دیوبندیوں اور قادیانیوں کا عقیدہ امتی نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے بڑھ سکتا ہے
مرزا غلام قادیانی کہتا ہے : یہ بالکل صحیح ہر شخص ترقی کر سکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی بڑھ سکتا ہے ۔ (اخبار الفضل قادیان جلد 10 ،1922)
مرزا غلام قادیانی کہتا ہے : یہ بالکل صحیح ہر شخص ترقی کر سکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی بڑھ سکتا ہے ۔ (ثبوت حاضر ہیں جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 163بحوالہ اخبار الفضل قادیان جلد 10 ،1922)
بانی دارالعلوم دیوبند جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں : انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل سو اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ بھی جاتے ہیں ۔ (تحذیر الناس صفحہ نمبر8 مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)
محترم قارئینِ کرام : اس عبارت میں نانوتوی صاحب نے انبیاء علیہم السّلام کا اپنی امت سے ممتاز ہونا صرف علم میں منحصر فرمایا ہے ۔ باقی رہے اعمال تو ان میں امتی کے مساوی ہو جانے بلکہ بڑھ جانے کو بھی تسلیم کر لیا ہے اور لفظ ’’بظاہر‘‘ محض بظاہر ہے ۔ کیونکہ لفظ ’’ہی‘‘ کے ساتھ حصر ہو چکا جس میں ماسوا مذکور کی نفی ہوتی ہے تو اس کے ضمن میں امتیاز فی العمل کی نفی ہو چکی ۔ اب لفظ ’’بظاہر‘‘ سے کیا فائدہ ہوا ؟ یہاں یہ لفظ ’’بظاہر‘‘ ایسا ہی مہمل اور بے معنی ہے ۔
ہمیں الزام دینے والے اپنے گریباں میں منہ ڈالیں
لوگ ہم پر الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں حدود شرعی کتاب و سنت کے ارشادات و علمائے امت کی تصریحات سے بے نیاز ہو کر جو کچھ ان کے دل میں آتا ہے کہہ دیا کرتے ہیں اور کبھی اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین علیہم الرّحمہ نے اس مسئلہ میں کیا فیصلہ کیا ہے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں موردِ الزام قرار دینے والے ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ان کے سب سے بڑے مقتدا (بزعم ایشاں قاسم العلوم والخیرات) نانوتوی صاحب نے کیا گل کھلائے ہیں ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ تحذیر الناس لکھتے وقت نانوتوی صاحب کے پیش نظر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضل و کمال کے اثبات سے زیادہ اپنے کمال علمی کا اظہار تھا جس کا نتیجہ ان اغلاط کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ پرستارانِ تحذیر کے اس ادعا سے اختلاف کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ نانوتوی صاحب نے یہ رسالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کمالِ فضل کو ثابت کرنے کی غرض سے لکھا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ غرض پوری بھی ہوئی یا نہیں ۔ میں عرض کروں گا کہ ہرگز یہ غرض پوری نہیں ہوئی ۔ نانوتوی صاحب نے اپنے قیاساتِ فاسدہ کو معیار فضیلت سمجھا ہے جس کی بنا پر ختم ذاتی کی دور از کار تاویل میں انہیں جانا پڑا اور نبوت کی تقسیم بالذات اور بالعرض کی جرأت عظیمہ سے کام لینے پر وہ مجبور ہوئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فضیلت صرف اس وصف میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے موجب فضیلت قرار دیا ۔ قرآن و حدیث کو لاکھ بار پڑھ جایئے ختم ذاتی اور نبوت بالذات کا کوئی ذکر آپ کو نہ ملے گا ۔ نہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لے کر آج تک کسی مفسر و محدث یا متکلم و مجتہد رحمۃ اللہ علیہ نے ان باتوں کا ذکر کیا ۔ جس چیز کو قرآن و حدیث اور سلف صالحین علیہم الرّحمہ نے فضیلت قرار نہیں دیا ۔ نانوتوی صاحب اسے مدارِ فضیلت اور بنائے خاتمیت قرار دیتے ہیں ۔ یہ کتاب و سنت و ارشادات سلف صالحین کی طرف سے آنکھیں بند کر کے حدودِ شرع سے تجاوز کرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment