Wednesday 31 July 2019

قربانی کے متفرق مسائل

1 comments



















دارالعلوم دیوبند کو ہندو مستقل طور پر چندہ دیتے تھے ۔ دیوبندی انگریز کے وفادار

0 comments
دارالعلوم دیوبند کو ہندو مستقل طور پر چندہ دیتے تھے ۔ دیوبندی انگریز کے وفادار

دویبندیوں کے رئیس القلم جناب مناظر احسن گیلانی مہتتم دارالعلوم دیوبند جناب قاری طیّب صاحب کی ہدایت پر لکھتے ہیں : دارالعلوم دیوبند کو ہندو مستقل طور پر چندہ دیتے تھے چند نام :منشی تلسی رام ‘ رام سہائے ‘ منشی ہر دواری لال‘ لالہ بجناتھ ‘ پنڈت سری رام ‘ منشی موتی لال ‘ رام لال‘ سیو رام سوار ۔ (سوانح قاسمی جلد دوم صفحہ نمبر 317 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند)

دویبندیوں کےرئیس القلم جناب مناظر احسن گیلانی مہتتم دارالعلوم دیوبند جناب قاری طیّب صاحب کی ہدایت پر لکھتے ہیں : دارالعلوم دیوبند کو ہندوؤں کی طرف سے مستقل بنیادوں پر چندہ ملتا رہا اور دیوبند والے ہندوؤں کےلیئے دعا کرتے رہے کہ : خدا اُن کی قوت و آزادی کو قائم رکھے یہ اعلان مسلسل ہوتا رہا ۔ (سوانح قاسمی جلد دوم صفحہ نمبر 332 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند)

مہتمم دارالعلوم دیوبند جناب قاری طیّب صاحب لکھتے ہیں : مدرسہ دیوبند کے اکثر بزرگ انگریز کے ملازم تھے ہم پر بغاوت کے الزام لگے مگر ہم (یعنی دیوبند والے) انہیں بزرگوں کے ذریعے صفائی دینے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم انگریز سرکار کے باغی نہیں ہیں ۔ ( سوانح قاسمی حصّہ دوم صفحہ نمبر 247 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند ، چشتی)

جی جناب عالی مہتمم دارالعلوم دیوبند جناب قاری محمد طیب صاحب تو فرماتے ہیں ہم انگریز سرکار کے باغی نہیں ہم نے یہ باور کرادیا انگریز سرکار کو تو جناب والا مہتمم دیوبند سچے کہ آپ سچے ذرا سوچ کر کمنٹ کیجیئے گا ؟ مزید تفصیل کتاب کے اصل صفحہ پر پڑھیں اسکن پیش خدمت ہے ۔

ہم کچھ عرض کرینگے تو شکایت ہوگی : صرف اتنی عرض ہے یہ چندہ ہندوؤں سے کس بنیاد پر لیا جاتا رہا ؟

کیا ہندو کے چندے سے دین کا کام کرنا جائز و درست ہے ؟

اور کیا ہندوؤں سے چندہ لے کر ان کی قوت و آزادی قائم رہے کی دعائیں کرنا اسلام سے غدّاری اور ہندو سے وفاداری نہیں ؟

محترم قارئینِ کرام : دارالعلوم دیوبند کو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ہندو چندہ دیتے رہے اور دیوبندی علماء ان کے لیئے دعائیں کرتے رہے ؟ ہندو اور دیوبندی ایک ہیں جناب من سچ سچ ہوتا ہے سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپایا نہیں جا سکتا ہندوؤں سے چندے کون لیتا رہا ؟ ہندوؤں کےلیے دعا کون کرتا رہا ؟ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور جواب دیں ۔

مختصر تاریخ فرقہ دیوبند

دیوبندیت ایک جدید فرقہ ہے جو دیوبندی کتب کے مطابق 30 مئی 1867 میں ہندوؤں اور انگریزوں کے تعاون سے بننے والے مدرسہ دیوبند کی تعمیر کیساتھ ہی معرض وجود میں آیا اس کا مختصر احوال ملاحظہ کیجیے :

دارالعلوم دیو بند کے موسسین میں پہلا نام مولانا ذوالفقار علی ولد فتح علی کاہے جو مولانا محمو د الحسن کے والد بزرگوار تھے ۔یہ دہلی کالج میں پڑھتے رہے، بریلی کالج میں پروفیسر رہے پھر شعبہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس بنے پھر پنشن کے بعد دیو بند تشریف لے آئے اور حکومت برطانیہ سے وفاداری کے اعزا ز میں آنریری مجسٹریٹ بنا دیئے گئے۔انہوں نے 30مئی 1867ءمیں دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھی ۔ دوسرے مولانا فضل الرحمن تھے جو مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد بزرگوار تھے۔انہوں نے دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا ۔مولانا یعقوب علی نانوتوی دارالعلوم دیو بند کے پہلے مدرس تھے ۔مولانا قاسم نانوتوی دہلی کالج سے فارغ ہوئے تو پہلے مطبع احمدی پھر مطبع مجتبائی میرٹھ میں اور اس کے بعد مطبع مجتبائی دہلی میں پروف ریڈر رہے اس کے بعد مستقل طور پر مدرسہ دیو بند میں پڑھاتے رہے ۔ (احسن نانوتوی ص691,195,47,45 ،چشتی)

مدرسہ دیو بند کی تعمیر کے لئے جن ہندوؤں نے چندہ دیا ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔منشی تلسی رام ، رام سہائے ، منشی ہر دواری لال، لالہ بجناتھ ، پنڈت سری رام ، منشی موتی لال ، رام لال، سیو رام سوار ۔ (سوانح قاسمی 2/317)

قاری طیب دیو بندی مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں : چنانچہ دارالعلوم دیو بند کی ابتدائی روداد میں بہت ہندوؤں کے چندے بھی لکھے ہوئے ہیں ۔ (خطبات حکیم الاسلام9/149)

13جنوری 1875ءبروز یک شنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے اس مدرسہ کا دورہ کیا تو اس نے اس کے متعلق بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا۔اس معائنے کی رپورٹ کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں : یہ مدرسہ سرکار کے خلاف نہیں بلکہ موافق سرکار ممد و معاون سرکار ہے ۔ یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ہیں کہ ایک دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں ۔ (احسن نانوتوی ص217‘تصنیف محمد ایوب قادری دیوبندی۔ خر العلماء ص 60 ،چشتی)

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو انگریزی حکومت کی طرف سے چھ سو روپیہ ماہوار ملتا تھا ۔ (مکالمہ الصدرین ص 9‘ تقریر شبیر احمد عثمانی دیوبندی)

اس بات کا تذکرہ تھانوی صاحب نے الاضافات الیومیہ 6۔56 ملفوظ نمبر 108میں بھی کیا ہے۔

دارالعلوم دیو بند کا جب صد سالہ جشن منایا گیا تو مہمان خصوصی (صدر مجلس ) بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم جگ جیون رام تھے ۔ مسز اندرا گاندھی نے علماء دیوبند کو خطاب فرمایا نیز مسٹر جگ جیون رام نے بھی علماء دیوبند کو بالخصوص اور عوام الناس کو بالعموم وعظ و نصیحت سے مستفید فرمایا ۔ اس صد سالہ جشن دیو بند کی روئداد بھی چھپی جس میں مہمانان گرامی کی تصاویر نمایاں طور ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔

کیا آپ جانتے ہیں لفظ دیوبند کا مفہوم کیا ہے ؟ ماہنامہ تجلی دیوبند کے ایڈیٹر عامر عثمانی دیوبندی کی زبانی پڑھیئے :

جناب عامر عثمانی دیوبندی اشعار کے ذریعہ سے سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں :
د ، ی ، و ، ب ، ن ، د

دغا کی دال ہے یاجوج کی ہے ی اس میں
وطن فروشی کی واؤ بدی کی ب اس میں

جو اس کے نون میں نارجحیم غلطاں ہے
تو اس کی دال سے دہقانیت نمایاں ہے

ملے یہ حرف تو بیچارہ دیوبند بنا
برے خمیر سے یہ شہر ناپسند بنا

(ماہنامہ تجلی دیوبند فروی 1957ء)

یہ ہے دیو کے بندوں کی کہانی انہی کی زبانی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


انگریزوں کا ایجنٹ کوں ؟ انگریز کی صفوں میں خضر علیہ السلام موجود ہیں

0 comments
انگریزوں کا ایجنٹ کوں ؟ انگریز کی صفوں میں خضر علیہ السلام موجود ہیں

دیوبندی لکھتے ہیں : انگريزوں كے مقابلے ميں جو لوگ لڑ رهے تهے ان ميں حضرت مولانا شاه فيصل ارحمن گنج مراد آبادى رحمۃ الله بهى تهے اچانك ايك دن مولانا كو ديكها گيا كہ خود بهاگے جا رہے تهے اور كسى چودهرى كا نام لے كر جو باغيوں كى فوج كى افسرى كر رهے تهے كہتے جاتے تهے كہ لڑنے كا كيا فائده, خضر كو تو ميں انگريزوں كى صف ميں پا رہا ہوں - نواب صاحب دوسرے واقع كا ذكر بهى فرماتے تهے كہ غدر كے بعد جب گنج مراد آباد كى ويران مسجد ميں حضرت مولانا جا كر مقيم ہوئے تو اتفاقاً اسى راستہ سے جس كے كنارے مسجد ہے كسى وجہ سے انگريزى فوج گذر رہى تهى , مولٰنا مسجد سے ديكھ رہے تهے اچانك مسجد كى سيڑهيوں سے اتر كرديكها گيا كہ انگريزى فوج كے ايك سايئس سى جو باگ دوڑ كهونٹے وغيره گهوڑے كا لئے ہوئے تها اس سے باتيں كر كے مسجد واپس آ گئے , اب ياد نہيں رہا كہ پوچهنے پر خود بخود فرمانے لگے كہ سايئس جس سے ميں نے گفتگو كى يہ خضر عليہ السلام تهے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

انگریزوں کی صف میں حضرت خضر کی موجودگی اتفاقا نہیں پیش کی گئی بلکہ وہ نصرت حق کی علامت بن کر انگریزی فوج کے ساتھ ایک بار اور دیکھے گئے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں عذر کے بعد جب گنج مرادآباد کی ویران مسجد میں حضرت مولانا(شاہ فضل الرحمان صاحب ) مقیم ہوئے تو اتفاقا اسی راستے سے جس کے کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزر رہی تھی مولانا مسجد سے دیکھ رہے تھے اچانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا گیا کہ انگریزی فوج کے ایک سائیں سے جو باگ دوڑ کھونٹے وغیرہ گھوڑے کیلئے ہوئے تھے اس سے باتیں کرکے مسجد واپس آگئے اب یاد نہیں رہا کہ پوچھنے پر یا خود بخود فرمانے لگے سائیں جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے میں نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہوا ہے ۔ ( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

یہاں تک تو روایت تھی اب اس روایت کی توثیق و تشریح ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں باقی خود خضر کا مطلب کیا ہے ؟ نصرت حق کی مثالی شکل تھی جو اس نام سے ظاہر ہوئی تفصیل کے لیے شاہ ولی اللہ وغیرہ کی کتابیں پڑھیے گویا جو کچھ دعکھا جارہا تھا اسی کے باطنی پہلو کا یہ مکاشفہ تھا ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)

مہتمم دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں : مدرسہ دیوبند کے اکثر بزرگ انگریز کے ملازم تھے ہم پر بغاوت کے الزام لگے مگر ہم (یعنی دیوبند والے) انہیں بزرگوں کے ذریعیے صفائی دینے میں کامیاب ھوگئے کہ ہم انگریز سرکار کے باغی نہیں ہیں ۔ ( سوانح قاسمی حصّہ دوم صفحہ نمبر 374 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند)

جی جناب عالی مہتمم دارالعلوم دیوبند جناب قاری محمد طیب صاحب تو فرماتے ہیں ہم انگریز سرکار کے باغی نہیں ہم نے یہ باور کرادیا انگریز سرکار کو تو جناب والا مہتمم دیوبند سچے کہ آپ سچے ذرا سوچ کر کمنٹ کیجیئے گا ؟

بات ختم ہوگئی لیکن یہ سوال سر پر چڑھ کے آواز دے رہا ہے کہ جب حضرت خضر کی صورت میں نصرت حق انگریزی فوج کے ساتھ تھی تو ان باغیوں کیلئے کیا حکم ہے جو حضرت خضر کے مقابلے میں لڑنے آئے تھے ؟ کیا اب بھی انہیں غازی اور مجاہد کہا جاسکتا ہے اپنے موضوع سے ہٹ کر ہم بہت دور نکل آئے لیکن آپ کی نگاہ پر بار نہ ہو تو اس بحث کے خاتمے پر اکابر دیوبند کی ایک دلچسپ دستاویز اور ملاحظہ ہو :

خط لکھتے لکھتے شوق نے دفتر کئے رواں

افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات

دیوبندی حلقے کے ممتاز مصنف مولوی عاشق الٰہی میرٹھی اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں انگریزی حکومت کے ساتھ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نیاز مندانہ جذبات کی تصویر کھنچتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں آپ سمجھے ہوئے تھے کہ میں جب حقیقت میں سرکار کا فرماں بردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بیکانہ ہوگا اور اگر مارا بھی آگیا تو سرکار مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے ۔ (تذکرۃ الرشید ج 1 ص 80 ادارہ اسلامیات لاہور،چشتی)

کچھ سمجھے آپ ؟

کس الزام کو یہ جھوٹا کہہ رہے ہیں یہی کہ انگریزوں کے خلاف انہوں نے علم جہاد بلند کیا تھا میں کہتا ہوں کہ گنگوہی صاحب کی یہ پر خلوص صفائی کوئی مانے یا نہ مانے لیکن کم از کم ان کے معتقدین کو تو ضرور ماننا چاہیے لیکن غضب خداکا کہ اتنی شد و مد کے ساتھ صفائی کے باوجود بھی ان کے ماننے والے یہ الزام ان پر آج تک دھرا رہے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی کہ کسی فرقے کے افراد نے اپنے پیشوا کی اس طرح تکذیب کی ہو اور سرکار مالک ہے سرکار کو اختیار ہے یہ جملے اسی کی زبان سے نکلتے ہیں جو تن سے لیکر من تک پوری طرح کسی کے جذبہ غلامی میں بھیگ چکا ہو ۔

آہ دلوں کی بد بختی اور روحوں کی شقاوت کا حال بھی کتنا عبرت انگیز ہوتا ہے سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ خدا کے باغیوں کے لیے جذبہ عقیدت کا اعتراف یہ کہ وہ مالک بھی ہیں اور مختیار بھی : لیکن احمد مجتبٰی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ان حضرت کے عقیدے کی زبان یہ ہے جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار ( مالک ) نہیں ۔ ( تقویۃ الایمان ص 70 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور)

بے شک یہ بتانے کا حق مخلوق ہی کو ہے کہ اس کا مالک کون ہے کون نہیں جو مالک تھا اس کے لیے اعتراف کی زبان کھلنی تھی اور جو مالک نہیں تھا اس کا انکار ضروری تھا ہوگیا ۔ اب یہ بحث بالکل عبث ہے کہ کس کا مقدر کس مالک کے ساتھ وابستہ ہو یہاں پہنچ کے ہمیں کچھ نہیں کہنا تھا تصویر کے دونوں رخ آپ کے سامنے ہیں مادی منفحت کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ دلوں کی اقلیم پر کس بادشاہ کا جھنڈا گڑا ہوا ہے سلطان الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یا تاج برطانیہ کا ؟ بات چلی تھی گھر کے مکاشفہ سے اور گھر ہی کی دستاویز پر ختم ہوگئی ۔ یہ ہیں انگریز کے اصل خیر خواہ دیوبندی پہچانیے انہیں آج فضل الرحمٰن کیوں کہتا ہے جشن آزادی نہیں منایں گی اصل وجہ کو پہچانیے ان لوگوں نے کبھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کو رجل فاجر اور کافر اعظم کس نے کہا ؟

0 comments
قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کو رجل فاجر اور کافر اعظم کس نے کہا ؟

محترم قارئینِ کرام : تجانبِ اہل السنّہ نامی کتاب کو اہلسنّت و جماعت سالہا سال سے رد کر چکے یہ کسی غیر معروف امام مسجد کی لکھی ہوئی کتاب ہے جسے اہلسنّت نے رد کر دیا اب بھی اِسے اہلسنّت کے خلاف پیش کرنا منافقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ (اندھیرے سے اجالے تک صٖحہ نمبر 47 ، 48 مطبوعہ مرکزی مجلسِ رضا لاہور پاکستان)

پاکستان کے مخالفوں اور قائد اعظم کو کافرِاعظم ، فاسق کہنے والوں اور پاکستان بنانے والوں اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ساتھ دینے والوں کو پہچانیئے

محترم قارئینِ کرام : قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان رحمۃ اللہ علیہ کو رجل ِ فاجر (گنہگار انسان) کہنے والے مودودی (جماعت اسلامی) اور کافر اعظم کہنے والے مظہر علی اظہر دیوبندی (جماعت الاحرار) تھے یہ لوگ پاکستان کو پلیدستان اور ایک بازاری عورت کہتے اور تحریک پاکستان کےلیئے تحریک چلانے والوں انہیں ووٹ دینے والوں کو سور (یعنی خنزیر) کہتے تھے ۔ سِتم بالائے سِتم آج یہی لوگ پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اہلِ وطن انہیں پہچانیئے اور پاکستان کو دشمنانِ پاکستان سے بچایئے آیئے حقائق پڑھتے ہیں : (اصل اسکینز ساتھ شامل ہیں)

دیوبندیوں کا امیر عطاء اللہ احرای دیوبندی کہتا تھا : جو تحریک آزادی پاکستان کےلیئے مسلم لیگ کو ووٹ دینگے وہ سور (یعنی خنزیر) ہیں اور سور کھانے والے ہیں ۔ ایسے کئی جینا (یعنی قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ) جواہر لال نہرو کی جوتی پر قربان ۔ (چمنستان صفحہ نمبر 164 ظفر علی خان دیوبندی مطبوعہ پبلیشرز یونائیٹڈ چوک انار کلی لاہور)

دیوبندی پاکستان بننے کے خلاف کانگریس سے مل کر سازشیں کرتے رہے اور پاکستان کو پلیدستان کہتے اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو کافرِ اعظم کہتے رہے ۔ (رورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر 28)

دیوبندی عطاء اللہ شاہ بخاری کہتا تھا کوئی ماں کا لال پاکستان کی پ نہیں بنا سکتا ، پاکستان نہیں پلیدستان ہے ، پاکستان ایک بازاری عورت کی طرح ہے جسے ہم دیوبندیوں نے مجبورا قبول کیا ہے ، پاکستان بنانے والے عاقبت خراب کر رہے ہیں ۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر 398 ،چشتی)

دیوبندی فتویٰ مسٹر جناح (یعنی قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ) ایک شیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور شیعہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (کفایت المفتی جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 401 دارالاشاعت کراچی مفتی کفایت اللہ مفتی دیوبند)

دیوبندی فتویٰ تحریک آزادی پاکستان کےلیئے مسلم لیگ کا ساتھ دینا اسلام کےلیئے نقصان دہ ہے اور مسٹر محمد علی جناح شیعہ تھا اور اس کا اسلام سے رسمی تعلق تھا ۔ (کفایت المفتی جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 410 دارالاشاعت کراچی مفتی کفایت اللہ مفتی دیوبند)

دیوبندیوں سے سوال نمبر 1 : جب تمہارے مفتی کے فتوے کے مطابق قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ شیعہ تھے تو تمہارا فتویٰ ہے کافر کافر شیعہ کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر تو بقول تمہارے تمہارے علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ پڑھایا کیا کافر کا جنازہ پڑھانا جائز ہے ؟

دیوبندیوں سے سوال نمبر 2 جب تمہارے مفتی کے فتوے کے مطابق قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ شیعہ تھے تو تمہارا فتویٰ ہے کافر کافر شیعہ کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر تو بقول تمہارے علامہ شبیر احمس عثمانی دیوبندی قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ پڑھا کر مسلمان رہے یا کافر ہوگئے ؟

محمد علی جناح جنت الحمقاء (احمقوں کی جنت) کا بانی اور اجل ِ فاجر (گنہگار انسان) ہے- پاکستان جنت الحقماء اور مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہے ۔ (مولانا مودودی، ترجمان القران فروری 1946 ص -154-153 ،چشتی)

مسلم لیگ کی نامراد تحریک کا مقصد ناپاکستان کا قیام ہے ( ترجمان القرآن، اپریل 1946ء)

محمد علی جناح کا مقام مسند پیشوائی نہیں بلکہ بحیثیت غدار عدالت کا کٹہرا ہے ۔ (مولانا مودودی، ترجمان القرآن، جلد 31، ص 63 اشاعت 1948ء)

اس کے علاوہ جماعت اسلامی کا لیڈر مظہر علی اظہر ، دیوبندی فرقہ پرست تکفیری گروہ جماعت الاحرار کا رہنما تھا ، اس ملعون نے دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی کے ساتھ مل کر مدح صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام سے لکھنو میں سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی اور سنی شیعہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی ، یہی وہ ملعون ہے جس نے عین عاشورہ کے روز یزید اور امیر شام کی تعریف اور مولا علی کی تنقید میں نہایت اشتعال انگیز قصیدہ پڑھا اور شہر کی سنی صوفی، بریلوی اور شیعہ آبادی کے جذبات مشتعل کیے – احرار کے مکار اس کو شیعہ ظاہر کرتے تھے لیکن یہ ایسا ہی شیعہ تھا جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی سنی حنفی، یعنی ان دونوں کا اپنے گزشتہ مسلک کے کیا تعلق ؟

جماعت الاحرار میں عطا الله شاہ بخاری، حبیب الرحمن لدھیانوی، مظہر علی اظہر سمیت سب انتہا درجہ کے تکفیری دیوبندی فرقہ پرست تھے اور قائد اعظم کے خلاف شدید بغض رکھتے تھے، ان منافق تکفیری دیوبندیوں کی حمایت ابو الکلام آزاد اور دار العلوم دیوبند کے حسین احمد مدنی جیسے خوارج کے علاوہ مودودی و دیگر بھی کرتے تھے ۔

روزنامہ پاکستان میں ٢٨ جنوری ٢٠١٤ کو دیوبندی مصنف مفتی محمد اصغر نے دیوبندی مولوی مجاہد الحسینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ مظہر علی اظہر دیوبندی تھا ۔ گذشتہ دِنوں مولانا مجاہد الحسینی کی علالت کا سن کر عیادت کے لئے حاضری ہوئی تو مولانا نے اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے مولانا مظہر علی اظہر شروع میں اثناءعشری شیعہ تھے ، اکابر علماء دیوبند کی صحبت ملی تو ان کے نظریات بدل گئے – مولانا مظہر علی اظہر کو مجلس احرار اسلام اور ان کے دُر ویش صفت قائدین بالخصوص امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کی صحبت میسر آئی توان کے نظریات میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی مولانا مظہر علی اظہر کے نظریات میں اس حد تک تبدیلی واقع ہوئی کہ مجلس احرار اسلام نے ان کو لکھنوءمیں تحریک مدح صحابہ ؓ کا نگران مقرر کردیا تھا اہلسنت دیوبندی عوام ان کو سابقہ نظریات کی بنا پر شیعہ کہتے تھے (اس کی دیوبندی شناخت کو چھپاتے تھے) اور اہل تشیع تحریک مدح صحابہ رضی اللہ عنہم (اس دور کی سپاہ صحابہ) کا رہنما ہونے کی وجہ سے دیوبندی قرار دیتے تھے ۔

اسی بدبخت مظہر علی اظہر دیوبندی نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا اور اس کی اس بکواس کو جماعت اسلامی کے ترجمان القران میں واہ واہ کے ساتھ شائع کیا گیا

قائد اعظم اورتحریک پاکستان کی دشمن یہ منافق جماعت اب تکفیری دیوبندی خوارج طالبان ، سپاہ صحابہ اور القاعدہ کے ساتھ مل کر قائد کے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کر رہی ہے – ان بد بختوں کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں، یہ جہنم کے کتے ہیں، خوارج ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : آج تک جن حضرات کے نام تحریک پاکستان میں لیے جاتے رہے ان میں سے اکثر نے اس کی مخالفت کی تھی جن حضرات کو آج قائد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے انہوں نے اس وقت مخالفت کی تھی اور جن حضرات نے حقیقی طور پر قیام پاکستان کے لیے کام کیا آج ان کے ناموں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے بہرحال میں یہاں پر مختصر طور پر ان افراد کے نام اور ان کے اقوال نقل کروں گا جنہوں نے اس وقت قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی پڑھیئے حقائق اور پاکستان کے دشمنوں کو پہچانیے :

ابوالکلام آزاد دیوبندی لکھتا ہے : تقسیم صرف ملک کے نقشے پر ہوئی ہے لوگوں کے دلوں میں نہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم مختصر مدت کے لیے ہوئی ہے (سی-ایچ فیلپس ،دی پارتیشن آف انڈیا ،لندن ١٩٧٠صفحہ نمبر٢٢٠)

ابوالکلام آزاد نے غیراسلامی ترانہ (بندے ماترم)کی تعریف کی (روزنامہ مشرق ٢٥ دسمبر ١٩٧٤ بروز منگل)

ابوالکلام آزاد کے محبوب دوست مسٹر گاندھی ۔ (بیس بڑے مسلمان، عبدالرشید ارشد، مکتبہ رشیدیہ لاہور ١٩٨٦ صفحہ ٣٠٧)

مسلمانوں کو مرتد اور نیست نابود کرنے والی تحریکوں شدھی وغیرہ کی ہمت افزائی کی (برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں علما کا قردار، قومی ادارہ برائے تحقیق وثقافت اسلام آباد ١٩٨٥ صفحہ ٢٧٥)

جناح کا یہ نظریہ کہ ہندوستان میں دو جدا گانہ قومیں ہیں یہ غلط فہمی پر مبنی ہے میں ان سے اتفاق نہیں کرتا (تحریک پاکستان میں نیشنلسٹ علما کا کردار ،چوہدری حبیب احمد ،البیان لاہور ١٩٦٦ صفحہ ٢١٣)۔(ماہنامہ طلوع اسلام دہلی مارچ ١٩٤٠صفحہ ٦٧،چشتی)

آپ نظریہ پاکستان کے مخالف تھے ۔ (ماہنامہ طلوع اسلام دھلی جون ١٩٤٦صفحہ ٥٩)

ابوالکلام آزاد کانگریسی ملا تھے (علمائے ہند کا سیاسی مئوقف صفحہ ٩٥)

پنڈت لال جواھر نہرو کے سیکرٹری نے آپ پر شراب نوشی کا الزام لگایا ۔ (ہفت روزہ اسلامی جمہوریہ لاہور ١٤تا٢٠ فروری ١٩٧٨ صفحہ ٢٥) (تحریک پاکستان کا ایک بابساگر سندھ اکادمی لاہور ١٩٨٧ صفحہ ٤٦ از پروفیسر محمد سرور)

اور بقول شورش کاشمیری کے:ہندو انھیں گالیا دیتے تھے (پس دیوار زنداں مطبوعات چٹان لاہور صفحہ ٣٠٧،چشتی)

مولوی فضل الرحمان دیوبندی نے قیام پاکستان کو فراڈ اعظم کہا ۔ (روزنامہ خبریں لاہور ٧مارچ ١٩٩٤ بروزسوموار)

مفتی محمود دیوبندی والد مولوی فضل الرحمان کی مخالفت پاکستان

مفتی محمود دیوبندی نے کہا : ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے (ماھنامہ ترجمان سواد اعظم لاہور اگست ١٩٧٩ نظریہ پاکستان نمبر صفحہ ٣٧) (کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان عبدالحکیم شرف قادری،مکتبہ قادریہ لاہور صفحہ ١٤)

اور یہ بات قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ۔

مفتی محمود دیوبندی نے کہا : میرے نذدیک گاندھی کیپ پہننا باعث ثواب ہے ۔ (علمائے ہند کا سیاسی مؤقف صفحہ ٦٦،چشتی)

قاضی مظہر دیوبندی چکوال نے کہا : مسلم لیگ کی بنیاد انگریز نے رکھی اور مسلم لیگی انگریز کے ایجنٹ ہیں ۔ (پاکستان اور گانگریسی علماء کاکردار مکتبہ الرضا ص٢٧)

مولوی شبلی نعمانی دیوبندی : شبلی نعمانی گانگریسی ملا تھے ۔ (علمائے ہند کا سیاسی مؤقف ص٥٩)

مولوی عطاءاللہ شاہ بخاری دیوبندی کی مخالفت پاکستان

عطاءاللہ شاہ بخاری دیوبندی نے کہا : پاکستان بننا تو بڑی بات کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے (تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء البیان لاہور ١٩٦٦ ص٨٨٣)

عطاءاللہ شاہ بخاری دیوبندی نے کہا : جو مسلم لیگ کو ووٹ دے دیں گے وہ سؤر اور سور کھانے والے ہیں(١٩٤٤،٤٥ کے انتخابات کے وقت) (چمنستان، یونائٹڈ پبلیکیشنرز لاہور ١٩٤٤ ص١٢٥،چشتی)

عطاءاللہ شاہ بخاری دیوبندی نے کہا : قائداعظم انگریز کے پٹھو ۔ (ہفت روزہ استقلال لاہور ٦تا ١٣ دسمبر ١٩٨٢ ص٢٠)

عطاءاللہ شاہ بخاری دیوبندی نے کہا : پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے (رپورٹ آف دی کورٹ آف-------ڈسٹربینس---------١٩٥٣،گورنمنٹ پرنٹنگ پریس پنجاب لاہور ص٢٥٦)

عطاءاللہ شاہ بخاری دیوبندی نے کہا : اگر پاکستان کی پ بھی بن گئی تو میری داڑھی پیشاب سے مونڈھ دینا (ماھنامہ عرفات لاہور مارچ ١٩٧٩ ص٤،٥)

مولوی سراج احمد دین پوری دیوبندی نے کہا : پاکستان بنتے وقت لاالہ الااللہ کا نعرہ ڈھونگ تھا ۔ (ہفت روزہ ترجمان الاسلام لاہور ١٥نومبر١٩٨٥ ص٥)

ڈاکٹر رشید احمد جالندھری دیوبندی نے کہا : افسوس کہ پاکستان کی سر زمین پر کوئی گاندھی جی کے پایہ کا راھنما پیدا نہ ہوا ۔ (ہفت روزہ خدام الدین لاہور ١٤ اپریل ١٩٧٧ ص١٦،چشتی)

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی کی مخالفت تحریک آزدی پاکستان

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے کہا : اقوام اوطان سے بنتی ہیں ۔ (مشعل راہ ،عبد الحکیم شاہجاہنپوری ،فرید بکسٹال لاہور ص٨٥٦)

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے کہا : ہندو مسلم بھائی بھائی ہیں ۔ (تحریک آزادی ھند اور مشائخ و علماء کا کردار ص نمبر ١١)

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا اور کہا کہ مسلم لیگ میں مسلمانوں کی شرکت حرام ہے ۔ (رہبر دین ٢٩ اکتوبر ١٩٤٥) (پیغام بنام موتمر کل ہند جمیعت علمائے اسلام ھاشمی بکڈپولاہور ١٩٤٥صفحہ ٤٨)

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے کہا : نظریہ پاکستان انگریزوں کی ایجاد ہے ۔ (کشف حقیقت دی پرنٹنگ پریس دھلی صفحہ ٣٠)

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے کہا : گانگریس میں مسلمانوں کی شرکت فرض ہے ۔ (سیرت اشرف مطبوعہ ملتان ١٩٥٦صفحہ ٢٦٣)

جبکہ مفتی محمد شفیع صاحب دیو بندی کا فتویٰ ہے کہ گانگریس کی حمایت کفر کی حمایت ہے ۔ (ماھنامہ البلاغ کراچی جمادی الثانی تا شعبان ١٣٩٩ھ صفحہ ٨٢٢)

مولوی حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی نے دو قومی نظریہ کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے لیے ایک جماعت بنائی ۔ (اکابرتحریک پاکستان ،صادق قصوری ١٩٧٩لاہور صفحہ ٤٧٠،چشتی)

تحریک احرار کے شاعروں امین گیلانی دیوبندی ، سائیں حیات دیوبندی نے میاں چنوں کے ایک مشاعرے میں قائداعظم کو گالیاں دیں ۔ (تحریک اسلامی اور اس کے مخالفین مکتبہ چاہ ٹوٹیانوالہ گھر جاکھ گوجرانوالہ ص٣٨٠،٣٨١)

اندرا گاندھی نے دارالعلوم دیوبند کے جشن صد سالہ میں کہا کہ دارالعلوم دیوبند نے گاندھی جی کی قیادت میں تحریک آزادی میں تعاون کیا ۔ (١٠رجب المرجب ١٤٠٠ھ بروزاتوار روزنامہ نوائے وقت ٢٥مئی ١٩٨٠)۔(ماھنامہ رضوان لاہور مئی جون ١٩٨٠ص٧،٨)

مولوی عبید اللہ سندھی دیوبندی کی مخالفت تحریک آزادی پاکستان

مولوی عبید اللہ سندھی دیوبندی نے کہا : ملک میں ایک جدید تعمیری پروگرام کا ہونا ضروری ہے جو گاندھی جی کے زیر قیادت گورنمنٹ کےساتھ تعاون پر مبنی ہو (ماھنامہ طلوع اسلام دھلی اپریل ١٩٤٠ ص٧٧)

مولوی عبید اللہ سندھی دیوبندی نے کہا : سچ پوچھو تو اقبال ایک روایت پرست یہودی کی طرح مسلمانوں کی موہوم جماعت کو پوجتا ہے ۔ (افادات و ملفوظات مولانا عبیداللہ سندھی سندھ ساگر اکادمی لاہور ١٩٨٧ص٤٣٤)

مولوی عبید اللہ سندھی دیوبندی نے کہا : اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام ہے (افادات و ملفوظات مولانا عبیداللہ سندھی سندھ ساگر اکادمی لاہور ص٤٣٥)

1857ء کی تحریک ِآزادی علامہ فضل ِ حق خیر آبادی(1797ء۔ 1861ء )کے فتویٔ جہاد سے شروع ہوئی ،جس کی پاداش میں انگریزوں نے علامہ کو کالے پانی کی سخت سزا سنائی، جہاں اس مردِ مجاہد نے انتقال کیا ۔ وہ علماء جنہوں نے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا ئی تھی انہیں تختہ دار پر کھینچ دیا گیایا قید و بند میں انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں ،ان سرفروشوں میں مولانا سید احمد اﷲ شاہ مدراسی، مفتی کفایت علی کافی،مولانا عنایت احمد کاکوروی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا رضی الدین بدایونی، مولانا رحمت اﷲ کیرانو ی، مفتی سعید احمد بدایونی اورامام بخش صہبائی کے نام نمایاں ہیں ۔جن لوگوں نے ان مجاہدین سے ہمدردی کا اظہار کیا انگریز سرکار نے انھیں بھی گولیوں سے بھون دیا ۔ایک اعداد و شمار کے مطابق تقریباً5لاکھ مسلمانوں کو سزائے موت ہوئی(تقدیم: مفتی عطاء اﷲ نعیمی، تخلیق ِ پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار، ناشر جمعیت اشاعت اہلسنت کراچی،2010ء ،صفحہ 11) ۔ تحریک کے بعد مسلمانوں کے متعدد مدارس و مساجد کو ختم کر دیا گیا اورانہیں معاشی ،سماجی اور مذہبی طورپر سخت نقصان پہنچایا گیا۔ انگریزوں اور ہندوؤں نے برصغیر میں جو تعصب اور امتیازی سلوک روا رکھا، وہ آگے چل کر پاکستان کے ظہور کی بنیاد بنا۔

1857ء کی تحریک آزادی کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی مگر اس کے مجاہدین کی قربانیوں نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ تحریک آزادی کے ان مجاہدوں کا تعلق اہلسنت و جماعت سے تھا جسے آج اہلسنت و جماعت بریلوی مکتب ِ فکر کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔اس مکتب کا قیامِ ِپاکستان میں لازوال کردار رہا ۔ بدقسمتی سے یہ کردار اس مکتب کے علما ء و مشائخ کی شرافت اور سازشی ہتھکنڈوں سے ناواقفیت کے باعث مخالف حلقے کے تعصّب اور طاقت کی نذر ہوگیا اور تاریخ کی کتابوں میں وہ جگہ نہ پاسکا جس کا یہ مستحق تھا۔

بریلی کے مولانا احمد رضا خاں( 1856ء۔1921ء) بھی1857ء کے مجاہدوں کے فکری جانشیں تھے ۔ وہ شروع سے ہندو مسلم اتحاد کے سخت خلاف تھے اور مسلمانوں پر اپنا علیحدہ تشخص قائم رکھنے پر زور دیتے تھے۔ وہ مرتے دم تک اپنے اس موقف پر قائم رہے۔انھوں نے 1904ء میں بریلی میں دار العلوم منظر اسلام قائم کیاجہاں سے فارغ التحصیل علماء ا ور اُن کے تلامذہ نے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔

1916 ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین میثاق لکھنو کے ذریعے ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کی گئی تو علامہ محمد اقبال اور مولانا احمد رضا نے اس معاہدے کی مخالفت کی، بعد کے تجربات نے ثابت کر دیا کہ ان افراد کا موقف درست تھا ( ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار، مکتبہ نوریہ، کراچی، 2007ء ،صفحہ58)۔

جب ہندوستان میں ارتداد کا فتنہ سر اٹھانے لگا تومولانا احمد رضا نے اس کے مقابلے کے لیے 1917ء میں ’’ جماعت رضائے مصطفی‘‘ قائم کی( پروفیسر محمد مسعود احمد، تحریک آزادی ہند اور السواد ِ اعظم،رضا پبلی کیشنز، لاہور،1979ء، صفحہ233)۔ اس تنظیم نے مولانا کے انتقال کے بعد شدھی تحریک کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔1918ء میں مولانا احمد رضا کے خلیفہ مولانا نعیم الدین(1887ء۔1948ء) نے مراد آباد سے ماہنامہ ’’السوادِ اعظم ‘‘ جاری کیا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

1921-1919ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی کی سربراہی میں ہندوستان میں تحریک خلافت، تحریک ترکِ موالات اور تحریک ہجرت شروع کی۔ عبد الرشید ارشد لکھتے ہیں ’’ 3ذیقعدہ 1338ھ کو مولانا محمود حسن نے ترک ِ موالات کی حمایت میں فتوی جاری کیا جس میں حضرت رحمتہ اﷲ علیہ نے ترک ِ موالات کی تمام دفعات میں کانگریس کی موافقت کی۔ اس کے بعد یہی فتویٰ جمعیت علماء ہند کے متفقہ فیصلہ کی صورت میں تقریباً 500 علماء کے دستخطوں سے شائع کیا گیا ‘‘(عبد الرشید ارشد، بیس بڑے مسلمان، مکتبہ رشیدیہ ،لاہور، 1983ء ، صفحہ285،چشتی) ۔ مئی1920ء میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتوی جاری کیا۔ ان تحریکوں سے مسلمانوں کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور ان کے نتیجے میں مسلمان فاقوں تک پر مجبور ہوگئے( پروفیسر احمد سعید، حصول ِ پاکستان، ایجوکیشنل ایمپوریم، لاہور،1979ء، صفحہ160-158)۔

ان حالات میں ہندوستان میں مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی پہلے عالم ِ دین تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ان تحریکوں سے الگ رہنے کی تلقین کی اور انھیں دو قومی نظریے کے تصور سے آگاہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے بڑے بڑے راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ ممتاز مورخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے بقول ’’مولانا احمد رضا خاں نے ترکِ موالات کی مخالفت اصولی بنیادوں پر کی تھی‘‘ (دو قومی نظریہ کے حامی علماء اور ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی ، سورتی اکیڈمی کراچی، 1982ء صفحہ20)۔تحریک ہجرت کی مخالفت میں مولانا اشرف علی تھانوی بھی مولانا احمد رضا کے ہمنو ا تھے( راجا رشید محمود، ’’ تحریک ِ ہجرت‘‘، مکتبہ عالیہ ،لاہور،1995ء ، صفحہ72)۔

اہلسنت و جماعت بریلوی مکتب فکر کے علماء و مشائخ نے تقدیس ِ رسالت کے تحفظ میں تاریخی کردار ادا کیا، تحریکِ موالات اور تحریکِ ہجرت کی مخالفت کی ، گاندھی کو مسلمانوں کا راہ نما تسلیم کرنے سے انکار کردیا، مسلمانوں پر الگ تشخص قائم رکھنے پر زور دیا اورقیام ِ پاکستان کے لیے بے مثال جدوجہد کی ۔ اِن علما نے ہر موقع پر اُن فیصلوں کی مخالفت کی جن سے مسلمانوں کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنے اس کردار کے باعث اِن علماء نے کانگریس اور دیوبند کے اُن علماء کی مخالفت مول لے لی جو ہندوؤں کے شانہ بشانہ سرگرم تھے ۔ اس صورتحال نے برصغیر میں فرقہ وارانہ رسہ کشی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (1981-1903ء) لکھتے ہیں ’’ بریلوی مکتب فکر کے علماء کانگریس کی قیادت قبول کرنے کے اس لیے خلاف تھے کہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ اس طرح مسلمان آہستہ آہستہ اپنی جداگانہ شخصیت کو ضائع کردیں گے اور ہندوؤں کے خیالات اور طور طریقے قبول کر لیں گے ‘‘ (ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، علماء میدان سیاست میں، اردو ترجمہ ہلال احمد زبیری، شعبہ تصنیف و تالیف کراچی یونیورسٹی، 1994ء صفحہ440)۔ مولانا احمد رضا کی انگریز وں سے بیزاری کا یہ عالم تھا کہ آپ ڈاک کے لفافوں پر برطانیہ کی ملکہ اور بادشاہ کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ، تصویر الٹا کرکے چسپا ں کیا کرتے تھے(عکس لفافہ: پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، گناہِ بے گناہی، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی، 1984ء، صفحہ38)۔ 1921ء میں مولانا احمد رضا خاں رحلت کر گئے۔

حضرت مجدد الف ثانی(1624-1564ء)، علامہ فضل حق خیر آبادی(1861-1797ء) اور مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی کی فکر کے وارث علماء ومشائخ 19-16مارچ1925ء کو مراد آباد میں منعقدہ سنی کانفرنس میں جمع ہوئے۔ اس موقع پر مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ’’ آل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ کے نام سے تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے صدر پیر جماعت علی شاہ علی پوری( متوفی1951ء ) اور ناظم اعلیٰ مولانا نعیم الدین مراد آباد ی( متوفی1948) منتخب ہوئے۔ پاکستان کی کوئی تاریخ’’ آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ اور علماء اہلسنت کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں کہلائی جاسکتی۔اس کانفرنس کے بعد ہندوستان کے طول و عرض میں ’’ آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کے جلسے ہوئے ۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بیان کرتے ہیں ’’ مولانا نعیم الدین مراد آبادی، سید محمد محدث کچھوچھوی، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگرعلما نے سنی کانفرنسیں منعقد کرکے تحریک ِ پاکستان کی حمایت کی اور اپنے مکتب ِ فکر کے علماء اور عوام کو اس کی حمایت پر آمادہ کیا۔ یقینا ان علما ء کی اس جدوجہد سے تحریک ِ پاکستان کو تقویت پہنچی کیونکہ ان علماء کا اثر تھا اور کافی تھا‘‘( انٹرویو: ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، دو قومی نظریہ کے حامی علماء، سورتی اکیڈمی، کراچی،1982ء ،صفحہ 22بحوالہ ہفت روزہ افق، کراچی شمارہ8 جنوری1979ء)۔ 1930ء، یہ وہی زمانہ ہے جب علامہ محمد اقبال اس طرف متوجہ ہوئے اور ا لہٰ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح 1933ء میں محمد علی جنا ح مسلم لیگ میں دوبارہ متحرک ہوئے۔

23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کے جلسے میں جن ممتاز علماء و مشائخ نے شرکت کی اُن میں علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری، مولاناعبدالغفور ہزاروی، مولانا عبدالحا مدبدایونی،پیر عبداللطیف زکوڑی شریف، پیر امین الاحسنات مانکی شریف اور مولانا عبدالستار خاں نیازی جیسے علماء شامل تھے۔ مولانا بدایونی نے قرار داد کی حمایت میں اس جلسے سے خطاب بھی کیا( محمد صادق قصوری، تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کا کردار، تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ ،لاہور،2008ء ،متفرق صفحات )۔

مارچ1946ء میں 50سے زائد علما و مشائخ نے اپنے دستخطوں سے مسلم لیگ کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا( عکس فتوی، محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس،سعید برادران گجرات،1999ء،صفحہ208)۔ 30-27اپریل 1946ء کو بنارس میں عظیم الشان سنی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں دو ہزار سے زائد علماء و مشائخ اور 60ہزار کے قریب عام مسلمان شریک ہوئے(پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، ’’ فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار ، صفحہ136 اور خواجہ رضی حیدر قائد اعظم کے 72سال)۔ کانفرنس میں تنظیمی ،تربیتی، سیاسی اور تبلیغی نوعیت کے مختلف فیصلے کیے گئے۔ نیزبھرپور انداز میں مطالبۂ پاکستان کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کو ہر ممکن حمایت کا یقین دلایا گیا۔اس موقع پر پاکستان کا دستور بنانے کے لیے ممتاز علماء کرام پر مشتمل 13رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔کانفرنس میں تنظیم کے نئے صدر سید محمدمحدث اشرفی کچھوچھوی ، ناظم اعلیٰ مولانا نعیم الدین مراد آبادی اور ناظم نشر و اشاعت مولانا عبدالحامد بدایونی منتخب ہوئے( محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ238،260 ،چشتی)

جب مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک الگ وطن کی خواہش کا اظہار کیا تو گویا ایک بھونچال آگیا۔ امن اور عدمِ تشدد کی آڑ میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے وہ تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔پاکستان کی حمایت کرنے کے وجہ سے مختلف علماء و مشائخ کی بھی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پیر سید امین الحسنات ( مانکی شریف)، پیر صاحب زکوڑی شریف، خواجہ قمر الدین سیالوی، پیر صاحب گولڑہ شریف، مولانا ابراہیم چشتی ، پیر آف تونسہ شریف ، پیر صاحب مکھڈشریف اور دیگر اکابر پابند سلاسل ہوئے( محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ301)۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں ’’ یہ جماعت پاکستان کے لیے اپنے عہد و پیماں میں اس قدر راسخ تھی کہ مولانا نعیم الدین مراد آباد ی نے پنجاب شاخ کے ناظم ابوالحسنات سید محمد احمد قادری کو ایک خط میں لکھا ’’ جمہوریہ اسلامیہ اپنے اس مطالبے کو کسی حال میں ترک نہیں کرسکتی خواہ مسٹر جناح خود اس کے حامی رہیں یا نہ رہیں ‘‘ ( ڈاکٹر اشتیاق احمد قریشی، علماء میدان سیاست میں، مترجم ہلال احمد زبیری، شعبہ تصنیف و تالیف کراچی یونیورسٹی، صفحہ441)۔ ’’ آل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ کا مذکورہ فیصلہ دبدبہ سکندری رام پور میں 10جون1946ء کے شمارے میں بھی شائع ہوا( خبر کا عکس :خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مکتبہ رضویہ گجرات، 1978ء، صفحہ 312) یہی بات مولانا عبدالحامد بدایونی نے قائد اعظم سے ،اپنی ایک ملاقات میں دہرائی (جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ384؛ بحوالہ: دبدبہ سکندری رام پور، شمارہ21مئی1947ء،چشتی)۔

آل انڈیا سنی کانفرنس کے راہ نماؤں نے مطالبۂ پاکستان کو متعارف کرانے کے لیے پورے ہندوستان کے دورے کئے۔ مطالبے کو عالمی سطح پر متعارف کرنے کے لیے مولانا عبدالعلیم صدیقی اور مولانا عبدالحامد بدایونی پر مشتمل وفد مختلف اسلامی ممالک بھیجا گیا۔ قیام پاکستان سے قبل علماء اہلسنت نے مشرقی اور مغربی حصو ں کے درمیان خطہ اتصال نہ ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی( جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ294-292)۔ اگر مسلم لیگ ابتدا سے اس خطہ اتصال کو بھی اپنے مطالبات میں شامل کر لیتی تو شاید مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ نہ ہوتا۔

تحریکِ پاکستان میں بعض علمائے دیوبند کی خدمات کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم تحریک کے دوران دیوبند مکتب ِفکر کے مولانا اشرف علی تھانوی(1943-1863ء)، مولانا شبیر احمد عثمانی(1949-1886ء)، مولانا ظفر احمد عثمانی (1974-1982ء) اورمفتی محمد شفیع(1976-1897ء ) کو چھوڑ کر علماء ِدیوبند کی بھار ی اکثریت نے ہندوؤں کے شانہ بشانہ انڈ ین نیشنل کانگریس (1885ء) ،جمعیت علمائے ہند( 1919ء) اور دیگر تنظیموں کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی بھر پور مخالفت کی ۔ دارالعلوم دیوبند کو بحیثیت ادارہ پاکستان کی مخالفت میں استعمال کیا گیا۔ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ’’ دو چار علماء کے علاوہ دیوبندیوں کا باقی ماندہ حصہ تو ہندوؤں میں بالکل مدغم ہوچکا تھا‘‘ (دوقومی نظریہ کے حامی علماء، صفحہ20)۔ دار العلوم دیوبند کے ممتاز عالم مولانا حسین احمد مدنی نے مسلم لیگ میں شرکت کو حرام اور قائد اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا( ڈاکٹر ایچ بی خان، تحریک پاکستان میں علماء کا سیاسی و علمی کردار، الحمد اکادمی ،کراچی، 1995ء ،صفحہ342) اور مفتی محمد شفیع کے بقول ’’دیوبند میں کانگریسی مزاج پختہ ہوتا چلا گیا‘‘ ( انٹر ویو: مفتی محمد شفیع ، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ،لاہور، جولائی1968ء ،صفحہ28)۔

پاکستان مخالف مہم میں اسلامی شعائر کی پامالی سمیت پاکستان، قائد اعظم اور اُن کے حامیوں کے بارے میں ایسے نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے جو دین کے نام لیواؤں کے منصب کے یکسر منافی تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی بیان کرتے ہیں ’’ آج دارالعلوم نہ صرف ہنود کا مداح ہے بلکہ ان کے رنگ میں بہت کچھ رنگا جا چکا ہے‘‘(حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، فیض انبالوی و شفیق صدیقی، ادارہ پاکستان شناسی ،لاہور، 2002ء، صفحہ59 )۔ پاکستان کو پلیدستان، خاکستان، خونخوار سانپ ، پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو سور کھانے والے ، مسلم لیگ میں شرکت کو حرام اور قائد اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا گیا( تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار ، صفحہ102)۔ بقول مولانا احتشام الحق تھانوی (متوفی11اپریل1980ء) ’’ مفتی محمود اور مولانا یوسف بنوری جو کہ جمعیت علماء ہند صوبہ گجرات کے صدر تھے، ان دونوں کا نظریہ ہے کہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کو پاکستان بنانے کے جرم کی پاداش میں قبر میں عذاب مل رہا ہے ‘‘( انٹرویو: مولانا احتشام الحق تھانوی، مشمولہ: دی گریٹ لیڈر حصہ اوّل، منیر احمد منیر، آتش فشاں لاہور، 2011ء، صفحہ79)۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی جیسے سنجیدہ شخص نے مطا لبۂ پاکستا ن کو بَکر ی کی بولی قرار دیا ( تحریک آزادی ٔ ہند اور مسلمان ،دوئم ، اسلامک پبلی کیشنز ، لاہور، 2005ء، صفحہ107 )۔ جماعت اسلامی کے اپریل 1947ء کے اجلاس منعقدہ پٹنہ میں کانگریس کے راہ نما گاندھی دو خواتین کے ہمراہ بنفسِ نفیس شریک ہوئے اور اجلاس میں کی جانے والی تقریر پر مسرت کا اظہار کیا(رودادِ جماعت اسلامی حصّہ پنجم، شائع کردہ شعبہ نشرو اشاعت جماعت ِاسلامی، ملتان روڈ، لاہور،1992ء، صفحہ251)۔ ’’ جماعت کے اس جلسے میں بندے ماترم کے ترانے کے ساتھ گاندھی کا استقبال ہوا ‘‘ (انٹرویو: مولانا احتشام الحق تھانوی، دی گریٹ لیڈر، صفحہ نمبر 79 ،چشتی)

مولانا اشرف علی تھانوی کے سوانح نگار پروفیسر احمد سعید لکھتے ہیں ’’ مسلمانوں نے مندروں میں جاکر دعائیں مانگیں۔ وید کو الہامی کتاب تسلیم کیا گیا۔ رامائن کی پوجا میں شرکت کی گئی۔ مسلمانوں نے اپنے ماتھے پر تلک لگائے۔ گنگا پر پھول اور بتاشے چڑھائے گئے۔ بار بار اعلان کیا جاتا کہ ’’ گاندھی مستحق نبوت تھا‘‘ اور یہ کہا گیا کہ ’’اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو گاندھی نبی ہوتا۔ گائے کی قربانی موقوف کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں اور سب سے غضب یہ کیا کہ دہلی کی جا مع مسجد میں منبر رسول پر ایک متشدد اور متعصب ہندو شردھانند سے تقریر کروائی گئی‘‘ ّ ( پروفیسر احمد سعید، حصول ِ پاکستان ، الفیصل تاجران کتب، لاہور، 1996ء ،صفحہ123)۔

ممتاز محقق اور قائد ِ اعظم اکیڈمی کے سابق ایکٹنگ ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر تحریک پاکستان میں ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کی عدم شرکت کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ 8جون 1936ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل اور مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کے اجلاس لاہور میں ہوئے۔ ان اجلاسوں سے مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اﷲ اور مولانا احمد سعید نے بھی خطاب کیا اور انہوں نے کہا کہ دیوبند کا ادارہ اپنی تمام خدمات لیگ کے لیے پیش کردے گا بشرطے کہ پروپیگنڈہ کا خرچ لیگ برداشت کرے۔ اس کام کے لیے ابتدائی طور پر پچاس ہزار کی رقم بھی طلب کی گئی جو لیگ کی استعداد سے باہر تھی‘‘ (خواجہ رضی حیدر، قائد اعظم کے 72سال، نفیس اکیڈمی کراچی،1986ء ،صفحہ303 ؛ میاں عبدالرشید،پاکستان کا پس منظر اور پیش منظر، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان،لاہور، 1985ء، صفحہ113)۔واقعہ کی تفصیل تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما اور قائد اعظم کے دستِ راست مرزا ابوالحسن اصفہانی(1981-1902ء) نے بھی اپنی کتاب "Quaid-e-azam as I knew him"، اردو ترجمہ بعنوان ’’قائدِ اعظم جناح میری نظر میں‘‘ مطبوعہ روٹا پرنٹ ایجنسی کراچی، 1968ء کے صفحہ30پر تحریر فرمائی۔

ممتاز صحافی اور کالم نویس ضیاء الاسلام زبیر ی تحریر کرتے ہیں ’’ سیدعطا اﷲ شاہ بخاری اور اس قسم کے دوسرے لوگ فنِ خطابت کے امام تھے۔ ہندو کانگریس نے ان کے فن ِ خطابت ہی کی وجہ سے ان کو بھاری قیمت کے عوض خرید رکھا تھا‘‘( پر وفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار،صفحہ146، بحوالہ: روزنامہ نوائے وقت، 26اگست1971ء)۔

دیوبند اور بریلوی مکتب فکر میں تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ایک واضح فرق یہ ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے علماء شروع سے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرتے رہے۔ یہ وہ قافلہ تھا جس نے 1857ء میں پھانسی کے پھندوں اور خون کے نذرانوں سے تحریک آزادی کی بنیاد رکھی جبکہ تحریک پاکستان میں شریک بعض علمائے دیوبند آخری دنوں میں تحریک میں شریک ہوئے۔

ممتاز کانگریسی لیڈر ابو الکلام آزاد (1958-1888ء)کی یادداشتوں پر مبنی کتاب India Wins Freedom، اُن کے انتقال (22فروری1958ء) کے بعد 1958ء میں ہی چھپی۔کتاب کے کچھ ابواب ان کی وصیت کے مطابق 30سال بعد1988ء میں کتاب کے نئے ایڈیشن میں شامل کیے گئے۔ ان ابواب میں آزاد اعتراف کرتے ہیں کہ:
"One has to admit with regret that the nationalism of the Congress had not then reached a stage where it could ignore communal considerations and select leaders on the basis of merit without regard to majority or minority." ( Orient Longman Limited, Madras, 1988 , page No. 18 )
ترجمہ : ’’افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کانگریس کی قوم پرستی ابھی اس سطح تک نہیں پہنچی تھی ،جہاں یہ فرقہ واریت سے بالا تر اور اقلیت و اکثریت سے بے نیاز ہو کر محض اہلیت کی بنیاد پر اپنے لیڈروں کا انتخاب کرسکتی‘‘

’’ 10 اکتوبر1992ء کو ٹائمز آف انڈیا میں سکینہ یوسف خان نے انکشاف کیا کہ مولانا آزاد کی ایک کتاب ’’ جشنِ آزادی یا تقسیمِ ہند‘‘ کو شائع نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ اس کتاب میں مولانا نے نہرو اور پٹیل کے علاوہ گاندھی پر بھی تنقید کی تھی‘‘ ( بحوالہ کالم: حامد میر، ابوالکلام آزاد اور پاکستان، روزنامہ جنگ، 19دسمبر2013ء)۔

اگست2009ء میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ و زیر ِ دفاع اور بھارتیہ جنتا پارٹی(PJP) کے مرکزی راہ نما جس ونت سنگھ کی کتاب India-Partition Independence JINNAH: شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں جس ونت سنگھ نے تحریر کیا کہ جب گاندھی نے مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا لیا تو قائد ِ اعظم کو بھی اپنی راہ جد ا کرنی پڑی۔ سنگھ نے اپنی کتاب میں ہندو راہنماؤں کو بھی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا۔ اِن تلخ حقائق کی اشاعت پر سنگھ کی کتاب کو انڈیا میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا اور اُن کی پارٹی نے انھیں پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔

قیام پاکستان کے بعد علماء و مشائخ نے سیاسی سرگرمیوں سے گریز کیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خاں خود شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُنھیں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں اعزازی مشیر کے عہدے کی پیشکش کی۔ قائد اعظم نے شیخ الاسلام کو اس سلسلے میں خط بھی تحریر کیا مگر خواجہ صاحب نے معذرت کر لی( مضمون علامہ شبیر احمد ہاشمی، تعمیر ملت کے لیے جمعیت علماء پاکستان کی سیاسی جدوجہد، سہ ماہی انورِ رضا، لاہور،اگست2012ء، صفحہ352)۔اس طرح وزارت کی پیشکش پیر سید امین الحسنات (مانکی شریف) کو بھی کی گئی اور انھوں نے بھی معذرت کر لی( بحوالہ عکس خط: وزیر اعظم لیاقت علی خاں،مشمولہ :عبد الحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلسنت ، مکتبہ قادریہ، لاہور،1989ء، صفحہ101)۔

مارچ1948ء میں تحریک پاکستان کے ممتاز علماء ا کاایک اجلاس ملتان میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ’’مرکزی جمعیت العلماء پاکستان ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے پہلے صدرابو الحسنات علامہ سید محمد احمد قادری( متوفی 20جنوری 1961ء) اور ناظم اعلی علامہ سید احمد سعید کاظمی(متوفی 4جون 1986ء ) منتخب ہوئے، اس طرح پاکستان سے قبل کی’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ ، پاکستان کے بعد ’’ جمعیت علماء پاکستان‘‘ کے نام سے موسوم ہوگئی ۔

آخری بات : کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی مثال دیابنہ پر ثابت آتی ہے جب کوئی جواب نہیں بن پاتا تو تجانب اہلسنہ کتاب جس کو اہلسنت و جماعت رد کر چکے ہیں کا حوالہ دیتے ہیں کہ قائد اعظم کو کافر کہا ہے دیابنہ اور ان کے حامیوں کی منافقت بے نقاب کر دی ہم نے الحمد للہ : (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)