے مسمار کیا گیا جو حال ہی کی بات ہے، اس وقت علمائے دیوبند اور عوام دیوبند نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟سوال: عراق کی سرزمین پر امریکی ظالم فوجیوں نے بم برسائے جوکہ کئی مساجد اور مزارات اولیاء پر بھی گرے جس سے مساجد اور مزارات کی بے حرمتی ہوئی، اس وقت عراق میں موجود مزارات کی بے حرمتی کے خلاف علمائے دیوبند اور اکابر دیوبند نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟سوال: کیا دیوبندی مکتبہ فکر کے نزدیک فقط اپنے ہی اکابرین کی عظمت ہے اہل اﷲ کا کوئی مرتبہ اورشان نہیں؟اگر ہے تو اٹھو اور احتجاج کرو سعودی حکومت سے، شام کی حکومت سے، امریکی حکومت سے تاکہ تم پر سوالات نہ اٹھیں اور اگر احتجاج کے لئے نہیں اٹھتے تو ہمارے سوالات کا جواب دو؟کیوں کہ اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات بھڑکنے کا خطرہ تھا۔ برطانیہ نےحجاز کے دو قبیلوں کو لالچ کی ہڈی پھینک کر اپنی مکروہ سازش میں شامل کرلیا۔ ایک آل سعود دوسرا شریف حسین کا خاندان۔ آل سعود کا تعلق نجد سے تھا۔ یہ 1780سے حجاز پر قبضہ کرنے کی کوششیں کررہے تھے۔1790عیسوی میں آل سعود مکہ مدینہ اور طائف پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1801میں انہوں نے نجف اور کربلا پر حملہ اور کیا اور تقریبا تیس ہزار لوگ شہید ہوئے۔ اور نجف اور کربلا سے بے شمار نوادارت چوری کیے ۔ ایک سال آل سعود نے سلطنت عثمانیہ کے مسلمانوں پر حج بند کردیا۔ عثمانی خلیفہ سلطان محمود دوئم کی طرف سے ابراہیم پاشا نے 1818میں نجد پر چڑھائی کی اور وہابی دارلخلافہ ’’دریہ‘‘ کو تباہ کردیا۔ اور عبداللہ ابن سعود کو گرفتار کرلیا۔ 1880میں آل سعود انگریزوں کی پشت پناہی سے دوبارہ ابھرے۔ شریف حسین مکہ کا رہائشی تھا۔ ان دونوں خاندانوں کی تربیت کے لیے انگریزوں نے دوجاسو س مہیا کیا۔ شریف حسین کے لیے ٹی ای لارنس، المعروف لارنس آف عریبیہ کو مقرر کیا۔ اور آل سعود پر کیپٹن ولیم شیکسپیئر کو مقرر کیا۔ 1918میں انگریزوں نے ان دوخاندانوں کی مدد سے سلطنت عثمانیہ کاخاتمہ کردیا۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد حجاز پر حکمرانی کے خواب یہ دونوں خاندان دیکھ رہے تھے۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد شریف حسین نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرب ممالک پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ انگریزوں نے سوسال محنت کرکے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ اس لیے کیا تھا کہ اس کے ٹکڑے کیے جاسکیں۔ شریف حسین کے اس قدم نے انگریزوں کا اعتماد بھی کھودیا۔ آل سعود ایسی فکر اورشریعت کے پیروکار تھے جو اپنے علاوہ ہر کسی کوکافر قرار دیتے تھے۔ اور ان کے مال واموال لوٹ لیتے تھے (آج کل داعش ،طالبان وغیرہ مثالیں سامنے ہیں)آل سعود کی اس فکر سے مسلمانوں کی تقسیم کا ہدف بھی بآسانی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ اور آل سعود نے شریف حسین کی طرح سارے عرب ممالک مانگنے کے بجائے انگریزوں سے صرف حجاز کا علاقہ مانگ لیا۔ انگریز نے گزشتہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے صحرائی قذاقوں ، آل سعودکو حجاز کی حکمرانی کے لیے منتخب کرلیا۔اور آل سعود نے حکومت سنبھالتے ہیں ، حضرات ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلا آرہا نام ’’حجاز مقدس‘‘ کو تبدیل کرکے ایک صحرائی ڈاکو کے نام پر ’’سعودیہ عربیہ ‘‘ رکھ دیا۔ اور شریف حسین کو خود ساختہ خلافت سے ہٹاکر سائپرس ملک بدر کردیاگیا۔ اور حجاز میں اس کے داخلے پر پابندی لگادی گئی۔ شریف حسین کے چار بیٹے تھے جنہوں نے لارنس آف عریبہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ شریف حسین کے بیٹوں کو عراق، شام اور اردن کی حکومت دی گئی ۔ عراق اور شام میں حکومت کرنے والا شریف حسین کا خاندان بغاوتوں کے نتیجے میں ختم ہوگیا۔ اردن کے حاکم عبداللہ کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔سعودیہ عربیہ نام کے دو جز ہیں۔ ایک سعود اور دوسرا عرب۔ اس خارجی ٹولے نے حجاز مقدس کو اپنے پرداد کے نام پر ’’سعودیہ‘‘ بنادیا اور دوسری طرف شرک کے فتوے لگا کر ، تاجدار کائنات ﷺ کی اصحاب اور اہل بیت کے یادگاروں کو ختم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں خاندا ن آج تک اپنی وفاداری امریکہ اور اسرائیل سے نبھارہے ہیں۔ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے سب سے زیادہ مستفید امریکہ ہوتاہے اور سعودی عرب نے اسرائیل کو بچانے کے لیے عراق، شام، مصر، لیبیا میں مسلمانوں میں خانہ جنگی کروائی۔ سعودی عرب امریکہ سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدتا ہے اور یہ اسلحہ دنیا بھر میں موجود ’’وہابی ‘‘دہشت گردوں میں سپلائی کرتاہے۔اور آج پھر سعودی عرب اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے پورے خطے کے مسلمانوں کو ’’شیعہ سنی‘‘ فسادات میں جھونکنے کی سازش کررہاہے۔ اور سادہ لوح لوگوں کو ’’بیت اللہ‘‘ اور ’’مسجدنبوی‘‘ کا نام لے کر بے وقوف بنایا جارہاہے۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...