ضرورتِ نبوت : از قلم حقیقت رقم قبلہ استاذی المکرّم غزالی زمان حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
کل کائنات کی ضروریات، ضروریاتِ انسانیہ کے محور پر گھوم رہی ہیں۔
دنیائے انسانیت کا یہ عظیم الشان نظام دامن نبوت سے وابستہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جن افراد انسانی کا رابطہ بارگاہِ نبوت سے قائم نہیں ہوا
وہ حیوانیت اور بہیمیت کے گڑھوں میں جا گرے۔
اس میں شک نہیں کہ انسان میں جسمانیت، حیوانیت اور ملکیت سب کچھ موجود ہے۔ جسم کے متعلقات و مناسبات جسمانیت کے لئے ضروری ہیں۔ جیسے زمان و مکان، تشکل و تناہی ہیئت و مقدار وغیرہ اور حیوانیت کے لوازمات و ملحقات حیوانیت کے لئے لازم ہیں، جیسے کھانا پینا اور اس کے متعلقات اسی طرح ملکیت کے مصحمات و متعلقات کا ملکیت کے لئے ہونا ضروری ہے جیسے تسبیح و تحمید لیکن جس طرح جسمانیت و حیوانیت و ملکیت تینوں انسان کے ارد گرد گھومتی ہیں اسی طرح ان کے جملہ ضروریات و مناسبات بھی ضرویات و مناسبات انسانیہ کے آس پاس گردش کرتے ہیں بلکہ یوں کہیئے کہ انسان کل کائنات کے حقائق لطیفہ کا مجموعہ ہے اور سب مخلوقات انسان کی خادم اور انسان سب کا مخدوم ہے۔ لہٰذا کل مخلوقات انسان کی ضروریات کی خادم اور انسانی ضروریات سب کی مخدوم ہیں۔ گویا کل کائنات کی ضروریات، ضروریاتِ انسانیہ کے محور پر گھوم رہی ہیں۔ دنیائے انسانیت کا یہ عظیم الشان نظام دامن نبوت سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن افراد انسانی کا رابطہ بارگاہِ نبوت سے قائم نہیں ہوا وہ حیوانیت اور بہیمیت کے گڑھوں میں جا گرے۔
ضرورتِ نبوت پر پہلی دلیل : مقصد تخلیق کے حصول کا موقوف علیہ ہمیشہ ضروری ہوا کرتا ہے۔ انسان معرفت الٰہیہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خدا کی معرفت کا حامل ہونا نبوت و رسالت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے نبوت و رسالت کا وجود انسان کے لئے ضروری ہے۔ منکرین نبوت کا یہ کہنا علم و عقل کی روشنی میں قطعی باطل ہے کہ ’’جب انسان کے پاس حواس اور عقل دونوں موجود ہیں تو اسے نبوت و رسالت کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے یہ حواس کافی ہیں نہ عقل۔ جن لوگوں نے خدا کی معرفت کے لئے حواس کو کافی سمجھا وہ محسوسات و مظاہر کائنات کی پرستش میں مبتلا ہو گئے اور جنہوں نے عقل پر اعتماد کیا ان میں اکثر لوگ خدا کے منکر ہو گئے اور جو صریح انکار کی جرأت نہ کر سکے انہوں نے ذات و صفات کے مسائل میں ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ معرفت کی راہوں سے بہت دور جا پڑے اور عقل نا تمام کی وادیوں میں بھٹک کر ظنون و اوہام کے گڑھوں میں جا گرے۔ قرآن کریم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں ارشاد فرمایا ہے
’’اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلاَّ یَخْرُصُوْنَ‘‘ (س: یونس، آیت: ۶۶)
رہا یہ امر کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کی معرفت ضروری ہے یا نہیں تو یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ مصنوع کا وجود صانع کے وجود کی دلیل ہے اور مصنوع کی تخلیق کسی حکمت و مقصد کے بغیر نہیں ہوتی اور کسی مصنوع کی حکمت تخلیق کا فوت ہو جانا اس مخلوق کے عبث ہونے کو مستلزم ہے۔ انسان کے اوصاف و خواص اس امر کی دلیل ہیں کہ وہ اپنے خالق کا مظہر ہے۔ اب اگر وہ اس حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی نہ پہچانے تو اس نے خود اپنے وجود کو عبث قرار دیا اور اگر پہچانے تو چونکہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کا مظہر ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو صحیح معنی میں پہچاننا دراصل اپنے خالق کو پہچاننا ہے۔ جیسا کہ مشہور ہے ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ معرفت خداوندی کے بغیر انسان کا وجود عبث ہے اور اگر انسان چاہتا ہے کہ میرا وجود عبث نہ ہو تو معرفت الٰہیہ کے بغیر اس کے لئے کوئی چارہ کار نہیں۔
ضرورتِ نبوت پر دوسری دلیل : قانونِ فطرت یہ ہے کہ ہر نوع کے مدرکات کو معلوم کرنے کے لئے اسی نوع کا ادراک عطا کیا گیا ہے۔ مثلاً مبصرات کو جاننے کے لئے ادراک بصری اور مسموعات کے لئے ادراک سمعی۔ علیٰ ہٰذا القیاس پانچوں حواس کو لیجئے۔ ہر نوع محسوس کے لئے اسی نوع کا حاسہ ہمارے اندر پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد معقولات کا وجود ہے جنہیں معلوم کرنے کے لئے عقل عطا فرمائی گئی۔ ادراک انسانی کی تگ و دو حواس و عقل سے آگے نہ تھی مگر اس کی ضروریات کا تعلق ان دونوں سے آگے تھا جسے عالم غیب کہا جاتا ہے۔ جب تک اس عالم تک کسی کی رسائی نہ ہو اس مقام کے ساتھ متعلق انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ نبوت جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ’’اطلاع علی الغیب‘‘ ہی کا نام ہے لہٰذا انسانی ضرورتوں کے پورا ہونے کے لئے نبوت کا ہونا ضروری ہے۔
ضرورتِ نبوت پر تیسری دلیل ہے : حاسہ سبب ادراک ہے اور اس سے غلطی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے ازالہ کے لئے عقل کا اس پر حاکم ہونا ضروری تھا۔ مگر جب عقل بھی ٹھوکر کھائے تو اس کا ازالہ نہ عقل کر سکتی ہے نہ حواس کیونکہ حواس اس عقل کے محکوم ہیں اور عقل بحیثیت عقل ہونے کے مساوی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ عقل پر ایسی چیز کو حاکم تسلیم کیا جائے جو غلطی سے پاک ہے اور وہ نبوت ہے کیونکہ نبوت ہی غلطی سے مبرا ہے۔ لہٰذا اختلافِ عقل کی مضرتوں سے بچنے کے لئے ’’نبوت‘‘ کو ماننا ضروری ہے۔ نبوت کا غلطی سے پاک ہونا ہی عصمت نبوت کا مفہوم ہے۔ معلوم ہوا کہ ’‘عصمت‘‘ لوازم نبوت سے ہے۔ اس مقام پر زَلَّات انبیاء علیہم السلام سے وہم پیدا کرنا درست نہیں۔
استدراک : شاید اس بیان کی روشنی میں ضرورت نبوت کے ساتھ اجرائے نبوت کا شبہ پیدا کر لیا جائے اس لئے گزارش ہے کہ ضرورتِ نبوت سے اجرائے نبوت ہرگز لازم نہیں آتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اس وقت مبعوث فرمایا جب کہ نوعِ انسانی اپنی حیات کے منازل طے کرتی ہوئی ایسے مرحلہ پر پہنچ گئی تھی کہ اس کے لئے جو نظام مقرر کیا جائے قیامت تک اس کی تمام ضروریات کے لئے وہی قابل عمل ہو۔ چنانچہ ارشاد فرمایا
’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘ (س: المائدہ، آیت: ۳)
میں نے آج تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔ یہ ارشادِ خداوندی منکرین ختم نبوت کے اس شبہ کا قلع قمع کرنے کے لئے کافی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبوت محمدیہ کے دامن سے ایسا دین وابستہ ہے جو قیامت تک پیش آمدہ ضروریات کے پورا ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔ نبوت و رسالت محمدیہ ہی بنی نوع انسان کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ اس کے بعد کسی کو نبوت دیا جانا متصور نہیں۔ ضرورتِ نبوت کے لئے اجراء نبوت کو لازم سمجھنا اکمال دین کے منافی ہے۔ ضرورت نبوت کے بعد حکمت بعثت پر بھی غور کرتے چلیں تاکہ عصمت و نبوت کا باہمی تعلق اور زیادہ واضح ہو جائے۔
بعثت انبیاء کی حکمتیں : قرآن کریم میں بعثت انبیاء علیہم السلام کی حکمتیں بکثرت آیات میں بیان کی گئی ہیں جن میں بعض حسب ذیل ہیں
(۱) وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ (النساء : ۶۳)
(۲) وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ۔ (انعام : ۴۸)
(۳) وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۔ (احزاب : ۷۱)
(۴) وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ (النساء : ۸۰)
(۵) لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔ (آل عمران : ۱۶۴)
ضرورت نبوت کے ضمن میں جن امور کو ہم نے بیان کیا ہے یہ آیات مبارکہ روزِ روشن کی طرح ان کی تائید کرتی ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت سے متعلق حسب ذیل حکمتوں کی نشاندہی کرتی ہیں
(۱) اللہ تعالیٰ کے بندوں سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرانا ۔
(۲) عالم غیب سے متعلق آخرت کی نعمت کی خوش خبری دینا اور عذابِ الٰہی سے ڈرانا۔
(۳) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نجات اخروی اور سعادتِ ابدی کے لئے شرط ہونا۔
(۴) اطاعت رسول کا اطاعت خداوندی ہونا تاکہ بندوں کے لئے اطاعت الٰہی کی راہ متعین ہو جائے۔
(۵) آیاتِ الٰہیہ کو تلاوت کرنا۔
(۶) ایمان والوں کا ظاہر و باطن پاک کرنا۔
(۷) کتابِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دینا۔
بیانِ سابق کی تفصیلات کو ذہن نشین کرنے کے بعد اگر نبوت اور رسالت کے ان مناصب و بعثت انبیاء علیہم السلام پر غور کیا جائے تو یقینا عصمت نبوت کا اقرار کرنا پڑے گا۔ کم از کم اتنی بات تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس کام کے کرنے کی صلاحیت کسی میں نہ ہو وہ کام اس کو سپرد نہیں کیا جاتا۔ ایک ظالم کو کرسی عدالت پر بٹھانا، ان پڑھ آدمی کو علم و حکمت کی موشگافیوں کا کام سونپنا، کسی بدکار فاسق و فاجر کو عفیفات کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے متعین کرنا، بیمار و ناتواں کے سر پر بھاری بوجھ رکھ دینا، گم کردہ راہ سے ہدایت طلب کرنا کسی عاقل کا کام نہیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان امور کی صلاحیتوں کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ ان کی انجام دہی کا منصب انبیاء علیہم السلام کو سونپ دے؟ جب یہ ممکن نہیں تو ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت کے ساتھ وہ تمام قوتیں اور صلاحیتیں بھی انبیاء علیہم السلام کو عطا فرمائی ہیں جن کا ہونا ان کے لئے ضروری تھا اور یہی عصمت کا مفہوم ہے جس کے بغیر نبوت ایسی ہے جیسے بینائی کے بغیر آنکھ اور روشنی کے بغیر سورج۔
No comments:
Post a Comment